Wednesday 20 February 2019

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اخلاقِ حسنہ کے چند ایمان افروز نمونے






حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اخلاقِ حسنہ کے چند ایمان افروز نمونے
رقم فرمودہ :  شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب


 1924ء میں جب حضرت صاحب لندن تشریف لے گئے توواپسی پر آپ پانی پت کی طرف سے گزرے۔اس کا اعلان الفضل میں پہلے سے ہوگیاتھا۔ وقت مقررہ پر پانی پت کے احمدی حضور کوخوش آمدید کہنے کیلئے سٹیشن پرآئے۔شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالیؔ کے فرزند جناب خانصاحب خواجہ سجاد حسین بھی آپ کی آمد کی خبر سن کر سٹیشن پرآپ سے ملنے آئے۔جب گاڑی سٹیشن پر آکر رکی توتمام احمدی احباب حضورسے شرف مصافحہ حاصل کرنے اورآپ کی زیارت کرنے کیلئے فوراً اُس درجہ میں چڑھ گئے جس میں حضور سوارتھے۔میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مولانا حالی کے لڑکے خواجہ سجاد حسین صاحب بھی آپ سے ملنے سٹیشن پر آئے ہوئے ہیں اورنیچے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں وہ غیر احمدی ہیں اگرآپ ان سے ملنا چاہیں تو میں ان کو اندر درجے میں بلالوں۔حضرت صاحب نے فرمایا نہیں میں خود نیچے اترکر ان سے ملوں گا۔یہ فرماکر فوراً حضور کھڑے ہوئے اورپلیٹ فارم پر اترکر خواجہ صاحب سے نہایت تپاک کے ساتھ ملے اورگاڑی کے روانہ ہونے تک برابر ان سے باتیں کرتے رہے انہوں نے پانی پت کی بالائی تحفہ کے طورپر پیش کی جو آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے قبول کی۔
یہی خواجہ سجاد حسین صاحب1928ء میں حضرت استاذی المحترم ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی دعوت پر جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے قصر خلافت میں خاص طورپر ان کوملاقات کا شرف بخشا ا وردروازہ تک خود ان کولینے کے لئے تشریف لائے اوربڑے اعزاز کے ساتھ ان کو اپنے اس گدیلے پر بٹھایا جس پر خودحضورتشریف رکھتے تھے۔خاکسار راقم الحروف بھی پانی پت سے خواجہ سجاد حسین صاحب کے ساتھ آیاتھااوراس وقت موجود تھا۔
حضرت صاحب نے خواجہ صاحب سے فرمایا۔ ’’آپ نے بڑی تکلیف کی جو اس ضعیفی اورپیرانہ سالی میں سفر کی صعوبت اٹھاکر یہاں تشریف لائے آپ کو یہاں کے قیام میں کوئی تکلیف تونہیں ہوئی ۔‘‘خواجہ صاحب نے فرمایا ’’الحمدﷲ میں بہت ہی آرام سے ہوں اورمجھے یہاں کسی قسم کی تکلیف نہیں بالکل گھر کاساآرام مل رہا ہے۔ جلسہ میں شامل ہوکر مجھے بہت خوشی ہوئی اور الحمدﷲ میں نے یہاں کاماحول نہایت دیندارانہ پایا۔‘‘
گفتگو کے دوران میں حضرت صاحب نے فرمایا: ’’خواجہ صاحب! میں آپ کے والد مولوی الطاف حسین حالی صاحب کا نہایت ممنون ہوں۔انہوں نے مجھے ایک نصیحت میرے بچپن میں کی تھی جو آج تک مجھے یاد ہے اورمیں اکثر اس کاذکر مختلف موقعوں پر کرچکا ہوں۔‘‘
خواجہ سجاد حسین صاحب مرحوم نے نہایت تعجب کے ساتھ پوچھا کہ والد مرحوم مولانا حالیؔکے ساتھ آپ کا کیا واقعہ ہوا تھا اور وہ کب اور کہاں آپ سے ملے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا:
خواجہ صاحب مولانا حالی سے میری ملاقات توکبھی نہیں ہوئی۔مگر ایک خط میں نے ان کو ضرور لکھا تھا جس کا انہوں نے جواب دیاتھا۔میرے خط اوران کے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ بچپن میں مجھے شاعری کاشوق پیداہوا تومیں نے سوچنا شروع کیا کہ اپنے شعروں کی اصلاح کس سے لیاکروں۔میں کئی دن تک اس بات کو سوچتارہااورآخر کار میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مولوی الطاف حسین حالیؔسے بہتر سارے ہندوستان میں کوئی اورشاعر اس وقت نہیں(کیونکہ وہ اپنی مسدس کی بدولت تمام ملک میں بہت مشہور ہوچکے تھے۔)پس ان ہی کوشاعری میں اپنا استاد بنانا چاہیے۔یہ سوچتے ہی میں نے انہیں پانی پت میں خط لکھا کہ ’’میں ابھی چھوٹا بچہ ہوں مگر مجھے شعرکہنے کا بڑاشوق ہے اورمیں شاعری میں آپ کو اپنا استاد بنانا چاہتاہوں۔اگرمیں یہاں سے اپنے اشعار اوراپنی نظمیں آپ کولکھ کر بھیج دیاکروں اوران کی اصلاح کرکے آپ مجھے واپس بھیج دیاکریں تومیں آپ کی اس مہربانی اورعنایت کا نہایت شکرگزار ہوں گا۔‘‘
مولانا حالیؔنے میرے خط کا فوراًجواب دیا۔اس خط میں انہوں نے مجھے لکھا تھاکہ ’’میاں صاحبزادے! تمہاراخط پہنچا جس میں تم نے اپنے شوق کا ذکر کیا ہے اوراس شوق میں مجھے اپنا استاد بنانا چاہاہے۔میاں اس سلسلہ میں میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ شاعری بے کاری کا دھندا ہے ۔اس فضول جھنجھٹ میں نہ پڑو۔اس وقت تمہاری عمرشاعری کی نہیں بلکہ تحصیل علم کی ہے۔پس نہایت دل لگا کر اوربالکل یکسو ہوکر علم حاصل کرو۔جو وقت شاعری جیسے بے کار شغل میں گنوانا چاہتے ہووہ تحصیل علم میں صرف کرواورکسی طرف خیال اوردھیان کونہ لگاؤ۔جب لکھ پڑھ کر فارغ ہوجاؤ گے اوربڑے ہوکر فکر معاش سے بھی فراغت ہوگی تو اُس وقت شاعری بھی کرلینا کون سی بھاگی جارہی ہے۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرکے حضرت صاحب خواجہ صاحب سے فرمانے لگے کہ ’’خواجہ صاحب ! جب میں نے یہ خط آپ کے والد صاحب کو لکھاتھا اس وقت میں بچہ تھا اوراب بوڑھا ہوگیا ہوں مگراب بھی جب کبھی مجھے مولانا حالیؔکی یہ نصیحت یاد آتی ہے توبڑی پیاری لگتی ہے اورمیں خیال کرنے لگتا ہوں کہ واقعی مولانا حالی نے مجھے بہت ہی عمدہ اورنہایت نیک مشورہ دیاتھا۔مجھے اس نصیحت میں ہمیشہ مولانا کا خلوص جھلکتا ہوانظر آتاہے اوربے اختیار ان کی نیکی اورشرافت کی تعریف کرنے کودل چاہتاہے۔‘‘
حضرت صاحب کی زبان سے یہ واقعہ سن کر خواجہ سجاد حسین صاحب نے کہا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا۔ والد صاحب مرحوم کا قاعدہ تھا کہ وہ لوگوں کو شعر کہنے سے روکتے اور اپنے شاگرد بننے سے منع کیا کرتے تھے کیونکہ لوگوں نے بیکار اور فضول شعر کہنا اپنا پیشہ بنا لیا ہے اور اس سے وہ کام نہیں لیتے جو درحقیقت لینا چاہیے۔ اسی لیے ہماری شاعری بیکاری کا مشغلہ بن کر رہ گئی ہے اس کے بعد کچھ متفرق باتیں ہوتی رہیں اورآدھ گھنٹے کی نہایت دلچسپ ملاقات کے بعد یہ صحبت ختم ہوئی۔

تقسیم ملک کے بعد 1947ء میں جب حضور قادیان سے ہجرت فرماکر پاکستان تشریف لائے اور لاہور کے رتن باغ میں قیام فرمایا توابتدا میں بہت سے لوگ ایک انتظام اورتنظیم کے ماتحت بسوں میں قادیان جاتے اورواپس آیاکرتے تھے۔ایک روز شام کے وقت رتن باغ کے لان میں ایک کارکن نے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اعلان کیاکہ ’’کل صبح سویرے جوقافلہ قادیان کے لئے روانہ ہورہاہے اس میں جوجوآدمی شامل ہوکرقادیان جاناچاہیں وہ نماز مغرب کے فوراً بعد یہاں حاضر ہوکر اپنے اپنے نام لکھوادیں۔‘‘
چونکہ یہ اعلان لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ بہت بلند آواز سے کیاگیا تھا۔لہٰذا حضرت صاحب نے بھی اپنے کمرہ میں سنا اورفوراً ایک صاحب کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ ابھی ابھی جواعلان ہوا ہے یہ بالکل غلط ہے میر ی طرف سے لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان کردیاجائے کہ ’’جو جو حضرات کل صبح قادیان تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ نماز مغرب کے بعد ازراہ کرم دفترمیں تشریف لے آئیں تاکہ ان کے اسم ہائے گرامی نوٹ کرلئے جائیں اورسفر کے لئے جوضروری ہدایات ہوں وہ بھی انہیں سمجھادی جائیں‘‘۔
حضور کے اعلیٰ اورشریفانہ طرز تخاطب کا یہ واقعہ کتنااچھا نمونہ ہے جو میں نے دیکھا ہے۔

ایک دعوت میں جس میں میں بھی حاضر تھا منتظمین نے حضرت صاحب کے بیٹھنے کے لئے خاص الخاص اہتمام کیا ۔دری پر ایک قالین بچھائی ،ایک بڑاگاؤ تکیہ لگایا۔کھانے کی کئی پلیٹیں آپ کے آگے دسترخوان پر قرینے سے لاکررکھیں۔جب حضرت صاحب تشریف لائے توآپ نے اس سازوسامان اورخاص انتظام و انصرام کودیکھ کر فرمایا کہ ’’یہ تکیہ میرے لئے خاص طورپر کیوں لگایاگیاہے اوریہ قالین خاص میرے لئے کیوں بچھائی گئی ہے۔اٹھاؤ دونوں چیزوں کو جس طرح اورتمام احباب بیٹھے ہوئے ہیں میں بھی سب کے ساتھ اسی طرح بیٹھوں گا۔‘‘
حکم کی تعمیل میں دونوں چیزیں فوراً اٹھالی گئیں اورحضورسب لوگوں کے ساتھ دری پر بیٹھ گئے اوربیٹھتے ہی اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والے احباب سے فرمایا کہ آپ صاحبان اتنے الگ الگ اوردوردور کیوں بیٹھے ہیں میرے پاس آکر بیٹھیں۔پھرفرمایا کہ یہ چارپانچ پلیٹیں میرے سامنے کیوں لاکر رکھی گئی ہیں جب کہ تمام حاضرین کے سامنے ایک ایک پلیٹ ہے یہ سب اٹھاؤ اورصرف ایک پلیٹ رہنے دو۔میں کوئی دیو تونہیں جوچار پانچ پلیٹیں بھر کر کھاؤں گا۔اس کے بعد جب منتظمین نے کھانا تمام مہمانوں کے آگے رکھ دیا توحضور نے بلند آواز سے فرمایا کہ کیا کھانا سب دوستوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ’’ حضور میرے آگے کھانا نہیں آیا‘‘اس پر حضور نے منتظمین کو ہدایت کی’’ ان صاحب کو فوراً کھانا پہنچاؤ‘‘ایک دومنٹ کے بعد حضور نے پھر ان صاحب کو مخاطب کرکے بلند آواز سے پوچھا کہ ’’کیاآپ کوکھانا پہنچ گیا ،جب ان صاحب نے کہا ’’ہاں حضور پہنچ گیا ہے۔‘‘تب حضور نے احباب سے فرمایا کہ ’’الحمدﷲ کہہ کر کھانا شروع فرمائیں۔‘‘
(ماہنامہ انصاراﷲ جنوری1966ء صفحہ23تا28)
مکمل تحریر >>

Thursday 31 January 2019

ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ ’’جس کو ملنے سے روح جگمگانے لگے‘‘





ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ
’’جس کو ملنے سے روح جگمگانے لگے‘‘
( مبارک  احمدصدیقی۔لندن)


برطانیہ میں رہنے والے احمدی احباب یقیناََ بہت خوش قسمت ہیں۔ یہاں پر رہنے والے بہت سے احمدیوں کی طرح مجھے بھی ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ مجھے کم از کم پاکستان اور دور دراز کے ممالک میں رہنے والے احمدی احباب کی نسبت حضور انور کو زیادہ قریب سے دیکھنے کی سعادت ملی ہے۔ میں نے حضور کو قریب سے دیکھا ہے ، ایسے غم کے وقت میں بھی جب اُسی دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پچاسی کے قریب احمدیوں کی شہادت کی خبر ملی تھی ، ہر آنکھ اشکبار تھی۔ مجھے حضور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ حضور انور کی آنکھ سے گرنے والے ایک آنسو سے کئی اور داستانیں رقم ہو سکتی تھیں۔کسی اور مسلک کے راہنما کے لئے وہ وقت تھا کہ وہ اپنے خطاب کی سوزش کو سننے والوں کے سینوں میں لگی دکھ کی آگ سے ملا کر ، ایسا انقلاب انگیز خطاب کر تا کہ تاریخ میں بہترین مقر ر لکھا جاتا اور لوگ برسوں عش عش کرتے۔ پھر ایسی خوشی کے موقع پر بھی حضور انور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اکلوتے صاحبزادے صاحبزادہ مرزا وقا ص احمد صاحب کی شادی کا دن تھا۔ خوشی اور غمی کی ایسی لہروں پر ضبط کے پشتوں کا ایسا نظارہ یقینا اللہ تعالیٰ کی خاص اور بہت خاص مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ 
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جن پر با آسانی بہت سی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں تاہم آج میں نے ایک پہلو کا انتخاب کیا ہے۔اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حیرت انگیز یاد داشت اور اس کی وجہ سے تمام دنیا کے احمدیوں کے حالات سے باخبر رہنا ۔ یہ ایک ایسی غیر معمولی بات ہے کہ قریب رہنے والے یا بذریعہ خط و کتابت حضور سے رابطہ رکھنے والے احمدی احباب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سوائے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک انسانی ذہن میں دنیا میں بسنے والے ہزاروں لاکھوں کروڑوں افراد کا بائیو ڈیٹا کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہو۔ 
اس سے قبل ایک مضمون میں خاکسار نے لکھا تھا کہ مکرم و محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے نے ایک مرتبہ ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ میرے لئے ایک بات بہت حیران کن ہے کہ بعض خبریں صرف مجھے معلوم ہوتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ خوش خبری سب سے پہلے میں حضور تک پہنچائوں لیکن حیرت کی بات ہے کہ حضور کو پہلے سے اُس کا علم ہو جاتا ہے۔ خاکسار نے اس بات کا ذکر محترم منیرا حمد جاوید پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کیا کہ محترم امیر صاحب اس طر ح کہہ رہے تھے ۔ وہ یہ بات سن کر باقاعدہ ہنس پڑے کہنے لگے کہ میں جو بالکل ساتھ دفتر میں ہر وقت موجود ہوتا ہوں بعض اوقات مجھے اُن خبروں کا علم نہیں ہوتا میں حضور کو بتانے کے لئے جاتا ہوں۔ بہت سی باتوں کا حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پہلے سے علم ہو چکا ہوتاہے اور یہ خلیفۂ وقت کی اللہ تعالیٰ سے غیبی مدد ہے اور حضور انور کا جماعت احمدیہ کے افرادسے ذاتی تعلق ہے ۔
سب سے پہلے مَیں ایک بات تسلیم کرتا چلوں کہ ایک چھوٹے سے حلقے کے صدر جماعت کو بھی بعض اوقات مکمل طور پر علم نہیں ہوتا کہ اُس کے حلقے میں ہر فرد کا کیا نام ہے اور کس کے کیا حالات ہیں۔ جب کہ امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دنیا بھر کے دوسو سے زائد ممالک کے احمدیوں پر نظر ہوتی ہے اور وہ احمدیوں کی دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ خاکسار لندن کے ایک نواحی علاقے ایپسم جماعت کا صدر ہے۔ حال ہی میں ہمارے حلقے میں ایک فیونرل سروس (میت کو نہلانے اور تدفین کے انتظامات کرنے والی سروس) کا آغاز ہوا ہے جس کے عقب میں ہمیں ایک چھوٹا سا نماز سنٹر بھی بنانے کی سعادت مل گئی ہے۔ہم مجلس عاملہ کے سبھی ارکان روزانہ وہیں پر جمع ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک ملاقات میں خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو نماز سنٹر کی خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ وہاں فیونرل سروس بھی شروع ہو رہی ہے ۔ کچھ دنوں تک فیونرل سروس کا آغاز ہو جائے گا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اُس وقت ساتھ ساتھ کچھ اہم خطوط پر دستخط بھی فرما رہے تھے ۔ حضور انور نے اپنے اس کام میں مصروف رہتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وہاں پہلی سروس ہو بھی گئی ہے۔ عامر انیس کی اہلیہ کی میت وہیں لے جائی گئی تھی۔ اب کل پرسوں ڈاکٹر مقبول ثانی کی والدہ کی میت بھی وہیں لے جائی جائے گی ‘‘۔ میں نے کافی زیادہ حیرانی سے اور لفظ کو لمبا کر کے کہا ’’اچھا ‘‘۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’اچھا تو آپ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کو کچھ علم ہی نہیں ہے ‘‘۔ میں بہت زیادہ حیران ہوا کیونکہ ہم آ جکل زیادہ تر وہیں نماز سنٹر میں تھے اور ہمیں ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ یہاں سروس شروع ہو چکی ہے۔ جن دو احباب کا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ذکر فرمایا تھا میں سمجھتا تھا کہ وہ صرف میرے ہی پرانے دوست ہیں اس لئے مجھے اُن کے نام یاد ہیں۔
بہر حال اُسی روز ہمارے حلقے کی عاملہ کی میٹنگ تھی۔ ایک باخبر دوست کہہ رہے تھے کہ تین دنوں تک یہاں سروس شروع ہوجائے گی ۔ دو تین دوستوں نے کہا کہ نہیں ابھی ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ خاکسار نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا احباب ذرا رکیے۔ یہاں سروس شروع ہو چکی ہے اور یہ بات مجھے حضور سے معلوم ہوئی ہے ۔
اسی ملاقات میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ آپ کل جمعہ میں دوسری صف میں بیٹھے تھے اور زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے ؟‘‘ میں ششدر سا رہ گیا ۔ میں نے عرض کی حضور بالکل میں دوسری صف میں تھا۔ لیکن حضور کل تو اتفاق سے ایسے ہوا تھا کہ میں زیادہ وقت آپ کو ہی دیکھتا رہا تھا لیکن مجھے لگا تھا کہ آپ نے ہماری طرف کے لوگوں کو دیکھا ہی نہیں ۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مجھے آٹھویں صف تک میں بیٹھے لوگوں کا بھی پتہ ہوتا ہے کہ کون کون آیا ہوا ہے‘‘ 
  جہاں تک عاجزی و انکساری کی بات ہے آپ یقین کریں اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے زیادہ منکسرالمزاج کوئی نہیں دیکھا۔ دو مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ دورانِ گفتگو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں بڑا معمولی قسم کا بندہ ہوں۔
ایک موقع پر جب تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ایک تقریب تھی خوش قسمتی سے مجھے حضور کی قربت میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے کہا کہ حضور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بارہ سالوں سے میں دیکھ رہا ہوں ایک بھی جمعہ ایسا نہیں گزرا جب حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد نہ فرمایا ہو یعنی ہر جمعہ کا خطبہ اور نماز حضور نے پڑھائی ہے تو حضور کبھی آپکا گلا خراب یا کھانسی یا بخار نہیں ہوتا۔(دراصل اس معاملے میں ، میں خود بہت حساس ہوں۔ گرد و غبار ، سردی یا فرائیڈ چیزوں کی تصویر بھی دیکھ لوں تو سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ اس لئے مجھے پوچھنا پڑا ) تو میں نے پوچھا کہ حضور کبھی آپکا گلا خراب یا کھانسی یا بخار نہیں ہوا۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا میں معمولی قسم کا آدمی ہوں مجھے بھی سب کچھ ہوتا ہے میں ایک آدھ گولی کھا کے اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ پھر کچھ توقف کے بعد فرمایا ’’ میں مزدور قسم کا بندہ ہوں۔ تمہاری طرح نازک مزاج نہیں ہوں‘‘۔اللہ اکبر ۔ وہ جن کے لئے کروڑوں احمدی احباب جان دینے کے لئے تیار ہیں ، دنیا کی وہ واحد مسلمان راہنما شخصیت جس کے اعزاز میں کیلی فورنیا کی پولیس نے ساری ٹریفک رکوا دی تھی اور جن کی نماز کی ادائیگی کے لئے کینیڈا کی مملکت نے اپنی پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے کھول د ئیے تھے وہ فرماتے ہیں میں مزدور قسم کا بندہ ہوں۔ 
ایک مرتبہ حضورِ انور جلسے کے انتظامات کا معائنہ فرمانے کے لئے مسجد فضل، مسجد بیت الفتوح، اسلام آباد اور جامعہ احمدیہ یوکے کا دورہ کرنے کے بعد جب حدیقۃالمہدی تشریف لائے اور مختلف شعبہ جات کا معائنہ کرنے لگے تو میں بھی برکت کے لئے قافلے کے پیچھے پیچھے کچھ فاصلے سے چلنے لگا۔ کافی استقلال دکھایا لیکن ایک موقع پر میں تھک کر واپس آگیا ۔ اس کے کچھ دنوں بعد حضور سے ملاقات کا موقع ملا ۔ میں نے اتنا پیدل چلنے کے حوالے سے عرض کی حضور آپ تھکتے نہیں ہیں؟۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا’ ’ تھک جاتا ہوں میں کوئی لوہے کا تو نہیں۔ لیکن میں کام جاری رکھتا ہوں‘‘۔ 
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم ِ نو دیکھا ہے 
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
میں آ ج کے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں کہ کس طرح خط لکھنے والے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد رہ جاتے ہیں اور کس طرح انتہائی تفصیلی خطوط پر بھی حضور کی نگاہ بابرکت ہوتی ہے۔پچھلے دنوں ٹی آئی کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ کے کچھ طلباء نے مراکش جانے کا پروگرام بنایا۔ ٹکٹیں اور ہوٹل وغیرہ بُک کروانے کے بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ اس کے لئے تو حضور انور سے اجازت لینی چاہئے تھی۔ چنانچہ فوری طور پر سوچا کہ دیر سے ہی سہی لیکن اجازت کے لئے لکھ دینا چاہئے ۔ اگر اجازت نہ ملی تو ہر چند کہ ٹکٹیں نان ریفنڈیبل (Non-refundable) ہیں ہم نہیں جائیں گے۔ سو خاکسار نے پروگرام کی تفصیل لکھتے ہوئے اجازت اور دعا کی غرض سے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا۔ ساتھ لکھ دیا کہ ٹکٹیں بُک ہو چکی ہیں۔ پھر جب ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو خاکسار نے انتہائی ادب سے کہا کہ حضور ہم مراکش جا رہے ہیں اس کی اجازت کے لئے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا تھا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اجازت دے دی ہوئی ہے۔ خط آپ کو مل جائے گا ۔ ساتھ ہی انتہائی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا وہ آپ نے اجازت تو نہیں مانگی تھی ، فلائٹ بُک کرکے مجھے صرف اطلاع ہی دی تھی۔ خاکسار اندر سے لرز گیا لیکن اوپر سے وضع داری قائم رکھتے ہوئے مَیں نے کہا حضور ازراہ شفقت ایک بات بتائیے کہ آپ یہ خطوط اتنی تفصیل سے پڑھتے کس وقت ہیں کیونکہ میرا خط تو کافی تفصیلی تھا اور حضور کو تو میں صبح سے رات گئے تک مصروف دیکھتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا اس کو چھوڑیں آپ نے یہ لکھا تھا کہ نہیں کہ ٹکٹیں بُک کروالی ہیں ، اجازت عطا فرمائی جائے۔ خاکسار نے کہا حضور لکھا تو بالکل ایسے ہی تھا ۔ مجھے بہت زیادہ تعجب اس بات پر ہوا کہ وہی فقرہ جو میں نے لکھا تھا حضورِ انور نے وہی لفظاََ لفظاََ سنایا۔
پھر میں نے عرض کی کہ ہماری ایسوسی ایشن کے ممبران کی خواہش ہے کہ آئندہ تقریب میں سارے ممبران کی حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو کی سعادت حاصل ہو۔ قارئین اب حیرت انگیز بات سنئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے پچھلے سال گروپ فوٹو نہیں ہو سکی تھی۔ جب میں کار میں بیٹھنے لگا تھا تو آپ نے ذکر کیا تھا کہ گروپ فوٹو رہ گئی ہے۔ اللہ اکبر۔ کروڑوں افراد کے روحانی سربراہ ، دو سو سے زائد ممالک کے انتظامی اور تربیتی امور پر نظر رکھنے والے ، روزانہ پانچ وقت نماز پڑھانے اور ساتھ ساتھ ہزاروں خطوط دیکھنے والے ، اور دنیا بھر میں سفر کر کے وہاں کی پارلیمنٹ میں جا کر اسلام کے دعوت دینے والے ہمارے پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد تھا کہ پچھلے سال تقریب سے روانگی کے وقت جب حضور کار میں بیٹھنے لگے تھے تو ایک انتہائی معمولی سے شخص نے کہا تھا کہ حضور آج گروپ فوٹو رہ گئی ہے۔ سبحان اللہ۔ خدا تعالیٰ ہمارے پیارے امام کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرماوے۔
دعا کے لئے خطوط لکھنے والوں کو میں کہوں گا کہ کبھی تصور بھی نہ کریں کہ شائد میرا سارا خط حضور نہ پڑھیںیا شائد میرے خط پر حضور انور کی نظر ہی نہ پڑے ۔ جو بار بار خط لکھتے ہیں حضور انور کو اُن کے نام اور حالات تک یاد ہوتے ہیں۔ہر چند کہ ہر روز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ملنے والے خطوط کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے پھر بھی خط لکھتے وقت اس کامل یقین کے ساتھ لکھئے کہ حضور انور یہ خط پڑھیں گے اور خاص طور پر میرے لئے دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ حضور انور کی دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔ کبھی یہ ذہن میں نہ لائیں کہ اتنے بڑے بڑے خدمت گزاروں میں حضور کو مجھ جیسے نامعلوم شخص سے کہاں پیار ہوگا ۔ یا وہ میرا سارا خط شاید نہ پڑھیں۔ 
 گو کہ عاشق ہزاروں کھڑے ہیں اُدھر
 چشمِ تر ہم بھی جائیں گے اُس رہگزر
 ہم خطا کار ہیں جانتے ہیں مگر
 اُس کی پڑ جائے ہم پہ بھی شائد نظر
 آئو اُس سے ملیں آئو اُس سے ملیں
کے مصداق خلیفۂ وقت کی اپنے لئے محبت سے کبھی دستبردار نہ ہوں ۔ یقین کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھنے والوں کے نام کا پتہ ہوتا ہے اور یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون مجھے خط لکھتا ہے اور کون نہیں لکھتا۔ایک مرتبہ بیرون ملک سے آئے ایک دوست ملاقات کے لئے حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ملاقات کے بعد مجھے انہوں نے بتایا کہ دورانِ ملاقات میںنے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک قلم بطور تبرک عطا کرنے کی درخواست کی ۔ حضور انور نے قلم عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے کیا کرو گے۔ میں نے کہا حضور کو دعا کے لئے لکھا کروں گا۔ اس پر حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس نام کا خط پہلے تو مجھے کبھی نہیں ملا ۔ یہ دوست ملاقا ت کے بعد آنکھوں میں آنسو لئے بہت ندامت محسوس کر رہے تھے، کہنے لگے واقعی میں اس سلسلے میں بہت سست تھا اور کبھی خط نہیں لکھ پایا اب باقاعدگی سے لکھا کروں گا۔
اے چھائوں چھائوں شخص تری عمر ہو دراز
قارئین ایک بات خود میرے لئے ابھی تک معمہ ہے کہ حضو ر یہ خط پڑھتے کس وقت ہیں اور تفصیلی اور مختلف طرز تحریر میں لکھے گئے خطوط پر کیسے حضور کی نگاہ ہوتی ہے۔ ایک تفصیلی خط میں نے لکھا جس میں کوئی آٹھ دس باتیں تھیں۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ ہم محترم زرتشت منیر صاحب کے ساتھ ایک شام کر رہے ہیں حاضرین کے لئے ہم بریانی بنوا رہے ہیں۔ دیگر امور کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد تھا کہ ’’ صرف بریانی کیوں۔ اچھا کھانا بنوائیں ‘‘ ۔ 
میں نے جو لکھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ حضور انور یہ خطوط کس وقت پڑھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صبح سے لے کر نماز عشاء تک تو حضور انور کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ساری دنیا کے سامنے ہے۔ سارا دن نمازوں ،عبادت ، دفتری امور کے ساتھ ساتھ انتظامی امور سے متعلق راہنمائی لینے والے ملاقاتیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، شام کو کوئی بیس پچیس فیملیاں ملاقات کے لئے ہوتی ہیں ہر فیملی میں دو تین ممبر بھی ہوں تو چالیس پچاس ا فراد بن جاتے ہیں اُن سب کو حضور انور ملاقات کا شرف بخشتے ہیں اور یہ ملاقاتیں صبح سے لے کر شام گئے تک جاری رہتی ہیں۔پچھلے دنوں کی بات ہے کہ دن کے کوئی دس بجے کے قریب خاکسار حضور انور سے ملاقات کر کے واپس اپنے کام پر گیا ۔ شام کو پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے دفتر جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ اُسی طرح جاری ہے اور اب فیملی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ یہ ملاقات بھی عام ملاقات نہیں بلکہ ہر کوئی ایک نئی زندگی اور نئی عقیدتیں لے کر نکلتا ہے۔ کسی دنیاوی لیڈر سے اگر ہم روز ملیں تو شائد معمول کی بات بن جائے لیکن میں نے یہاں عجیب نظارے دیکھے ہیں۔ ہر وقت ساتھ رہنے والے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب بھی ہر مرتبہ ملاقات کے لئے دفتر اندر جانے سے پہلے ادب و احترام اور عقیدت سے سرشار لرز رہے ہوتے ہیں اور ہر ملاقات کے بعد حضور کے دفتر سے شاداب سے ہو کر باہر نکلتے ہیں اور ان کے چہرے سے طمانیت کا احساس واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ حضور سارا دن تو اس طرح انتظامی امور کی اور احمدی احباب سے معمول کی ملاقاتوں میں مصروف ہوتے ہیں حضور اتنی زیادہ تعداد میں خط روزانہ کس وقت پڑھتے ہوں گے ۔ جہاں تک میرا قیاس ہے حضور دفتری اور انتظامی امور کے خطوط دن کے وقت پڑھتے ہوں گے جبکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے وہ ذاتی خطوط جن میں احمدی احباب اپنے والدین سے زیادہ شفیق امام کو اپنے تمام تر حالات لکھ بھیجتے ہیں ممکن ہے وہ خطوط حضور دن بھر بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد رات گئے پڑھتے ہوں ۔ 
 قوم احمد جاگ تُو بھی جاگ اُس کے واسطے 
 ان گنت راتیں جو تیرے درد سے سویا نہیں
سو ہمیں چاہئے کہ ہم خود بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے خط لکھتے رہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ 
معزز قارئین آپ کو ایک اور بات بتاتا چلوں ۔ پچھلے سال کی بات ہے ۔ہماری تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ایک درخواست بھجوائی کہ اب سے تین ماہ بعد ہم ایک تقریب کرنا چاہ رہے ہیں جس میں حضور انور سے شرکت کی موٗدبانہ درخواست ہے۔ حضور انور نے اس خط پر ارشاد فرمایا کہ آپ تقریب کریںمیں شامل ہونے کی کوشش کرو ں گا۔ ہم نے تقریب کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اب تقریبا دو ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ خاکسار کو خوش قسمتی سے ملاقات کا موقع مل گیا ۔ میں نے عرض کی کہ حضور تقریب اب کچھ ہی دنوں میں ہے اورحضور انور نے ہم سے شرکت کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ سن کر مسکراتے ہوئے اپنے خط کے ہو بہو الفاظ فرمائے کہ میں نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ میں آئوں گا ۔میں نے تو یہ کہا تھا آپ تقریب رکھ لیں میں شامل ہونے کی کوشش کروں گا۔ خاکسار نے ملاقات کے بعد مجلس عاملہ کو بڑے افسردہ دل سے بتایا کہ ہر چند کہ میں نے اپنی بہترین کوشش کی لیکن تین ماہ کے بعد بھی حضور کو اپنے  الفاظ ہوبہو یاد تھے۔ اس لئے ٹوٹے دل کے ساتھ ہی سہی لیکن ہم نے پروگرام کی تیاری جاری رکھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری خوش قسمتی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہماری اس تقریب میں رونق افروز ہوئے اور ہماری حوصلہ افزائی کے لئے تقریباََ پچاس منٹ تک تشریف فرما رہے ۔ 
ایک مرتبہ کوئی سات آٹھ سال پہلے میں اچانک بہت بیمار ہوگیا۔ ہوا یوں کہ اپنڈکس Burst ہو گیا اور حالت غیر ہوگئی۔ تین دنوں کے بعد آپریشن ہوا اور ڈاکٹر کہنے لگے کہ زندہ بچ جانے پر حیرانگی ہے۔ ویسے مجھے بھی بیہوش ہوتے یہی لگا تھا کہ دنیا خدا حافظ۔ بہرحال ہسپتال جاتے ہوئے بھی اور وہاں سے بھی حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کا خط لکھا تھا۔  پھر صحت یاب ہونے کے بعد حضور کو لکھا کہ گھر آگیاہوں ۔ یہ خط لکھ کے ایک دوست کو دیا کہ مسجد پہنچا دو۔ کوئی بیس پچیس دنوں بعد اس’’ جلد باز‘‘ دوست سے ایک بازار میں ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے کہ خط دستی دینا ہے کہ پوسٹ کر دوں۔ میرے ہاتھ سے شاپنگ بیگ چھوٹتے چھوٹتے بچے۔ اُس کے کچھ دنوں بعد ایم ٹی اے کا ایک پروگرام تھا۔ خاکسار بھی ایک نظم پڑھنے کے لئے جب سٹیج پر جانے کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب سے گزرا تو حضور انور نے صحت سے متعلق دریافت فرمایا اور فرمایا کہ بیمار ہونے کی اطلاع دی تھی ۔ صحت یاب ہونے کا خط نہیں لکھا تھا۔ یہ سن کر مجھے بیماری کے دن کی مشکلات بھول گئیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بابرکت سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین۔ 
خدا سے یہ دعا کرو سدا یہ سائباں رہے 
سدا بہار کی طرح وفا کا گلستاں رہے 
چمن کا باغباں رہے
یہ جانتے ہیں آپ بھی اُسی میں آب و تاب ہے
شجر کے ساتھ جو رہے وہ شاخ کامیا ب ہے 
 وہ سبز ہے گلاب ہے
اُسی کے دم سے رونقیں اُسی سے یہ بہار ہے
امام وقت کے لئے یہ جان بھی نثار ہے 
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعا کے لئے لکھنے والے کبھی یہ خیال بھی نہ کریں کہ ہم نے جو کچھ خط میں لکھا ہے شائد وہ حضور انور کی نظروں سے نہ گزرے۔ امام وقت ایدہ اللہ کی ہر بات ہر قدم اور ہر نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اور نگاہ ِ یار وہ شے ہے جو ذرّے کو بھی زر کردے والا معاملہ ہے۔ اس لئے ہمیں دعا کے لئے ضرور لکھتے رہنا چاہئے بلکہ جہاں ہم پریشانیوں کے وقت دعا کے لئے لکھتے ہیں وہیں پر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم خوشی کی خبریں بھی لکھیں۔ اور کوئی بات نہ ہو تو یہ ہی لکھ دیں کہ میں خیرو عافیت سے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ باقاعدگی سے پانچوں نمازیں پڑھ رہا ہوں۔ آپ سب یہ بات مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ حضور کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ جب کوئی اپنے متعلق بتائے کہ میں نمازوں میں پابند ہوں۔ گزشتہ دنوں ایک حلقے کی مجلس عاملہ سے ملاقات کے دوران کا واقعہ ہے کہ حلقے کے صدر صاحب نے عرض کی کہ حضور ہم نے چندوں کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ خاکسار اس ملاقات میں نہیں تھا لیکن مولانا نسیم باجوہ صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ حضورانور نے یہ سن کر ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے نمازوں کی ادائیگی سے متعلق بتائیں۔ 
جرمنی کے ایک دوست بتا رہے تھے کہ ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو سوچ رہا تھا کہ اپنا تعارف کرواوں گا۔ لیکن میرے تعارف سے پہلے ہی حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے خط مجھے ملتے رہتے ہیں آپ کے دادا جان فلاں جگہ رہتے تھے آپ کے اباجان فلاں شہر میں کام کرتے تھے آپ کے چچا کی دکان وہاں ہوا کرتی تھی۔ وہ دوست کہنے لگے کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے باہر نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنا پیارا امام دیا ہے کہ آج میں اتنے برسوں بعد ملنے آیا ہوں تو مجھ جیسے گمشدہ آدمی کو بھی حضور نے پہچان لیا ہے۔
سٹوک میں رہنے والی میری خالہ زاد بہن جو کہ مکرم محمد افضل کھوکھر شہید گوجرانوالہ کی بیٹی اور محمد اشرف شہید کی چھوٹی بہن ہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پہلی بار ملاقات کے لئے جارہی تھیں۔ ملاقات کے بعد مجھے بتانے لگیں کہ ملاقات کے لئے جاتے وقت میں سوچ رہی تھی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تو مجھے جانتے بھی نہیں اس لئے از سرِ نو تعارف کروائوں گی۔ ملاقات کے چند لمحات کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ِ العزیز نے فرمایا کہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپکے سٹوک والے گھر بھی گیا ہوا ہوں۔ 
محترم رانا مبارک صاحب آف علامہ اقبال ٹائون (مرحوم) نے ایک دن بتایا کہ میں حضور سے ملنے گیا تو حضور نے فرمایا کہ لاہور کے فلاں صاحب کی صحت اب کیسی ہے۔ آپ نے اپنے خط میں اُن کے متعلق لکھا تھا کہ وہ آج کل بیمار ہیں۔رانا صاحب بعد میں دوستوں کو بتا رہے تھے کہ میرا دل باغ باغ ہو گیا یہ سوچ کر کہ حضور کو میرے خطوط یاد تھے اور تین چار ماہ کے بعد بھی حضور کو اُن بیمار ہونے والے صاحب کا نام یاد تھا جبکہ وہ صاحب لاہور میں بھی بڑے گمنام سے تھے۔
ایک واقعہ جو خاکسار پہلے ایک مضمون میں لکھ چکا ہے وہ دوبارہ لکھتا ہوں کیونکہ وہ اس موضوع سے متعلق ہے جو اس وقت چل رہا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ملاقات کی درخواست دی۔ حضور انور نے ارشاد فرمایا ابھی مصروفیت ہے اگلے ہفتے پتہ کر لیں۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اگلے ہفتے خاکسار نے پھر ملاقات کے لئے لکھا تو ارشاد ہوا کہ ابھی مصروفیت ہے پھر کبھی پتہ کریں۔خاکسار خاموش ہوگیا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ اس بات کو پانچ چھ ماہ گزرگئے۔ اس عرصے میں حضور انور نے کتنے لوگوں کو ملاقات کا شرف بخشا ہو گا ۔ اگر روزانہ یہ تعداد چالیس بھی ہو تو چھ ماہ میں مجموعی طور پر اندازاََ کوئی سات ہزار لوگ مل کر گئے ہوں گے ۔ اگر روزانہ خطوط کی تعداد پندرہ سو بھی لگائی جائے تو تقریباََ دو لاکھ ستر ہزار خطوط ملاحظہ فرما چکے ہوں گے۔ اسی دوران حضور انور نے یورپ کا دورہ فرمایا امریکہ بھی تشریف لے گئے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کو ملکی سطح پر پروٹوکول دیا گیا ۔بہرحال اتنے عرصے میں ، مَیں بھی یہ بات تقریباََ بھول گیا کہ میں نے ملاقات کے لئے لکھا تھا ۔ پھر خاکسار معمول کی فیملی ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو پیارے حضور نے خاکسار کا ہاتھ پکڑے پکڑے فرمایا کہ آپ نے کچھ مہینے قبل ملاقات کے لئے پوچھا تھا اُن دنوں میری مصروفیات بہت زیادہ تھیں ۔ بعد میں ، میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے پوچھا بھی تھا کہ کیا آپ نے ملاقات کے لئے پھر سے پوچھا ہے ‘‘۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ شفقت دیکھ کر دل نے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہا کہ اتنے ممالک کے دورے کے بعد بھی ایک معمولی خادم کے متعلق یاد رہا کہ اُسے ملاقات کا وقت نہیں دیا تھا۔سبحان اللہ ۔ 
  ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ بعض اوقات نام میرے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں اور پھر حضور سے ملاقات میں تو انسان ویسے بھی عقیدت و محبت میں بہت کچھ بھول جاتا ہے ۔ کہنے لگے حضور نے کہا آپ کے چچا جان کیسے ہیںکیا نام اُن کا ؟ کہنے لگے گھبراہٹ میں چچا کا نام میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ میں سوچنے لگا لیکن مجھ سے پہلے حضور نے میرے چچا کا نام لے لیا۔ کہنے لگے کہ ملاقات کے بعد میں نے چچا کو فون کیا کہ اس طرح ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کا نام لیا ہے۔ اُن کے چچا خوشی سے سرشار ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں زندگی میں صرف ایک بار حضور سے ربوہ میں ملا تھا اور حضور نے مجھ سے میرا نام پوچھا تھا۔
ہمارے بریڈ فورڈ والے محترم ڈاکٹر باری ملک صاحب نے ایک مرتبہ بتایا کہ حضور انور جب مہتمم بیرون مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی حیثیت میں یوکے کے دورہ پر تشریف لائے توان دنوں باری صاحب نارتھ ریجن کے ریجنل قائدمجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔حضور محترم میاں محمد صفی صاحب نیشنل قائد یو کے کے ہمراہ بریڈفورڈ تشریف لائے تو حضور نے کچھ دیر کے لئے باری صاحب کے گھر پر قیام فرمایا۔ خلافت کے بعد حضور انور جب پہلی بار بریڈفورڈ مسجد المہدی کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے تشریف لائے تو پہلے مسجد بیت الحمد تشریف لائے۔ باری صاحب حضور انور کو مسجد کے مختلف حصے ّ دکھا رہے تھے تواس دوران حضور نے محترم باری صاحب سے پوچھا کہ تم اب بھی اُسی گھر میں رہتے ہو جہاں میں آیا تھا ۔باری صاحب کہتے ہیں کہ حضور انور کی زبانی یہ بات سن کر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی ۔
پھر باری بھائی نے ایک اور بات بتائی کہ اُن کی دادی جان صاحبہ بہت اچھا ساگ بناتی تھیں اور دعا کی غرض سے ہم وہ ساگ کا سالن بزرگوں کے گھروں میں بھی بھجواتے تھے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی وہ ساگ کھایا ہوا تھا تاہم اس بات کو اب ایک بہت لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔اکتوبر 2004ء میں حضور انور نے واقفین زندگی احباب کی بریڈ فورڈ میں دعوت فرمائی۔ ہم نے بریڈفورڈ کے قریبی قصبہ الکلے کے ایک خوبصورت مقام پر اس دعوت کا انتظام کیا۔ باربی کیو کا انتظام تھا کسی گھر سے ساگ بھی بھجوایا گیا تھا ۔کھانے کے دوران کسی دوست نے بتایا کہ حضور خاکسار کو یاد فرما رہے ہیں۔ خاکسار خدمت میں حا ضر ہوا تو حضور انور نے فرمایا’’ یہ ساگ ویسا نہیں ہے جیسا آپ کی دادی جان صاحبہ پکایا کرتی تھیںاُس ساگ کا مزا ہی اور تھا۔‘‘ ۔ باری بھائی کہتے ہیں کہ خاکسار کو حضور انور کی زبان مبارک سے یہ بات سن کر انتہائی خوشی ہوئی اور حیرت بھی ہوئی کہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حضور انور کو یہ بات یاد تھی ۔
ایک بہت اہم بات جس کا میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب رہ کر مشاہدہ کیا ہے وہ یہ ہے کوئی بھی فرد حضور کی محفل میں چھوٹا نہیں ہوتا ۔ بلکہ حضور ازرہ شفقت ہر کسی سے اُس کے مزاج، علمی استعداد اور ہنر کے مطابق بات کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک ہی دن ملاقاتوں میں حضور سے ایک ملاقاتی پانچ ملین پائونڈ کے پراجیکٹ کے لئے راہنمائی لے رہا ہو اور ممکن ہے کہ اگلا ملاقاتی پانچ ہزار پائونڈ والے خدمت خلق کے منصوبے کی بات کر رہا ہو۔ ایک ملاقاتی سائنسدان ہو سکتا ہے اور دوسرا عام سا مزدور ، ہنر مند ہو سکتا ہے ۔ حضور کسی کو یہ احساس نہیں دلواتے کہ تمہارا یہ چھوٹا سا منصوبہ ہے کسی اور سے جا کر پوچھ لو۔ 
ایک مرتبہ اردو زبان کی ایک ادبی محفل میں مجھے دو چہرے ایسے نظر آئے جو میرے لئے اور باقی تمام حاضرین کے لئے اجنبی تھے اورجن سے متعلق مجھے گمان نہیں بلکہ یقین تھا کہ انہیں اردو نہیں آتی ۔ یہ چہرے ایسے تھے کہ ہمیں بطور انچارج ایک دوسرے سے پوچھنا پڑا کہ انہیں کون جانتا ہے۔ سب نے نفی میں جواب دیا ہاں ایک دو مربیان کرام نے بتایا کہ مخلص احمدی ہیں۔ ایک افریقن دوست تھے اور ایک غالباََ انڈونیشین۔ دوران پروگرام خاکسار نے عرض کی کہ حضور آج کی مجلس میں دو افراد ایسے بھی ہیں جنہیں اردو نہیں آتی ۔غالباََ وہ صرف حضور کے دیدار کے لئے بیٹھے ہیں۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے اُن دونوں احباب کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا یہ آپ سے اچھی اردو بول لیتے ہیں۔ محفل کشت زعفران بن گئی۔ پھر حضو ر انور نے افریقن دوست کو ارشاد فرمایا ۔ وہ افریقن صاحب اپنی نشست سے اُٹھے اور اردو میں کہنے لگے کہ مجھے اردو شاعری اچھی طرح سمجھ آتی ہے۔ انڈونیشین صاحب نے بھی اردو میں کوئی بات کر کے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک دو نہیں بلکہ دوسو سے زائد ممالک میں رہنے والے احمدی احباب حضور انور کی توجہ اور دعائوں کا اعزاز پاتے ہیں۔ اگر ہم عرب کے لوگوں سے ملیں تو وہ کہتے ہیں کہ حضور سب سے زیادہ پیار عرب لوگوں سے کرتے ہیں، یورپ والے کہتے ہیں کہ ہم جب چاہیں گاڑی نکالیں اور اگلے دن جا کر حضور کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ ہم جیسا خوش قسمت کوئی نہیں۔ایشین احمدی ویسے ہی حضور کو اپنا ہی سمجھتے ہیں، بنگلہ دیش والے تو بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہیں اور پھر افریقن احمدی احباب کے لئے حضور کی محبت سب سے سِوا معلوم ہوتی ہے۔ امریکہ کینیڈا، آسٹریلیا، غرض ہر قوم اور ہر خطے کے احمدی احباب حضور انور کی محبت، شفقت اور راہنمائی سے یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں ۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے بغیر ممکن ہے۔ ہر گز نہیں۔ 
اور اب مضمون کے اختتام پر میں وہ بات لکھنے لگا ہوں جس کی وجہ سے کل شام اس مضمون کو لکھنے کی تحریک ہوئی ۔کل شام یو نہی جب تنہائی میں ،میں نے پچھلے تیرہ سالوں کا جائزہ لیا تو یہ سوچ کر حیران رہ گیا ہوں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ بارہ تیرہ سالوں میں ایک مرتبہ بھی کسی خط میں ، ملاقات میں، کسی تقریب کے لئے یا کسی پروگرام کے لئے ’’نہیں ‘‘ نہیں کہا اور ازراہ شفقت اجازت ہی دی ہے ۔ اب اتنے سالوں بعد انکشاف ہوا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے کسی بھی احمدی کو ’’نہیں ‘‘ کہنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لئے جب سے اس حقیقت سے آگاہ ہوا ہوں کہ حضور کے لئے کسی کو ’’ نہیں ‘‘ کہنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اب سوچا ہے کہ امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے صرف اور صرف دعا ہی کرنی ہے اور صرف دعا کے لئے ہی کہنا ہے۔ 
شائد کوئی سوچ رہا ہو کہ میں نے تو بیٹے یا بیٹی کی شادی کی تقریب میں بڑی محبت و عقیدت سے دعوت دی تھی، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے معذرت آگئی تھی۔ بات یہ ہے قارئین کہ انتظامی امور کی بات بالکل مختلف ہے اور پوری دنیا ئے احمدیت میں نظام کو درست رکھنے کے لئے اور اجتماعی مفاد میں حضور انور کو ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں اور بہت سی تقاریب میں حضور شامل نہیں بھی ہوسکتے ۔ حضور انور کی مصروفیا ت کی ڈائری کئی کئی مہینے پہلے سے بھر ی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک آدمی ایک وقت میں دو جگہ نہیں ہو سکتا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کب کس کو وقت دیتے ہیں اور اس کی حکمت کیا ہے یہ ہم نہیں سمجھ سکتے ۔ کچھ سال قبل عیدالفطر کے بعد حضور مسجد بیت الفتوح میں سارے لوگوں کو یعنی چار پانچ ہزار مردوں کے پاس جا کر انہیں شرفِ مصافحہ بخش رہے تھے ۔ حضور تیز تیز چلتے ہوئے ہاتھ ملا کر آگے تشریف لے جاتے تھے ۔ پوری صف میں سے کسی ایک خوش قسمت شخص کے پاس رک کر ایک آدھی بات بھی فرماتے جو کہ یقیناً بہت بڑی خوش بختی تھی۔ مجھے بھی مصافحے کا شرف حاصل ہوا ۔ لیکن کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔ مجھ سے آگے تیسرے شخص کے پاس حضور کچھ لمحات کے لئے رُکے اُس کا حال احوال پوچھا۔ ویسے وہ شخص میری طرح ہی پریشان حال دکھائی دینے والا تھا سو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر کسی پریشان حال شخص سے ہی بات کرنی تھی تو وہ مَیں سب سے زیادہ موزوں تھا۔ کچھ دنوں بعد اتفاق سے اُسی اجنبی شخص سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے مبارکباد دی کہ عید کے روز اتنے لوگوں کو چھوڑ کر حضور نے آپ کا حال پوچھا۔ وہ دوست بتانے لگے کہ میری صحت اچھی نہیں رہتی ۔ میں نے کچھ عرصہ قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کا خط لکھا تھا۔ عید کے دن حضور مجھ سے میری صحت سے متعلق دریافت فرما رہے تھے ۔ 
بہرحال یہ تو چند ایک مثالیں ہیں جو میں نے بغیر کسی خاص ترتیب کے سپرد قلم کی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کے پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔برکات ِ خلافت سے متعلق آپ یقیناً بڑے بڑے ایمان افروز واقعات بھی پڑتے رہتے ہیں، بڑی بڑی زبردست تحریریں بھی پڑھتے ہیں کہ کس طرح دنیا بھر میں اللہ تعالیٰ خلافت کی برکت سے جماعت کو ترقیات عطا فرما رہا ہے لیکن ان بظاہر چھوٹے چھوٹے واقعات کو دیکھ کر بھی انسان یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج اگر دنیا میں امن کی کوئی ضمانت ہے تو وہ خلافت احمدیہ ہی ہے جس میں تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ خلیفہ وقت ہر ہر ملک اور ہر ہر شہر کے احمدیوں کے حالات پر نظر رکھتے ہیں اور سب کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اور ہر کسی کو یکساں طور پر براہ راست امام وقت کی راہنمائی میسر ہے۔ دنیا میں اس وقت کوئی دوسرا نظام ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا ۔
اس لئے ہمیں دعا کے لئے ہمیشہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھتے رہنا چاہئے ۔ یقینا ًآج کے دور میں امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہی ذات ہے جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ بطور خاص سنتا ہے اور اس کے گواہ ایک دو نہیں لاکھوں کروڑوں ہیں۔ اور ملاقات کو جانے والوں کو میں کہوں گا۔
وصال ِ یار کو جانا تو ہو کر با وضو جانا
مجسم باادب رہنا ، سرا پا آرزو جانا
نگاہِ یار وہ شے ہے جو ذرہ کو بھی زر کردے
اُٹھائے خاک سے اور شہر بھر میں معتبر کردے 
جو دانہ خاک میں ملنے کو بھی تیار ہوتا ہے 
وہی اک دن گلابوں کی طرح گلزار ہوتا ہے
جو عاشق جان دینے کے لئے تیار ہوتا ہے
اُسی کے بخت میں لکھا وصال ِ یار ہوتا ہے
عقیدت کے جلائے دیپ اُس کے روبرو جانا
وصال یار کو جانا تو ہو کے باوضو جانا
مجسم با ادب رہنا سراپا آرزو جانا
ایک مرتبہ میں ایک ملک سے مشاعرے میں شرکت کر کے لوٹا ۔ تین چار دنوں بعد ہی میری ملاقات تھی۔ میں نے سوچا کہ جا کر مشاعرے کی تفصیل بتائوں گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور میں فلاں ملک مشاعرے کے لئے گیا تھا۔ اس پر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا جی مجھے علم ہے فلاں فلاں شاعر کو داد ملی تھی آگے بتائو۔ میں نے عرض کی حضور بس میں دعا کے لئے حاضر ہوا تھا۔
انتخاب کے اگلے روز مجھے پاکستان سے ایک دوست کا فون آیا مبارکباد کے بعد کہنے لگا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انتہائی کم گو اور انتہائی سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں اور انتظامی امور میں دستور اور قوانین کی سختی سے پابندی کرنے اور کروانے والے ہیں۔ فون کے اختتام پر اُس نے دبے لفظوں میں یہ بھی کہا کہ قوانین اور دستور پر پابندی کے معاملے میں آپ کو سخت طبیعت کا کہا جاسکتا ہے۔
خاکسار نے ایک روز ملاقات میں اس دوست کی بات کا ذکر کیا کہ اُس نے کہا تھا کہ آپ کو سخت طبیعت کا کہا جاسکتا ہے۔ پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس پر بہت اور بہت مسکرائے اور دریافت فرمایا ’’ کون تھا وہ ‘‘؟ میں ہچکچاتے ہچکچاتے نام بتانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا تو حضور نے فرمایا ’’ چلیں نام رہنے دیں‘‘ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا ’’ اوہو بے چارہ۔ پتہ نہیں مَیں نے اُسے کیا کہا ہوگا اور اُس نے کیا سمجھ لیا ہوگا‘‘ ۔
( نوٹ۔ کوئی قاری یہ سمجھ سکتا ہے کہ شائد خاکسار ہر وقت حضور سے سوال ہی پوچھتا رہتا ہے۔ یاد رہے کہ اس مضمون میں لکھے گئے یہ چند ایک سوال گزشتہ بارہ تیرہ سالوں میں پوچھے گئے تھے جنہیںایک مضمون میں بیان کیا ہے) ۔

مکمل تحریر >>