Monday 9 November 2015

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء پر اجماع امت کے دعویٰ کی حقیقت


 قرآن وحدیث سے دلائل سن کر بعض جاہل لوگ جب جواب نہیں دے پاتے تو یہاں وہاں بھاگ کر مفسرین اور گزشتہ علماء کا بت بنا کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ ہمیشہ سے حق کے دشمنوں کا یہی کام رہا ہے ، یہی حال ہے غیر مقلدین اور مقلدین کے گروہوں کا ، آئیے اس کی ایک تازہ مثال آپ کو دکھاتے ہیں ۔
اعتراض کی عبارت نقل کر کے پھر اس کا جواب دیا جارہا ہے تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی رہے۔

اعتراض :  الله تعالى نے اپنی کتاب قرآن كريم اپنے نبی محمد صلى الله عليه وسلم پر نازل فرمائی اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے الله کی کتاب صحابہ کرام رضي الله عنهم کو سکھلائی، لہذا قرآن كريم فہم نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے بعد آپ کے  صحابہ کریم رضي الله عنهم سے بڑھ کر کسی کو نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ بارگاہ نبوت کے اولین اور بلا واسطہ شاگرد ہیں ..

جواب :رسول کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ  سے بڑھ کر کسی کو قرآن کریم کا فہم نہیں؟ یہ اصول کہاں سے لے لیا جناب نے ؟ گھر بیٹھ کر خودی اصول بنا رہے ہیں اور جواب دینے کے شوق میں اپنے ہی علماء کی بے عزتی کروانے کو تیار ہو کر میدان میں اترے ہیں تو چلیے ہم تسلی کروا دیتے ہیں , بخاری شریف ہی کھول کر پڑھی ہو تو نظر آجاتا ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ سے بھی قرآن کے معنی سمجھنے میں غلطی ہوئی ۔
بخاری کتاب التفسیر میں یہ دونوں روایات درج ہیں :

4509 : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيٍّ، قَالَ أَخَذَ عَدِيٌّ عِقَالاً أَبْيَضَ وَعِقَالاً أَسْوَدَ حَتَّى كَانَ بَعْضُ اللَّيْلِ نَظَرَ فَلَمْ يَسْتَبِينَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَعَلْتُ تَحْتَ وِسَادَتِي‏.‏ قَالَ ‏
 "‏ إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ وَالأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ ‏"‏‏.‏

4510 : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ أَهُمَا الْخَيْطَانِ قَالَ ‏"‏ إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْقَفَا إِنْ أَبْصَرْتَ الْخَيْطَيْنِ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ لاَ بَلْ هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ ‏"‏‏
.‏





ان دونوں روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ نے سورۃ البقرۃ کی آیت میں 
الْخَيْطُ الأَبْيَضُ اور الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سے ظاہری طور پر سفید اور سیاہ دھاگہ سمجھ کر غلطی کھائی ۔

بخاری کتاب الصوم میں روایت درج ہے :


1917: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ح‏.‏ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أُنْزِلَتْ ‏{‏وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ‏}‏ وَلَمْ يَنْزِلْ مِنَ الْفَجْرِ، فَكَانَ رِجَالٌ إِذَا أَرَادُوا الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلِهِ الْخَيْطَ الأَبْيَضَ وَالْخَيْطَ الأَسْوَدَ، وَلَمْ يَزَلْ يَأْكُلُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رُؤْيَتُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدُ ‏{‏مِنَ الْفَجْرِ‏}‏ فَعَلِمُوا أَنَّهُ إِنَّمَا يَعْنِي اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‏.‏







اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ جب تک آیت کے الفاظ من الفجر نازل نہیں ہوئے تب تک بعض لوگ سفید اور سیاہ دھاگہ لے کر باندھتے رہے اور یوں قرآن کریم کی آیت کا اصل مطلب سمجھنے سے ایک وقت تک قاصر رہے ۔

پہلی عبارت کا تو دلائل سے رد کر کے ہم اب فارغ ہوئے ، آئیے اگلے اعتراض کو دیکھتے ہیں ۔

اعتراض :  پھر صحابہ کریم رضي الله عنهم سے یہی علم و حکمت کا خزانہ تابعين عظام نے اور ان سے تبع تابعين نے حاصل کیا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے انہی تین زمانوں کو اپنی امت کے بہترین زمانے قرار دیا ہے ... لہذا قرآن كريم کی تفسیر و تشریح اور نبى كريم صلى الله عليه وسلم کے فرامین کی جو تشریح صحابہ کرام، تابعين عظام اور تبع تابعين نے فرمائی اسکے مقابلے میں چودہ سو سال بعد والوں کی نئی ایجاد کردہ تفسیرو تشریح کی کوئی حيثيت نہیں، ہمارا دنیائے قادیانیت کو  چیلنج ہے کہ ان تینوں بہترین زمانوں یعنی صحابه ، تابعين اور تبع تابعين کے زمانے میں سے کسی ایک صحابی، کسی ایک تابعى يا تبع تابعى سے بسند صحیح یہ ثابت کیا جائے کہ اس نے یہ کہا ہو کہ "وہ حضرت عيسى بن مريم عليهما السلام  جنہیں بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تھا انھیں دشمنوں نے پکڑ کر چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈالا تھا، آپ کو زخمی کیا تھا اور پھر آپ کو مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے، اسکے بعد آپ کشمیر گئے اور وہاں آپ کی موت ہوئی اور آپ کی قبر سری نگر میں ہے، اور احادیث میں جن عيسى بن مريم عليهما السلام کے آسمان سے نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے اس سے مراد انکا ایک مثیل ہے جس کا نام غلام احمد بن چراغ بی بی ہے" ...

جواب : اعتراض کرنے والے کو معلوم ہے کہ قرآن اور حدیث صحیح سے اس کے پاس کوئی دلیل اپنے دعویٰ پر نہیں ہے اس لیے بات کا رخ دوسری طرف کرنا چاہا ہے ، چلیں اس بات تک تو مان لیا کہ تابعین نے صحابہ سے علم حاصل کیا ہو گا لیکن کیا پہلی تین صدیوں کے تمام فرد صحابہ کرام ؓ سے تعلیم یافتہ تھے ؟ صرف قیاس بازی پر عقائد کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ، باقی رہا یہ مطالبہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے بعد کا سب ذکر کسی صحابی یا تابعی کے قول سے دکھایا جائے یہ مطالبہ تو تب قبول ہوگا جب مطالبہ کی بنیاد قرآن اور حدیث صحیح سے ثابت کی جائے ، کسی صحابی یا تابعی کے بیان کو قرآن نے کبھی حجت قرار نہیں دیا ۔ اگر صحابی اور تابعی کے بیان کو قرآن سے حجت ثابت کر کے یہ مطالبہ کیا جائے تو اللہ کے فضل سے ہم قرآن سے ہی نصِ صریح کے ساتھ اس کا جواب جانتے ہیں اور بیان بھی کریں گے۔

پھر آگے  چل کر معترض نے لکھا ہے

اعتراض :  اگر یہ ثابت نہ ہو سکے تو کسی صحابی ، تابعى يا تبع تابعى سے یہ قول ہی بسند متصل اور صحیح ثابت کیا جائے کہ انہوں نے فرمایا ہو کہ "حضرت عيسى بن مريم عليهما السلام کی موت ہو چکی ہے ، انکا رفع الى السماء نہیں ہوا ، اور انہوں نے قیامت سے پہلے نازل نہیں ہونا" ... هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين .

جواب : آپ صحابی کی بات کرتے ہو ہم قرآن سے ہی دکھا دیتے ہیں ، اب دیکھو اللہ فرماتا ہے ۔

إِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَىٰٓ إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَجَاعِلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوكَ فَوْقَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۖ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ( سورۃ آل عمران آیت 55 )
ترجمہ : جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے پاک کرنےوالا ہوں جو کافر ہوئے، اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک غالب رکھنے والا ہوں۔ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے جس کے بعد میں تمہارے درمیان اُن باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

اس آیت میں متوفیک کا ترجمہ تجھے وفات دینے والا ہوں صحیح بخاری کتاب التفسیر سے ثابت ہے جہاں حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول ( متوفیک ممیتک ) درج ہے ۔

اب اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے وفات کے بعد رفع کا وعدہ فرمایا تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ، اور رفع سے یہاں مراد درجات اور روح کا رفع ہے جیسا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے حق میں  وَرَفَعْنَٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( اور ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا تھا ) سورۃ مریم آیت 57 میں آیا ہے ۔

اور سورۃ المائدۃ میں یہ آیات موجود ہیں ۔


وَإِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ءَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ ٱتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ ٱللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَٰنَكَ مَا يَكُونُ لِىٓ أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُۥ فَقَدْ عَلِمْتَهُۥ ۚ تَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِى وَلَآ أَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّٰمُ ٱلْغُيُوبِ [116]


مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَآ أَمَرْتَنِى بِهِۦٓ أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ[117]

ترجمہ : اور (یاد کرو) جب اللہ عیسیٰ ابنِ مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا پاک ہے تُو۔ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو۔ اگر میں نے وہ بات کہی ہوتی تو ضرور تُو اسے جان لیتا۔ تُو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ یقیناً تُو تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔

میں نے تو انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جو تُو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے۔ اور میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں رہا۔ پس جب تُو نے مجھے وفات دے دی، فقط ایک تُو ہی ان پر نگران رہا اور تُو ہر چیز پر گواہ ہے۔

ان آیات میں ہمارے ترجمہ کی تائید بھی صحیح بخاری کتاب التفسیر سے ہوتی ہے جہاں حضرت محمد ﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول   فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ ( جب تو نے مجھے وفات دی پھر تو ہی ان پر نگران تھا ) کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے ۔





ان آیات سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی گمراہی سے لاعلمی کا اعتراف کریں گے ، اگر انہی کو واپس آنا ہوتا تو وہ اپنی قوم کی گمراہی کے بارے میں یہ جواب نہیں دے سکتے ، اب بے شک ہمارے مخالف آیت میں موجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان کو عالمِ برزخ  کا بیان کہیں یا آئندہ قیامت کا ، دونوں صورتوں میں فتح ہماری ہے ۔


معترض نے پھر یہ لکھا ہے کہ :

اعتراض :  دوستو! یہ اس امت کے بہترین زمانے ہیں، قرآن كريم بھی موجود تھا اور احادیث نبویہ بھی، وہ لوگ بھی عرب تھے ، عربی زبان میں کس لفظ کا کیا مطلب ہوتا ہے انھیں خوب معلوم تھا .. لیکن اسکے با وجود اگر انکے اندر کوئی ایک بھی  یہ عقیدہ نہیں رکھتا تھا کہ "حضرت عيسى بن مريم عليهما السلام کی موت ہو چکی ہے اور انکا رفع الى السماء نہیں ہوا اور ان کا نازل ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے نہیں" تو یہ خير القرون كا اجماع ہی ہے ...

جواب : افسوس کہ اتنے ہاتھ پاؤں مار کر بھی آپ کچھ بھی ثابت نہ کر سکے ، عربی زبان میں لفظ کا مطلب اور اس کا اصل مراد بھی سمجھ لینا دونوں الگ الگ باتیں ہیں اور اس میں صحابہ کرام ؓ کو بھی غلطی لگ سکتی ہے جس کی مثال ہم اوپر دے چکے ہیں ۔ جب قرآن سے ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ نہیں پھر خیرالقرون کا نعرہ لگا کر اگر مگر اور فرضی باتوں سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا ۔

آگے چل کر اعتراض کرنے والے نے چند علماء کی کتب سے حوالہ جات نقل کر کے اجماع امت کے خواب دیکھے ہیں ۔ لیکن دلیل کوئی بھی بیان نہیں کی جوکہ ہم جانتے ہیں ان کے حوصلہ سے باہر کی بات ہے ، اجماع صحابہ کے علاوہ کسی بعد کے اجماع کا دعویٰ کرنا امام احمد بن حنبل کے نزدیک باطل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی اجماع کے بارے میں اختلاف ہے کیونکہ صحابہ کے بعد کسی اجماع کا حال معلوم کرنا ممکن نہیں ہے

پھر اعتراض کرنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال درج کیے ہیں اور ان سے غلط استدلال کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ، پہلا حوالہ یہ درج کیا ہے :
’’ایک دفعہ ہم دلی میں گئے تھے ہم نے وہاں کے لوگوں سے کہاکہ تم نے تیرہ سو (1300) برس سے یہ نسخہ استعمال کیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدفون اورحضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پر پر بٹھایا یہ نسخہ تمہارے لئے مفید ہوا یا مضر اس سوال کا جواب تم خود ہی سوچ لو ، ایک لاکھ کے قریب لوگ اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں‘‘۔
(ملفوظات، جلد 5، صفحہ 579)

اس سے معترض نے استدلال کرنا چاہا ہے کہ دیکھو مرزا صاحب مان رہے ہیں کہ مسلمانوں کا یہی عقیدہ 1300 برس سے چلا آرہا تھا ، یہاں ہم پوری عبارت سیاق و سباق کے ساتھ نقل کر دیتے ہیں تاکہ پڑھنے والوں کو پوری بات نظر آجائے ۔

اس صفحہ پر یہ لکھا ہے کہ : " مگر اب دوسرا نسخہ ہم تم کو بتاتے ہیں وہ استعمال کر کے دیکھو اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ( جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ نے فعلی شہادت دی ) وفات شدہ مان لو۔'' (ملفوظات، جلد 5، صفحہ 579)

معترض نے تو اجماع امت ثابت کرنا تھا وہ بھی نہ کر پایا اور جو استدلال کرنے چلا تھا وہ بھی عبارت میں موجود ہی نہیں اس لیے ہر حوالہ کے ساتھ اپنا تبصرہ ، عنوان اور حاشیہ لگا کر پورا زور لگایا ہے مگر افسوس کہ ان کی کوئی تدبیر بھی کامیاب نہیں ہوئی ۔




پھر اگلا حوالہ اس نے یہ نقل کیا ہے :
’’سو واضح ہو کہ اس امر سے دُنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اِس پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رُو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا اور یہ پیشگوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے‘‘۔ (شہادۃ القرآن، رخ 6، صفحہ 298)

اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر چلے جانے اور اس پر اجماع کا کہاں ذکر ہے ؟  بخاری کی حدیث کا جو ذکر فرمایا ہے اس کا مصداق تو مرزا صاحب خود کو قرار دیتے ہیں ۔

ہم یہاں عبارت کا سیاق و سباق کے ساتھ نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔

''ایک صاحب عطا محمد نام اپنے خط مطبوعہ اگست ۱۸۹۳ ؁ء میں مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ آ پ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا ہم کو انتظار کرنا واجب و لازم ہے۔
اِس جگہ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ صاحب معترض کا یہ مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت فوت ہو گئے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں بتصریح موجود ہے لیکن وہ اِس بات سے منکر ہیں کہ عیسیٰ کے نام پر کوئی اِس امّت میں آنے والا ہے وہ مانتے ہیں کہ احادیث میں یہ پیشگوئی موجود ہے مگر احادیث کے بیان کو وہ پایۂ اعتبار سے ساقط سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احادیث زمانہ دراز کے بعد جمع کی گئی ہیں اوراکثر مجموعہ احاد ہے مفید یقین نہیں ہیں اِس لئے وہ مسیح موعود کی خبر کو جو احادیث کے رُو سے ثابت ہے حقیقت مثبتہ خیال نہیں کرتے اورایسے اخبار کو جو محض حدیث کی رُو سے بیان کئے جائیں ہیچ اور لغو خیال کرتے ہیں جن کا ان کی نظر میں کوئی بھی قابل قدر ثبوت نہیں اِ س لئے اِس مقام میں اُن کے مذاق پر جواب دینا ضروری ہے۔ سو واضح ہو کہ اس مسئلہ میں دراصل تنقیح طلب تین۳ امرہیں۔
اوّل یہ کہ مسیح موعود کے آنے کی خبر جو حدیثوں میں پائی جاتی ہے کیا یہ اس وجہ سے ناقابل اعتبار ہے کہ حدیثوں کا بیان مرتبہ یقین سے دور و مہجور ہے۔
دوسرے یہ کہ کیا قرآن کریم میں اِس پیشگوئی کے بارے میں کچھ ذکر ہے یا نہیں۔
تیسرے یہ کہ اگر یہ پیشگوئی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے تو اِس بات کا کیا ثبوت کہ اُس کا مصداق یہی عاجز ہے۔

سو ؔ اوّل ہم ان ہر سہ تنقیحوں میں سے پہلی تنقیح کو بیان کرتے ہیں سو واضح ہو کہ اِس امر سے دُنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریبًا تمام مسلمانوں کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہو گا اور یہ پیشگوئی بخاری اور مسلم اورترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلّی کے لئے کافی ہے اور بالضرورت اس قدر مشترک پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ایک مسیح موعود آنے والا ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ اکثر ہر یک حدیث اپنی ذات میں مرتبہ احاد سے زیادہ نہیں مگر اس میں کچھ بھی کلام نہیں کہ جس قدر طرق متفرقہ کی رُو سے احادیث نبویہ اس بارے میں مُدوّن ہوچکی ہیں اُن سب کو یک جائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے بلاشبہ اِس قدر قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ضرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے اور پھر جب ہم ان احادیث کے ساتھ جواہل سنت وجماعت کے ہاتھ میں ہیں ان احادیث کو بھی ملاتے ہیں جو دوسرے فرقے اسلام کے مثلًا شیعہ وغیرہ ان پر بھروسہ رکھتے ہیں تو اور بھی اس تواتر کی قوت اور طاقت ثابت ہو تی ہے اورپھر اسکے ساتھ جب صدہا کتابیں متصوفین کی دیکھی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی کی شہادت دے رہی ہیں۔ پھر بعد اسکے جب ہم بیرونی طورپر اہل کتاب یعنی نصاریٰ کی کتابیں دیکھتے ہیں تو یہ خبر اُن سے بھی ملتی ہے اورساتھ ہی حضرت مسیح ؑ کے اِس فیصلہ سے جو ایلیا کے آسمان سے نازل ہونیکے بارہ میں ہے یہ بھی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی خبریں کبھی حقیقت پر محمول نہیں ہوتیں لیکن یہ خبرمسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانہ میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہیں ہو گی کہ اِس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ ''
(شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 297 تا 298)

پھر اگلا حوالہ یہ نقل کیا گیا ہے :
’’واضح ہوکہ مسیح موعود کے بارے میں جو احادیث میں پیش گوئی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف ائمہ حدیث نے چند روایتوں کی بناء پر لکھا ہو وبس بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ پیش گوئی عقیدہ کے طور پر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ وریشہ میں داخل چلی آتی ہے گویا جس قدر اس وقت روئے زمین پر مسلمان تھے اسی قدر اس پیش گوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں کیونکہ عقیدہ کے طور پر وہ اس کوابتداء سے یاد کرتے چلے آتے تھے ‘‘۔ (شہادۃ القرآن، رخ 6 ، صفحہ 304)

اس حوالہ میں بھی کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے اور خود واپس آنے پر استدلال نہیں ہے ، نہ جانے اعتراض کرنے والا کس دماغ کا مالک ہے کہ جہاں مرزا صاحب ایک شخص کو احادیث کی اہمیت اور اس میں موجود پیشگوئی سمجھا رہے ہیں اس عبارت پر اپنا عنوان اور حاشیہ چڑھا کر اپنی کشتی کو ڈوبنے سے بچانا چاہتا ہے۔
ہم یہاں اس عبارت کو سیاق و سباق کے ساتھ نقل کرتے ہیں تاکہ بات واضح ہو جائے ۔

''واضح ہو کہ مسیح موعود کے بارے میں جو احادیث میں پیشگوئی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف اَئمہ حدیث نے چند روایتوں کی بناء پر لکھا ہو وبس بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ یپشگوئی عقیدہ کے طورپر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ وریشہ میں داخل چلی آتی ہے گویا جس قدر اس وقت روئے زمین پر مسلمان تھے اُسی قدر اس پیشگوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں کیونکہ عقیدہ کے طور پر وہ اس کو ابتدا سے یاد کرتے چلے آتے تھے اور اَئمہ حدیث امام بخاری وغیرہ نے اس پیشگوئی کی نسبت اگر کوئی امر اپنی کوشِش سے نکالا ہے تو صرف یہی کہ جب اُس کو کروڑہا مسلمانوں میں مشہور اور زبان زد پایا تو اپنے قاعدہ کے موافق مسلمانوں کے اس قولی تعامل کے لئے روایتی سند کو تلاش کر کے پَیدا کیا اور روایات صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے جن کا ایک ذخیرہ ان کی کتابوں میں پایاجاتاہے اسناد کو دکھایا۔علاوہ اس کے کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ اگر نعوذ باللہ یہ افتراء ہے تو اس افترا کی مسلمانوں کو کیا ضرورت تھی اور کیوں اُنہوں نے اس پر اتفاق کر لیا اورکس مجبوری نے ان کو اس افتراء پر آمادہ کیاتھا۔پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ دُوسری طرف ایسی حدیثیں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں جن میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہؔ آخری زمانہ میں علماء اِس امت کے یہودی صفت ہوجائیں گے اور دیانت اور خداترسی اور اندرونی پاکیزگی اُن سے دُور ہوجائے گی اور اُس زمانہ میں صلیبی مذہب کا بہت غلبہ ہوگا اور صلیبی مذہب کی حکومت اورسلطنت تقریبًا تمام دنیا میں پھیل جائے گی تو اور بھی ان احادیث کی صحت پر دلائل قاطعہ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ اورہمارے اِس زمانہ کے علماء درحقیقت یہودیوں سے مشابہ ہو گئے اور نصاریٰ کی سلطنت اور حکومت ایسی دُنیا میں پھیل گئی کہ پہلے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔''
(شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 304 تا 305)

آگے چل کر معترض نے وفات مسیح کا راز اورمرزاقادیانی کا دعویٰ کا عنوان سجایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب آئینہ کمالات سے تین اقتباس یوں درج کیے ہیں :
’’یااخوان ہذا الأمر الذی اخفاہ اللہ من أعین القرون الأولیٰ ، وجلیٰ تفاصیلہ فی وقتنا ہذا یخفی ما یشاء ویبدی‘‘ اے بھائیو! یہ معاملہ (یعنی وفات مسیح کا راز۔ناقل) وہ ہے جو اللہ نے پہلے زمانوں کی آنکھوں سے چھپائے رکھا اور اس کی تفاصیل اب ظاہر ہوئی ہیں ، وہ جو چاہتا ہے اسے مخفی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے اسے ظاہر کرتا ہے۔  (آئینہ کمالات اسلام، رخ 5، صفحہ 426)

 اسی کتاب میں ایک اور جگہ یوں لکھا:۔
’’وبقی ہذا الخبر مکتوماً مستوراً کالحبّ فی السنبلۃ قرناً بعدقرن، حتی جاء زماننا ہذا…‘‘  اور یہ خبر (یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ناقل) زمانہ در زمانہ اسی طرح پوشیدہ اور چھپی رہی جیسے دانہ اپنے خوشے میں چھپا ہوتاہے یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا ۔  (آئینہ کمالات اسلام، رخ 5 ، صفحہ552)

 اگلے صفحے پر صاف لکھا :۔ ’’ فکشف اللہ الحقیقۃ علینا لتکون النار برداً وسلاماً‘‘  پس اللہ نے ہم پر حقیقت کھولی تاکہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے ۔ (آئینہ کمالات اسلام، رخ 5، صفحہ 553)

جواب : واضح رہے کہ یہاں پہلے حوالہ میں معترض نے خطرناک تحریف اور جعل سازی سے کام لیا ہے ، اور عبارت میں موجود راز کے ذکر کو وفات مسیح کا راز قرار دے دیا جبکہ حقیت یہ ہے کہ یہاں وفات مسیح کا ذکر ہی نہیں ، ہم پوری عبارت یہاں درج کرتے ہیں ۔
ومن الآية المباركة العظيمةِ أنه إذا وجد فساد المتنصّرين ورآهم أنهم يصدّون عن الدين صُدودا، ورأى أنهم يؤذون رسول الله ويحتقرونه ويُطرون ابن مريم إطراءً كبيرًا فاشتد غضبه غيرةً من عنده وناداني وقال إني جاعلك عيسى ابن مريم وكان الله على كل شيء مُقْتدرا. فأنا غَيْرةُ الله التي فارت في وقتها، لكي يعلم الذين غَلَوا في عيسى أن عيسى ما تفرّد كتفرّد الله، وأن الله قادر على أن يجعل عيسى واحدًا من أُمة نبيه، وكان هذا وعدًا مفعولا. يا إخوان هذا هو الأمر الذي أخفاه الله من أعين القرون الأولى، وجلى تفاصيله في وقتنا هذا، يخفي ما يشاء ويبدي، وقد خلت مثله فيما مضى
( روحانی خزائن جلد 5 - آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 426 )

ایسا ہی صفحہ 552 اور 553 میں نزولِ مسیح کے راز اور اس کی حقیقت کے بارے میں ذکر ہے ، وفات مسیح کو راز قرار نہیں دیا گیا ۔۔

اب ہم معترض کے دجل و فریب کو توڑ پھوڑ کر فارغ ہوئے ، الحمد للہ علیٰ ذالک
مکمل تحریر >>

Tuesday 3 November 2015

ایک قابل مذہبی عالم کے لیے دس شرائط

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
 یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اس زمانہ میں اگر کوئی شخص مناظرات مذ ہبیّہ کے میدان میں قدم رکھے یا مخالفوں کے ردّ میں تالیفات کرنا چاہے تو شرائط مندرجہ ذیل اس میں ضرور ہونی چاہئیں۔
اوّل۔ علم زبان عربی میں ایسا راسخ ہو کہ اگر مخالف کے ساتھ کسی لفظی بحث کا اتفاق پڑ جائے تو اپنی لغت دانی کی قوت سے اُس کو شرمندہ اور قائل کر سکے۔ اور اگر عربی میں کسی تالیف کا اتفاق ؔ ہو تو لطافت بیان میں اپنے حریف سے بہرحال غالب رہے اور زبان دانی کے رُعب سے مخالف کو یہ یقین دلا سکتا ہو کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی کلام کے سمجھنے میں اس سے زیادہ معرفت رکھتا ہے۔ بلکہ اس کی یہ لیاقت اس کے ملک میں ایک واقعہ مشہورہ ہونا چاہئیے کہ وہ علم لسان عرب میں یکتائے روزگار ہے۔ اور اسلامی مباحثات کی راہ میں یہ بات پڑی ہے کہ کبھی لفظی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور تجربہ صحیحہ اس بات کا گواہ ہے کہ عربی عبارتوں کے معانی کا یقینی اور قطعی فیصلہ بہت کچھ علم مفردات و مرکّبات لسان پر موقوف ہے۔ اور جو شخص زبان عربی سے جاہل ا ور مناہج تحقیق فن لُغت سے نا آشنا ہو وہ اس لائق ہی نہیں ہوتا کہ بڑے بڑے نازک اور عظیم الشان مباحثات میں قدم رکھ سکے اور نہ اس کا کلام قابل اعتبار ہوتا ہے۔ اور نیز ہر ایک کلام جو پبلک کے سامنے آئے گا اس کی قدرومنزلت متکلم کی قدرومنزلت کے لحاظ سے ہوگی۔ پھر اگر متکلم ایسا شخص نہیں ہے جس کی زبان دانی میں مخالف کچھ چون و چرا نہیں کر سکتا تو ایسے شخص کی کوئی تحقیق جو زبان عرب کے متعلق ہوگی قابل اعتبار نہیں ہوگی۔ لیکن اگر ایک شخص جو مباحثہ کے میدان میں کھڑا ہے مخالفوں کی نظر میں ایک نامی زبان دان ہے اور اس کے مقابل پر ایک جاہل عیسائی ہے تو منصفوں کے لئے یہی امر اطمینان کے لائق ہوگا کہ وہ مسلمان کسی فقرہ یا کسی لفظ کے معنے بیان کرنے میں سچا ہے۔ کیونکہ اس کو علم زبان اس عیسائی سے بہت زیادہ ہے۔ اور اس صورت میں خواہ مخواہ اس کے بیان کا دلوں پر اثر ہوگا اور ظالم مخالفوں کا منہ بند رہے گا۔ یاد رہے کہ ایسے مناظرات میں خواہ تحریری ہوں یا تقریری اگر وہ منقولی حوالجات پر موقوف ہوں تو فقرات یا مفردات الفاظ پر بحث کرنے کا بہت اتفاق پڑ جاتا ہے بلکہ یہ بحثیں نہایت ضروری ہیں کیونکہ ان سے حقیقت کھلتی ہے اور پردہ اٹھتا ہے اور علمی گواہیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ماسوا اس کے یہ بات بھی اس شرط کو ضروری ٹھہراتی ہے کہ ہر ایک حریف مقابل اپنے حریف کی حیثیت علمی جانچا کرتا ہے اور کوشش کرتا ے کہ اگر اور راہ سے نہیں تو اسی راہ سے اسؔ کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار ٹھہراوے۔ اور بسااوقات ردّ لکھنے والے کو اپنے مخالف کی کتاب کی نسبت لکھنا پڑتا ہے کہ وہ زبان دانی کے رو سے کس پایہ کا آدمی ہے۔ غرض ایک مسلمان جو عیسائی حملوں کی مدافعت کے لئے میدان میں آتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئیے کہ ایک بڑا حربہ اور نہایت ضروری حربہ جو ہر وقت اس کے ہاتھ میں ہونا چاہئیے علم زبان عربی ہے۔

دوسری شرط یہ ہے کہ ایسا شخص جو مخالفوں کے ردّ لکھنے پر اور ان کے حملوں کے دفع کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اس کی دینی معرفت میں صرف یہی کافی نہیں کہ چند حدیث اور فقہ اور تفسیر کی کتابوں پر اس نے عبور کیا ہو اور محض الفاظ پر نظر ڈالنے سے مولوی کے نام سے موسوم ہو چکا ہو۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تحقیق اور تدقیق اور لطائف اور نکات اور براہین یقینیہ پیدا کرنے کا خداداد مادہ بھی اس میں موجود ہو اور فی الواقع حکیم الامت اور زکیّ النفس ہو۔

تیسری شرط یہ کہ کسی قدر علوم طبعی اور طبابت اور ہیئت اور جغرافیہ میں دسترس رکھتا ہو کیونکہ قانون قدرت کے نظائر پیش کرنے کے لئے یا اور بعض تائیدی ثبوتوں کے وقت ان علوم کی واقفیت ہونا ضروری ہے۔

چوتھی شرط یہ کہ عیسائیوں کے مقابل پر وہ ضروری حصہ بائبل کا جو پیشگوئیوں وغیرہ میں قابل ذکر ہوتا ہے عبرانی زبان میں یاد رکھتا ہو۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ایک عربی دان علم زبان کے فاضل کے لئے اس قدر استعداد حاصل کرنا نہایت سہل ہے۔ کیونکہ میں نے عربی اور عبرانی کے بہت سے الفاظ کا مقابلہ کر کے ثابت کر لیا ہے کہ عبرانی کے چار حصے میں سے تین۳ حصے خالص عربی ہے جو اس میں مخلوط ہے۔ اور میری دانست میں عربی زبان کا ایک پورا فاضل تین ماہ میں عبرانی زبان میں ایک کافی استعداد حاصل کر سکتا ہے۔ یہ تمام امور کتاب منن الرحمن میں مَیں نے لکھے ہیں۔ جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ عربی اُمّ الالسنہ ہے۔

پانچویں شرط خدا سے حقیقی ربط اور صدق اور وفا اور محبت الٰہیہ اور اخلاص اور طہارۃ باطنی اور اخلاق فاضلہ اور انقطاع الی اللہ ہے۔ کیونکہ علم دین آسمانی علوم میں سے ہے۔ اور یہ علوم تقویٰ اورؔ طہارت اور محبت الٰہیہ سے وابستہ ہیں اور سگ دنیا کو مل نہیں سکتے۔ سو اس میں کچھ شک نہیں کہ قول موجّہ سے اتمام حجت کرنا انبیاء اور مردان خدا کا کام ہے اور حقانی فیوض کا مورد ہونا فانیوں کا طریق ہے۔ اور اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 3۔۱ پس کیونکر ایک گندہ اورمنافق اور دنیا پرست ان آسمانی فیضوں کو پا سکتا ہے جن کے بغیر کوئی فتح نہیں ہو سکتی؟ اور کیونکر اس دل میں روح القدس بول سکتا ہے جس میں شیطان بولتا ہو؟ سو ہرگز امید نہ کرو کہ کسی کے بیان میں روحانیت اور برکت اور کشش اس حالت میں پیدا ہو سکے جبکہ خدا کے ساتھ اس کے صافی تعلق نہیں ہیں۔ مگر جو خدا میں فانی ہو کر خدا کی طرف سے تائید دین کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ اوپر سے ہر ایک دم فیض پاتا ہے اور اس کو غیب سے فہم عطا کیا جاتا ہے اور اس کے لبوں پر رحمت جاری کی جاتی ہے اور اس کے بیان میں حلاوت ڈالی جاتی ہے۔

چھٹی شرط علم تاریخ بھی ہے۔ کیونکہ بسا اوقات علم تاریخ سے دینی مباحث کو بہت کچھ مدد ملتی ہے۔ مثلاً ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں آ چکا ہے اور پھر وہ ان کتابوں کے شائع ہونے سے صدہا برس بعد وقوع میں آگئی ہیں۔ اور اس زمانہ کے تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا بیان کر دیا ہے۔ پس جو شخص اس تاریخی سلسلہ سے بے خبر ہوگا وہ کیونکر ایسی پیشگوئیاں جن کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو چکا ہے اپنی کتاب میں بیان کر سکتا ہے؟ یا مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام کے وہ تاریخی واقعات جو یہودی مؤرخوں اور بعض عیسائیوں نے بھی ان کے اُس حصہِ زندگی کے متعلق لکھے ہیں جو نبوت کے ساڑھے تین برس سے پہلے تھے یا وہ واقعات اور تنازعات جو قدیم تاریخ نویسوں نے حضرت مسیح اور ان کے حقیقی بھائیوں کی نسبت تحریر کئے ہیں یا وہ انسانی ضعف اور کمزوریوں کے بیان جو تاریخوں میں حضرت مسیح کی زندگی کے دونوں حصوں کی نسبت بیان کئے گئے ہیں یہ تمام باتیں بغیر ذریعہ تاریخ کے کیونکر معلوم ہو سکتی ہیں؟ مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جن کو اس قدر بھی معلوم ہو کہؔ حضرت عیسیٰ درحقیقت پانچ حقیقی بھائی تھے جو ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اور بھائیوں نے آپ کی زندگی میں آپ کو قبول نہ کیا بلکہ آپ کی سچائی پر ان کو بہت کچھ اعتراض رہا۔ ان سب کی واقفیت حاصل کرنے کے لئے تاریخوں کا دیکھنا ضروری ہے اور مجھے خداتعالیٰ کے فضل سے یہودی فاضلوں اور بعض فلاسفر عیسائیوں کی وہ کتابیں میسر آگئی ہیں جن میں یہ امورنہایت بسط سے لکھے گئے ہیں۔

ساتویں شرط کسی قدر ملکۂ علم منطق اور علم مناظرہ ہے۔ کیونکہ ان دونوں علموں کے توغّل سے ذہن تیز ہوتا ہے اور طریق بحث اور طریق استدلال میں بہت ہی کم غلطی ہوتی ہے۔ ہاں تجربہ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر خداداد روشنی طبع اور زیرکی نہ ہو تو یہ علم بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ بہتیرے کو دن طبع مُلا قطبی اور قاضی مبارک بلکہ شیخ الرئیس کی شفا وغیرہ پڑھ کر منتہی ہو جاتے ہیں اور پھر بات کرنے کی لیاقت نہیں ہوتی اور دعویٰ اور دلیل میں بھی فرق نہیں کر سکتے اور اگر دعویٰ کے لئے کوئی دلیل بیان کرنا چاہیں تو یک دوسرا دعویٰ پیش کر دیتے ہیں جس کو اپنی نہایت درجہ کی سادہ لوحی سے دلیل سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بھی ایک دعویٰ قابل اثبات ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات پہلے سے زیادہ اغلاق اور دقتیں اپنے اندر رکھتا ہے۔ مگر بہرحال امید کی جاتی ہے کہ ایک زکیّ الطبع انسان جب معقولی علوم سے بھی کچھ حصہ رکھے اور طریق استدلال سے خبردار ہو تو یاوہ گوئی کے طریقوں سے اپنے بیان کو بچا لیتا ہے اور نیز مخالف کی سوفسطائی اور دھوکہ دِہ تقریروں کے رعب میں نہیں آ سکتا۔

آٹھویں شرط تحریری یا تقریری مباحثات کے لئے مباحث یا مؤلّف کے پاس اُن کثیر التعداد کتابوں کا جمع ہونا ہے جو نہایت معتبر اور مسلّم الصحت ہیں جن سے چالاک اور مفتری انسان کا منہ بند کیا جاتا اور اس کے افترا کی قلعی کھولی جاتی ہے۔ یہ امر بھی ایک خداداد امر ہے کیونکہ یہ منقولات صحیحہ کی فوج جو جھوٹے کا منہ توڑنے کے لئے تیز حربوں کا کام دیتی ہے ہر ایک کو میسر نہیں آ سکتی (اس کام کے لئے ہمارے معزز دوست مولوی حکیم نوردین صاحب کا تمام کتب خانہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس کے علاوہ اور بھی۔ جس کی کسی قدر فہرست حاشیہ میں دی گئی ہے۔ دیکھو حاشیہ ۱ متعلق صفحہ ۶ شرط ہشتم)۔

نویںؔ شرط تقریر یا تالیف کیلئے فراغت نفس اور صرف دینی خدمت کے لئے زندگی کا وقف کرنا ہے۔ کیونکہ یہ بھی تجربہ میں آ چکا ہے کہ ایک دل سے دو مختلف کام ہونے مشکل ہیں۔ مثلاً ایک شخص جو سرکاری ملازم ہے اور اپنے فرض منصبی کی ذمہ واریاں اس کے گلے پڑی ہوئی ہیں اگر وہ دینی تالیفات کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو علاوہ اس بددیانتی کے جو اس نے اپنے بیچے ہوئے وقت کو دوسری جگہ لگا دیا ہے ہرگز وہ اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا جس نے اپنے تمام اوقات کو صرف اسی کام کے لئے مستغرق کر لیا ہے حتّٰی کہ اُس کی تمام زندگی اُسی کام کے لئے ہوگئی ہے۔

دسویں شرط تقریر یا تالیف کے لئے اعجازی طاقت ہے کیونکہ انسان حقیقی روشنی کے حاصل کرنے کیلئے اور کامل تسلی پانے کے لئے اعجازی طاقت یعنی آسمانی نشانوں کے دیکھنے کا محتاج ہے اور وہ آخری فیصلہ ہے جو خداتعالیٰ کے حضور سے ہوتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اسلام کے دشمنوں کے مقابل پر کھڑا ہو اور ایسے لوگوں کو لاجواب کرنا چاہے جو ظہور خوارق کو خلاف قدرت سمجھتے ہیں یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوارق اور معجزات سے منکر ہیں تو ایسے شخص کے زیر کرنے کے لئے امت محمدیہ کے وہ بندے مخصوص ہیں جن کی دعاؤں کے ذریعہ سے کوئی نشان ظاہر ہو سکتا ہے۔
( روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 370 تا 375 )
مکمل تحریر >>