اعتراض : مرزا صاحب نے کئی جگہ نبی ہونے سے انکار کیا ہے اور دعویٰ نبوت کو کفر قرار دیا ہے۔لیکن کئی جگہ اپنے آپ کو نبی کی صورت میں پیش کیا ہے۔
جواب : چونکہ نبی کی اقسام ہیں: تشریعی اور غیر تشریعی۔اس لئے پہلی قسم کا نبی ہونے سے آپؑ نے انکار کیا۔اور دوسری قسم کا نبی ہونے کا اس شرط کے ساتھ اقرار کیا ہے کہ آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی بھی ہیں۔چنانچہ آپؑ اپنے آخری خط میں جو اخبار عام مورخہ26؍مئی 1908 ء میں شائع ہوا لکھتے ہیں:۔
’’یہ الزام جو میرے پر لگایا جاتا ہے۔کہ مَیں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتااور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں یہ الزام میرے پر صحیح نہیں۔بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اِس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے‘‘۔
اِس کے بعداپنی نبوت کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’جس بناء پر مَیںاپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں،وہ صرف اس قدر ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اسکے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی امور کی کثرت کی و جہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دُنیا سے گزر جائوں گا‘‘
(خط مندرجہ اخبار عام26؍مئی1908ء)
اور اشتہار ’’ایک غلطی کے ازالہ‘‘میں فرماتے ہیں:۔
’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیںہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔مگر ان معنوں سے کہ مَیں نے اپنے رسولِ مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔بلکہ انہیں معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پُکارا ہے۔سو اب بھی مَیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا‘‘۔
(ایک غلطی کاازالہ روحانی خزائن جلد18صفحہ211-210)
اور پھر نزول المسیح حاشیہ صفحہ3پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس نکتہ کو یادرکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیّتِ کاملہ کے۔میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے‘‘۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ381حاشیہ)
پس نبوت کے اقرار اور انکار میں وجوہ مختلف ہیں۔لہٰذا اس میں کوئی تناقض نہیں۔
0 comments:
Post a Comment