تحریر فرمودہ: مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (مرحوم )
علامہ اقبال پروفیسر نکلسن کو اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں :
’’ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے اور بین الملّی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کردے‘‘۔
( دیکھئے مکاتیب اقبال صفحہ ۴۶۰ تا۴۶۴)
اور پھر اسی خط میں پروفیسر مکینزی کی کتاب انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی کے دو پیراگراف لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دو پیراگراف کس قدر صحیح ہیں۔ انہیں لفظ بلفظ نقل کردیتاہوں:
(۱)’’غالباً ہمیں پیغمبر سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے یا ایک ایسے شخص کی جوشاعری اور پیغمبری کی دوگونہ صفات سے متصف ہو‘‘۔
(۲) ’’ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے جو درحقیقت روح القدس کاسپاہی ہو‘‘ ۔
یہ پیراگراف درج کرنے کے بعد علامہ اقبال تحریر فرماتے ہیں :
’’میرے افکار کامطالعہ کریں ۔ ہمارے عہدنامے اور پنچائتیں جنگ و پیکار کو صفحہ ہستی سے محو نہیں کر سکتیں کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس شعر میں مَیں نے اسی کو مخاطب کیاہے ؎
باز در عالم بیار ایاّمِ صلح
جنگجوئیاں را بدہ پیغامِ صلح
(مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۶۰ تا ۴۶۴)
کہ پھر دنیا میں صلح کے ایا م لا اورجنگجو قوموں کو صلح کا پیغام دے ۔
پھر مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۱ میں لکھتے ہیں :
’’کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ صلعم پھرتشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں‘‘۔
یہ ضرورت نبوت کے قائل ہونے کا علامہ اقبال جیسے آدمی کی طرف سے واضح اعتراف ہے ۔ ان کے نزدیک دنیامیں روحانی انقلاب پیدا کرنا علماء کے بس کی بات نہیں کیونکہ اپنے زمانہ کے علماء کی حالت کا نقشہ وہ یوں کھینچتے ہیں ؎
مولوی بیگانہ از اعجازِ عشق
ناشناس نغمہ ہائے سازِ عشق
(اسرار ورموز صفحہ ۶۸)
مولوی عشق کے معجزے سے بیگانہ ہے اور عشق کے ساز کے نغموں سے ناشناس ہے ۔ واعظوں، شیوخ اور صوفیاء کا حال دگرگوں یوں بیان کرتے ہیں ؎
شیخ در عشقِ بتاں اسلام باخت
رشتۂ تسبیح را زنّار ساخت
(اسرار ورموز صفحہ ۷۹)
شیخ نے بتانِ مجازی کے عشق میں اسلام کو ہار دیاہے اور تسبیح کے رشتہ کو زناّر بنا دیاہے ۔
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبارِ ملّتِ بیضا شکست
واعظ اور صوفی منصب پرست ہو گئے ہیں اور انہوں نے ملتِ بیضا کااعتبار توڑ دیاہے۔
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی ٔ دینِ مبیں فتویٰ فروخت
ہمارے واعظ نے نگاہ بتخانہ پرجمادی ہے تو مفتیٔ دین نے فتویٰ فروخت کرنا شروع کر دیاہے۔
چیست یاراں بعد ازیں تدبیرِ ما
رخ سُوئے میخانہ دارد پیر ما
اے دوستو ! اس کے بعد اب ہماری کیا تدبیر ہو سکتی ہے ۔ ہمارے پیر صاحب تومیخانہ کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ۔(اسرار و رموز صفحہ ۷۹)
اس کا علاج یہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ روحانی سے آپؐکاکوئی ظل اور بروز ظاہر ہوکر روحانی انقلاب کی نئے سرے سے بنیاد رکھتا ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے عین وقت پر مسیح موعود کو بھیج کر امت محمدیہ کی دستگیری فرمائی ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ فرماتے ہیں ؎
وقت تھا وقت ِ مسیحا نہ کسی اور کاوقت
میں نہ آتاتوکوئی اور ہی آیا ہوتا
(ماخوذ از کتاب ’’شان خاتم النبیین‘‘ صفحہ ۸۱۔۸۳)
0 comments:
Post a Comment