Tuesday, 11 September 2018

حضرت امام حسین ؓ کا عظیم الشّان مقام




(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جون 1994ء بمقام بیت الفضل لندن)

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انورنے فرمایا۔
یہ مہینہ محرم الحرام کا ہے جس کی بہت سی فضیلتوں کا احادیث میں اور اسلامی لٹریچر میں ذکر ملتا ہے لیکن اس موقع پر آج کے خطبے میں حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺکے اہل بیت، آپؐ کی آل کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺکا وہ رشتہ ہے جس رشتے سے ہمارا خدا سے رشتہ بنتا ہے۔ پس آپ کی اولاد سے اس تعلق کا قائم نہ رہنا یا اولاد سے کسی قسم کا بغض، ان دونوں رشتوں کو کاٹ دیتاہے۔ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اولاد وہ اولاد نہیں تھی جس نے اپنا روحانی تعلق حضرت اقدس محمد رسول اﷲ ؐ سے قائم نہ رکھا بلکہ وہ اولاد تھی جس نے اس تعلق کے تقاضوں میں اپنی جانیں دے دیں اور عظیم ترین قربانیاں پیش کیں۔ پس اس پہلو سے وہ جس کے دل میں اہل بیت کا بغض ہے حقیقت میں اس کے دل میں محمد رسول اﷲؐ کا بغض ہے اور اسلام کا بغض ہے اور اس کی کوئی نیکی، حقیقی نیکی نہیں کہلا سکتی۔ یہ ایک طبعی حقیقت ہے کہ جس سے محبت ہو اس کے محبوب سے محبت ہو۔ جس سے محبت ہو اس سے جو محبت کرتے ہیں ان سے بھی تعلق قائم ہو اور یہ دونوں باتیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی بہت ہی پیاری اور مقدس بیٹی حضرت فاطمہؓ کی اولاد کو نصیب تھیں۔ان سے حضرت اقدس محمد رسول اﷲﷺ کو محبت تھی اور وہ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺسے محبت کرتے تھے اور پھر یہ خونی تعلق بھی تھا اس لئے کسی مسلمان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ آنحضورﷺکے اہل بیت سے دوری تو درکنار، اس کے وہم میں بھی یہ بات داخل ہو کہ میرا ان سے کسی قسم کا تعلق ٹوٹ سکتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس ایک گہری بے ساختہ محبت حقیقت میں اس کے ایمان پر گواہ ہو گی اور آنحضرت ﷺ سے پیار پر ایک ایسی پختہ اور دائمی گواہی دے گی کہ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس کے برعکس آنحضرت ﷺکی اولاد میں سے پیدا ہونے والے محبت کرنے والوں اور محبوبوں کا ذکر تو محبت سے کیا جائے مگر ان کا جن کا خونی رشتہ نہ بھی تھا مگر خونی رشتوں سے بڑھ کر انہوں نے اپنی جانیں آپؐ پر نثار کیں ان کا بغض سے ذکر کیا جائے، اگر ایسا ہو تو ایسے شخص کے ایمان کے خلاف یہ گواہی بھی بہت مضبوط اور ناقابل تردید گواہی ٹھہرے گی۔ پس حقیقی اور سچی بیچ کی راہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺسے جس نے، جس رنگ میں بھی، تعلق باندھا خواہ خون کا رشتہ تھا یا نہ تھا اس سے طبعی بے ساختہ دل میں پیار پیدا ہو۔ یہ سچی علامت ہے انسان کے ایمان کی اور آنحضور ﷺسے حقیقی وابستگی کی۔
آج عالم اسلام نہ جانے کن اندھیروں میں بھٹک رہا ہے کہ یہ دو محبتیں آپس میں پھٹ چکی ہیں اور ان دونوں کو ایک گھر میں جگہ نصیب نہیں۔وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اہل بیت سے محبت کے ساتھ آنحضور ﷺکے عشاق اور ان فدائیوں کا نفرت اور بغض سے ذکر کرنا بھی جزو ایمان سمجھتے ہیں جن کا ان معنوں میں خونی رشتہ نہیں تھا جن معنوں میں حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کا رشتہ تھا یا آپ کی اولاد کا تھااور اس طرح محبت میں زہر گھول دیتے ہیں اور اس کے برعکس وہ لوگ جو صحابہ کرامؓ کی عزت بلکہ گہری محبت اور عقیدت کو دل میں جگہ دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں اس کے ساتھ محرم کے دنوں میں شیعوں کے خلاف حرکت کرنا اور ان کی مجالس کو درہم برہم کرنا، ان کے جلوسوں میں مخل ہونا، یہ بھی ایک ایمان کا حصہ ہے اور وہ رشتے جو باہم جوڑنے کے لئے بہت ہی اہم کردار کر سکتے تھے جو تمام عالم اسلام کو ایک جگہ اکٹھا کرنے میں ایک بہت ہی مضبوط کردار ادا کر سکتے تھے ان کو اکٹھا کرنے کی بجائے باہم تفریق کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پس محرم کے دن وہ دن نہیں ہیں جن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج اہلِ بیت کی قربانیوں کی یاد میں تمام عالم اسلام اکٹھا ہو گیا ہے اور پہلی نفرتیں مٹ چکی ہیں، کوئی فرقے بازی کی تفریق باقی نہیں رہی، آج اس محبت کے صدقے ایک ہاتھ پر ایک جان کے نذرانے لئے ہوئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس آپ عجیب بات اخباروں میں پڑھتے ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ذکر سنتے ہیں کہ محرم آ رہا ہے۔ سخت خطرات ہیں، بڑی دشمنیاں ہوں گی، گلیوں میں خون بہیں گے، سر پھٹول ہو گی، ایک دوسرے کو گالیاں دی جائیں گی اور اسلام کے دو بڑے حصے یعنی شیعہ اور سنی اگر اس عرصہ میں گزشتہ محرم سے اب تک قریب آ بھی گئے تھے تو پھر دوبارہ ایک دوسرے سے ایسا پھٹیں گے کہ وہ نفرتوں کی یاد آئندہ محرم تک باقی رہے گی اس لئے حکومتوں کے ادارے الرٹ ہو رہے ہیں۔ بعض جگہ فوجوں کو بلایا جا رہا ہے، بعض جگہ پولیس کے Reserves کو حرکت دی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ نہایت خطرے کے دن ہیں۔ محبت سے خطرے ہیں؟ کیسے خطرے ہیں؟ محبت تو خطروں کو مٹا دیا کرتی ہے، محبت تو خطروں کے ازالے میں کام آتی ہے۔ پس دونوں جگہ محبت میں کوئی جھوٹ شامل ہو گیا ہے۔ دونوں جگہ نظریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں اور حقیقت حال کو دیکھنے سے کلیۃً عاری ہو چکی ہیں ورنہ ناممکن تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کی محبت آپؐ کے صحابہؓ اور آپؐ کے اہل بیت کے درمیان ایسی پھٹ جاتی کہ گویا ایک سے وابستگی دوسرے سے نفرت کے ہم معنی ہو جاتی۔ ایک سے نفرت دوسرے کی محبت کے مترادف ہو جاتی۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا اس لئے محمدرسول اﷲ ﷺکی محبت میں تو کوئی جھوٹ نہیں، ان محبت کے دعویٰ کرنے والوں میں ضرور جھوٹ ہے جو اس محبت کو یہ رنگ دیتے ہیں۔
پس میں تمام عالم اسلام کو ان احمدیوں کی وساطت سے جو اس خطبے کو سن رہے ہیں یہ پیغام دیتا ہوں کہ محرم کے دنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دلی محبت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا کریں اور سنیوں کا یہ کوئی حق نہیں کہ وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت میں جلوس نکالتے ہیں خواہ ان کی رسمیں پسند آئیں یا نہ پسند آئیں ان کے محبت کے اظہار میں کسی طرح مخل ہوں، ان پر پتھراؤ کریں، ان پر گولیاں چلائیں، ان پر گالیوں کی بارش کریں۔ یہ کیا انداز ہیں محبت کے۔ یہ تو دلوں میں گُھٹی ہوئی اور گھولی جانے والی نفرتیں ہیں جو ابل ابل کر باہر آ رہی ہیں۔ پس جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺکے عشق کو اور آپ ؐ سے سچی محبت کو تمام امت کو باہم باندھنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے اس وقت تک امت کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سب ہی حضور کی محبت کا دعویٰ کر کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے 72 حصوں میں امت کو تقسیم کرگیا اور آج تک ان کو ہوش نہیں آئی۔ پس جماعت احمدیہ کو آنحضورﷺکی محبت کا پیغام اس رنگ میں امت کو دوبارہ دینے کی ضرورت ہے جس رنگ میں پہلی بار دیا گیا تھا۔ قرآن کریم نے جو دلوں کے باندھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ اﷲ کی نعمت کے ساتھ باندھنے کا ذکر فرمایا ہے اور اﷲ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اﷲ ﷺتھے اور حقیقت یہ ہے کہ آپؐ ہی کی محبت نے ایک دوسرے کے دشمن قبائل کو یک جان کر دیا تھا۔ وہ جو ایک دوسرے کے جان کے دشمن تھے وہ بھائیوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر جان نثار کرنے والے دوست بن چکے تھے اور حضور اکرم ﷺکے وجود کو نکال کر اس کا تصور بھی پیدا نہیں ہو سکتا، ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پس اگرچہ محمد رسول اﷲﷺنے خود بالارادہ ایسا کام نہیں کیا مگر اﷲ نے آپؐ کی ذات میں آپؐ کی نعمت میں ایک ایسی غیر معمولی کشش رکھ دی تھی کہ ناممکن تھا کہ لوگ آپؐ کی ذات پر ایک مرکز کی حیثیت سے جمع نہ ہو جائیں۔ پس مرکز مدینہ نہیں تھا،مرکزمحمدرسول اﷲ ﷺتھے۔ مرکز مکہ نہیں تھا، مرکز محمد رسول اﷲ ﷺتھے۔ جہاں کہیں آپؐ جاتے تھے وہیں مرکز منتقل ہوتاتھا۔آپ بیٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپؐ کی ذات میں بیٹھتا تھا۔ آپ اٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپ ؐ کی ذات میں اٹھتا تھا اور یہی وہ نکتہ تھا جو صحابہؓ کے عشق نے ہمیشہ کے لئے ہم پر حل کر دیا کہ محمد رسول اﷲ ﷺکے مرکز سے محبت اور آپؐ کی ذات میں اکٹھے ہونے کا نام ہی اسلامی وحدت ہے اور یہی توحید کا پیغام ہے جو آج ہمیں سب دنیا کو دینا ہے۔ مگر محمد رسول اﷲﷺ کی امت کو پہلے دینا ضروری ہے کیونکہ سب سے زیادہ اس امت کا حق ہے کہ انہیں دوبارہ از منۂ گزشتہ کی یاد دلا کر، ان زمانوں کے واسطے دے کر جن زمانوں میں محمد رسول اﷲ ﷺکی اولاد بھی تھی، آپؐ کے صحابہؓ بھی تھے اور کسی کے دل پھٹے ہوئے نہیں تھے۔ وہ تمام صحابہؓ جب حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو دیکھتے تھے تو ان کی نظریں عشق اور فدائیت سے ان پر پڑتی تھیں۔ ان کے ذکر دیکھو کیسے کیسے پیار سے حدیثوں میں محفوظ کئے گئے۔ کس طرح صحابہؓ ان کو آنحضرت ﷺکے کندھوں پر سوار دیکھتے تھے، نماز میں سجدوں میں جاتے تھے تو اس طرح پیار سے ان کو اتار دیا کرتے تھے، کس طرح ساتھ کھیلتے اور حرکت کرتے اور لاڈ اور پیار کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ تمام صحابہؓ کی آنکھوں میں دل پگھل پگھل کر آ رہے ہیں۔ وہ طرز بیان بتاتی ہے کہ غیرمعمولی عشق تھا۔
پس وہی اہل بیت ہیں، وہی صحابہؓ ہیں، آنحضرت ﷺکے وصال کے بعد تمہیں کیا جنون کودا ہے کہ انہی اہل بیت اور صحابہؓ کو ایک دوسرے کے دل پھاڑنے کے لئے استعمال کرنے لگے ہو۔ وہ تو محبتوں کے پیغامبر تھے، عشق کے سمندر تھے، تم نے انہیں نفرتوں کے سمندر میں تبدیل کر دیا ہے۔ پس آج امت محمدیہؐ کو یہ باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ امت، امت محمدیہؐ کہلانے کی مستحق نہیں رہے گی۔ ابھی چند دنوں تک آپ دیکھیں گے کہ محرم کے جلوس کراچی میں بھی نکلیں گے، خیرپور میں بھی نکلیں گے، ملتان میں بھی نکلیں گے، بہاولپور میں بھی اور لاہور وغیرہ میں بھی اور ہر جگہ غیر معمولی طورپر پولیس کی طاقت دو نفرت کرنے والے سمندروں کے بیچ میں دیوار کی طرح حائل ہو گی اور پھر وہ یَبْغِیَان ہوں گے، وہ ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کریں گے اور ان دیواروں کو توڑ کر، ان کی نفرتیں پھلانگتی ہوئی دوسرے کے امن کو پارہ پارہ کر دیں گی اور ان کی زندگیوں کو زہر آلود کر دیں گی۔ یہ کیا دن ہیں اور ان دنوں کے کیا تقاضے ہیں؟ اور یہ کیا حرکتیں ہیں جو ان دنوں میں کی جا رہی ہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن پر ظالم ملّاں یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؑ نے نہ اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہؓ کی۔ ان کی اہل بیت کی عزتیں تو ہر روز برسرعام گلیوں میں پھرتی ہیں اور جو کچھ کسر رہ جاتی ہے وہ محرم کے دنوں میں طشت از بام ہو جاتی ہے۔ کچھ بھی لُکا چُھپا باقی نہیں رہتا۔ مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺاور آپؐ کے صحابہؓ اور آپؐ کے اہل بیت کے عشق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو پاکیزہ تحریریں ہیں ان پر مہریں لگائی گئی ہیں، ان پر تالے لگا دئے گئے ہیں۔ جو عشق کے اظہار ہیں انہیں اجازت نہیں کہ وہ گلیوں میں کھل کر نکلیں۔ جو نفرتوں کے پیغام ہیں وہ گلیاں ان کی ہیں، وہ صحن ان کے ہیں، جب چاہیں جس طرح چاہیں نفرتوں کا اظہار جس ملک میں چاہیں کرتے پھریں، یہ بڑا ظلم ہے، یہ ایک خود کشی ہے۔
پس آج کے خطبے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند تحریریں چنی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہی آج امت کا علاج ہے کہ ایک ہی زبان سے ایک ہی منہ سے صحابہؓ کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں اور اہل بیت کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں تا کہ پھر امت ان دو پاک ذرائع سے ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو جائے۔ یعنی محمد رسول اﷲ ﷺکے عشق میں، اور وہی مرکزیت اسلام کو دوبارہ نصیب ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسینؓ کو رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا تھا۔‘‘
یہ وہ عبارت ہے جس کو لے کر مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو امام حسینؓ کے خلاف کیسی سخت زبان استعمال کی ہے۔ رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا تھا، کہتے ہیں دیکھو حضرت محمدرسول اﷲ ﷺکی اولاد میں شمار نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبارت پوری پڑھتے تو ان کو پتا چلتا کہ اگلے فقرے میں یہ فرمایا کہ:
’’آیت خاتم النبیین بتا رہی ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ  کہ ’’کہ محمدؐ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں تو یہ اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ ہی نہیں، صحابہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جسمانی طور پر محمدؐ رسول اﷲ کا بیٹا ہواور ہر ایک وہ ہے جو روحانی طور پر آپ کا بیٹا بن سکتا ہے۔‘‘
پس یہ تفریق دور کرنے کے لئے ایسا عظیم نکتہ امت محمدیہ کے سامنے پیش فرمایا کہ تم خون کے رشتے سے ابنیت کی باتیں چھوڑ دو کیونکہ قرآن کریم نے ہر رشتے سے ابنیت کی باتیں ختم کر دی ہیں سوائے روحانی رشتے کے۔رسول کا رشتہ سب سے برابر کا رشتہ ہو جاتا ہے اور اس رشتے سے جو روحانی بیٹا بنے گا اس کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی اور جو روحانی بیٹا نہیں بنے گا ظاہری تعلق بھی اس کا کام نہیں آ سکتا۔
یہ وہ مضمون تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا اور ان ملانوں نے کیسے کیسے ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کے خلاف یہ غلط باتیں منسوب کیں کہ گویا نعوذ باﷲ من ذالک آپؑ کے دل میں نہ صحابہ کی عزت تھی نہ اہل بیت کی تھی۔ اب میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں بتاتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اہل بیت کا کیا مقام تھا اور صحابہ کا کیا مقام تھا۔ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت عیسیٰ ؑ اور امام حسینؓ کے اصل مقام اور درجہ کاجتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے۔‘‘
اب عیسیٰ ؑ اور امام حسین کا کیا جوڑ ہے۔ نبیوں میں اپنی جان کی عظیم قربانی پیش کرنے میں عیسیٰؑ کو ایک عجیب مرتبہ اور عجیب مقام حاصل تھا۔ نبیوں میں وہ ایک منفرد مقام ہے جو محمدرسول اﷲﷺ سے پہلے گزرے ہیں جس طرح، جس شان کے ساتھ حضرت عیسیٰ ؑنے حق کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کی ہے اور صلیب کی اذیتیں قبول کی ہیں۔ پس دیکھیں ایک عارف باﷲ کا کلام کس طرح ان باتوں کو جوڑتا ہے جس طرف ایک ظاہری نظر رکھنے والے کا تصور بھی نہیں جا سکتا۔ فرماتے ہیں:۔
’’عیسیٰ ؑاور امام حسینؓ کے اصل مقام ودرجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ وہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا دیں مگر وہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز یہ باتیں تحقیر سے نہیں کہہ رہے۔‘‘
ان کی تحقیر مراد نہیں بلکہ امرِ واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ مسیح کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے اور حسین کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے وہ ان کے سجدہ کرنے والوں کے دلوں پر بھی روشن نہیں اور سجدہ کرنا خود بتاتا ہے کہ مقام سے بے خبر ہیں۔ پس اسی فقرہ میں اپنے کلام کی تائید میں ایک محکم دلیل بھی داخل فرما دی۔ وہ شان کیاہے۔ فرماتے ہیں:۔
’’مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔‘‘
یہ ہے اعلان حق۔ کوئی پرواہ نہیں کہ سنی اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض ہوتے ہیں حالانکہ آپ اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے، اہل تشیع میں شامل نہیں تھے اور مقام تو در حقیقت دونوں سے بالا تھا کیونکہ آپ نے حکم عدل کے طور پر دونوں کے درمیان فیصلے کرنے تھے۔ پس آپ دنیا کے خوف سے بالکل مستغنی اور بالا تھے۔ فرماتے ہیں:۔
’’یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مؤمن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔ مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ اﷲ تعالےٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:۔
’’ قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا‘‘مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں۔‘‘
فرماتے ہیں:۔
’’دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اﷲ عنہ طاہر و مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے۔‘‘
یہ حضرت امام حسینؓ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مؤقف ہے اور ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ سچے دل کی آواز ہے جو بے ساختہ اور بلاتکلف دل سے بلند ہو رہی ہے:
’’سردارنِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور امام کی تقویٰ اور محبت الہٰی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔‘‘
اب دیکھیں ’’عملی رنگ‘‘ نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ زبان کے دعوؤں کی بات نہیں ہو رہی۔ زنجیروں سے سینہ کوبی کی بات نہیں ہو رہی۔ فرمایا ہے جو عمل سے اس سے محبت کرتا ہے اور اپنے عمل سے اس کی محبت کو سچا ثابت کر دیتا ہے یعنی حسین کے رنگ اختیار کرتا ہے وہی سنت اپنا لیتا ہے جو حسین کی سنت تھی۔ فرماتے ہیں:۔
’’کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہٰی کے تمام نقوش انعکاسی کے طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے۔‘‘
(ّمجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 544)
کون کون سے ہیں؟ ایمان، اخلاق، شجاعت یعنی بہادری، تقویٰ یعنی خدا خوفی اور اپنی بات پر صبر کے ساتھ قائم ہو جانا اور کسی مخالفت کی پرواہ نہ کرنا یعنی استقامت اور محبت الہٰی کے تمام نقوش اپنے دل پر منعکس کرتا ہے اور انہیں اپنا لیتا ہے۔ ’’جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوب صورت انسان کا نقش‘‘ اپنے اندر لے لیتا ہے۔ یہ اپنے اندر لے لیتا ہے کے الفاظ پہلے گزر چکے ہیں اب میں نے وہی مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ دہرائے ہیں جو اس فقرے کے شروع میں تھے:
’’یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے‘‘جو ویسا ہی دل رکھتا ہے ویسا ہی محبت الہٰی میں وہ پاک اور صاف کیا گیا ہے اور محبت کی آگ میں جلایا گیا ہے وہی ہے جو ان لوگوں کے حالات کو جانتا ہے۔ ان کے تجارب سے واقف ہے۔ غیر کی آنکھ، باہر سے دیکھنے والی، اس کی حقیقت کو پہچان نہیں سکتی۔
’’دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی تھی۔‘‘ اب دیکھیں کیسا عظیم نکتہ ہے اور یہ محبت اور معرفت کی آنکھ سے ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ مجلسوں میں پڑھا جانے والا نکتہ تو نہیں ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہی وجہ حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔‘‘
ایک سو سال کے شیعوں کے ماتم ایک طرف اور یہ فقرہ ایک طرف۔ کیسی حقیقت کی روح پر انگلی رکھ دی ہے۔ اس کی شہادت کی یہی وجہ تھی کہ حسینؓ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ مگر افسوس کہ جیسا کہ وہ کل شناخت نہیں کیا گیا تھا ویسا ہی آج بھی شناخت نہیں کیا گیا، ورنہ حسینؓ کے نام پر محمدؐ رسول اﷲ کے عشاق سے نفرتوں کی تعلیم نہ دی جاتی اور محمد رسول اﷲ ﷺکے عشاق حسینؓ کا عذر رکھ کر ان سے محبت کرنے والوں سے نفرت کی تعلیم نہ دیتے۔ پس شناخت کا جہاں تک معاملہ ہے خدا کے پیارے تو بعض دفعہ نہ اپنے وقت پر شناخت کئے جاتے ہیں نہ بعد میں شناخت کئے جاتے ہیں۔ مگر وہی ان کو شناخت کرتا ہے جو ویسا دل رکھتا ہے، ویسا مزاج اس کو عطا ہوتا ہے، ویسی ہی فطرت ودیعت کی جاتی ہے، وہی ہے جو حقیقت میں شناخت کا حق رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’ یہی وجہ حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسین رضی اﷲ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔‘‘ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی محبت نہیں کرتا۔حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکی زندگی میں آپؐ کے بڑے بڑے عشاق پیدا ہوئے۔ ہرنبی کے وقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی کچھ عشاق پیدا ہوئے مگر مراد یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ، قومی طور پر، بڑی تعداد میں، بہت بعد میں آنے والے محبت کی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ لوگ یا ان کے مزاج کے لوگ جو اس برگزیدہ کی زندگی میں، اس زمانے میں ہوتے ہیں وہ اس کو نہیں پہچانتے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق رکھنے والی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ تم وہی ہو جنہوں نے موسیٰ کو اذیتیں دیں، تم وہی ہو جو اس زمانے میں نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے حالانکہ وہ تو دو ہزار سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ، وہ کیسے ہو گئے۔ مراد یہ ہے کہ تم ایسے لوگ ہو کہ تمہاری سرشت ایسی ہے۔ اگر تم اس زمانہ میں ہوتے تو وقت کے مقدس انسان کو پہچان نہ سکتے اور ضرور اس کی دشمنی میں اس کی عزت اور جان کے در پے ہو جاتے لیکن اب تم اس کی محبت کی باتیں کرتے ہو۔ توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ جب برگزیدہ لوگوں کی زندگی میں اس وقت سے حصہ پاتے ہیں تو کبھی ان کو پہچان نہیں سکتے اور جب وہ وفات پا جاتے ہیں یا ویسے کسی وجہ سے ان سے دور ہٹ جاتے ہیں، زمانے بدل جاتے ہیں، اس وقت پھر یہ ان کی محبت کے گیت گاتے اور ان کے نام کو اچھالتے ہیں۔
’’ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اﷲ عنہ اس شخص کی یا کسی بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اﷲ جلّشانہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔جو شخص مجھے بُرا کہتا یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہٰی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت سمجھتا ہوں ۔‘‘
فرمایا جو مجھے برا سمجھتا ہے، مجھ پر لعن طعن کرتا ہے اس کا بدلہ میں معصومین سے نہیں لیتا اور شوخی کے طور پر ان پر اپنا غصہ اتارنا ایک سخت لعنت کی بات سمجھتا ہوں، سخت براسمجھتا ہوں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اﷲ عنھما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الھدیٰ تھے (یعنی ہدایت کے اماموں میں سے تھے) اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کی رو سے آنحضرت ﷺ کی آل تھے۔ خون کے لحاظ سے بھی آل تھے اور روحانی وراثت کے لحاظ سے بھی آل تھے۔ لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے۔ تعجب کہ اعلیٰ قسم امام حسن اور امام حسین کے آل ہونے کی اور کسی کے آل ہونے کی جس کی رو سے وہ آنحضرت ﷺکے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اس کا تو کچھ ذکر نہیں کرتے اور ایک فانی رشتے کو بار بار پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
یہ وہ نقص ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی محبت رکھنے والوں کے تعلق میں بیان فرما رہے ہیں کہ ان کو اس پہلو سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ ان دونوں کا مرتبہ جس کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺنے ان کو روحانی طور پر بہت اعلیٰ مراتب پر فائز فرما دیا وہ روحانی تعلق کی بنا پر تھا نہ کہ جسمانی رشتے کی بنا پر۔ آپؐ نے فرما دیا، سے یہ مراد ہے کہ آپؐ نے ان کے اعلیٰ مراتب کی نشاندہی فرمائی اور ان کی شان میں بہت ہی پاکیزہ اور مقدس خیالات کا اظہار فرمایا۔ان کو ان اعلیٰ مراتب پر فائز تو خدا نے فرمایاتھا مگر حضرت محمدؐ رسول اﷲ کی زبان سے ہم نے اس کا ذکر سنا اس لئے آپؐ جب کہتے ہیں کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے تو بلا شبہ یہ اﷲ کا کلام ہے جوحضرت محمد رسول اﷲ ﷺپر نازل ہوا ہے ورنہ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺاپنی طر ف سے تو کسی کو سردارِ بہشت نہیں بنا سکتے تھے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپؐ کی نظر ان کے روحانی مراتب پر تھی، ہرگز اس بات پر نہیں تھی کہ چونکہ میری بیٹی کی اولاد میں سے ہوں گے یا بیٹی کی پشت سے پیدا ہوں گے اس لئے یہ سردارِ بہشت ہیں۔ پس ان کا سردارانِ بہشت ہونا بتاتاہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کا روحانی ورثہ پایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں اس اعلیٰ بات کا ذکر تم نہیں کرتے اور محرم کے موقع پر یا ویسے مجالس میں خونی رشتے کی باتیں کرتے چلے جاتے ہو۔ اگر ایسا کرو گے تو دوسرے روحانی ورثہ پانے والوں کی طرف بھی محبت کی نگاہ پڑے گی، نفرت کی نگاہ ان پر نہیں پڑ سکتی۔ یہی وجہِ تفریق ہے۔ یہی بیماری ہے جس کی نشان دہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی اور جس طرف اب توجہ کرنا ضروری ہے۔
تمام شیعوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنی مجالس میں جتنا چاہیں محبت کا اظہار کریں مگر اگر روحانی تعلق سے ایسا کریں تو پھر وہی روحانی تعلق کی باتیں ان کو حضرت ابوبکرؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی، حضرت عثمانؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی، حضرت عمرؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی۔ تمام صحابہؓ کے لئے ان کے دل میں محبت کے سوا اور کچھ نہیں رہے گا لیکن چونکہ جسمانی رشتے پر زور دیا جاتا ہے اور اس پہلو سے صحابہؓ کو کلیۃً حضرت محمد رسول اﷲ ﷺسے جدا دکھایا جاتا ہے گویا ایک الگ قوم ہے جس کا آپؐ سے اور آپؐ کے مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے یہ نفرتیں رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں جا گزیں ہوئیں اور پھر بڑھتی چلی گئیں یہاں تک کہ بغضِ صحابہ ان کے ایمان کا حصہ بن گیا اور اس نے پھر یہ رد عمل دکھایا کہ سنّیوں میں بھی سپاہ صحابہ جیسی چیزیں پیدا ہوئیں جن کے اعلیٰ مقاصد میں شیعوں کا خون بہانا اس طرح داخل ہو گیا جیسے اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد صحابہؓ کے دلوں میں داخل تھا۔ صحابہؓ کے دلوں میں اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والوں کے مقابل پر جہاد کا ایک جوش پایا جاتا تھا لیکن یہ ایک دفاعی جہاد تھا، اس میں نفرتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ان نفرتوں کے خلاف جہاد تھا جن نفرتوں کا صحابہؓ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن جو آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ بالکل برعکس قصّہ ہے سپاہِ صحابہ کے دل میں شیعوں کی نفرت ہے جو موجزن ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شیعوں میں سے کسی کا قتل یا ان میں سے کسی مجلسی کا قتل کرنا نہ صرف یہ کہ اﷲ کے حضور ان کے لئے اعلیٰ مراتب کا ضامن ہو جائے گا بلکہ بعض ان میں سے مولوی یہ بیان کرتے ہیں کہ تم اگر ایسا کرو گے اور اس کوشش میں تم مارے جاؤ تو تم سردارانِ بہشت میں سے شمار ہو گے۔ تم دیکھنا کہ کیسے کیسے پاک وجود تمہارے استقبال کی خاطر جنت کے دروازوں تک آتے ہیں۔ ایسے ایسے لغو قصے بیان کئے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان قصوں کے ماننے والے دماغ کس قسم کے ہوں گے، مگر ہمارے ملک میں بد قسمتی سے جہالت بہت ہے اور یہی جہالت ہے جو اس تفریق کو مزید ہوا دے رہی ہے اور ان فاصلوں کو بڑھا رہی ہے۔ 
پس محرم میں محبت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے اور جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے حقیقت یہ ہے کہ اول زور روحانی تعلق پر دینا ضروری ہے اور پھر جسمانی طور پر اگر تعلق ہے تو اس تعلق میں اضافہ ہو گا، کمی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جسمانی تعلق سونے پر سہاگے کا کام دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے روحانی تعلق قائم ہو اور روحانی تعلق پر زور دیا جائے پھر زائد کے طور پر جب جسمانی رشتہ دکھائی دے گا تو لازمًا سب کو محبت ہو گی۔
پس سنّیوں کو بجائے اس کے کہ نفرتوں کی تعلیم دیں اور ان کے جلوسوں پر حملہ آور ہوں اور طرح طرح سے ان کی راہیں روکیں یا کاٹیں یا ان پربم پھینکیں یا زبان سے گندی گالیوں کی گولہ باری کریں۔ ان کا فرض ہے کہ ایسے موقع پر ان سے بڑھ کر صحابہؓ کے عشق کی باتیں کیا کریں اور ان میں حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکے اہلِ بیت کو جو صحابہ کا مرتبہ بھی رکھتے تھے، روحانی وارث بھی تھے اور روحانی وارثوں میں بھی بہت بلند مقام پر فائز تھے ان کا ذکر بھی کریں اور دوسرے صحابہؓ کا ذکر بھی کریں۔ صدیقوں کا ذکر بھی کریں اور شہیدوں کا ذکر بھی کریں اور کثرت سے درود اور سلام کی مجلسیں لگائیں اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو یہی دن کتنی برکت کے دن بن سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دونوں طرف سے ان دنوں کو، نفرتیں پھیلانے کے لئے استعمال کیاجائے، دونوں ایک دوسرے کی نیکی کی باتوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور یہ بتائیں دنیا کو کہ ہم محمد رسول اﷲ ﷺکے عشاق سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ ہم اہل بیت سے دوسروں کی نسبت زیادہ پیار رکھنے والے ہیں۔ اہل بیت کے ترانے اگر سارے سنّی گانے شروع کر دیں توشیعوں کی آواز کو اس آواز میں ڈبو سکتے ہیں اور زیادہ عشق کے ترانے گائیں، ان سے بلند تر آواز میں اور ان کو بتائیں کہ محبت کی باتیں ہی کافی ہیں نفرت کی باتیں بیان کرنا ضروری نہیں۔ پس اس موقع کا اصل علاج یہ ہے۔
نہ پولیس علاج ہے نہ فوج علاج ہے، یہ علاج کتنے سالوں سے تم کرتے چلے آ رہے ہو۔ آج تو کہہ دیتے ہو کہ ’را‘ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، ہندوستان کے ایجنٹ ہیں جو یہ کام کروا رہے ہیں۔ کل تم کہا کرتے تھے کہ قادیانیوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ احمدی ایجنٹ ہیں جو کروا رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی یہی ہوا اور ضیاء کے زمانے میں تو باقاعدہ دستور بن گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا احمدیوں کی نگرانی کرو۔ بڑی سختی کے ساتھ تمام تر جاسوسی ان کے لئے وقف کر دو کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ محرم کے موقع پر احمدی شیعوں اور سنّیوں میں فساد برپا کریں گے اور ظلم کی حد، ہر دفعہ توجہ دشمن سے ہٹا کر دوستوں کی طرف کر دی جاتی۔ ساری احمدیت کی تاریخ اس بات کو جھٹلا رہی ہے اور کئی پولیس افسران ان تحریروں کو پڑھ کر یہ کہا کرتے تھے اور بعض احمدیوں کے سامنے بات بیان کی کہ ہماری حکومت پتا نہیں پاگل ہو گئی ہے، ان کو پتا نہیں کہ احمدیوں کا مزاج ہی یہ نہیں ہے۔ کبھی ہوا ہے آج تک کہ ان کی سو سالہ تاریخ میں کہ احمدیوں نے فساد برپا کئے ہوں؟ ایک پرامن جماعت ہے، ان کے خلاف فساد ہوئے ہیں، درست ہے لیکن آج تک ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ نے کبھی دوسروں میں فساد کے خیالات پھیلائے ہوں یا کسی طرح فساد پھیلانے میں کسی قسم کا دخل ہی دیا ہو۔ کامیابی تودور کی بات ہے۔ کہتے ہیں اشارۃً یعنی بعض پولیس افسران کی بات کر رہا ہوں انہوں نے اپنی لمبی سروس کا حوالہ دے کر کہا کہ میں جانتا ہوں اس لمبے زمانے میں جو پولیس میں سروس کی ہے اور میں حلف اٹھا سکتا ہوں اس بات پر کہ احمدی مزاج میں فساد کرانا داخل نہیں۔ کبھی مجھے آج تک کسی احمدی میں بھی اشارۃً یہ بات دکھائی نہیں دی۔ تو کرتے کیا تھے، جنہوں نے شرارت کرنی ہوتی تھی ان پر سے توجہ ہٹا کر جو شرارت کے خلاف ہوا کرتے تھے ان کی طرف توجہ مرکوز کر دیا کرتے تھے اور پھر ان کو فساد کی کھلی چھٹی تھی جو ان میں فساد کر رہے تھے۔ زیر نظر احمدی ہیں اور فساد کرانے ہیں یا شیعوں نے یا سنّیوں نے اور وہ پھر کھلم کھلا اپنی سازشیں کرتے اور فساد کرتے اور فسادوں کے بعد ایک دفعہ بھی ان دشمن حکومتوں کو ایک ادنیٰ سی بات بھی ہاتھ نہ آئی کہ ثابت کر سکیں کہ یہ فساد احمدیوں نے کروایا تھا۔ مجھے یاد ہے انہی دنوں میں جب یہ کہا کرتے تھے کہ احمدیوں سے متنبہ رہو۔ کراچی میں ساری پولیس کی توجہ احمدیوں کی طرف تھی اور ادھر کراچی میں شیعوں کے امام باڑے جل گئے۔ شیعوں کو ان کے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تو کون لوگ گئے تھے وہاں۔ کیا کوئی احمدی تھا؟ تحقیق نے کیا ثابت کیا تھا کہ احمدیوں کا کوئی دور سے بھی اس بات سے تعلق نہیں ہے۔ 
پس جب ایک قوم جھوٹ بولنے کی عادی ہو جائے اور عملًا جھوٹ کی پرستش کرنا شروع کر دے تو جھوٹ کی ساری تدبیریں اپنے ہی خلاف الٹا کرتی ہیں۔ احمدی تو امن پیدا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور احمدیوں سے آپ کبھی فساد کی بات نہیں دیکھیں گے۔ اب آپ کہتے ہیں ’را‘ نے ایسا کیا۔ اب ’را‘ کیسے وہ دشمنیاں دلوں میں پیدا کر سکتی ہے جو تاریخ کے سینکڑوں سال گواہ ہیں کہ تمہارے دلوں میں مسلسل چلی آ رہی ہیں۔ کم از کم ایک ہزار سال گزر چکا ہے اس تاریخ کو کہ خود مسلمانوں نے مختلف وقتوں میں ایک دوسرے کے گھر جلائے ہیں، ایک دوسرے کی قبریں اکھاڑی ہیں، مُردوں کو دوبارہ پھانسی دی گئی ہے اور ان کے پنجروں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے۔ یہ ہلاکو خان کا واقعہ بھول گئے ہو۔ ایک سنّی دور میں جب بعض شیعوں پر مظالم ہوئے ہیں تو اس کے رد عمل کے طور پر پھر شیعہ وزیر نے انتقام لیا اور اس نے ہلاکو خان کو دعوت دی کہ آؤ اور اس ملک پر قبضہ کرو۔ یہ تاریخ بتا رہی ہے۔ وہاں کونسی ’را‘ تھی جو اپنا کام دکھاتی تھی؟ میں ہندوستان کے حق میں بات نہیں کر رہا، میں کسی کے حق میں بھی بات نہیں کر رہا نہ کسی کے خلاف بات کر رہا ہوں۔ میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ حقیقت حال پر نظر رکھو۔ نفرتیں جہاں پرورش پاتی ہیں وہی جگہ ہے نگرانی کی اور ان نفرتوں کی پرورش گاہوں میں اگر کوئی دشمن گُھس کر مزید انگیخت کرے تو وہ ایسی کوشش کر سکتا ہے اس سے انکار نہیں لیکن نفرتیں قائم ہیں تو کوشش پھر ضرور کامیاب ہوں گی اور یہ عذر قابل تسلیم نہیں ہو گا کہ فلاں نے ایسا کروایا ہے۔ تم کرنے پر تیار بیٹھے تھے اور اس نے جو تلوار نیچے گری ہوئی تھی اٹھا کے تمہارے ہاتھوں میں تھما دی اس سے زیادہ تو اس کو کوئی کام نہیں۔ لیکن کرنے والے تم ہو، تمہاری نیتیں ہیں جن میں زہر گھلے ہوئے ہیں، وہ نیتیں ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ آنکھیں ہیں جو ایک دوسرے کو اچھا دیکھ نہیں سکتیں، ان نفرتوں کا علاج کرو۔ ان نظروں کو درست کرنے کی کوئی تدبیر کرو، ان دلوں سے نفرتیں ہٹا کر ان میں محبتوں کے رس گھولنے کی کوشش کرو، اس کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے اور یہ علاج امامِ وقت تمہیں بتا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو حَکم عَدل بن کر آئے تھے وہ سلیقہ سکھا رہے ہیں کہ دیکھو اس طرح صحابہؓ کی بھی تعریف کرو۔ اس طرح اہل بیت کی بھی تعریف کرو۔ ان پر بھی درود بھیجو، ان پر بھی درود بھیجو، یہی ایک ذریعہ ہے امت کے اکٹھا ہونے کا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’یقینا ہمارے نبی خیر الوریٰ ﷺ ہمارے رب اعلیٰ کی دونوں صفات رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر تھے پھر صحابہ رضوان اﷲ علیھم حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ پہلے تجھے معلوم ہو چکا ہے۔‘‘
اب ان صحابہؓ کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اہلِ بیت یعنی خونی رشتے کے ذریعے منسلک اور دوسروں سب کا اکٹھا ذکر فرما رہے ہیں اور تمام صحابہؓ کی تعریف فرما رہے ہیں اس میں نعوذ باﷲ اہل بیت اس تعریف سے خارج نہیں ہوئے بلکہ جیسا کہ پہلے میں حوالہ دے چکا ہوں اول طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش نظر ہیں۔ فرماتے ہیں:۔
’’پھر صحابہ حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ تجھے معلوم ہو چکا ہے ان کی تلوار مشرکین کی جڑ کاٹنے کے لئے اٹھائی گئی اور مخلوق پرستوں کے ہاں ان کی ایسی کہانیاں ذکر ہیں جو بھلائی نہ جا سکیں گی۔ انہوں نے صفت محمدیہ کا حق ادا کر دیا۔‘‘
اب صفت محمدیہؐ کو صحابہؓ میں رائج فرمایاہے۔یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ وہ تمام صفات حسنہ جو خونی رشتوں میں تعلق رکھنے والے اہل بیت میں تھیں یا محض روحانی رشتہ میں بندھے ہوئے صحابہؓ میں تھیں وہ تمام خوبیاں نہ اِن کی ذاتی تھیں، نہ اُن کی ذاتی تھیں وہ صفت محمدیہؐ کے ان میں جاری ہونے کے نتیجہ میں تھیں۔ جو اس نکتہ کو سمجھ جائے وہ ایک کے مقابل پر دوسرے سے نفرت کر ہی نہیں سکتا کیونکہ صفت محمدیہؓ کی طرف پیٹھ دکھا کر صفت محمدیہؐ سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ صفت محمدیہؐ پر حملہ آور ہوتے ہوئے صفت محمدیہؐ کے عشق کے گیت نہیں گائے جاسکتے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس اعلیٰ پیرائے میں حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی سیرت ہی کو صحابہ میں جلوہ گر دکھایا۔ فرمایا ہے وہاں بھی سیرت محمدیہؐ کام کر رہی ہے۔اے سیرت محمدیہؐ کے عشاق! کیا تم سیرت محمدیہ سے دشمنی کرو گے؟۔
پس جہاں صفتِ محمدی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ ’’‘‘وہاں اہل بیت یا غیر اہل بیت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اگر حسن ہے تو محمد کا حسن ہے ﷺ۔ سیرت ہے تو محمد کی سیرت ہے ﷺاور صحابہ میں اگر کوئی مدح کی بات پائی جاتی ہے تو محمدؐ رسول اﷲ کی سیرت کو اپنانے کے نتیجے میں ہے اور بعینہٖ یہی وجہ فضیلت کی اہل بیت میں پائی جاتی ہے اس کے سوا کوئی وجہ نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کو اور ان کے تابعین کو اسم محمدؐ کا مظہر بنایا اور ان کے ذریعے رحمانی جلالی شان ظاہر کی اور انہیں غلبہ عطا کیا اور پے در پے نعمتوں کے ذریعہ ان کی نصرت فرمائی۔‘‘
 (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 110)
 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ رضوان اﷲ علیھم کے ذکر میں فرماتے ہیں:۔
’’صحابہ رضوان اﷲ علیھم کے زمانے میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہی نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی۔‘‘ (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 468)
اب یہ وہ حصہ ہے جس کی کمی کی وجہ سے ساری امت، کہلانے والی امت میں، یعنی رسول اﷲﷺ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں میں فساد پھیلا ہوا ہے۔ یعنی یہ وہ نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے، جس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انہوں نے محمد رسول اﷲ ﷺمیں خدائی نشان دیکھے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی۔ پس جنہوں نے الہٰی نشان دیکھے ہوں لازم ہے کہ ان کی زندگی پاک ہو اور پاک زندگیوں میں یہ بد نمونے دکھائی نہیں دے سکتے جو محرم کے دنوں میں آپ دیکھتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ پاک دلوں سے دوسرے پاکوں کے خلاف نفرت اور بغض کے کلمے اس طرح نکلیں جس طرح پھوڑے سے پیپ نکلتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پاک وجود صحت مند وجود ہوتا ہے، اس میں گندی پیپ کے پالے ہوئے پھوڑے نہیں ہوا کرتے۔ پس جب بھی صحابہؓ کے خلاف شیعوں کی مجالس میں سخت قسم کی ظالمانہ زبان استعمال کی جاتی ہے تو یہ دلوں کے پھوڑے ہیں جو سارا سال پکتے رہتے ہیں اور وہ پیپ اس وقت پھٹ کر اچھل اچھل کر باہر نکلتی ہے اور بہت ہی بد بودار مواد ہے جو باہر نکل کر گلیوں میں آتا ہے اور ساری فضا کو یہ بد بودار کر دیتا ہے۔ دوسری طرف مقابل کو دیکھیں۔ اگر وہ ان کے مقابلہ کرنے والے بھی رسول اﷲ ﷺکی سچائی کے نشان دیکھ کر اپنے دلوں کو پاک کر چکے ہوتے تو ایسے موقع پر استغفار سے کام لیتے۔ گند کا جواب گند سے نہ دیتے بلکہ ان کے لئے دعا گو ہو جاتے، ان پر زیادہ رحم اور شفقت کرتے، ان کو سمجھانے کے لئے سارا سال کارروائیاں کرتے اور دلائل کی دنیا میں ان کو گھسیٹ کر لاتے اور دلائل کے میدانوں میں یہ فیصلے کرتے۔ بجائے اس کے کہ تلوار کے میدان میں ایسے فیصلے کئے جائیں۔
پس ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں اور امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حضرت محمد رسول اﷲ ﷺسے سچا تعلق باندھنا ہے تو اس امام سے تعلق باندھے بغیر یہ سچا تعلق قائم نہیں ہو سکتا جوامام ان پیش گوئیوں کے مطابق آیا ہے جو محمد رسول اﷲ ﷺکو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائیں وہ تعلق جو تیرہ سو سال میں تم کاٹ بیٹھے، وہ تعلق تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ جوڑنے کے وقت آئے اور آسمان سے وہ رسی نیچے کی گئی جس رسی سے ہاتھ جدا ہو چکے تھے۔ اب ایک ہی راہ ہے کہ اس رسی کو دوبارہ مضبوطی سے پکڑ لو اور پھر حضرت محمد مصطفی ﷺکے دامن میں پناہ لے لو اس پناہ کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے اور یہ پناہ امام وقت کے انکار کے ذریعہ میسر نہیں ہو سکتی۔ یہ پناہ صرف اس صورت میں نصیب ہو سکتی ہے اگر امام وقت کو تسلیم کرو، اس سے محبت کا رشتہ باندھو، کیونکہ یہی محبت کا رشتہ سلسلہ وار خدا تک پہنچے گا، محمد مصطفی ﷺکی سچی محبت تمہارے دلوں میں پیدا کرے گا۔ صحابہؓ کی سچی محبت کے سلیقے تمہیں سکھائے گا، اہل بیت کی سچی محبت کی روح تمہیں عطا کرے گا۔ یہ صاحبِ عرفان محبت ہو گی جس کے نتیجے میں پاک عمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایسی محبت ہو گی جس کے نتیجہ میں دل پاک کئے جاتے ہیں اور پاک دل ایک دوسرے سے نفرت نہیں کیا کرتے۔ پاک دل آپس میں بٹ نہیں جایا کرتے بلکہ ایک ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور امتِ محمدیہؐ کو دوبارہ ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے جس امام کو بھیجا ہے وہی ان روحانی رشتوں کا ضامن بن کر آیا ہے۔ وہی ان روحانی رشتوں کا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے منادی بن کر بھیجا گیا ہے۔ تم اس کی ندا پر کان دھرو اور اطاعت اور محبت کے ساتھ اس کے حضور اپنے دلوں کو ان معنوں میں جھکا دو کہ جس طرف وہ بلاتا ہے وہ دل لپکتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے اس طرف دوڑیں۔ میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس طرف وہ ان دلوں کو بلا رہا ہے یعنی تم سب کے دلوں کو وہ محمد رسول اﷲ ﷺکا رستہ ہے وہ خدا کا رستہ ہے اور کسی کا نہیں اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں۔ اسی کا نام صراط مستقیم ہے، اسی سے وحدت ملّی عطا ہوتی ہے۔ اسی سے تفرقے پھر وحدت کی لڑیوں میں پروئے جاتے ہیں۔
پس آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہیں اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور کی باتیں ہیں تو ان نصیحتوں پر تو عمل کریں یا بتائیں کہ ان میں کیا نقص ہے۔ ان سے بہتر بات تو پیش کر کے دکھائیں۔ آپ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی ہیں جو حکم عدل بن کر آئے تھے اور تمہارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے والے تھے اب آپ کے فیصلے میں نے تمہیں سنا دئے ہیں۔ ان فیصلوں سے بہتر فیصلے کر کے تو دکھاؤ۔ بتاؤ تو سہی کہ اس سے زیادہ اور کون سی پاک اور مؤثر راہ ہو سکتی ہے جو مسلمانوں کے بٹے ہوئے دلوں کو پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے کر سکتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانا اب تمہارے اختیار کی یا ہاں یا نہ کی بات نہیں رہی۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ سچا امام جن رستوں کی طرف بلاتا ہے ان رستوں سے انکار خود کشی کے مترادف ہو جایا کرتا ہے۔ تو انکار کرو گے بھی تو باتیں وہی ماننی پڑیں گی جو حضرت مسیح موعودؑکہتے ہیں۔ ان باتوں سے بہتر باتیں تمہارے فرشتے بھی سوچ نہیں سکتے کیونکہ یہ خدا کا کلام ہے جو حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکے ذریعہ آپؐ کی برکتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل پر نازل ہوا۔ جو وحدت کے رستے آپؑ نے بتائے ہیں ان کے سوا اور کوئی وحدت کا رستہ نہیں۔ پس اس رستے سے آؤ یا اس رستے سے آؤ، طوعاً آؤ یا کرھًا آؤ۔ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اگر بیعت نہیں کرنی تو باتوں کو تو لازمًا ماننا پڑے گا اور اگر نہیں مانو گے تو اسی طرح بٹے رہو گے۔ اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی تعلیم دیتے رہو گے۔ نفرتوں کی منادی کرتے رہو گے اور ہر سال بجائے اس کے کہ محرم امت محمدیہؐ کو ایک کرنے کا عظیم الشان نظارہ دکھائے ہر سال یہ محرم آپ لوگوں کو اور زیادہ متفرق کرتا چلا جائے گا، آپ کے دلوں کو اور زیادہ پھاڑتا چلا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو عقل دے، ہوش دے اور وہ سچی باتیں جو ایک صاف اور پاک دل کو صاف دکھائی دیتی ہیں۔ کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ سچ تو خود اس طرح بولتا ہے کہ مومن کی پیشانی سے برستا ہے، سچ تو خود اس طرح بولتا ہے جیسے مشک خوشبو دیتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مومن کی پیشانی کے نور کی طرح آپ کے چہرے سے برس رہی ہے۔ آپ کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مشک کی طرف خوشبو رکھتی ہے اور خود بخود اٹھتی ہے اور فضا کو مہکا دیتی ہے۔ پس ان باتوں پر غور سے کان دھرو اور ان کو اپنے دلوں میں جگہ دو۔ یہی ایک رستہ امت کو دوبارہ وحدت کی لڑیوں میں پرونے کا رستہ ہے۔ اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔آمین۔


مکمل تحریر >>

Saturday, 30 September 2017

شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم




شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی نظر میں
جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عوام الناس میں نفرت اور اشتعال پھیلانے کے لئے حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ آپ نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور حقائق مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانیءجماعت احمدیہ اہلِ بیت سے بے حد محبت اور عشق رکھتے تھے۔ ذیل میں حضرت بانیء جماعت احمدیہ کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی اور آپ کی نظر میں ان کا کتنا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ہے۔


حضرت علیؓ اور آپ کے اہل بیت




’’حضرت علی رضی اللہ متقی، پاک اور خدائے رحمان کے محبوب ترین بندوں میں سے تھے۔

آپ ہم عصروں میں سے چنیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ آپ اللہ کے غالب شیر اور مردِ خدائے حنان تھے آپ کشادہ دست پاک دل اور بے مثال بہادر تھے۔

میدان جنگ میں انہیں اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ خواہ دشمنوں کی فوج بھی آپ کے مقابل پر ہوتی۔ آپ نے اپنی عمر سادگی میں گزاری۔ اور آپ زھد و ورع میں بنی نوع انسان کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ اپنی جائیداد کا عطیہ دینے اور لوگوں کے مصائب کو رفع کرنے میں اور یتامیٰ اور مساکین اور ہمسائیوں کی خبر گیری میں آپ مرد اول تھے۔ آپ معرکہ ہائے رزم میں ہر طرح کی بہادری میں نمایاں تھے اور شمشیر و سنان کی جنگ میں کارہائے نمایاں دکھلانے والے تھے۔ بایں ہمہ آپ بڑے شیریں اور فصیح اللسان تھے۔آپ کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ ذہنوں کے زنگ دور ہوجاتے تھے اور دلیل کے نور سے مطلع چکا چوندھ ہوجاتا تھا۔

آپ ہر قسم کے اسلوب کلام پر قادر تھے اور جس نے بھی آپ کا اس میدان میں مقابلہ کیا تو اسے ایک مغلوب آدمی کی طرح عذر خواہ ہونا پڑا۔ آپ ہر کار خیر میں اور اسالیب فصاحت و بلاغت میں کامل تھے۔ اور جس نے بھی آپ کے کمالات کا انکار کیا گویا وہ بے حیائی کی راہ پر چل پڑا۔ آپ بے قراروں کی دلجوئی کے لئے تیار رہتے۔ قانع اور غربت سے پریشان کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ بایں ہمہ آپ قرآن کریم کا جام نوش کرنے میں سر فہرست تھے اور قرآن کے دقائق کے ادراک میں آپ کو ایک عجیب فہم عطا ہوا تھا۔

میں نے آپ کو نیند کی حالت میں نہیں بیداری کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ نے خدائے علیم کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی ہے اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب یہ تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ پس جو تمہیں دیا جاتا ہے اس پر خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے ایک ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے معطی و قدیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو بہت مضبوط جسم والا اور پکے اخلاق والا متواضع اور منکسر، شگفتہ رو اور پُر نور پایا۔

اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ بہت پیار اور محبت سے پیش آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سچے مخلصوں کی طرح اظہار محبت کیا۔ اور آپ کے ساتھ حسن اور حسین دونوں اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے۔

اور آپ کے ساتھ ایک خوبصورت، نیک اور بارعب ، مبارک، پاکباز، قابلِ تعظیم، نوجوان، باوقار، ماہ رخ، پُرنور خاتون بھی تھیں۔ میں نے انہیں بہت غمگین پایا۔ وہ اپنے غم کو چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ فاطمۃ الزھراؓ ہیں۔ پھر وہ میرے پاس تشریف لائیں جبکہ میں لیٹا ہوا تھا۔ سو میں اٹھ بیٹھا اور انہوں نے میرا سر اپنی گود میں رکھ دیا اور اظہار لطف و کرم فرمایا۔ اور میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض دکھوں اور غموں پر آپ اس طرح غمگین و مضطرب ہوئیں جس طرح محبت و رافت و احسان رکھنے والی مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب پر بے قرار ہو جاتی ہیں۔ تب مجھے بتایا گیا کہ دینی تعلق کی بنا پر میں بمنزلہ آپ کے فرزند کے ہوں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ کا غم ان مظالم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہلِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والے ہیں۔

پھر میرے پاس حسن اور حسین آئے اور انہوں نے بھائیوں کی طرح میرے ساتھ محبت اور غم خواری کا اظہار کیا۔

اور یہ بیداری کے کشوف میں سے ایک کشف تھا اور اس پر چند سال گزر چکے ہیں۔ مجھے حضرت علی، حسن اور حسین کے ساتھ ایک لطیف قسم کی مشابہت ہے جس کا راز مشرق اور مغرب کا خدا ہی جانتا ہے۔

میں حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان کا دشمن ہے میں اس کا دشمن ہوں‘‘۔ (ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۸۔۳۵۹)



حضرت علیؓ حاجت مندوں کی امیدگاہ تھے




بے شک حضرت علی حاجت مندوں کی امید گاہ تھے اور سخیوں کے لئے نمونہ اور بندوں کے لئے حجۃ اللہ تھے ۔ آپ اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے بہتر تھے اور تمام دنیا کو منور کرنے کے لئے خدا کا نور تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حق حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جنہوں نے آپ کے زمانہ میں آپ سے جنگ کی انہوں نے بغاوت اور سرکشی کی‘‘۔ (ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۲۔۳۵۳)



حضرت علیؓ جامع فضائل




’’علی تو جامع فضائل تھا اور ایمانی قوت کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ نفاق کو پسند نہیں کیا اور اپنے قول اور فعل میں کبھی منافقانہ طریق نہیں برتا اور ریا کاروں میں سے نہ تھا‘‘۔"حجۃ اللہ۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۲۔ صفحہ ۱۸۲"



حضرت امام حُسین ؓ و حسنؓ ائمۃ الہدیٰ




’’حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے‘‘۔(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۵۔ صفحہ ۳۶۴۔۳۶۵ حاشیہ)



ہم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں کے ثنا خواں ہیں




’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہوگئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لئے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لئے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثنا خواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔(ملفوظات۔ جلد۴۔ صفحہ ۵۷۹۔۵۸۰)



حضرت امام حُسین ؓ سردارانِ بہشت میں سے




’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کاقدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہّرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘۔(مجموعہ اشتہارات۔ جلد ۳۔ صفحہ ۵۴۵)



حضرت امام حسینؓ کی شہادت




’’امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھاکتنا خوفناک ہے لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا‘‘۔(ملفوظات۔ جلد۵۔ صفحہ ۳۳۶)



حضرت امام حسینؓ سے غیر معمولی عشق



ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑاپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:۔

’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘

اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔

(روایت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ۔ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ۳۶۔۳۷)

حضرت بانی جماعت احمدیہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں


جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است

خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است


(درثمین فارسی۔ صفحہ ۸۹)

میری جان اور دل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچہ پر نثار ہے۔
مکمل تحریر >>