Saturday 10 June 2017

پردہ کے بارہ میں حضور انور کا خواتین سے تاریخی خطاب




پردہ کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب ، لجنہ اماءاللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر بتاریخ 19 نومبر 2006

تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
آپ لوگ یہاں اپنا اجتماع منعقد کرنے کے سلسلے میں جمع ہیں، جس کا آج آخری دن ہے۔ان اجتماعوں کا انعقاد اس غرض سے کیا جاتا ہے تا کہ یہاں احمدی عورتوں اور بچیوں کو دینی تعلیم وتربیت کیلئے مل بیٹھ کر تعلیمی، تر بیتی اور اصلاحی تقاریر اور ہدایات سن کر اپنے اندر کی کمزوریوں کو دُور کرنے کا موقع ملے۔ بچیوں اور بڑی عمر کی لڑکیوں کو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ مختلف علمی پروگراموں میں حصہ لے کر اپنی علمی صلاحتیوں کومزید نکھارنے کا موقع ملے، ایک خاص ماحول میسر ہو جس میں اپنی اصلاح کے مزید بہتر راستوں کی نشاندہی کریں اور ان کے بارے میں سوچیں۔ جس قوم کی بچیاں، نوجوان لڑکیاں، عورتیں اس سوچ کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوں جہاں وہ خالص دینی اور روحانی ماحول میں رہ کر پروگراموں میں حصہ لینا چاہتی ہوں، اپنا وقت گزارنا چاہتی ہوں اور گزار رہی ہوں،اس قوم کی نہ تو نسلیں برباد ہوتی ہیں، نہ ان پر کبھی زوال آتا ہے۔ پس آج خا لصۃً اﷲ کی خاطر ان نیک مقاصد کیلئے اگر کوئی عورت جمع ہوتی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے اس مقام کو یاد رکھیں۔
جو علمی اور روحانی مائدہ آپ نے یہاں سے حاصل کیا ہے اور کر رہی ہیں اس سے فائدہ اٹھائیں کہ اسی میں آپ کی بقا ہے، اسی میں آپ کی نسلوں کی بقا ہے، اسی میں آپ کے خاندانوں کی عزت اور ان کی بقا ہے۔ا نسا ن کو کبھی خو د غر ض نہیں ہو نا چاہئے کہ صر ف ا پنی فکر ر ہے، صرف ا پنی ضر و ر یا ت کا خیا ل ر کھتا ر ہے، صر ف ا پنے جذبا ت کا خیا ل ر کھے۔ بلکہ دو سر و ں کی بھی فکر ہو نی چاہئے ، د و سر و ں کی ضر و ر یا ت کی خا طر قر با نی کی سو چ ہونی چاہئے ، د و سر و ں کے جذ با ت کا خیا ل بھی ر ہنا چاہئے۔صر ف ا پنی عز ت کا نہیں سو چنا چاہئے بلکہ ا پنے خا ند ا ن ا و ر جما عت کی عز ت کا خیا ل بھی ہر و قت ذ ہن میں ر ہنا چاہئے ۔
یہ با ت بھی ہر و قت ذ ہن میں ر ہنی چاہئے کہ میرا ایک بصیر خدا ہے جو ہر و قت مجھے د یکھ ر ہا ہے، میرا ایک علیم و خبیر خدا ہے جس کی نظر کی گہرائی میر ے پاتال تک کا بھی علم رکھتی ہے، میر ے ا ند ر تک گئی ہو ئی ہے،میر ی ہر با ت کی ا س کو خبر ہے، اس لئے کو ئی با ت اس سے چھپی نہیں ر ہ سکتی۔ ا و ر جب ا س کی ہر با ت پر نظر ہے، ا س کو ہر با ت کا علم ہے، ا س کو میرے ا ند ر ا و ر با ہر کے پل پل کی خبر ہے تو پھر جب میں یہ ا علا ن کر تی ہو ں کہ میں ایک احمدی مسلمان عورت ہوں تو ہمیشہ آپ کو یہ خیا ل ر ہے کہ مجھے ا ن با تو ں کی طر ف تو جہ د ینی چاہئے جو خد ا تعا لیٰ نے ا پنے پیا ر ے نبی ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچا ئی ہیں۔ اگر کبھی ہم ا ن با تو ں کو کسی و جہ سے بھو ل گئے تو جب بھی یاد کر و ا ئی جا ئیں تو پھر ا ﷲ کے نیک بندوں کی طرح ا ن سے ا یسا معا ملہ کر نا چا ہئے جیسے ا ﷲ کے نیک بند ے کرتے ہیں ا و ر جن کے با ر ے میں خد ا تعا لیٰ فر ما تا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَ بِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَاصُمًّاوَّ عُمْیَاناً(سورۃ الفرقان:74) یعنی و ہ لو گ کہ جب ا ن کے رب کی آ یا ت ا نہیں یا د د لا ئی جا تی ہیں تو ا ن سے بہر و ں اور ا ند ھو ں کا معا ملہ نہیں کر تے۔ 
  تو یقینا احمد ی عو ر ت جس کے د ل میں نیکی کا بیج ہے جس نے ا سے ا بھی تک ا حمد یت پر قا ئم ر کھا ہو ا ہے، جو و فاؤں کی پتلی ہے، جو د ین کی خا طر قربانی کا فہم رکھتی ہے، جو خلافتِ احمدیہ سے عشق و محبت کا تعلق ر کھتی ہے، اسے جب نصیحت کی جا ئے تو ا ند ھو ں ا و ر بہر و ں کی طرح سلو ک نہیں کرتی۔ ا گر حقیقی ا حمد ی ہے ا و ر یہی ہر ا حمد ی سے ا مید کی جا تی ہے کہ اسے ہر نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ ا ند ھو ں ا و ر بہر و ں کی طرح کا سلوک ا س سے ہو۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، ایک احمدی کی یہی سو چ ہو نی چاہئے کہ میں نے ا ن با تو ں کی طر ف توجہ دینی ہے جو ا ﷲ ا و ر ا س کے رسول ﷺ نے ہمیں بتا ئی ہیں او ر یہی ایک مو من کی نشا نی ا و ر ایک مو من کی شان ہے۔ آپ جو عہد کر تی ہیں ،ہمیشہ ا س عہد کو ا پنے سا منے رکھیں۔ 
د یکھیں جب آنحضر ت ﷺ نے عو ر تو ں سے عہدِ بیعت لیا تو ا س میں مر د و ں کے عہدِ بیعت سے ز ا ئد با تیں ر کھیں، جن کا قر آ نِ کر یم میں ذ کر ملتا ہے۔جس میں شر ک سے بچنے کی طر ف تو جہ ہے،بر ا ئیو ں سے بچنے کی طر ف تو جہ ہے، ا و لا د کی صحیح تر بیت کر نے کی طر ف توجہ ہے ا و ر فر ما یا وَ لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (الممتحنہ:13)کہ نیک باتوں میں تیر ی نا فر ما نی نہیں کریں گی۔ تو ا ﷲ تعا لیٰ کو ئی ز بر د ستی نہیں کر ر ہا کہ ہر ایک سے ز بر د ستی یہ (عہد) لو ۔ ہا ں اگر مسلمان ہو نے کے لئے آ ئی ہیں تو پھر ا ن شر ا ئط کی پابندی کر نی بھی ضر و ر ی ہے جو ا سلا م میں شا مل ہو نے کیلئے ضر و ر ی ہیں۔ 
حضر ت مسیح مو عو د بھی جب عو ر تو ں سے بیعت لیتے تھے تو یہی نصیحت فر ما یا کر تے تھے۔ پس بعض دماغوں میں خا ص طو ر پر ا س ما حو ل میں آ کے، آ ج کل کے معا شر ے میں ہر جگہ ہی جویہ خیا ل آ جا تا ہے کہ ہم آزا د ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک حد تک آ ز ا د ہیں۔لیکن جہاں آ پ کے د ین کے، شر یعت کے ا حکا ما ت کا تعلق ہے و ہا ں آ ز ا د نہیں ہیں۔ اگر جما عت میں شا مل ہو ئے ہیں تو ا ن شرائط کی بہر حا ل پا بند ہیں جو ا یک ا حمد ی کیلئے ضر و ر ی ہیں۔ د یکھیں ا بتد ا ء میں آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جب ان عو ر تو ں نے بیعت کی تھی تو وہ معا شر ہ با لکل آ ز ا د تھا ، اس میں کو ئی قا نو ن نہیں تھا،آ ج کی بر ا ئیو ں سے ز یا د ہ ان میں برائیا ں مو جو د تھیں،تعلیم کی کمی تھی، چند ایک مگر وہ بھی معمو لی سا پڑ ھی لکھی تھیں ۔خد ا کے و جو د کا کوئی تصو ر نہ تھا، وہ صر ف بتو ں کو جا نتی تھیں، یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ علیم و خبیر اور بصیر خد ا کیا ہے؟
لیکن جب بیعت کی تو ا پنی ز ند گیو ں میں ایک انقلاب پید ا کر لیا۔جہا لت کے ا ند ھیر و ں سے نکل کر جب ا سلا م کی ر و شنی حا صل کی تو علم کی ر و شنی پھیلا نے کا منبع ایک عو ر ت بن گئی،پر دے و غیر ہ کی تما م ر عا ئت کے سا تھ بڑوں بڑ و ں کو دین کے مسا ئل سکھا ئے ا ور آنحضرت ﷺ سے یہ سر ٹیفیکیٹ حا صل کیا کہ د ین کا آدھا علم ا گر حا صل کر نا ہے تو عا ئشہ سے حا صل کر و۔
  مید ا نِ جنگ میں ا گر مثا ل قا ئم کی تو ا پنے پر د ے کے تقد س کو قا ئم ر کھتے ہوئے، ا پنی جر أت و بہا د ر ی کا مظاہر ہ کرتے ہو ئے ر و میو ں کی فو ج سے اکیلی ا پنے قیدی بھا ئی کو آ ز ا د کر و ا کے لے آ ئی ا و ر تا ر یخ میں ا س عورت کا ذ کر حضر ت خولہ کے نا م سے آ تا ہے۔پھر مد ینہ پر جب کفا ر کا حملہ ہو ا تو مرد اگر خند ق کھو د کر شہر کی ا س طرف سے حفا ظت کر ر ہے تھے تو گھرو ں کی حفا ظت عورتوں نے ا پنے ذ مّہ لے لی ا و ر جب یہو د یو ں نے جاسوسی کرنے کیلئے ا پنا ایک آ د می بھیجا کہ پتہ کر و تا کہ ہم اس طر ف سے حملہ کر یں ا و ر مد ینہ پر قبضہ کر لیں تو مر د تو اس جا سو س کے مقا بلے پر نہ آ یالیکن عو ر ت نے ا س کو زخمی کر کے ، ما ر کے با ند ھ د یاا و ر ا ٹھا کر اس کو با ہر پھینک د یا۔
جنگِ اُحد میں مسلما نو ں کے پا ؤں ا کھڑ گئے تو ا س و قت عو ر تیں ہی تھیں جنہو ں نے د ین کی غیر ت میں ا و ر آنحضرت ﷺ کی محبت میں ایک مثا لی کر د ا ر ا د ا کیا ا و ر وفا کی ایک مثا ل قا ئم کر د ی۔ پس یہ طا قت، یہ جرأت، یہ وفا ،یہ علم ان میں اسلا م کی تعلیم پر عمل کر نے ا و ر ا سے اپنی زند گیو ں کا حصہ بنا نے کی و جہ سے آ یا تھا۔ ا س لئے ہمیشہ یا د ر کھیں کہ اگربے نفس ہو کر ا پنے د ین کی تعلیم کو ا پنے ا و پر لا گو کر یں گی ، ا ﷲ تعا لیٰ کے تما م ا حکا مات پر عمل کر نے کی کو شش کر یں گی، خدا تعا لیٰ کی عبا د ت کی طر ف تو جہ پید ا کر یں گی تو آ پ میں د ین کی غیر ت بھی پید ا ہو گی ا و ر و فا بھی پیدا ہو گی ا و ر آپ ہر قسم کے کامپلیکس (Complex) سے بھی آ ز ا د ہو جا ئیں گی۔ و ر نہ ا س د نیاکی ر نگینیو ں میں ڈ و ب کر د نیا د ا ر و ں کی طر ح غا ئب ہو جا ئیں گی۔
  پس جس طر ح آنحضر ت ﷺ کے ز ما نہ کی عورت نے ا پنے ا ند ر یہ ا نقلا ب پید ا کیا کہ حقیقی مسلما ت بنیں، مومنا ت بنیں، قا نتا ت بنیں، تا ئبا ت بنیں، عابدات بنیں،آ پ نے بھی ا گر ا ن کے نقشِ قد م پر چلنا ہے تو پھر ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہو ئے ا سلا م کی تعلیم کو ا پنے ا و پر لا گو کر نا ہو گا۔ا گر یہ لا گو نہ کیا تو پھر آ پ مسلما ن نہیں کہلا سکتیں،ا گر آ پ نے اپنے ا یما نوں میں مضبو طی پید ا نہ کی او ر معا شر ے کی بر ا ئیو ں سے ا پنے آ پ کو نہ بچا یا تو مومنات نہیں کہلا سکتیں، ا گر فرمانبردا ر ی کے ا علیٰ معیا ر قائم نہ کئے تو قا نتا ت نہیں کہلا سکتیں،ا گر تو بہ ا و ر عبا د تو ں کی طر ف ہر و قت تو جہ نہ ر کھی تو تا ئبا ت او ر عا بد ا ت نہیں کہلا سکتیں ۔
  پس ا پنے جا ئز ے لیں کہ د عو ے کیا ہیں ا و ر عمل کیا ہیں ، ا پنے آ پ کو خو د Assessکر یں ، ا پنے خو د جائزے لیں۔ ہمیشہ ا س مقصد کو سا منے ر کھیں جو ا نسا ن کی پید ا ئش کا مقصد ہے۔ ا ﷲ کی ر ضا حا صل کر ناآپ کا
 مطمح نظر ہو۔ ا پنے لئے بڑ ے بڑ ے Targets بنائیں کہ Goal بنا ئیں جن کو حا صل کر نا ہے۔ا علیٰ مقاصد کی نشاندہی کر یں جن کی طر ف بڑھنا ہے۔جب آپ کے سا منے Targets بڑ ے ہو ں گے تو پھرآ پ ان کو حا صل کر نے کیلئے حقیقی کو شش کر یں گی۔ لڑکیاں بھی اپنے جائزے لیں اور مائیں بھی ا پنے جا ئز ے لیں۔ اس سے آ پ ا پنی بھی ا صلاح کر سکتی ہیں ا و ر ا پنی نسل کی بھی اصلاح کر سکتی ہیں،بچوں کی تر بیت بھی ا چھے ر نگ میں کر سکتی ہیں۔آ ج معا شر ے میں ا سلا م کے خلا ف ہر طر ف حملے ہو ر ہے ہیں،آ ج ا س کے د فا ع کیلئے ہر احمدی بچی، ہر ا حمد ی لڑ کی ا و ر ہر ا حمد ی عو ر ت کو ا سی طر ح مید ا نِ عمل میں آ نے کی ضر و ر ت ہے جس طر ح پہلے زمانے کی عورت آ ئی یا قر و نِ ا و لیٰ کی عو ر ت آ ئی،و ر نہ پھر آپ پوچھی جا ئیں گی کہ تمہارے سپرد کا م کیا تھا ا و ر تم نے کیا کیا؟ تمہا ر ے د عو ے کیا تھے اور تمہا ر ے عمل کیا تھے؟ 
آ ج عو ر ت کے حو ا لے سے ا سلا م پر حملے ہو ر ہے ہیں، بڑا Issue آ جکل جو ا ٹھا ہو ا ہے وہ حجا ب یا اسکا ر ف یا برقعہ کا مسئلہ ہے۔ مرد ا س کی لاکھ و ضا حتیں پیش کر یں، جتنی مر ضی ا س کی تو جیہیں پیش کر یں کہ ا سلا م میں پردہ کیو ں کیا جاتا ہے، جتنی مر ضی ا س کی Justification پیش کر یں اس کا صحیح جو ا ب ا گر کو ئی د ے سکتی ہے تو و ہ ایک با عمل ا و ر نیک احمد ی عو ر ت د ے سکتی ہے۔ پس بجائے کسی کا مپلیکس(Complex) میں مبتلا ہو نے کے، جر أتمند مسلما ن ا حمد ی عو ر ت کی طر ح ا پنے عمل سے ا و ر د لا ئل سے اس با ت کو ا پنے ماحو ل میں ، ا پنے معا شر ے میں پہنچا ئیں کہ یہ قرآ نی حکم ہما ر ی عز تو ں کیلئے ہے، ہما را شرف بحا ل کر نے کیلئے ہے، یہ کو ئی قید نہیں ہے۔ 
ا ن لو گو ں کی حا لت بھی د یکھ لیں۔ ایک طر ف تو یہ لو گ ا سلا م پر ا عتر ا ض کر تے ہیں کہ اس میں جبر ہے، سختی ہے، او ر د و سر ی طر ف خو د بھی کسی کے ذ ا تی معا ملا ت میں د خل ا ند ا ز ی کر رہے ہیں۔ ا گر کو ئی عو ر ت ا سکا ر ف لینا چاہتی ہے، حجاب لینا چا ہتی ہے تو ا ن سے کو ئی پو چھے کہ تمہیں کیا تکلیف ہے؟آ جکل کیو نکہ عمل تو ر ہا نہیں جنہوں نے حضر ت مسیح موعود کو نہیں ما ناا ن مسلما ن عور تو ں کی ا کثر یت پر د ہ نہیں کر تی تو ا سلا م ا نہیں کو ئی سز ا نہیں د یتا،کو ئی قا نو ن ا نہیں سز ا نہیں دے ر ہا۔ لیکن جو دین کی تعلیم پر عمل کر تے ہو ئے پر د ہ کر تی ہے اس پر کسی دو سر ے مذ ہب و ا لے کا کیا حق ہے کہ کہے کہ سخت قا نو ن بنا نا چا ہئے تاکہ و ہ پر د ہ نہ کر ے، اسکا ر ف نہ لے، سر نہ ڈھانپے۔ کل کو کہہ د یں گے کہ یہ تمہا ر ا لبا س ٹھیک نہیں ہے، شلو ا ر نہیں پہننی، فر ا کیں پہنو یا جین پہنویا میکسی یا کوئی ا یسی چیز پہنو ،ہمیں ا عتر ا ض ہے ا و ر پھر ا س پر بھی اعتر ا ض شر و ع ہو جا ئے گا ۔ پھر یہ کہہ د یں گے کہ چھو ٹی فرا کیں پہنو، اس طرح کی پہنو اور پھرمنی ا سکر ٹ پہنو ، پھر ننگے ہو جا ؤ۔ 
تو ا ن لو گو ں کا کسی عورت کی عزت سے کھیلنے کا کو ئی حق نہیں بنتا۔ یہ آ پ لو گ ہیں جنہو ں نے جو ا ب د ینے ہیں کہ تم کسی کے ذ ا تی معاملا ت میں د خل د ینے و ا لے کون ہو؟ ا ن سے پو چھیں کہ یہ بھی تو آ ز ا د ی سلب کر نے و ا لی با ت ہے۔ کسی کا لبا س ا س کا ذ ا تی معا ملہ ہے۔ یہ کیوں ا س کے لبا س پہننے کی آ ز ا د ی کو ختم کر نے کی کو شش کر ر ہے ہیں۔لیکن کیو نکہ ان کی حکو متیں ہیں،دنیا میں آجکل ا ن کا سکّہ چلتا ہے ا س لئے نا جا ئز ا و ر احمقا نہ باتیں کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑ ی عقل کی با ت کی ہے۔تو احمد ی عو ر ت نے ا پنی عز ت بھی قا ئم کر نی ہے ا و ر ہر ا یسے اعتر ا ض کا جو ا ب بھی د ینا ہے۔ ا س کیلئے تیا ر ہو جائیں۔
بعض عو ر تیں ا حمد ی کہلا کر بھی پتہ نہیں کیو ں کسی کامپلیکس(Complex) کا شکا ر ہو جا تی ہیں ۔ کسی نے بتا یا کہ ا یک عو ر ت نے کہا کہ میر ی بیٹی ا گر اسکا ر ف نہیں پہنتی یا جین ا و ر د و سر ا لبا س پہنتی ہے تو ا سے کچھ نہ کہو،وہ بڑ ی ڈ یسنٹ(Decent) ہے۔
ڈ یسنٹ کیو ں ہے؟ کہ ا س کی لڑ کو ں سے د و ستی نہیں ہے۔و ہ آ ز ا د ہے ،ا پنا ا چھا بر ا جا نتی ہے۔ تو یہ تو بچوں کی تر بیت خر ا ب کر نے والی بات ہے۔آ ج ا گر دوستی نہیں ہے تو کل کو د و ستی ہو بھی سکتی ہے، آ ج ا گر کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے تو ا سی آ ز ا د ی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کسی بر ا ئی میں مبتلا ہو بھی سکتی ہے۔ا گر و ہ آ ز ا د ہے، ا پنا ا چھا برا جا نتی ہے ا و ر ا س با ت پر آ ز ا د ہے کہ اسلامی حکم یا قرآنی حکم پر دے پر عمل نہ کر ے تو پھر جما عت بھی آ ز ا د ہے،نظا مِ جما عت بھی آ ز ا د ہے،خلیفہ ٔو قت سب سے زیاد ہ اس کا حق رکھتا ہے کہ ا یسے لو گو ں کو پھر جما عت سے با ہر کر دے جنہو ں نے قرآنِ کریم کے بنیا د ی حکم کی تعمیل نہیں کرنی۔
اگر آپ ایک د نیا و ی کلب بھی جا ئن(Join) کرتے ہیں تو ا س کی بھی ممبر شپ کے کو ئی قو ا عدو ضو ا بط ہو تے ہیں۔ ا گر ا ن کو پو ر ا نہ کر یں تو ممبر شپ ختم ہو جا تی ہے۔ تو د ین کا معا ملہ تو خد ا کے سا تھ ایک با نڈ (Bond)ہے ایک عہدِ بیعت ہے۔ ا گر ا س کی و ا ضح تعلیم کے خلا ف عمل کر یں گی ا و ر اس کی تعلیم پر عمل کر نے سے ا نکا ر کر یں گی تو پھر ا گر آ پ کی لڑ کی کو یا آ پ کو یہ حق حاصل ہے کہ پر د ہ نہ کر یں تو پھر مجھے بھی یہ حق حا صل ہے ،اسی حق کی و جہ سے جو آ پ کو حا صل ہے کہ پھر ا یسے نافر ما نو ں کو جماعت سے نکال کربا ہر کر د و ں۔ مَیں تو ا ﷲ تعالیٰ کے حکم کی و جہ سے ا یسا کر و ں گا، ا س لئے کسی کو کو ئی شکو ہ بھی نہیں ہو نا چاہئے۔ یہاں میں ا نتظا میہ کو بھی یہ بتادوں کہ پہلے Stepمیں یہ جا ئز ہ لیں کہ کو ئی لڑ کی، کو ئی ایسی عورت عہد ید ا ر نہ ہو جو پر د ہ نہ کرتی ہو ا و ر ا گر با پر د کا م کر نے و ا لی نہیں ملتی تو ا س مجلس کو جس مجلس میں کام کرنے والی کو ئی بھی ا یسی نہیں ہے جو با پر د ہو کسی سا تھ کی مجلس کے سا تھ Attachکر د یں یا کوئی باپرد چاہے کم علم ر کھنے و ا لی ہو تو ا س کو کام سپر د کر د یں۔ا گر اس مجلس میں کوئی بھی نہیں ملتا جو ا سلا می حکم کہ’ ا پنے سر ا و ر با ل اور زینت کو ڈ ھا نپو‘ پر عمل کر ر ہی ہو ا و ر قر یب کو ئی مجلس بھی نہ ہو تو پھر ایسی مجلس کو ہی بند کر د یں۔ ا وّ ل تو مجھے امید ہے کہ یہ جو میں نے ا نتہا ئی صو ر ت پیش کی ہے ا یسی خو فنا ک شکل کہیں نہیں ہو گی۔ انشا ء ا ﷲ تعا لیٰ۔
 اﷲ کے فضل سے جما عت میں نیکیو ں میں آ گے بڑھنے و ا لی بے شما ر خو ا تین ہیں۔ ا گر بڑ ی عمر کی عو ر تو ں میں سے نہیں تو نوجو ا ن بچیوں میں سے مَیں د یکھ ر ہا ہوں کہ ا یسی ہیں جو منا فقت سے پا ک ہیں،جو کسی قسم کی منافقت نہیں کر تیں۔ بعض ا پنے گھر کے ما حو ل کی و جہ سے ایسی ہو ں گی لیکن بہت ساری ا یسی ہیں جو ا پنے بڑوں سے ز یا د ہ نیکیو ں پر قا ئم ہیں۔ کوشش کر تی ہیں کہ حجاب لیں،حیا ر کھیں۔ ا یم ٹی اے کیلئے ایک پر و گر ا م ا نہو ں نے بنا یا ہے جو ا بھی د کھا یا نہیں لیکن مَیں ر یکا ر ڈنگ د یکھ رہا تھااس میں ہما ر ی ا یک بچی نے جو ٹیچر بھی ہے، جب سکو ل میں حجا ب کا مسئلہ آ یا تو یہ کہا کہ مَیں سکول میں بھی سر ڈھانکوں گی کیو نکہ مَیں بچو ں کو سکو ل میں یہ نہیں سکھا نا چا ہتی کہ مَیں نے منا فقا نہ ر و یّہ یا د و ہر ا معیا ر ر کھا ہوا ہے۔ بچے مجھے با ہرا سکا ر ف میں د یکھ لیں گے تو کہیں گے کہ سکو ل میں کیو ں نہیں لیتی، سکول میں سر کیو ں نہیں ڈھا نکتی؟ و ہا ں ایک Discussion یہ بھی ہو ر ہی تھی کہ پرائمری سکول میں چھوٹے بچو ں کو پڑ ھا نے و ا لی ہماری ایک ٹیچر ہے و ہ سر نہیں ڈھانپتی۔ ٹھیک ہے جہا ں چھو ٹے بچے ہو ں ،عو ر تیں ہوں بے شک نہ ڈ ھا نپیں، کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ جس بچی نے کہا کہ مَیں سکو ل میں بھی سر ڈھانکوں گی، اس کے سکول میں بڑے بچے ہوں۔
تو بہر حا ل پر د ہ ایک ا سلا می حکم بھی ہے ا و ر ایک احمد ی عو ر ت ا و ر نو جو ا ن لڑ کی کی شا ن بھی ہے ا و ر اس کا تقدّ س بھی ہے کیونکہ ا حمد ی عو ر ت کا تقدّ س بھی اسی سے قائم ہے،ا س کو قا ئم ر کھنا ضر و ر ی ہے۔ لیکن یا د ر کھیں کہ اسکا ر ف کے سا تھ نچلا لبا س بھی ڈھیلا ہونا چا ہئے۔
 اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ز ینت نظر نہ آ ئے۔بعض
 غیر ا ز جماعت لڑکیاں نظر آ جا تی ہیں، ا نہو ں نے اسکارف تو شاید ا س ری ا یکشن(Reaction) میں لیا ہو تا ہے کہ ہمیں کیو ں ا سکا ر ف لینے سے ر و کا جا رہا ہے۔ لیکن ان کا جو لباس ہوتا ہے وہ Tight جین ا و ر بلا ؤز پہنے ہوتے ہیں۔ ا س پر د ے کا کو ئی فا ئد ہ نہیں،و ہ تو منا فقت ہے۔ پر د ہ ایسا ہو جو پر د ہ بھی ہو ا و ر وقار بھی ہو۔
پھر مجھے پتہ چلا ہے کہ ایک جگہ عورتیں بیٹھی ہو ئی تھیں تو ایک عہد ید ا ر عو ر ت نے د و سر ی کو کہا کہ حالات کی وجہ سے ا ب پر د ے میں ہمیں کچھRelaxہو نا چاہئے، ا تنی سختی نہیں کر نی چا ہئے۔ٹھیک ہے Relax
ہو جا ئیں تو جس طر ح مَیں نے پہلے کہا ہے کہ پھر وہ ا پنا حق استعما ل کر یں ا و ر مَیں ا پنا حق ا ستعما ل کر و ں گا۔ یہ تو نہیں ہے کہ آ پ ا پنے حق لیتی رہیں او ر میرا حق کہیں کہ تم استعمال نہ کرو۔ میں نے تو بہر حا ل ا س حکم کی پا بند ی کروانی ہے انشاء اﷲ تعالیٰ، جو قرآنِ کر یم میں ا ﷲ تعالیٰ نے ہمیں د یا ہے۔ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہاد ر و ا ز ہ کھلا ہے جو جا نا چا ہتا ہے چلا جا ئے۔ 
  مجھے یہ سمجھ نہیں آ تی کہ یہ کا مپلیکس (Complex) کس و جہ سے ہے،کیسا ہے، کیو ں ہے؟ یہا ں کی لو کل برٹش عو ر تیں بھی ہیں، یورپ میں ا و ر جگہ بھی ا حمد ی ہو تی ہیں، لڑکیا ں بھی ہیں، جما عت میں د ا خل ہو ر ہی ہیں۔ انہو ں نے تو اسکا ر ف پہننا شر و ع کر د یا ہے،ا پنے سر ڈھانکنے شر و ع کر د ئیے ہیں ا و ر آ پ لو گو ں میں سے بعض ا یسی ہیں جو ا حسا سِ کمتر ی کا شکا ر ہو ر ہی ہیں۔ا بھی کل ہی یہا ں کی ایک ا نگر یز لڑ کی جو چند د ن پہلے ا حمد ی ہو ئی ہے مجھے ملی ہے، اس کو تو اسکا ر ف یا حجا ب کی کوئی عادت نہیں تھی لیکن اس نے بڑ ا ا چھا حجا ب لیا ہو ا تھا۔ یہ لوگ تو ا س خو بصو ر ت تعلیم پر عمل کر نے کیلئے ا سے قبو ل کر ر ہے ہیں او ر ہما ر ی بعض خو ا تین ا حسا سِ کمتر ی کا شکا ر ہیں ا س پر سو ا ئے اِ نَّا لِلّٰہِ کے ا و ر کیا کہا جا سکتا ہے۔ 
اگر کسی کے ذ ہن میں یہ خیا ل ہوکہ ا س طر ح سختی سے جما عت کم ہو گی،جما عت سے لو گ د وڑ نا شر و ع ہو جائیں گے تو یا د ر کھیں کہ جما عت کم نہیں ہو گی۔ ا یسی تما م عو ر تیں بھی ا گر چھو ڑ د یں تو ا ﷲ میا ں کا و عد ہ ہے اور ا س کے مطا بق وہ نئی قومیں عطا فر ما ئے گا۔ یہا ں کے بر ٹش لوگو ں میں سے بھی جو عو ر تیں آ ئی ہیں، احمدی ہوئی ہیں بڑی مخلص ہیں ا و ر آ ئند ہ بھی ان لو گو ں میں سے ہی آ پ دیکھیں گی کہ قطر ا تِ محبت ٹپکیں گے جو اسلا م او ر ا سلام کی تعلیم سے محبت کر نے و ا لے ہو ں گے۔ا بھی جس کا میں نے ذ کر کیا ہے کہ کل ہی مجھے ملی ہیں ا و ر بہت ساری ا یسی ہیں، اس وقت یہا ں میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں جو خو د احمد ی ہو ئی ہیں ا و ر پھر احمدیت میں تر قی کر تی چلی گئیں۔ یہا ں آ پ کی صد ر صا حبہ ہیں یہ بھی تو پا کستا نی نہیں ، جرمن ہیں ،پر د ہ کر تی ہیں ، بر قعہ پہنتی ہیں ا ن کو تو کو ئی کامپلیکس نہیں۔تو جیسا کہ مَیں نے ذ کر کیا ہے و ہ خا تو ن جو شاید عہد ید ا ر بھی ہے، وہ پر د ے میں Relaxہو نا چاہتی ہے۔ ا صل با ت جو مَیں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ بنیا د ی طو ر پر و ہ اعتراض مجھ پر کر نا چا ہتی ہے کہ مَیں پردے کے معاملہ میں سختی کر تا ہو ں۔ا س قسم کے لو گ جو گو ل مو ل باتیں کر تے ہیں یہ بھی منا فقا نہ حر کت ہے ، پس ا پنے آپ کو سنبھا لیں۔ ا و ر ا ن نئی ا حمد یو ں سے میں کہتا ہوں جو ا ن قو مو ں میں سے آ ر ہی ہیں کہ ا گر یہ پید ا ئشی احمد ی ا پنے پر ا سلا می تعلیم لا گو نہیں کر نا چا ہتیں تو ان کو نہ دیکھیں، آ پ آ گے بڑ ھیں ا و ر ا ن لو گو ں کیلئے نمونہ بن جائیں ا و ر آ گے بڑ ھ کر ا سلا م ا و ر ا حمد یت کے حسن او ر خوبیو ں کو ا س ما حو ل میں پھیلا ئیں۔
پر د ہ ا و ر حیا ہر ز ما نے میں، ہر مذ ہب کی تعلیم ر ہی ہے۔ حضر ت مو سیٰ کے و قت میں بھی قر آ ن کریم میں جن د و عورتوں کا ذکر ہے کہ وہ ایک طر ف کھڑ ی تھیں، اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا رہی تھیں تو وہ پردہ اور حیا کی وجہ سے ہی کھڑی تھیں کہ مر د جب فا ر غ ہو جا ئیں گے تب ہم آ گے جا ئیں گی۔
پس حیا کو ا یما ن کا حصہ سمجھیں ا و ر یہی ہمیں سکھا یا گیا ہے۔عیسا ئی عو ر تیں شر و ع ز ما نے میں پر د ہ کر تی تھیں، اپنے لبا س ڈھا نکے ہو ئے پہنتی تھیں،با ئبل میں پردے کی یہ تعلیم کئی جگہ د ر ج ہے۔ا گرآ ج عیسا ئی پر د ہ نہیں کر ر ہے جن کو د یکھ کر آ پ متا ثر ہو ر ہی ہیں تو و ہ ا پنے د ین کو بھو ل ر ہے ہیں۔ا گر ا پنے د ین کو یا د ر کھیں ،ا س پر عمل کر یں توبیشما ر بر ا ئیا ں جو ا ن لوگو ں میں ر ا ہ پا گئی ہیں وہ ختم ہو جا ئیں۔ یہا ں میں آ پ کی تسلی کیلئے، جن لوگو ں کو کا مپلیکس ہے ا ن کیلئے با ئبل میں سے چند حوالے پیش کر د یتا ہو ں، ایک حوالہ ہے:۔
ـ’’عو ر ت مرد کا لبا س نہ پہنے ا و ر نہ مر د عو ر ت کی پوشاک پہنے کیو نکہ جو ا یسے کا م کر تا ہے و ہ خداوند تیر ے خد ا کے نز د یک مکر و ہ ہے۔‘‘(استثناء باب 22آیت 5)
ا س کی ٹر انسلیشن میں شاید دقّت پیش آ ئے ا س لئے مَیں اصل ا نگلش versionبھی پڑ ھ د یتا ہو ں۔ 
"A woman must not wear men's clothing, nor a man wear women's clothing, for the Lord your God detests anyone who does this."(Deuteronomy 22:5)
پھر با ئبل میں لکھا ہے:۔
"حسن د ھو کا ا و ر جما ل بے ثبا ت ہے۔ لیکن و ہ عو ر ت جو خد ا و ند سے ڈ ر تی ہے ستو د ہ ہو گی۔"
(امثال باب 31آیت 30) 
ا س کا ا نگلش تر جمہ یہ ہے:۔
"Favour is deceitful, and beauty is vain: but a woman that feareth the Lord, she shall be praised."( Proverbs 31:30)
پھر ایک جگہ لکھا ہے:۔
’’ا سی طر ح عو ر تیں حیا د ا ر لبا س سے شر م ا و ر
 پر ہیز گا ر ی کے سا تھ ا پنے آ پ کو سنو ا ر یں نہ کہ بال گو ندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پو شا ک سے۔بلکہ نیک کا مو ں سے جیسا خد ا پر ستی کا ا قر ا ر کر نے و ا لی عو ر تو ں کو منا سب ہے۔‘‘(۱۔ تیمتھیس باب 2آیت 10,9)
"ٰI also want women to dress modestly, with decency and propriety, not with braided hair or gold or pearls or expensive clothes, but with good deeds, appropriate for women who profess to worship God." (Timothy 2:9-10)
پھر ایک ہے:۔
’’جو مر د سر ڈ ھنکے ہو ئے دعا یا نبو ت کر تا ہے و ہ اپنے سر کو بے حر مت کر تا ہے ا و ر جو عو ر ت بے سر ڈھنکے دعایا نبوت کرتی ہے و ہ ا پنے سر کو بے حر مت کر تی ہے کیونکہ و ہ سر مُنڈی کے بر ا بر ہے۔ ا گر عو ر ت او ڑ ھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عو ر ت کا با ل کٹا نا یا سر منڈ ا نا شر م کی بات ہے تو ا و ڑھنی اوڑھے۔ ا لبتہ مر د کو ا پنا سر ڈ ھا نکنا نہ چاہئے کیو نکہ و ہ خد ا کی صور ت ا و ر ا س کا جلا ل ہے مگر عورت مر د کا جلال ہے۔‘‘
(1۔ کرنتھیوں باب 11آیت 4 تا 7) 
تو اسلا م پر تو یہ لو گ ا عتر ا ض کر تے ہیں۔ ا س کے علا و ہ یہ ضمنی با ت بھی آ گئی کہ مر د کو عو ر ت سے
Superior تو یہ لو گ سمجھتے ہیں۔کیو نکہ مر د کا ا پنا ایک مقا م ہے عو ر ت کا مقا م نہیں۔ تو بہر حا ل یہ تو ضمنی با ت تھی، ا س و قت تو بحث نہیں ہو سکتی۔ ا س کا ا نگلش Version یہ ہے کہ:۔
"Any man who prays or prophesies with something on his head,disgraces his head, but any woman who prays or prophesies with her head unveiled disgraces her head. It is one and the same thing as having her head shaved. For if a woman will not veil herself, then she should cut off her hair; but if it is disgraceful for a woman to have her hair cut off or to be shaved, she should wear a veil. For a man aught not to have his head veiled, since he is the immage and reflection of God; but woman is the reflection of man."
(Corinthians 11: 4 - 7) 
تو یہ سب د یکھنے کے بعد آ پ لو گو ں کو مضبو ط ہو نا چاہئے، مز ید مضبو ط ہو نا چاہئے کہ آ پ تو ا پنی تعلیم پر عمل کر نے والی ہیں جو ا سلام کی خو بصو ر ت تعلیم ہے ا و ر جو زند ہ خد ا کے سا تھ تعلق جو ڑ نے و ا لی ہے۔جبکہ یہ مغر بی معا شر ہ مذ ہبی د یو ا لیہ ہو چکا ہے، ا پنے د ین کی ہد ا یا ت کو بھلا بیٹھا ہے۔پس ا ن کو کہیں کہ ہما ر ے خلا ف با تیں کرنے کی بجا ئے، مضمو ن لکھنے کی بجا ئے، قا نو ن بنا نے کی بجا ئے، بیا ن د ینے کی بجا ئے ا پنی فکر کر و، ہما ر ے سر ننگے کر نے کی بجا ئے جو ہم ا پنی خو شی سے ڈھا نپتی ہیں، اپنی تعلیم کے مطا بق ا پنی عو ر تو ں کے سر ڈ ھا نپو۔ 
  پس مَیں د و با ر ہ یہ کہتا ہو ں کہ بجا ئے یہ کہنے کے کہ پر د ہ میں نر می کر و یا مجھے ڈ ھکے چھپے ا لفا ظ میں یہ کہنے کے کہ پر د ہ کے معا ملہ میں سختی کر تا ہے ،ا پنے ا حسا سِ کمتری کو ختم کر یں جن میں بھی یہ ا حسا سِ کمتر ی ہے ا و ر اس تعلیم پر عمل کر یں جو اﷲ تعا لیٰ نے ہمیں د ی ہے۔ اﷲ تعا لیٰ نے مر د ا و ر عو ر ت د و نوں کو بر ا ئیو ں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔مر د کو عو ر ت سے پہلے ا س با ت کی تلقین کی ہے کہ ا پنی نگا ہیں نیچی ر کھو، ا پنی نظر یں نیچی ر کھو۔ پھر عورت کو حکم د یا ہے کہ نظر یں نیچی ر کھو۔ ا و ر مر د میں عورت کی نسبت کیونکہ بیبا کی زیادہ ہو تی ہے ا س لئے عو ر ت کو حکم د یا کہ گو کہ نظر نیچی ر کھنے ا و ر شر م گا ہو ں کی حفا ظت کرنے کا د و نو ں کو حکم ہے تا ہم مر د کی فطر ت کی و جہ سے تمہا ر ے لئے بہتر یہ ہے کہ تم ا پنی ز ینت کو ڈ ھا نکو تا کہ مرد کی بے محابا ا ٹھی ہو ئی نظر سے بچ سکو۔
بعض لو گ یہ بھی ا عترا ض کر تے ہیں کہ پہلے خلفا ء نے پر د ہ کے با ر ہ میں ا تنی سختی نہیں کی تھی تو چند حو ا لے و ہ بھی میں آ پ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تا کہ تسلی ہو جائے۔
حضر ت مسیح مو عو د فر ما تے ہیں:۔
’’یو ر پ کی طر ح بے پر د گی پر بھی لو گ ز و ر د ے رہے ہیں لیکن یہ ہر گز منا سب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجو ر کی جڑ ہے۔ جن مما لک نے ا س قسم کی آز ا د ی کو ر و ا ر کھا ہے ذ ر ا ا ن کی اخلاقی حا لت کا ا ند ا ز ہ کرو۔ ا گر ا س کی آ ز ا د ی اور بے پر د گی سے ا ن کی عفت او ر پا کد ا منی بڑھ گئی ہے توہم ما ن لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں ۔ لیکن یہ با ت بہت ہی صا ف ہے کہ جب مر د ا و ر عورت جو ا ن ہو ں ا و ر آزاد ی ا و ر بے پر د گی بھی ہو تو ا ن کے تعلقا ت کس قد ر خطر نا ک ہو ں گے۔ بد نظر ڈ ا لنی ا و ر نفس کے جذبا ت سے ا کثر مغلو ب ہو جا نا ا نسا ن کا خا صہ ہے۔ پھر جس حا لت میں کہ پر د ہ میں بے ا عتد ا لیا ں ہوتی ہیں ا و ر فسق و فجو ر کے مر تکب ہو جا تے ہیں تو آ ز ا د ی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ104، جدید ایڈیشن) 
پھر حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لثا نیؓ کا بھی ا س با ر ہ میں ایک بیان ہے، فر ما تے ہیں:۔
’’ شر عی پر د ہ جو قر آ ن شر یف سے ثا بت ہے یہ ہے کہ عو ر ت کے با ل، گر د ن ا و رچہر ہ کا نو ں کے آ گے تک ڈھکا ہو ا ہو۔ ا س حکم کی تعمیل میں مختلف مما لک میں اپنے حا لا ت ا و ر لبا س کے مطا بق پر د ہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
(الفضل مؤرخہ 3؍ نومبر 1924ء) 
  پھر فر ما تے ہیں کہ:۔
’’ہا تھ کے جو ڑ کے ا و پر(ہاتھ کا اشارہ کر کے بتایا کہ ’’یہاں سے‘‘) سا ر ے کا سارا حصہ پر د ہ میں شا مل ہے۔‘‘
 (الازھار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 150) 
پھر حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لثا لث ؒ کا بیا ن بھی بڑا سخت ہے، یہ بھی غور سے سن لیں۔ نا ر و ے میں لجنہ سے خطا ب کرتے ہو ئے فر ما یا تھا:۔
’’میں ا یسی خو ا تین سے جو یہاں پر د ہ کو ضر و ر ی نہیں سمجھتیں پو چھتا ہو ں کہ ا نہو ں نے پر دہ کو ترک کر کے ا سلا م کی کیا خد مت کی ہے …………آ ج بعض یہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہا ں پر د ہ نہ کر نے کی ا جا ز ت د ی جا ئے۔پھر کہیں گی کہ ننگ دھڑ نگ سمند ر میں نہانے ا و ر ر یت پر لیٹنے کی ا جا زت دی جائے۔پھر کہیں گی شا د ی سے پہلے بچہ جننے کی ا جا ز ت د ی جا ئے۔ مَیں کہو ں گا پھر تمہیں دوزخ میں جانے کیلئے بھی تیا ر ر ہناچاہئے…… و ہ ا پنے آپ کو ٹھیک کر لیں قبل ا س کے کہ خد ا کا قہر نا ز ل ہو۔‘‘
(دورہ مغرب اگست 1980ء صفحہ 239,238) 
حضر ت خلیفۃ ا لمسیح الر ا بعؒ فر ما تے ہیں کہ:۔
’’……کیو نکہ میں محسو س کر ر ہا تھا کہ د نیا میں ا کثر جگہ پر د ہ ا س طر ح غا ئب ہو ر ہا ہے کہ گو یا اس کا وجو د ہی کوئی نہیں ا ور اس کے نتیجے میں جو ا نتہا ئی خو فنا ک ہلا کتیں سا منے کھڑ ی قو م کو آ نکھیں پھاڑے دیکھ ر ہی ہیں، ا ن ہلاکتو ں کا کو ئی ا حسا س نہیں ہے۔ما ں با پ ا پنی بے عملی او ر غفلتو ں کے نتیجے میں اپنی نئی نسلو ں کو ا یک معا شر تی جہنم میں جھو نک ر ہے ہیں ا و ر کو ئی نہیں جو ا س کی پر و ا ہ کرے۔یہ صورتِ حا ل سا ر ی د نیا میں ا تنی سنگین ہو تی جار ہی ہے کہ مجھے خیا ل آ یا کہ ا گر ا حمد یو ں نے فوری طور پر اسلام کے دفاع کا جھنڈ اا پنے ہا تھ میں نہ لیا تو معا ملہ حد سے آ گے بڑ ھ جا ئے گا…………‘‘۔
پھر آ پ نے فر ما یا:۔
’’…………پھر ا یسی خو ا تین ہیں جن کو با ہر تو نکلنا پڑتا ہے لیکن و ہ سنگھا ر پٹا ر کر کے نکلتی ہیں۔ ا ب کا م کا سنگھا ر پٹا ر سے کیا تعلق ہے؟…………‘‘۔
پھر آ پ فر ما تے ہیں:۔
’’…………عو ر تیں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم ا س د نیا میں جہا ں سے پر د ے ا ٹھ ر ہے ہیں ا پنی سہیلیو ں کے سامنے بر قع پہن کر جا ئیں گی تووہ کہیں گی کہ یہ ا گلے و قتو ں کی ہیں، پگلی ہیں، پا گل ہو گئی ہیں ، یہ کو ئی برقعو ں کا ز ما نہ ہے او ر یہی بات مر د و ں کو بھی تکلیف د یتی ہے۔ حا لا نکہ و ہ اس بات کو بھو ل جا تے ہیں کہ عز تِ نفس ا و ر د و سر ے کا کسی کی عز ت کر نا ا نسا ن کے ا پنے کر د ا ر سے پید ا ہو تا ہے۔د نیا کی نظر میں لبا س کی کو ئی بھی حیثیت نہیں ر ہتی۔ اگر کو ئی آ د می صاحبِ کر د ا ر ہو تو ا س کی عز ت پید ا ہو تی ہے ا و ر یہ عزت سب سے پہلے ا پنے نفس میں پید ا ہو نی چا ہئے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ 361تا 367) 
پھر آ پ نے فر ما یا:۔ 
’’یہا ں پر و ر ش پا نے و ا لی بچیا ں اپنے سر کے بالوں کے بارے میں ایک ذ ہنی ا لجھن میں مبتلا ہیں۔و ہ سمجھتی ہیں کہ با لو ں کو ڈھانک کر رکھنا ایک د قیا نو سی با ت ہے (بڑ ی Backwardness ہے)۔ا س لئے و ہ اﷲ تعالیٰ کی طر ف نیم دلی سے قد م ا ٹھا تی ہیں نہ کہ بشاشتِ قلبی سے۔ و ہ د ر ا صل یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ اے خدا توہمیں ا سی طو ر سے قبو ل فر ما لے کہ ہم د و پٹہ ا و ڑ ھے ہو ئے ہیں مگر ا س طور سے جس طور سے یہودی اپنے سر کی پشت پر ایک چھوٹی سی" چپنی نما "ٹوپی پہنے ہو ئے ہو تا ہے۔پس تو اپنی طر ف ا ٹھا ہو ا یہ ا دھو ر ا قد م بھی قبو ل فر ما لے۔ لیکن ا گر آپ سب کچھ خد ا کی خا طر کر تی ہیں تو پھر یہ بالکل نا منا سب ہے۔یا د ر کھیں کہ عو ر توں کے خد و خا ل کا سب سے دلکش حصہ ا ن کے با ل ہو تے ہیں، بالخصوص جب کہ و ہ سا منے کی طر ف لٹکے ہو ئے ہو ں۔بعض لڑکیوں کو مَیں نے د یکھا کہ جب و ہ د و پٹہ ا پنے سر پر کھینچتی ہیں تو ا یسے طر یق سے کہ جس سے ا ن کے با ل سا منے کی طر ف جھک آئیں……۔ (آ پ یہ د یکھیں کہ) کیا مَیں خد ا تعا لیٰ کی ز یا د ہ پر و ا ہ کر تی ہو ں یا ا نسا نو ں کی؟‘‘
(بچوں کی اردو کلاس مؤرخہ 06.06.98) 
تو یہ تھے مختلف خلفا ء کے ا و ر حضر ت مسیح مو عود کے بیا ن۔ بعض لو گو ں میں جو یہ سو چ پید ا ہو گئی ہے کہ فلاں خلیفہ نے تو ا یسا نہیں کہا تھا ا و ر فلا ں خلیفہ کہہ ر ہا ہے۔ تو پہلی با ت یہ ہے کہ آ پ لو گ بغیر علم کے خلفا ء پر بد ظنی کر ر ہی ہیں کہ نعو ذ با ﷲ وہ ا ﷲ تعا لیٰ کے بنیا د ی حکم پر عمل نہیں کر و ا نا چا ہتے تھے۔ جتنے خلفا ء پہلے گز ر ے ہیں میں نے سب کا بیا ن پڑھ د یا تا کہ آ پ لو گو ں میں سے جس کسی کے ذ ہن میں بھی یہ غلط فہمی یا خنّا س تھا تو وہ د و ر ہو جا ئے۔ 
د و سر ی با ت یہ کہ بعض حا لا ت میں کو ئی خلیفہ کسی بات پر ز یا د ہ ز و ر د یتا ہے ا و ر کو ئی کسی با ت پر۔ اس لئے یہ کہنا کہ پہلے خلیفہ نے ا س با ر ہ میں یہ با ت کی تھی، تم بھی اس با ر ے میں ا سی طر ح کر و یہ تو خلا فت کو پا بند کر نے والی با ت ہے ا و ر اس کی بے ا د بی ہے ا و ر یہ ظا ہر کر تی ہے کہ آ پ نے بیعت صر ف معا شر ے کے د با ؤ ، ما ں با پ کے د با ؤ ، خا و ند کے د با ؤ یا بچو ں کے د با ؤ کی و جہ سے کی ہے،د ل سے نہیں کی ۔ ا گر د ل سے بیعت کی ہوتو تما م معرو ف فیصلو ں پر عمل کر نے کا جو عہد آپ نے کیا ہے و ہ آ پ کے سا منے ہو ا و ر کبھی ا یسی با ت نہ نکلے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا ا و ر یہ فیصلہ کیو ں نہیں کیا؟میں پھر و ا ضح کر د و ں کہ و ہ چند ایک لو گ میر ے ز یا د ہ مخاطب ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں، سارے نہیں کہ اگر حضرت مسیح مو عو د کی جما عت سے منسلک ر ہنا ہے تو قر آنِ کر یم او ر حضرت محمد ﷺ کے و ا ضح ا حکا ما ت کی پا بند ی کر نی ہو گی ۔پھر جیسا کہ حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لر ا بعؒ نے فر ما یا تھا د و عملی نہیں چلے گی۔ یا خد ا سے ڈ ر یں یا بند ے سے ڈ ر یں۔
پس آ ج ہر احمد ی عو ر ت کی غیر ت کا تقا ضہ یہ ہے کہ بجا ئے لو گو ں سے ڈ ر نے کے آ ج جبکہ ا س معاشرے میں اسلا م کے خلا ف نفر تو ں کے بیج بو ئے جا رہے ہیں، طو فانِ بد تمیز ی پید ا کر نے کیلئے فضا ہمو ا ر کی جا ر ہی ہے ، اعلان کر کر کے ہر ا یک کو بتا ئیں کہ تم چا ہے جتنی مر ضی پابند یا ں لگا لوہما ر ے د لو ں سے ، ہما ر ے چہرو ں سے، ہمار ے عملو ں سے ا س خو بصو ر ت تعلیم کو نہیں چھین سکتے اور ا گر تم لو گ مذ ہب سے د و ر جا ر ہے ہو، د و ر ہٹ رہے ہو، تبا ہی کے گڑ ھے میں گر ر ہے ہو تو ہم تمہارے سا تھ اس جہنم میں گر نے کیلئے تیا ر نہیں ہیں۔ بلکہ ہم د عا کر تے ہیں کہ خد ا تعا لیٰ ا نسا نیت کو ا پنے بر ے کرتوتو ں ا و ر عملو ں کے بھیا نک ا نجا م سے بچا ئے۔آ ؤ او ر ہما ر ے سا تھ شامل ہو جا ؤ۔ا و ر ہما ر ے سا تھ شا مل ہو کر ا ﷲ کے حکموں پر عمل کر تے ہو ئے ا س کی ر ضا حاصل کر نے کی کو شش کروکہ ا سی میں تمہا ر ے د لو ں کا سکو ن اور تمہا ر ی نسلو ں کی بقا ہے۔ مجھے ا مید ہے کہ ہر با غیر ت احمدی عو ر ت جس کے د ل میں کبھی ہلکا سا بھی اﷲ تعا لیٰ کے کسی حکم کے با ر ے میں کو ئی شائبہ پید ا ہو تا ہے و ہ ا س کو ا پنے د ل سے نو چ کر با ہر پھینک دے گی ا و ر حقیقی مسلمات، مو منا ت، قانتا ت، تا ئبا ت ا و ر عابدات میں شا مل ہو جا ئے گی۔ اﷲ کرے کہ ا یسا ہی ہو۔ آ مین۔
اﷲ تعالیٰ آپ سب کو خیریت سے اپنے اپنے شہروں میں لے کر جائے،گھروں میں لے کر جائے۔ اﷲ حافظ و ناصر ہو۔
 ( الفضل انٹرنیشنل 5 جنوری تا 11 جنوری 2007 )

مکمل تحریر >>

حقیقی اسلامی پردہ



حقیقی اسلامی پردہ 
(حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے ایک انگریزی مضمون سے ترجمہ کیا گیا )
" کلکتہ کے ایک عیسائی اخبار میں ایک نہایت ہی شرمناک خط چھپاہے جس نے اسلامی دنیاکے احساسات کو سخت صدمہ پہنچایا ہے ۔کاتب خط نے اس پردہ کومدنظر رکھتے ہوئے جوکہ بعض لوگوں کاخود ساختہ ہے اور قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺکاعمل کہیں بھی اس کی تائید نہیں کرتا، قرآن کریم کی تعلیم اور بانیٔ اسلام کے مقدس ذات پرنہایت غیر مہذبانہ اورشرافت سے گرے ہوئے حملے کئے ہیں ۔ ہم ہمیشہ سے ایسے دلآزار اعتراضات عیسائی صاحبان سے سنتے چلے آئے ہیں مگر غضب تویہ ہے کہ جو کچھ بھی صاحب مذکور نے ہمارے آنحضرت ﷺکی ذات اور قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق لکھا ہے۔اس کی بنا عیسائی صاحبان نے اس نامکمل اور فاسد علم پر رکھی ہے جو ان کو اسلام کی تعلیم کے متعلق ہے۔ ہم اس ظلم کی شکایت جو انہوں نے ہمارے محبوب و مقدس آقا کی پاک ذات پر فحش اعتراض کرکے کیاہے کسی دنیوی گورنمنٹ سے نہیں کرتے۔ بلکہ ہم اپنا مقدمہ 
رب العالمین کی درگاہ میں پیش کرتے ہیں(کہ ہمارے آقا مسیح موعودؑ نے بھی ایک موقع پر یہی کہا تھا۔ میں دنیا میں مقدمات کرنے کے لئے نہیں آیا)۔
ہم اس حملہ کو جو کہ اس نے آنحضرت ﷺ پر کیاہے نظرانداز کرتے ہوئے اس کے اعتراضات کوجو اس نے پردہ پر کئے ہیں نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتاہے:
’’جب ہم کسی مسلمان کو پردہ کے عملی نقائص اور برائیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو کہ اس کا نتیجہ ہیں اور اس بنیاد اور وجہ کی کمزوری کو جس پر پردہ کی تمام عمارت کھڑی ہوئی ہے ظاہر کرتے ہیں ۔ تو ہمارے سامنے قرآن کریم کو پیش کرتے ہوئے کہتاہے کہ میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں اس تعلیم میں جو کہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں دی ہے کوئی نقص نکالوں۔مگر ایک معاملہ فہم اور دوراندیش انسان پر فوراً اس دلیل کی بیہودگی ظاہر ہو جاتی ہے ۔یہ کیسا صریح ظلم ہے کہ انسانیت کے ایک طبقہ کو ان تمام حقوق اور فوائد سے محروم کر دیا جاوے جو کہ دوسرے طبقہ کو حاصل ہیں۔ دونوں طبقوں کے درمیان ایک قسم کی دیوار حائل ہے ۔ کتنی بے گناہ جانیں ہیں جو کہ اس منحوس رسم پر دہ پر عمل کرنے کے باعث قبر کا منہ دیکھ چکی ہیں۔ ان بے چاریوں کو سالہاسال تک ایک محدود جگہ میں رہنا پڑتاہے اور ان کی عمر کابہت سی حصہ اس زہریلی ہوا میں گزرتاہے جو کہ ان کی صحت کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ میں تو جب چاہوں اور جہاں چاہوں اپنی صحت کے قیام کے لئے جا سکتاہوں ۔ میں تو تمام پبلک نمائشیں اور تھیٹر دیکھوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری لڑکی یابیوی یا بہن میرے ساتھ جا سکے ؟ اس سے بڑھ کر بے ہودہ اور شرمناک تعلیم کیا ہو سکتی ہے اگر کوئی تہذیب سے گری ہوئی رسم دنیا میں ہے تو یہی رسم پردہ ہے‘‘۔
یہ ہے وہ اعتراض جو کہ پردہ پرکیا گیاہے اور اس سے ظاہر ہے کہ کیسی قابل افسوس ناواقفیت اس کو قرآن کریم کی تعلیم سے ہے ۔ وہ مذکورہ بالا پردہ کو قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتاہے مگر تمام قرآن کریم کو چھان مارو، آنحضرت ﷺکی احادیث کو ایک ایک کرکے دیکھ جاؤ تم کوایک حدیث اور ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جو کہ ایسے پردہ کی تعلیم دیتی ہو جس کا حوالہ ہمارے عیسائی دوست نے دیاہے۔ اگراس کے خیال باطل میں کوئی ایسی آیت یا حدیث ہے توہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ قرآن کریم جس پردہ کا حکم دیتاہے وہ مختصراً ذیل میں درج کیا جاتاہے۔
’’مومن مردوں کو کہہ دو کہ غض بصر سے کام لیں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اس طرح سے پاکیزگی قلب میں ترقی کریں گے ۔ اﷲ تعالیٰ کوعلم ہے اس کاجووہ کرتے ہیں اور اسی طرح ایمان والی عورتوں کو بھی کہہ دو کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچا رکھا کریں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیاکریں مگر ہاں جو محبوراً ظاہر ہو اور وہ گریبانوں کو اپنی چھاتیوں پررکھیں اور اپنی زینت کو سوائے اپنے خاوند، والد ، اپنے خاوند کے والد، اپنے بیٹے یا اپنے خاوند کے لڑکوں ، اپنے بھائی ، اپنے بھتیجے ، اپنے بھانجے یا اپنی خاص عورتوں یا اپنی لونڈیوں یا ایسے مردوں سے جن کو عورتوں کی ضرورت نہیں یا ان بچوں کوجو ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اور وہ چلتے وقت اپنے قدم کوزور سے زمین پر نہ ماریں تا کہ ان کی پوشیدہ زینت زیور وغیرہ ظاہرہوں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف اپنی تمام توجہ کو لگا دو ۔ اے ایمان والو تا کہ اس کے نتیجے میں تم کوخوشی اور کامیابی حاصل ہو‘‘۔
یہ ہیں وہ احکام جن پر اسلامی پردہ کی بناہے اور ان کی مختصر تشریح یہ ہے :
۱……اس حکم کا اثر مرد وعورت دونوں پر یکساں ہے اور یہ حصۂ پردہ صرف عورتوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ مرد بھی اس میں شامل ہیں۔
۲……انہیں اپنے فروج کی حفاظت کرنی چاہئے ۔ اس حکم میں بھی مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
۳…… انہیں اپنی( عام رائے یہ ہے کہ اس سے مراد ہاتھ اور چہرہ ہے ) زینت ظاہر نہیں کرنی چاہئے مگر ہاں جو محبوراً ظاہر کرنی پڑتی ہے ۔
۴……انہیں اپنے گریباں اپنی چھاتیوں پر ڈالنے چاہئیں۔
۵……چلتے ہوئے انہیں اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہیں مارنے چاہئیں تاکہ ان کے زیورات ظاہر نہ ہوں۔
یہ ہے وہ پردہ جس کا اسلام حکم دیتاہے۔ اور ہر ایک پڑھنے والے پر یہ بات واضح ہے کہ اس اسلامی پردہ میں جو کہ اوپر ذکرکیاگیاہے اس پردہ کا نشان تک نہیں پایاجاتا جس پر صاحب مذکور نے اظہار نفرت کیاہے اورجس کو اپنی کم علمی کے باعث آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی طرف منسوب کیاہے ۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح علیحدہ مکانوں میں رکھا جائے اور نہ ہی یہ چاہتاہے کہ وہ اپنے گھر کی چاردیواری میں ہی محبوس رہیں۔ ان کو آزادی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت باہر جائیں اوراپناکام کریں ہاں ان کو کچھ احتیاطات کرنے کاحکم ہے جو کہ موجب ہیں پاکدامنی اور پاکیزگی کا اورجن کے مدنظر ایک نہایت ہی پاکیزہ مقصدہے اس مقصد کا ذکر اسی آیت میں ہی پایا جاتاہے جس میں احکام پر دہ مذکورہیں اور وہ یہ ہے کہ تا کہ وہ زیادہ پاکیزہ ہوں۔
پس اسلامی پردہ کا واحد مقصد دل کو تمام برے خیالات سے پاک اور محفوظ رکھنا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ پردہ صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کا احاطہ مردوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے کیونکہ اسلامی پردہ کے دو حصے ہیں ۔نگاہوں کو نیچا رکھنااور ہاتھ اور چہرے کے علاوہ باقی تمام زینت کو پوشیدہ رکھنا ۔
پہلے حصہ میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں اور دوسرا حصہ جیسا کہ مضمون سے ظاہر ہے صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔
اسلام کی تعلیم کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برائی کو جڑ سے اکھیڑتا ہے یعنی جذبات کے ابھرنے کے موجبات اور مسببات کوہی بند کر تاہے۔ اسلام مسلمانوں کو صرف یہ نہیں سکھاتا کہ تم جذبات اور شہوات کامقابلہ کرو بلکہ وہ سکھاتاہے کہ تم ان باتوں سے بھی اجتناب اختیار کرو جو سبب ہوتے ہیں شہوات اور جذبات کے ابھرنے کا۔
مذکور ہ بالا اسلامی پردہ اسی اصول پر مبنی ہے اور یہی مقصد اس کے مدنظر ہے۔ اسلامی پردہ محض صفائی قلب کے لئے ہے ۔ اگر یورپ اور دوسرے عیسائی ممالک میں اس پر عمل ہوتا تو وہ برائیاں جو آجکل ………… پائی جاتی ہیں اس سے بچ جاتے اورتمام وہ برے نتائج جس کو وہ بھگت رہے ہیں اورجنہوں نے انسانی خوشنماچہروں پر ایک دھبہ لگایاہواہے اس سے محفوظ رہتے۔ یہ بھی خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلامی پردہ عورتوں کی جائز آزادی میں مخل نہیں ہوتا۔ وہ کام کے لئے اپنے گھروں سے باہر جا سکتی ہیں۔ وہ اپنی صحت کے قیام کے لئے سیر یاکوئی اورورزش کما ل آزادی سے کر سکتی ہیں۔
اورتمام وہ باتیں جو ان کو محفوظ کرتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کی پاکدامنی کا خون نہ کریں ان میں وہ پوری آزادی سے حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ لیکچروں میں شامل ہو سکتی ہیں ، وہ تمام کاروبار کر سکتی ہیں، وہ بیماروں کی تیمارداری کر سکتی ہیں خواہ وہ بیمار مرد ہو یا عورت۔ وہ دوران جنگ میں بطور دایا کے کام کر سکتی ہے ۔ وہ ہر ایک با ت جو ان کی پاکدامنی کے خلاف نہیں ہے مذکورہ بالا پردہ میں رہ کر کرسکتی ہیں او ر سچ تو یہ ہے کہ اسلام میں عورتوں کو اپنی مغربی ممالک کی بہنوں سے بہت زیادہ حقوق حاصل ہیں۔مگر ان احتیاطات کے ساتھ جو کہ میں نے اوپر ذکر کر دی ہیں اور بعض وہ احتیاطیں آدمیوں پر بھی لازم ہیں۔
پس یہ احتیاطات اور قیود عورتوں کے لئے لعنت نہیں جیساکہ عیسائی صاحبان کا خیال ہے بلکہ بہت بڑی برکات کا موجب ہیں ۔ اگر یورپ اور دوسرے ممالک چاہتے ہیں کہ ان برکات کا ان کوعلم ہو اور وہ اس میں حصہ لے سکیں تو وہ ان کو ایک دفعہ آزما کر تو دیکھیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو احتیاطات اسلام نے عورتوں کے لئے رکھی ہیں وہ واحد علاج ہیں ان برائیوں کاجس میں آج یورپ کی سوسائٹی مبتلا ہے ۔
یورپ کی نجات اسی پرموقوف ہے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہو اور وہ دن دور نہیں ہیں کہ جب یورپ مجبورہوگا کہ نجات حاصل کرنے کے لئے اسلام کے سکھائے ہوئے راستہ پر قدم زن ہو۔
اسلامی تاریخ پرنظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے
 کہ وہ حد سے بڑھی ہوئی قیود کو جن میں بعض مسلمان ممالک کی عورتیں آج کل مقید ہیں ۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کہیں ان کانام ونشان تک نہ تھا ۔حفضہ بن سیرین جو کہ آنحضرت ﷺکے زمانہ کے بعد ہوئیں وہ فرماتی ہیں:
’’آج ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن باہر جانے نہیں دیتے مگرایک عورت آئی جو کہ بنی خلف کے محل میں آ کر اتری۔ میں اس کو دیکھنے کے لئے گئی۔ اس نے مجھے بتایاکہ اس کابہنوئی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہو کر بارہ جنگوں میں لڑا۔ چھ میں اس کی بہن اپنے خاوند کے ساتھ جنگ میں شامل تھی اور چھ میں نہیں تھی۔ اور اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہم جنگوں میں جایاکرتی تھیں اور بیماروں کی تیمارداری اور زخمیوں کہ مرہم پٹی کیاکرتی تھیں ۔ اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے سوال کیاگیا کہ اگرایک عورت کے پاس کوئی سامان پردہ یعنی چادر وغیرہ نہ ہو تو کیا اس پر گناہ تو نہیں اگر وہ نماز کو مسجد میں چلی جاوے۔ آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی دوسری بہن اس کو چادر دے دے یا دونوں ایک ہی چادر میں نماز کے لئے مسجد میں چلی جاویں۔
ربیع جو کہ معوذ بن عفرا کی صاحبزادی ہیں وہ فرماتی ہیں ۔ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور ہم اپنے مردوں کو پانی وغیرہ مہیا کرتی تھیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں اور مُردوں اور زخمیوں کومدینہ شریف میں واپس لاتی تھیں۔
آنحضرت ﷺ کا یہ دستور العمل تھا کہ جنگ کے موقعہ پر اور دوسرے سفروں کے موقعہ پر ایک بیوی کو ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری بی بی تھیں اور حضرت ام سلیمہ ؓ احدکے دن مشکوں میں پانی لا لا کرمَردوں کودیتی تھیں اور ام سلیط ؓ کی یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ مشکوں کی مرمت کرتی تھیں ۔ فاطمۃ الزھراؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری صاحبزادی تھیں وہ احد کے دن آنحضرتﷺ کے زخموں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
خلفاء الراشدین کے زمانہ میں بھی عورتیں جنگ میں شریک ہوتی تھیں جیساکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ام حرام ؓCyprus کی مہم میں شامل ہوئی تھیں اور جب جنگ سے واپس آرہی تھیں توسمندر سے پار ہو کر کنارہ پرپہنچ کر اپنے گدھے سے گر کر فوت ہوگئیں۔
عورتیں کھیل اور تماشا وغیرہ بھی دیکھ سکتی ہیں بشرطیکہ اس کھیل یاتماشا میں شرافت سے گری ہوئی کو ئی بات نہ ہو ۔ مگر اس قیوداوراحتیاطات کے ساتھ جن کی تفصیل اوپربوضاحت کی گئی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر آنحضرت ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر حبشی مسلمانوں کے جنگی کرتب اورکھیل کو دیکھ رہی تھی جب مسجد نبوی میں وہ کھیل رہے تھے۔ اور بعض اوقات عورتیں آکر حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے پاس گاتی بجاتی تھیں اور آنحضرتﷺ اس کو برا نہیں مناتے تھے ۔
الغرض وہ پردہ جو اسلام نے سکھایا ہے وہ عورتوں کی صحیح آزادی میں مخل اورحارج نہیں ہوتا اور اگر یہی پردہ دوسرے مہذب ممالک میں رواج پکڑ جائے تو اس سے سوسائٹی کوبہت سے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں اور عورتوں کی جائزآزادی بھی قائم رہ سکتی ہے۔
(ریویوآف ریلیجنز(اردو) ۔۱۹۱۹؁ء،جلد ۱۸ نمبر ۷ صفحہ ۲۳۶ تا ۲۴۳)
مکمل تحریر >>