حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اس زمانہ میں اگر کوئی شخص مناظرات مذ ہبیّہ کے میدان میں قدم رکھے یا مخالفوں کے ردّ میں تالیفات کرنا چاہے تو شرائط مندرجہ ذیل اس میں ضرور ہونی چاہئیں۔
اوّل۔ علم زبان عربی میں ایسا راسخ ہو کہ اگر مخالف کے ساتھ کسی لفظی بحث کا اتفاق پڑ جائے تو اپنی لغت دانی کی قوت سے اُس کو شرمندہ اور قائل کر سکے۔ اور اگر عربی میں کسی تالیف کا اتفاق ؔ ہو تو لطافت بیان میں اپنے حریف سے بہرحال غالب رہے اور زبان دانی کے رُعب سے مخالف کو یہ یقین دلا سکتا ہو کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی کلام کے سمجھنے میں اس سے زیادہ معرفت رکھتا ہے۔ بلکہ اس کی یہ لیاقت اس کے ملک میں ایک واقعہ مشہورہ ہونا چاہئیے کہ وہ علم لسان عرب میں یکتائے روزگار ہے۔ اور اسلامی مباحثات کی راہ میں یہ بات پڑی ہے کہ کبھی لفظی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور تجربہ صحیحہ اس بات کا گواہ ہے کہ عربی عبارتوں کے معانی کا یقینی اور قطعی فیصلہ بہت کچھ علم مفردات و مرکّبات لسان پر موقوف ہے۔ اور جو شخص زبان عربی سے جاہل ا ور مناہج تحقیق فن لُغت سے نا آشنا ہو وہ اس لائق ہی نہیں ہوتا کہ بڑے بڑے نازک اور عظیم الشان مباحثات میں قدم رکھ سکے اور نہ اس کا کلام قابل اعتبار ہوتا ہے۔ اور نیز ہر ایک کلام جو پبلک کے سامنے آئے گا اس کی قدرومنزلت متکلم کی قدرومنزلت کے لحاظ سے ہوگی۔ پھر اگر متکلم ایسا شخص نہیں ہے جس کی زبان دانی میں مخالف کچھ چون و چرا نہیں کر سکتا تو ایسے شخص کی کوئی تحقیق جو زبان عرب کے متعلق ہوگی قابل اعتبار نہیں ہوگی۔ لیکن اگر ایک شخص جو مباحثہ کے میدان میں کھڑا ہے مخالفوں کی نظر میں ایک نامی زبان دان ہے اور اس کے مقابل پر ایک جاہل عیسائی ہے تو منصفوں کے لئے یہی امر اطمینان کے لائق ہوگا کہ وہ مسلمان کسی فقرہ یا کسی لفظ کے معنے بیان کرنے میں سچا ہے۔ کیونکہ اس کو علم زبان اس عیسائی سے بہت زیادہ ہے۔ اور اس صورت میں خواہ مخواہ اس کے بیان کا دلوں پر اثر ہوگا اور ظالم مخالفوں کا منہ بند رہے گا۔ یاد رہے کہ ایسے مناظرات میں خواہ تحریری ہوں یا تقریری اگر وہ منقولی حوالجات پر موقوف ہوں تو فقرات یا مفردات الفاظ پر بحث کرنے کا بہت اتفاق پڑ جاتا ہے بلکہ یہ بحثیں نہایت ضروری ہیں کیونکہ ان سے حقیقت کھلتی ہے اور پردہ اٹھتا ہے اور علمی گواہیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ماسوا اس کے یہ بات بھی اس شرط کو ضروری ٹھہراتی ہے کہ ہر ایک حریف مقابل اپنے حریف کی حیثیت علمی جانچا کرتا ہے اور کوشش کرتا ے کہ اگر اور راہ سے نہیں تو اسی راہ سے اسؔ کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار ٹھہراوے۔ اور بسااوقات ردّ لکھنے والے کو اپنے مخالف کی کتاب کی نسبت لکھنا پڑتا ہے کہ وہ زبان دانی کے رو سے کس پایہ کا آدمی ہے۔ غرض ایک مسلمان جو عیسائی حملوں کی مدافعت کے لئے میدان میں آتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئیے کہ ایک بڑا حربہ اور نہایت ضروری حربہ جو ہر وقت اس کے ہاتھ میں ہونا چاہئیے علم زبان عربی ہے۔
اوّل۔ علم زبان عربی میں ایسا راسخ ہو کہ اگر مخالف کے ساتھ کسی لفظی بحث کا اتفاق پڑ جائے تو اپنی لغت دانی کی قوت سے اُس کو شرمندہ اور قائل کر سکے۔ اور اگر عربی میں کسی تالیف کا اتفاق ؔ ہو تو لطافت بیان میں اپنے حریف سے بہرحال غالب رہے اور زبان دانی کے رُعب سے مخالف کو یہ یقین دلا سکتا ہو کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی کلام کے سمجھنے میں اس سے زیادہ معرفت رکھتا ہے۔ بلکہ اس کی یہ لیاقت اس کے ملک میں ایک واقعہ مشہورہ ہونا چاہئیے کہ وہ علم لسان عرب میں یکتائے روزگار ہے۔ اور اسلامی مباحثات کی راہ میں یہ بات پڑی ہے کہ کبھی لفظی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور تجربہ صحیحہ اس بات کا گواہ ہے کہ عربی عبارتوں کے معانی کا یقینی اور قطعی فیصلہ بہت کچھ علم مفردات و مرکّبات لسان پر موقوف ہے۔ اور جو شخص زبان عربی سے جاہل ا ور مناہج تحقیق فن لُغت سے نا آشنا ہو وہ اس لائق ہی نہیں ہوتا کہ بڑے بڑے نازک اور عظیم الشان مباحثات میں قدم رکھ سکے اور نہ اس کا کلام قابل اعتبار ہوتا ہے۔ اور نیز ہر ایک کلام جو پبلک کے سامنے آئے گا اس کی قدرومنزلت متکلم کی قدرومنزلت کے لحاظ سے ہوگی۔ پھر اگر متکلم ایسا شخص نہیں ہے جس کی زبان دانی میں مخالف کچھ چون و چرا نہیں کر سکتا تو ایسے شخص کی کوئی تحقیق جو زبان عرب کے متعلق ہوگی قابل اعتبار نہیں ہوگی۔ لیکن اگر ایک شخص جو مباحثہ کے میدان میں کھڑا ہے مخالفوں کی نظر میں ایک نامی زبان دان ہے اور اس کے مقابل پر ایک جاہل عیسائی ہے تو منصفوں کے لئے یہی امر اطمینان کے لائق ہوگا کہ وہ مسلمان کسی فقرہ یا کسی لفظ کے معنے بیان کرنے میں سچا ہے۔ کیونکہ اس کو علم زبان اس عیسائی سے بہت زیادہ ہے۔ اور اس صورت میں خواہ مخواہ اس کے بیان کا دلوں پر اثر ہوگا اور ظالم مخالفوں کا منہ بند رہے گا۔ یاد رہے کہ ایسے مناظرات میں خواہ تحریری ہوں یا تقریری اگر وہ منقولی حوالجات پر موقوف ہوں تو فقرات یا مفردات الفاظ پر بحث کرنے کا بہت اتفاق پڑ جاتا ہے بلکہ یہ بحثیں نہایت ضروری ہیں کیونکہ ان سے حقیقت کھلتی ہے اور پردہ اٹھتا ہے اور علمی گواہیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ماسوا اس کے یہ بات بھی اس شرط کو ضروری ٹھہراتی ہے کہ ہر ایک حریف مقابل اپنے حریف کی حیثیت علمی جانچا کرتا ہے اور کوشش کرتا ے کہ اگر اور راہ سے نہیں تو اسی راہ سے اسؔ کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار ٹھہراوے۔ اور بسااوقات ردّ لکھنے والے کو اپنے مخالف کی کتاب کی نسبت لکھنا پڑتا ہے کہ وہ زبان دانی کے رو سے کس پایہ کا آدمی ہے۔ غرض ایک مسلمان جو عیسائی حملوں کی مدافعت کے لئے میدان میں آتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئیے کہ ایک بڑا حربہ اور نہایت ضروری حربہ جو ہر وقت اس کے ہاتھ میں ہونا چاہئیے علم زبان عربی ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ایسا شخص جو مخالفوں کے ردّ لکھنے پر اور ان کے حملوں کے دفع کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اس کی دینی معرفت میں صرف یہی کافی نہیں کہ چند حدیث اور فقہ اور تفسیر کی کتابوں پر اس نے عبور کیا ہو اور محض الفاظ پر نظر ڈالنے سے مولوی کے نام سے موسوم ہو چکا ہو۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تحقیق اور تدقیق اور لطائف اور نکات اور براہین یقینیہ پیدا کرنے کا خداداد مادہ بھی اس میں موجود ہو اور فی الواقع حکیم الامت اور زکیّ النفس ہو۔
تیسری شرط یہ کہ کسی قدر علوم طبعی اور طبابت اور ہیئت اور جغرافیہ میں دسترس رکھتا ہو کیونکہ قانون قدرت کے نظائر پیش کرنے کے لئے یا اور بعض تائیدی ثبوتوں کے وقت ان علوم کی واقفیت ہونا ضروری ہے۔
چوتھی شرط یہ کہ عیسائیوں کے مقابل پر وہ ضروری حصہ بائبل کا جو پیشگوئیوں وغیرہ میں قابل ذکر ہوتا ہے عبرانی زبان میں یاد رکھتا ہو۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ایک عربی دان علم زبان کے فاضل کے لئے اس قدر استعداد حاصل کرنا نہایت سہل ہے۔ کیونکہ میں نے عربی اور عبرانی کے بہت سے الفاظ کا مقابلہ کر کے ثابت کر لیا ہے کہ عبرانی کے چار حصے میں سے تین۳ حصے خالص عربی ہے جو اس میں مخلوط ہے۔ اور میری دانست میں عربی زبان کا ایک پورا فاضل تین ماہ میں عبرانی زبان میں ایک کافی استعداد حاصل کر سکتا ہے۔ یہ تمام امور کتاب منن الرحمن میں مَیں نے لکھے ہیں۔ جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ عربی اُمّ الالسنہ ہے۔
پانچویں شرط خدا سے حقیقی ربط اور صدق اور وفا اور محبت الٰہیہ اور اخلاص اور طہارۃ باطنی اور اخلاق فاضلہ اور انقطاع الی اللہ ہے۔ کیونکہ علم دین آسمانی علوم میں سے ہے۔ اور یہ علوم تقویٰ اورؔ طہارت اور محبت الٰہیہ سے وابستہ ہیں اور سگ دنیا کو مل نہیں سکتے۔ سو اس میں کچھ شک نہیں کہ قول موجّہ سے اتمام حجت کرنا انبیاء اور مردان خدا کا کام ہے اور حقانی فیوض کا مورد ہونا فانیوں کا طریق ہے۔ اور اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 3۔۱ پس کیونکر ایک گندہ اورمنافق اور دنیا پرست ان آسمانی فیضوں کو پا سکتا ہے جن کے بغیر کوئی فتح نہیں ہو سکتی؟ اور کیونکر اس دل میں روح القدس بول سکتا ہے جس میں شیطان بولتا ہو؟ سو ہرگز امید نہ کرو کہ کسی کے بیان میں روحانیت اور برکت اور کشش اس حالت میں پیدا ہو سکے جبکہ خدا کے ساتھ اس کے صافی تعلق نہیں ہیں۔ مگر جو خدا میں فانی ہو کر خدا کی طرف سے تائید دین کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ اوپر سے ہر ایک دم فیض پاتا ہے اور اس کو غیب سے فہم عطا کیا جاتا ہے اور اس کے لبوں پر رحمت جاری کی جاتی ہے اور اس کے بیان میں حلاوت ڈالی جاتی ہے۔
چھٹی شرط علم تاریخ بھی ہے۔ کیونکہ بسا اوقات علم تاریخ سے دینی مباحث کو بہت کچھ مدد ملتی ہے۔ مثلاً ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں آ چکا ہے اور پھر وہ ان کتابوں کے شائع ہونے سے صدہا برس بعد وقوع میں آگئی ہیں۔ اور اس زمانہ کے تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا بیان کر دیا ہے۔ پس جو شخص اس تاریخی سلسلہ سے بے خبر ہوگا وہ کیونکر ایسی پیشگوئیاں جن کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو چکا ہے اپنی کتاب میں بیان کر سکتا ہے؟ یا مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام کے وہ تاریخی واقعات جو یہودی مؤرخوں اور بعض عیسائیوں نے بھی ان کے اُس حصہِ زندگی کے متعلق لکھے ہیں جو نبوت کے ساڑھے تین برس سے پہلے تھے یا وہ واقعات اور تنازعات جو قدیم تاریخ نویسوں نے حضرت مسیح اور ان کے حقیقی بھائیوں کی نسبت تحریر کئے ہیں یا وہ انسانی ضعف اور کمزوریوں کے بیان جو تاریخوں میں حضرت مسیح کی زندگی کے دونوں حصوں کی نسبت بیان کئے گئے ہیں یہ تمام باتیں بغیر ذریعہ تاریخ کے کیونکر معلوم ہو سکتی ہیں؟ مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جن کو اس قدر بھی معلوم ہو کہؔ حضرت عیسیٰ درحقیقت پانچ حقیقی بھائی تھے جو ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اور بھائیوں نے آپ کی زندگی میں آپ کو قبول نہ کیا بلکہ آپ کی سچائی پر ان کو بہت کچھ اعتراض رہا۔ ان سب کی واقفیت حاصل کرنے کے لئے تاریخوں کا دیکھنا ضروری ہے اور مجھے خداتعالیٰ کے فضل سے یہودی فاضلوں اور بعض فلاسفر عیسائیوں کی وہ کتابیں میسر آگئی ہیں جن میں یہ امورنہایت بسط سے لکھے گئے ہیں۔
ساتویں شرط کسی قدر ملکۂ علم منطق اور علم مناظرہ ہے۔ کیونکہ ان دونوں علموں کے توغّل سے ذہن تیز ہوتا ہے اور طریق بحث اور طریق استدلال میں بہت ہی کم غلطی ہوتی ہے۔ ہاں تجربہ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر خداداد روشنی طبع اور زیرکی نہ ہو تو یہ علم بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ بہتیرے کو دن طبع مُلا قطبی اور قاضی مبارک بلکہ شیخ الرئیس کی شفا وغیرہ پڑھ کر منتہی ہو جاتے ہیں اور پھر بات کرنے کی لیاقت نہیں ہوتی اور دعویٰ اور دلیل میں بھی فرق نہیں کر سکتے اور اگر دعویٰ کے لئے کوئی دلیل بیان کرنا چاہیں تو یک دوسرا دعویٰ پیش کر دیتے ہیں جس کو اپنی نہایت درجہ کی سادہ لوحی سے دلیل سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بھی ایک دعویٰ قابل اثبات ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات پہلے سے زیادہ اغلاق اور دقتیں اپنے اندر رکھتا ہے۔ مگر بہرحال امید کی جاتی ہے کہ ایک زکیّ الطبع انسان جب معقولی علوم سے بھی کچھ حصہ رکھے اور طریق استدلال سے خبردار ہو تو یاوہ گوئی کے طریقوں سے اپنے بیان کو بچا لیتا ہے اور نیز مخالف کی سوفسطائی اور دھوکہ دِہ تقریروں کے رعب میں نہیں آ سکتا۔
آٹھویں شرط تحریری یا تقریری مباحثات کے لئے مباحث یا مؤلّف کے پاس اُن کثیر التعداد کتابوں کا جمع ہونا ہے جو نہایت معتبر اور مسلّم الصحت ہیں جن سے چالاک اور مفتری انسان کا منہ بند کیا جاتا اور اس کے افترا کی قلعی کھولی جاتی ہے۔ یہ امر بھی ایک خداداد امر ہے کیونکہ یہ منقولات صحیحہ کی فوج جو جھوٹے کا منہ توڑنے کے لئے تیز حربوں کا کام دیتی ہے ہر ایک کو میسر نہیں آ سکتی (اس کام کے لئے ہمارے معزز دوست مولوی حکیم نوردین صاحب کا تمام کتب خانہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس کے علاوہ اور بھی۔ جس کی کسی قدر فہرست حاشیہ میں دی گئی ہے۔ دیکھو حاشیہ ۱ متعلق صفحہ ۶ شرط ہشتم)۔
نویںؔ شرط تقریر یا تالیف کیلئے فراغت نفس اور صرف دینی خدمت کے لئے زندگی کا وقف کرنا ہے۔ کیونکہ یہ بھی تجربہ میں آ چکا ہے کہ ایک دل سے دو مختلف کام ہونے مشکل ہیں۔ مثلاً ایک شخص جو سرکاری ملازم ہے اور اپنے فرض منصبی کی ذمہ واریاں اس کے گلے پڑی ہوئی ہیں اگر وہ دینی تالیفات کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو علاوہ اس بددیانتی کے جو اس نے اپنے بیچے ہوئے وقت کو دوسری جگہ لگا دیا ہے ہرگز وہ اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا جس نے اپنے تمام اوقات کو صرف اسی کام کے لئے مستغرق کر لیا ہے حتّٰی کہ اُس کی تمام زندگی اُسی کام کے لئے ہوگئی ہے۔
دسویں شرط تقریر یا تالیف کے لئے اعجازی طاقت ہے کیونکہ انسان حقیقی روشنی کے حاصل کرنے کیلئے اور کامل تسلی پانے کے لئے اعجازی طاقت یعنی آسمانی نشانوں کے دیکھنے کا محتاج ہے اور وہ آخری فیصلہ ہے جو خداتعالیٰ کے حضور سے ہوتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اسلام کے دشمنوں کے مقابل پر کھڑا ہو اور ایسے لوگوں کو لاجواب کرنا چاہے جو ظہور خوارق کو خلاف قدرت سمجھتے ہیں یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوارق اور معجزات سے منکر ہیں تو ایسے شخص کے زیر کرنے کے لئے امت محمدیہ کے وہ بندے مخصوص ہیں جن کی دعاؤں کے ذریعہ سے کوئی نشان ظاہر ہو سکتا ہے۔
( روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 370 تا 375 )
( روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 370 تا 375 )