کسی بھی نبی کی جماعت کی شان نہ صرف عقائد بلکہ اس کے افراد کے اخلاق سے بھی ہوتی ہے ، جناب شورش کاشمیری جو کہ مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری اور جماعت احمدیہ کے شدید مخالف تھے ان کی ایک گواہی ذیل میں انہی کی کتاب سے پیش کی جاتی ہے کہ جیل کے دوران ایک احمدی افسر سے وہ کیسے متاثر ہوئے ۔
شورش کاشمیری اپنی کتاب '' پس دیوارزندان '' میں رقمطراز ہیں :
شورش کاشمیری اپنی کتاب '' پس دیوارزندان '' میں رقمطراز ہیں :
’’میجر حبیب اللہ شاہ کا سلوک بہر حال شریفانہ تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ پکے قادیانی تھے ۔ انکی ہمشیرہ میر زا بشیر الدین محمود کے عقدمیں تھیں ۔ قادیان کے ناظر امور عامہ سیّد زین العابدین ولی اللہ ا ن کے بڑے بھائی تھے ۔ انہیں یہ کبھی علم تھا کہ میں آل انڈیا مجلس احرار کا جنرل سیکر ٹری ہوں اور احرار قادیا نیوں کے حریف ہیں بلکہ دونوں میںانتہائی عداو ت ہے۔میجر حبیب اللہ شاہ نے اشارۃ ً بھی اس کا احساس نہ ہونے دیا ۔ انہوں نے اخلاق و شرافت کی انتہاکردی ۔ پہلے دن اپنے دفتر میں اس خوش دلی اور کشادہ قلبی سے ملے گویا مدۃ العمر کے آشنا ہیں ۔ انہوں نے مجھے بیماروں میں رکھا اور اچھی سے اچھی دوا و غذادینا شروع کی ۔ نتیجۃ ً میری صحت کے بال و پر پیدا ہوگئے اور میں چندہی ہفتوں میں تندرستی کی راہ پر آگیا ۔ وہ بڑے جسور ‘انتہائی حلیم ‘بے حد خلیق اور غایت درجہ کے دیا نت دار آفیسر تھے ۔ ان کے پہلو میں یقینا ایک انسان کا دل تھا ۔ ان کی بہت سی خوبیوں نے انہیں سیاسی قیدیوں میں مقبول و محترم بنا دیا تھا ۔ ‘‘
(پس دیوار زنداں ، صفحہ 257 تا 258 )
پھر اسی کتاب میں ایک مقام پر شورش کاشمیری نے میجر حبیب اللہ شاہ کی دینی غیرت کا ایک واقعہ بھی بتایا ہے ۔
'' لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہینڈ ر سن تھا ۔ اس نے ایک دن اس سوال پر کوئی ناگوار بات کہی ۔میجر صاحب کو غصہ آگیا۔ ہینڈرسن کو فورا ٹوکا ’’آپ اذان یا قرآن کے بارے میں محتاط رہیں ۔میں نہیں روک سکتا۔‘‘ میجر صاحب ہینڈر سن سے الجھ پڑے ۔ ایک دفعہ پہلے بھی ہینڈرسن نے حضورﷺ کا نام بے ادبی سے لیا تو اس سے الجھے تھے ۔ تمام جیل میں ان کی اس حمیّت کا چرچا تھا ۔''
'' لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہینڈ ر سن تھا ۔ اس نے ایک دن اس سوال پر کوئی ناگوار بات کہی ۔میجر صاحب کو غصہ آگیا۔ ہینڈرسن کو فورا ٹوکا ’’آپ اذان یا قرآن کے بارے میں محتاط رہیں ۔میں نہیں روک سکتا۔‘‘ میجر صاحب ہینڈر سن سے الجھ پڑے ۔ ایک دفعہ پہلے بھی ہینڈرسن نے حضورﷺ کا نام بے ادبی سے لیا تو اس سے الجھے تھے ۔ تمام جیل میں ان کی اس حمیّت کا چرچا تھا ۔''
(پس دیوار زندان ، صفحہ 310)