Saturday, 17 February 2018

عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ

عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم 
اور سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ 
نظم و نثر کی روشنی میں 
تحریر: مکرم مولانا دوست محمد صاحب شا ہد(مرحوم)


ہما رے محبو ب اما م سیدنا المصلح مو عود رضی اللہ عنہ دور حاضر کے عظیم ترین رو حانی پیشوا ،مصلحین اُمّت کی گوناگوں صفات کے مرقع اور’’ فخررسل‘‘کے آسمانی لقب کے حامی تھے۔ حسن میں سیدنا یو سف علیہ السلام کے مثیل، خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بروز ، کما لا ت شعری میں حضرت حسّان بن ثا بت کے مظہر اور عشق رسول میں حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجسّم تصویر !
حضور انو ر کی خدا نما زندگی کے اگرچہ ہزار ہا پہلو ہیں اور ہر پہلو اپنے اندر ایک خاص شان رکھتا ہے اور آپ کی ذات میں ایک منفرد اور ممتا ز حیثیت سے جلو ہ گر ہے مگریہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عا شقا نہ تعلق کے بعد آ پ کو اوّلین و آخرین میں سے جس وجود مقدس و مطہر کے سا تھ سب سے زیادہ محبت و عقیدت تھی اور جس کی یا د میں آپ کی روح ہر وقت گداز رہتی اور حمد کے ترا نے گا تی تھی وہ سیدالاوّلین والا ٓ خرین فخرِ دو عالَم فخرِ کا ئنا ت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (فد اہ ابی و امیّ رو حی وجنانی) تھے۔ جس کا کسی قدر اندازہ آ پ کے شعری کلا م سے بھی ہوسکتا ہے ۔ چنا نچہ زیرنظر مضمون میں حضور کی منظوما ت میں سے ایک مختصر سا انتخاب ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے ۔
1۔ عنفوانِ شباب کے آ غاز سےحُبِّ محمدؐ کے ترانے
سیّدنا المصلح مو عود رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک صرف اٹھارہ برس تھی کہ آ پ نے اپنے آ قا و مو لا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یا دمیں اشعار کہنے شروع کر دئیے جس سے قطعی طور پر نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جنا ب الٰہی کی طرف سے عشق رسول کا بے پنا ہ جذبہ ابتدا ہی سے آ پ کی فطرت کو ودیعت کیا گیا تھا اور آپ کی روح کو روحِ مصطفوی ؐ سے ایک خاص نسبت و تعلق تھا ۔ چنا نچہ آپ نے 1907ء میں فرما یا:
محمدؐ میرے تن میں مثل جاں ہے
یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے
وہ ہم کہ فکر میں دیں کے ہمیں قرار نہیں 
وہ تم کہ دین محمدؐ سے کچھ بھی پیار نہیں 
کروڑ جاں ہو تو کردوں فدا محمدؐ پر
کہ اس کے لطف وعنایات کا شمار نہیں 
2 ۔ انیس سال کی عمر میں نعت ِ رسولؐ
1908ء میں جبکہ حضور کی عمر صرف انیس سا ل کی تھی آپ نے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں پرکیف نعت لکھی جس کے چند اشعار یہ تھے۔
محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ کُوئے صنم کا رہنما ہے
مرا دل اس نے روشن کردیا ہے
اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے
مرا ہر ذرہ ہو قربان احمدؐ
مرے دل کا یہی ایک مدعا ہے
اسی کے عشق میں نکلے مری جاں
کہ یاد یار میں بھی اک مزا ہے
مجھے اس بات پر ہے فخر محمود
مرا معشوق محبوب خدا ہے
3۔دین مصطفیٰ کے لئے درد
اسی زمانہ میں ایک اورنظم میں دین محمدؐ کے لئے اپنی بے قراری اوراضطراب کا یوں نقشہ کھینچا ہے ۔
کچھ اپنے تن کا فکر ہے نہ مجھ کو جان کا 
دینِ محمدؐی کے لئے مر رہا ہوں میں 
بیمار روح کے لئے خاک شفا ہوں میں 
ہاں کیوں نہ ہوکہ خاک درِ مصطفیٰ ہوں میں 
4۔جمال محمدیؐ میں برکت کے لئے دعا 
جنو ری 1914ء میں مسند خلا فت پر متمکن ہوئے تو رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق ومحبت کا چشمہ بحر موّاج کی شکل اختیار کر گیااورآپ کے قلب و روح جما ل محمدیؐ اور انوار محمدیؐ کے تصور میں بے خو د ہو کر بے ساختہ پکا ر اٹھے۔
محمدؐ عربی کی ہو آل میں برکت 
ہو اس کے حسن میںبرکت جمال میں برکت
ہو اس کی قدر میں برکت کمال میں برکت
ہو اس کی شان میں برکت جلال میں برکت
5۔جلوۂ محمدیؐ کا پرکیف منظر
علم وعرفاں کی سیر روحانی میں اور آگے بڑھے تو جلوۂ محمدی کاایک نیا رنگ نظر آیا۔ چنانچہ عالم کیف میں دنیا کو للکارا   ؎
مرے پکڑنے پہ قدرت تجھے کہاں صیاد
کہ باغِ حسنِ محمدؐ کی عندلیب ہوں میں
اور رسول کائنات سے لقاء الہٰی کے لئے درخواست کی  ؎
یا محمدؐ دلبرم ازعاشقانِ روئے تُست
مجھ کوبھی اس سے ملادے ہاں ملادے آج تو
شروع 1944ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود کے منصب کاانکشاف ہوا تو اس عاشق رسولؐ کے اندر ایک تغیر عظیم برپاہوگیا اور یاض رسولؐ میں بلبل کے نغموں کا رنگ ہی بدل گیا۔ چنانچہ حضورؓ نے دعویٰ مصلح موعود کے دو ماہ بعد ایک پر معار ف نظم لکھی جس میں والہانہ انداز میں اپنی اس تمنائے دل کا واضح لفظوں میں اظہار فرمایا کہ   ؎
شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے
حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفی ہو
پھر امّت مصطفیٰ کے لئے دست بہ دعا ہوئے   ؎
سیدالانبیاء کی امّت کو
جو ہوں غازی بھی ، وہ نمازی بخش
6۔فیضان مصطفوی کی منادی
پھر حضورؓ کے فیضان اور قوت قدسی اور تاثیر روحانی کا یہ ولولہ انگیز اعلان فرمایا۔
کَمْ تَنْفَعُ الثَقَلَیْنِ تَعْلِیْمَاتُہٗ
قَدْخُصَّ دِیْنُ مُحَمَّدٍ بِعُمُوْمِھَا
ظَھَرَتْ ھِدَایَۃُ رَبِّنَا بِقُدُوْمِہٖ
زَالَتْ ظَلَامُ الدَّ ھْرِ عِنْدَ قُدُوْمِھَا
جَآئَ بِتِرْیَاقٍ مُزِیْلٍ سِقَا مَنَا
غَابَتْ غَوَایَتُنَا بِکُلَّ سُمُوْمِھَا
نَزَلَتْ مَلَآئِکَۃُ السَّمَآئِ لِنَصْرِہٖ
قدْ فَاقَتِ الاَْرْضُ سِمیً بِظُلُوْمِھَا
رُفِعَتْ بُیُوْتُ المُؤمِنِیْنَ رَفَاعَۃً
خُسِفَ البِلَادُ بِفَرْ سِھَا وَبِرُوْمِھَا
منحَ العُلُوْمَ صَغِیرَھَا وکبیرَھا
صبّتْ سَمَائُ الْعِلْمِ مَائَ غُیُوْمِھَا
فَاسَتْ ضَفُوفُ الکَوثَر شَوْقاً لَہٗ
وَعَدَتْ اِلَیْہِ الْجَنَّۃُ بِکُرُوْمِھَا
7۔ آنحضرتؐ کی عالمگیر حکومت کے قیام کے لئے دعا
1947ء کے انقلاب میں قادیان سے ہجرت کر کے ارضِ پاکستان میںرونق افروز ہوئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ رسول خدا کی عالم گیر روحانی حکومت کے قیام کی خاطر ربوہ کے نامسے ایک نئی بستی کی بنیاد رکھی اور اپنے مولاحقیقی سے دعا کی    ؎ 
آپ آکے محمدؐ کی عمارت کو بنائیں
ہم کفر کے آثار کو دنیا سے مٹائیں
8۔ بارگاہِ نبوی میں التجا
احمدیت کے مرکز جدید کی تعمیر کا نیا دور شروع ہوا تو ایک طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں نذرانہ عقیدت لے کر التجا کی  ؎
اے شاہِ معالی آ بھی جا
اے   ضوئِ     لَآلِیْ   آ   بھی   جا
اے روحِ جمالی آ بھی جا
تو میرے دل میں ۔ دل تجھ میں
قَصْدِی وَ مَنَالِیِ    آ    بھی    جا
دشمن نے گھیرا ہے مجھ کو
صَبْرِی وَ بَسَالِی  آ    بھی    جا
سب کام مرے تجھ بن اے جاں
ہیں لطف سے خالی آ بھی جا
دوسری طرف اہل عالم کو پرشوکت الفاظ میں توجہ دلائی  ؎
آسمانی بادشاہت کی خبر احمدؐ کو ہے
کس کی ملکیت ہے خاتم یہ نگیں سے پوچھیے
کس قدر صدمے اُٹھائے ہیں ہمارے واسطے
قلبِ پاک رحمۃ للعالمینؐ سے پوچھیے
اس سوزوگداز کے عالم میں یہ انکشافِ حقیقت بھی فرمایا     ؎
عشقِ خدا کی مَے سے بھرا جام لائے ہیں
ہم مصطفیٰ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں
نیز سیدنا حضرت محمد ؐ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ نبوت و رسالت کا اظہار بایں الفاظ فرمایا    ؎
فرش سے جا کر لیا دم عرش پر 
مصطفیٰؐ کی سیرِ روحانی تو دیکھ
9۔دعائیہ اشعار میں جماعت کووصیت
بالآخر حضورؓ نے جب اپنی نگاہِ بصیرت سے اپنی واپسی کازمانہ قریب سے قریب تر آتا محسوس کیا اور بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی مبارک ساعتیں نزدیک دکھائی دینے لگیں تو اپنی جماعت کو دعائیہ اشعار میں وصیت فرمائی    ؎
حاکم رہے دلوں پہ شریعت خدا کرے
حاصل ہو مصطفیٰؐ کی رفاقت خدا کرے
پھیلائو سب جہان میں قولِ رسولؐ کو
حاصل ہو شرق وغرب میں سطوت خدا کرے
بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب
بڑھتا رہے وہ نورِ نبوت خدا کرے
قائم ہو پھر سے حکم محمدؐ جہان میں
ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے
تم ہو خدا کے ساتھ ، خدا ہو تمہارے ساتھ
ہُوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کرے
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
10۔نثر میں عشقِ رسولؐ کی جھلکیاں
یہ تو سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ کے شعری کلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق ومحبت کے چند نمونے پیش کئے گئے ہیں۔ جہاں تک حضورؓ کی مقدس تحریرات اور پاکیزہ ملفوظات کا تعلق ہے سرورِ کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ بلند، شانِ ارفع اور فیوضِ روحانیہ کا تذکرہ بڑی کثرت سے ملتا ہے جوبلامبالغہ ہزاروں صفحات پر محیط ہے۔ اور الفضل کے پچاس سالہ فائل اس پر شاہدِ ناطق ہیں ۔علاوہ ازیں آپ کی متعدد مطبوعہ تصانیف و تقاریر مثلاً سیرۃ النبیؐ، دنیا کامحسن، اسؤہ کامل، دیباچہ تفسیرالقرآن، سیر روحانی، سیرۃ خیرالرسل، تو تذکارنبوی کے لئے ہی مخصوص ہیںجن کی سطر سطر سے عشق رسالت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ مگر اس وقت حضور کی دلآویز، روح پرور، ایمان افروزاور وجد آفرین تحریرات میں سے بطورمثال صرف ایک شہ پارہ پیش کرتا ہوںجس سے عصرِ حاضر کے اس بے نظیر عاشقِ رسولؐ کے مقامِ عشق و محبت کی ایک جھلک ہمارے سامنے آتی ہے۔
سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد مبارک کے سالِ اول کے اختتام پر ایک کتاب’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ تالیف فرمائی جس کے صفحہ 185 پر تحریر فرمایا:
’’نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں۔ اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم۔ اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جومیرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ وہ کیا جانے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے۔ وہ میری جان ہے، میرادل ہے، میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے۔ اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تختِ شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے۔ اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے۔ وہ خداتعالیٰ کا پیارا ہے۔ پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کامحبوب ہے پھر میں کیوں اس سے محبت نہ کروں۔ وہ خداتعالیٰ کامقرب ہے۔ پھر میں کیوں اس کا قرب تلاش نہ کروں۔
میراحال مسیح موعود ؑ کے اس شعر کے مطابق ہے کہ   ؎
بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ بابِ نبوت کے بکلی بندہونے کے عقیدہ کو جہاں تک ہوسکے باطل کروں کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے۔‘‘
اللّٰھُمّ صلّ علیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰل مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّم اِنّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(بشکریہ رسالہ ’الفرقان‘ فضلِ عمر نمبر 1965ء)

0 comments: