برّصغیر پاک و ہند کے ممتاز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ (ولادت 1886ء وفات 1947ء) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:۔
’’اب ایک ایسے شخص سے میرے
ملنے کا حال سنیے جو اپنے فرقہ میں نبی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے فرقہ والے خدا جانے
اس کو کیا کچھ نہیں کہتے۔ یہ کون ہے۔ جناب مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیہ۔
ان سے میرا رشتہ یہ ہے کہ میری خالہ زاد بہن ان سے منسوب تھیں اس لئے یہ جب کبھی دلّی
آتے تو مجھے ضرور بُلا بھیجتے اور پانچ روپے دیتے چنانچہ دو تین دفعہ ان سے میرا ملنا
ہوا مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے کبھی مجھ سے ایسی گفتگو نہیں کی جس کو تبلیغ
کہا جا سکے۔ میں اس زمانے میں ایف اے میں پڑھتا تھا۔ زیادہ تر مسلمانوں کی تعلیم کا
ذکر ہوتا تھا اور اس پر وہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم سے
بالکل بے خبر ہیں اور جب تک مذہبی تعلیم عام نہ ہو گی اس وقت تک مسلمان ترقی کی راہ
سے ہٹے رہیں گے۔
میرے ایک چچا تھے جن کا نام مرزا عنایت اللہ بیگ
تھا۔ یہ بڑے فقیر دوست تھے۔ تمام ہندوستان کا سفر فقیروں سے ملنے کے لئے کیا۔ بڑی بڑی
سخت ریاضتیں کیں۔ چنانچہ اس سے ان کی محنت کا اندازہ کر لیجئے کہ تقریباً چالیس سال
تک یہ رات کو نہیں سوئے۔ صبح کی نماز پڑھ کر دو اڑھائی گھنٹے کے لئے سو جاتے ورنہ سارا
وقت یادِ الٰہی میں گزارتے۔
ایک دن میں جو مرزا غلام احمد کے ہاں جانے لگا
تو چچا صاحب قبلہ نے مجھ سے کہا ’’بیٹا میرا ایک کام ہے وہ کر دو اور وہ کام یہ ہے
کہ جن صاحب سے تم ملنے جا رہے ہو ان کی آنکھوں کو دیکھو کہ کس رنگ کی ہیں۔‘‘ میں سمجھا
بھی نہیں اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ مگر جب مرزا صاحب کے پاس گیا تو بڑے غور سے ان کی
آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سبز رنگ کا پانی گردش کرتا
معلوم ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں مَیں نے خود بھی ان کو ذرا غور سے دیکھا کیونکہ اس سے
پہلے جو میں ان کے پاس جاتا تھا تو ہمیشہ نیچی آنکھیں کر کے بیٹھتا تھا اس دفعہ میں
نے دیکھا ان کا چہرہ بہت با رونق تھا سر پر کوئی دو دو انگل کے بال ہیں۔ داڑھی خاصی نیچی ہے۔ آنکھیں
جُھکی جُھکی ہیں۔ بات کرتے ہیں تو بہت متانت سے کرتے ہیں۔ مگر بعض وقت جھلا بھی جاتے
ہیں۔ بہر حال وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے چچا صاحب قبلہ سے تمام واقعات بیان کئے۔’’فرحت
دیکھو اس شخص کو بُرا کبھی نہ کہنا۔ فقیر ہے اور یہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ کے عاشق ہیں۔‘‘میں
نے کہا یہ آپ نے کیوں کر جانا۔ فرمایا:’’جو آنحضرت ﷺ کے خیال میں ہر وقت غرق رہتا
ہے اس کی آنکھوں میں سبزی آ جاتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبز رنگ کے پانی کی
ایک لہر ان میں دوڑ رہی ہے۔‘‘
میں نے اس وقت تو ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی
مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سب فقراء اور اہلِ طریقت اس پر متفق ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ (کے روضہ) کا رنگ سبز ہے۔ اسی کا عکس آپ کے زیادہ خیال کرنے سے آنکھوں میں جم جاتا
ہے۔‘‘
1 comments:
JazakAllah
Post a Comment