مجلس احرار جو کہ جماعت احمدیہ کے ہمیشہ سے سخت مخالف رہی ہے ، ان کے مشہور و معروف لیڈر چوہدری افضل حق بھی جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور تبلیغی جوش کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’آریہ سماج کے معرض وجو د میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا ۔جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔سو امی دیانندکی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لیے چو کنا کر دیا تھا مگر حسبِ معمول جلد ہی خواب گراں طاری ہو گئی۔مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پید ا نہ ہو سکی ہا ں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے آگے بڑھا۔ اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا۔ تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیداکر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔‘‘
(فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۶)
پھر اسی کتاب میں ایک جگہ کہتے ہیں :
’’سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔کس قدر حیر ت ہے کہ سارے پنجاب میںسوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کابھی تبلیغی نظام موجو دنہیں۔‘‘
( فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۱ )