اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ مرزا صا حب رمضان کا احترام نہ کیا کرتے تھے ایک بار امرتسر میں رمضان کے ایام میں تقریر کرتے ہوئے چائے پی اور ایک مرتبہ ایک مہمان روزہ کی حالت میں آپ کے پاس آیا جبکہ دن کا بیشتر حصہ گزر چکا تھا۔آپ نے اس شخص کا روزہ کھلوا دیا۔ان واقعات سے مرزا صاحب کی روزہ سے دشمنی اور ارکان اسلام کی بے حرمتی کا الزام لگایا جاتا ہے ۔
پہلا واقعہ جس کا معترض نے ذکر کیا ہے اس وقت آپؑ امرتسر میں مسافر تھے اور خدا تعالیٰ نے مسافر پر روزہ فرض نہیں کیا اسی طر ح دوسرا واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ آنے والا مہمان مسافر تھا اور مسافر کو خدا تعالیٰ نے روزہ رکھنے سے منع فرما یا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ مسافر کو رخصت دیتے ہو ئے فرما تا ہے:۔
مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
(البقرة 185)
ترجمہ :۔ جو بھى تم مىں سے مرىض ہو ىا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنى مدت کے روزے دوسرے اىام مىں پورے کرے
حدیث :۔ حدیث شریف میں ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلاَةِ ، وَعَنِ الْمُسَافِرِ وَالْحَامِلِ أَوِ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ
یعنی اللہ تعالیٰ مسافر پر روزے اور نصف نماز کا حکم اٹھا دیا ہے ۔
(مسند أحمد بن حنبل – (ج 4 / ص 347)
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ ، فَقَالَ : مَا هَذَا ؟ فَقَالُوا : صَائِمٌ. فَقَالَ : لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ
(صحيح البخاري کتاب الصوم باب قول النبي صلى الله عليه و سلم لمن ظلل عليه واشتد الحر ليس من البر الصوم في السفر )
ترجمہ :۔ یعنی آنحضرت ﷺ ایک سفر پر تھے ۔ اس دوران آپؐ نے لوگوں کا ہجوم دیکھا اور ایک شخص دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا اسے کیا ہوا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ روزہ دار ہے ۔ تو آپؐ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔
خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ ، فَرَفَعَهُ إِلَى يَدِهِ لِيُرِيَهُ النَّاسَ ، فَأَفْطَرَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ
(صحيح البخاري کتاب الصوم باب من أفطر في السفر ليراه الناس )
ترجمہ :۔ یعنی آنحضرت ﷺ مدینہ سے روزہ رکھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے مقام عسفان پر پہنچ کر حضورﷺ نے پانی منگوایا۔اور پھر پانی کو دونوں ہاتھوں سے اس غرض سے اونچااٹھایا کہ سب لوگ آ پ کو پانی پیتے ہوئے دیکھ لیں پھر آپ نے روزہ کھول دیا اور یہ واقعہ رمضان کے مہینہ میں ہوا۔
ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اس سنت سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی مسافر رمضان میں عام لوگو ں کے سامنے کھائے پیئے تو اس میں کوئی قابل ِ اعتراض بات نہیں اور اس پر عدم احترام رمضان کا خود ساختہ نعرہ لگانا جا ئز نہیں۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی امر تسر میں اپنے آقا کی اس سنت پر عمل فرمایا اور لوگوں کے سامنے سفر کی حا لت میں چائے پی لی ۔