Thursday, 27 December 2018

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک دن کی مصروفیات کی ایک جھلک



میرا دوست مجھے اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ تھما رہا تھا لیکن اُس کا چہرہ کچھ مغموم اور لہجہ قدرے اُداس تھا۔ وجہ پوچھنے پہ کہنے لگا کہ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت     امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میرے بیٹے کی شادی میں شرکت فرماتے ۔اس سلسلے میں، مَیں حضور سے ملاقات کرنے بھی گیا تھا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات میں بڑی دیر تک بیٹھتا اور اپنے سارے حالات بتاتا لیکن مجھے ملاقات کے لئے صرف تین چار منٹ کا وقت ملا۔ ابھی میں نے اور باتیں کرنی تھیں لیکن پرائیویٹ سیکریٹری صاحب مسکراتے ہوئے کمرے میں آگئے اور ملاقات ختم ہو گئی۔
یقینا اُس کی اُداسی میں خلو ص،محبت،چاہت اور عقیدت چھلک رہی تھی۔ ملاقات کے جس دورانیے کا وہ ذکر کر رہا تھا میرے خیال میں وہ بڑا خوش قسمت آدمی تھا ۔ وہ جن کے دیدار کے لئے نوبل انعام یافتہ لوگ، عالمی عدالتوں کے جج، اداروں کے سربراہان، مختلف ممالک کے وزراء، دانشور، صحافی، ادیب، کالم نگار، جماعت احمدیہ کے بڑے بڑے علمائے کرام، ہجوم میں ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کے  دیکھتے ہوںیامصافحے کے لئے بصد ادب و احترام قطاروں میں ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہوں،ایسے بابرکت وجود کے رُوبرو بیٹھ کے اُس روح پرور ماحول سے کس کا دل کرتا ہے کہ وہ وہاں سے اُٹھے۔
مجھے یادہے کہ اس دوست کی طرح ایک دن مَیں نے بھی ایسا ہی سوچا تھا لیکن پھر جب آہستہ آہستہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کو دیکھا تو جانا کہ ساری عمر میں ایک مرتبہ بھی رُوبرو ملاقات کا ایک لمحہ اور دیدار کی ایک جھلک بھی محض اللہ تعالیٰ کا فضل، انعام اور غنیمت ہے ۔ ایں سعادت بزور ِ بازو نیست ۔ ہر کسی کے مقدر میں یہ لمحہ نہیں آتا۔ دنیا بھر میں سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں احمدی ایسے ہیں جو امام وقت کی ایک جھلک کے لئے ترستے ہیں۔پاکستان کے احمدیوں سے پوچھئے جن کے دل کا حال ایسا ہے کہ بقول حافظ شیرازی                                                                            
بازآ کہ در فراقِ تو چشمم زگریہ باز
 چُوںگوشِ روزہ دار بر اللہ اکبر است
تیرے فراق میں، مَیں ایسے اشکبار اور بیقرار ہو کے تیر ی راہ دیکھتا ہوں جیسے روزہ کھلنے کے وقت روزہ دار کے کان    اللہ اکبر کی صدا کی طرف لگے ہوتے ہیں۔
…………………
اپنے اس مضمون میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جن مصروفیات کا ذکر میں کرنے جا رہا ہوں وہ میرے ذاتی مشاہدات کی باتیں ہیں ۔ چونکہ میں پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے دفتر میں کام کرنے والا کارکن نہیں ہوں اس لئے وقت کا یا تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کمی بیشی کا احتمال موجود ہے اس لئے ان اعدادو شمار کو بطور ریفرنس استعمال نہ کرنے کی عاجزانہ درخواست ہے ۔  امام زمانہ کے کروڑوں عشاق کے ہجوم میں کھڑا میں بھی ایک ادنیٰ سا کارکن ہوں جس کا کہنا ہے:
گو کہ عاشق ہزاروںکھڑے ہیں اُدھر 
 چشم ِ تر ہم بھی جائیں گے اُس راہگزر 
ہم  خطا کار  ہیں  جانتے  ہیں مگر
 اُس کی پڑ جائے ہم پہ بھی شائد نظر
 آئو اُس سے ملیں  
…………………
بات یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز  ہمارے لئے ایک شفیق باپ کی طرح ہیں اور ساری جماعت کے افراد اُن کے لئے  بچوں کی طرح ہیں ۔  جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک سال میں کل پانچ لاکھ پچیس ہزار چھ سو منٹ ہوتے ہیں۔ اب ایک شفیق باپ نے امام وقت نے ، اگر پندرہ سے بیس کروڑ بچوں کو وقت دینا ہو، ان کی دین و دنیا میں کامیابی کے لئے تربیت کرنی ہو، اُن کے دکھ درد کا مداوا کرنا ہو ، انہیں دنیا کے مصائب اور ابتلائوں سے اور آزمائشوںسے بچانے کے لئے بھرپور کوشش کرنی ہو، ان کے لئے اور اُن کی آئندہ نسلوں کی سہولیات کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنانے ہوں تو ضرب تقسیم کے بعد ایک سال میں جتنے سیکنڈ یا سیکنڈ کا جتنا حصہ ہمارے حصے میں آتا ہے ہم سب اس بات کے گواہ ہیں اور شکر گزار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور  حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت کے باعث ہم سب کو اس سے کہیں زیادہ وقت مل رہا ہے۔ اور صرف یہی ایک پہلو اس بات کا گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ بناتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی قدم قدم پہ تائید و نصرت کے ساتھ ہی یہ سارے مرحلے طے ہوتے ہیں ورنہ اگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روزانہ کی مصروفیات کو دیکھا جائے تو حسابی ضربوں تقسیموں کے مطابق یہ سب ممکن ہی نہیں ہے اور اسے معجزہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ 
ایک چھوٹے سے حلقے کے صدر جماعت کو بعض اوقات اتنا خط وکتابت کا کام ہوتا ہے، پروگرام منعقد کرنے کے لئے اتنے انتظامات کروانے پڑتے ہیں کہ بعض اوقات گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے کہ اتنا کام کیسے ہوگا۔ اُس کے پاس بھی نائب صدر ،جنرل سیکرٹری اور پوری مجلس عاملہ ہوتی ہے۔ خلیفۂ وقت نے تو پوری دنیا کے کروڑوں احمدیوں کی روحانی ترقی اور تربیت کے ساتھ ساتھ پوری جماعت احمدیہ کے اداروں کے انتظامی امور کے حوالے سے راہنمائی فرمانی ہوتی ہے۔
مَیں اپنی بات کو آسان کر دیتا ہوں۔ مثال کے طور پہ  اگر کوئی دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بیس گھنٹے مسلسل  بھی کام کرے تو اُس کے پاس کُل بارہ سو منٹ ہوں گے۔ ان بارہ سو منٹو ںمیں ہمارے پیارے امام حضرت      امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے دو سو سے زائد ممالک سے آئے ہوئے تقریباً پندرہ سو خطوط  دیکھنے ہوتے ہیں۔ بہت سے خطوط کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے لیکن مَیں اپنے مشاہدات کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ  ان خطوط میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ایسے اداروں یا اداروں کے شعبہ جات کے سربراہان کی طرف سے ہوتی ہے جسے اصل پیش کرنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ بہت سے دفتری اور انتظامی امور کے فوری فیصلہ طلب خطوط ہوتے ہیں۔ بہت سے ممالک سے امرائے کرام، مر بیان کرام، مشنری انچارج اور مختلف شعبہ جات کے سربراہان، صدران اور منتظمین نے ایسے سوالات پوچھے ہوتے ہیں جن پر حتمی فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ پوری دنیا میں ترقی کر رہی ہے۔ کہاں مسجد بنانی ہے۔ کہاں مشن ہائوس بنانا ہے۔ کیا یہ جگہ مسجد کے لئے خرید لی جائے۔ جلسہ سالانہ کب، کہاں منعقد کیا جائے۔ سکول کہاں پہ بنایا جائے۔ ہسپتال کہاں پہ بنایا جائے۔ یہ ذمہ داری کس کے سپرد کی جائے فلاں ملک میں جماعت کے افراد کو ان مشکلات کاسامنا ہے۔ فلاں احمدی اس وقت ان حالات سے دوچار ہے؟ کیا کیا جائے۔ دنیا کہ فلاں فلاں خطے میں اس وقت انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ خدمت خلق کے منصوبوں کی ضرورت ہے کیا کیا جائے ۔ پیارے حضور کیا یہ کر لیا جائے؟ کیا یہ نہ کیا جائے؟ کب؟ کون؟ کیسے؟ کہاں؟ ایسے سینکڑوںسوالات، درخوا ستیں منصوبے خطوط کی صو رت میںسامنے ہوتے ہیں۔ اب دنیاوی ضربوں تقسیموں کے حساب سے پندرہ سو خطوط کو پڑھنے اور جواب دینے میںاگر فی خط نصف منٹ بھی ہو تو کم از کم ساڑھے سات سو منٹ درکار ہو سکتے ہیں۔جبکہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ بعض خطوط بہت زیادہ وقت بھی لے سکتے ہیں۔
پھر ذاتی نوعیت کے خطوط ہوتے ہیں۔ خلیفہ وقت چونکہ جماعت کے لئے ایک شفیق باپ کی طرح ہیں تو دنیا بھر سے امام وقت سے پیار کرنے والے خطوں میں اپنے دل کی باتیں دل کھول کر بیان کرتے ہیں بلکہ خط میں اپنا دل رکھ دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ انتخاب سخن کی ڈاک دیکھتے ہوئے میں نے ایک خط پڑھا جو کہ دراصل حضور انور کے نام تھا لیکن غلطی سے میری ڈاک میں شامل ہو گیا تھا۔ کسی بیٹی نے اپنے حالات کا ایسا بیان لکھا ہوا تھا کہ جسے پڑھ کے میں کئی دن تک سخت غمگین رہا کہ کوئی اتنی زیادہ مشکلات کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔پیارے حضور کو روزانہ ایسے بے شمار خط ملتے ہیں جنہیں اگر کوئی عام انسان پڑھے تو شائد اُس کے اعصاب جواب دے جائیں۔ اگر میں اُس خط کا ایک پیرا گراف لکھوں (جو ظاہر ہے مَیں کبھی بھی نہیں لکھوں گا  صرف مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں) تو اُسے پڑھ کے کسی کو گلہ نہیں رہے گا کہ حضور نے فلاں موقع پر مجھے وقت کیوں نہیں دیا یا مجھے مسکرا کے کیوں نہیں دیکھا ۔آپ صرف یہی کہیں گے اور یقینا سب احمدی یہی کہتے ہیں 
امامِ وقت کے لئے یہ جان بھی نثار ہے
…………………
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے طرف سے آنے والے خطوط کے جوابات دیکھ کے ہم گواہی دے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر خط پیارے حضور کی شفقت بھری نظروںسے گزرتا ہے اور ہمارے لئے دعائوں اور برکتوں کا باعث بنتا ہے۔ پیارے حضور کو علم ہوتا ہے کہ اس وقت فلاں ملک کے فلاں شہر یا گائوں میں فلاں  بچی اپنے گھر میں خوش نہیں ہے۔ فلاں بچے کو تعلیم جاری رکھنے کے لئے مالی مدد کی ضرورت ہے۔فلاں احمدی شخص اس وقت کس مشکل میں گرفتار ہے اور فلاں بیٹی کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے ۔تمام اداروں کے انتظامی امور کی دیکھ بھال اور پوری جماعت کی تربیت کے ساتھ ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کس کس طرح اور کس کس رنگ میںمستحق احباب کا خیال رکھتے ہیں اور اُن کی داد رسی کی کوشش فرماتے ہیں اُس کی فہرست کچھ ایسی طویل ہے کہ کسی کو پوری طرح علم نہیں ہے اور کسی کوبھی کانوں کان خبر نہیںہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ ہمارے پیارے  حضور انور، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان  جذبات کی تصویر نظر آتے ہیں
 مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
 ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم 
  ایشیاء کے کسی دور افتادہ گائوںسے کوئی خط ہو یا افریقہ کے کسی جنگل کی کسی آبادی سے کوئی خط ہو، امریکہ سے آسٹریلیا سے یا یورپ کے کسی ملک سے، کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ اُس کا خط حضور انور تک نہیں پہنچے گا۔حیرت انگیز تجربہ ہے کہ حضور انور کو دنیا کے جس خطے سے جس پوسٹ سے جس ذریعے سے جس شخص  کے ہاتھ بھی خط روانہ کر یں  اُس کا دعائوں بھرا جواب مل جاتا ہے۔
…………………
یہ جو اوپر میں نے روزانہ خطوط کی تعداد پندرہ سو لکھی ہے بہت محتاط ہو کے اور کم سے کم لکھی ہے۔ ایک مرتبہ مکرم و محترم منیر جاوید صاحب جنہیں حضرت امیرالمومنین     ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل ہے اُن سے اس موضوع پہ بات ہو رہی تھی انہوں نے بتایا کہ عام دنوں میں خطوط وغیرہ کی تعداد  تقریباًپندرہ سو روزانہ ہے لیکن بعض دنوں میں تو ان خطوط اور فیکسز اور پاکستان سے آئی ڈاک میں شامل خطوط اور خلاصوں کی تعداد ملا کے یہ ڈاک پانچ ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔ خاکسار کے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ عام دعائیہ خطوط کے علاوہ دنیا بھر کے مربیان کرام،     امرائے کرام اور مختلف تنظیموں کے صدران وغیرہ بھی فوری نوعیت کی اطلاعات وغیرہ بذریعہ فیکس بھجواتے ہیں اور  اس طرح بعض دنوں میں ہماری فیکس مشین میں ایک دن میں کاغذوں کے دو پیکٹ سے زائد کاغذ ڈالنے پڑتے ہیں جبکہ ایک پیکٹ میںپانچ سو کاغذہوتے ہیں۔یہ سب پیغامات ایسے ہوتے ہیںجو فوری توجہ طلب ہوتے ہیں اور  فیکس بھجوانے والے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی کے طلبگار اور جوابی ہدایات کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔
…………………
قارئین کرام! خاکسار کو ایک دن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک بہت قریبی اور بچپن کے دوست کے ساتھ بیٹھنے کی سعادت ملی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں حضور کے دفتر میں یا غالباً گھر میں حضور کے ساتھ موجود تھا تو خطوںکاایک پیکٹ میں نے ایک میز سے اُٹھا کے دوسری میز پہ کچھ بے احتیاطی سے رکھا تو اس پہ حضور انور نے انتہائی  فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ احتیاط سے رکھیں  یہ خط مجھے اپنی جان کی طرح عزیز ہیں۔ ( حضور کے اصل الفاظ انہیں یاد نہ تھے لیکن اُن کا کہنا تھا کہ حضور کے کچھ ایسے جذبات تھے)۔
یہ خطوط جو دنیا بھر سے آتے ہیں یہ مختلف زبانوں میں لکھے ہوتے ہیں۔ ان میںاردو، انگریزی، عربی کے علاوہ بنگلہ، رشین، فرنچ، ترکش، چائینز، سواحیلی جرمن، ڈچ، سپینش، البانین، بلغارین، بوسنین، انڈونیشین، فارسی، ملائی، تامل، اور دیگر زبانوں میں خطوط ہوتے ہیں۔ بعض خطوط علاقائی زبانوں میں بھی ہوتے ہیں مثلاً پشتو یا سندھی میں پھر ہندوستان کی بہت سے علاقائی زبانوں میں خطوط ہوتے ہیں۔ اب ایسے خطوط کا فوری طورپرمتعلقہ زبان کے ماہر سے ترجمہ کروا کے حضور انور کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور اگر اُس زبان کو سمجھنے والا یہاں برطانیہ میں کوئی نہ ملے تو فیکس کر کے خط اُسی ملک بھجوا کے اُس کا ترجمہ منگوایا جاتا ہے ۔ان خطوط کی مختلف اقسام ہوتی ہیں بعض خطوط مختصر لیکن ان کے جوابات کے لئے بہت لمبا وقت اور تحقیق درکار ہوتی ہے۔بہت سے خطوط ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کا جواب دینے سے پہلے اس خط کے متعلقہ شعبہ سے رپورٹ منگوا کر پھر حضور انور جواب دیتے ہیں۔خطوط کی سینکڑوں اقسام میں سے ایک قسم کا ذکر کرتا ہوں۔ بعض لکھنے والوں نے حضور انور سے ہومیو پیتھی نسخہ تجویز کرنے کی درخواست کی ہوتی ہے۔ اب بعض احباب کو تو حضور انور خود نسخہ تجویز فرما دیتے ہیں لیکن بعض پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص اور دوائی تجویز کرنے کے لئے خط ہومیو پیتھی کے شعبہ کو بھجوایا جاتا ہے اور وہ اس پر مکمل تحقیق کر کے رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ پھر اس رپورٹ کے پیش نظر حضور انور جو ادویات تجویز فرماتے ہیں وہ خط میں لکھ کے انہیں خط کا جواب دیا جاتا ہے۔
…………………
اللہ تعالیٰ قدم قدم پہ ہمارے پیارے امام کا حامی و مددگار رہے آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں دنیا بھر سے آئے ہوئے خطوط کے خلاصے یا تفصیلات اور اطلاعات  دوران سفر بھی آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں اور حضور ہدایات لکھواتے جاتے ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ ان خطوط کے لئے ہی اگر دیکھا جائے تو ایک دن میں کم از کم سات آٹھ سو منٹ درکار ہو سکتے ہیں۔یہ وہ خطوط ہیں جو براہ راست حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام دنیا بھر کے احمدیوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔اب ان خطوط کے علاوہ ہر شعبے اور ادارے کی اپنی ڈاک بھی ہوتی ہے جو ان کے سربراہ اپنے ساتھ لے کے حضور انور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور حضور انور سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ قارئین کرام اتنے زیادہ خطوط اور ان کے ایسے پیارے دعائوں بھرے، شفقتوں بھرے، محبتوں بھرے جوابات یقینا یہ سب اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
…………………
پھر موسم گرم ہو یا برفباری ہو، تیز بارش ہو یا ہوائیں چل رہی ہوں، حضور انور دفتر میں موجود ہوں یا آسٹریلیا سے دو دن کا سفر کر کے مسجد فضل لندن پہنچے ہوں آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پانچوں نمازیں باجماعت پڑھاتے ہیں۔ ایک نماز کی تیاری، وضو ا ورپڑھانے میں اگر کم ازکم بیس منٹ بھی لگیں تو پانچ نمازوں کے لئے ایک سو منٹ درکار ہیں۔ سنتیں، نوافل، تہجد، قرآن پاک کی تلاوت الگ سے ہیں۔ بعض نمازوںکے بعد نکاح پڑھانے، قرآن پاک کی تقاریب آمین اور نماز ہائے جنازہ ان کے علاوہ ہیں۔ 
…………………
ان سینکڑوںخطوط کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ، روزانہ دن بھر بہت سی دفتری ملاقاتیں بھی ہیں جن میں دنیا بھر میں ہونے والے پروگراموں کی تفصیلات طے کرنا اور منظوری عطا فرمانا بھی شامل ہے۔آپ سب جانتے ہی ہیں کہ   خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کس طرح منظم طریقے سے اور امام وقت کی نگرانی میں ہر کام سر انجام دیتی ہے۔ تعلیم و تربیت، قرآن پاک کی دنیا بھر میں اشاعت اور خدمت انسانیت کے منصوبہ جات کی تیاری اور منظوری کے مراحل مہینوںبلکہ سالوں پہلے سے شروع ہو جاتے ہیں۔  صدر ا نجمن کا ادارہ ہے جس کے ماتحت درجنوںادارے ہیں۔ تحریک جدید کا دفتر ہے جس کے ماتحت کئی ادارے ہیں۔ وقف جدید کا دفترہے جس کے ماتحت کئی شعبے ہیں۔ ایم ٹی اے انٹرنیشل ایک بڑا وسیع ادارہ ہے اور تمام تر پروگراموں کی تفصیل حضور انور کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے اور راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ وکالت تبشیر کا ادارہ ہے جو دنیا بھرمیں مربیان کرام اور دو سو ممالک میں ہونے والے پروگراموں کے بارے میں حضور انور سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔ وکالت مال ہے۔ امام صاحب کا دفتر ہے۔ دنیا بھر میں خدام، انصار، لجنہ کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔  دو سو سے زائد ممالک کے امراء یا صدر صاحبان جماعت ہیں۔ دنیا بھر میں مساجد بن رہی ہیں۔ ہسپتال بنائے جارہے ہیں۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لئے پرنٹنگ پریس لگائے جا رہے ہیں۔ خدمت خلق کے ادارے ہیں۔ صحت کے ادارے ہیں۔ تعلیم کے ادارے ہیں۔ تربیت کے ادارے ہیں۔ ضیافت کے شعبے ہیں۔ الفضل ربوہ، الفضل انٹرنیشنل اور بدر کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف اخبارات، رسائل اور جریدے ہیں۔ الاسلام کی ویب سائٹ کا ادارہ ہے۔ یہاں برطانیہ میں کل عالم تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اردو، انگریزی کے علاوہ عربی ڈیسک قائم ہے۔ پھر بنگلہ ڈیسک ہے، رشین ڈیسک ہے، فرنچ ڈیسک ہے، چائینز ڈیسک ہے اور ٹرکش ڈیسک ہے۔ اگر سارے شعبوں کے نام لکھنا شروع کروں تو اس کے لئے ایک الگ فہرست چاہئے ۔یہ تمام ڈیسک، یہ تمام شعبہ جات اپنی اپنی زبانوںمیں قرآن پاک کی تعلیم عام کرنے کے لئے اور احمدی احباب اورساری دنیا کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے حضور انور کی راہنمائی میں مصروف عمل ہی رہتے ہیں ۔ 
…………………
صرف ایک ملک برطانیہ کی مثال لیتے ہیں۔     اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ سر زمین برطانیہ کی   خوش بختی ہے اور جماعت احمدیہ برطانیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ملک میں رہائش پذیر ہیں اس لئے اس برکت سے اس اعزاز کی وجہ سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے تمام شعبہ جات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی براہ راست راہنمائی میں کا م کرتے ہیں۔یہاں برطانیہ میں ہر لوکل صدر جماعت اور اُس کی مجلس عاملہ کی منظوری بھی حضور انور کی اجازت سے ہوتی ہے اور یہاں کے تمام شعبہ جات مثلاً شعبہ امور عامہ، شعبہ رشتہ ناطہ، شعبہ تعلیم و تربیت، شعبہ تبلیغ غرض ہر شعبہ   براہ راست حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ پھر یہاں برطانیہ میں بھی دیگر ممالک کی طرح جہاں بہت بڑے بڑے ادارے ہیں وہیں پہ چھوٹے پیمانے پہ بہت سی ایسوسی ایشنز ہیں۔ مثلاََ ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن ہے ، آرکیٹیکٹ اور انجینئروں کی ایسوسی ایشن ہے، وکلاء کی ایسوسی ایشن ہے، ٹیچرز ایسوسی ایشن ہے، تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہے۔ اتنے شعبہ جات ہیں کہ ان کی باقاعدہ ایک لمبی فہرست چاہئے۔ہر شعبہ اپنی اپنی ڈاک اپنی اپنی تجاویز اور اپنی رپورٹس ہاتھ میں تھامے حضور انور سے ملاقات کا وقت لے کر ملاقات میں یا بذریعہ خط و کتابت ہدایات لے رہا ہوتا ہے ۔
صرف برطانیہ میں ہی ایسے بہت سے شعبہ جات  ادارے اور تنظیمیں ہیں جن کے انچارج اپنے اپنے جماعتی  کاموں کے لئے اکثرو بیشتر حضور انور سے ملاقات کر کے راہنمائی لینا چاہتے ہیں۔
پھر آپ سب جانتے ہی ہیں جلسہ سالانہ برطانیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔کہنے کو یہ تین دن کا جلسہ ہوتا ہے لیکن حضور انور کی راہنمائی میں سارا سال اس پہ کام ہوتا ہے اور اس کے منتظمین حضور انور سے ملاقاتیں کر کے ہدایات لیتے رہتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمہمانوں کی سہولیات کا خیال رکھنے کے لئے اتنی تفصیل سے انتظامات کا جائزہ لیتے ہیں اورہدایات فرماتے ہیں کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ جلسے پر آنے والا ہر مہمان پیارے حضور کا ذاتی مہمان ہے ۔پھرجلسہ سالانہ کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل آپ ہر شعبے میں جاکے خود انتظامات کا جائزہ لیتے ہیں اور بہتری پیدا کرنے کی ہدایات جاری فرماتے ہیں۔ اُس ایک دن میں حضور مسجد فضل لندن، بیت الفتوح،  ٹلفورڈ اسلام آباد، جامعہ احمدیہ اور جلسہ سالانہ کے مقام حدیقۃ المہدی آلٹن سرے میں تشریف لے جا کے ہر ہر شعبے کا جائزہ لیتے ہیں اور محدود وقت میں اتنی تیزی سے چلتے ہوئے ہر ہر شعبے کا جائزہ لیتے ہیں کہ حضور انور کے ساتھ چلنے والے بعض اوقات شدید تھک جاتے ہیں۔ 
اب دنیا کے دو سو ممالک کے سینکڑوں اداروں کے ہزاروں شعبہ جات کو ہدایات جاری کرنا، ان سے معلومات حاصل کرنا، ان کی تجاویز کا جائزہ لینا اور مختلف پروگراموں اور فلاحی منصوبہ جات کی منظوری عطا فرمانا، ان اداروں کی طرف سے آئی ہوئی رپورٹوں کو ملاحظہ فرمانا، ان تمام کاموں کے لئے روزانہ اگر مختلف اوقات میں دس گھنٹے بھی صرف کئے جائیں تو اس کے لئے چھ سو منٹ درکار ہوسکتے ہیں۔
…………………
ان ساری مصروفیات میں جہاںپیارے حضور    ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اہم شعبوں کو وقت دیتے ہیں وہیںپہ چھوٹے پیمانے کے شعبہ جات بھی براہ راست  حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ایک مرتبہ خاکسار نے کسی جماعتی کام کے سلسلے میں ملاقات کی درخواست بھجوائی تو  جواب آیا کہ ’’مصروفیت بہت زیادہ ہے انشاء اللہ آئندہ ‘‘ ۔ میں بھی صبر کر کے خاموش بیٹھ گیا۔اُس کے کوئی پانچ ماہ بعد خاکسار ملاقات کے لئے حاضر ہوا ۔ نجانے کیوں لیکن میرا  غالب گمان تھا کہ حضور انور کو اتنی مصروفیات میں کہاں یاد رہا ہو گا کہ کبھی کسی نے فلاں کام کے لئے ملنے کی درخواست بھجوائی تھی۔کمرے میں داخل ہوتے ہی پیارے حضور  ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ملنے کی درخواست کی تھی اُن دنوں مَیںبہت مصروف تھا لیکن اُس کے بعد آپ آئے ہی نہیں، رابطہ ہی نہیں کیا۔ میرا حال مت پوچھئے۔ حافظ کے اُس شعر کا مفہوم میرے ذہن میں گھوم گیا کہ جب تیرے پیارے کو تیرے دل کے حال کا علم ہے تو کچھ اور آرزو کی ضرورت کیا ہے۔ ہاں اس سوچ میں ضرور پڑ گیا کہ ان پانچ چھ مہینوں میں   کتنے ہی بڑے بڑے عہدوں پر فائزاور عام قسم کے بھی  افراد پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملے ہوں گے یا انہوں نے ملنے کی درخواست کی ہوگی۔ حضورانور بیرون ملک دورے پر بھی گئے جہاں بہت سے  لوگوں نے ملنے کی درخواستیں کی ہوں گی یا ملے ہوں گے۔ جرمنی کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت فرمائی تھی جہاں ہزاروں افراد جماعت تھے۔ کتنے ہی اہم منصوبوں پر  بات چیت ہوئی ہوگی ان مصروفیات میں بھی ایک معمولی کارکن، عام فردِ جماعت یاد رہا۔ مَیں اور کیا کہوں سوائے اس کے کہ الحمد للّہ رب العٰلمین۔
…………………
پیارے حضور کے ایک دن کی مصروفیات کی بات ہو رہی تھی۔ ہر شام کو احمدی افراد اپنے پیارے محبوب امام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز سے ملاقات اور دیدار کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں۔ اگر ملاقات کی عام اجازت ہو تو شائد مسجد فضل لندن کی اردگرد کی گلیوں میں ٹریفک کا نظام مشکل کا شکار ہو جائے اور یہاں وانڈز ورتھ کی ساری ٹریفک پولیس کو صرف ان گلیوں میں ہی تعینات کر دیا جائے ۔ محدود وقت کے باعث اورسب کو برابر موقع دینے کے لئے ہر روز شام کو عام طور پہ کوئی بیس کے قریب خاندان یا انفرادی طور پر احباب حضرت     امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں ۔اگر ایک خاندان میں اوسطاً تین افراد بھی ہوں تو کوئی پچاس ساٹھ افراد روزانہ ملاقات کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ان ملاقاتوں کے لئے اندازاً ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ مختص ہوتا ہے ۔ اگر ملاقاتیوں کی تعداد پر وقت کو تقسیم کیا جائے تو ایک ملاقاتی کے لئے ایک منٹ بھی نہیں مل سکتا۔ بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بصد عقیدت و احترام اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت کے لئے ہزاروں میل کے فاصلے طے کر کے ملاقات کے لئے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے  ہوتے ہیں جو اپنی کسی ایسی پریشانی کا اظہار حضور انور کے ساتھ کرنے آئے ہوتے ہیں جو وہ پوری دنیا میں کسی اور سے نہیں کر سکتے۔ بہت سے ایسے طلباء ہوتے ہیں جو اپنے مستقبل کے لئے راہنمائی حاصل کرنے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے    حضور انور سے دعائیںاور راہنمائی حاصل کرنے کے لئے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے ملاقاتی ایسے ہوتے ہیں کہ خود  اُن کی یا اُ ن کے بزرگوں کی دین کے لئے بہت خدمات اور قربانیاں ہوتی ہیں اور ایسے خوش نصیبوں کو بعض اوقات زیادہ وقت بھی مل جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے اور محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو صحت و شفایابی والی عمر دراز عطا فرمائے آپ آنے والے ہر ملاقاتی کو اُٹھ کے ملتے ہیں اور ملاقاتی کے جاتے ہوئے بھی اپنی کرسی سے اُٹھ کے الوداع کہتے ہیں۔ ہر ملنے والے کی دلداری فرماتے ہیں اور سبھی محبتوں اور دعائوں کی دولت سمیٹے ہوئے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔ آجکل یہاں برطانیہ میںنماز فجر کوئی ساڑھے چار بجے کے قریب ہوتی ہے اور نماز عشاء نوبجے رات۔ کوئی سولہ سترہ گھنٹے کا دورانیہ بنتا ہے ۔ اتنی صبح کے جاگے ہوئے پیارے حضور اوسطاً پندرہ سو خطو ط ملاحظہ کرنے کے بعد، بڑے بڑے منصوبوں کی تفصیلات جانتے ہوئے ہدایات جاری کرنے کے بعد، تمام دفتری ملاقاتوں کے بعد، دنیا بھر سے آئی ہوئی غم اور خوشی کی خبروں کو سننے اور ہدایات جاری کرنے کے بعد، جب شام  سات آٹھ بجے ہر ملاقاتی کو فرداً فرداًاپنی کرسی سے اُٹھ کے ملتے ہیں تو جہاں ہمارے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں وہیں دل چاہتا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے   بصد ادب و احترام ہاتھ جوڑ کے درخواست کی جائے کہ حضور آپ ہمارے آنے پہ تشریف فرما ہی رہا کریں آپ کو دیکھ کے ہی ہماری عید ہو جاتی ہے ۔ ان ملاقاتیوں کی محبتوں کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں اور پیارے حضور       ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہر قوم ہر ثقافت اور ہر لب و لہجے کے ملاقاتیوں سے مل کے اُ ن کے ماحول اور مزاج کے مطابق اُن کی دلداری فرماتے ہیں۔ ملاقاتیوں کے مزاج  اور محبتوں کے انداز اور فرمائشوں کو دیکھ کے کوئی بھی زیرک انسان حضور انور کی شفقت کے ساتھ ساتھ ضبط اور حوصلے کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
…………………
امام وقت سے اپنی عقیدتوںکا، محبتوںکا،آپ کی دعائوں کی قبولیت کااظہار، اپنے اپنے رنگ میں کرنے والے جہاں زیادہ تر بڑے دانشور قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہیں پہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پیارے حضور کو کہنے کچھ گئے ہوتے ہیں اور عرض کچھ اور کر آتے ہیں۔
ایک صاحب ملاقات کے بعد باہر آئے تو اپنے آپ کو گریبان سے پکڑ کے جھنجوڑ رہے تھے۔ پوچھنے پر کہنے لگے مجھے اُ ردو کے بڑے بڑے لفظ بولنے کا شوق لے بیٹھا ہے ۔ پیارے حضور نے دریافت فرمایا تھا کہ کیسے آنا ہوا ۔ کہنا یہ تھا کہ بس اس لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کی زیارت کا موقع مل جائے لیکن کہہ آیا ہوں اس لئے حاضر ہوا ہوںکہ آپ کو زیارت کا موقع مل جائے۔ کہنے لگے کہ میر ی بات پر حضور بہت مسکرائے تھے۔ اُس وقت سمجھ نہیں آیا لیکن اب سمجھ آئی ہے کہ آپ کیوں مسکرائے تھے ۔ پھر کئی ملاقاتی  میری طرح کے ہوتے ہیں حضور انور کا موڈ دیکھے بغیر کہتے ہیں حضور ایک تا زہ غزل پیش خدمت ہے۔ کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو باادب رہتے ہوئے، شُستہ اردو بولنے کی آرزو میں عقیدت میں کہہ دیتے ہیں ’’حضور مَیں ابھی کل ہی تشریف لایا ہوں‘‘۔ایک صاحب ملاقات کرنے گئے واپسی پہ کمرے سے نکلتے نکلتے کہہ گئے حضور دعا کی عاجزانہ درخواست ہے میر ابڑا بیٹا قید ہوگیا ہے۔ ملاقات کے بعد حضور انور نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فوراً ہدایت فرمائی کہ ان کے بیٹے کا پتا کروائیں کیوں قید ہوا ہے۔ تحقیق پر پتا چلا کہ اللہ کے فضل سے اُن کا بیٹا اپنے حلقے کا قائد بن گیا ہے۔ وہ قائد کو قید کہہ رہے تھے تو پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسکراتے ہوئے مختلف زبانوں، مختلف لہجوں، مختلف استعدادوں، مختلف مزاجوں اور مختلف ثقافتوں والے ان سب ملاقات کرنے والوں سے ایسی شفقت اور محبت سے ملتے ہیں، ایسی دلداری فرماتے ہیں کہ چھوٹے بڑے سبھی دمکتے چہروںاور شاداب روح کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ پنجابی زبان والوں سے پنجابی میں۔ انگریزی دانوں سے انگریزی میں اور اردو بولنے والوں سے اردو میں گفتگو فرماتے ہیں۔ اس ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ملنے والوں کی سینکڑوں چھوٹی چھوٹی خواہشات ہوتی ہیں جنہیں  حضور انور کمال خندہ پیشانی سے پورا فرماتے جاتے ہیں۔ سب بچوں کو تو چاکلیٹ ملتا ہی ہے کئی بڑے بھی فرمائش کرکے اپنی پسند کا چاکلیٹ طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو تبرکاً پین کا تحفہ ملتا ہے تو کوئی حضور انور کے ساتھ تصویر بنانے کی درخواست کرتاہے۔کمرے سے نکلتے نکلتے بھی فرمائشیں ہورہی ہوتی ہیں اور پیارے حضور مسکراتے ہوئے سب کی خواہشیں پوری فرماتے جاتے ہیں۔ 
…………………
پھر ہر جمعہ کے روز پیارے حضور تقریباً ایک گھنٹہ کھڑے ہو کے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں جبکہ ہم سننے والے بیت الفتوح یابیت الفضل کے نرم و گداز قالین پر بیٹھ کے سنتے ہیں یا دنیا کے دیگر ممالک کی احمدیہ مساجد میں یا گھروں میں احباب آرام سے بیٹھ کے سنتے ہیں۔ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کے حوالے سے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے بات ہو رہی تھی آپ نے بتایا ہر جمعہ کے لئے  حضور انور خطبہ جمعہ تو خود ہاتھ سے تحریر فرماتے ہی ہیں اس کے علاوہ سارا ہفتہ اس کے لئے نوٹس بھی خود لکھتے جاتے ہیں اور قرآن پاک سے اور احادیث سے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے حوالہ جات بھی زیادہ تر خود تلاش کر کے تحریر فرماتے جاتے ہیں۔پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں خطبہ کے مضمون کا تو کیا موضوع تک کا بھی علم نہیں ہوتا اور حضور انور جمعہ کے روز مسجد فضل سے بیت الفتوح تشریف لے جاتے ہوئے بھی خطبہ کے لئے نوٹس تحریر فرماتے جاتے ہیں۔ 
معزز قارئین! اگر ہم خطبات کے مضامین کو غور سے پڑھیںتومعلوم ہوگا کہ کس طرح پیارے حضور افرادجماعت  سے پیار کرتے ہیں اور ہماری دین و دنیا میں کامیابی کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیسے ہر وقت نصائح فرماتے رہتے ہیں۔ کیسے پیارے حضور کی آرزو ہے کہ ہمارے دلوں میں ہمارے گھروں میں ہماری گلیوں میں ہمارے شہروں میں اور پوری دنیا میں امن ہو اور ہماری زندگیا ں جنت نظیر ہو جائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں میں شامل ہوجائیں۔
بہت عرصہ غالباً آٹھ سال پہلے کا ایک واقعہ ہے کہ میں پروگرام انتخاب سخن کر کے سٹوڈیو سے باہر نکلا تو فون کالز لینے والے نوجوانوں میں سے ایک نے بتایا کہ کوئی غیر از جماعت خاتون بضد ہے کہ پریزنٹر سے ہی بات کرنی ہے اور وہ بڑی دیر سے فون ہو لڈ کروا کے بیٹھی ہے۔ بہرحال اُس سے بات ہوئی۔ اُس کا کہنا تھا کہ میرے خاوند نے مجھے سختی سے کہا ہو ا تھا کہ ایم ٹی اے نہیں دیکھنا۔ اُس کے اس طرح سختی سے روکنے کی وجہ سے مجھے تجسّس ہوا اور اب میں چھپ کے آپ کے حضور کی باتیں سنتی ہوں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ کی جماعت ہی سچی جماعت ہے۔ میری طرف سے خلیفہ حضور کو کہنا کہ آپ کی عقیدت مند ایک بیٹی فلاں شہر میں بھی رہتی ہے اُسے بھی دعائوں میں یاد رکھیں۔ ا ُس نے با اصرار کہا کہ جیسی آپ کے خلیفہ باتیں کرتے ہیں اگر ساری دنیا ان باتوں پر عمل کرے تو دنیا ایک جنت نظیر خطہ بن جائے۔ اُس نے کہا کہ وہ حضور کی باتیں سن کے دل سے احمدی ہو چکی ہے لیکن اپنے خاندان والوں کے خوف سے ایسا نہیں کہہ سکتی اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ آپ یقین رکھیں کہ ہر پڑھا لکھا شخص جو آپ کے خلیفہ کی باتیں سنتا ہے وہ اُن کی باتوں سے متفق ہے لیکن زمانے کے خوف سے خاموش ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیارے حضور کے خطبات نہ صرف ہمارے لئے بلکہ سب سننے والوں کے لئے سکینت کا باعث بنتے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ہر خطبے کا لُبّ لباب یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت بیٹھ جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دلوں میں گھر کرلے اور پوری دنیا میں آپؐ کی عظمت کا جھنڈا بلند ہو اور مسیح زمانہ کی محبت دلوں میں ایسے رچ بس جائے،  ہمارے دلوں میں تقوی اس طرح پیدا ہوجائے کہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں۔ پیارے حضور جس طرح ہر خطبے میں قرآن پاک کے حوالوں سے، احادیث کے حوالوں سے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تحریرات کے حوالے سے بار بار ہمیں عاجزی، خاکساری، درگزر اور احسان کے سلوک کا درس دیتے ہیں۔ ہر دم، ہر آن، ہر تحریر، ہر خطبے میں پیارے حضور کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری زندگیاں آسان بن جائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں میں شامل ہو جائیں۔  
     حضور انور کا  ہر ہر خطبہ جمعہ دراصل دنیا بھر سے دوران ہفتہ ملنے والے ہمارے ہزاروں خطوط کا ،ہزاروں سوالات کا جواب ہوتا ہے اور ہزاروں دنیاوی مسائل کا حل ہوتا ہے اور دائمی کامیابیاں پانے کا نسخہء کیمیا ہوتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ادھر کسی مفلوک الحال درویش صفت احمدی نے حضور انور سے مل کے یا خط کے ذریعے ذکر کیا کہ فلاں ملک کے جلسے میں مجھے کھانا ٹھیک طرح نہیں ملااور اگلے خطبے میں حضور انور پوری دنیا کے احمدیوں کو مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی نصیحت فرما رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی دُوردرازکے ملک سے کوئی مصیبت زدہ لکھتا ہے کہ فلاں ادارے میں فلاں صاحب نے مجھ سے تعاون نہیں کیا اور حضور انور خطبہ جمعہ میں دنیا بھر کے دفاتر میں کام کرنے والوں کو عاجزی کی نصیحت فرماتے ہیں اور یہ کہ دفتر میں آنے والے افراد سے کرسی سے اُٹھ کے ملنا چاہئے اور ہر ممکن مدد کرنی چاہئے۔ 
ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ حضور انور کے خطبات ہماری عام روزمرہ کی زندگیوں، رہن سہن اور  معاملات سے متعلق ہوتے ہیں اور عام آدمی کی سمجھ کے مطابق ہوتے ہیں۔
ایک نئے احمدی سے پوچھا کہ احمدیت کیسے قبول کی؟ کہنے لگے ٹی وی پر چینل بدلتے ہوئے حضور انور کا خطبہ جمعہ سنا تو مَیں تو حیران رہ گیا اور مجھے لگا کہ وہ میرے سب حالات جانتے ہیں اور میری تربیت کے لئے صرف اور صرف مجھے سمجھا رہے ہیں۔ خطبہ سننے کے بعد مَیں نے کوئی کتاب نہیں پڑھی، کوئی دلیل نہیں مانگی ایک احمدی دوست کو کہا مجھے بیعت فارم لادو اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں دیکھی ہیں۔
اسی طرح جلسہ سالانہ برطانیہ کے دنوں میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی جنہوں نے حضور انور کے خطبات سن کے احمدیت قبول کی تھی۔ کہنے لگے کہ میں امریکہ میں اپنے وطن کا پاسپورٹ بنوانے کے لئے اپنے ملک کی ایمبیسی میں گیا ۔ وہاں پاسپورٹ فارم پہ سب دستخط کرکے جب فارم ان کے حوالے کیا تو ایمبیسی والے کہنے لگے کہ آپ نے اس اقرار نامے پر دستخط نہیں کئے۔ اب یہ دوست بہت پڑھے لکھے اور ہر چیز کو عقل اور منطق کی کسوٹی پر پرکھنے والے تھے۔ کہنے لگے کہ جس شخص کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں کہ تصدیق کروں کہ مَیں ان کو سچا نہیں مانتا مَیں نے تو ان کا نام ہی پہلی دفعہ سنا ہے اور مَیں ان کو جانتا ہی نہیں ہوں، مَیں کیسے دستخط کر کے تصدیق کروں کہ فلاں شخص سچا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا دستخط کے بغیر پاسپورٹ نہیں مل سکتا۔ یہ فارم لے کے گھر آئے اور جاننے والوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ پوچھتے پوچھتے جماعت کی کتابیں پڑھنے لگے اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات سننے لگے۔ پوری تحقیق کے بعد ایمبیسی گئے۔ انہوں نے پوچھا اب دستخط کر دئیے ہیں۔ کہنے لگے مَیں نے اُس جگہ دستخط تو نہیں کئے، الحمد للہ مَیں نے احمدیت قبول کرلی ہے ۔                                                                  
  قارئین کرام! پیارے حضور سینکڑوں خطوط کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ، سینکڑوں انتظامی امور کی دیکھ بھال فرماتے ہوئے روزانہ بہت سی دفتری اور انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ اور دیگر تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ ہم سب کے لئے ہر خطبہ جمعہ اتنی محنت سے لکھتے ہیںتو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسے ایسے سنیں گویا پیارے حضور صرف اور صرف ہم سے مخاطب ہیں اور صرف اور صرف ہمیں نصیحت فرما رہے ہیں۔حضور انور کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ حضور کے تھوڑے کہے کو ہی زیادہ سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے آمین۔                                                                       
  خطبہ جمعہ کے دوران جو کاغذات ہم حضور انور کے  مبارک ہاتھوں میں دیکھتے ہیں وہ حضور انور کے خود اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ حوالہ جات یعنی  قرآن پاک کی آیات ،احادیث مبارکہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات وغیرہ بعض اوقات  ٹائپ یا فوٹو کاپی کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ محترم منیر جاوید صاحب نے بتایا تھا کہ حضور انور تو خطبہ جمعہ کے لئے بیت الفتوح جاتے جاتے بھی نوٹس لکھ رہے ہوتے ہیں۔ قارئین کرام! ہر خطبے اور ہر خطاب میں پیارے حضور کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں حقیقی اور دائمی خوشیاں نصیب ہوجائیں۔ ابھی حال ہی کے خطبہ عید کو غور سے سنیں۔ پیارے حضور کے ایک ایک لفظ سے ایک ایک فقرہ سے کیسے اس خواہش کا اظہار چھلکتا ہے کہ ہمیں حقیقی عیدیں نصیب ہوں، ہماری زندگیاں جنت مثال بن جائیں۔ ہماری یہ زندگی بھی جنت  بن جائے اور آخرت میں بھی ہم سرخرو ہوں۔ کیسے حضور کو فکر ہے کہ کہیں ہم عارضی عیدوں کی مصروفیات میں حقیقی عیدوں سے غافل نہ ہو جائیں۔ 
…………………
قارئین کرام! آپ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر ملک کے اور ہر قوم کے احمدی    حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحبت سے یکساں فیض پاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ملک شام کے ایک شامی احمدی بھائی کے ساتھ نشست کا موقع ملا۔ اُن کی باتیں سن کے حیرانی ہوئی کہ وہ تو اپنی زندگی کا ایک ایک قدم اور ایک ایک فیصلہ حضور انور کے مشورہ سے کرتے ہیںاور حضور انہیں، ان کے بچوں کو، ان کے بھائیوں کو ناموں سے جانتے ہیں اور ان سب کا ماننا تھا کہ جتنا حضور انہیں وقت دیتے ہیں شائد ہی کسی کو دیتے ہوں۔یہی حال عربی بھائیوں کا ہے۔ ان  کے پاس بیٹھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی تمام تر توجہ کا مرکز وہی ہیں اور یہی حال ہر خطّے کے لوگوں کا ہے۔
اب یہ جو ساری مصروفیات لکھی ہیں اگران کے وقت کو جمع کیا جائے تو سرسری نگاہ سے صرف خط دیکھنے کے لئے بھی پندرہ سو منٹ بنتے ہیں جبکہ ایک دن رات میں کل چودہ سوچالیس منٹ ہوتے ہیں۔ حضور انور کی مصروفیات اور  ایک دن میں ہونے والے کام کوئی عام انسان ایک ہفتے میں بھی احسن طریقے سے سر انجام نہیں دے سکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں 
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی ایک دن کی ڈائری دیکھ کے ہی کوئی بھی سعید فطرت شخص اس بات کی گواہی دے گا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بغیر یہ سب ممکن ہی نہیں ہے ۔
…………………
اوپربیان کی گئی ساری مصروفیات کے علاوہ مختلف تنظیموں کی طرف سے منعقد کی گئی تقریبا ت میں شرکت اور خطابات الگ ہیں۔مساجد کے سنگ بنیادرکھنے اور افتتاح کرنے الگ ہیں۔مختلف ممالک کے دورہ جات اور جلسوں اور پروگراموں میں شرکت الگ ہے۔ برطانیہ میں جو  بڑی بڑی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں وہ الگ سے ہیں۔ احمدی احباب سے ملاقات کے علاوہ جو دنیا بھر سے غیر از جماعت مہمان یا صحافی ہیں اُن کو جو وقت دیا جاتا ہے وہ الگ سے ہے۔
برطانیہ میں ایک  جلسے کے بعد مَیں کسی انگریز صحافی کو اُس کے گھر تک چھوڑنے جا رہا تھا راستے میں باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگا کہ ہر چند کہ مَیں ایک پختہ عقیدہ رکھنے والا عیسائی ہوں لیکن آ پ کے امام جماعت سے مل کے اور اُن کی مصروفیات کو دیکھ کے میں یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کوئی روحانی قوت ان کی مدد کر رہی ہے۔میری سمجھ سے بالا ترہے کہ کروڑوںافراد کی جماعت میں سے ہر کوئی دعوی کر رہا ہے کہ میرے امام مجھے جانتے ہیں ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس کے بیس سالہ دور صحافت میں اُس نے کبھی اتنا بڑا اجتماع اتنا منظم نہیں دیکھا اور اطاعت کا ایسا نظارہ نہیں دیکھا۔ میرے بتانے پر کہ ہمارے امام کو روزانہ بذریعہ ڈاک اور فیکس کوئی پندرہ سو کے قریب خطوط ملتے ہیں اور روزانہ ان پندرہ سو خطوط کے جوابات فرداََ فرداََ خط لکھنے والوں کے گھر بھجوائے جاتے ہیں۔ کہنے لگا اب آپ یقینا مذاق کر رہے ہیں۔
قارئین! آپ اور مَیں جانتے ہیں کہ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ 
آج سے کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے  خاکسار اور مکرم سید حسن خان صاحب کسی اخبار کے لئے مکرم و محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے کا تفصیلی انٹرویو کرنے اُن کے گھر پہنچے۔ محترم امیر صاحب نے خلافت کی برکات کے بہت سے پہلوئوں کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ایک بات کا بار بار شدّت سے اظہار کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ مجھے آج تک ایک بات بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ بعض خوشخبریاں صرف مجھے معلوم ہوتی ہیں اور میری شدید خواہش ہوتی ہے کہ میں فوری طور پہ خود جا کے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اطلاع کروں لیکن حیرت انگیز طور پر حضور انور کو اس بات کا پہلے سے علم ہوتا ہے حالانکہ وہ بات میں نے کسی کو بھی نہیں حتی کہ حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بھی نہیں بتائی ہوتی۔امیر صاحب کے اس انٹرویو کو کئی سال گزر گئے لیکن امیر صاحب کی یہ بات مجھے بطور خاص یاد رہ گئی ۔ ایک روزاتفاقاً میری ملاقات مکرم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے اُن کے دفتر میں ہوئی ۔ وہ سر جھکائے ساتھ ساتھ حسب ِ معمول خطوط کو ترتیب سے مختلف فائلوں میں لگا رہے تھے۔ ساتھ ساتھ مختلف فون کالز بھی اٹینڈ کررہے تھے۔ مَیں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فوراً اُن سے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک مرتبہ مکرم امیر صاحب رفیق حیات صاحب نے کہا تھا کہ پتا نہیں کیسے لیکن جو بھی بات مَیں حضور انور کو بتانے جاتا ہوں وہ حضور کو پہلے سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات سن کے مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب بے اختیار کھلکھلا کے ہنسے اور ساری مصروفیات چھوڑ کے میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کو ایک بات بتائوں۔ مَیں بہت خوش ہوا کہ مجھے راز بتانے لگے ہیں۔ کہنے لگے یہی بات تو مجھے خود آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسے ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مَیں حضور انور کو کوئی اطلاع دینے جاتا ہوں کہ حضور فلاں ملک سے اطلاع آئی ہے اور اس سے پہلے کہ مَیں کچھ اَور کہوں حضور انور بتا دیتے ہیں کہ مجھے علم ہے یہ بات ایسے ایسے ہوئی ہے۔ محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا کہنا تھا ہم تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان اور خلیفہ وقت اور جماعت کے افراد میں محبتوں کے اور دلی تعلق کے نظارے ہر روز اور ہر وقت دیکھتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے کہ خلیفہ وقت کا جماعت کے ساتھ دل و جان سے محبت کا ایسا رشتہ ہے، ایسا روحانی اور قلبی تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف ذرائع سے حضور انور کو دنیا بھر کے احمدیوں کے حالات سے خود ہی باخبر رکھتا ہے۔                                                                            
…………………
ایم ٹی اے انٹر نیشنل کا کارکن ہونے کے ناطے مجھے علم ہے کہ ایم ٹی اے کے تمام شعبے حضور انور کی براہ راست راہنمائی میں کام کرتے ہیں۔ اتنی مصروفیات کے باوجود پیارے حضور ہر شعبہ کے منتظمین کو اتنی تفصیل سے ہدایات جاری فرماتے ہیں اور ایسی باریک بینی سے تفصیلات کا جائزہ فرماتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کئے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے ہمیں خلافت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔
ایم ٹی اے کے بہت سے پروگراموں میں سے انتخاب سخن بھی ایک پروگرام ہے۔اس پروگرام میں بہت سے احمدی احباب وخواتین بچے بچیاں اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ پیارے حضور کو اُن کی طرف سے السلام علیکم کہا جائے۔پیارے حضور نے یہ ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ جو مجھے السلام علیکم کا پیغام بھجوائیں انہیں میر ی طرف سے وعلیکم السلام کہہ دیا کریں۔ خاکسار ہر پروگرام میں بغیر بھولے حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں اس ہدایت پر عمل کرتا ہے۔ ایک پروگرام میں، مَیں یہ کہنا بھول گیا۔ مَیں دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ! حضور نے یہ پروگرام نہ دیکھا ہو۔ اُس کے تھوڑے دنوں بعد محمود ہال مسجد فضل لندن میں کسی تقریب میں خطاب کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے جارہے تھے۔ مَیں بھی ہجوم میں کھڑا تھا۔ پیارے حضور انور میرے قریب آئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا پچھلے پروگرام میں آپ نے میری طرف سے و علیکم السلام نہیں کہا، یادسے کہا کریں۔ حضور انور یہ فرما کے آگے تشریف لے گئے ۔ مَیں گم سم حیران و ساکت کہ حضور انور کی اتنی مصروفیا ت اور ایک چھوٹے سے پروگرام پہ اتنی نظر اور شفقت اور ایم ٹی اے کے ناظرین کا اتنا خیال ؎
’ اے چھائوں چھائوں شخص تری عمر ہو دراز‘
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی از حد مصروفیات کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں کہ ادھر کسی بہت پیارے کا نماز جنازہ پڑھایا ہے اور پھر کچھ دیر کے بعد کسی بچی یابچے کے نکاح کا اعلان ہورہا ہے کیونکہ اُن کی اس تقریب کی منظوری انہوں نے شائد ہفتوں مہینوں پہلے سے لے رکھی ہو۔ 
ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں کہ جب لاہور میں ایک ہی دن میں اسّی نوے معصوم احمدیوں کو خون میں نہلا دیا گیا لیکن اُس روز بھی ایم ٹی اے کے ذریعے دنیا بھر کے  لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ کی آنکھوںپہ ضبط کے    بے مثال پشتوں نے سینے میں غم کے چھلکتے ہوئے سمندر کا ایک قطرہ بھی باہر نہیں آنے دیا ۔
ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب پیارے    حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی والدہ محترمہ کی وفات کی المناک خبر کی اطلاع دیتے ہیں اور نماز جنازہ پڑھاتے ہیںاورپھر اگلے روزہی تمام تر دفتری مصروفیات میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ 
ہم نے وہ دن بھی دیکھا ہے کہ جب پیارے حضور اپنے اکلوتے بیٹے مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کی شادی میں شریک ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے کسی اور کارکن کے بچے کی شادی میں شریک ہوتے ہیں۔ دن بھر کی دفتری مصروفیات کے بعد جب شادی کی تقریب میں تشریف لائے تو اُتنا ہی وقت تشریف فرما رہے جیسا کہ معمول کے مطابق ہوتا ہے ۔
ہر روز نئے فکر ہیں ہر شب ہیں نئے غم
 یا رب یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے
چونکہ ساری جماعت احمدیہ ایک خاندان کی طرح ہے اس لئے آئے دن کسی نہ کسی پیارے کی رحلت کی یا شہادت کی المناک خبر بھی ملتی ہے لیکن پیارے حضور یہ سب غم سینے میں چھپائے ہم سب کے غم بانٹنے میں مصروف رہتے ہیں اور ہمیں مسکرا کے ملتے ہیں ۔
…………………
پیارے بھائیو! ہمارے پیارے حضور ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کرتے ۔کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اپنی ہر نماز میں اور ہر دعا میں اپنے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد رکھیںاور اپنے قول سے اور اپنے کردارسے یہ ثابت کریں کہ ہم اپنے محبوب امام سے پیار کرنے والے ہیں اور آپ کے ارشادات پر دل و جان سے لبّیک کہنے والے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ اگر ہماری درخواست پر پیارے حضور ہماری کسی تقریب میں یا ہماری خوشیوں میں مثلاً ہمارے بچوں کی شادیوں وغیرہ میں شریک نہ ہوں سکیں تو ہر گز ہر گز دل گرفتہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہفتوں مہینوں بلکہ بعض معاملات میںسالوںپہلے سے حضور کی روزانہ کی مصروفیات اورپروگرام طے شدہ ہوتے ہیں۔ ملاقاتی ہزاروں میل کے فاصلے طے کر کے آئے ہوتے ہیں۔ ہر روز ایک نہیں بلکہ بہت سی ایسی درخواستیں اور دعوتیں ہوتیں ہیں جن سے پیارے حضور کو بڑے بوجھل دل سے شرکت سے معذرت کرنی پڑتی ہے۔ میں نے ایسی بہت سی شادیوں میں شرکت کی ہے کہ جہاں شادی والے بچے یا بچی کے والدین کی جماعت کے لیے بڑی لمبی نمایاں خدمات ہیں اور نمایاں مقام ہے لیکن پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بوجہ دیگر مصروفیات شریک نہ ہوئے ۔
حقیقت میں بات تو یہ ہے کہ پیارے حضور جو ہر جمعہ کے روزایک گھنٹے کے لئے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں وہ ہمارے لئے ہی تو ہوتا ہے۔ حضور ہمیں ہی تو وقت دیتے ہیں۔ ہم سے ہی تو گفتگو کرتے ہیں۔ ہم سے ہی تو ملاقات کرتے ہیں۔ اور ہماری بھلائی اور فائدے کی ہی تو باتیں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جو مساجد، مشن ہائوس اور دیگر فلاحی منصوبے ہیں وہ ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے ہی تو ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت پیارے حضور کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں اور دعا کے لئے ہمیشہ انہیںخط لکھتے رہیں۔ خطوط میں جہاں ہم اپنی عارضی دنیاوی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں وہیں پہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا ذکر بھی حضور سے کرتے رہیں۔ خدا کرے کہ ہم  ہمیشہ حضور کو خوش خبریاں دینے والے ہوں۔ ویسے بھی ہم احمدیوںپر اللہ تعالیٰ کے جتنے فضل ہیں وہ بھی بیان سے باہر ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر
اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
مَیں خاک تھا اُسی نے ثریّا بنا دیا
ہر احمدی پر کسی نہ کسی رنگ میں ضرورپورا اُترتا ہے۔ تو ہمیں اپنے خطوں میں ان فضلوں کا، برکتوں کا اور خوشخبریوں کا  بھی لازمی طور پہ ذکر کرنا چاہئے ۔ 
…………………
یہاں پہ مَیں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کا تذکرہ ایک مضمون میں کرنا ناممکن ہے بلکہ شائد ایک کتاب بھی کم ہے۔ ویسے بھی اس مضمون میں صرف روزمرہ کی مصروفیات کا مختصر طور پہ ذکر ہے۔دیگر مصروفیات الگ سے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام احمدیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خلیفۂ وقت کے پاس جا کے ملاقات کا شرف حاصل کریں لیکن سب کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے اس لئے  حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جہاں جہاں ممکن ہو وہاں پہنچ کے احمدیوں سے ملتے ہیں اور اُن کے حالات جانتے ہیں۔ مَیں بیرون ممالک دورہ جات کی بات کررہا ہوں۔ برطانیہ سے سنگاپور، نیوزی لینڈ ، جاپان اور آسٹریلیا  جانا آسان نہیں ہوتا۔ قارئین میں سے جو جہاز سے سفر کرتے رہتے ہیںوہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ سفر بڑا تھکا دینے والا ہوتاہے۔لندن سے سڈنی آسٹریلیا  کوئی چھبیس گھنٹے کی فلائٹ ہے۔                                                                                      
اللہ تعالیٰ قدم قدم پہ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حافظ و ناصر ہو۔ آپ کو صحت و شفایابی والی عمر درازعطا فرمائے۔ پوری دنیا میںاسلام احمدیت کاغلبہ ہو۔ خدا کرے کہ ہم حضور انور کے تھوڑے کہے کو ہی بہت سمجھنے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حقیقی معنوں میں اطاعت کی توفیق دے۔ سچی محبت اور بے مثال پیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 
مَیں دنیا کے ایسے ملک بھی دیکھ آیا ہوں جہاں ملک کے ممبران پارلیمنٹ بھی عام بسوں میں سفر کرنے کے لئے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور لبنان اور اسرائیل کے بارڈر بھی دیکھ آیا ہوں جہاں دس دس سال کے بچے سکول اس طرح جا رہے تھے کہ بستے کے ساتھ کلاشنکوف بھی گلے میں لٹکائی ہوئی تھی۔دنیا کے آزاد ترین ملک بھی دیکھ لئے ہیں اور دمشق کے تہہ خانوں میں چالیس دن قید کاٹ کے وہاں کے زندانوںمیں زندہ انسانوں کے ڈھانچے بھی دیکھ کے آیا ہوں۔ مَیں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج اگر پوری دنیا میں امن اور انصاف کی کوئی ضمانت ہے تو وہ خلافت احمدیہ ہی ہے۔ دنیا ایک نہیں درجنوںنئے نظام بنا لے، درجنوں تِھنک ٹینک بنا لے، الٰہی نوشتوں کو نہیں بدلا جا سکتا۔ اگر دنیا چاہتی ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن جائے، قافلے سلامت اپنی منزلوں کو پہنچیں، ہزاروں لاکھوں کے ہجوم میں بھی کوئی کمزور و ناتواں کسی کے پائوں تلے نہ کچلا جائے، سسکتی ہوئی انسانیت کی آنکھ کے آنسو خوشیوں کے ستاروں میں بدل جائیں اور نفرت، تعصب  اور بارود کے دھوئیں میں اَٹے ہوئے منظر، محبتوں سے سرسبز شاداب نظاروں میں بدل جائیںتولازماًامام وقت کو ماننا ہو گا۔ دنیا کا کوئی نظام خدا کے بنائے ہوئے نظام سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ خدا کرے کہ محبتوں کا، رحمتوں کا، برکتوں کا یہ سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر رہے آمین۔ 
٭…٭…٭


0 comments: