حیاتِ عیسیٰؑ کے قائلین ’’ختم نبوت‘‘کے انکار کے مرتکب ہوتے ہیں
ہم لفظی اور حقیقی ہر معنی میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النّبییّن تسلیم کرتے ہیں اور بادب اس تلخ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانے کی جرأت کرتے ہیں کہ مُنکرینِ حدیث کے سوا ہمارے تمام مخالف فرقوں کے علماء آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان معنوں میں خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتے۔ وہ یہ کہنے کے باوجود کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم سب نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں یہ متضاد ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نعوذ باﷲ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ؑ کو نہ تو جسمانی لحاظ سے ختم فرما سکے نہ ہی رُوحانی لحاظ سے۔ آپ ؐ کے ظہور کے وقت ایک ہی دوسرا نبی جسمانی لحاظ سے زندہ تھا مگر افسوس وہ آپ ؐ کی زندگی میں ختم نہ ہو سکا آپؐ وفات پاگئے لیکن وہ زندہ رہا اور اَب تو وصالِ نبوی ؐ پر بھی چودہ سَو برس گزرنے کو آئے لیکن ہنوز وہ اسرائیلی نبی زندہ چلا آرہا ہے۔ ذرا انصاف فرمائیے کہ خاتَم کے جسمانی معنوں کے لحاظ سے حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھنے والوں کے نزدیک دونوں میں سے کون خاتَم ٹھہرا۔
پھر یہی علماء رُوحانی لحاظ سے بھی عملاً مسیح ناصری ؑ ہی کو خاتَم تسلیم کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم فیض رسانی کے لحاظ سے بھی مسیح ناصری ؑ کی فیض رسانی کو ختم نہ فرما سکے۔ دیگر نبیوں کے فیض تو پہلے ہی ختم ہو چکے تھے اور نجات کی دوسری تمام راہیں بند تھیں۔ ایک مسیح ناصری ؑ زندہ تھے مگر افسوس کہ ان کے فیض کی راہ بندنہ ہو سکی۔ یہی نہیں ان کی فیض رسانی کی قوت تو پہلے سے بھی بہت بڑھ گئی اور اُس وقت جبکہ اُمّتِ محمدیہ آنحضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کی عظیم الشان قوتِ قدسیہ کے باوجود خطرناک رُوحانی بیماریوں میں مُبتلا ہو گئی اور طرح طرح کے رُوحانی عوارض نے اُسے گھیر لیا تو براہِ راست آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوتِ قُدسیہ تو اِس اُمّتِ مرحومہ کو نہ بچا سکی ہاں بنی اسرائیل کے ایک رسُول کے مسیحی دَموں نے اُسے موت کے چنگل سے نجات دلائی اور ایک نئی رُوحانی زندگی عطا کی۔ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کیا صریحاً اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھنے والے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو افاضۂ فیض کے لحاظ سے بھی سب نبیوں کا ختم کرنے والا نہیں سمجھتے بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی نبی جو اُس وقت زندہ تھا اُس کی فیض رسانی کی قوت کو بھی آپ ؐ ختم نہ فرما سکے بلکہ نعوذ باﷲ وہ اِسرائیلی نبی اِس حال میں فوت ہؤا کہ اُمّتِ محمدیہ کا آخری رُوحانی مُحسن بن چُکا تھا۔
غور فرمائیے! کہ کیا جسمانی اور رُوحانی دونوں معنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاتم النّبییّن تسلیم نہیں کیا جارہا؟ کیا یہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صریح گُستاخی نہیں؟ کیا یہ آیت خاتم النّبییّن کی رُوح کو سبوتاژ کرنے کے مترادف نہیں؟ اور پھر بھی یہ دعویٰ ہے کہ احمدی خاتم النّبییّن کے مُنکر اور ہم خاتم النّبییّن کے قائل بلکہ محافظ ہیں۔ کیا دُنیا سے اِنصاف بالکل اُٹھ چکا ہے؟ کیا عقل کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا؟ کیا اِس قضئے کو عَدل کے ترازو پر نہیں تولا جائے گا بلکہ محض عددی اکثریت کے زور پر حق و باطل اور اُخروی نجات کے فیصلے ہوں گے؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ خدا ہر گز نہ کرے کہ ایسا ہو۔ لیکن ایسا اگر ہو تو پھر تقویٰ اﷲ کا دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے۔ کیوں نہیں اسے جنگل کا قانون کہا جاتا اور کیوں اِس نااِنصافی کے لئے اﷲ اور رسول ؐ کے مقدّس نام استعمال کئے جاتے ہیں۔ ویرانے کا نام کوئی اچھا سا بھی رکھ لیں ویرانہ ویرانہ ہی رہے گا۔
ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم مطلق طور پر آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور تاویلیں کر کے ایک اُمّتی اور ظِلّی نبی کے آنے کی راہ نکال لیتے ہو اور اِس طرح ختمِ نبوت کو توڑنے کے مُرتکب ہو جاتے ہو۔
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ایسے اُمّتی نبی کا اُمّتِ محمدیہ ہی میں پیدا ہونا جو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا کامل غلام ہو اور اپنے ہر رُوحانی مرتبے میں سَرتا پا آپؐ ہی کے فیض کا مرہونِ منّت ہو ہر گز آیت خاتم النّبییّن کے مفہوم کے منافی نہیں کیونکہ فانی اور کامل غلام کواپنے آقا سے جُدا نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اِس بات کے مکلّف ہیں کہ اپنے اس مؤقف کو قرآنِ حکیم سے، ارشاداتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے، اقوالِ بزرگانِ اُمّت سے اور محاورہئ عرب سے ثابت کریں اور اِس سلسلہ میں ایک سیر حاصل بحث آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے مگر اس سے پہلے ہمیں رخصت دیجئے کہ ہم اُن لوگوں کا کچھ محاسبہ کریں جو ہم پر مُہرِنبوت کو توڑنے کا اِلزام لگاتے ہیں کہ خود ان کے عقیدہ کی حیثیت کیا ہے۔ وہ بظاہر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آنحضور صلی اﷲعلیہ وسلم کو مطلقاً بلا شرط و بِلا اِستثناء ہر معنٰی میں آخری نبی مانتے ہیں اور آپ ؐ کے بعد کسی قسم کے نبی کی بھی آمد کے قائل نہیں لیکن ساتھ ہی اگر پوچھا جائے تو یہ اقرار کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ ”سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو ضرور ایک دن اِس اُمّت میں نازل ہوں گے”۔
جب آپ ان پر یہ جرح کریں کہ ابھی تو آپ نے یہ فرمایا تھا کہ آنحضورؐ مطلقاً، بِلااستثناء ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ ؐ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر اَب آپ کو یہ اِستثناء قائم کرنے کا حق کیسے مِل گیا؟ تو اس کے جواب میں اِنتہائی بے معنی اور بے جان تاویل پیش کرتے ہیں کہ وہ چونکہ پہلے نبی تھے اِس لئے ان کا دوبارہ آنا ختمِ نبوت کی مُہر کو توڑنے کا موجب نہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ موسوی شریعت ساتھ لے کر آئیں گے؟ تو جواب مِلتا ہے نہیں بلکہ وہ بغیر شریعت کے آئیں گے۔ پھر جب پوچھا جائے کہ اس صورت میں اوامرونواہی کا کیا بنے گا؟ کس بات کی نصیحت فرمائیں گے اور کِس سے روکیں گے تو ارشاد ہوتا ہے کہ پہلے وہ اُمّتِ محمدیہ کے ممبر بنیں گے پھر اس شریعت کے تابع ہو کر نبوت کریں گے۔ مزید سوالات کے جوابات ان کے اختیار میں نہیں کہ آیا مسیح ناصری ؑ کو شریعتِ محمدیہ کی تعلیم علماء دیں گے یا براہِ راست اﷲ تعالیٰ سے وحی کے ذریعہ ان کو قرآن، حدیث اور سُنّت کا عِلم دیا جائے گا لیکن یہ امر تو اس جِرح سے قطعاً ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بھی آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو مطلقاً آخری نبی نہیں مانتے بلکہ یہ استثناء رکھتے ہیں کہ ایسا نبی جو پُرانا ہو صاحبِ شریعت نہ ہو اُمّتی ہو اور لفظاً لفظاً شریعتِ محمدیہ کا تابع ہو اور اسی کی تعلیم و تدریس کرے مُہرِ نبوت کو توڑے بغیر بعد ظہورِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آسکتا ہے۔
ہم اہلِ عقل و دانش اور اہلِ انصاف سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا ایسا اعتقاد رکھنے والے کے لئے کسی بھی منطق یا انصاف کی رُو سے یہ کہنا جائز ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا بھی کوئی نبی نہیں آسکتا۔ (محضرنامہ ۔ صفحہ29تا32)