Monday, 24 April 2017

اسلامی اصول کی فلاسفی




ایک صاحب سوامی سادھو شوگن چندر نامی جو تین چار سال تک ہندئوں کی کائستھ قوم کی اصلاح و خدمت کا کام کرتے رہے تھے ۱۸۹۲ ء؁ میں انہیں یہ خیال آیا کہ جب تک سب لوگ اکٹھے نہ ہوں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ آخر انہیں ایک مذہبی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز سوجھی۔ چنانچہ اس نوعیت کا پہلا جلسہ اجمیر میںہوا۔ اس کے بعد وہ ۱۸۹۶ء؁ میں دوسری کانفرنس کے لئے لاہور کی فضا کو موزوں سمجھ کر اس کی تیاری میں لگ گئے۔
سوامی صاحب نے اس مذہبی کانفرنس کے انتظامات کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ ماسٹردرگا پرشاد اور چیف سیکرٹری چیف کورٹ لاہور کے ایک ہندو پلیڈر لالہ دھنپت رائے بی ۔ اے ، ایل ایل بی تھے۔
کانفرنس کے لئے ۲۶؍ ۲۷؍ ۲۸؍ دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کی تاریخیں قرار پائیں اور جلسہ کی کارروائی کے لئے مندرجہ ذیل چھ موڈریٹر صاحبان نامزد کئے گئے۔
۱۔رائے بہادر بابو پرتول چند صاحب جج چیف کورٹ پنجاب
۲۔خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج سمال کاز کورٹ لاہور
۳۔ رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جموں
۴۔ حضرت مولوی حکیم نور الدینؓ صاحب طبیب شاہی
۵۔ رائے بھوانی داس صاحب ایم ۔ اے اکسٹر اسیٹلمنٹ آفیسر جہلم
۶۔ جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کمیٹی لاہور۔
             (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ’’ب‘‘ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷؁ء)
سوامی شوگن چندر صاحب نے کمیٹی کی طرف سے جلسہ کا اشتہار دیتے ہوئے مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ صاحبان کو قسم دی کہ اُن کے نامی علماء ضرور اس جلسہ میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان فرمائیں۔ اور لکھا کہ جو جلسۂ اعظم مذاہب کا بمقام لاہور ٹائون ہال قرار پایا ہے اس کی اغراض یہی ہیں کہ سچے مذہب کے کمالات اور خوبیاں ایک عام مجمع مہذبین میں ظاہر ہو کر اُس کی محبت دلوں میں بیٹھ جائے اور اُس کے دلائل اور براہین کو لوگ بخوبی سمجھ لیں۔ اور اس طرح ہر ایک مذہب کے بزرگ واعظ کو موقع ملے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائیاں دوسرے کے دلوں میں بٹھا دے اور سننے والوں کو بھی یہ موقع حاصل ہو کہ وہ ان سب بزرگوں کے مجمع میں ہر ایک تقریر کا دوسرے کی تقریر کے ساتھ موازنہ کریں اور جہاں حق کی چمک پاویں اُس کو قبول کر لیں۔
اور آج کل مذاہب کے جھگڑوں کی وجہ سے دلوں میں سچے مذہب کے معلوم کرنے کی خواہش بھی پائی جاتی ہے اور اس کے لئے احسن طریق یہی معلوم ہوتا ہے کہ تمام بزرگانِ مذہب جو وعظ اور نصیحت اپنا شیوہ رکھتے ہیں ایک مقام میں جمع ہوں اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں سوالات مشتہرہ کی پابندی سے بیان فرمائیں۔ پس اس مجمع اکابر مذاہب میں جو مذہب سچے پرمیشر کی طرف سے ہو گا ضرور وہ اپنی نمایاں چمک دکھلائے گا۔ اسی غرض سے اس جلسہ کی تجویز ہوئی ہے اور ہر ایک قوم کے بزرگ واعظ خوب جانتے ہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی ظاہر کرنا اُن پر فرض ہے۔ پس جس حالت میں اِس غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں تو خدا تعالیٰ نے ان کو اِس غرض کے ادا کرنے کا اب خوب موقع دیا ہے جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
پھر انہیں ترغیب دیتے ہوئے لکھا:۔
’’کیا میں قبول کر سکتا ہوں کہ جو شخص دوسروں کو ایک مہلک بیماری میں خیال کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اُس کی سلامتی میری دوا میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے وہ ایسے موقعہ میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے بلاتے ہیں وہ دانستہ پہلو تہی کرے؟ میرا دل اِس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کونسا مذہب درحقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس سچّے جوش کو بیان کر سکوں۔‘‘
اِس مذہبی کانفرنس یا جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں شمولیت کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندوں نے سوامی صاحب کی دعوت قبول کی اور دسمبر ۱۸۹۶ء کے بڑے دن کی تعطیلات میں بمقام لاہور ایک جلسۂ اعظم مذاہب منعقد ہوا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے کمیٹی جلسہ کی طرف سے اعلان کر دہ پانچ سوالوں پر تقریریں کیں جو کمیٹی کی طرف سے بغرض جوابات پہلے شائع کر دیئے گئے تھے اور اُن کے جوابات کے لئے کمیٹی کی طرف سے یہ شرط لگائی گئی تھی کہ تقریر کرنے والا اپنے بیان کو حتّی الامکان اس کتاب تک محدود رکھے جس کو وہ مذہبی طور سے مقدس مان چکا ہے۔
سوالات یہ تھے:۔
۱۔ انسان کی جسمانی، اخلاقی اور رُوحانی حالتیں۔
۲۔ انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی عقبیٰ۔
۳۔ دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟
۴۔ کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے؟
۵۔ علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟
        (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ’’ب‘‘  مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷؁ء)
اِس جلسہ میں جو ۲۶؍ دسمبر سے ۲۹؍ دسمبر تک ہوا سناتن دھرم ، ہندو ازم، آریہ سماج، فری تھنکر، برہمو سماج، تھیو سوفیکل سوسائٹی، ریلیجن آف ہارمنی، عیسائیت ، اسلام اور سکھ ازم کے نمائندوں نے تقریریں کیں لیکن ان تمام تقاریر میں سے صرف ایک ہی تقریر ان سوالات کا حقیقی اور مکمل جواب تھی۔ جس وقت یہ تقریر حضرت مولوی عبدالکریم  ؓ سیالکوٹی نہایت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ رہے تھے۔ اُس وقت کا سماں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کسی مذہب کا کوئی شخص نہیں تھا جو بے اختیار تحسین و آفرین کا نعرہ بلند نہ کر رہا ہو۔ کوئی شخص نہ تھا جس پر وجد اور محویّت کا عالم طاری نہ ہو۔ طرزِ بیان نہایت دلچسپ اور ہر دلعزیز تھا۔ اس سے بڑھ کر اس مضمون کی خوبی اور کیا دلیل ہو گی کہ مخالفین تک عش عش کر رہے تھے۔ مشہور و معروف انگریزی اخبار سول ملٹری گزٹ لاہور نے باوجود عیسائی ہونے کے صرف اِسی مضمون کی اعلیٰ درجہ کی تعریف لکھی اور اِسی کو قابلِ تذکرہ بیان کیا۔
یہ مضمون حضرت مرزا غلام احمدؐ صاحب قادیانی بانی ٔ جماعت احمدیہ کا لکھا ہوا تھا ۔اس مضمون کے مقررہ وقت میں جو دو گھنٹہ تھا ختم نہ ہونے کی وجہ سے ۲۹ ؍ دسمبر کا دن بڑھایا گیا۔ ’’پنجاب آبزرور‘‘ نے اس مضمون کی توصیف میں کالموں کے کالم بھر دیئے۔ پیسہ اخبار، چودھویں صدی، صادق الاخبار ، مخبر دکن و اخبار ’’جنرل وگوہر آصفی ‘‘ کلکتہ وغیرہ تمام اخبارات بالاتفاق اِس مضمون کی تعریف و توصیف میں رطبُ اللِّسان ہوئے۔ غیر اقوام اور غیر مذاہب والوں نے اس مضمون کو سب سے بالا تر مانا۔ اِس مذہبی کانفرنس کے سیکرٹری دھنپت رائے بی ۔اے، ایل ایل بی پلیڈر چیف کورٹ پنجاب کتاب ’’رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب‘‘ (دھرم مہو تسو) میں اِس تقریر سے متعلق لکھتے ہیں:۔
’’پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا ۔لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا۔ ڈیڑھ بجے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھرنے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پُر ہو گیا۔ اس وقت کوئی سات اور آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا۔ مختلف مذاہب و مِلَل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتدبہ اور ذی علم آدمی موجود تھے اگرچہ کُرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیّا کیا گیا لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤساء ، عمائد پنجاب، علماء ، فضلاء، بیرسٹر ، وکیل، پروفیسر ، اکسٹر ا اسسٹنٹ ، ڈاکٹر، غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے۔ اور ان لوگوں کے اس طرح جمع ہو جانے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدس تحریک سے ہمدردی تھی مصنّف تقریر اصالتاً تو شریک جلسہ نہ تھے۔ لیکن خود انہوں نے اپنے ایک شاگردِ خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مضمون پڑھنے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ اِس مضمون کے لئے اگرچہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی تھے۔ لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو تب تک کارروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جاوے۔ اُن کا ایسا فرمانا عین اہلِ جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشا کے مطابق تھا۔ کیونکہ جب وقتِ مقررہ کے گذرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دے دیا تو حاضرین اور موڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ جلسہ کی کارروائی ساڑھے چار بجے ختم ہو جانی تھی لیکن عام خواہش کو دیکھ کر کارروائی جلسہ ساڑھے پانچ بجے کے بعد تک جاری رکھنی پڑی کیونکہ یہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہوا اور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔‘‘   (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۷۹،۸۰ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷؁ء)
عجب بات یہ ہے کہ جلسہ کے انعقاد سے قبل ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کو حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ نے اپنے مضمون کے غالب رہنے کے لئے اﷲ تعالیٰ سے خبر پا کر ایک اشتہار شائع کیا جس کی نقل درجِ ذیل ہے۔
’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری‘‘
جلسۂ ٭اعظم مذاہب جو لاہور ٹائون ہال میں ۲۶؍ ۲۷؍ ۲۸ ؍ دسمبر ۱۸۹۶؁ء کو ہو گا۔ اُس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا۔ یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اُس کی تائید سے لکھا گیا ہے۔ اِس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور ربّ العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب سُنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اُس میں چمک اُٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اُس کے ہاتھ آ جائے گی۔ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزّہ ہے۔ مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اِس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نُور سے نفرت رکھتے ہیں۔ مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سُنیں شرمندہ ہو جائیں گی۔ اور ہرگز قادر نہیں ہو ں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اُس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو۔ میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مار گیا اور اُس کے چھونے سے اُس محل میں سے ایک نُور ساطعہ نکلا جو ارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اُس کی روشنی ہوئی۔ تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا۔ اَللّٰہُ اکْبَر خَرِبَتْ خَیْبَر اِس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلولِ انوار ہے۔ اور وہ نُورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں جن میں شرک اورباطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی۔ یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے۔ سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا۔ اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے۔ پھرمیں اُس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا۔ اِنَّ اﷲَ مَعَکَ اِنَّ اﷲَ یَقُوْمُ اَیْنَمَا قُمْتَ۔ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے۔ اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تُو کھڑا ہو۔ یہ حمایتِ الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے۔ اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا۔ ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کر کے اِن معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ اُن کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گے۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدی۔ 
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
         (مجموعہ اشتہار۔ جلدنمبر۱ صفحہ ۶۱۴،۶۱۵۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

  ٭  حاشیہ  سوامی شوگن چند صاحب نے اپنے اشتہار میںمسلمانوں اور عیسائی صاحبان اور آریہ صاحبوں کو قسم دی تھی کہ ان کے نامی علماء اس جلسہ میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں ضرور بیان فرمادیں۔ سو ہم سوامی صاحب کو اطلاع دیتے ہیں کہ ہم اس بزرگ قسم کی عزت کے لئے آپ کے منشا کو پورا کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمارا مضمون آپ کے جلسہ میں پڑھا جائے گا۔ اسلام وہ مذہب ہے جو خداتعالیٰ کا نام درمیان میں آنے سے سچے مسلمان کو کامل اطاعت کی ہدایت فرماتا ہے لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ آپ کے بھائی آریوں اور پادریوں صاحبوں کو اپنے پرمیشر یا یسوع کی عزت کا کس قدر پاس ہے اور وہ ایسے عظیم الشان قدوس کے نام پر حاضر ہونے کے لئے مستعد ہیں یا نہیں؟  منہ

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بطور نمونہ دو تین اخبارات کی آراء ذیل میں درج کر دی جائیں۔
سول اینڈ ملٹری گزٹ (لاہور) نے لکھا:۔
’’اِس جلسہ میں سامعین کو دلی اور خاص دلچسپی  میرزا غلام احمدؑ قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت و حفاظت میں ماہر کامل ہیں۔ اس لیکچر کے سُننے کے لئے دُور و نزدیک سے مختلف فرقوں کا ایک جمِّ غفیر اُمڈ آیا تھا۔ اور چونکہ مرزا صاحب خود تشریف نہیں لا سکتے تھے اس لئے یہ لیکچر اُن کے ایک لائق شاگرد منشی عبدالکریم صاحب فصیح سیالکوٹی نے پڑھ کر سُنایا۔ ۲۷؍ تاریخ کو یہ لیکچر تین گھنٹہ تک ہوتا رہا اور عوام الناس نے نہایت ہی خوشی اور توجّہ سے اس کو سُنا لیکن ابھی صرف ایک سوال ختم ہوا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر وقت ملا تو باقی حصہ بھی سُنا دوں گا اِس لئے مجلس انتظامیہ اور صدر نے یہ تجویز منظور کر لی کہ ۲۹؍ دسمبر کا دن بڑھا دیا جائے۔‘‘ (ترجمہ)
اخبار ’’ چودھویں صدی‘‘ (راولپنڈی )نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اِس لیکچر پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا:۔
’’ان لیکچروں میں سب سے عمدہ لیکچر جو جلسہ کی رُوح رواں تھا  مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے پڑھا یہ لیکچر دو دن میں تمام ہوا۔ ۲۷؍ دسمبر قریباً چار گھنٹے اور ۲۹؍ دسمبر کو دو گھنٹے تک ہوتا رہا ۔کل چھ گھنٹے میں یہ لیکچر تمام ہوا۔ جو حجم میں ۱۰۰ صفحے کلاں تک ہو گا۔ غرضیکہ مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لٹو ہو گئے۔ فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین کی طرف سے فرمائش کی جاتی تھی عمر بھر ہمارے کانوں نے ایسا خوش آئند لیکچر نہیں سُنا دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے سچ تو یہ ہے کہ وہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے عموماً سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم مَسْ کیا اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر اُس میں جاندار بات کوئی نہیں تھی۔ بجز مرزا صاحب کے لیکچر کے جو اِن سوالوں کا    علیحدہ علیحدہ مفصّل اور مکّمل جواب تھا اور جس کو حاضرین جلسہ نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سُنا اور بڑا بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا۔
    ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ اُن سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے۔ اور نہ کوئی سلیم الفطرت اور صحیح کانشنس اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دیئے اور تمام بڑے بڑے اصول اور فروعاتِ اسلام کو دلائلِ عقلیہ سے اور براہینِ فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزیّن کیا۔ پہلے عقلی دلائل سے الہٰیات کے مسئلہ کو ثابت کرنا اور اس کے بعد کلامِ الٰہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان دکھاتا تھا۔
   مرزا صاحب نے نہ صرف مسائلِ قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظِ قرآن کی فلالوجی اور فلاسوفی بھی ساتھ ساتھ بیان کردی۔ غرضیکہ مرزا صاحب کا لیکچر بہ ہیئت مجموعی ایک مکمّل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بے شمار معارف و حقائق و حکم و اسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفۂ الٰہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہلِ مذاہب ششدر رہ گئے کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا۔ اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے۔ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں میں امتیاز کے لئے اس قدر کہنا کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس طرح آ آ کر گری جیسے شہد پر مکّھیاں۔ مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اُٹھ جاتے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لیکچر بالکل معمولی تھا وہی ملاّئی خیالات تھے جن کو ہم لوگ ہر روز سُنتے ہیں۔ اس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے لیکچر کے وقت کئی شخص اُٹھ کر چلے گئے تھے۔ مولوی صاحب ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔‘‘
(اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی بمطابق یکم فروری ۱۸۹۷ء)
اخبار ’’جنرل و گوہر آصفی‘‘ کلکتہ نے ۲۴؍ جنوری ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں ’’جلسہ اعظم منعقدہ لاہور‘‘ اور ’’فتح اسلام‘‘ کے دوہرے عنوان سے لکھا:۔
’’پیشتر اس کے کہ ہم کارروائی جلسہ کی نسبت گفتگو کریں ہمیں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہمارے اخبار کے کالموں میں جیسا کہ اُس کے ناظرین پر واضح ہو گا یہ بحث ہو چکی ہے کہ اس جلسہ اعظم مذاہب میں اسلامی وکالت کے لئے سب سے زیادہ لائق کون شخص تھا۔ ہمارے ایک معزز نامہ نگار صاحب نے سب سے پہلے خالی الذہن ہو کر اور حق کو مدّنظر رکھ کر حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کو اپنی رائے میں منتخب فرمایا تھا جس کے ساتھ ہمارے ایک اور مکّرم مخدوم نے اپنی مراسلت میں توارداً اتفاق ظاہر کیا تھا جناب مولوی سید محمد فخر الدین صاحب فخر نے بڑے زور کے ساتھ اس انتخاب کی نسبت جو اپنی آزاد مدلّل اور بیش قیمت رائے پبلک کے پیش فرمائی تھی اُس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان، جناب سرسید احمد صاحب آف علی گڑھ کو انتخاب فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس اسلامی وکالت کا قرعہ حضرات ذیل کے نام نکالا تھا۔ جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی، جناب مولوی حاجی سید محمد علی صاحب کانپوری اور مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی، یہاں یہ ذکرکر دینا بھی نامناسب نہ ہو گا کہ ہمارے ایک لوکل اخبار کے ایک نامہ نگار نے جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مصنّف تفسیر حقّانی کو اس کام کیلئے منتخب فرمایا تھا۔‘‘
اِس کے بعد سوامی شوگن چندر کے اشتہار سے اُس حصّہ کو نقل کر کے جس میں انہوں نے علمائے مذاہب مختلفہ ہند کو بہت عار دلا دلا کر اپنے اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے طلب کیا تھا۔ یہ اخبار لکھتا ہے:۔
’’اِس جلسے کے اشتہاروں وغیرہ کے دیکھنے اور دعوتوں کے پہنچنے پر کِن کِن علمائے ہند کی رگِ حمیّت نے مقدس دینِ اسلام کی وکالت کے لئے جوش دکھایا اور کہاں تک انہوں نے اسلامی حمایت کا بیڑہ اُٹھا کر حجج و براہین کے ذریعے فرقانی ہیبت کا سکّہ غیر مذاہب کے دل پر بٹھانے کے لئے کوشش کی ہے۔
    ہمیں معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ کارکنانِ جلسہ نے خاص طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور سرسید احمد صاحب کو شریک جلسہ ہونے کے لئے خط لکھا تھا حضرت مرزا صاحب تو علالت طبع کی وجہ سے بنفسِ نفیس شریک جلسہ نہ ہو سکے۔ مگر اپنا مضمون بھیج کر اپنے ایک شاگردِ خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو اس کی قراء ت کے لئے مقرر فرمایا۔ لیکن جناب سرسیّد نے شریک جلسہ ہونے اور مضمون بھیجنے سے کنارہ کشی فرمائی۔ یہ اس بنا پر نہ تھا کہ وہ معمّرہو چکے ہیں اور ایسے جلسوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے ہیں۔ اور نہ اس بنا پر تھا کہ اُنہی ایّام میں ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد میرٹھ میں مقرر ہو چکا تھا بلکہ یہ اِس بنا پر تھا کہ مذہبی جلسے اُن کی توجہ کے قابل نہیں کیونکہ انہوں نے اپنی چٹھی میں جس کو ہم انشاء اﷲ تعالیٰ اپنے اخبار میں کسی اور وقت درج کریں گے صاف لکھ دیا ہے کہ وہ کوئی واعظ یا ناصح یا مولوی نہیں۔ یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے۔ جلسے کے پروگرام کے دیکھنے اور نیز تحقیق کرنے سے ہمیں یہ پتہ ملا ہے کہ جناب مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری، جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی نے اس جلسہ کی طرف کوئی جوشیلی توجہ نہیں فرمائی اور نہ ہمارے مقدس زمرۂ علماء میں سے کسی اور لائق فرد نے اپنا مضمون پڑھنے یا پڑھوانے کا عزم بتایا۔ ہاں دو ایک عالم صاحبوں نے بڑی ہمت کر کے مانحن فیھا میں قدم رکھا ۔مگر اُلٹا۔ اس لئے انہوں نے یا تو مقرر کردہ مضامین پر کوئی گفتگو نہ کی یا بے سروپا کچھ ہانک دیا۔ جیسا کہ ہماری آئندہ رپورٹ سے واضح ہو گا۔ غرض جلسہ کی کارروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اِس میدانِ مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے اور اس انتخاب کو راست کیا ہے جو خاص آپ کی ذات کو اسلامی وکیل مقرر کرنے میںپشاور۔ راولپنڈی۔ جہلم۔ شاہ پور۔ بھیرہ۔ خوشاب۔ سیالکوٹ۔ جموں۔ وزیر آباد۔ لاہور ۔ امرتسر۔ گورداسپور۔ لدھیانہ۔ شملہ۔ دہلی۔ انبالہ۔ ریاست پٹیالہ۔کپورتھلہ۔ ڈیرہ دون۔ الٰہ آباد۔ مدراس۔ بمبئی۔ حیدر آباد دکن۔ بنگلور وغیرہ بلاد ہند کے مختلف اسلامی فرقوں سے وکالت ناموں کے ذریعہ مزیّن بدستخط ہو کر وقوع میں آیا تھا۔ حق تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس جلسے میں 
حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلّت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا تعالیٰ کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اُس کو اِس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین 
مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اُٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔صرف اسی  قدر نہیںبلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ جو انتخابِ تیر بہدف کی طرح روزِ روشن میں ٹھیک نکلا۔ اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ بلکہ وہ ہمارے فخر و ناز کا موجب ہے اس لئے اِس میں اسلامی شوکت ہے۔ اور اِسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی ہے۔
اگرچہ جلسہ اعظم مذاہب کا ہند میں یہ دوسرا اجلاس تھا لیکن اِس نے اپنی شان و شوکت اور جاہ و عظمت کی رُو سے سارے ہندوستانی کانگرسو ں اور کانفرنسوں کو مات کر دیا ہے ہندوستان کے مختلف بلاد کے رؤساء اِس میں شریک ہوئے اور ہم بڑی خوشی کے ساتھ یہ ظاہر کیا چاہتے ہیں کہ ہمارے مدراس نے بھی اِس میں حصہ لیا ہے جلسہ کی دلچسپی یہاں تک بڑھی کہ مشتہرہ تین دن پر ایک دن بڑھانا پڑا۔ انعقاد جلسہ کے لئے کارکن کمیٹی نے لاہور میں سب سے بڑی وسعت کا مکان اسلامیہ کالج تجویز کیا لیکن خلقِ خدا کا اژدہام اس قدر تھا کہ مکان کی (وسعت)  غیر  مکتـفی ثابت ہوئی۔ جلسہ کی عظمت کا یہ کافی ثبوت ہے کہ کل پنجاب کے عمائدین کے علاوہ چیف کورٹ اور ہائی کورٹ الہ آباد کے آنریبل ججز بابو پرتول چندر صاحب اور مسٹر بینر جی نہایت خوشی سے شریک جلسہ ہوئے۔‘‘
یہ مضمون پہلے ’’رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب‘‘ لاہور میں من و عن شائع ہوا۔ اور جماعت احمدیہ کی طرف سے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے عنوان کے ماتحت کتابی صورت میں اس کے کئی ایڈیشن اردو اور انگریزی میں شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کا ترجمہ فرانسیسی ۔ ڈچ۔ سپینش۔ عربی۔ جرمن وغیرہ زبانوں میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اور اِس پر بڑے بڑے فلاسفروں اور غیر ملکی اخبارات و رسائل کے ایڈیٹروں نے بھی نہایت عمدہ ریویو لکھے۔ اور مغربی مفکّرین نے اس لیکچر کو بے حد سراہا۔  مثلاً
۱۔ ’’برسٹل ٹائمز اینڈ مرر‘‘ نے لکھا :۔  ’’یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں یورپ و امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا۔‘‘
۲۔ ’’سپریچوال جرنل‘‘ بوسٹن نے لکھا :۔ ’’یہ کتاب بنی نوع انسان کے لئے ایک خالص بشارت ہے۔‘‘
۳۔ ’’تھیا سوفیکل بُک نوٹس‘‘ نے لکھا :۔  ’’یہ کتاب محمد (صلعم) کے مذہب کی بہترین اور سب سے زیادہ دلکش تصویر ہے۔‘‘
۴۔ ’’انڈین ریویو‘‘ نے لکھا :۔ ’’اِس کتاب کے خیالات روشن، جامع اور حکمت سے پُر ہیں اور پڑھنے والے کے منہ سے بے اختیار اس کی تعریف نکلتی ہے۔‘‘
۵۔ ’’مسلم ریویو‘‘ نے لکھا:۔  ’’اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس میں بہت سے سچّے اور عمیق اور اصلی اور رُوح افزا خیالات پائے گا۔‘‘ 
(سلسلہ احمدیہ مؤلفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ ۶۹)
اس مضمون کی یہ خوبی ہے کہ اِس میں کسی دوسرے مذہب پر حملہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ محض اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور سوالات کے جوابات قرآن مجید ہی سے دیئے گئے ہیں اور ایسے طور پر دیئے گئے ہیں کہ جن سے اسلام کا تمام مذاہب سے اکمل اور احسن اور اتم ہونا ثابت ہو تا ہے۔
        خاکسار
جلال الدین شمسؔ
(تعارف از روحانی خزائن جلد ۱۰)

Click To Download : Islami Usool Ki Philosphy






0 comments: