Saturday, 24 February 2018

درمنثور یعنی چند بکھرے ہوئے موتی










بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ              نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

 وَ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ

دُرِّمَنْثُور
(یعنی چند بکھرے ہوئے موتی)

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

گذشتہ سال کے سالانہ جلسہ میں جو دسمبر ۱۹۵۹ء کی بجائے جنوری۱۹۶۰ء میں منعقد ہوا تھا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت کے بعض پہلوؤںپر ایک مضمون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔یہ مضمون جو بعد میں  ’’سیرت طیبہ‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ کے تین بنیادی پہلوؤں سے تعلق رکھتا تھا یعنی اول محبت الٰہی ،دوم عشق رسول اور سوم شفقت علیٰ خلق اللہ۔اور یہی وہ تین اوصاف ہیںجو ایک سچے مسلمان کے دین و مذہب کی جان اور اس کے اخلاق حسنہ کی بلند ترین چوٹی کہلانے کا حق رکھتے ہیں ۔
اس سال مجھے پھر مرکزی جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کے منتظمین نے ذکر حبیب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ سیرۃ کے متعلق کچھ بیان کرنے کی دعوت دی ہے اور گو اس سال کا آخری نصف حصہ میری رفیقہ حیات ام مظفر احمد کی طویل اور تشویشناک بیماری کی وجہ سے میرے لئے کافی پریشانی میں گذرا ہے اور ان کی تیمارداری کی وجہ سے مجھے کئی ماہ تک ربوہ سے باہر لاہور میں ٹھہرنا پڑا ہے اور بعض دوسری پریشانیاں بھی رہیں مگر میں نے ان روکوں کے باوجود ناظر صاحب اصلاح و ارشاد کی دعوت کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے ہوئے اسے قبول کر لیا اور اب اپنے دوستوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ و اخلاق کے چند پہلو پیش کرنے کے لئے حاضر ہوں۔
جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے میری گذشتہ سال کی تقریر حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ کے تین مخصوص بنیادی پہلوؤں سے تعلق رکھتی تھی جنہیں اپنے باہمی ربط کی وجہ سے گویا ہم تین لڑیوں والی مالا کا نام دے سکتے ہیں لیکن اس سال میں حضرت مسیح موعود کے اخلاق و عادات کے چند متفرق اور گویا غیر مربوط (گو حقیقۃً کسی انسان کے اخلاق بھی فی الواقعہ غیر مربوط نہیں ہوتے) پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے دوستوں کو معلوم ہو اور دنیا پر بھی ظاہر ہوجائے کہ محمدی سلسلہ کا مسیح اپنے مربوط اخلاق اور بظاہر غیر مربوط اخلاق دونوں میں کس شان کا مالک تھا۔اسی لئے میں نے اپنے موجودہ مضمون کا نام در منثور یعنی چندبکھرے ہوئے موتی رکھا ہے۔یقیناً ان بکھرے ہوئے موتیوں کو بھی ایک گہرے ربط و نظم کی زنجیر باندھے ہوئے ہے جو ایک طرف خالق کی محبت اور دوسری طرف مخلوق کی ہمدردی کے ساتھ فطری طور پر منسلک ہے۔ لیکن چونکہ بظاہر یہ اخلاق متفرق نوعیت کے ہیں اس لئے میں نے انہیں درمنثور کا نام دیا ہے اور اسی مختصر تمہید کے ساتھ میں اپنے اس مضمون کو خدائے رحمٰن و رحیم کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔وَمَا تَوْفِیْقِیْ   اِلَّا بِاللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنِیْبُ۔

(۱)
یہ ایک عجیب بات ہے جس میں اہل ذوق کے لئے بڑا لطیف نکتہ ہے کہ گو مقدس بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح ناصری کے مثیل کی حیثیت میں مبعوث ہوئے اور آپ اپنی جماعت میں زیادہ تر اسی نام اور اسی منصب کے ساتھ پکارے جاتے ہیں مگر باوجود اس کے آپ نے اپنی سیرت اور اپنے اخلاق و اوصاف میں حضرت مسیح ناصری کی نسبت اپنے آقا اور مطاع اور اپنے دلی محبوب حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ کا بہت زیادہ ورثہ پایا ہے چنانچہ خود فرماتے ہیں :۔
’’پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب
گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۳)
’’یعنی گو میں مسیح ناصری کا مثیل بنا کر بھیجا گیا ہوں جنہیں ان کے یہودی دشمنوں نے صلیب پر چڑھا دیا تھا مگر میرا اصل منصب محمدی نیابت سے تعلق رکھتا ہے جس کےساتھ غلبہ اور کامیابی مقدر ہو چکی ہے۔‘‘
اسی لئے جہاں عیسائیوں کے قول کے مطابق حضرت مسیح ناصری تین سال کی مختصر اور محدود سی مامور انہ زندگی پا کر ایلی ایلی لما سبقتانی کہتے ہوئے جاں بحق ہوگئے  وہاں خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کو ہر قسم کے موافق و مخالف حالات میں سے گذارا اور   گو نا گوں اخلاق کے اظہار کا موقع عطا کیا اور آپ کو اپنے مشن میں ایسی بے نظیر کامیابی بخشی کہ دہلی کے ایک مشہور غیر احمدی اخبار کے قول کے مطابق مخالف تک پکار اٹھے کہ
’’مرزا مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں ۔اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیااور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی۔نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.....اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں .....اس کا پُر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.....اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں، مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا ۔‘‘
(کرزن گزٹ دہلی یکم جون ۱۹۰۸ء)
(۲ )
اس کے بعد سب سے پہلی بات جو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ کے متعلق بیان کر نا چاہتا ہوں اور یہ ان بکھرے ہوئے موتیوں میں سے پہلا موتی ہے وہ اس پختہ اور کامل یقین کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جو حضرت مسیح موعود کو اپنے خدا داد مشن کے متعلق تھا۔یہ وصف آپ کے اندر اس کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں اس کا ایک زبردست جلوہ نظر آتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ اپنے اس یقین کی وجہ سے بڑے سے بڑے پہاڑ کےساتھ ٹکرانے کے لئے تیار ہیں ۔بسا اوقات اپنے خدا داد مشن اور اپنے الہامات کے متعلق مؤکد بعذاب قسم کھا کر فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی مرئی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہو سکتا ہے ۔اور بعض اوقات اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لئے وہ ضرور پوری ہوں گی ۔اور اگر وہ سنت اللہ کے مطابق پوری نہ ہوں تو میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ مجھے مفتری قرار دے کر پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے۔چنانچہ جب ایک متعصب ہندو لالہ گنگا بشن نے پنڈت لیکھرام والی پیشگوئی پر یہ اعتراض کیا کہ پنڈت لیکھرام کی موت پیشگوئی کے نتیجہ میں نہیں ہوئی بلکہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود نے پنڈت جی کو خود قتل کر وادیا تھا تو حضرت مسیح موعود نے جواب میں انتہائی غیرت اور تحدی کے ساتھ فرمایا کہ اگر لالہ گنگا بشن کا واقعی یہی خیال ہے تو وہ اس بات پر قسم کھا جائیں کہ نعوذباللہ میں نے خود پنڈت لیکھرام کو قتل کرا دیاتھا۔پھر اگر اس کے بعد لالہ صاحب ایک سال کے اندر اندر ایسی موت کے عذاب میں مبتلا نہ ہوئے جس میں انسانی ہاتھوں کا کوئی دخل متصور نہ ہوسکے تو میں جھوٹا ہوں گا اور مجھےبے شک ایک قاتل کی سزا دی جائے۔چنانچہ آپ نے بڑے زور دار الفاظ میں لکھا کہ:۔
’’میں تیار ہوں اور نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں (اس طرح کے خالصۃً) آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھہر جاؤں تو مجھے پھانسی دی جائے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ خدا نے میری پیشگوئی پوری کر کے دین اسلام کی سچائی ظاہر کر نے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے پس ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ میں پھانسی ملوں۔‘‘
(اشتہار ۵؍ اپریل ۱۸۹۷ء)
دوسری جگہ اپنے الہامات کے متعلق یقین کامل کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر مَیں ایک دم کے لئے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔ وہ کلام جو میرے پر (خدا کی طرف سے)نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے۔ اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کرکوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی مَیں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور مَیں اس پر ایسا ہی ایمان لاتاہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲)
دوست غور کریں کہ یہ کس درجہ کا ایمان اور کیسا پختہ اور کیسا کامل یقین ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کفر و ایمان کی بازی لگاتے ہوئے پھانسی کے تختہ پر چڑھنے کے لئے تیار تھے۔لاریب ایسا ایمان صرف اسی شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جو اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ رہا ہو اور اپنے کانوں سے اس کا کلام سنتا ہو۔کوئی شخص اپنی سمجھ کی کمی یا اپنے تدبر کی کوتاہی یا اپنے تعصب کی فراوانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماموریت کے دعویٰ میں شک کر سکتا ہے مگر کوئی ہوش و حواس رکھنے والا انسان اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ آپ کو اپنے خداداد مشن کے متعلق کامل یقین تھا ۔ایک جلد باز انسان آپ کو دھوکا خوردہ خیال کر سکتا ہے جیسا کہ بعض بظاہر      غیر متعصب مغربی مصنفین نے اپنی کوتاہ بینی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال کیا ہے مگر کوئی شخص جس میں ابھی تک نور ضمیر کی تھوڑی سی روشنی بھی باقی ہے آپ کو دھوکا دینے والا قرارنہیں دے سکتا۔
(۳)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے مثال محبت بلکہ عشق کا ذکر میری گذشتہ سال کی تقریر موسومہ سیرۃ طیبہ میں گذر چکا ہے۔یہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے عشق کا تتمہ تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو تمام دوسرے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ بھی غیر معمولی محبت تھی اور آپ اپنے عظیم الشان مقام کے باوجود ان سب کا بے حد ادب کرتے تھے۔چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں :۔
ماہمہ پیغمبراں را چاکریم
ہمچو خاکے او فتادہ بردرے

ہر رسولے کو طریقِ حق نمود
جان ما قرباں برآں حق پرورے
(براہین احمدیہ حصہ اول روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۳)
’’یعنی میںان تمام رسولوں اور نبیوں کا خدمت گذار ہوں جو دنیا میں خدا کا رستہ دکھانے کے لئے آتے رہے ہیں اور میں ان کے ساتھ اس طرح پیوستہ ہوں جس طرح کہ ڈیوڑھی کی خاک مکان کے ساتھ پیوستہ ہوتی ہے۔میری جان ان سب پرستاران خدا پر (خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں آئے ہوں ) دلی محبت کے ساتھ قربان ہے کیونکہ وہ میری طرح میرے آسمانی آقا کے خادم تھے۔‘‘
اور چونکہ بعض ناواقف لوگوں کی طرف سے حضرت مسیح ناصری کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خاص طور پر اعتراض کیا گیا تھا کہ آپ نے نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ کی ہتک کی ہے اس لئے آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق خاص طور پر فرمایا کہ :۔
’’بخدا میں وہ سچی محبت اس سے( مسیح سے) رکھتا ہوں جو تمہیں ہرگز نہیں ۔ اور جس نور کے ساتھ میں اسے شناخت کرتا ہوں تم ہرگز اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ا س میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کا ایک پیارا اور برگزیدہ  نبی تھا۔‘‘
(دعوت حق مشمولہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۱۷)
(۴)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کی آل اولاد کے ساتھ بھی حضرت     مسیح موعود ؑ  کو نہایت درجہ عقیدت تھی ۔چنانچہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق کس عقیدت سے اور کس دلی جوش و خروش کے ساتھ فرماتے ہیں :۔
إنَّ     الصَّـحَـابَۃَ     کُلُّـھُمْ    کَـذُکَآئِ                                               
قَـدْ نَوَّرُوْا وَجْـہَ الـوَرَیٰ بِضِیَـآئِ
تَرَکُـوْا أَقَـارِبَـہُمْ وَحُبَّ عِـیَالِھِمْ
جَآءُوْا   رَسُوْلَ    اللہِ   کَالْفُقَرَآءِ
ذُبِـحُوا وَ مَا خَافُوا الْوَرٰی مِنْ صِدْقِھِم
بَـلْ آثَـرُوْا الرَّحْـمَـانَ عِنْدَ بَـلَآئِ
تَحْتَ السُّیُوْفِ تَشَـہَّدُوْا لِـخُلُوْصِھِم
شَہِـدُوْا بِصِـدْقِ الْقَلْبِ فِی الْأَمْـلَآئِ
اَلصَّـالِـحُوْنَ الْـخَاشِعُـوْنَ لِرَبِّـــھِمْ
اَلْبَـائِتُـوْنَ        بِذِکْـرِہٖ       وَ           بُـکَآئِ
قَـوْمٌ  کِـرَامٌ لَا نُفَـرِّقُ  بَیْنَھُمْ
کَانُـوْا     لِــخَـیْرِ           الرُّسُـلِ     کَـالْأَعْـضَآئِ
(سر الخلافۃ روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۹۷)
’’یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سورج کی طرح روشن تھے ۔انہوں نے ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کر دیا۔انہوں نے صداقت کی خاطر اپنے رشتہ داروں کو اور اپنے اہل و عیال کی محبت تک کو خیر باد کہہ دیا۔اور رسول اللہ کی آواز پر غریب درویشوں کی طرح بے گھر اور بے در ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے۔وہ خدا کے رستہ میں برضاء و رغبت ذبح کئے گئے اور انہوں نے سچائی کی خاطر دنیا کا ذرہ بھر خوف نہیں کیا بلکہ ہر امتحان اور آزمائش کے وقت خدائے رحمن کے تعلق کو ترجیح دی۔انہوں نے تلواروں کی جھنکار میں شہادت کے جام تلاش کئے اور ہر مجلس میں صداقت کی گواہی کے لئے بے خوف و خطر تیار رہے۔وہ نیک اور متقی اور صرف خدا سے ڈرنے والے لوگ تھے اور خدا کی یاد میں گریہ و زاری سے راتیں گذارتے تھے ۔وہ ایسی برگزیدہ جماعت تھی کہ ایمان و اخلاص کےلحاظ سے ہم ان میں کوئی فرق نہیں کرسکتے ۔وہ اپنے آقا کے ساتھ دائیں اور بائیں جسم کے اعضاء کی طرح لپٹے رہے اور نصرت اور اعانت اور قربانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔‘‘
اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق کس محبت کے ساتھ اور کن زور دار الفاظ میں فرماتے ہیں :۔
’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر و مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کے تقویٰ اور محبت الٰہی اور تقویٰ اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوئہ حسنہ ہے .....تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔‘‘
(اشتہار ’’تبلیغ الحق‘‘ ۸ ا؍کتوبر ۱۹۰۵ءمجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۶۵۴ طبع دوم)
(۵)
اسلام کے گذشتہ مجددین کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی غیرت رکھتے تھے ۔ایک دفعہ ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنے بچپن کے زمانہ میں جہانگیر کا شاندار مقبرہ دیکھنے کا شوق ظاہر کیا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا:۔
’’میاں تم جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کے لئے بے شک جاؤ لیکن اس کی قبر پرنہ کھڑے ہونا کیونکہ اس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجدد الف ثانی کی ہتک کی تھی۔‘‘        (روایات میاں عبد العزیز صاحب مغل مرحوم )
تین سو سال سے زائد زمانہ گذرنے پر بھی ایک مسلمان بادشاہ کے ایسے فعل پر جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلامی تاریخ میں گویا ایک عام واقعہ ہے کیونکہ مسلمان بادشاہوں کے زمانہ میں ایسے کئی واقعات گذر چکے ہیں ۔حضرت اقدس علیہ السلام کا اس قدر غیرت ظاہر کرنا اور حضرت مجدد الف ثانی کے لئے بھائی جیسا پیار ا لفظ استعمال کرنا اس یگانگت اور محبت اور عقیدت کی ایک بہت روشن مثال ہے جوآپ کے دل میں امت محمدیہ کے صلحاء کے لئے موجزن تھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس ارشاد میں خود وضاحت فرما دی ہے۔ حضور کی اس ہدایت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کسی مسلمان کو جہانگیر کا مقبرہ نہیں دیکھنا چاہیے وہ ایک جاہ و جلال والا مسلمان بادشاہ تھا اور ہمیں اپنے قومی اکابر اور بزرگوں بلکہ غیر قوموں کے بزرگوں کی بھی عزت کرنے کا حکم ہے مگر چونکہ حضرت مسیح موعود اپنے بچوں کے دل میں غیر معمولی اسلامی غیرت اور صلحاء امت کا غیر معمولی ادب پیدا کر نا چاہتے تھے اس لئے آپ نے اس موقع پر اپنی اولاد کو ایک خاص نوعیت کی نصیحت کرنی مناسب خیال فرمائی۔
اس تعلق میں ایک اور دلچسپ روایت بیان کرنا بھی ضروری ہے ۔حضرت   مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عقیدہ تھا کہ مقتدی کے لئے نماز میں امام کے پیچھے بھی سورئہ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے اور آپ اس کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے کیونکہ سورۃ فاتحہ قرآن عظیم کا خلاصہ ہے اور قرآن سے آپ کو عشق تھا ۔ایک دفعہ آ پ اپنی مجلس میںبڑے زور کے ساتھ اپنے اس عقیدے کا اظہا ر فرمارہے تھے کہ حاضرین مجلس میں سے کسی نے عرض کیا کہ حضور ! کیا سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی؟ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے اس طرح رک کر کہ جیسے ایک چلتی ہوئی گاڑی کو بریک لگ جاتی ہے جلدی سے فرمایا:۔
’’نہیں نہیں ! ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ حنفی فرقہ کے کثیر التعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی ضرورت نہیں ۔اور ہم ہرگز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی ۔‘‘
(سلسلہ احمدیہ و سیرۃ المہدی حصہ دوم)
اس دلچسپ روایت سے جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کو بلکہ غیر از جماعت لوگوں کو بھی یہ لطیف سبق حاصل ہوتا ہے کہ اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے بھی مختلف الخیال نیک لوگوں کا ادب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے ۔بزرگوں کا قول ہے اور یہ فقرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر بھی کثرت کے ساتھ آتا تھا کہ :۔
اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ
’’یعنی دین اور خوش اخلاقی کا سارا راستہ ادب کے میدان میں سے گذرتا ہے۔‘‘
(۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صبر و استقلال بھی بے مثال نوعیت کا تھا۔آپ کو اپنے خداداد مشن کی انجام دہی کے لئے جن غیر معمولی مشکلات میں سے گذرنا پڑا اور جن خار دار جنگلوں اور جن پر خطر وادیوں اور جن فلک بوس پہاڑوں کو طے کر نا پڑا وہ آپ کی زندگی کے ہر لمحہ میں ظاہر و عیاں ہیں ۔آپ کی طرف سے ماموریت کا دعویٰ ہوتے ہی مخالفت کا ایسا طوفان اٹھا کہ اَلْحَفِیْظ اَلْاَمَان  !یوں نظر آتا تھا کہ ایک چھوٹی سی کشتی میں ایک کمزور سا انسان اکیلا بیٹھا ہوا اسے گویا ایک تنکے کے ساتھ چلا رہا ہے اور طوفان کا زور اسے یوں اٹھاتا اور گراتا ہے کہ جس طرح ایک تیز آندھی کے سامنے ایک کاغذ کا پرزہ ادھر ادھر اڑتا پھرتا ہے مگر یہ شخص ہراساں نہیں ہوتا بلکہ خدا کی حمد کے گیت گاتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے اور اس کا دل اس یقین سے معمور ہے کہ خدا نے مجھے بھیجا ہے اور وہی میری حفاظت کرے گا۔یہ صبر واستقلال تھا جس پر آپ کے اشد ترین مخالف تک پکار اٹھے کہ مرزا صاحب صادق ہوں یا غیر صادق مگر اس میں کلام نہیں کہ وہ جس مشن کو لے کر اٹھے تھے اس پر اپنی زندگی کے آخری دم تک مضبوط چٹان کی طرح قائم رہے،چنانچہ آپ کی وفات پر ایک آریہ رسالہ کے   ایڈیٹر نے لکھا کہ :۔
’’مرزا صاحب اپنے آخری دم تک اپنے مقصد پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہ کھائی۔‘‘(رسالہ ’’اندر‘‘ لاہور)
اسی طرح ایک عیسائی مصنف نے لکھا کہ :۔
’’مرزا صاحب کی اخلاقی جرأت جو انہوں نے اپنے مخالفوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذارسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقیناً بہت قابل  تعریف ہے۔‘‘        (انگریزی رسالہ احمدیہ موومنٹ مصنفہ مسٹر ایچ۔اے والٹر)
اور ایک غیر احمدی مسلمان اخبارنے لکھا کہ :۔
’’مرزا مرحوم نے مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہوکر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا۔‘‘(کرزن گزٹ دہلی)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ وصف جہاں ایک طرف آپ کے غیر معمولی صبر و استقلال پر شاہدہے وہاں وہ اس بات کی بھی زبردست دلیل ہے کہ آپ کو اپنے بھیجنے والے خدا کی نصرت پر کامل بھروسہ تھا کہ جو پودا اس نےا پنے ہاتھ سے لگایا ہے وہ اسے کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں :۔
اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر
از باغباں بترس کہ من شاخ مثمرم
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۱)
’’یعنی اے وہ جو میری طرف غصہ سے بھرا ہوا سو خنجر لے کر بھاگا آتا ہے تو آسمانی باغبان سے ڈر کہ میں اس کے اپنے ہاتھ کا لگایا ہوا پھل دینے والا پودا ہوں۔‘‘
جماعت احمدیہ کے نوجوانوں اور مقامی جماعتوں کے امیروں اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں اور سب سے بڑھ کر جماعت کے مبلغوں اور مربیوں اور مرکزی کارکنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس غیر معمولی صبر اور استقلال اور اس غیر معمولی عزم اور اس غیر معمولی توکل سے سبق حاصل کر نا چاہیے کہ اگر وہ بھی صبر و ثبات سے کام لیں گے اور خدا کے بندے بن کر رہیں گے اور اپنے آپ کو ثمردار پودے بنائیں گے تو خدا تعالیٰ ان کی بھی اسی طر ح حفاظت کرے گا اور ان کے لئے بھی اسی طرح غیرت دکھائے گا جس طرح کہ وہ ہمیشہ سے اپنے نیک بندوں کے لئے دکھاتا چلا آیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پنجابی زبان میں الہام ہے اور کیا خوب الہام ہے ۔خدا تعالیٰ آپ سےحد درجہ محبت کے الفاظ میں مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ :۔
’’جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘
(تذکرہ صفحہ۳۹۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
روحانیت کے میدان میں یہ زرّیں ارشاد انسان کے لئے سبق نمبر ایک کا حکم رکھتا ہے ۔کاش کہ ہماری جماعت کے بوڑھے اور نوجوان، عورتیں اور مرد، اس حقیقت کو اپنا حِرزِ جان بنائیں کہ ’’خدا داری چہ غم داری۔‘‘

(۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں اطاعت رسول کا بھی نہایت زبردست جذبہ تھااور آپ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اپنے آقا کی اتباع میں لذت پاتے اور اس کا غیر معمولی خیال رکھتے تھے۔چنانچہ میں اس موقع پر دو بظاہر بہت معمولی سے واقعات بیان کر تا ہوں کیونکہ انسان کا کیریکٹر زیادہ تر چھوٹی باتوں میں ہی ظاہر ہواکرتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ آپ مولوی کرم دین والے تکلیف دہ فوجداری مقدمہ کے تعلق میں گورداسپور تشریف لے گئے تھے اور وہ سخت گرمی کا موسم تھا اور رات کا وقت تھا۔ آپ کے آرام کے لئے مکان کی کھلی چھت پر چارپائی بچھائی گئی۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سونے کی غرض سے چھت پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے آپ نے ناراضگی کے لہجہ میں خدا م سے فرمایا۔
’’کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے پردہ اور بے منڈیر کی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
(سیرۃالمہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ ۷۴۴ روایت ۸۲۰)
چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے گرمی کی انتہائی شدت کے باوجود نیچے کے مسقف کمرے میں سونا پسند کیا مگر اس کھلی چھت پر نہیں سوئے۔آپ کا یہ فعل اس وجہ سے نہیں تھا کہ پردہ کے بغیر چھت پر سونا کسی خطرے کا موجب ہو سکتا ہے بلکہ اس خیال سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔
ایک اور موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں تشریف رکھتے تھے اور اس وقت باہر سے آئے ہوئے کچھ مہمان بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کسی شخص نے دروازے پر دستک دی۔اس پرحاضر الوقت لوگوں میں سے ایک شخص نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےا ن صاحب کو اٹھتے دیکھا تو جلدی سے اٹھے اور فرمایا 
’’ٹھہریں ٹھہریں میں خود دروازہ کھولوں گا ۔آپ مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ ۸۶ روایت ۸۹)
یہ دونوں واقعات بظاہر بہت معمولی نوعیت کے ہیں مگر ان سے اس غیر معمولی جذبہ اطاعت پر زبر دست روشنی پڑتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اپنے مطاع اور آقا اور محبوب کے لئے جا گزیں تھا ۔اور ایک قدرتی چشمہ کے طور پر ہر وقت پھوٹ پھوٹ کر بہتا رہتا تھا ۔آج کون ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایتوں کو ملحوظ رکھتا ہے؟
(۸)
حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی تکلّفات سے بالکل آزاد تھی۔ہمارے ماموں جان یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود ؑ کی صحبت میں قریباً ستائیس سال گذارے۔اور وہ بڑے زیرک اور آنکھیں کھلی رکھنے والے بزرگ تھے ۔ وہ مجھ سے اکثر بیان کیا کرتے تھے کہ مجھے دنیا میں بے شمار لوگوں سے واسطہ پڑا ہے اور میں نے دنیا داروں اور دینداروں سب کو دیکھا اور سب کی صحبت اٹھائی ہےمگر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑ ھ کر کوئی شخص تکلفات سے کلی طور پر آزاد نہیں دیکھا۔اور یہی اس عاجز کا بھی مشاہدہ ہے یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی تمام زندگی ایک قدرتی چشمہ ہے جو اپنے ماحول کے تاثرات سے بالکل بے نیاز ہو کر اپنے طبعی بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔ میں ایک بہت معمولی سی بات بیان کرتا ہوں۔     دنیا داروں بلکہ دین کے میدان میں پیروں اور سجادہ نشینوں تک میں عام طور پر یہ طریق ہے کہ ان کی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے لئے ان کی حیثیت اور حالات کے لحاظ سے الگ الگ جگہ ملحوظ رکھی جاتی ہے مگر اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں قطعاً ایسا کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کی مجلس میں ہر طبقہ کے لوگ آپ کے ساتھ اس طرح ملے جلے بیٹھےہوتے تھے کہ جیسے ایک خاندان کے افراد گھر میں مل کر بیٹھتے ہیں اور بسا اوقات اس بے تکلفانہ انداز کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ بظاہر ادنیٰ جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو غیر شعوری طور پر اچھی جگہ مل جاتی تھی ۔بیسیوں مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ چارپائی کے سرہانے کی طرف کوئی دوسرا شخص بیٹھا ہوتا تھا اور پائنتی کی طرف حضرت مسیح موعود ؑ ہوتےتھے۔یا ننگی چارپائی پر آپ ہوتے تھے اور چادر وغیرہ والی چارپائی پر آپ کا کوئی مرید بیٹھا ہوتا تھا۔یا اونچی جگہ پر کوئی مرید ہوتا تھا اور نیچی جگہ میں آپ ہوتے تھے۔مجلس کی اس بے تکلفانہ صورت کی وجہ سے بعض اوقات ایک نووارد کو دھوکا لگ جاتا تھا کہ حاضر مجلس لوگوں میںسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون سے ہیں اور کس جگہ تشریف رکھتےہیں۔مگر یہ ایک کمال ہے جو صرف خدا کے ماموروں کی جماعتوں میں ہی پایا جاتا ہے کہ اس بے تکلفی کے نتیجہ میں کسی قسم کی بے ادبی کا رنگ پیدا نہیں ہوتا تھا بلکہ ہر شخص کا دل آپ کی محبت اور ادب اور احترام کے انتہائی جذبات سے معمور ہوتا تھا۔
(سیرۃ المہدی و سلسلہ احمدیہ و شمائل مصنفہ عرفانی صاحب)
(۹)
مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی زیادہ کثرت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحت بھی نسبتاً بہتر تھی آپ اکثر اوقات مہمانوں کےسا تھ اپنے مکان کے مردانہ حصہ میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کھانے کے دوران میں ہر قسم کی بے تکلفانہ گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا ۔گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا دسترخوان بھی بچھ جاتا تھا۔ایسے موقعوں پر آپ عموماً ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتےتھےاور اس بات کی نگرانی فرماتے تھے کہ اگر کبھی دسترخوان پر ایک سے زیادہ کھانے ہوں تو ہر شخص کے سامنے دسترخوان کی ہر چیز پہنچ جائے۔عموماً ہر مہمان کے متعلق دریافت فرماتے رہتے تھے کہ کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے یالسّی یا پان کی عادت تو نہیں۔اور پھر حتی الوسع ہر ایک کے لئے اس کی عادت کے موافق چیز مہیا فرماتے تھے۔بعض اوقات اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی مہمان کو اچار کا شوق ہے اور اچار دسترخوان پر نہیں ہوتا تھا تو خود کھانا کھاتے کھاتے اٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے جاتے اور اندر سےا چار لاکر ایسے مہمان کے سامنے رکھ دیتے تھے۔اور چونکہ آپ بہت تھوڑا کھانے کی وجہ سے جلد شکم سیر ہوجاتے تھے اس لئے سیر ہونے کے بعد بھی آپ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرے اٹھا کر منہ میں ڈالتے رہتے تھے تاکہ کوئی مہمان اس خیال سے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہے     دستر خوان سے بھوکا ہی نہ اٹھ جائے ۔اللہ اللہ! کیا زمانہ تھا۔
اسی طرح جب کوئی خاص دوست آپ کی ملاقات کے بعد واپس جانے لگتا تھا تو بعض اوقات آپ ایک میل یا دو دو میل تک اسے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے تھے اور بڑی محبت اور اکرام اور دعا کے ساتھ رخصت فرماتے تھے۔ اور مہمانوں کے واپس جانے پر آپ کے د ل کو اس طرح رنج پہنچتا تھا کہ گویا اپنا ایک قریبی عزیز رخصت ہو رہا ہے ۔چنانچہ مہمانوں کے ذکر میں فرماتے ہیں:۔
مہماںجو کر کے اُلفت آئے بصد محبت
دِل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی
دُنیا بھی اِک سَرا ہے بچھڑے گا جو مِلا ہے
گر سَو برس رہا ہے آخر کو پھرجُدا ہے
شِکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی
(محمود کی آمین روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۲۳)
مہمان نوازی کے تعلق میں مولاناابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا ابو النصر مرحوم کے قادیان جانے کا ذکر بھی اس جگہ بے موقع نہ ہوگا۔وہ ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لے گئے۔بہت زیرک اور سمجھدار بزرگ تھے۔قادیان سے واپس آکر انہوں نےاخبار ’’وکیل‘‘ امرت سر میں ایک مضمون لکھا جس میں مولانا ابو النصر فرماتے ہیں کہ:۔
’’میں نے کیا دیکھا ؟ قادیان دیکھا ۔مرزا صاحب سے ملاقات کی اور ان کا مہمان رہا۔مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے.....اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی۔چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا.....مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہےاور باتوں میں ملائمت ہے۔طبیعت منکسر مگر حکومت خیز ۔مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا۔بردباری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے ۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا متبسم ہیں۔ مرزاصاحب کے مریدوں میں مَیں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں خوش اعتقاد پایا.....مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا کہ ہم آپ کو اس وعدہ پر (واپس جانے کی ) اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں.....میں جس شوق کو لے کر گیا تھا اسے ساتھ لایا۔اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ   لے جائے۔‘‘
(اخبار ’’وکیل امرتسر بحوالہ شمائل مصنفہ حضرت عرفانی صاحب)
قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد یعنی ہمارے دادا صاحب کے زمانہ کا ایک پھل دار باغ تھا۔جس میں مختلف قسم کے ثمردار درخت تھے ۔حضرت   مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے مقیم دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میںتشریف لے جاتے اور موسم کا پھل اتروا کر سب کے ساتھ مل کر بے تکلفی سے نوش فرماتے تھے۔اس وقت یوں نظر آتا تھا کہ گویا ایک مشفق باپ کے اردگرد اس کے معصوم بچے گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں مگر اس مجلس میں بھی علم و عرفان کا چشمہ جاری رہتا تھا اور عام بے تکلفی کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔اور خدا اور رسول کا ذکر تو حضرت مسیح موعود کی ہر مجلس کا مرکزی نقطہ ہوا کر تاتھا۔(سلسلہ احمدیہ)
(۱۰)
مہمانوں کے ذکر کی ذیل میں ایک دردناک واقعہ کا خیال آگیا ہے جس کے ذکر سے میں اس وقت رک نہیں سکتا۔افغانستان کے علاقہ خوست میںایک نہایت درجہ بزرگ عالم رہتے تھے جو رؤسا کے خاندان سے تعلق رکھتے تھےاور افغانستان میں ان کے علم اور نیکی اور شرافت اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے ان کا اتنا اثر تھا کہ کابل میں امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کی رسم انہوں نے ہی ادا کی تھی۔ان کا نام صاحبزادہ مولوی سید عبد اللطیف صاحب تھا۔صاحبزادہ صاحب نے جب یہ سنا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ تلاش حق کے لئے کابل سے قادیان تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود کی ملاقات سے مشرف ہوئے اور چونکہ صحیح فراست اور نیک فطرت رکھتےتھے انہوں نے آتے ہی سمجھ لیا کہ حضرت مسیح موعود کا دعویٰ سچا ہے اور بیعت میں داخل ہوگئے۔چند ماہ کے قیام کے بعد جب وہ وطن واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے طریق کے مطابق انہیں رخصت کرنے کے لئے کافی دور تک بٹالہ کے رستہ پر ان کے ساتھ گئے اور جب جدائی کا آخری وقت آیا تو صاحبزادہ صاحب غم سے اتنے مغلوب تھے کہ زار زار روتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے قدموں میں گر گئے ۔حضرت مسیح موعود نےا ن کو بڑی مشکل سے یہ فرماتے ہوئے زمین سے اٹھایا کہ اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ    اس وقت صاحبزادہ صاحب نے بڑی رقت سے عرض کیا۔
’’حضرت !میرا دل کہتاہے کہ میری موت کا وقت آگیا ہے اور میں اس زندگی میں آپ کا مبارک چہرہ پھر نہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘
(سیرۃ المہدی  جلد اوّل صفحہ ۲۳۶ روایت ۲۶۰)
چنانچہ ایساہی ہوا کہ کابل پہنچنے پر امیر حبیب اللہ خان نے کابل کے ملانوںکے فتوے کے مطابق ان کو اوّلاً بار بار توبہ کرنے کے لئے کہا اور سخت ترین سزا کی دھمکی کے علاوہ طرح طرح کے لالچ بھی دیئے مگر جب انہوں نے سختی سے انکار کیا اور ہردفعہ یہی فرمایا کہ جس چیز کو میں نے حق سمجھ کر خدا کی خاطر قبول کیا ہے اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا ۔تو پھر ان کو ایک میدان میں کمر تک زمین میں گاڑ کر ان پر پتھروں کی   بے پناہ بارش برسائی۔حتّٰی کہ اس عا شق الٰہی کی روح اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہو گئی اور انسان پر انسان کے ظلم اور مذہب میں بدترین تشدد کا یہ خونیں ڈرامہ ختم ہوا۔جب حضرت مسیح موعود کو صاحبزادہ صاحب کی شہاد ت کی خبر پہنچی تو آپ نے بڑے درد کےساتھ لکھا کہ:
’’اے عبد اللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا۔اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے ....اے کابل کی زمین! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.....تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۰ و۷۴)
(۱۱)
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی بھاری غرض و غایت اسلام کی خدمت اور توحید کا قیام تھی اور اس زمانہ میں حقیقی توحید کا سب سے زیادہ مقابلہ مسیحیت کےسا تھ ہے جو توحید کی آڑ میں خطرناک شرک کی تعلیم دیتی اور حضرت   مسیح ناصری کو نعوذ باللہ خدا کا بیٹا قرار دے کر حضرت احدیت کے پہلو میں بٹھاتی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود کو عیسائیت کے خلاف بڑا جوش تھا اور ویسے بھی آپ کے منصب مسیحیت کا بڑا کام حدیثوں میں کسر صلیب ہی بیان ہوا ہے اس لئے آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر بہت زیادہ زور دیتے تھے کیونکہ صرف اس ایک بات کے ثابت ہونے سے ہی عیسائیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے یعنی وفات مسیح کے نتیجہ میں نہ تو الوہیت مسیح باقی رہتی ہےا ور نہ تثلیث کا نام و نشان قائم رہتا ہے اور نہ کفارہ کا مسئلہ اپنی بودی ٹانگوں پر کھڑا رہ سکتا ہے ۔بے شک وفات مسیح ناصری کا عقیدہ طبعًا حضرت مسیح موعود کی اپنی صداقت کے ثبوت کے لئے بھی ایک پہلا زینہ ہے مگر اس مسئلہ کی اصل اہمیت جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود اس پر زیادہ زور دیتے تھے وہ موجودہ مسیحیت کے کھنڈن سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ اکثر فرمایا کرتےتھے کہ 
’’تم مسیح کو مرنے دو کہ اسلام کی زندگی اسی میںہے‘‘
(الحکم مورخہ ۲۶؍اگست ۱۹۰۸ءصفحہ ۳)
کاش ہمارے دوسر ے مسلمان بھائی اس نکتہ کو سمجھ کر کم از کم مسیحیت کے مقابلہ میں تو ہمارے ہمنو ا ہوجائیں ۔حضرت مسیح موعود کے دعوے کو ماننا یا نہ ماننا دوسری بات ہے۔
مسیحیت کے باطل عقائد اور اس زمانہ میں ان عقائد کے عالمگیر انتشار کا حضرت مسیح موعود کے دل پر اتنا بوجھ تھا کہ آپ ایک جگہ درد و کرب سے بے قرار ہو کر بڑے جلال سے فرماتے ہیںکہ
’’میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہوجائے۔میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتاہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہےاوراس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہو گا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے ۔ میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانامجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.....وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جوسچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا ....وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتےہیں ملکوں میں پھیلے گی۔اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا....تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی کہ خدا کےسوا کوئی دوسرا خدا نہیں ۔مگر مسیح ایک اور بھی ہے جو اس وقت بول رہا ہے۔ خدا کی غیرت دکھلارہی ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں مگر انسان کا ثانی موجود ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۷،۸ ۔اشتہار مورخہ ۱۴ ؍جنوری ۱۸۹۷ء)
(۱۲)
اسی تعلق میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک دلچسپ روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کمرہ میں بیٹھے تھے اور حضور کوئی تصنیف فرمارہے تھے کہ کسی شخص نے بڑے زور سے دروازے پر دستک دی۔حضر ت مسیح موعود نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ آپ دروازہ پر جاکر معلوم کریں کہ کون ہے اور کیا پیغام لایا ہے۔مفتی صاحب نے دروازہ کھولا تو دستک دینے والے صاحب نے بتایا کہ مجھے مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے بھجوایا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سناؤں کہ فلاں شہر میں ایک غیر احمدی مولوی کےساتھ مولوی صاحب کا مناظرہ ہوا ہے اور مولوی صاحب نے اسے مناظرہ میں شکست فاش دی ہے اور بہت رگیدا اور لاجواب کردیا۔مفتی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں یہ بات پہنچائی تو حضور نے مسکراکر فرمایا۔
’’میں اس زور داردستک سے سمجھا تھا کہ یورپ مسلمان ہوگیا ہے اور یہ اس کی خبر لائے ہیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اوّل صفحہ ۲۷۳روایت ۳۰۲۔و ذکر حبیب مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب)
یہ غالباً ایک وقتی لطیفہ کی بات تھی مگر اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت     مسیح موعود علیہ السلام کو یورپ کے مسلمان ہونے کا اتنا خیال تھا کہ آپ اپنے لئے حقیقی خوشی صرف اس بات میں سمجھتے تھے کہ مسیحیت کا بت ٹوٹے اور یورپ اسلام کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوجائے۔اسی زبردست جذبہ بلکہ خدائی القاء کے ماتحت اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں :
آسمان پر دعوت حق کے لئے اِک جوش ہے
ہورہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار
آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج
نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار

کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع
پھر ہوئے ہیں چشمہء توحید پر ازجاں نثار
باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا
آئی ہے باد صبا گلزار سے مستانہ وار
آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے
گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار
آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا
        دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱ ،۱۳۲)
میں اس موقع پر یورپ اور امریکہ اور افریقہ کے احمدی مبلغوں سے کہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھو کہ چونکہ غیر احمدی مسلمانوں نے وفات مسیح و حیات مسیح کی بحث کا میدان چھوڑ دیا ہے اس لئے یہ بحث اب ختم ہوگئی ہے۔یہ بحث اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ مسیحیت اپنے موجودہ عقائد کے ساتھ زندہ ہے۔پس چاہیے کہ قرآن سے اور حدیث سے اور تاریخ سے اور مسیحی صحیفوں سے اور قدیم کتبات سے اور مدفون گنجینوں سے اور عقلی دلائل سے خدا کی نصرت چاہتے ہوئے مسیح کو فوت شدہ ثابت کرنے کے پیچھے لگے رہو تا وقتیکہ مسیح جو حقیقتًا فوت ہو چکا ہے یورپ اور امریکہ اور دوسری عیسائی قوموں کی نظروں میں بھی فوت شدہ ثابت ہوجائے اور اسلام اور مقدس بانی اسلام کے نام کا بول بالا ہو اور یقین رکھو کہ بالآخر یہ ہو کر رہے گا کیونکہ 
’’قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا۔‘‘
(۱۳)
حضر ت مفتی محمد صادق صاحب ہی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتےتھے کہ 
’’ہمارے بڑے اصول دو ۲   ہیں ۔اول خدا کےساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا۔‘‘ 
(ذکر حبیب صفحہ ۱۸۰)
آپ کی ساری زندگی انہی دو اصولوں کے ارد گرد چکر لگاتی تھی۔آپ نے خدا کی توحید کو قائم کرنے اور خالق و مخلوق کے تعلق کو بہتر بنانے میں اپنی انتہائی کوشش صرف کی اور اس کے لئے اپنی تمام طاقتوں کو وقف کر دیا۔بسا اوقات فرمایا کرتےتھے کہ دوسرے مذاہب تو خدا کے حقیقی تصور سے ہی بے گانہ ہیں اور کئی قسم کی مشرکانہ باتوں میں پھنس کر اپنی روحانیت کو ختم کر چکے ہیں مگر مسلمان کہلانے والے بھی موجودہ زمانہ کے مادی ماحول کی تاریکیوں میں بھٹک کر خدا کو بھول چکے ہیں اور اس کی عظیم الشان طاقتوں سے نا آشنا ہیں۔فرمایا کرتےتھے کہ خدا ایک زندہ حی و قیوم قادر و متصرف ہستی ہے جو اپنے سچے پرستاروں کے ساتھ دوستانہ اور مربیانہ تعلق رکھتا ہے وہ ان کی باتوں کو سنتا اور اپنے شیریں کلام سے ان کو مشرف کرتا اور تکلیف اور مصیبت کے وقت ان کی مدد فرماتا ہے ۔چنانچہ اس پاک گروہ کا ذکر کرتے ہوئے جس میں آپ خود بھی شامل تھے فرماتے ہیں:۔
ان سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں 
یہ اس لئے کہ عاشق یار یگانہ ہیں
ان کو خدانے غیر وں سے بخشی ہے امتیاز
ان کے لئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز
جب دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں
جب بد شعار لوگ انہیں کچھ ستاتے ہیں
جب ان کے مارنے کے لئے چال چلتے ہیں
جب ان سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں
تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے
غیروں پہ اپنا رعب نشاں سے جماتا ہے
کہتا ہے یہ تو بندئہ عالی جناب ہے
مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۶)
حضرت مسیح موعود کے خلاف دشمنوں نے سنگین مقدمات بنائے۔آپ کو قتل کرنے اور کرانے کی سازشیں کیں ۔حکومت کو آپ کے خلاف اکسا اکسا کر آپ پر عرصہ عافیت تنگ کرنے کی سیکیمیںبنائیں۔آپ کی ترقی اور غلبہ کی پیشگوئیوں کے اثر کو مٹانے کے لئے آپ کے متعلق بالمقابل ہلاکت کی پیش خبریاں سنائیں۔ آپ کو اپنے خدا داد مشن میں ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔آپ کے ماننے والوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے مگر ہر مصیبت کے وقت آپ کا اور آپ کی جماعتوں کا قدم خدا کے فضل و نصرت سے آگے سے آگے ہی بڑھتا چلا گیا۔خدا کی غائبانہ مدد کوئی مادی چیز نہیں جو ٹٹولنے سے محسوس کی جاسکے۔وہ ایک نور اور اقتدار کی کرن ہے جو ابتداء میں صرف روحانی آنکھ رکھنے والوں کو نظر آیا کرتی ہے۔اسی خدائی نصرت کو یاد کرکے حضرت مسیح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں اور کس شکر گزاری کے جذبے سے فرماتے ہیں:۔
مجھ پر ہر اک نےوار کیا اپنے رنگ میں 
آخر ذلیل ہوگئے انجام جنگ میں
اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۰)
قطرہ سے دریا بننے کا ایک نظارہ تو اس جلسہ میں بھی نظر آرہا ہے کہ پچھتّر کی قلیل تعداد سے شروع ہو کر اب ہمارے جلسہ میں حاضرین کی تعداد خدا کے فضل سے  پچھتّر ہزار تک پہنچ گئی ہےاور ثریا کا روحانی نظارہ بھی انشاء اللہ اقوام عالم کی ہدایت کے ذریعہ دنیا اپنے وقت پر دیکھ لے گی۔
(۱۴)
ریاست کپور تھلہ کا ایک بڑا عجیب واقعہ ہے وہاں ایک مختصر مگر نہایت درجہ مخلص جماعت تھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےساتھ عشق تھا اور حضور بھی ان فدائی دوستوں کےساتھ بڑی محبت رکھتےتھے ۔جیسا کہ اور کئی دوسرے شہروں میں ہوا ہے کپور تھلہ کے بعض غیر احمدی مخالفوں نے کپور تھلہ کی احمدی مسجد پر قبضہ کرکے مقامی احمدیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی۔بالآخر یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور کافی دیر چلتا رہا۔کپور تھلہ کے دوست بہت فکر مند تھے اور گھبرا گھبرا کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے تھے حضرت مسیح موعود نے ان دوستوں کے فکر  اور اخلاص سے متاثر ہو کر ایک دن ان کی دعا کی درخواست پر غیرت کے ساتھ فرمایا
’’گھبراؤ  نہیں۔اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی۔‘‘
(اصحاب احمدجلد ۴)
مگر عدالت کی نیت خراب تھی اور جج کا رویہ بدستور مخالفانہ رہا۔آخر اس نے عدالت میں برملا کہہ دیا کہ تم لوگوں نے نیا مذہب نکالا ہے اب مسجد بھی تمہیں نئی بنانی پڑے گی اور ہم اسی کے مطابق فیصلہ دیں گےمگر ابھی اس نے فیصلہ نہیں لکھا تھا اور خیال تھا کہ عدالت میں جاکر لکھوں گا اس وقت اس نے اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں بیٹھ کر نوکر سے بوٹ پہنانے کو کہا ۔نوکر بوٹ پہناہی رہا تھا کہ جج پر اچانک دل کا حملہ ہو ا اور وہ چند لمحوں میں ہی اس حملہ میں ختم ہوگیا۔اسی جگہ جو دوسرا جج آیا اس نے مسل دیکھ کر احمدیوں کو حق پر پایا اور مسجد احمدیوں کو دلا دی۔یہ اسی قسم کا غیر معمولی نشان رحمت ہے جس سے قومیں زندہ ہوتی اور نصرت الٰہی کا کبھی نہ بھولنے والا سبق حاصل کرتی ہیں کپور تھلہ کی یہ جماعت وہی فدائی جماعت ہے جس کے ایمان اور اخلاص کو دیکھ کر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ 
’’میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح کپور تھلہ کی جماعت اس دنیا میں میرے ساتھ رہی ہے اسی طرح آخرت میں بھی میرے ساتھ ہوگی۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد۱ صفحہ ۵۸روایت ۷۹و نیزاصحاب احمدذکر منشی ظفر احمد صاحبؓ مرحوم)
(۱۵)
قادیان میں ایک لڑکا حیدرآباد دکن سے تعلیم کے لئے آیا تھا ۔اس کا نام عبد الکریم  تھا اور وہ ایک نیک اور شریف لڑکا تھا۔اتفاق سے اسے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں دیوانے کتے نے کاٹ لیا ۔چونکہ انبیاء کرام کی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ دعا کےساتھ ساتھ ظاہری تدبیر بھی اختیار فرماتے تھے اور بعض نام نہاد صوفیوں کی طرح جھوٹے توکل کے قائل نہیں تھے۔آپ نے اس لڑکے کو کسولی پہاڑ پر علاج کے لئے بھجوایا اور وہ اپنے علاج کا کورس پورا کر کے قادیان واپس آگیا۔اور بظاہر اچھا ہوگیامگر کچھ عرصہ کے بعد اس میں اچانک مخصوص بیماری یعنی ہائیڈروفوبیا (Hydrophobia)کے آثار پیدا ہوگئے ۔حضرت مسیح موعود نے اس کے لئے دعا فرمائی اور ساتھ ہی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کو حکم دیا کہ کسولی کے ڈاکٹر کو تار دے کر       عبد الکریم کی حالت بتائی جائے اور علاج کے متعلق مشورہ پوچھا جائے۔کسولی سے تار کے ذریعہ جواب آیا کہ 
’’سَارِی نَتِھنگ کَیْن بی ڈَنْ فَارْ عَبد الکریم‘‘
(Sorry Nothing can be done for Abdul Karim)
’’یعنی افسوس ہے کہ بیماری کے حملہ کے بعد عبد الکریم کا کوئی علاج نہیں‘‘
اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ
’’ان کے پاس علاج نہیں مگر خدا کے پاس تو علاج ہے۔‘‘
چنانچہ حضور نے بڑے درد کے ساتھ اس بچے کی شفا یابی کے لئے دعا فرمائی اور ظاہری علاج کے طور پر خدا ئی القاء کے ماتحت کچھ دوا بھی دی۔خدا کی قدرت سے یہ بچہ حضور کی دعا سے بالکل تندرست ہوگیا یا یوں کہو کہ مردہ زندہ ہو گیا اور اس کے بعد وہ کافی لمبی عمر پا کر فوت ہوا۔     (تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۱تلخیص)
اس واقعہ کے تعلق میں ایک اور ضمنی واقعہ بھی دلچسپ اور قابل ذکر ہے۔میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم جب لاہور میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور کلاس میں ہائیڈروفوبیا کی بیماری کا ذکر آیا تو حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم نے اپنے ایک      ہم جماعت طالب علم سے عبد الکریم کا واقعہ بیان کیا۔ان کے کلاس فیلو نے ضد میں آکر ان سے کہا کہ یہ کوئی با ت نہیں ہائیڈروفوبیا کا علاج بھی ہوسکتا ہے ۔سید حبیب اللہ  شاہ صاحب نے دوسرے دن اپنے کلاس فیلو کا نام لینے کےبغیر مگر اس کے سامنے اپنے انگریز پروفیسر سے پوچھا کہ اگر کسی شخص کو دیوانہ کتا کاٹ لے اور اس کے نتیجہ میں اسے بیماری کا حملہ ہو جائے تو کیا اس کا بھی کوئی علاج ہے؟پروفیسر صاحب نے چھٹتے ہی جواب دیا کہ
’’نتھنگ آن ارتھ کین سیو ہم‘‘
(Nothing on earth can save him)
’’یعنی اسے دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی۔‘‘
اس جگہ یاد رکھنا چاہیے کہ معجزہ کے یہ معنی نہیں کہ کسی زمانہ اور کسی قسم کے حالات میں بھی کوئی انسان اس جیسا کام نہ کر سکے یا اس جیسی چیز نہ لاسکے۔بلکہ اگر ایک مخصوص زمانہ میں کوئی چیز ناممکن سمجھی جاتی ہے اور اس زمانہ کا کوئی انسان اس پر قادر نہیں اور وہ اس وقت تک کے حالات کے ماتحت بشری طاقت سے بالاخیا ل کی جاتی ہے تو اگر ایسی بات کوئی مامور من اللہ اپنی دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ کر گذرے تو وہ یقیناً معجزہ سمجھی جائے گی خواہ بعد کے کسی زمانہ میں وہ چیز دنیا کے لئے ممکن ہی ہو جائے مثلاً بیماریوں کے علاج کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ   اِلَّا الْمَوْت (مسند احمد)
’’یعنی خواہ لوگوں کو معلوم ہویا نہ ہو خدانے ہر بیماری کے لئے نیچر میں کوئی نہ کوئی علاج مقرر کر رکھا ہے ۔ہاں جب کسی کی موت کا مقدر وقت آجائے تو وہ اٹل ہے جس کا کوئی علاج نہیں ۔‘‘
پس اگر آئندہ چل کر مرض ہائیڈرو فوبیا کا کوئی علاج دریافت ہوجائے تو پھر بھی حضرت مسیح موعود کے اس معجزہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے واقعی ایک معجزہ تھا جس کا جواب لانے کے لئے اس وقت کی دنیا عاجز تھی۔اس کے مقابل پر بعض معجزات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر زمانے میں دنیا کو عاجز کر دینے کی صفت میں لاجواب رہتے ہیںمثلاً قرآن مجید کے ظاہری اور معنوی کمالات کا معجزہ ۔ اقتداری پیشگوئیوں کا معجزہ ۔بالمقابل دعا کی قبولیت کا معجزہ۔ہر حال میں رسولوں کے غلبہ کا معجزہ وغیرہ وغیرہ۔اور حضرت مسیح موعودؑ  کو خدا نے یہ دونوں قسم کے معجزے   عطا فرمائے۔
(۱۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آریہ قوم کی دشمنی سب کو معلو م ہے اس قوم نے ہر میدان میں حضرت مسیح موعود سے شکست کھائی اور سینکڑوں نشان دیکھے مگر اپنی ازلی شقاوت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں ہر آن ترقی کرتی گئی۔اس قوم کا ایک فرد قادیان میں رہتا تھا جس کا نام لالہ شرم پت تھا۔ لالہ صاحب حضرت   مسیح موعود سے اکثر ملتے رہتے تھے اور آپ کی بہت سی پیشگوئیوں کے گواہ تھے مگر جب بھی حضرت مسیح موعود نے ان کو شہادت کے لئے بلایا انہوں نے پہلو تہی کی ۔یعنی نہ تو اقرار کی جرأت کی اور نہ انکار کی ہمت پائی۔مگر کٹر آریہ ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود ان کا بہت خیال رکھتےتھے۔اور بڑی ہمدردی فرماتے تھے۔شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مرحوم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ لالہ شرم پت صاحب بہت بیمار ہوگئے۔ ان کے پیٹ پر ایک خطرناک قسم کا پھوڑا نکل آیا اور وہ سخت گھبرا گئے اور اپنی زندگی سے مایوس ہونے لگے۔جب حضرت مسیح موعود کو ان کی بیماری کا علم ہوا تو حضور خود ان کی عیادت کے لئے ان کے تنگ و تاریک مکان پر تشریف لے گئے اور انہیں تسلی دی اور ان کے علاج کے لئے اپنے ڈاکٹر کو مقرر کر دیا کہ وہ لالہ صاحب کا باقاعدگی کے ساتھ علاج کریں۔ان ڈاکٹر صاحب کا نام ڈاکٹر محمد عبداللہ تھا اور قادیان میں اس وقت وہی اکیلے ڈاکٹر تھے ۔اس کے بعد حضرت مسیح موعود ہر روز لالہ صاحب کی عیادت کے لئے ان کے مکان پر تشریف لے جاتے رہے۔ان ایام میں لالہ شرم پت صاحب کی گھبراہٹ کی یہ حالت تھی کہ اسلام کا دشمن ہونے کے باوجود جب بھی حضور ان کے پاس جاتے تھے وہ حضور سے عرض کیا کرتے تھے کہ حضرت جی ! میرے لئے دعا کریں۔اور حضرت مسیح موعود ہمیشہ ان کو تسلی دیتےتھے اور دعا بھی فرماتے تھے۔حضرت مسیح موعود کی یہ عیادت اس وقت تک جاری رہی کہ لالہ صاحب بالکل صحتیاب ہوگئے۔
(سیرت مسیح موعود ؑمصنفہ عرفانی صاحب حصہ دوم صفحہ ۱۶۳۔۱۶۴مطبوعہ ۱۹۲۵ء)
دوست غور کریں کہ اس سے بڑھ کر ایک دشمن قوم کے فرد کے ساتھ رواداری اور ہمدردی اور دلداری کا سلوک اور کیا ہو سکتا ہے؟
(۱۷)
قادیان کے آریوں کا ایک اور واقعہ بھی بڑا دلچسپ اور ایمان افروز ہے جب حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق پنڈت لیکھرام کی موت واقع ہوئی تو آریہ قوم کی مخالفت اور بھی تیز ہوگئی اور قادیان کے آریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک اخبار نکالنا شروع کیا جس کا نام شبھ چنتک تھا۔یہ اخبا ر جو تین کٹر آریہ  سو مراج اور اچھر چند اور بھگت رام باہم مل کر نکالتے تھے ۔حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کے خلاف گندے اعتراضوں اور گالیوں اور افتراؤں سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور حضرت مسیح موعود نے اس پر ایک رسالہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کے نام سے لکھا اور ان لوگوں کو شرافت اور انصاف کی تلقین کی اور کذب بیانیوں اور افترا پردازیوں سے باز رہنے کی نصیحت فرمائی مگر ان کی ناپاک روش میں فرق نہ آیا۔انہی دنوں کے قریب قادیان میں طاعون کی وبا پھوٹی اور حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پاکر پیشگوئی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے طاعون سے محفوظ رکھے گا اور اسی طرح میرے گھر کے اندر رہنے والے لوگ بھی طاعون سے محفوظ رہیں گے۔چنانچہ اس بارے میں خدائی وحی کے الفاظ یہ تھے کہ 
’’اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۰)
’’یعنی میں جو زمین و آسمان کا خدا ہوں تیری اور تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر رہنے والے تمام لوگوں کی طاعون سے حفاظت کروں گا۔‘‘
مگر خدا برا کرے تعصب کا کہ وہ انسان کی آنکھوں پر عداوت کی پٹی باندھ کر اسے اندھا کر دیتا ہے چنانچہ جب اخبار شبھ چنتک کے ایڈیٹر اور منیجر وغیرہ نے یہ پیشگوئی سنی تو غرورمیں آکر اور جوش عداوت میں اندھے ہو کر اچھر چند منیجر اخبار شبھ چنتک نے کہا یہ بھی کوئی پیشگوئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میں بھی طاعون سے محفوظ رہوں گا۔اس کے چند دن بعد ہی قادیان میں طاعون نے زور پکڑا اور اخبار شبھ چنتک کےسارے رکن اس موذی مرض میں مبتلا ہو گئےاور جب ان میں سے اچھر چند جس نے یہ بڑا بول بولا تھا اور اس کا ساتھی بھگت رام مرگئے اور سومراج ایڈیٹر شبھ چنتک ابھی بیمار پڑا تھا تو اس نے گھبرا کر قادیان کے ایک قابل احمدی حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم کو کہلا بھیجا کہ میں بیمار ہوں آپ مہربانی فرما کر میرا علاج کریں۔ مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک عریضہ لکھ کر پوچھا کہ سومراج ایڈیٹر شبھ چنتک طاعون سے بیمار ہے اور اس نے مجھ سے علاج کر نے کی درخواست کی ہے حضور کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟حضرت مسیح موعود نے جواب میںفرمایا۔
’’آپ علاج ضرور کریں کیونکہ انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے مگر میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ یہ شخص بچے گا نہیں۔‘‘
چنانچہ بسمل صاحب کے ہمدردانہ علاج کے باوجود سومراج اسی شام کو یا اگلے دن مر کر اپنے بد نصیب ساتھیوں سے جاملا۔
(الحکم ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۷ء بشمول روایت مرزا سلام اللہ بیگ صاحب)
اس عجیب و غریب واقعہ میں دو عظیم الشان سبق ہیں ۔ایک سبق حضرت     مسیح موعود کی غیر معمولی انسانی ہمدردی کا ہے کہ اپنے اشد ترین مخالف اور بد ترین دشمن کے علاج کے لئے اپنے ایک مرید کو ہدایت فرمائی اور دوسرا سبق خدائی غیرت کا ہے کہ ادھر ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پر ہنسی اڑائی بلکہ ان میں سے ایک نے آپ کے مقابل پر ازراہ افتراء پیشگوئی کا بھی اعلان کیا اور ادھر خدا نے فوراً ان سب کو طاعون میں مبتلا کر کے ایک دو دن میں ہی ان کا خاتمہ کر دیا اور خدا کا یہ شاندار وعدہ بڑے آب وتاب کے ساتھ پورا ہوا کہ
’’اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ‘‘(المجادلۃ:۲۲)
’’یعنی خدا نے یہ بات مقدر کر رکھی ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ اپنے مخالفوں کے مقابل پر غالب آئیں گے۔‘‘

(۱۸)
لیکن اس عجیب و غریب دوہرے سین (Scene)کے باوجود جس میں ایک طرف انتہائی مخالفت کا نظارہ ہے اور دوسری طرف انتہائی غلبہ کا منظر ہے حضرت مسیح موعود نے ہر قوم کے لئے صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھایا اور ہر مذہب وملت کے بانی کو انتہائی عزت و اکرام سے یاد رکھا بلکہ آپ نے عالمگیر امن اور صلح کی بنیاد رکھتے ہوئے   قرآن مجید سے یہ زریں اصول استدلال کر کے پیش کیا کہ چونکہ خدا ساری دنیا کا خدا ہے اس لئے اس نے کسی  قوم سے بھی سوتیلے بیٹوں والا سلوک نہیں کیا بلکہ ہر قوم کی طرف رسول بھیجے اور ہر طبقہ کی ہدایت کا سامان مہیا کیا چنانچہ قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہےکہ
وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ(فاطر:۲۴)
’’یعنی دنیا کی کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس کی طرف خدا نے کوئی مصلح نہ بھیجا ہو۔‘‘
لیکن خدا کی واحدانیت کا یہ تقاضا تھا کہ جب مختلف قوموں میں ترقی کا شعور پیدا ہو جائے اور ان کے دماغی قویٰ پختگی حاصل کر نے لگیں اور ایک عالمگیر شریعت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت کا زمانہ آجائے اور دنیا کی منتشر قوموں کو ایک دوسرے کی طرف حرکت پیدا ہو اور رسل و رسائل کے وسائل بھی وسیع ہو نے شروع ہو جائیں تو پھر حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک دائمی اور عالمگیر شریعت نازل کرکے اور بالآخر آپ کے نائب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اس شریعت کی دنیا بھر میں اشاعت کراکے ساری قوموں کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کیا جائے تا جس طرح دنیا کا خدا ایک ہے اس کا رسول بھی ایک ہو اور اس کی شریعت بھی ایک ،اور ایسا کہ مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کی قومی اور ملکی تہذیب و تمدن کے جزوی اختلاف کے باوجود ان کا مرکزی نقطہ ایک رہے اور اخوت کی تاریں ساری دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھیں چنانچہ حضرت مسیح موعود اس معاملے میں ایک زبردست پیشگوئی کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں دوست غور سے سنیں کہ کس تحدی سے فرماتے ہیں۔
’’اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب (اسلام )اور اس سلسلہ (سلسلہ احمدیہ)میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی..... دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۶،۶۷)
(۱۹)
دوسرے نبیوں کی نبوت تو سب مسلمانوں میں مسلّم ہی ہے چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل اور حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کےسا منے تمام مسلمانوں کی گردنیں عزت و احترام کےساتھ جھکتی ہیں ۔لیکن اس قرآنی اصول کے مطابق کہ خدا تعالیٰ نے ہر ملک و قوم میں مختلف وقتوں میں اپنے رسول بھیجے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی انکشاف کے ماتحت ہندوستان کے مشہور قدیم مصلح حضرت کرشن کی نبوت کو بھی تسلیم کیا اور انہیں ایک پاکباز خدا رسیدہ بزرگ کے طور پر پیش کیا جو قرآنی زمانہ سے پہلے خدا کا ایک سچا نبی اور اوتار تھا اور اس طرح آپ نے الٰہی منشاء کے مطابق ایک اور بڑی قوم کو عالمگیر روحانی اخوت کے دائرہ میں کھینچ لیا۔بے شک کرشن جی کو ماننے والے لوگ اس وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (فَدَاہُ نَفْسِیْ) کے انکار کی وجہ سے ہدایت کے رستہ کو چھوڑ چکے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار صراحت فرمائی ہے کہ اس مذہب کی اصل صداقت پر قائم تھی اور کرشن   خدا تعالیٰ کا ایک برحق رسول تھا جو قدیم زمانہ میں آریہ ورت کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا تھا چنانچہ فرماتے ہیں ۔
’’ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر (خدا کی طرف سے)ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوئوں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اُترتا تھا۔ وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور بااقبال تھا۔ جس نے آریہ ورت کی زمین کو  پاپ سےصاف کیا۔ وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا۔ وہ خدا کی محبت سے پُر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۸ ،۲۲۹)
اسی طرح آپ نے ہندوستان کے ایک اور بڑے مگر جدید مذہبی بزرگ اور سکھ قوم کے بانی حضرت بابا نانک علیہ الرحمہ کی نیکی اور ولایت کو بھی تسلیم کیا اور اس بات کو دلائل سے ثابت کیا کہ حضرت باباصاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلی معترف تھے اور انہوں نے ہندو قوم میں اپنے مخصوص صوفیانہ طریق پر نیکی اور پاکبازی اور اخلاق حسنہ اور روحانیت کے پھیلانے کی کوشش کی۔چنانچہ حضرت مسیح موعود  ؑ فرماتے ہیں۔
’’ باوا نانک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھا۔ اور ان لوگوں میں سے تھا جن کو خدائے عزّوجل اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے ..... بلا شبہ باوا نانک صاحب کا وجود ہندوؤں کے لئے خدا کی طرف سےا یک رحمت تھی..... جس نے اس نفرت کو دور کرنا چاہا تھا جو اسلام کی نسبت ہندوؤں کے دلوں میں تھی۔‘‘
( پیغام صلح روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۴۵،۴۴۶)
(۲۰)
اسی طرح قرآن کے مندرجہ بالا زرّیں اصول کے ماتحت جماعت احمدیہ اپنے مقدس بانی کی اقتداء میں چین کے کنفیوشس اور ایران کے زرتشت اور ہندوستان کے دوسرے مذہبی پیشوا گوتم بدھ کی بزرگی کو بھی فی الجملہ تسلیم کرتی اور ان کے متعلق محبت اور عقیدت کے جذبات رکھتی ہے۔
درحقیقت قرآنی تصریح کے علاوہ حضرت مسیح موعود ؑ  کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس مذہبی پیشوا اور مامور الٰہی کو لاکھوں کروڑوں انسانوں نے قبول کر لیا اور ان کی صداقت دنیا میں قائم ہو کر وسیع علاقوں میں پھیل گئی اور راسخ ہوگئی اور غیر معمولی طور پر لمبے زمانہ تک ان کی مقبولیت کا سلسلہ چلتاگیا اُن کے متعلق قرآنی صراحت کے علاوہ عقلاً بھی یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اُن کی اصل ضرور حق و صداقت پر مبنی تھی کیونکہ ایک جھوٹے اور مفتری انسان کو کبھی بھی ایسی غیر معمولی قبولیت حاصل نہیں ہوسکتی۔
حضرت مسیح موعود کی اس بے نظیر تعلیم نے جماعت احمدیہ کے نظریات میں گویا ایک انقلابی صورت پیدا کر کے دنیا میں ایک عالمگیر امن اور آشتی کی بنیاد قائم کر دی ہےبے شک فی الحال اس نظریہ نے ہماری مخالفت کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے اور ہمیں گویا ایک عالمگیر آگ کے گھیرے میں لے لیا ہے کیونکہ ہر قوم ہمیں اپنا رقیب اور حریف سمجھ کر ہم پر حملہ آور ہو رہی ہے مگر انشاء اللہ یہی نظریہ بالآخر عالمگیر اخوت کی بنیاد بنے گا اور حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے نائب اور بروز حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آجائےگی تب مسیح محمدی کا یہ قول پورا ہوگا کہ
’’دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیاہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۷)
میں شاید اپنے اصل مضمون سے کچھ ہٹ گیا ہوں کیونکہ میرا مضمون حضرت   مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے اخلاق و عادات اور آپ کے جستہ جستہ حالات اور آپ کی مجلس کے کوائف اور آپ کے خاص خاص اقوال کے بیان کرنے سے تعلق رکھتا ہے مگر میںاس جگہ بظاہر اپنا رستہ چھوڑ کر بعض اصولی باتوں میں منہمک ہوگیا ہوں لیکن اگرغور کیا جائے تو جو باتیں میں نے اوپر بیان کی ہیں ان کا میری تقریر کے موضوع کے ساتھ گہرا نفسیاتی جوڑ ہے۔کیونکہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فطری رجحان اور پاک نظریات پر بھاری روشنی ڈالتی ہیں اور اس بات پر قطعی دلیل ہیں کہ آپ کا قلب مطہر ایک طرف اپنے خالق و مالک کے ساتھ نہایت گہرا پیوند رکھتا تھا اور دوسری طرف اس کی تاریں دنیا بھر کی مخلوق کو اس طرح اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھیں کہ کوئی فرقہ اور کوئی طبقہ اور کوئی گروہ ان کے مخلصانہ اور محبانہ ارتباط سے باہر نہیں رہا۔آپ نے سچائی کی خاطر ہر قوم کی دشمنی سہیڑی مگر باوجود اس کے ہر قوم سے دلی محبت کی اور اپنے بے لوث اخلاص کو کمال تک پہنچادیا۔مگر ضروری ہے کہ میں اپنے مضمون کے ابتدائی حصہ کی طرح بعض جزوی باتیں بھی بیان کروں تاکہ اصول کے ساتھ جزئیات کی چاشنی بھی قائم رہے۔اور میں اب انہی کی طرف پھر دوبارہ رجوع کرتا ہوں۔
(۲۱)
غالباً ۱۶ ؍۱۹۱۵ء کی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا ینگ مَین کرسچین ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر ایچ۔اے والٹر تشریف لائے۔ان کےساتھ لاہور کے ایف سی کالج کے وائس پرنسپل مسٹر لوکاس بھی تھے۔مسٹر والٹر ایک کٹر مسیحی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک کتاب لکھ کر شائع کرنا چاہتے تھے جب وہ قادیان آئے تو حضرت   خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملے اور تحریک احمدیت کے متعلق بہت سے سوالات کرتے رہےاور دوران گفتگو کچھ بحث کا سا رنگ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے قادیان کے مختلف ادارہ جات کا معائنہ کیا اور بالآخر مسٹر والٹر نے خواہش ظاہر کی کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحبت یافتہ عقیدت مند کو دیکھنا چاہتا ہوں ۔چنانچہ قادیان کی مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم اور فدائی صحابی منشی محمد اروڑا صاحب سے ان کی ملاقات کرائی گئی،اس وقت منشی صاحب مرحوم نماز کے انتظار میں مسجد میں تشریف رکھتےتھے۔رسمی تعارف کے بعد مسٹر والٹر نے منشی صاحب موصوف سے دریافت کیا کہ
’’آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے ان کو کس دلیل سے مانا اور ان کی کس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا۔‘‘
منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے فرمایا
’’میں حضرت مرزا صاحب کو ان کے دعویٰ سے پہلے کا جانتا ہوں۔ میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا۔ ان کا نور اور ان کی مقناطیسی شخصیت ہی میرے لئے ان کی سب سے بڑی دلیل تھی ۔ہم تو اُن کے منہ کے بھوکے تھے۔‘‘
یہ کہہ کر حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعود کی یاد میں بے چین ہو کر اس طرح رونے لگے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی جدائی میں بلک بلک کر روتا ہے۔اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظارہ دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑگیا تھا اور وہ محو حیرت ہو کر منشی صاحب موصوف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور ان کے دل میں منشی صاحب کی اس سادہ سی بات کا اتنا اثر تھا کہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب احمدیہ موومنٹ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ 
’’مرزا صاحب کو ہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہرا اثر پیدا کیا ہے اسے ہم دھوکے باز ہرگز نہیں کہہ سکتے۔‘‘ (احمدیہ موومنٹ مصنفہ مسٹر ایچ اے والٹر)
دراصل اگرا نسان کی نیت صاف ہو اور اس کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی ہوں تو بسا اوقات ایک پاکباز شخص کے چہرہ کی ایک جھلک یا اس کے منہ کی ایک بات ہی انسان کے دل کو منور کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہے ۔انبیاء اور اولیاء کی تاریخ ایسی باتوں سے معمور ہے کہ ایک شخص مخالفت کے جذبات لے کر آیا اور پھر پہلی نظر میں ہی یا پہلے فقرہ پر ہی گھائل ہو کر رہ گیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں۔
صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
  اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۲۹)
(۲۲)
حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی اور جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم تھے فرمایا کرتےتھے کہ ایک دفعہ مردان کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ کی طب کاشہرہ سن کر آپ سے علاج کرانے کی غرض سے قادیان آیا۔یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا اور بمشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا۔اور اس نے قادیان آکر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدی محلہ سے باہر لیا تھا ۔جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے علاج سے اسے خدا کے فضل سے افاقہ ہوگیا اور وہ اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیار ہوا تو اس کے ایک احمدی دوست نے اسے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعود کو تو دیکھنا پسند نہیں کیامگر ہماری مسجد کو تو دیکھتے جاؤ ۔وہ اس بات کے لئے رضا مند ہو گیا مگر یہ شرط رکھی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد مبارک دکھاؤ کہ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں ۔چنانچہ یہ صاحب اسے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت نہیں تھا اور مسجد خالی تھی مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ادھر یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور ادھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد میں تشریف لے آئے۔جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعود پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بے تاب ہو کر حضور کے قدموں میں آگرا اور اسی وقت  بیعت کر لی۔           (سیرۃ المہدی جلد ۱حصہ اوّل صفحہ ۵۴روایت ۷۳  )
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر حال میں ہر شخص اسی قسم کا اثر قبول کر تا ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تو کوئی شخص بھی صداقت کا منکر نہیں رہ سکتا۔بلکہ یہ خاص حالات کی باتیں ہیں جب کہ ایک طرف کسی نبی یا ولی کے چہرہ پر خاص انوار الٰہی کا نزول ہو رہا ہو اور اس کی قوت موثرہ پورے جوبن اور جوش کی حالت میں ہو۔اور دوسری طرف اثر قبول کرنے والے شخص کا دل صاف ہو اور اس کی قوت متاثرہ پوری طرح بیدار ہو۔یہی وجہ ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی پہلی آواز پر ہی قبول کر لیا اور لبیک لبیک کہتے ہوئے آپ کے قدموں میں آگرے اور خدائی رحمت کے طالب ہوئے وہاں ابوجہل ایک ہی شہر میں پہلو بہ پہلو رہتے ہوئے آخر وقت تک آپ کی مخالفت پر جما رہا اور عذاب کے نشان کا طالب ہو کر یہی کہتا ہوا مر گیا کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا۔اس سے ظاہر ہے کہ اگر انسان کی اپنی آنکھیں بندہوں تو اس کے لئے سورج کی روشنی بھی بےکار ہو کر رہ جاتی ہے۔
حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے کہ 

حسن ز ِبصرہ۔ بلال از حبش۔ صہیب از روم
زِخاک مکّہ ابوجہل۔ایں چہ بو العجبی ست
’’یعنی یہ عجیب قدرت خدا وندی ہے کہ حسن نے بصرہ سے آکر اور بلال نے حبشہ میں پیدا ہو کر اور صہیب نے روم سے اٹھ کر رسول پاک کو قبول کر لیا مگر ابو جہل مکہ کی خاک میں جنم لینے کے باوجود صداقت سے محروم رہا۔‘‘
پس جو لوگ خدا ئی نور سے منور ہو نا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھیں ورنہ ہزار سورج کی روشنی بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں کے متعلق کس حسرت کے ساتھ فرماتا ہے کہ
یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ۔
(  یٰٓس:۳۱)
’’یعنی ہائے افسوس لوگوں پر! کہ کوئی رسول بھی ایسا نہیں آیا حتّٰی کہ ہمارا خاتم النبیین بھی کہ انہوں نے اس کا انکار کر کے اس پر ہنسی نہ اڑائی ہو۔‘‘
(۲۳)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی نے ایک دفعہ مجھ سے بیان کیا اور بعض اوقات مجلس میں بھی بیان فرماتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا ایک برات کے ساتھ قادیان آیا۔یہ شخص علم توجہ یعنی ہپنو ٹزم (Hypnotism)کا بڑا ماہر تھا ۔اس نے اپنےساتھیوں سے کہا کہ اس وقت ہم لوگ اتفاق سے قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزا صاحب سے بھی ملتے چلیں۔اس کا منشاء یہ تھا کہ لوگوں کےسامنے حضرت    مسیح موعود پر توجہ کا اثر ڈال کر حضور سے بھری مجلس میں کوئی نازیبا حرکت کرائے جس سے لوگوں پر حضور کا روحانی اور اخلاقی اثر زائل ہوجائے۔جب وہ مجلس میں حضور سے ملا تو اس نے حضور کے سامنے بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ حضور پر اپنی توجہ کا اثر ڈالنا شروع کیا مگر حضرت مسیح موعود پوری دلجمعی کےساتھ اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کے بدن پر کچھ لرزہ آیا اور اس کے منہ سے کچھ خوف کی آواز بھی نکلی لیکن وہ سنبھل گیا اور پھر زیادہ زور کےساتھ توجہ ڈالنی شروع کی۔اس پر اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگتا ہوا نیچے اتر گیا۔اس کے ساتھی اور بعض دوسرے لوگ بھی اس کے پیچھے گئے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا ۔جب اس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو بعد میں اس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر توجہ ڈال کر ان سے مجلس میں کوئی نازیبا حرکت کراؤں مگر جب میں نے ان پر توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے ایک شیر کھڑا ہے۔میں اسے اپنا وہم قرار دے کر سنبھل گیا اور پھر دوبارہ توجہ ڈالنی شروع کی۔اس پر میں نے دیکھا کہ وہ شیر میری طرف بڑھ رہا ہے جس سے میرا بدن لرز گیا مگر میں نے پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنی ساری طاقت اور ساری توجہ مجتمع کر کے اور اپنا سارا زور لگا کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالی اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ شیر خوفناک صورت میں مجھ پر اس طرح حملہ آور ہوا ہے کہ گویا مجھے ختم کرنا چاہتا ہے جس پر میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور میں مسجد سے بھاگ اٹھا۔
(سیرۃ المہدی جلد اوّل حصہ اوّل صفحہ ۵۵۔۵۶روایت ۷۵ ۔یہی روایت بعد میں کسی قدر اختلاف کے ساتھ تفسیر کبیر سورۃ شعراء زیر آیت ۳۴ میں بھی بیان ہوئی ہے)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرمایا کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص حضرت    مسیح موعود علیہ السلام کا بہت معتقد ہوگیا اور جب تک زندہ رہا ہمیشہ بڑی عقیدت کے رنگ میں حضور کےساتھ خط و کتابت رکھتا رہا۔اور وہ بیان کیا کرتا تھا کہ مرزا صاحب بڑے خدا رسیدہ بزرگ ہیں جن کے سامنے میری ہپنوٹزم کی طاقت بالکل بیکار ثابت ہوئی۔
اس روایت کے تعلق میں ہمارے دوستوں کو یا د رکھنا چاہیے کہ علم توجہ یعنی ہپنوٹزم دنیا کے علموں میں سے ایک لطیف علم ہے جس کا بنیادی ملکہ انسانی فطرت کے اندر قدرتی طور پر پایا جاتا ہے مگر یہ ملکہ عموماً مخفی اور مستوررہتا ہے البتہ اسے مناسب مشق کے ذریعہ بیدار کیا جاسکتا اور بڑھایا جاسکتا ہے ۔اور بعض لوگ جن کی قوت ارادی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور ان کےاندر توجہ جمانے یعنی کنسنٹریشن (Concentration)     کا مادہ زیادہ پختہ ہوتا ہے وہ لمبی مشق کے ذریعہ اس ملکہ میں کافی ترقی کرلیتے ہیں لیکن بعض مثالیں ایسی بھی دیکھی گئی ہیں کہ بعض لوگوں میں بلکہ شاذ کے طور پر بعض نو عمر بچوں تک میں یہ ملکہ قدرتی طور پر بھی بیدار ہوتا ہے اور وہ کسی قسم کی مشق کے بغیر ہی غیر شعوری رنگ میں توجہ جمانے اور اس کے اثرات پیدا کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں مگر ایسی قدرتی حالت اگر اسے مشق کے ذریعہ قائم نہ رکھا جائے بالعموم جلد زائل ہوجاتی ہے بلکہ یہ فطری ملکہ بعض جانوروں تک میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ سانپوں کی بعض اقسام اپنی آنکھوں کی توجہ کے ذریعے اپنے شکار کو مسحور کر لیا کرتی ہیں۔
اس تعلق میں یہ بات بھی یا د رکھنی چاہیے کہ علم توجہ یعنی ہپنوٹزم کو حقیقی روحانیت سے جو خدا تعالیٰ کے ذاتی تعلق کا دوسرا نام ہے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ علم دنیا کے علموں میں سے اسی طرح کا علم ہے جس طرح کہ طب یاہیئت یا ہندسہ یا کیمسٹری یا فزکس وغیرہ دنیا کے علوم ہیںاور ہر شخص خواہ وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو اسے حاصل کر سکتا اور اپنی فطری استعداد کے مطابق مناسب مشق کے ذریعہ اس میں کافی مہارت پیدا کر سکتا ہے۔چنانچہ مسلمانوں میں کئی صوفیاء  اور ہندوؤں میں سے کئی جوگی اس علم کے ماہر گذرے ہیں اور اس علم کے ذریعہ بیماروں کا علاج بھی کرتے رہے ہیں اور یہی اس علم کا بہترین استعمال ہے۔اور آج کل یورپ و امریکہ کے لوگ بھی اس علم میں کافی ترقی کر رہے ہیں ۔اور قدیم زمانہ میں جو ساحر حضرت موسیٰ کے مقابل پر آئے تھے وہ بھی غالباً اسی علم کے ماہر تھے مگر عصائے موسوی کےسامنے ان کا سحر ٹوٹ کر پاش پاش ہوگیا۔چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے۔یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ۔(طٰہٰ:۷۰)۔یعنی ان لوگوں نے ایک ساحرانہ چال چلی تھی مگر خدا کے رسولوں کے مقابلہ پر کوئی ساحر کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ وہ کسی رستہ سے آئے۔
(۲۴)
اسی تعلق میں مجھے ایک اور روایت بھی یاد آئی ہے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے مجھے سے بیان کیا کہ جب ابتداء میں حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے لدھیانہ میں ملے تو چونکہ حضرت منشی صاحب علم توجہ کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے اور اس علم کے ذریعہ مریضوں کا علاج بھی کیا کرتے تھے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ آپ توجہ کے علم کے ماہر ہیں اس علم میں آپ کا سب سے بڑاکمال کیا ہے؟منشی صاحب مرحوم بڑے منکسر المزاج صوفی فطرت کے نیک بزرگ تھے انہوں نے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضرت میں یہ کر سکتا ہوں کہ اگر میں کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ تڑپ کر زمین پر گر جاتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔
’’منشی صاحب! اس سے اس کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا اور آپ کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا؟اور اس کے نفس کی پاکیزگی اور خدا کے تعلق میں کیا ترقی ہوئی؟‘‘
حضرت منشی صاحب بڑی نکتہ رس طبیعت کے بزرگ تھے بے ساختہ عرض کیا۔
’’حضرت! میں سمجھ گیا ہوں ۔یہ ایک ایسا علم ہے جسے حقیقی روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘
یہ حضرت منشی احمد جان صاحب وہی بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ روحانی مقام کو شناخت کر کے اور دنیا کی موجودہ ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے حضور کے دعویٰ اور سلسلہ بیعت سے بھی پہلے حضور کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا تھا کہ 
ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مسیح موعود  ؑ تو خدا کی قدرت نمائی سے مسیح بن گئے مگر افسوس کہ حضرت منشی صاحب اس سے پہلے ہی اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے مولیٰ کے حضور جا پہنچے۔
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اوّل صفحہ ۱۳۳ روایت ۱۴۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
(۲۵)
دوستو!جیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں میرے اس مضمون کا عنوان دُرِّمنثور ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق و عادات اور خاص خاص اقوال کے متعلق غیر مرتب موتی۔اس لئے اس میں کسی ترتیب کا خیال نہ کریں    خدا تعالیٰ نے بعض صورتوں میں بکھری ہوئی چیزوں میں بھی غیر معمولی زینت ودیعت کر رکھی ہے چنانچہ آسمان کے ستارے بظاہر بالکل غیر مرتب صورت میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان میں اتنی خوبصورتی اور اتنی جاذبیت ہے کہ تاروں بھری رات کا نظارہ بعض اوقات انسان کو مسحور کر دیتاہے ۔اسی طرح قرآن مجید نے اہل جنت کے نوخیز خدمتگاروں کے متعلق لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا  کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی وہ اپنی خادمانہ مصروفیات میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے یوں نظر آئیں گے کہ گویا کسی نے مجلس میں موتیوں کا چھینٹا دے رکھا ہے۔خالق فطرت حسن و جمال کی آرائشوں کو سب سے بہتر سمجھتا ہے ۔اس کی بنائی ہوئی چیزوں میں خواہ وہ مرتب ہیں یا بظاہر غیر مرتب ۔ بہترین حسن کا نظارہ پایا جاتا ہے ۔اور اس کی یہ بھی سنت ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے بندوں کو جلال (Mejesty)کے ذریعہ مسحور کر تا ہے اور بعض اوقات جمال(Beauty) کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتا ہے ۔چنانچہ اس کے رسولوں اور رسولوں کے خلیفوں میں بھی جلال و جمال کا لطیف دور نظر آتا ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام جلالی نبی تھے مگر ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جمالی صفات لے کر مبعوث ہوئے ۔اسی طرح ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے لحاظ سے جلالی شان ٭ کے  حامل تھے جن کے نور کی زبردست کرنوں نے عرب کے وسیع ملک کو گویا آنکھ جھپکنے میں بت پرستی کی ظلمت سے نکال کر توحید کی تیز روشنی سے منور کر دیا لیکن آپ کا آخری خلیفہ اور اسلام کا خاتم الخلفاء یعنی مسیح محمدی جمال کی چادر میں لپٹا ہوا آیا ۔ چنانچہ آپ اپنی مشہور نظم میں جس میں آپ نے محبت الٰہی کے کرشموں کا ذکر کیا ہے فرماتے ہیں۔ 
آں مسیحا کہ بر ا  فلاک مقامش گویند
لطف کر دی کہ ازیں خاک نمایاں کردی
’’یعنی لوگ تو مسیح کا ٹھکانا آسمان پر بتاتے ہیں اور اس کے نزول کے منتظر ہیں لیکن اے محبت الٰہی! تیرا یہ کمال ہے کہ تو نے مجھ خاک کے پتلے کو زمین میں سے ہی ظاہر کر کے مسیحیت کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔‘‘
دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فلسفہ سلوک تمام کا تمام محبت کے محور کے اردگرد گھومتا ہے۔ خدا سے محبت ،رسول سے محبت،مخلوق سے محبت،عزیزوں سے محبت،ہمسائیوں سے محبت،دوستوں سے محبت،دشمنوںسے محبت،افرادسے محبت، قوموںسے محبت،خدا تک پہنچنے کا رستہ محبت اور پھر اپنے اصلاحی پروگرام کا مرکزی نقطہ بھی محبت۔چنانچہ محولہ بالا نظم میں محبت کے گن گاتے ہوئے کس جذبہ کے ساتھ فرماتے ہیں :۔
اے محبت عجب آثار نمایاں کردی
زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی
ذرئہ را تو بیک جلوہ کُنی چُوںخورشید 
اے بسا خاک کہ تو چُوں مہ ِتاباں کردی
جانِ خود کس نہ دہد بہر کس از صدق وفا
راست اینست کہ ایں جنس تو ارزاں کردی
تا نہ دیوانہ شدم ہوش نیامد بسرم
اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احساں کردی
آں مسیحا کہ برافلاک مقامش گویند
لطف کردی کہ ازیں خاک مرا آں کردی
(بدر ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ءصفحہ ۵)
’’یعنی اے محبت! تیرے آثار عجیب و غریب ہیں کیونکہ تو نے آسمانی معشوق کے رستہ میں زخم کی تکلیف اور مرہم کی راحت کو ایک جیسا بنا رکھا ہے۔ تیری طاقت کا یہ عالم ہے کہ ایک ذرّۂ بے مقدار کو اپنے ایک جلوہ سے سورج کی طرح بنادیتی ہے اور کتنے ہی خاک کے ذرّے ہیں جن کو تو نے چمکتا ہوا چاند بنادیا ہے ۔ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کی خاطر صدق و اخلاص کے ساتھ جان نہیں دیتا مگر حق یہ ہے کہ اے محبت ! تو نے اور صرف تُو نے ہی اس جاں بازی کے سودے کو بالکل آسان کردیا ہے۔ میں تو جب تک خدا کے عشق میں دیوانہ نہیں ہوا میرے سر میں ہوش نہیں آیا ۔ پس اے جنونِ عشق ! میرے دل کی تمنا یہ ہے کہ تیرے ہی ارد گرد طواف کرتا ر ہوں کہ تو نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے ۔ وہ مسیح جسے لوگ اپنی غلطی سے آسمان پر بیٹھا ہوا بتاتے تھے تُو نے اے محبت! اپنی کرشمہ سازی سے اُسے اِس زمین میں سے ہی ظاہر کردیا ہے۔‘‘
دوسری جگہ اپنی ایک اردو کی نظم میں سلوک الی اللہ کے مراحل کا ذکر کرتے ہوئے محبت کی تاثیرات کے متعلق فرماتے ہیں۔
کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں 
طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار
اُس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے
کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائے گا زر بے شمار
تیر تاثیرِ محبت کا خطا جاتا نہیں 
تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار
عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر
عشق ہے جو سر جھکا وے زیر تیغِ آبدار
فقر کی منزل کا ہے اول قدم نفیِ وجود
پس کرو اس نفس کو زیر و زبر از بہرِ یار
تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وہ نا تمام
اِس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۱)
(۲۶)
اُس عدیم المثال محبت کی وجہ سے جو خدا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھی اور پھر اس محبت کی وجہ سے جو خدا کو آپ کے ساتھ تھی حضرت مسیح موعود کو خدا کی غیر معمولی نصرت اور حفاظت پر ناز تھا ۔ چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ جب ایک آریہ نے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کے متعلق یہ بات قانونِ قدرت کے خلاف بیان کی ہے اس لئے وہ قابلِ قبول نہیں کہ جب دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا تو خدا کے حکم سے آگ اُن پر ٹھنڈی ہوگئی۔ اور حضرت مولوی   نور الدین صاحب خلیفۂ اول نے اس اعتراض کے جواب میں یہ لکھا کہ یہاں آگ سے حقیقی آگ مراد نہیں بلکہ دشمنی اور شرارت کی آگ مراد ہے اور بعض لوگوں نے اس جواب کو بہت پسند کیا مگر جب حضرت مولو ی صاحب کے اس جواب کی اطلاع حضرت مسیح موعود ؑ  کو پہنچی تو آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ مولوی صاحب کو اس تاویل کی ضرورت نہیں تھی۔ خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کا احاطہ کون کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک نہایت لطیف اور بصیرت افروز شعر میں فرماتے ہیں کہ :
نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا
خدا کی قدرتوں کا حصر دعویٰ ہے خدائی کا
اور حق بھی یہی ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے جو باتیں بظاہر قانونِ قدرت کے خلاف سمجھی جاتی تھیں وہ آج نئی نئی تحقیقاتوں اور نئے نئے انکشافوں کے نتیجہ میں قانونِ قدرت کے مطابق درست ثابت ہورہی ہیں۔ اور پھر خدا اپنے بنائے ہوئے قانون کا غلام نہیں ہے بلکہ اپنے خاص مصالح کے ماتحت اس قانون میں وقتی طور پر مناسب تبدیلی بھی کرسکتا ہے جیسا کہ وہ خود قرآن میں فرماتا ہے کہ 
اَللہُ غَالِبٌ عَلیٰ اَمْرِہٖ ۔ (سورہ یوسف آیت ۲۲)
’’یعنی خدا اپنی جاری کردہ تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسے خاص حالات میں بدل سکتا ہے۔‘‘
اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا اپنے بنائے ہوئے قانون اور سلسلۂ اسباب کو توڑ دیتا ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے تصریح فرمائی ہے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات خدا ایسے مخفی در مخفی اسباب پیدا کردیتا ہے جو دنیا کو نظر نہیں آتے مگر اُن کے نتیجہ میں اُس کے کسی بدیہی قانون میں وقتی تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔ 
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۱۴)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تحدّی کے ساتھ فرمایا کہ اگر خدا نے اپنے کسی خاص الخاص تصرف سے اپنے پیارے بندے ابراہیم کے لئے دشمنوں کی لگائی ہوئی آگ کو سچ مچ ٹھنڈا کردیا ہو تو اس میں ہرگز کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ حضرت مسیح موعود تو خدا کے مامور و مرسَل تھے۔یہ صداقت تو وہ ہے جسے امت محمدیہ کے اکثر سمجھدار لوگوں نے برملا تسلیم کیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود نے اس موقع پر صرف ایک حقیقت اور ایک فلسفہ کا ہی اظہار نہیں فرمایا بلکہ ایک ربانی مصلح اور ذاتی مشاہدہ سے مشرف انسان کی حیثیت میں بڑے وثوق اور جلال کے ساتھ یہ بھی فرمایا۔ احباب غور سے سنیں کس شان سے فرماتے ہیں کہ 
’’حضرت ابراہیم کا زمانہ تو گذر چکا اب ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے۔خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہوگی۔‘‘  
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اوّل صفحہ ۱۳۷روایت ۱۴۷مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
چنانچہ اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک نظم میں بھی فرماتے ہیں 
ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز 
کہ یہ جاں آگ میں پڑکر سلامت آنے والی ہے
(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۹۵)
لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی صراحت فرمائی کہ ہمارا یہ کام نہیں کہ مداریوں کی طرح خود آگ جلا کر اس میں داخل ہونے کا تماشہ دکھاتے پھریں اور خدا کا امتحان کریں ۔ خدا کا امتحان کرنا اس کے ماموروں کی شان سے بعید ہے اور سنتِ انبیاء کے سراسر خلاف۔ ہاں اگر دشمن خود ازراہِ عداوت ہمیں آگ میں ڈالے تو ہم پر ضرور آگ ٹھنڈی ہوگی اور خدا ہمیں اس کے ضرر سے بچائے گا۔ 
(سیرۃ المہدی جلد ۱ صفحہ ۱۲۹و صفحہ ۱۳۸)
کاش! ہماری جماعت کے لوگ ایمان میں اتنی ترقی کریں اور خدا کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق اس حد تک بڑھائیں کہ ان کے لئے بھی خدائی غیرت جوش میں آتی رہے اور وہ نہ صرف دشمنوں کی شرارت سے محفوظ رہیں بلکہ نصرتِ الٰہی کے پھریرے اڑاتے ہوئے ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتے جائیں اور دنیا کے لئے روشنی اور ہدایت کا موجب بنیں۔ 
(۲۷)
ایک طرف تو حضرت مسیح موعود کو خدائی نصرت پر اتنا بھروسہ تھا کہ آگ میں پڑ کر سلامت نکل آنے کا یقین رکھتے تھے مگر دوسری طرف خدا کے رستہ میں ہر قربانی کے لئے اتنے تیار تھے کہ اُس کی خاطر ہر تکلیف کو راحت سمجھتے تھے چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم روایت کرتے ہیں کہ جس دن سپرنٹنڈنٹ پولیس حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی کے لئے اچانک قادیان آیا اورہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت مسیح موعود کے پاس بھاگے گئے اور غلبۂ رقت کی وجہ سے بڑی مشکل کے ساتھ عرض کیا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس وارنٹ گرفتاری کے ساتھ ہتھکڑیاں لے کر آرہا ہے ۔ حضرت مسیح موعود اس وقت اپنی کتاب ’’نور القرآن ‘‘ تصنیف فرما رہے تھے سر اٹھا کر مسکراتے ہوئے فرمایا :۔’’میر صاحب ! لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں ہم سمجھیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے رستہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے۔‘‘
پھر ذرا تامل کے ساتھ فرمایا ۔
’’مگر ایسا نہیں ہوگا خدا تعالیٰ کی حکومت اپنے خاص مصالح رکھتی ہے۔ وہ اپنے خلفائے مامورین کے لئے اس قسم کی رسوائی پسند نہیں کرتا۔‘‘
(الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ ص ۱،۲ بحوالہ ملفوظات جلد اوّل)
اللہ اللہ ! کیا شانِ دلربائی ہے کہ ایک طرف اتنی قربانی کہ مسکراتے ہوئے خدا کے رستہ میں ہتھکڑی پہننے کے لئے تیار ہیں اور دوسری طرف خدا کی نصرت پر ایسا بھروسہ کہ پولیس ہتھکڑیاں لے کر دروازے پر کھڑی ہے اور کس بے اعتنائی سے فرماتے ہیں کہ 
’’ایسا نہیں ہوگا میرا خدا مجھے اس رسوائی سے بچائے گا۔‘‘
(۲۸)
اس موقع پر مجھے حضرت مسیح موعود کے بے نظیر توکل کا ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔ یہی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں توکل کی بات چل پڑی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا
’’میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جب سخت حبس ہوتا ہے اور گرمی کمال شدت کو پہنچتی ہے تو لوگ وثوق سے بارش کی امید رکھتے ہیں ۔ ایسا ہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
اور پھر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ 
’’جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے تو جو ذوق اور سرور اللہ تعالیٰ پر توکل کا مجھے اس وقت حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔ اور یہ حالت 

بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو۔‘‘
(الحکم جلد ۳ نمبر ۳۲ صفحہ ۴،۵ بحوالہ ملفوظات جلد ۱ )
کیسہ تو اہلِ فقر کا اکثرخالی ہی رہتا ہے مگر حضرت مسیح موعود کے توکل کی شان ملاحظہ ہو کہ جس طرح ایک زیرک زمیندار اپنے بار بار کے تجربہ شدہ کنوئیں کے متعلق یقین رکھتا ہے کہ جب اس کا موجودہ پانی ختم ہونے پر آئے گا تو اس کے زیرِ زمیں سوتے خود بخود کھل جائیں گے اور کنواں پھر پانی سے بھر جائے گا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود کا دل اس یقین سے معمور تھا کہ ادھر میری جیب خالی ہوئی اور اُدھر آسمان کا غیبی ہاتھ اسے پھر بھر دے گا اور جو کام مجھے خدا نے سپرد کیا ہے اس میں روک پیدا نہیں ہوگی۔ یہ وہی مقامِ نصرت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بالکل اوائل میں الہام فرمایا تھا کہ 
اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
’’یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟‘‘
حقیقت یہ ہے کہ یہ خدائی الہام شروع سے لے کر آخر تک حضرت مسیح موعود  علیہ السلام پر رحمت کا بادل بن کر چھایا رہا۔
(۲۹)
محترم بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 

ایک پرانے اور مخلص صحابی ہیں ٭  اور حضور کے ہاتھ پر ہندو سے مسلمان ہوئے تھے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آخری سفر میں لاہور تشریف لے گئے اور اُس وقت آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ قربِ وفات کے الہامات ہورہے تھے تو اُن دنوں میں میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر ایک خاص قسم کی ربودگی اور نورانی کیفیت طاری رہتی تھی ۔ ان ایام میں حضور ہر روز شام کے وقت ایک قسم کی بند گاڑی میں جو فٹن کہلاتی تھی ہوا خوری کے لئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضور کے حرم اور بعض بچے بھی ساتھ ہوتے تھے ۔ جس دن صبح کے وقت حضور نے فوت ہونا تھا اُس سے پہلی شام کو جب حضور فٹن میں بیٹھ کر سیر کے لئے تشریف لے جانے لگے تو بھائی صاحب روایت کرتے ہیں کہ اُس وقت حضور نے مجھے خصوصیت کے ساتھ فرمایا کہ 
’’میاں عبد الرحمٰن ! اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے وہ ہمیں صرف اتنی دور تک لے جائے کہ ہم اسی روپے کے اندر گھر واپس پہنچ جائیں۔‘‘
(روایات بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی)
چنانچہ حضور تھوڑی سی ہوا خوری کے بعد گھر واپس تشریف لے آئے مگر اُسی رات نصف شب کے بعد حضور کو اسہال کی تکلیف شروع ہوگئی اور دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب حضور اپنے مولیٰ اور محبوبِ ازلی کے حضور حاضر ہوگئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کے وصال کا واقعہ اِس وقت پچاس سال گزرنے پر بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے گویا کہ میں حضور کے سفرِ آخرت کی ابتداء اب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں مگر اس وقت مجھے اس واقعہ کی تفصیل بتانی مقصود نہیں بلکہ صرف یہ اظہار مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیوی مال و متاع کے لحاظ سے بعینہٖ اُس حالت میں فوت ہوئے جس میں کہ آپ کے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا وصال ہوا تھا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی آخری بیماری میں جو کہ مرض الموت تھی جلدی جلدی مسجد سے اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور جو تھوڑا سا مال وہاں رکھاتھا وہ تقسیم کرکے اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہونے کے لئے خالی ہاتھ ہوگئے ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود نے بھی اپنی زندگی کے آخری دن اپنی جھولی جھاڑدی تاکہ اپنے آقا کے حضور خالی ہاتھ ہو کر حاضر ہوں۔ بیشک اسلام دنیا کی نعمتیں حاصل کرنے اور ان کے لئے مناسب کوشش کرنے سے نہیں روکتا بلکہ قرآن خود حسناتِ دارین کی دعا سکھاتا ہے مگر انبیاء اور اولیاء کا مقام فقر کا مقام ہوتا ہے جس میں یہ پاک گروہ صرف خدا کا نوکر بن کر قوت لا یموت پر زندگی گذارنا چاہتا ہے۔ اسی لئے نبیوں کے سرتاج حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم نے دین و دنیا کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے فقر کی زندگی پسند کی اور ہمیشہ یہی فرمایا کہ 
اَلْفَقْرُ فَـخْرِیْ
’’یعنی فقر کی زندگی میرے لئے فخر کا موجب ہے۔‘‘
(۳۰)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے خداداد فرائض کی ادائیگی میں بھی اصل بھروسہ دعا پر تھا جو فقر ہی کا دوسرا نام ہے کیونکہ جس طرح اہلِ فقر ایک حد تک دنیا کے سہاروں سے کام لینے کے باوجود اصل بھروسہ خدا کی غیبی نصرت پر رکھتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود نے اسلام کی خدمت اور صداقت کی اشاعت میں تمام ظاہری تدابیر کو کام میں لانےا ور جہاد فی سبیل اللہ کی کوشش کو انتہاء تک پہنچانے کے باوجود اپنا اصل بھروسہ دعا یعنی نصرتِ الٰہی کی طلب پر رکھا ۔ آپ کے قلمی جہاد کا لوہا دنیا مانتی ہے جس نے مذہبی مباحث کا بالکل رنگ بدل دیا ۔ اور اسلام کے مقابل پر عیسائیوں اور آریوں اور دہریوں کے دانت کھٹے کردئیے اور آپ کے مخالفوں تک نے آپ کو ’’فتح نصیب جرنیل‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔
(اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر جون ۱۹۰۸ء)
مگر باوجود اس کے آپ نے اپنا اصل حربہ ہمیشہ دعا کو قرار دیا اور اپنی ظاہری کوششوں کو خدا کی نصرت کے مقابل پر ہیچ سمجھتے ہوئے ساری عمر یہی اعتراف کرتے رہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی سے ہوگا ۔ چنانچہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ 
’’ دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں ۔ خدا نے مجھے بار بار یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کرکے دکھا دیتا ہے۔‘‘
(’’ذکر حبیب‘‘ مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ۱۷۹)
(۳۱)
اپنی وفات کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کی طرف بیش از پیش توجہ پیدا ہوگئی تھی۔ کیونکہ ایک طرف خدائی طاقتوں کی وسعت اور دوسری طرف انسانی کوششوں کی بے بضاعتی کے منظر نے آپ کی حقیقت شناس آنکھوں کو زیادہ سے زیادہ آسمان کی طرف اٹھانا شروع کردیا تھا ۔ چنانچہ آپ نے اپنی حیاۃ طیبہ کے آخری ایام میں اپنے رہائشی کمرے کے ساتھ خلوت کی دعاؤں کے لئے ایک خاص حجرہ تعمیر کرایا اور اس کا نام بیت الدعا رکھا تاکہ اس میں آپ اسلام کی ترقی اور اپنے خداداد مشن کی کامیابی کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرسکیں اور اپنے آسمانی آقا کے حضور سرخرو ہوکرپہنچیں۔ اس بارے میں آپ کے مخلص صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ :-
’’ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ۔ ستر سال کے قریب عمر سے گذر چکے ہیں ۔ موت کا وقت مقرر نہیں۔ خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے۔ ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے۔ رہی سیف سو اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں۔ لہٰذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیّرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنادے۔‘‘
(روایات حضرت مفتی محمد صادق صاحب مندرجہ ذکر حبیب صفحہ ۱۰۹، ۱۱۰)
اللہ اللہ ! کیا جذبۂ انکساری ہے کہ سلطان القلم اور اس میدان میں فاتح اعظم ہوتے ہوئے بھی خدائی نصرت کے مقابل پر کس عاجزی سے اپنے قلم کی کمزوری کا اعتراف فرما رہے ہیں ۔یہ وہی جذبۂ انکساری ہے جس کے ماتحت آپ نے اپنی ایک نظم میں فرمایا ہے کہ 
کرمِ خاکی ہوں مرے پیارےنہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
میں تو نالائق بھی ہوکر پا گیا درگہ میں بار
حق یہ ہے کہ انسان کی کامیابی کا تمام راز خدا کی نصرت میں ہے ۔ یہ نصرت دین کے میدان میں دعا کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کے میدان میں خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کے ذریعہ خفیہ طور پر اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اسی لئے تمام نبیوں اور تمام ولیوں اور تمام خدا رسیدہ لوگوں نے ہرزمانہ میں دعا پر بہت زور دیا ہے کیونکہ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان روحانی رشتہ کا مرکزی نقطہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں 
’’الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ   ۔‘‘‘ 
(ترمذی ابواب الاحکام و الفوائد باب ما جاء فی فضل الدعاء) 
’’یعنی دعا عبادت کا اندرونی مغز اور اس کی روح ہے جس کے بغیر انسان کی عبادت ایک کھوکھلی ہڈی کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔‘‘
(۳۲)
پس ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ دعاؤں میں بہت توجہ اور انہماک اور درد و سوز کی کیفیت پیدا کریں اور اسے اپنی زندگی کا سہارا بنائیں اور اس پر ایک بے جان رسم کے طور پر نہیں بلکہ ایک زبردست زندہ حقیقت کے طور پر قائم ہوجائیں اور یقین رکھیں کہ خدا دعاؤں کو سنتا ہے مگر جس طرح وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی التجاؤں کو مانتا ہے اسی طرح وہ کبھی بعض مصالح کے ماتحت ان کی درخواست کو رد کرکے اپنی بھی منواتا ہے۔ لیکن کسی دعا کا قبول نہ ہونا دعاؤں کی قبولیت کے بنیادی فلسفہ پر کوئی اثر نہیں رکھتا کیونکہ عام لوگوں کے لئے خدا آقا ہے اور آقا کو حق ہے کہ اپنے کسی خادم کی بد اعمالی پر ناراض ہوکر اس کی بعض درخواستوں کو رد کردے اور اپنے خاص بندوں کے لئے وہ آقا ہونے کے علاوہ دوست بھی ہے اور دوستی کا یہ تقاضا ہے کہ کبھی انسان اپنے دوست کی بات مانے اور کبھی اُسے اپنی بات منوائے ۔ اور ان دونوں حالتوں میں کسی نہ کسی رنگ میں خدا کی رحمت ہی جلوہ گر رہتی ہے۔ دعاؤں کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ دوست غور سے سنیں کہ یہ بڑی حکمت کا کلام ہے۔ فرماتے ہیں کہ 
’’ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں۔ کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا۔ کیا ہی زبردست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات اَنْہونی نہیں مگر وہی جو اُس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں ......کیونکہ وہ مردود ہیں اُن کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی ......  لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں ......خدا ایک پیارا خزانہ ہےاس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے...... اُن لوگوں کے پیرومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے ...... خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے ۔ اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں؟ ...... مبارکی ہو اس انسان کو جو اس راز کو سمجھ لے اور ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے اس راز کونہیں سمجھا ۔‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۰ تا۲۴)
بس اسی پر میں اپنے اس مقالہ کو ختم کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان روحانی اور اخلاقی اقدار کا وارث بنائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ دنیا میں نازل ہوئیں اور پھر آپ کے خادم اور نائب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ان کی تجدید ہوئی اور انہوں نے اس زمانہ کے تقاضوں کے مطابق ایک نئی روشنی پائی تاکہ اسلام کا بول بالا ہو اور جماعتِ احمدیہ کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نور پھیل جائے اور حضرت مسیح موعود کا یہ الہام اپنی کامل شان اور جلال کے ساتھ پورا ہو کہ 
’’بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منارِ بلند تر محکم افتاد‘‘
پس اے عزیزو اور دوستو! اپنے قدموں میں مضبوطی پیدا کرو کہ ایک بہت بلند مینار کی چڑھائی آپ کا انتظار کررہی ہے۔
                                                وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْـحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ 

خاکسار 
مرزا بشیر احمد     
 ربوہ 
   ۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۰ء



مکمل تحریر >>