" کہتے ہیں کہ تیر وہ ہے جو نشانہ پر بیٹھے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دلیل اور حربہ وہی ہوتا ہے جو موقع پر کام آئے۔ جو لوگ تبلیغ کے میدان میں اترنے والے ہیں ان کا بہت وسیع تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تبلیغی گفتگو کے مواقع پر خود راہنمائی کرتا ہے۔ علماء کو بھی وہی سکھاتا ہے اور معمولی پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کی بھی وہی راہنمائی کرتا ہے ۔ مخالفین کے مقابل پر پیش کی جانے والی بات اور دلیل بعض اوقات بہت معمولی اور سادہ سی دکھائی دیتی ہے لیکن بہت ہی کارگر اور مسکت ثابت ہوتی ہے۔ تاریخ احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی میدان میں داعیان الی اللہ کے برجستہ اور موثر جوابات کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
میرے والد محترم ، خالد احمدیت ، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مرحوم و مغفور اکثر یہ دلچسپ تبلیغی واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ فلسطین میں ایک موقعہ پر نابلس کے چند استاد تبلیغی گفتگو کے لئے آئے۔احمدیہ دارالتبلیغ میں اس وقت آپ کے علاوہ چند احمدی بزرگ بھی موجود تھے ۔وفات مسیح کا ذکر ہو رہا تھا ۔غیر احمدی عالم نے کہا کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام واقعی فوت ہو چکے ہیں تو ان کی قبر کہاں ہے ؟انہیں بتایا گیا کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ان کی قبر سری نگر ،کشمیر میں ہے ۔کشمیر کا نام سن کر بے اختیار ان میں سے ایک کی زبان سے نکلا کہ اتنی دور!یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابھی میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا تھا کہ ہمارے مرحوم بھائی علی القزق جو معمولی تعلیم یافتہ تھے نے جھٹ فرمایا کہ کیا کشمیر آسمان سے بھی دور ہے ؟ یہ برجستہ جواب سن کر وہ غیر احمدی عالم اور باقی سب اساتذہ لاجواب ہو گئے ۔''
وفات مسیح ہی کے ضمن میں ربوہ کا ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے ۔چند غیر احمدی علماء ربوہ میں آئے ۔احمدی علماء کرام سے وفات مسیح کے موضوع پر بہت تفصیلی بات چیت ہوئی ۔متعدد قرآنی آیات سننے پر بھی ان کی تسلّی نہ ہوئی ۔اور بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وفات مسیح پر کوئی واضح آیت بیا ن کی جائے ۔بالآخر ان کے احمدی ساتھی ان کو محترم مولانا احمد خان صاحب نسیم کے پاس ملاقات کے لئے لائے ۔غیر احمدی عالم نے یہاں بھی وہی بات دہرائی کہ وفات مسیح کے بارہ میں کوئی آیت وغیرہ سنائیں ۔مولانا صاحب نے بڑا پُر حکمت انداز اختیار کیا اور بجائے آیت پیش کرنے کے اس سے بڑا سادہ سا سوال کیا کہ کیا تم نے باقی سارے انبیاء کو آیت قرآنی کی وجہ سے فوت شدہ سمجھا ہے جو حضرت عیسیٰ ؈ کے لئے خاص طور پر آیت کا مطالبہ کر رہے ہو ؟۔یہ جواب ایسا تسلّی بخش ثابت ہو ا کہ وہ غیر احمدی عالم کہنے لگا کہ بس بس اب مجھے کسی آیت کی ضرورت نہیں ۔یہ مسئلہ مجھ پر خوب کھل گیا ۔''
(تبلیغی میدان میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات صفحہ 19-18)
میرے والد محترم ، خالد احمدیت ، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مرحوم و مغفور اکثر یہ دلچسپ تبلیغی واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ فلسطین میں ایک موقعہ پر نابلس کے چند استاد تبلیغی گفتگو کے لئے آئے۔احمدیہ دارالتبلیغ میں اس وقت آپ کے علاوہ چند احمدی بزرگ بھی موجود تھے ۔وفات مسیح کا ذکر ہو رہا تھا ۔غیر احمدی عالم نے کہا کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام واقعی فوت ہو چکے ہیں تو ان کی قبر کہاں ہے ؟انہیں بتایا گیا کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ان کی قبر سری نگر ،کشمیر میں ہے ۔کشمیر کا نام سن کر بے اختیار ان میں سے ایک کی زبان سے نکلا کہ اتنی دور!یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابھی میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا تھا کہ ہمارے مرحوم بھائی علی القزق جو معمولی تعلیم یافتہ تھے نے جھٹ فرمایا کہ کیا کشمیر آسمان سے بھی دور ہے ؟ یہ برجستہ جواب سن کر وہ غیر احمدی عالم اور باقی سب اساتذہ لاجواب ہو گئے ۔''
وفات مسیح ہی کے ضمن میں ربوہ کا ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے ۔چند غیر احمدی علماء ربوہ میں آئے ۔احمدی علماء کرام سے وفات مسیح کے موضوع پر بہت تفصیلی بات چیت ہوئی ۔متعدد قرآنی آیات سننے پر بھی ان کی تسلّی نہ ہوئی ۔اور بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وفات مسیح پر کوئی واضح آیت بیا ن کی جائے ۔بالآخر ان کے احمدی ساتھی ان کو محترم مولانا احمد خان صاحب نسیم کے پاس ملاقات کے لئے لائے ۔غیر احمدی عالم نے یہاں بھی وہی بات دہرائی کہ وفات مسیح کے بارہ میں کوئی آیت وغیرہ سنائیں ۔مولانا صاحب نے بڑا پُر حکمت انداز اختیار کیا اور بجائے آیت پیش کرنے کے اس سے بڑا سادہ سا سوال کیا کہ کیا تم نے باقی سارے انبیاء کو آیت قرآنی کی وجہ سے فوت شدہ سمجھا ہے جو حضرت عیسیٰ ؈ کے لئے خاص طور پر آیت کا مطالبہ کر رہے ہو ؟۔یہ جواب ایسا تسلّی بخش ثابت ہو ا کہ وہ غیر احمدی عالم کہنے لگا کہ بس بس اب مجھے کسی آیت کی ضرورت نہیں ۔یہ مسئلہ مجھ پر خوب کھل گیا ۔''
(تبلیغی میدان میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات صفحہ 19-18)