مولوی حق نواز صاحب دیو بندی نے ۲۷ اگست ۱۹۷۹ء کو ’’ منا ظرہ جھنگ‘‘کے دورا ن بریلوی عالم مولوی نظام الدین ملتانی کی کتاب ’’ انو ا ر شریعت ‘‘ کے صفحہ ۳۸ کاایک اہم حوا لہ پیش کیا ۔ اس صفحہ پر یہ سوا ل درج ہے کہ مسیح علیہ السلام لوگوں کی ہدایت کے لئے دوبا رہ اتریں گے حضرت محمد مصطفی ﷺ دوبارہ نہیں آئیں گے پس افضل کون ہوا ۔اس سوال کے جواب میں لکھا ہے ۔’’ د وبا رہ وہی بھیجا جا تا ہے جو پہلی دفعہ ناکا میاب رہا ہو‘‘ ۔ مولوی حق نواز صاحب دیوبندی کو اگر یہ معلوم ہوتاکہ ان کے ’’ خاتم الفقہا ء والمحدثین ‘‘ انور شاہ کشمیری کا بھی یہی نقطہ نگاہ تھا تو وہ بریلوی عالم کے اس اقتباس کو پیش کرنے کی ہر گز جرأت نہ کرتے مگر انہوں نے غالباً لا علمی میں دھڑلّے سے اس پر زبردست تنقید کی اور یہ کہتے ہو ئے نہ صرف بریلوی عالم بلکہ انورشاہ کشمیری کے با طل عقیدہ کو ضرب کا ری سے پاش پاش کردیا کہ:’’ میرے قابل ِ محترم سامعین سوچئے پہلا لفظ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے استعما ل کیا جا رہا ہے ۔ دوبا رہ وہی آ ئے جو پہلی دفعہ ناکامیاب رہے ۔ کو ن ہے دنیا میں وہ بندہ جو کسی پیغمبر کو رسالت کے کا م میں ناکا میاب کہے ۔ میں فاضل مخا طب سے پوچھوں گا کہ آج تک اس دنیا کی کسی کتاب میں کسی معتبر عالم کسی مفکر و محدّث نے یہ لکھا کہ عیسیٰ علیہ السلام ناکا میاب واپس گئے اس لئے اب دوبارہ اپنی رسالت کی تکمیل کے لئے آ ئیں گے۔ دوسرا لفظ استعما ل کیا ہے کہ جو امتحان میں فیل ہو اس کو دوبا رہ امتحان میں بلایا جاتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام پہلے فیل ہو گئے اور اب دوبارہ بلایاجا رہا ہے۔ کہ وہ یہود کے ڈر کے مارے رسالت کا کام سرانجام نہ دے سکے۔ مسلمانو ! قرآ ن کہتا ہے۔ ويقتلون النبيين بغير حقّ یہود نے انبیاء کو ناحق شہید تو کردیا لیکن انہیں سچ کہنے سے رسالت کے کا م پہنچانے سے اللہ کے احکام بیان کرنے سے اور رب ذوالجلال کی توحید کو بیان کرنے سے انہیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکی ۔ شہید تو ہو گئے ان کے وجود آرے سے چرادئیے گئے ، ان کو ہجرتوں پہ مجبور تو کردیا لیکن کسی پیغمبر نے اپنے رسالت کے کام میں کوتاہی نہیں کی اور یہاں بتلایاجارہا ہے کہ پیغمبر یہود کے ڈر کے ما رے اپنا کام ادھورا چھوڑگئے معاذاللہ ۔ اوراب وہ دوبارہ اس کام کوپورا کرنے کے لئے آ ئیں گے ۔ میرا فاضل مخاطب پر سوال ہے کہ آ ج تک کسی مسلما ن نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے اپنا یہ عقیدہ پیش کیا ہے کہ ناکام واپس گئے ۔ کیا کوئی رسول اپنی رسالت میں نا کا م واپس جا سکتا ہے اور کیا اب دوبارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام الا نبیاء کے امتی بن کے آ ئیں گے یا اپنے کام رسالت کو سر انجام دینے کے لئے آ ئیں گے۔ اگر وہ امام ِ الا نبیا ء کے امتی بن کے آ ئیں گے تو پہلا کام ادھورا رہ گیا اب تو امام الا نبیاء کے دین کا کام کرنا ہے اپنی رسالت تو ادھوری کی ادھوری رہ گئی اور اگر اس کو پورا کریں گے تو ختم نبوت کا انکا ر لازم آیا۔ اس لحاظ سے بھی یہ بات خطرناک ہے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کے خلاف ہے ‘‘
(منا ظرہ جھنگ صفحہ ۱۳۱ تا ۱۳۳ نا شر مکتبہ فریدیہ ساہیوال )