Thursday, 23 March 2017

23 مارچ ، یوم مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کے اغراض و مقاصد



بیعت کیا ہے

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بیعت ہے کیا۔ اس کی وضاحت مَیں احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات سے کرتا ہوں۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’ یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہو گا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اُوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتاہے اسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 455`454جدید ایڈیشن)

بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے

پھر آپ ؑ فرماتے ہیں : ’’ بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔ یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کار کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔ صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا۔ نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔ جو دنیا کے لئے بیعت کو اور عہد کو جو اﷲ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑ رہا ہے۔ وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے ، وہ یاد رکھے بوقتِ موت کوئی حاکم یا بادشاہ اسے نہ چُھڑا سکے گا۔ اس نے اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن کے پاس جانا ہے جو اس سے دریافت کرے گا کہ تُو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لئے ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ خدا جو مَلِکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 23جدید ایڈیشن)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ بیعت چیز کیا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک یہ بات سمجھ جائے کہ میری ذات اب میری اپنی ذات نہیں رہی۔ اب ہمیں بہر حال اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہو گی، ان کا تابع ہونا ہو گا اور ہمارا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گا تو یہی خلاصہ ہے دس شرائط بیعت کا۔
اب مَیں مختلف احادیث پیش کرتا ہوں جن میں بیعت کے متعلق مختلف الفاظ ملتے ہیں۔
عائذ اﷲ بن عبد اﷲ روایت کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے غزوۂ بدر میں شمولیت اختیارکی اور جنہوں نے بیعت عقبہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ عبادہؓ بن صامت نے انہیں بتایا کہ رسول اﷲ ﷺنے یہ بات اس وقت فرمائی جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت موجود تھی کہ آؤ میری اس شرط پر بیعت کرو ’’ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا‘‘ کہ تم اﷲ کا کسی چیز کو بھی شریک نہ قرار دوگے اور نہ تم چوری کروگے اور نہ ہی تم زنا کروگے اور نہ تم اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ تم بہتان طرازی کروگے اور نہ ہی تم کسی معروف بات میں میری نافرمانی کروگے۔
پس تم میں سے جس نے اس عہد بیعت کو پورا کر دکھایا تو اس کو اجر دینا اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور جس نے اس عہد میں کچھ بھی کمی کی اور اس کی اسے دنیا میں سزا مل گئی تو یہ سزا اس کے لئے کفارہ بن جائے گی۔اور جس نے ا س عہد بیعت میں کچھ کمی کی پھر اﷲ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر چاہے تو اسے سزا دے اور اگر وہ پسند فرمائے گا تو اس سے درگزر فرمائے گا۔
(صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔ باب وفود الانصار الی النبی ؐ بمکۃ وبیعۃ العقبۃ) 
پھر ایک حدیث ہے۔حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول ﷺکی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی ، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ 
(نسائی ،کتاب البیعۃ ،باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ)
اُمُّ الْمُؤْمِنِیْن حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ آیت کریمہ ﴿ یَااَ یُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَاءَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَھُنَّ اللَّہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (الممتحنۃ : 13)
(یعنی اے نبی! جب تیرے پاس عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور بیعت کرنے کی خواہش کریں، اس شرط پر کہ وہ اﷲ کا شریک کسی کو نہیں قرار دیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ ہی زنا کریں گی اور نہ ہی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی۔ اور نیک باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان کی بیعت لے لیا کر، اور ان کے لئے استغفار کیا کر۔ اﷲ بہت بخشنے والا (اور) بے حد رحم کرنے والا ہے) کے مطابق عورتوں کی بیعت لیتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بیعت لیتے وقت رسول اﷲ ﷺ کا دستِ مبارک کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہ ہوتا تھا سوائے اس عورت کے جو آپ کی اپنی ہوتی۔ (صحیح بخاری ، کتاب الاحکام ، باب بیعۃ النساء )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت لینے کے آغاز سے قبل بعض نیک فطرت اور اسلام کا درد رکھنے والے بزرگوں کو یہ احساس تھا کہ اس وقت اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے والا اور اسلام کا صحیح درد رکھنے والا اگر کوئی شخص ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں اور یہی مسیح و مہدی بھی ہیں۔ چنانچہ لوگ آپ سے درخواست کیا کرتے تھے کہ آپ بیعت لیں لیکن حضور ابتدا ء ً ہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ ’’ لَسْتُ بِمَأْ مُوْرٍ ‘‘ (یعنی میں مامور نہیں ہوں) چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبدالقادر صاحب ؓ کو صاف صاف لکھا کہ ’’ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اﷲ غالب ہے اور ………… چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں ۔ لَعَلَّ اللّٰہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا- مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں۔ اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اﷲ بہت مفید ہو گا۔ 
(حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحہ 13`12)

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم

آخر چھ سات برس بعد 1888ء کی پہلی سہ ماہی یعنی شروع کے تین مہینوں میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا ارشاد ہوا۔ یہ ربانی حکم جن الفاظ میں پہنچا وہ یہ تھے۔ ’’ اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا- اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہُ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ - ‘‘
 (اشتہار یکم دسمبر 1888ء صفحہ 2)
یعنی جب تو عزم کر لے تو اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے تحت کشتی تیار کر۔ جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہو گا۔
حضرت اقدس کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی تھی کہ ہر قسم کے رطب و یابس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں۔ اور دل یہ چاہتا تھا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور کچے نہیں ہیں۔ اس لئے آپ کو ایک ایسی تقریب کا انتظار رہا۔ کہ جو مخلصوں اور منافقوں میں امتیاز کر دکھلائے۔ سو اﷲ جَلَّ شَانُہٗ نے اپنی کمال حکمت و رحمت سے وہ تقریب اسی سال نومبر 1888ء میں بشیر اول کی وفات سے پیدا کر دی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ بیٹے تھے)۔ ملک میں آپ کے خلاف ایک شور مخالفت برپا ہوا اور خام خیال بدظن ہو کر الگ ہو گئے لہٰذا آپ کی نگاہ میں یہی موقعہ اس بابرکت سلسلے کی ابتداء کے لئے موزوں قرار پایا۔ اور آپ نے یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے بیعت کا اعلان عام فرما دیا۔حضرت اقدس نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوں۔
(اشتہار تکمیل تبلیغ 12؍جنوری 1889ء)
یعنی پہلے دعا کریں، استخارہ کریں، پھر بیعت کریں۔
اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے۔
(حیات احمد جلد سوم حصہ اول صفحہ 1)

بیعت کے اغراض و مقاصد

یہاں سے آپ نے 4؍ مارچ 1889ء کو ایک اور اشتہار میں بیعت کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
’’ یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ مُتَّقِین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے ۔ تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو۔ اور وہ ببرکت کلمۂ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی و جہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں۔ اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں ۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردی ء بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے …… خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خاص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا۔ اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ اور وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا ۔ یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے۔ وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی اس ربِّ جَلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔ ‘‘
اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت کرنے والے اصحاب 20؍ مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچ جائیں ۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 196تا 198)

سلسلۂ بیعت کا آغاز

چنانچہ اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23؍ مارچ 1889ء کو صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں بیعت لی اور حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب ؓ  کی روایت کے مطابق بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیار کیا گیا جس کا نام ’’ بیعت توبہ برائے تقویٰ و طہارت‘‘ رکھا گیا۔
اس زمانہ میں حضور علیہ السلام بیعت کرنے کے لئے ایک کمرے میں ہر ایک کو الگ الگ بلاتے تھے اور بیعت لیتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلی بیعت آپ نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی لی۔ بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں :۔
’’ اس جماعت میں داخل ہو کر اوّل زندگی میں تغیر کرنا چاہئے کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خِفّت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے۔ ‘‘
’’ ہمہ وجوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر توکل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار۔ رعایت اس حد تک کرنی چاہئے کہ شرک لازم نہ آئے۔ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ دست درکار دل بایا روالی بات ہونی چاہئے۔ ‘‘
آپ فرماتے ہیں : ’’ دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نباہنا مشکل ہے۔ کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لاپرواہ کر دے۔ دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور۔ اس طرح دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتا ہے۔ اگر خدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو۔ ‘‘
فرمایا : ’’ فتنہ کی کوئی بات نہ کرو۔ شر نہ پھیلائو۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو۔ جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آئو۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلائو۔ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے۔ اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل ، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے۔ ‘‘  (ذکر حبیب صفحہ 436تا 438)
مارچ 1903میں عید کا دن تھا ، چند احباب بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا :۔
’’ دیکھو جس قدر آپ لوگوں نے اس وقت بیعت کی ہے (لگتا ہے بیعت کے لئے لوگ آئے ہوئے تھے) اور جو پہلے کر چکے ہیں ان کو چند کلمات بطور نصیحت کے کہتا ہوں ۔ چاہئے کہ اسے پوری توجہ سے سنیں۔ ‘‘
’’ آپ لوگوں کی یہ بیعت ، بیعتِ توبہ ہے۔ توبہ دو طرح ہوتی ہے۔ ایک تو گزشتہ گناہوں سے یعنی ان کی اصلاح کرنے کے واسطے جو کچھ پہلے غلطیاں کر چکا ہے۔ ان کی تلافی کرے اور حتی الوسع ان بگاڑوں کی اصلاح کی کوشش کرنا اور آئندہ کے گناہوں سے باز رہنا اور اپنے آپ کو اس آگ سے بچائے رکھنا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ توبہ سے تمام گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ توبہ صدق دل اور خلوص نیت سے ہو اور کوئی پوشیدہ دغابازی دل کے کسی کونہ میں پوشیدہ نہ ہو۔ وہ دلوں کے پوشیدہ اور مخفی رازوں کو جانتا ہے۔ وہ کسی کے دھوکہ میں نہیں آتا۔ پس چاہئے کہ اس کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کی جاوے اور صدق سے ، نہ نفاق سے ، اس کے حضور توبہ کی جاوے۔ توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونو سنور جاتے ہیں۔ اور اسے اس جہان میں اورآنے والے جہان دونو میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 144`143 جدید ایڈیشن)

انتخاب از کتاب : 


0 comments: