Friday 23 January 2015

آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی

مولانا دوست محمد شاہد صاحب ایک واقعہ درج فرماتے ہیں کہ
'' یہ عاجز دفتری کام میں مصروف تھا کہ یکایک حضرت مولانا ( مولانا عبدالمالک خاں ) کی السلام علیکم کی آواز سنائی دی اور آپ ایک باریش بزرگ کے ساتھ کمرہ شعبہ تاریخ میں تشریف لائے اور فرمایا میں انہیں تم سے ملانے کے لیے لایا ہوں ۔ میرے معزز مہمان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے ۔ کوئی ایک مختصر سی بات سنا دیجیے ۔ میں نے ان بزرگ پر نگاہ ڈالی تو حق تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ سیال شریف والوں کے مرید ہیں مگر ہیں بہت شریف مزاج ۔ یہ ذہن میں آتے ہی خاکسار نے عرض کیا خدا کے فضل و کرم سے آپ بھی آنحضرتﷺ کو احمد یقین کرتے ہیں لہٰذا میری ادب کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ آپ اپنے تئیں ہمیشہ احمدی کہا کریں ۔ جھٹ بولے میں احمدی تو ہوں مرزائی ہرگز نہیں ۔ یہ سنتے ہی میں نے انیسویں صدی کے نامور چشتی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین ؒ سیال شریف کے حسب ذیل ارشادات و ملفوظات عالیہ ان کے مطالعہ کے لیے سامنے رکھ دئیے ۔ ان میں لکھا تھا :

'' آپ کے پوتے صاحب زادہ محمد امین صاحب آئے ۔ آپ نے پوچھا اے بیٹے کون سی سورت پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا سورتِ نور ۔ آپ نے تبسم فرماتے ہوئے یہ شعر   ؎
صورت مرزے یار دی ساری سورت نور
والشّمس ، والضحٰی  پڑھیا  رب غفور 
بندہ نے عرض کیا مرزا سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ۔ رسولِؐ خدا ۔ اور تینوں مذکورہ سورتیں آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔ پھر فرمایا ۔ عاشقوں کا دستور ہے کہ وہ اپنے معشوق کو مرزا یا رانجھا کہہ  کر یاد کیا کرتے ہیں ۔ ''
( مرآت العاشقین  ، صفحہ ۲۷۲ )


وہ بزرگ یہ عبارت پڑھتے ہی پورے جوش سے فرمانے لگے ۔ آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی اور ساتھ ہی بتایا کہ میرا مسلک چشتی ہے اور میں سیال شریف سے تعلق ارادت رکھتا ہوں ۔ ''
مکمل تحریر >>