دلچسب مکالمہ از جناب ارشاد احمد صاحب شکیب
چند دن ہوئے لائلپور میں میری ملاقات ایک ایسے صاحب سے ہوئی جو سابقہ جماعت اسلامی کے بڑے سرگرم اور فعال کارکن رہ چکے ہیں ۔ رسمی تعارف کے بعد احمدیت پر گفتگو شروع ہوگئی۔ انہوں نے یکدم احمدیت پر چند ایک اعتراضات کر ڈالے ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ قبل اس کے کہ میں آپ کے اعتراضات کا جواب دوں مجھے آپ یہ بتادیں کہ آپ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں یا کافر؟
جواب ۔ کافر
سوال ۔ اچھا تو بتائیے کہ آپ خود کیا ہیں؟ہندو ہیں ،سکھ ہیں، عیسائی ہیں، یہودی ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ؟
جواب ۔ انہوں نے دیکھاکہ میں نے سوال میں اور سب کچھ کہہ ڈالا مگر مسلمان نہیںکہا ۔ تو وہ بڑے تلملائے اور تلملاہٹ کو چھپاتے ہوئے فرمانے لگے کہ ہم مسلمان ہیں ۔
سوال۔ میں کیسے تسلیم کروں کہ آپ مسلمان ہیں آپ کی پیشانی پر تو لکھا ہوا نہیں کہ آپ مسلمان ہیں آخر ایک کافر کو آپ کے مسلمان ہونے کا کیسے پتہ چلے گا ۔؟
جواب۔ میں اسلام کا پیرو ہوں ،کلمہ پڑھتا ہوں ، قرآن مجید پڑھتا ہوں ،قرآن کو خدا کی الہامی کتاب اور آخری شریعت مانتا ہوں ۔ اور آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتا ہوں ۔ اس لئے مسلمان ہوں ۔
میں ۔ کیا ان باتوں کے ماننے سے کوئی شخص مسلمان ہو جاتا ہے ؟
وہ ۔ ضرور ہو جاتا ہے
میں ۔ میں تو نہیں مانتا کہ ان باتوں کے ماننے سے کوئی شخص مسلمان ہو جاتا ہے یہ سب تو پرانی باتیں ہیںکوئی نئی بات بتائیں ؟
وہ ۔ میں کون سی نئی بات بتائوں گا میں تو وہی باتیں بتائوں گا جو اسلام نے شرائط بتائی ہیں ۔
میں ۔ اچھا تو اتنااور بتا دیجئے کہ ان شرائط کوپورا کر کے فقط آپ ہی مسلمان ہو سکتے ہیں یا کوئی اور بھی کوئی دوسرا شخص بھی ہو سکتا ہے ؟
وہ ۔ جو بھی ان شرائط کو پورا کر ے وہ مسلمان ہو سکتا ہے ۔
میں ۔ تو لیجئے پھر مجھے مسلمان کر لیجئے میں آپ کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں ان سب باتوں پر ایمان لاتاہوں ؟
وہ ۔ کیا آپ آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین بھی مانتے ہیں ۔
میں ۔ جی ہاں ۔ضرور مانتا ہوں یہ تو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے ۔
وہ ۔ لیکن آپ لوگ خاتم النبیین کے ان معنوں پر ایمان نہیں لاتے جو ہمارے علماء کرتے ہیں؟۔
میں ۔ یہ بتائیے کہ قرآن مجید عربی میں نازل ہوا ہے یا اُردو میں ؟
وہ ۔ عربی میں
میں ۔ توپھر ہمیں قرآن مجید کے عربی الفاظ پر ایمان لانا چاہیے یا آپ کے علماء کے تراجم پر؟
اس پروہ لاجواب ہو گئے اور کہنے لگے کہ بھئی مان گئے کہ مرزائیوں سے دلائل کے ساتھ بات کرنا بہت مشکل ہے ۔
دو چار روز کے وقفہ کے بعد پھر انہی صاحب سے احمدیت کے موضوع پر گفتگو چھڑ گئی ۔ اور میں نے پوچھا کہ اب تو آپ ہمیں مسلمان سمجھنے لگ گئے ہوں گے؟ اس دوران ذرا ان سے بے تکلفی پیدا ہو چکی تھی ۔ اس لئے سنجیدہ منہ بنا کر فرمانے لگے کہ نہیں جناب ہم آپ کو اب بھی کافر ہی سمجھتے ہیں۔
میں ۔ ٹھیک ہے کہ آپ رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں جو چاہیں سمجھیں لیکن مجھے اتنا بتا دیں کہ کسی کو مسلمان یا کافر قرار دینا حق کس کا ہے؟
وہ ۔ علمائے اُمت کا
میں ۔ اچھا تو ہمیں اپنے مسلمان ہونے کا ایک سو ایک مرتبہ یقین ہے ۔ اور آپ کے کافر ہونے کا ایک سو دو دفعہ ۔
وہ ۔ (حیران ہو کر) یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
اس پر میں نے ایک ایسا پمفلٹ نکال کر اُن کے ہاتھ میں تھمادیا جس میں ۲۵ علماء نے مودودی صاحب کو ضال ، مضل، اور دجال قرار دیا ہے ۔ اورکہا کہ آپ چونکہ کسی کو کافر یا مسلمان ہونے کا حق علمائے امت کو دیتے ہیں تو علمائے اُمت کی رائے تو آپ کے متعلق یہ ہے ۔ باقی رہا ہمارا معاملہ تو ہمارے نزدیک یہ حق صرف خد ا اور اس کے رسول ؐ کا ہے اس لئے اپنے مسلمان ہونے کا ہمیں کامل یقین ہے ۔
اس دن سے انہوں نے کافر کہنا ترک کر دیا ہے ۔
( ماہنامہ الفرقان ، فروری 1961 ، صفحہ 41 )