حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم کے ساتھ آسمان پر جانا اور واپس آنا ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر کوئی دلیل قرآن اور حدیث سے نہیں ملتی اور یہی مصیبت آج کے علماء کو پریشان کرتی ہے چاہے وہ مقلد ہوں یا غیر مقلد ، دیوبندی ہوں یا بریلوی ، اہل حدیث ہوں یا شیعہ ، جب بھی کوئی شخص ان سے اس بارے میں قرآن یا حدیث سے دلیل مانگتا ہے تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں اور بات کو بدل دیتے ہیں ، ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جب ایک شخص بریلوی مسلک کے بانی مولانا احمد رضا خان کے بیٹے مولانا حامد رضا خان کے پاس آیا اور سوال کیا کہ
'' کوئی حدیث مرفوع متصل اس مضمون کی عنایت فرمائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بجسدہ العنصری و بحیات جسمانی آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور کسی وقت میں بعد حضرت خاتم النبیین ﷺ آسمان سے رجوع کریں گے اور اس دوبارہ رجوع میں وہ نبی نہ رہیں گے اور وہ نبوت یا رسالت سے خود مستعفی ہوں گے یا ان کو خدا تعالیٰ اس عہدہ جلالیہ سے معزول کر کے امتی بنا دے گا تو پہلے تو کوئی آیت بشروط متذکرہ بالا ہونی چاہیے اور بعد اس کے کوئی حدیث تا کہ ہم اس حالت تذبذب سے بچیں اور جو آیت ہو اس میں لفظ حیات ہو خواہ کسی صیغے سے ہو ۔ یہاں کئی صاحب ایسے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر گفتگو کرتے ہیں اور متوفیک و فلما توفیتنی دو آیت پیش کرتے ہیں اور ان دونوں آیتوں کا ترجمہ حضرت رسول خدا ﷺ و ابن عباسؓ سے پیش کرتے ہیں اور سند میں صحیح بخاری اور اجتہاد بخاری موجود کرتے ہیں ، اب آپ ان آیتوں کے ترجمےجو کسی صحابی یا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوں اور صحیح بخاری میں موجود ہوں عنایت فرمائیے اور دونوں طرف روایتیں ہر قسم کی موجود ہیں ہم کو صرف قرآن شریف سے ثبوت چاہیے جس کے تواتر کے برابر کوئی تواتر نہیں ہے ۔ ''
( جامع الفتاویٰ جلد دوم صفحہ ۱۹ ، مرتبہ مولانا محمد اسلم علوی قادری رضوی )
بس پھر کیا تھا مولانا حامد رضا خان بریلوی تو پریشان ہوگئے اور بات کو کیسے بدل گئے وہ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔