Wednesday, 20 July 2016

حمزہ علی عباسی اور معصوم پاکستانی عوام




حمزہ علی عباسی نے آج ٹی وی کے پروگرام ''رمضان ہمارا ایمان'' میں دو سوال پوچھے جو یہ تھے کہ :
۱ ۔ کیا ایک اسلامی ریاست کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ایک لوگوں کے گروہ کو کہے کہ یہ کافر ہے مسلمان نہیں ہے ؟
۲ ۔ اگر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار بھی دے دیا گیا تو کیا ان کو انسانی حقوق میسر ہیں ؟

اس ویڈیو میں ان دونوں سوالوں کا جواب ہمارے ایک احمدی بھائی نے قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں دیا ہے جو آپ کی خدمت میں حاضر ہے ۔
مکمل تحریر >>

Friday, 15 July 2016

چند اہم وضاحتیں حضرت احمد علیہ السلام کے قلم سے


اور پھر ایک اور نادانی یہ ہے کہ جاہل لوگوں کو بھڑکانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوٰی کیا ہے 

حالانکہ یہ اُن کا سراسر افترا ہے ۔ بلکہ جس نبوت کا دعوٰی کرنا قرآن شریف کے رو سے منع معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی دعوٰی نہیں کیا گیا صرف یہ دعوٰی ہے کہ ایک پہلو سے میں امتی ہوں اور ایک پہلو سے میں آنحضرت ﷺ کے فیض نبوت کی وجہ سے نبی ہوں اور نبی سے مراد صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ و مخاطبہ پاتا ہوں بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔ اب واضح ہو کہ احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسٰی اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہو گااور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بجز نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَلا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِ لَّا مَنِ ارْتَضٰی مِن رَّسُوْلٍ (الجن:۲۷،۲۸) یعنی خدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو۔ اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خداتعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو 1300 برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔
غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرتِ وحی او رکثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تاکہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی۔ کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پا لیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہو گا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے اور یاد رہے کہ ہم نے محض نمونے کے طور پر چند پیشگوئیاں اس کتاب میں لکھی ہیں مگر دراصل وہ کئی لاکھ پیشگوئی ہے جن کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا اور خدا کا کلام اس قدر مجھ پر ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس 20 جزو سے کم نہیں ہو گا۔ اب ہم اسی قدر پر کتاب کو ختم کرتے ہیں اور خداتعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ اپنی طرف سے اس میں برکت ڈالے۔ اور لاکھوں دلوں کو اس کے ذریعہ سے ہماری طرف کھینچے ۔ آمین۔ واٰخر دعوٰنا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین۔
{حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲،صفحہ ۴۰۶ تا ۴۰۷}

پھر بعض لوگ شور مچاتے ہیں کہ اگر آنے والا وہی عیسیٰ ابن مریم اسرائیلی نبی نہ تھا تو آنے والے کا یہ نام کیوں رکھا ؟

 مَیں کہتا ہوں کہ یہ اعتراض کیسی نادانی کا اعتراض ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اعتراض کرنے والے اپنے لڑکوں کا نام تو موسیٰ- عیسیٰ- داؤد- احمد- ابراہیم۔ اسماعیل رکھ لینے کے مجاز ہوں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کا نام عیسیٰ رکھ دے تو اس پر اعتراض!!! غور طلب بات تو اس مقام پر یہ تھی کہ آیا آنے والا اپنے ساتھ نشانات رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ ان نشانات کو پاتے تو انکار کے لئے جرأت نہ کرتے مگر انہوں نے نشانات اور تائیدات کی تو پروا نہ کی اور دعویٰ سُنتے ہی کہہ دیا۔  اَنْتَ کَافِرٌ۔
{لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد ۲۰،صفحہ ۲۹۱}


 بعض کم سمجھ لوگ جو کتاب اللہ اور حدیث نبوی میں تدبر نہیں کرتے وہ میرے مہدی ہونے کو سن کر یہ کہا کرتے ہیں کہ مہدی موعود تو سادات میں سے ہوگا ۔ 

سو یاد رہے کہ باوجود اس قدر جوش مخالفت کے ان کو احادیث نبویہ پر بھی عبور نہیں مہدی کی نسبت احادیث میں چار قول ہیں (۱) ایک یہ کہ مہدی سادات میں سے ہوگا (۲) دوسرے یہ کہ قریش میں سے۔ سادات ہوں یا نہ ہوں (۳) تیسرے یہ حدیث ہے کہ رجل من امتی۔ یعنی مہدی میری امت میں سے ایک مرد ہے خواہ کوئی ہو۔  (۴) چوتھے یہ حدیث ہے کہ لا مہدی اِلَّا عیسٰی یعنی بجز عیسیٰ کے اور کوئی مہدی نہیں ہوگا وہی مہدی ہے جو عیسیٰ
 کے نام پر آئے گا ۔ اسی آخری قول کے مصدّق وہ اقوال محدثین ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ مہدی  کے بارے میں جس قدر احادیث ہیں بجز حدیث عیسیٰ مہدی کے کوئی اُن حدیثوں میں سے جرح سے خالی نہیں مگر عیسیٰ کا مہدی ہونا بلکہ سب سے بڑا مہدی ہونا تمام اہل حدیث اور ائمہ اربعہ کے نزدیک بغیر کسی نزاع کے مسلّم ہے۔ پس میں وہی مہدی ہوں جو عیسیٰ بھی کہلاتا ہے اور اس مہدی کے لئے شرط نہیں ہے کہ حسنی یا حسینی یا ہاشمی ہو۔ منہ
{چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد۲۳ ،حاشیہ صفحہ۲ }



 (حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید ؓ  کو حضوراقدس ؑ نے ایک اعتراض سمجھایا)حضور ؑ فرماتے ہیں:۔
’’میں نے ایک موقعہ پر ایک اعتراض کا جواب بھی اُن کو سمجھایا تھا جس سے وہ بہت خوش ہوئے تھے۔
 اور وہ یہ کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں۔ اور آپ کے خلفاء مثیل انبیاء بنی اسرائیل ہیں۔ تو پھر کیا وجہ کہ مسیح موعود کا نام احادیث میں نبی کر کے پکارا گیا ہے۔ مگر  دوسرے تمام خلفاء کو یہ نام نہیں دیا گیا۔

 سو مَیں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا۔ اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جاتا اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا۔ کیونکہ موسیٰ   ؑکے خلفاء نبی ہیں۔ اس لئے حکمت الٰہی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور اُن کا نام نبی نہ رکھا جائے۔ اور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے تاختم نبوت پر یہ نشان ہو۔ پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جائے۔ اور ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کی نبوت ظلّی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ایک وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا۔ یا احمد جُعلتَ مُرسلا۔ اے احمد تو مرسل بنایا گیا۔ یعنی جیسے کہ تو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا۔ حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا سو اسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے۔ کیونکہ احمد نبی ہے۔ نبوت اس سے منفک نہیں ہو سکتی۔‘‘
{تذکرۃ الشہا دتَین،روحانی خزائن جلد ۲۰،صفحہ ۴۵تا ۴۶}


اور یہ کہنا کہ قرآن شریف میں مسیح موعود کا کہیں ذکر نہیں

یہ سراسر غلطی ہے کیونکہ جس حالت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بڑا فتنہ عیسٰی پرستی کا فتنہ ٹھیرایا ہے اور اس کے لئے وعید کے طور پر یہ پیشگوئی کی ہے کہ قریب ہے کہ زمین و آسمان اس سے پھٹ جائیں اور اسی زمانہ کی نسبت طاعون اور زلزلوں وغیرہ حوادث کی پیشگوئی بھی کی ہے اور صریح طور پر فرما دیا ہے کہ آخری زمانہ میں جبکہ آسمان اور زمین میں طرح طرح کے خوفناک حوادث ظاہر ہونگے وہ عیسیٰ پرستی کی شامت سے ظاہر ہونگے اور پھر دوسری طرف یہ بھی فرمایا وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا[ بنی اسرآئیل:16 ]۔ پس اس سے مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی کھلے کھلے طور پر قرآن شریف میں ثابت ہوتی ہے کیونکہ جو شخص غور اور ایمانداری سے قرآن شریف کو پڑھے گا اس پر ظاہر ہو گا کہ آخری زمانہ کے سخت عذابوں کے وقت جبکہ اکثر حصے زمین کے زیروزبر کئے جائینگے اور سخت طاعون پڑے گی اور ہر ایک پہلو سے موت کا بازار گرم ہو گا اس وقت ایک رسول کا آنا ضروری ہے جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا  وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا[ بنی اسرآئیل:16 ] ۔ یعنی ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک عذاب سے پہلے رسول نہ بھیج دیں۔ پھر جس حالت میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے وقت میں رسول آئے ہیں جیسا کہ زمانہ کے گذشتہ واقعات سے ثابت ہے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس عظیم الشان عذاب کے وقت میں جو آخری زمانہ کا عذاب ہے اور تمام عالم پر محیط ہونے والا ہے جس کی نسبت تمام نبیوں نے پیشگوئی کی تھی خدا کی طرف سے رسول ظاہر نہ ہو اس سے تو صریح تکذیب کلام اللہ کی لازم آتی ہے۔ پس وہی رسول مسیح موعود ہے کیونکہ جب کہ اصل موجب ان عذابوں کا عیسائیت کا فتنہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تو ضرور تھا کہ اس فتنہ کے مناسبِ حال او اس کے فرو کرنے کی غرض سے رسول ظاہر ہو۔ سو اُسی رسول کو دوسرے پیرایہ میں مسیح موعود کہتے ہیں۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ قرآن شریف میں مسیح موعود کا ذکر ہے اور یہی ثابت کرنا ہے۔ ہر ایک سمجھ سکتاہے کہ اگر قرآن شریف کی رو سے عیسائیت کے فتنہ کے وقت عذاب کا آنا ضروری ہے تو مسیح موعود کا آنا بھی ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ عذاب عیسائیت کے کمال فتنہ کے وقت آنا قرآن مجید سے ثابت ہے۔ پس مسیح موعود کا آنا بھی قرآن کریم سے ثابت ہے۔ اسی طرح عام طور پر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کسی قوم پر عذاب کرنا چاہتے ہیں تو ان کے دلوں میں فسق و فجور کی خواہش پیدا کر دیتے ہیں تب وہ اتباع شہوات اور بیحیائی کے کاموں میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں تب اس وقت ان پر عذاب نازل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اُمور بھی یُورپ میں کمال تک پہنچ گئے ہیں جو بالطبع عذاب کے مقتضی ہیں اور عذاب رسول کے وجود کا مقتضی ہے اور وہی رسول مسیح موعود ہے۔ پس تعجب ہے اس قوم سے جو کہتی ہے کہ مسیح موعود کا قرآن شریف میں ذکر نہیں۔ علاوہ اس کے قرآن شیرف کی یہ آیت بھی کہ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ [النور:56] یہی چاہتی ہے کہ اس امت کے لئے چودھویں صدی میں مثیل عیسٰی ظاہر ہو جیسا کہ حضرت عیسٰی حضرت موسٰی سے چودھویں صدی میں ظاہر ہوئے تھے تا دونوں مثیلوں کے اول و آخر میں مشابہت ہو۔ اسی طرح قرآن شریف میں یہ بھی پیشگوئی ہے وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا [بنی اسرآئیل:59] یعنی کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کرینگے یا اس پر شدید عذاب نازل نہ کریں گے یعنی آخری زمانہ میں ایک سخت عذاب نازل ہو گا۔ اور دوسری طرف یہ فرمایا۔ وَمَا کُنَّامُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا [بنی اسرآئیل:16]۔ پس اس  سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہو تا ہے اور وہی مسیح موعود ہے۔
اور یہی پیشگوئی سورۂ فاتحہ میں بھی موجود ہے کیونکہ سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کا نام الضآلّین رکھا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ دنیا کے صدہا فرقوں میں ضلالت موجود ہے ۔ مگر عیسائیوں کی ضلالت کمال تک پہنچ جائے گی گویا دنیا میں فرقہ ضالّہ وہی ہے اور جب کسی قوم کی ضلالت کمال تک پہنچتی ہے او روہ اپنے گناہوں سے باز نہیں آتی تو سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ ان پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ پس اس سے بھی مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھیرتا ہے یعنی بموجب آیت وَمَا کُنَّامُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا ۔
{تتمہ حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد۲۲،صفحہ۴۹۸تا ۵۰۰}

 ایک بڑااعتراض اُن کا یہ ہے کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا۔ اور احمد بیگ اگرچہ پیشگوئی کے مطابق مر گیا مگر داماد اس کا جو اسی پیشگوئی میں داخل تھا نہ مرا۔

 یہ ان لوگوں کا تقویٰ ہے کہ ہزارہا ثابت شدہ نشانوں کا تو ذکر تک منہ پر نہیں لاتے اور ایک دو پیشگوئیاں جو اُن کی سمجھ میں نہ آئیں بار بار اُن کو ذکر کرتے ہیں اور ہر ایک مجمع میں شور ڈالتے ہیں۔ اگر خدا کا خوف ہوتا تو ثابت شدہ نشانوں اور پیشگوئیوں سے فائدہ اُٹھاتے۔ یہ طریق راست باز انسانوں کا نہیں ہے کہ کُھلے کُھلے معجزات سے منہ پھیر لیں اور اگر کوئی دقیق امر ہو تو اُس پر اعتراض کر دیں۔ اس طرح پر تو تمام انبیاء پر اعتراضات کا دروازہ کھل جائے گا اور آخر کار اس طبیعت کے لوگوں کو سب سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صاحب معجزات ہونے میں کیا کلام ہے مگر ایک شریر مخالف کہہ سکتا ہے کہ اُن کی بعض پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں جیسا کہ اب تک یہودی کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کی کوئی بھی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اُس نے کہا تھا کہ میرے بارہ(۱۲) حواری بارہ تختوں پر بہشت میں بیٹھیںؔ گے مگر وہ بارہ کے گیارہ رہ گئے اور ایک مرتد ہو گیا اور ایسا ہی اُس نے کہاتھا کہ اس زمانہ کے لوگ نہیں مریں گے جب تک کہ میں واپس آجاؤں۔ حالانکہ وہ زمانہ کیا اٹھارہ صدیوں کے لوگ قبروں میں جا پڑے اور وہ اب تک  نہیں آیا اور اُسی زمانہ میں اس کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور اس نے کہا تھا کہ میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں مگر کوئی بادشاہت اس کو نہ ملی۔ ایسے ہی اور بہت اعتراض ہیں۔ ایسا ہی اِس زمانہ میں بعض ناپاک طبع آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض پیشگوئیوں پر اعتراض کر کے کل پیشگوئیوں سے انکار کرتے ہیں اور بعض حدیبیہ کے قصہ کو پیش کرتے ہیں۔ اب اگر ایسے اعتراض تسلیم کے لائق ہیں تو مجھے ان لوگوں پر کیا افسوس۔ مگر یہ خوف ہے کہ اس طریق کو اختیار کر کے کہیں اسلام کو ہی الوداع نہ کہہ دیں۔ تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں ایسا ہی میری پیشگوئیوں میں بعض اجتہادی دخل بھی ہوتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حدیبیہ کے سفر میں بھی اجتہادی دخل تھا۔ تب ہی تو آپ نے سفر کیاتھا مگر وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا۔ نبی کی شان اور جلالت اور عزت میں اس سے کچھ فرق نہیں آتا کہ کبھی اس کے اجتہاد میں غلطی بھی ہو۔ اگر کہو کہ اس سے امان اُٹھ جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کثرت کا پہلو اس امان کو محفوظ رکھتا ہے۔ کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک  مجمل ہوتی ہے۔ اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ؔہے۔ پس اگر مجمل وحی میں اجتہاد کے رنگ میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو بیّنات محکمات کو اس سے کچھ صدمہ نہیں پہنچتا۔ پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبر واحد کی طرح ہو اور مجمل ہو اور اس کے سمجھنے میں اجتہادی رنگ کی غلطی ہو۔ اِس بات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔  لعنۃُ اللّٰہ علی الکاذبین  اور ساتھ اس کے یہ بھی ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں خدا پر فرض نہیں ہے کہ اُن کو ظہور میں لاوے۔ یُونسؑ کی پیشگوئی اس پر شاہد ہے اِس پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے کہ خدا کے ارادے جو وعید کے رنگ میں ہوں صدقہ اور دعا سے ٹل سکتے ہیں۔ پس اگر وعید کی پیشگوئی ٹل نہیں سکتی تو صدقہ اور دُعا لاحاصل ہے۔
{لیکچر سیالکوٹ،روحانی خزائن جلد ۲۰،صفحہ ۲۴۴ تا ۲۴۶}


 اور یاد رہے کہ جن اعتراضوں کو وہ پیش کرتے ہیں اگر ان سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اُن کے دل تعصب کے غبار اور تاریکی سے بھر گئے ہیں اور ان کی آنکھوں پر بُغض اور حسد کے پردے آگئے ہیں مثلًا بار بار یہ پیش کرنا کہ ڈپٹی آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی

کیا یہ ایمانداری کا اعتراض ہے کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گیارہ (11) برس سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہے کہ آتھم مر گیا اور اب زمین پر اُس کا نام و نشان نہیں اور اس کا رجوع کرنا قریبًا ستر آدمیوں کی گواہی سے ثابت ہے جبکہ اس نے آنحضرت ﷺ کو عین مجلس مباحثہ میں دجال کہنے سے رجوع کیا اور پھر پندرہ مہینے تک روتا رہا۔ اور یہ پیشگوئی شرطی تھی جیسا کہ پیشگوئی کے یہ لفظ تھے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے پھر جبکہ اس نے رجوع کر لیا اور ان گواہوں کے روبرو رجوع کیا جن میں سے اب تک بہت سے زندہ ہیں تو پھر اب تک اعتراض کرنے سے باز نہ آنا کیا کسی پاک طینت کی علامت ہے۔

{حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲،صفحہ۴۰۱ }


ایسا ہی محض تعصب اور جہالت سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کے داماد کی نسبت بھی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی

 اور دیانت کا حال یہ ہے کہ اس اعتراض کے وقت احمد بیگ کا نام بھی نہیں لیتے کہ اُس پر کیا حقیقت گذری اور محض خیانت کے طور پر پیشگوئی کی ایک ٹانگ مخفی رکھ کر دوسری ٹانگ پیش کر دیتے ہیں اور دیدہ و دانستہ لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس پیشگوئی کی دوشاخیں تھیں ایک شاخ احمد بیگ کی نسبت اور دوسری احمد بیگ کے داماد کی نسبت۔ سو احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہو گیا اور اس کے مرنے سے اس کے وارثو ں کے دلوں کو بہت صدمہ پہنچا اور خوف سے بھر گئے اور یہ تو انسانی سرشت میں داخل ہے کہ جب دو شخص ایک ہی بلا میں (جو وارد ہونے والی ہو) گرفتار ہوں اور ایک ان میں سے اس بلا کے نزول سے مر جائے تو جو شخص ابھی زندہ ہے وہ اور اس کے وارث سخت خوف اور اندیشہ میں پڑ جاتے ہیں۔ چونکہ یہ پیشگوئی شرطی تھی٭جیسا کہ آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اس لئے جب احمد بیگ کے مرنے سے وہ لوگ سخت خوف اور اندیشہ میں پڑ گئے اور دعائیں کیں اور صدقہ و خیرات بھی کیا اور بعض کے خط عجز و نیاز کے بھرے ہوئے میرے پاس آئے جو اب تک موجود ہیں تو خداتعالیٰ نے اپنی شرط کے پورا کرنے کے لئے اس پیشگوئی میں بھی تاخیر ڈال دی مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت جا بجا شور مچاتے ہیں اور صدہا رسالوں اور اخباروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی ایک دفعہ بھی شرافت اور راستگوئی کے لحاظ سے پورے طور پر پیشگوئی کا ذکر نہیں کرتے اور کبھی کسی رسالہ میں نہیں لکھتے کہ اس پیشگوئی کی دو شاخیں تھیں۔ایک شاخ ان میں سے میعاد کے اندر پوری ہو چکی ہے یعنی احمد بیگ کی موت بلکہ ہمیشہ اور ہر محل اور ہر موقع اور ہر مجلس میں اور ہر رسالہ اور ہر اخبار میں احمد بیگ کے داماد کو ہی روتے ہیں اور جو مر گیا اس کو نہیں روتے۔ یہ شرافت اور دیانت اس زمانہ کے مولویوں کے ہی حصہ میں آگئی ہے۔
{حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲،صفحہ۴۰۱ تا۴۰۲ }
٭ اس پیشگوئی میں شرطی الہام یہ تھا جو اسی زمانہ میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔ ایّتھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علٰی عقبک۔ یعنی اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلاتیری لڑکی اور لڑکی کی لڑکی پر نازل ہونے والی ہے پس اس کی لڑکی پر تو بلا نازل ہوئی کہ اس کا خاوند مرزا احمد بیگ مر گیا لیکن احمد بیگ کی وفات کے بعد بوجہ خوف اور دعااور صدقہ خیرات کے لڑکی کی لڑکی اس بلا کے نزول سے اس وقت تک بچائی گئی جو خداتعالیٰ کے علم میں ہے۔ منہ

اسی ضمن میں حضور اقدسؑ  مزید فرماتے ہیں:۔
رہا معاملہ احمد بیگ کے داماد کا۔ سوہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ وہ پیشگوئی دو شاخوں پر مشتمل تھی۔ ایک شاخ احمد بیگ کی موت کے متعلق تھی۔ دوسری شاخ اس کے داماد کی موت کے متعلق تھی اور پیشگوئی شرطی تھی۔ سو احمد بیگ بوجہ نہ پورا کرنے شرط کے میعاد کے اندر مر گیا اور اس کے داماد نے اور ایساہی اس کے عزیزوں نے شرط پورا کرنے سے اس کا فائدہ اٹھا لیا۔ یہ تو لازمی امر تھا کہ احمد بیگ کی موت سے اِن کے دلوں میں خوف پیدا ہو جاتا۔ کیونکہ پیشگوئی میں دونوں شریک تھے۔ اور جب دو شریکوں میں سے ایک پر موت وارد ہو گئی تو انسانی فطرت کا ایک ضروری خاصہ تھا کہ جو شخص اس پیشگوئی کا دوسرا نشانہ تھا اُس کو اور اس کے عزیزوں کو موت کا فکر پڑ جاتا جیسا کہ اگر ایک ہی کھانا کھانے سے جو دو آدمیوں نے مل کر کھایا تھا ایک اُن میں سے مر جائے تو ضرور دوسرے کو بھی اپنی موت کا فکر پڑ جاتا ہے ۔ سو اسی طرح احمد بیگ کی موت نے وہ خوف باقیماندہ شخص اور اس کے عزیزوں پر ڈالا کہ وہ مارے ڈر کے مُردہ کی طرح ہو گئے۔ انجام یہ ہوا کہ وہ بزرگ خاندان جو بانی اس کام کے تھے سلسلہ بیعت میں داخل ہو گئے۔ 
اور یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ اَیَّتُھَا الْمَرْأَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَائَ عَلَی عَقْبِکِ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔ کیا آ پ کو خبر نہیں کہ یَمْحُوْاللّٰہُ مَا یَشَآئُ وَیُثْبِتُ نکاح آسمان پر پڑھا گیا یا عرش پر مگر آکر وہ سب کارروائی شرطی تھی ۔ شیطانی وساوس سے الگ ہو کر اس کو سوچنا چاہیے کہ کیا یونسؑ کی پیشگوئی نکاح پڑھنے سے کچھ کم تھی جس میں بتلایا گیا تھا کہ آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ چالیس( 40) دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہو گا مگر عذاب نازل نہ ہوا حالانکہ اس میں کسی شرط کی تصریح نہ تھی۔ پس وہ خد اجس نے اپنا ایسا ناطق فیصلہ منسوخ کر دیا۔ کیا اس پر مشکل تھا کہ اس نکاح کو بھی منسوخ یا کسی اور وقت پر ڈال دے۔ 
{تتمہ حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد۲۲،صفحہ۵۶۹ تا ۵۷۱}

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارے آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ 

یاد رکھوکہ میرے آنے کی دو غرضیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو غلبہ اِس وقت اسلام پر دوسرے مذاہب کا ہوا ہے گویا وہ اسلام کو کھاتے جاتے ہیں اور اسلام نہایت کمزور اور یتیم بچے کی طرح ہوگیا ہے۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا مَیں ادیانِ باطلہ کے حملوں سے اسلام کو بچاؤں اور اسلام کے پُر زور دلائل اور صداقتوں کے ثبوت پیش کروں۔ اور وہ ثبوت علاوہ علمی دلائل کے انوار اور برکاتِ سماوی ہیں جو ہمیشہ سے اسلام کی تائید میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت اگر تم پادریوں کی رپورٹیں پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ اسلام کی مخالفت کیلئے کیا سامان کررہے ہیں۔ اور ان کا ایک ایک پرچہ کتنی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ اسلام کا بول بالا کیا جاتا۔ پس اِس غرض کیلئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔ اور مَیں یقینا کہتا ہوں کہ اسلام کا غلبہ ہو کر رہے گا اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ ہاں یہ سچی بات ہے کہ اس غلبہ کیلئے کسی تلوار اور بندوق کی حاجت نہیں اور نہ خدا نے مجھے ہتھیاروں کے ساتھ بھیجا ہے۔ جو شخص اِس وقت یہ خیال کرے وہ اسلام کا نادان دوست ہوگا۔ مذہب کی غرض دلوں کو فتح کرنا ہوتی ہے اور یہ غرض تلوار سے حاصل نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تلوار اُٹھائی مَیں بہت مرتبہ ظاہر کر چکا ہوں کہ وہ تلوار محض حفاظت خود اختیاری اور دفاع کے طور پر تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ مخالفین اور منکرین کے مظالم حد سے گزر گئے اور بیکس مسلمانوں کے خون سے زمین سُرخ ہو چکی۔
غرض میرے آنے کی غرض تو یہ ہے کہ اسلام کا غلبہ دوسرے ادیان پر ہو۔ دوسرا کام یہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں یہ صرف زبانوں پر حساب ہے۔ اس کیلئے ضرورت ہے کہ وہ کیفیت انسان کے اندر پیدا ہو جاوے جو اسلام کا مغز اور اصل ہے۔ مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر-عمر-عثمان- علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔ اب جو کچھ ہے وہ دنیا ہی کیلئے ہے۔ اور اس قدر استغراق دنیا میں ہورہا ہے کہ خداتعالیٰ کیلئے کوئی خانہ خالی نہیں رہنے دیا۔ تجارت ہے تو دنیا کیلئے۔ عمارت ہے تو دنیا کیلئے۔ بلکہ نماز روزہ اگر ہے تو وہ بھی دنیا کیلئے۔ دنیاداروں کے قرب کیلئے تو سب کچھ کیا جاتا ہے مگر دین کا پاس ذرہ بھی نہیں۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کے اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے۔ مَیں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلّی پاتا ہے۔ 
اب تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اُسے حاصل ہے؟ مَیں سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہوگئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیںہے۔ خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے۔ پس جیسے میرا یہ کام ہے کہ اُن حملوں کو رو کا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویسے ہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور رُوح پیدا کی جاوے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بُت کو عظمت دی گئی ہے اُس کی اَمَانِی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے۔ مقدمات۔ صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کیلئے ہے۔ اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت اُن کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بتازہ پھل دے۔ اس وقت درخت کی صورت ہے مگر اصل درخت نہیں کیونکہ اصل درخت کیلئے تو فرمایا۔أَلَمْ تَرَ کَیْْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِیْ السَّمَائِ ۔ تُؤْتِیْ أُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا (ابراھیم:۲۵۔۲۷)۔ یعنی کیا تُونے نہیں دیکھا کہ کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ وہ بات پاکیزہ‘ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑھ ثابت ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے۔ ٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌسے مراد یہ ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ تک پہنچے ہوئے ہوں۔ اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے کسی وقت خشک درخت کی طرح نہ ہو۔ مگر بتاؤ کہ کیا اب یہ حالت ہے؟ بہت سے لوگ کہہ تو دیتے ہیں کہ ضرورت ہی کیا ہے؟ اس بیمار کی کیسی نادانی ہے جو یہ کہے کہ طبیب کی حاجت ہی کیا ہے؟ وہ اگر طبیب سے مستغنی ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس کا نتیجہ اس کی ہلاکت کے سوا اور کیا ہوگا؟ 
اس وقت مسلمان اَسْلَمْنَا میں تو بے شک داخل ہیں مگر آمَنَّا کی ذیل میں نہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک نور ساتھ ہو۔غرض یہ وہ باتیں ہیں جن کیلئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔ اس لئے میرے معاملہ میں تکذیب کے لئے جلدی نہ کرو بلکہ خدا سے ڈرو اور توبہ کرو کیونکہ توبہ کرنے والے کی عقل تیز ہوتی ہے۔ طاعون کا نشان بہت خطرناک نشان ہے اور خدا تعالیٰ نے اِس کے متعلق مجھ پر جو کلام نازل کیا ہے وہ یہ ہے۔إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِہِمْ (الرعد:۱۲) ۔ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس پر لعنت ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی۔ پس خدا سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھاؤ۔ کوئی کسی کا ذمہ وار نہیں ہو سکتا۔ معمولی مقدمہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کر سکتے۔ پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھتے ہو جس کی نسبت فرمایا۔یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْء ُ مِنْ أَخِیْہِ(عبس:۳۵)۔
مخالفوں کا تو یہ فرض تھا کہ وہ حسن ظنّی سے کام لیتے اوروَلاَ تَقْفُ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ(بنی اسرآئیل:۳۷) پر عمل کرتے مگر انہوں نے جلد بازی سے کام لیا۔یاد رکھو پہلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں۔ عقلمند وہ ہے جو مخالفت کر کے بھی جب اُسے معلوم ہو کہ وہ غلطی پر تھا اُسے چھوڑ دے۔ مگر یہ بات تب نصیب ہوتی ہے کہ خدا ترسی ہو۔ دراصل مردوں کا کام یہی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔ وہی پہلوان ہے اور اُسی کو خدا تعالیٰ پسند کرتا ہے۔
{لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد ۲۰،صفحہ۹۳ ۲ تا ۲۹۶}

مکمل تحریر >>

Tuesday, 12 July 2016

کیا مرزا صاحب کی وفات بیت الخلاء میں ہوئی ؟

ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الخلاء میں فوت ہوئے اس لئے وہ سچے نبی نہیں ہو سکتے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
                یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْھِم  مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ۔
ترجمہ :۔وائے حسرت بندوں پر !ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر و ہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔
اس اعتراض کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر تمسخر اڑانے کی بیہودہ کوشش ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی صداقت ہے۔

کس کی گواہی پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے ؟

حیرت ہوتی ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے سوچتے کیوں نہیں کہ یہ اعتراض انکی حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتا ہے ۔کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارے میں جو سوانح ان لوگوں نے قلمبند کی ہیں جو ان ایام میں آپ کے ساتھ تھے ، انہی کی بات سچی سمجھی جائے گی۔ کیا یہ اعتراض کرنے والا کوئی مخالف یا معاند یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس موجود تھا ؟اگر نہیں تھا تو پھر کس کی شہادت کی بناء پر ایسا بیہودہ اعتراض کیا جاتا ہے ؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارہ میں جماعت احمدیہ میں جو لٹریچر موجود ہے اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ آپؑ نعوذباللہ بیت الخلاء میں فوت ہوئے بلکہ یہی ذکر ملتا ہے کہ آپؑ اپنے بستر پر فوت ہوئے اور آپؑ کے آخری الفاظ “اللہ میرے پیارے اللہ”تھے۔
پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت بھی آپؑ کے معاندین نے یہ اعتراض نہیں کیا بلکہ آپؑ کی وفات کے بہت  بعد میں یہ اعتراض بنایا گیا ہے ۔اگر فی الحقیقت ایسا ہوا تھا تو اس وقت کے معاندین احمدیت کے پاس یہ اچھا موقع تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اعتراض کرنے کا۔اس سے یہی پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض گھڑا گیا ہے اور اسکی کوئی حقیقت نہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی تصنیف “سلسلہ احمدیہ “میں حضورؑ کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
 کوئی گیارہ بجے رات کا وقت ہو گا آپ کو پاخانہ جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور آپ اٹھ کر رفع حاجت کےلئے تشریف لے گئے ۔ آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی ۔ اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحب کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہو گئی ہے ۔ وہ فورًا اٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں اور چونکہ آپؑ کو پاؤں دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا اس لئے چارپائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں۔ اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کےلئے گئےاور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چارپائی پر لیٹتے ہوئے اپنے جسم کو سہار نہیں سکےاور قریبًا بے سہارا ہو کر چارپائی پر گر گئے۔ اس پر حضرت والدہ صاحب نے گھبرا کر کہا”اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ؟”آپؑ نے فرمایا “یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔”یعنی اب مقدر وقت آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک نہایت ماہر طبیب تھے)کو بلوا لو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ محمود (یعنی ہمارے بڑے بھائی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب)اور میر صاحب(یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے خسر تھے) کو جگا دو۔ چنانچہ یہ سب لوگ جمع ہو گئےاور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوا لیا گیا اور علا ج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی  وہ کی گئی ۔ مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں۔ کمزوری لحظہ بلحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی ۔ دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپؑ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تینوں لفظو ں میں محدود تھا ۔”اللہ میرے پیارے اللہ۔”اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا ۔
 صبح کی نماز کا وقت ہوا تو خاکسار مؤلف بھی پاس کھڑا تھا نحیف آواز میں دریافت فرمایا “کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”ایک خادم نے عرض کیا۔ ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم  کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیتے  ہی نماز کی نیت باندھی ۔ مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت  ہو گئی ۔ جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا کیا”نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ “اللہ ۔ میرے پیارے اللہ”سنائی دیتےتھے اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جا تا تھا ۔
  آخر صبح دس بجےکے قریب نزع کی حالت پیدا ہو گئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالت بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس وقت تک حضرت والدہ صاحب نہایت صبراور برداشت کے ساتھ دعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آتا تھا کہ “خدایا!ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوتی ہے تو میری زندگی بھی انکو عطا کر دے۔”لیکن اب جبکہ نزع کی حالت پیدا ہو گئی تو انہوں نے نہایت درد بھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا “خدایا !اب یہ تو ہمیں چھوڑرہے ہیں لیکن تو ہمیں نہ چھوڑیو۔”آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقااور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ  ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔”
(سلسلہ احمدیہ ۔ جلد اول صفحہ 176تا178)
یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور آپؑ کے آخری لمحات میں آپؑ کے پاس موجود تھے ۔ آپؑ کے بیان میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ نعوذباللہ حضور ؑ بیت الخلاء میں فوت ہوئے۔نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ محترمہ بھی وہاں موجود تھیں۔ ان میں سے کسی سے ایسا کوئی بیان منسوب نہیں جو اعتراض کیا جا رہا ہے ۔
            اور اگر کوئی معاند و مخالف حضور ؑ کی دستوں کی بیماری پر تمسخر کرتا ہے تو یہ اسکی اپنی گندہ دہنی اور ذہنی پستی کا ثبوت ہے ۔ اس سے حقیقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ حضور ؑ نے اپنے بستر پر  وفات پائی ۔

مکمل تحریر >>

Saturday, 9 July 2016

عدالت میں معاہدہ کی حقیقت

اعتراض : مرزا صاحب نے مجسٹریٹ سے ڈر کر عدالت میں لکھ دیا کہ میں کوئی ایسی پیشگوئی جو کسی کی موت کے متعلق ہو۔بغیر فریق ثانی کی اجازت کے شائع نہ کروں گا۔
جواب : ڈر کر ایسا کرنے کا اعتراض درست نہیں کیونکہ یہ معاہدہ تو حضرت اقدسؑ کے پرانے دستور کے مطابق ہوا تھا کیونکہ اس معاہدہ سے تیرہ سال پہلے آپ نے اشتہار 20؍فروری 1886 ء میں بعض لوگوں کے ذکر میں لکھا تھا:۔
’’اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ1886 ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے۔اور موجبِ دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس کے وقتِ ظہور سے خبر نہ دی جائے‘‘۔
(اشتہار مذکور مندرجہ تبلیغِ رسالت جلد1 صفحہ58 مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 95)
پھر خاص عدالتی معاہدہ کے متعلق لکھتے ہیں:۔
’’یہ ایسے دستخط نہیں ہیں جن سے ہمارے کاروبار میں کچھ بھی حرج ہو۔بلکہ مدت ہوئی کہ میں کتاب انجام آتھم کے صفحہ اخیر میں بتصریح اشتہار دے چکا ہوں کہ ہم آئندہ ان لوگوں کو مخاطب نہیں کریں گے جب تک خود ان کی طرف سے تحریک نہ ہو۔بلکہ اس بارے میں ایک اشتہار بھی شائع کر چکا ہوں جو میری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے…مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ ان لوگوں نے محض شرارت سے یہ بھی مشہور کیا ہے کہ اب الہام کے شائع کرنے کی ممانعت ہو گئی اور ہنسی سے کہا کہ اب الہام کے دروازے بند ہو گئے۔مگرذرہ حیاء کو کام میں لا کر سوچیں کہ اگر الہام کے دروازے بند ہو گئے تھے تو میری بعد کی تالیفات میں کیوں الہام شائع ہوئے۔اسی کتاب تریاق القلوب کو دیکھیں کہ کیا اس میں الہام کم ہیں‘‘۔
     (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ314حاشیہ)
پھر اس معاہدہ سے چھ سال قبل حضورؑ نے تحریر فرمایا:۔
’’اس عاجز نے اشتہار20 ؍فروری1886 ء میں… اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضاء و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں۔سواس اشتہار کے بعد اندر من نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا۔لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے‘‘۔
 (اشتہار20 فروری 1893 ء تبلیغ رسالت جلد3 صفحہ4  مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 304)
پھر20 ؍فروری1899 ء کے اشتہار میں یعنی معاہدہ عدالت کے چار دن پہلے سے جو 24 ؍فروری1899 ء کو ہوا تحریر فرماتے ہیں:۔ ’’میرا ابتداء ہی سے یہ طریق ہے کہ مَیں نے کبھی کوئی انذاری پیشگوئی بغیر رضامندی مصداقِ پیشگوئی کے شائع نہیں کی‘‘۔
(تبلیغ رسالت جلد8 صفحہ28 )
پس جو احتیاط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انذاری پیشگوئیوں کے متعلق پہلے سے کر رکھی تھی۔بالکل اسی کے مطابق عدالت میں معاہدہ ہواہے تو پھر عدالت سے ڈر کر معاہدہ کرنے کا الزام باطل ہوا۔
مکمل تحریر >>

دعویٰ نبوت کے انکار و اقرار میں تطبیق

اعتراض : مرزا صاحب نے کئی جگہ نبی ہونے سے انکار کیا ہے اور دعویٰ نبوت کو کفر قرار دیا ہے۔لیکن کئی جگہ اپنے آپ کو نبی کی صورت میں پیش کیا ہے۔
جواب : چونکہ نبی کی اقسام ہیں: تشریعی اور غیر تشریعی۔اس لئے پہلی قسم کا نبی ہونے سے آپؑ نے انکار کیا۔اور دوسری قسم کا نبی ہونے کا اس شرط کے ساتھ اقرار کیا ہے کہ آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی بھی ہیں۔چنانچہ آپؑ اپنے آخری خط میں جو اخبار عام مورخہ26؍مئی 1908 ء میں شائع ہوا لکھتے ہیں:۔
’’یہ الزام جو میرے پر لگایا جاتا ہے۔کہ مَیں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتااور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں یہ الزام میرے پر صحیح نہیں۔بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اِس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے‘‘۔
اِس کے بعداپنی نبوت کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’جس بناء پر مَیںاپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں،وہ صرف اس قدر ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اسکے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی امور کی کثرت کی و جہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دُنیا سے گزر جائوں گا‘‘
  (خط مندرجہ اخبار عام26؍مئی1908ء)
اور اشتہار ’’ایک غلطی کے ازالہ‘‘میں فرماتے ہیں:۔
’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیںہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔مگر ان معنوں سے کہ مَیں نے اپنے رسولِ مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔بلکہ انہیں معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پُکارا ہے۔سو اب بھی مَیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا‘‘۔
  (ایک غلطی کاازالہ روحانی خزائن جلد18صفحہ211-210)

اور پھر نزول المسیح  حاشیہ صفحہ3پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس نکتہ کو یادرکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیّتِ کاملہ کے۔میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے‘‘۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ381حاشیہ)
پس نبوت کے اقرار اور انکار میں وجوہ مختلف ہیں۔لہٰذا اس میں کوئی تناقض نہیں۔
مکمل تحریر >>

حقیقت نصف قطعہ نوٹ بجواب مرزا غلام احمد قادیانی ٹیکس چور

ایک جاہل نے اپنی طرف سے بڑا علمی اعتراض کیا ہے کہ مرزا صاحب نے مولانا حکیم نورالدین سے پانچ سو روپے کو نصف نوٹ کروا کر دو دفعہ میں اس لیے منگوایا کہ ٹیکس بچایا جاسکے ، اب اس کی حقیقت ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ کتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے اس شیطان کی نسل نے یہ اعتراض کر کے ۔

اعتراض کے لیے جو خط کا حوالہ دیا ہے وہ درج ذیل ہے ۔
"آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سو روپیہ پہنچ گیا چونکہ موسم برسات کا ہے اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑہ رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرمائیں تو روپیہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے"
خاکسار غلام احمد از قادیان 11 جولائی 1887 .
(مکتوبات احمدیہ ج 5 ح 2 ص 35 )

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برٹش انڈیا میں یہ قانون تھا کہ نوٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ پہلی دفعہ میں پوسٹ کیا جاتا تھا اور دوسرا حصہ بعد میں بھیجا جاتا تھا ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ Reserve Bank Of India کی ویب سائٹ پر یہ بات اس طرح موجود ہے ۔
British India Notes facilitated inter-spatial transfer of funds. As a security precaution, notes were cut in half. One set was sent by post. On confirmation of receipt, the other half was despatched by post.

https://rbi.org.in/Scripts/pm_britishindia.aspx




یہ ہے اصل بات لیکن جن کے نصیب میں کافر ہونا لکھا ہے وہ ایسے اعتراض کر کے ساتھ گالیاں نکالتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن حدیث سے بات کرنے کو ان کے پاس کوئی چیز موجود نہیں ۔۔

اعتراض والے کی زبان اس لنک پر دیکھی جاسکتی ہے کہ کیسے کفر اور جہالت میں پاگل ہوا پڑا ہے۔۔
http://ahtisaab.blogspot.hk/2015/04/blog-post_27.html

مکمل تحریر >>

Wednesday, 6 July 2016

مسائل عیدالفطر





ماہ رمضان کے گزرنے پر یکم شوال کو روزوں کی برکات حاصل کرنے کی توفیق پانے کی خوشی میں عیدالفطر منائی جاتی ہے ۔ نماز عید کا اجتماع ایک رنگ میں مسلمانوں کی ثقافت اور دینی عظمت کا مظہر ہوتا ہے اس لئے مرد وعورت اوربچے سب شامل ہوتے ہیں۔

*۔۔۔حضرت امّ عطیہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ارشاد فرماتے تھے کہ ہم عیدین کے دن سب لوگ عورتیں، بچے عید پر جائیں ۔ یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی عید اور اس کی دعامیں شامل ہونے کاحکم ہوتا البتہ وہ نمازمیں شامل نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ اتنا تاکیدی ارشاد اس بارہ میں فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کسی سہیلی سے مانگ لے اورعید پر ضرور جائے۔(بخاری و مسلم ، کتاب العیدین)

آنحضرت ؐ کیسے عید مناتے تھے


عید کے اس بابرکت تہوارکے لئے بھی آنحضرت ﷺ نے آداب سکھائے اور ہدایات دیں۔ عید کے دن آنحضرت ﷺ خاص صفائی کا اہتمام فرماتے۔ غسل فرماتے، مسواک اورخوشبو کا استعمال کرتے اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے ۔ اگر میسر ہو تو نئے کپڑے پہنتے۔ مسلمانوں کے اس قومی و مذہبی تہوارمیں شمولیت کے لئے آنحضرت ﷺ خاص تحریک فرماتے تھے۔

*۔۔۔آنحضرت ﷺ عیدالفطر کے روز صبح کچھ طاق عدد میں کھجوریں تناول فرما کر عید پر جاتے تھے۔ البتہ عیدالاضحی کے دن آپ قربانی کے گوشت سے کھانا شروع کرتے تھے۔ آپ ؐ کا معمول تھا کہ ایک راستے سے عیدگاہ تشریف لاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لے جاتے تاکہ مسلمانوں کے تہوار کی عظمت لوگوں پرظاہر ہو اورباہم ملاقات اورخوشی کے زیادہ مواقع میسر آ ئیں۔ اوردونوں راستوں پر آباد لوگ آپ ؐ کی برکت حاصل کر سکیں۔

*۔۔۔عید کے دن کھیل او ر ورزشی مقابلے بھی ہوتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ عید کے موقع پر اہل حبشہ ڈھال اور برچھی سے اپنے کھیل اورمہارت کے فن دکھاتے۔ شاید میں نے آنحضرت ؐ سے کہا یا آپ ؐ نے خود فرمایا کہ کیا ان کے کھیل کرتب دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا ہاں! تب آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اس طرح کہ میرا رخسار آپ کے رخسار کے ساتھ تھا۔ آپ ؐ کھیلنے والوں کا خوب حوصلہ بڑھاتے رہے۔ پھر میں خود ہی تھک گئی تو آپ ؐ نے مجھے فرمایا بس کافی ہے؟ میں نے کہا: ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا اچھا تو جاؤ۔

*۔۔۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن انصار کی دو لڑکیاں میرے پاس بیٹھی جنگ بعاث کے نغمے سنا رہی تھیں۔ آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو آپ بسترپر آ کر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو ان لڑکیوں کو گاتے دیکھ کر مجھے ڈانٹا اور فرمایا رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی گانا؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا :اے ابوبکرؓ ہر قوم کی عید کا ایک دن ہوتاہے اوریہ ہماری عید کا دن ہے۔

*۔۔۔اچھے کھانے ، خوبصورت کپڑے اورکھیل کود تو ظاہری خوشی کے اظہارکے طریقے ہیں ۔ ایک مسلمان کی حقیقی خوشی اور سچی عید تو یہ ہے کہ اس کاخدا اس سے راضی ہو جائے۔ اس لئے تیس دن کے روزے رکھنے کے بعد عید کے روز مسلمان خدا تعالیٰ کے شکرانہ کے طورپر دو رکعت نماز عید بھی ادا کرتے ہیں۔ عید کی دو رکعت نماز کسی بھی کھلے میدان یا عیدگاہ میں زوالِ شمس سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ حسب ضرورت عید کی نماز جامع مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے ۔ عید کی نماز باجماعت ہی پڑھی جا سکتی ہے اکیلے جائز نہیں۔

*۔۔۔احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ عیدین کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے اور سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ نماز شروع فرماتے ۔ نمازسے فراغت کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اورلوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ حضور ؐ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ، ضروری احکام کا اعلان فرماتے اور پھر ا س سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتے۔

*۔۔۔عید کے خطبہ میں عورتوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور ان تک آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو امام علیحدہ طورپر بھی عورتوں کو خطاب کر سکتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک عید کا خطبہ دیا اس کے بعد آپ عورتوں کی صفوں کے پاس تشریف لائے۔ حضرت بلالؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ آپ ؐنے ان کو وعظ ونصیحت فرمائی۔ خاوندوں کی اطاعت کی اور زبان درازی سے بچنے کی تلقین فرمائی اور صدقہ دینے کی تحریک کی۔ حضور ؐ کی اس تحریک پر عورتیں ہاتھوں، کانوں اور گلے کے زیور اتار اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈالنے لگیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ؐ واپس تشریف لائے۔

*۔۔۔نماز عید میں نہ تکبیر ہوتی ہے نہ اذان۔ نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ بھرآسمان پر جانے کا ہے۔ موسم کے حالات کے لحاظ سے عید کا وقت لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھ کر مقررکرنا چاہئے۔ عام طورپر عید الفطر نسبتاً تاخیر سے اور عیدالاضحی جلدی پڑھی جائے یہی سنت ہے۔

*۔۔۔نماز عید کی دونوں رکعات میں بلند آواز سے قراء ت کی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مسجد میں پہنچتے تو اذان و اقامت کے بغیرہی نمازشروع فرما دیتے اور سنت یہی ہے کہ ان میں سے کوئی فعل نہ کیا جائے۔ آپؐاور آپؐ کے صحابہؓ جب عیدگاہ پہنچتے تو عید سے قبل کوئی نفل وغیرہ نہ پڑھتے اور نہ بعد میں پڑھتے اور خطبہ سے پہلے نماز شروع کرتے۔ پہلی رکعت میں سات مسلسل تکبیریں کہتے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک ہلکا سا وقفہ ہوتا۔ تکبیرات کے درمیان آپ ؐ سے کوئی مخصوص ذکر مروی نہیں۔ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ جب تکبیریں ختم فرماتے تو قراء ت شروع کرتے۔ یعنی سورہ فاتحہ پھر اس کے بعد سورہ ق و القرآن المجید، ایک رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں اقتربتِ الساعۃ وانشق القمر پڑھتے۔ بسااوقات آپ ؐ دو رکعتوں میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتٰک حدیث الغاشیۃ پڑھتے ۔جب قراء ت سے فارغ ہو جاتے تو تکبیر کہتے اور رکوع میں چلے جاتے۔ پھر ایک رکعت مکمل کرتے اور سجدہ سے اٹھتے ۔ پھر پانچ بار مسلسل تکبیریں مکمل کر لیتے تو قرأت شروع کر دیتے۔ اس طرح ہر رکعت کے آغاز میں تکبیریں کہتے اور بعد میں قرأت کرتے ۔

*۔۔۔آنحضرت ﷺ جب نماز مکمل کر لیتے تو فارغ ہونے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ،لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے توآپ ؐ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے۔ عیدگاہ میں کوئی منبر نہ تھا جس پر چڑھ کر وعظ فرماتے ہوں ،نہ مدینہ کامنبر یہاں لایاجا سکتاتھا بلکہ آپ ؐزمین پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے۔

*۔۔۔حضرت جابرؓ بتاتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر ہوا تو آپ ؐ نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ اس سے فارغ ہو کر حضرت بلالؓ کے کندھے کاسہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم فرمایا۔ اس کی اطاعت کی رغبت دلائی اور نصیحت کی اور پھر انعامات خداوندی وغیرہ یاد دلائے۔ پھر آپؐ خواتین کی طرف تشریف لے گئے اورانہیں نصیحت کی۔

*۔۔۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں عید اور جمعہ ایک ہی دن اکٹھے آ گئے۔ آپ ؐ نے نماز عید پڑھائی اور پھر فرمایا عید کی نماز جمعہ کا بدل ہے اس لئے اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لئے نہ آنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔ البتہ ہم انشاء اللہ وقت پرجمعہ پڑھیں گے۔(سنن ابن ماجہ الجزء الاول کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا۔ باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم)

اگر عید کی نماز پہلے دن زوال سے پہلے نہ پڑھی جا سکے تو عیدالفطر دوسرے دن اور عیدالاضحیہ تیسرے دن زوال سے پہلے پڑھی جا سکتی ہے۔

نفلی روزے۔ شوال کے چھ روزے


حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد (عید کا دن چھوڑ کر) شوال کے چھ روزے رکھے اس کا اتنا ثواب ملتاہے جیسے اس نے سال بھر کے روزے رکھے ہوں۔(مسلم کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال)

نفل وہ زائد عبادت ہے جو بندہ خوشی سے اپنے مولا کو راضی کرنے کے لئے بجا لاتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بندہ کی نفلی عبادت سے بہت خوش ہوتا ہے۔ رسو ل اللہﷺ نے ایک حدیث قدسی بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ برابر میرا قرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔(بخاری)

نفلی روزوں کا بھی بہت ثواب ہے جو مختلف مواقع پر آنحضرت ﷺ نے نفلی روزوں کی تحریک کرتے ہوئے بیان فرمایا۔ چنانچہ حدیث مذکور ہ بالا میں رمضان کے تیس روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کا ارشاد فرمایا اوراس کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر بتایا۔ حساب کی زبان میں اس میں یہ سرّ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ دس گنا عطا فرماتا ہے اور ۳۶ روزوں کا ثواب ۳۶۰ دنوں کے برابر بنتا ہے جو قریباً ایک سال کا عرصہ ہے ۔

لیکن اصل حکمت رمضا ن کے فرض روزوں کے ساتھ شوال کے نفلی روزوں میں نیکی کا تسلسل ہے اوراس امر کی تربیت ہے کہ رمضان کا مجاہدہ اوراس کی عبادات صرف ایک مہینہ تک محدود نہ رہیں بلکہ سار ے سال پر پھیل جائیں اور رمضان کے علاوہ باقی ایام میں بھی ان نیکیوں کی عادت رہے۔ اورظاہر ہے جسے رمضان کے بابرکت مہینہ کا یہ نتیجہ حاصل ہو جائے اس کا سارا سال کیا سارازمانہ اور ساری عمر رمضان ہے جس میں وہ رمضان کی برکتیں حاصل کرتا چلا جائے گا۔

ماہ رمضان کے اس تسلسل کو دوران سال جاری رکھنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہے وہ صوم الدھر یعنی سال بھر کے روزے رکھنے والے کے برابر ہے۔

*۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ کو آنحضرت ﷺ نے جو تین وصیتیں فرمائی تھیں ا ن میں سے ایک یہ تھی کہ ہر مہینہ میں تین نفلی روزے رکھنا۔ (ترمذی)

*۔۔۔حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا اے ابوذر! جب تم مہینہ میں سے تین دن کے روزے رکھنا چاہو تو ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخوں کے روزے رکھنا (ترمذی) لیکن ان تاریخوں کے علاوہ بھی آنحضرت ﷺ سے ہر مہینہ کے نفلی روزے رکھنے حضرت عائشہؓ کی روایت سے ثابت ہیں۔ (ترمذی)

*۔۔۔نفلی روزہ کے لئے رات کو نیت کرنا ضروری نہیں۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لا کر پوچھتے کہ ناشتہ کے لئے کوئی چیز ہے ؟ میں کہتی کہ نہیں ہے تو آپ ؐفرماتے اچھا میں روزہ رکھ لیتاہوں ۔(ترمذی)

*۔۔۔نفلی روزہ کھولنے کے لئے وہ کفارہ نہیں جو فرض روزے کا ہے ۔ آنحضرت ﷺ ام ھانیؓ کے پاس تشریف لائے اور پانی منگوایا۔ حضور ؐ نے پانی پی کر برتن ان کوواپس کیا تو انہوں نے حضور ؐ کا بچاہواپانی پی لیا۔ پھر عرض کی کہ حضور ؐ مجھے تو روزہ تھا ۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا یہ قضا کا روز ہ تو نہیں تھا۔ امّ ھانیؓ نے کہا نہیں۔ فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔ نیز فرمایا ’’ نفلی روزے والا اپنے نفس کا خود امین ہوتاہے چاہے تو روزہ پورا کر ے چاہے افطار کرے ‘‘۔ (ترمذی)

لیکن اگر روزہ افطارکرے تو اس کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہوگا۔

*۔۔۔*۔۔۔*
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۵؍فروری ۱۹۹۸ء)
مکمل تحریر >>

Sunday, 3 July 2016

مناظرہ مابین جماعت احمدیہ و شیعہ اثناعشریہ



مناظرہ مہت پور : یہ مناظرہ مابین اہل تشیع و جماعت احمدیہ ایک نہایت دلچسپ مناظرہ ہے ، مناظرہ ۱۹۳۶ میں چار دن تک جاری رہا ، جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابو العطاء جالندھری اور شیعہ احباب کی طرف سے مرزا یوسف حسین مناظر تھے ، مناظرہ چار موضوعات پر طے پایا جو درج ذیل ہیں ۔
۱ ۔ صداقت مسیح موعود  مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
۲ ۔ مسئلہ متعہ النساء
۳ ۔ اثبات نبوت بعد از حضرت محمد ﷺ
۴ ۔ تعزیہ داری

اول و سوم میں مدعی جماعت احمدیہ تھی اور دوم و چہارم میں مدعی شیعہ تھے ۔ اس مناظرہ میں جماعت احمدیہ کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
Download Munazara Mehat Pur

مکمل تحریر >>

Saturday, 2 July 2016

مسلمان کی تعریف اور جماعتِ احمدیہ کا مؤقف کتاب



مسلمان کی تعریف اور جماعتِ احمدیہ کا مؤقف

کتاب: محضر نامہ




دُنیا بھر میں یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی نَوع معیّن کرنے سے قبل اس نَوع کی جامع و مانع تعریف کر دی جاتی ہے جو ایک کسوٹی کا کام دیتی ہے اور جب تک وہ تعریف قائم رہے اِس بات کا فیصلہ آسان ہو جاتا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اس نَوع میں داخل شمار کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اِس لحاظ سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اِس مسئلے پر مزید غور سے قبل مسلمان کی ایک جامع و مانع متفق علیہ تعریف کی جائے جس پر نہ صرف مسلمانوں کے تمام فرقے متفق ہوں بلکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اس تعریف پر اتفاق ہو۔ اِس ضمن میں مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرنا ضروری ہو گا۔
ا : کیا کتاب اﷲ یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں بِلا استثناء کیا گیا ہو؟ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟
ب  : کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اﷲ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہو اور خود آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو۔ کسی زمانہ میں بھی کوئی اَور تعریف کرنا کسی کے لئے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
ج  : مذکورہ بالاتعریف کے علاوہ مختلف زمانوں میں مختلف علماء یا فرقوں کی طرف سے اگر مسلمان کی کچھ دوسری تعریفات کی گئی ہیں تو وہ کون کون سی ہیں؟ اور اوّل الذکر شِق میںبیان کردہ تعریف کے مقابل پر ان کی کیا شرعی حیثیت ہو گی؟
د  : حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں فتنۂ اِرتداد کے وقت کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یا آپؐ کے صحابہ ؓ نے یہ ضرورت محسوس فرمائی کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج شدہ تعریف میںکوئی ترمیم کریں؟
ر  : کیا زمانۂ نبوی ؐ یا زمانۂ خلافتِ راشدہ میں کوئی ایسی مثال نظر آتی ہے کہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کے اِقرار کے اور دیگر چار ارکانِ اسلام یعنی نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو؟
س  : اگر اِس بات کی اجازت ہے کہ پانچ ارکانِ اسلام پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تشریح کرنے کی وجہ سے جو بعض دیگر فرقوں کے علماء کو قابلِ قبول نہ ہو دائرۂِ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے یا ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے جو بعض دیگر فرقوں کے نزدیک اِسلام کے منافی ہے تو ایسی تشریحات اور عقائد کی تعیین بھی ضروری ہو گی تاکہ مسلمان کی مثبت تعریف میں یہ شِق داخل کر دی جائے کہ پانچ ارکانِ اسلام کے باوجود اگر کسی فرقہ کے عقائد میں یہ یہ اُمور داخل ہوں تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔
ص  : پنج ارکانِ اسلام پر ایمان کے باوجود اگر مسلمان فرقوں کی تکفیر کا کوئی ایسا دروازہ کھول دیا جائے جس کا ذکر شِق ’’ر‘‘ میں ہے توایسے تمام اُمور پر نظر کرنا عقلاً اور اِنصافاً ضروری ہے جن پر بِناء کرتے ہوئے مختلف علماء نے اپنے فرقہ کے علاوہ دیگر فرقوں کو قطعاً کافر، مُرتد یا دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ___مثال کے طور پر چند اُمور درج ذیل کئے جاتے ہیں:
ا  : قرآن کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کا عقیدہ۔(اشاعرہ۔ حنابلہ)
ب  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بَشر نہیں بلکہ نُور یقین کرنا۔(بریلوی)
ج  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نُور نہیں بلکہ بَشر یقین کرنا۔(اہلحدیث)
د  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق یہ ایمان رکھنا کہ حاضر ناظر بھی ہیں اور عالم الغیب بھی۔ (بریلوی)
ھ  : یہ ایمان رکھنا کہ فوت شدہ بزرگان سے امداد طلب کرنا جائزہے اور بہت سے وفات یافتہ اَولیاء یہ طاقت رکھتے ہیں کہ عندالطلب کسی کی مُراد پوری کر سکتے ہیں۔(بریلوی)
و  : یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے سوا شریعت میں کوئی اَور چیز مُعتبر نہیں لہٰذا ہم سُنّتِ رسول ؐ اور احادیث رسول ؐ کی پیروی کے پابند نہیں خواہ کیسے ہی تواتر اور قوی روایات سے ہم تک پہنچی ہوں۔ (چکڑالوی۔ پرویزی)
ز  : یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے تیس پاروں میں درج سُورتوں کے علاوہ بھی کچھ سُورتیں ایسی نازل ہوئی تھیں جن میں حضرت علی کرّم اﷲ وجہہٗ کا ذکر پایا جاتا تھا لیکن وہ سُورتیں ضائع کر دی گئیں لہٰذا جو قرآن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہؤا تھا وہ مکمل صورت میں ہم تک نہیں پہنچا۔ (غالی شیعہ)
ح: یہ عقیدہ رکھنا کہ جماعت خانوں میں پنجوقتہ نماز کی بجائے کسی بزرگ کی تصویر سامنے رکھ کر مُناجات کرنا جائز ہے اور خدا سے مخاطب ہونے کی بجائے اس بزرگ کی تصویر سے مخاطب ہو کر دُعا کرنی جائز ہے اور یہی دُعا نماز کے قائم مقام ہے۔ (اسمٰعیلی فرقہ)
ط  : یہ عقیدہ رکھنا کہ پنج تن پاک اور چھ دیگر صحابہ ؓ کے سوا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام صحابہ ؓ بشمولیت خلفائے راشدینِ ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضوان اﷲ علیہم اجمعین سب کے سب اِسلام سے برگشتہ ہو چکے تھے اور عیاذاً باﷲ منافق کا درجہ رکھتے تھے۔ نیز یہ عقیدہ کہ پہلے تین خلفاء نعوذ باﷲ غاصب تھے اِس لئے ان پر تبّرا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ (شیعہ)
ی  : کسی بزرگ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ خدا اس میں عارضی یا مُستقل طور پر حلول فرما چکا ہے۔(حلولی فرقہ)
مندرجہ بالا تنقیحات پر غور کرنا اِس لئے ضروری ہے کہ قطعی اور ٹھوس شواہد سے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے متعلق مختلف مسلمان فرقوں کے علماء اور مجتہدین قطعی فتویٰ صادر فرما چکے ہیں کہ ایسے عقائد کے حامل خواہ دیگر ضروریاتِ دین پر ایمان بھی رکھتے ہوں یقینا دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور اُن کے کُفر میں شک کرنے والا بھی بِلا شُبہ خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔
اِس ضمن میں بعض فتاویٰ ضمیمہ نمبر ۴ میں ملاحظہ فرمائیے۔
مندرجہ بالا اُمور کی روشنی میں ہم پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ اگر حقیقتاً عقل اور انصاف کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلام میں جماعتِ احمدیہ کی حیثیت پر غور فرمانا مقصود ہے یا اسلام میں آیت خاتم النّبییّن کی کسی تشریح کے قائل ہونے والے کسی فرد یا فرقہ کی حیثیت کا تعیّن کرنا مقصود ہے تو پھر ایسا پیمانہ تجویز کیا جائے جس میں ہر منافی اسلام عقیدہ رکھنے والے کے کُفر کو ماپا جاسکتا ہو اور اس پیمانہ میں جماعتِ احمدیہ کے لئے بہرحال کوئی گنجائش نہیں۔
مندرجہ بالا تمام سوالات کے بارے میں جماعتِ احمدیہ کے مؤقف کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اوّل: جماعتِ احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہو سکتی ہے جو قرآنِ عظیم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اسی پر عمل ثابت ہو۔ اِس اصل سے ہٹ کر مسلمان کی تعریف کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ رخنوں اور خرابیوں سے مبرّا نہیں ہو گی بالخصوص بعد کے زمانوں میں (جب کہ اسلام بٹتے بٹتے بہتّر فرقوں میں تقسیم ہو گیا) کی جانے والی تمام تعریفیں اس لئے بھی ردّ کرنے کے قابل ہیں کہ ان میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بیک وقت اُن سب کو قبول کرنا ممکن نہیں ___اور کسی ایک کو اختیار کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس طرح ایسا شخص دیگر تعریفوں کی رُو سے غیر مسلم قرار دیا جائے گا اور اس دَلدَل سے نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیں رہے گا۔ جسٹس محمد منیر نے ۱۹۵۳ء کی انکوائری کے دَوران جب مختلف علماء سے مسلمان کی تعریف پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا تو افسوس ہے کہ کوئی د۲و عالم بھی کسی ایک تعریف پر متفق نہ ہو سکے۔ چنانچہ اِس بارے میں جسٹس منیر صاحب افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
’’علماء کی طرف سے کی گئی مختلف تعریفوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کیا اِس امر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم کسی قسم کا تبصرہ کریں سوائے اس کے کہ کوئی بھی د۲و عالمانِ دین اِس بنیادی مسئلہ پر متفق نہیں ___اگر ہم بھی ایک عالمِ دین کی طرح اپنی طرف سے ایک تعریف کریں اور وہ باقی تمام تعریفوں سے مختلف ہو تو ہم خود بخود دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے ___اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی طرف سے کی گئی تعریف اختیار کریں تو ہم اس عالم کے نظریہ کے مطابق تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسری ہر تعریف کے مطابق کافر‘‘۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۱۷،۲۱۸)
جسٹس منیر جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ مسلمان کی تعریف کے بارہ میں رپورٹ کی تدوین تک کبھی کوئی ایسا اجماع نہیں ہؤا جسے سَلفِ صالحین کی سَند حاصل ہو لہٰذا آج اگر کوئی بظاہر متفق علیہ تعریف پیش کی جائے تو اسے اُمّت کی اجماعی تعریف ہر گز قرار نہیں دیا جائے گا اور اُسے سلفِ صالحین کی سند حاصل نہیں ہو گی۔
پس جماعتِ احمدیہ کا مؤقف یہ ہے کہ مسلمان کی وہی دستوری اور آئینی تعریف اختیار کی جائے جو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مُبارک سے ارشاد فرمائی اور جو اسلامی مملکت کے لئے ایک شاندار چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لئے ہم تین احادیثِ نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں:-
۱- حضرت جبریل علیہ السلام آدمی کے بھیس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضور ؐ سے پوچھا:
’’یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْ نِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ وَتُقِیْمَ الصَّلٰوۃَ وَتُؤْتِی الزَّکٰوۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ البَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا۔ قَالَ صَدَقْتَ۔ فَعَجِبْنَالَہٗ یَسْئَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ۔ قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ۔ قَالَ: اَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہ! وَرُسُلِہ! وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ صَدَقْتَ‘‘۔
   (مسلم کتاب الایمان باب نمبر ۱)
۲- ’’جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اَھْلِ نَجْدٍ ثَائِرَالرَّأْسِ نَسْمَعُ دَوِیَّ صَوْتِہٖ وَلَا نَفْقَہُ مَا یَقُوْلُ حَتّٰی دَنَافَاِذَا ھُوَ یَسْأَلُ عَنِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خمْسُ صَلٰوَتٍ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ فَقَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُ ھَا؟ قَالَ لَااِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصِیَامُ رَمَضَانَ قَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُہٗ؟ قَالَ لَا اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ وَذَکَرَلَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الزَّکَاۃَ قَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُھَا؟ قَالَ لَا اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ فأَدْبَرَالرَّجُلُ وَھُوَ یَقُوْلُ وَاﷲِ لَاأَزِیْدُ عَلٰی ھٰذَا وَلَا أَنْقُصُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ‘‘۔
  (صحیح بخاری کتاب الایمان باب الزکاۃ من الاسلام)
ترجمہ حدیث نمبر ۱:  کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم! مجھے اِسلام کے بارے میں مطلع فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تُو گواہی دے کہ اﷲ کے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگرراستہ کی توفیق ہو تو بیت اﷲ کا حج کرو۔ اس شخص نے کہا کہ حضور ؐ نے بجا فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب آیا کہ سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اُس شخص نے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اﷲ پر ایمان لائیں۔ اُس کے فرشتوں ، اُس کی کتابوں، اُس کے رسُولوں پر ایمان لائیں نیز یومِ آخر پر ایمان لائیں اور قضاء و قدر کے بارے میں خیر و شر پر بھی ایمان لائیں۔ اُس شخص نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا ہے۔
ترجمہ حدیث نمبر ۲:  اہلِ نجدمیں سے ایک شخص پراگندہ بالوں والا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سُنتے تھے مگر اس کی باتوں کو نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ شخص زیادہ قریب ہو گیا تو معلوم ہؤا کہ وہ حضور ؐ سے اِسلام کے بارے میں دریافت کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دن اور رات میں پانچ نمازیں مقرر ہیں۔ اس نے کہا کہ ان پانچ کے علاوہ اَور بھی نمازیں ہیں؟ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں بجز اس کے کہ تم بطور نفل ادا کرنا چاہو۔ حضور ؐ نے پھر فرمایا کہ رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا کہ رمضان کے روزوں کے علاوہ اَور بھی روزے فرض ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل رکھنا چاہو۔ پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سامنے زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی اَور ہے؟ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل زیادہ ادا کرنا چاہو۔ وہ شخص مجلس سے اُٹھ کر چل پڑا اور یہ کہہ رہا تھا کہ بخدا مَیں ان احکام پر نہ زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا ___رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اس قول میں سچّا ثابت ہؤا تو ضرور کامیاب ہو جائے گا۔
’’مَن صَلّٰی صَلٰوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ اَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ اﷲِ وَذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ فَـلَا تُخْفِرُوا اﷲَ فِیْ ذِمَّتِہٖ‘‘۔
    (بخاری کتاب الصلٰوۃ باب فضل استقبال القبلۃ)
’’جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں۔ اُس قبلہ کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اﷲ اور اُس کے رسول کا ذمّہ ہے۔ پس تم اﷲ کے دئے ہوئے ذمّے میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو‘‘۔ ۱؎
ہمارے مقدس آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس تعریف کے ذریعہ آنحضور ؐ نے نہایت جامع و مانع الفاظ میں عالمِ اسلامی کے اتحاد کی بین الاقوامی بُنیاد رکھ دی ہے اور ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ اِس بُنیادکو اپنے آئین میں نہایت واضح حیثیت سے تسلیم کرے ورنہ اُمّتِ مُسلمہ کا شیرازہ ہمیشہ بکھرا رہے گا اور فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہ ہو سکے گا___قرونِ اُولیٰ کے بعد گزشتہ چودہ صدیوں میں مختلف زمانوں میں مختلف علماء نے اپنی من گھڑت تعریفوں کی رُو سے کُفر کے جو فتاوٰی صادر فرمائے ہیں ان سے ایسی بھیانک صورتِ حال پیدا ہوئی ہے کہ کسی ایک صدی کے بزرگانِ دین، علمائے کرام، صوفیاء اور اولیاء اﷲ کا اسلام بھی ان تعریفوں کی رُو سے بچ نہیں سکا اور کوئی ایک فرقہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا جس کا کُفر بعض دیگر فرقوں کے نزدیک مسلّمہ نہ ہو۔ اِس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۵ لف ھٰذا کیا جاتا ہے۔

فتاوٰی کُفر کی حیثیت

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فتاوٰی کُفر کی کیا حیثیت ہے اور کیا کوئی عالمِ دین اِنفرادی حیثیت سے یا اپنے فرقہ کی نمائندگی میں کسی دوسرے فرد یا فرقہ پر کُفر کا فتویٰ دینے کا مجاز ہے یا نہیں اور ایسے فتاوٰی سے اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعی حیثیت پر کیا اثر پڑے گا؟
جماعتِ احمدیہ کے نزدیک ایسے فتاوٰی کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اِس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عند اﷲ کافر قرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حَشر نشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو گا۔ اِس لحاظ سے ان فتاوٰی کو اِس دُنیا میں محض ایک انتباہ کی حیثیت حاصل ہے اور جہاں تک دُنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو اُمّتِ مُسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا اہل یا مجاز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے روز جزا سزا کے دن ہی ہو سکتا ہے۔ دُنیا کے معاملات میں ان فتاوٰی کا اطلاق اُمّتِ مُسلمہ کی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کسی فرقے کے علماء کے فتویٰ کے پیش نظر کسی دوسرے فرقہ یا فرد کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ مؤقف کہ ایک فرقہ کے کُفر کے بارہ میں اگر باقی تمام فرقوں کا اتفاق ہو جائے توایسی صورت میں دائرۂ اسلام سے اس فرقہ کا اخراج جائز قرار دیا جاسکتا ہے اِس بناء پر غلط اور نامعقول ہے کہ (جیسا کہ ضمیمہ میں درج شُدہ فتاوٰی کے مطالعہ سے ظاہر ہو گا) عملاً مسلمانوں کے ہر فرقہ میں کچھ نہ کچھ اعتقادات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے متعلق اکثرفرقوں کا یہ اتفاق ہے کہ ان کا حامل دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور یہ صورتِ حال آسمانی حَکم و عَدل کا تقاضہ کرتی ہے۔
اگر آج بعض اختلافات کی بناء پر جماعتِ احمدیہ کے خلاف دیگر تمام فرقوں کا اتفاق ممکن ہے تو کل اہلِ تشیع کے خلاف ان کے بعض خصوصی عقائد کے بارے میں بھی ایسا ہوناممکن ہے اور اہلِ قرآن اَلموسُوم چکڑالوی یا پرویزی کے متعلق بھی ایسا ہو سکتا ہے اور اہلِ حدیث ، وہابی یا دیوبندیوں کے بعض عقائد کے متعلق بھی دیگر فرقوں کے علماء کا عملاً اتفاق ہے۔ پس سوادِ اعظم کا لفظ ایک مبالغہ آمیز تصور ہے۔ کسی ایک فرقہ کو خاص طور پر مدِّنظر رکھا جائے تو اس کے مقابل پر دیگر تمام فرقے سوادِ اعظم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اِس طرح باری باری ہر ایک فرقہ کے خلاف بقیہ سوادِ اعظم کا فتویٰ کُفر ثابت ہوتا چلا جائے گا۔
ہمارے نزدیک یہ فتاوٰی ظاہر پر مبنی ہیں اور فی ذاتہا ان کو جنت کا پروانہ یا جہنم کا وارنٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہاں تک حقیقتِ اسلام کا تعلق ہے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں ہم حقیقی مسلمان کی تعریف درج کرتے ہیں:-
’’اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیتِ کریمہ میں اُس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اﷲ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے۔
’’اِعتقادی‘‘ طور پر اِس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خداتعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور ’’عملی‘‘ طور پر اِس طرح سے کہ خالصاً  ِﷲ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبودِ حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے …
اَب آیاتِ ممدوحہ بالا پر ایک نظرِ غور ڈالنے سے ہرا یک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اِسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی مُعطیٔ حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اِعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اِسلام اور اس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعیٔ اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دِل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حِلم اور اس کا عِلم اور اس کی تمام رُوحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سَر کے بالوں سے پَیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیّات اور اس کے دِل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اُس شخص کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدقِ قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قویٰ الٰہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں۔
اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقتِ اسلام ہے د۲و قسم پر ہے۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اُس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیّت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بہ دل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلّل سے ان سب حُکموں اور حدّوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادتِ تام سَر پر اُٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اُس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اُس کی ملکُوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اُس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قوی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں۔
دوسری قسم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اُس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور باربرداری اور سچی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کردی جاوے۔ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دُکھ اُٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رَنج گوارا کر لیں۔
اِس تقریر سے معلوم ہؤا کہ اِسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اِس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقّب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخُدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیّت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے۔
پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا کہ جب اُس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اُس کے نفس امّارہ کا نقشِ ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مِٹ جائے اور پھر اِس موت کے بعد مُحسن ﷲ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اُس میں بجُز طاعتِ خالق اور ہمدردیٔ مخلوق کے اَور کچھ بھی نہ ہو۔
خالق کی طاعت اِس طرح سے کہ اُس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزّتی اور ذ  ّلت قبول کرنے کے لئے مُستعد ہو اور اُس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشیٔ خاطر کاٹ سکے اور اُس کے اَحکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضاجوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلاوے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھَسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہئے۔ غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے۔
اور خلق اﷲ کی خدمت اِس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طُرق کی راہ سے قسّامِ اَزل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے اِن تمام امور میں محض  ِﷲ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچّی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خدا داد قوت سے مدد دے اور اُن کی دُنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے ___
سو یہ عظیم الشان لِلّٰہی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حقیّتِ تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اسلام اور اِسلام کی حقیقت اور اِسلام کا لُبِّ لُباب ہے جو نفس اور خلق اور ہَوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے‘‘۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۸ تا ۶۲)

٭٭٭

مکمل تحریر >>