مکرم بشیر احمد آرچرڈ جماعت احمدیہ عالمگیر کے سب سے پہلے انگریز مبلغِ اسلام اور پہلے یورپین واقف زندگی ہیں۔ آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب آپ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہندوستان میں برطانوی فوج کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر واپس اپنے گھر انگلینڈ آرہے تھے۔ آپ کوقادیان میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انگلینڈ پہنچ کر آپ نے جماعت کے مرکزی مشن مسجد فضل سے رابطہ کیا اور اپنی زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ آپ کے وقف کا عرصہ ۵۲ سال پر محیط ہے ،جس میں سے آپ نے ۱۸ سال انگلینڈ میں ، ۲۰سال سکاٹ لینڈ میں اور ۱۴سال ویسٹ انڈیز کے مختلف ممالک میں مبلغ کا فریضہ انجام دیا۔
مکرم آرچرڈ صاحب کے قبول اسلام کے بعد ان کی زندگی میں جو تغیر رونما ہوا اس بارہ میں آپ خود فرماتے ہیں کہ :۔
’’حقیقت یہ ہے کہ صرف مال چنداں خوشی اور قناعت نہیں دے سکتا۔ امن اور سکون بخشنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج مجھے وہ ذہنی اطمینان اور سکون قلب میسر ہے جو ایک زمانہ میں میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا۔
احمدیت کے طفیل ایک اورتغیر جو میری زندگی میں رونما ہوا وہ نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :۔ ذکرِ الٰہی سے قلوب طمانیت حاصل کرسکتے ہیں۔میں ابھی اس میدان میں مبتدی ہوں لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور ملفوظات سے بہت کچھ پایا ہے۔ مجھے اس بات پر سخت تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے والا ایک شخص جو خود کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہو وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی کیونکر کرسکتا ہے اور فرض نمازوں کی ادائیگی سے کیسے غافل رہ سکتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ جب میں اسلام لانے کے بعد قادیان گیا تھا میں نے مسجد مبارک کے باہر نوٹس بورڈ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا یہ ارشاد پڑھا کہ جس شخص نے گذشتہ دس برسوں میں ایک نماز بھی عمداً چھوڑی وہ سچا احمدی نہیں کہلا سکتا‘‘۔
(عظیم زندگی صفحہ ۱۰)
(عظیم زندگی صفحہ ۱۰)
1 comments:
سبحان اللہ
Post a Comment