حقیقی اسلامی پردہ
(حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے ایک انگریزی مضمون سے ترجمہ کیا گیا )
" کلکتہ کے ایک عیسائی اخبار میں ایک نہایت ہی شرمناک خط چھپاہے جس نے اسلامی دنیاکے احساسات کو سخت صدمہ پہنچایا ہے ۔کاتب خط نے اس پردہ کومدنظر رکھتے ہوئے جوکہ بعض لوگوں کاخود ساختہ ہے اور قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺکاعمل کہیں بھی اس کی تائید نہیں کرتا، قرآن کریم کی تعلیم اور بانیٔ اسلام کے مقدس ذات پرنہایت غیر مہذبانہ اورشرافت سے گرے ہوئے حملے کئے ہیں ۔ ہم ہمیشہ سے ایسے دلآزار اعتراضات عیسائی صاحبان سے سنتے چلے آئے ہیں مگر غضب تویہ ہے کہ جو کچھ بھی صاحب مذکور نے ہمارے آنحضرت ﷺکی ذات اور قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق لکھا ہے۔اس کی بنا عیسائی صاحبان نے اس نامکمل اور فاسد علم پر رکھی ہے جو ان کو اسلام کی تعلیم کے متعلق ہے۔ ہم اس ظلم کی شکایت جو انہوں نے ہمارے محبوب و مقدس آقا کی پاک ذات پر فحش اعتراض کرکے کیاہے کسی دنیوی گورنمنٹ سے نہیں کرتے۔ بلکہ ہم اپنا مقدمہ
رب العالمین کی درگاہ میں پیش کرتے ہیں(کہ ہمارے آقا مسیح موعودؑ نے بھی ایک موقع پر یہی کہا تھا۔ میں دنیا میں مقدمات کرنے کے لئے نہیں آیا)۔
ہم اس حملہ کو جو کہ اس نے آنحضرت ﷺ پر کیاہے نظرانداز کرتے ہوئے اس کے اعتراضات کوجو اس نے پردہ پر کئے ہیں نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتاہے:
’’جب ہم کسی مسلمان کو پردہ کے عملی نقائص اور برائیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو کہ اس کا نتیجہ ہیں اور اس بنیاد اور وجہ کی کمزوری کو جس پر پردہ کی تمام عمارت کھڑی ہوئی ہے ظاہر کرتے ہیں ۔ تو ہمارے سامنے قرآن کریم کو پیش کرتے ہوئے کہتاہے کہ میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں اس تعلیم میں جو کہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں دی ہے کوئی نقص نکالوں۔مگر ایک معاملہ فہم اور دوراندیش انسان پر فوراً اس دلیل کی بیہودگی ظاہر ہو جاتی ہے ۔یہ کیسا صریح ظلم ہے کہ انسانیت کے ایک طبقہ کو ان تمام حقوق اور فوائد سے محروم کر دیا جاوے جو کہ دوسرے طبقہ کو حاصل ہیں۔ دونوں طبقوں کے درمیان ایک قسم کی دیوار حائل ہے ۔ کتنی بے گناہ جانیں ہیں جو کہ اس منحوس رسم پر دہ پر عمل کرنے کے باعث قبر کا منہ دیکھ چکی ہیں۔ ان بے چاریوں کو سالہاسال تک ایک محدود جگہ میں رہنا پڑتاہے اور ان کی عمر کابہت سی حصہ اس زہریلی ہوا میں گزرتاہے جو کہ ان کی صحت کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ میں تو جب چاہوں اور جہاں چاہوں اپنی صحت کے قیام کے لئے جا سکتاہوں ۔ میں تو تمام پبلک نمائشیں اور تھیٹر دیکھوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری لڑکی یابیوی یا بہن میرے ساتھ جا سکے ؟ اس سے بڑھ کر بے ہودہ اور شرمناک تعلیم کیا ہو سکتی ہے اگر کوئی تہذیب سے گری ہوئی رسم دنیا میں ہے تو یہی رسم پردہ ہے‘‘۔
یہ ہے وہ اعتراض جو کہ پردہ پرکیا گیاہے اور اس سے ظاہر ہے کہ کیسی قابل افسوس ناواقفیت اس کو قرآن کریم کی تعلیم سے ہے ۔ وہ مذکورہ بالا پردہ کو قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتاہے مگر تمام قرآن کریم کو چھان مارو، آنحضرت ﷺکی احادیث کو ایک ایک کرکے دیکھ جاؤ تم کوایک حدیث اور ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جو کہ ایسے پردہ کی تعلیم دیتی ہو جس کا حوالہ ہمارے عیسائی دوست نے دیاہے۔ اگراس کے خیال باطل میں کوئی ایسی آیت یا حدیث ہے توہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ قرآن کریم جس پردہ کا حکم دیتاہے وہ مختصراً ذیل میں درج کیا جاتاہے۔
’’مومن مردوں کو کہہ دو کہ غض بصر سے کام لیں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اس طرح سے پاکیزگی قلب میں ترقی کریں گے ۔ اﷲ تعالیٰ کوعلم ہے اس کاجووہ کرتے ہیں اور اسی طرح ایمان والی عورتوں کو بھی کہہ دو کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچا رکھا کریں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیاکریں مگر ہاں جو محبوراً ظاہر ہو اور وہ گریبانوں کو اپنی چھاتیوں پررکھیں اور اپنی زینت کو سوائے اپنے خاوند، والد ، اپنے خاوند کے والد، اپنے بیٹے یا اپنے خاوند کے لڑکوں ، اپنے بھائی ، اپنے بھتیجے ، اپنے بھانجے یا اپنی خاص عورتوں یا اپنی لونڈیوں یا ایسے مردوں سے جن کو عورتوں کی ضرورت نہیں یا ان بچوں کوجو ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اور وہ چلتے وقت اپنے قدم کوزور سے زمین پر نہ ماریں تا کہ ان کی پوشیدہ زینت زیور وغیرہ ظاہرہوں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف اپنی تمام توجہ کو لگا دو ۔ اے ایمان والو تا کہ اس کے نتیجے میں تم کوخوشی اور کامیابی حاصل ہو‘‘۔
یہ ہیں وہ احکام جن پر اسلامی پردہ کی بناہے اور ان کی مختصر تشریح یہ ہے :
۱……اس حکم کا اثر مرد وعورت دونوں پر یکساں ہے اور یہ حصۂ پردہ صرف عورتوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ مرد بھی اس میں شامل ہیں۔
۲……انہیں اپنے فروج کی حفاظت کرنی چاہئے ۔ اس حکم میں بھی مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
۳…… انہیں اپنی( عام رائے یہ ہے کہ اس سے مراد ہاتھ اور چہرہ ہے ) زینت ظاہر نہیں کرنی چاہئے مگر ہاں جو محبوراً ظاہر کرنی پڑتی ہے ۔
۴……انہیں اپنے گریباں اپنی چھاتیوں پر ڈالنے چاہئیں۔
۵……چلتے ہوئے انہیں اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہیں مارنے چاہئیں تاکہ ان کے زیورات ظاہر نہ ہوں۔
یہ ہے وہ پردہ جس کا اسلام حکم دیتاہے۔ اور ہر ایک پڑھنے والے پر یہ بات واضح ہے کہ اس اسلامی پردہ میں جو کہ اوپر ذکرکیاگیاہے اس پردہ کا نشان تک نہیں پایاجاتا جس پر صاحب مذکور نے اظہار نفرت کیاہے اورجس کو اپنی کم علمی کے باعث آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی طرف منسوب کیاہے ۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح علیحدہ مکانوں میں رکھا جائے اور نہ ہی یہ چاہتاہے کہ وہ اپنے گھر کی چاردیواری میں ہی محبوس رہیں۔ ان کو آزادی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت باہر جائیں اوراپناکام کریں ہاں ان کو کچھ احتیاطات کرنے کاحکم ہے جو کہ موجب ہیں پاکدامنی اور پاکیزگی کا اورجن کے مدنظر ایک نہایت ہی پاکیزہ مقصدہے اس مقصد کا ذکر اسی آیت میں ہی پایا جاتاہے جس میں احکام پر دہ مذکورہیں اور وہ یہ ہے کہ تا کہ وہ زیادہ پاکیزہ ہوں۔
پس اسلامی پردہ کا واحد مقصد دل کو تمام برے خیالات سے پاک اور محفوظ رکھنا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ پردہ صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کا احاطہ مردوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے کیونکہ اسلامی پردہ کے دو حصے ہیں ۔نگاہوں کو نیچا رکھنااور ہاتھ اور چہرے کے علاوہ باقی تمام زینت کو پوشیدہ رکھنا ۔
پہلے حصہ میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں اور دوسرا حصہ جیسا کہ مضمون سے ظاہر ہے صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔
اسلام کی تعلیم کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برائی کو جڑ سے اکھیڑتا ہے یعنی جذبات کے ابھرنے کے موجبات اور مسببات کوہی بند کر تاہے۔ اسلام مسلمانوں کو صرف یہ نہیں سکھاتا کہ تم جذبات اور شہوات کامقابلہ کرو بلکہ وہ سکھاتاہے کہ تم ان باتوں سے بھی اجتناب اختیار کرو جو سبب ہوتے ہیں شہوات اور جذبات کے ابھرنے کا۔
مذکور ہ بالا اسلامی پردہ اسی اصول پر مبنی ہے اور یہی مقصد اس کے مدنظر ہے۔ اسلامی پردہ محض صفائی قلب کے لئے ہے ۔ اگر یورپ اور دوسرے عیسائی ممالک میں اس پر عمل ہوتا تو وہ برائیاں جو آجکل ………… پائی جاتی ہیں اس سے بچ جاتے اورتمام وہ برے نتائج جس کو وہ بھگت رہے ہیں اورجنہوں نے انسانی خوشنماچہروں پر ایک دھبہ لگایاہواہے اس سے محفوظ رہتے۔ یہ بھی خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلامی پردہ عورتوں کی جائز آزادی میں مخل نہیں ہوتا۔ وہ کام کے لئے اپنے گھروں سے باہر جا سکتی ہیں۔ وہ اپنی صحت کے قیام کے لئے سیر یاکوئی اورورزش کما ل آزادی سے کر سکتی ہیں۔
اورتمام وہ باتیں جو ان کو محفوظ کرتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کی پاکدامنی کا خون نہ کریں ان میں وہ پوری آزادی سے حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ لیکچروں میں شامل ہو سکتی ہیں ، وہ تمام کاروبار کر سکتی ہیں، وہ بیماروں کی تیمارداری کر سکتی ہیں خواہ وہ بیمار مرد ہو یا عورت۔ وہ دوران جنگ میں بطور دایا کے کام کر سکتی ہے ۔ وہ ہر ایک با ت جو ان کی پاکدامنی کے خلاف نہیں ہے مذکورہ بالا پردہ میں رہ کر کرسکتی ہیں او ر سچ تو یہ ہے کہ اسلام میں عورتوں کو اپنی مغربی ممالک کی بہنوں سے بہت زیادہ حقوق حاصل ہیں۔مگر ان احتیاطات کے ساتھ جو کہ میں نے اوپر ذکر کر دی ہیں اور بعض وہ احتیاطیں آدمیوں پر بھی لازم ہیں۔
پس یہ احتیاطات اور قیود عورتوں کے لئے لعنت نہیں جیساکہ عیسائی صاحبان کا خیال ہے بلکہ بہت بڑی برکات کا موجب ہیں ۔ اگر یورپ اور دوسرے ممالک چاہتے ہیں کہ ان برکات کا ان کوعلم ہو اور وہ اس میں حصہ لے سکیں تو وہ ان کو ایک دفعہ آزما کر تو دیکھیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو احتیاطات اسلام نے عورتوں کے لئے رکھی ہیں وہ واحد علاج ہیں ان برائیوں کاجس میں آج یورپ کی سوسائٹی مبتلا ہے ۔
یورپ کی نجات اسی پرموقوف ہے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہو اور وہ دن دور نہیں ہیں کہ جب یورپ مجبورہوگا کہ نجات حاصل کرنے کے لئے اسلام کے سکھائے ہوئے راستہ پر قدم زن ہو۔
اسلامی تاریخ پرنظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے
کہ وہ حد سے بڑھی ہوئی قیود کو جن میں بعض مسلمان ممالک کی عورتیں آج کل مقید ہیں ۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کہیں ان کانام ونشان تک نہ تھا ۔حفضہ بن سیرین جو کہ آنحضرت ﷺکے زمانہ کے بعد ہوئیں وہ فرماتی ہیں:
’’آج ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن باہر جانے نہیں دیتے مگرایک عورت آئی جو کہ بنی خلف کے محل میں آ کر اتری۔ میں اس کو دیکھنے کے لئے گئی۔ اس نے مجھے بتایاکہ اس کابہنوئی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہو کر بارہ جنگوں میں لڑا۔ چھ میں اس کی بہن اپنے خاوند کے ساتھ جنگ میں شامل تھی اور چھ میں نہیں تھی۔ اور اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہم جنگوں میں جایاکرتی تھیں اور بیماروں کی تیمارداری اور زخمیوں کہ مرہم پٹی کیاکرتی تھیں ۔ اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے سوال کیاگیا کہ اگرایک عورت کے پاس کوئی سامان پردہ یعنی چادر وغیرہ نہ ہو تو کیا اس پر گناہ تو نہیں اگر وہ نماز کو مسجد میں چلی جاوے۔ آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی دوسری بہن اس کو چادر دے دے یا دونوں ایک ہی چادر میں نماز کے لئے مسجد میں چلی جاویں۔
ربیع جو کہ معوذ بن عفرا کی صاحبزادی ہیں وہ فرماتی ہیں ۔ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور ہم اپنے مردوں کو پانی وغیرہ مہیا کرتی تھیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں اور مُردوں اور زخمیوں کومدینہ شریف میں واپس لاتی تھیں۔
آنحضرت ﷺ کا یہ دستور العمل تھا کہ جنگ کے موقعہ پر اور دوسرے سفروں کے موقعہ پر ایک بیوی کو ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری بی بی تھیں اور حضرت ام سلیمہ ؓ احدکے دن مشکوں میں پانی لا لا کرمَردوں کودیتی تھیں اور ام سلیط ؓ کی یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ مشکوں کی مرمت کرتی تھیں ۔ فاطمۃ الزھراؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری صاحبزادی تھیں وہ احد کے دن آنحضرتﷺ کے زخموں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
خلفاء الراشدین کے زمانہ میں بھی عورتیں جنگ میں شریک ہوتی تھیں جیساکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ام حرام ؓCyprus کی مہم میں شامل ہوئی تھیں اور جب جنگ سے واپس آرہی تھیں توسمندر سے پار ہو کر کنارہ پرپہنچ کر اپنے گدھے سے گر کر فوت ہوگئیں۔
عورتیں کھیل اور تماشا وغیرہ بھی دیکھ سکتی ہیں بشرطیکہ اس کھیل یاتماشا میں شرافت سے گری ہوئی کو ئی بات نہ ہو ۔ مگر اس قیوداوراحتیاطات کے ساتھ جن کی تفصیل اوپربوضاحت کی گئی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر آنحضرت ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر حبشی مسلمانوں کے جنگی کرتب اورکھیل کو دیکھ رہی تھی جب مسجد نبوی میں وہ کھیل رہے تھے۔ اور بعض اوقات عورتیں آکر حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے پاس گاتی بجاتی تھیں اور آنحضرتﷺ اس کو برا نہیں مناتے تھے ۔
الغرض وہ پردہ جو اسلام نے سکھایا ہے وہ عورتوں کی صحیح آزادی میں مخل اورحارج نہیں ہوتا اور اگر یہی پردہ دوسرے مہذب ممالک میں رواج پکڑ جائے تو اس سے سوسائٹی کوبہت سے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں اور عورتوں کی جائزآزادی بھی قائم رہ سکتی ہے۔
(ریویوآف ریلیجنز(اردو) ۔۱۹۱۹ء،جلد ۱۸ نمبر ۷ صفحہ ۲۳۶ تا ۲۴۳)
0 comments:
Post a Comment