Tuesday, 12 July 2016

کیا مرزا صاحب کی وفات بیت الخلاء میں ہوئی ؟

ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الخلاء میں فوت ہوئے اس لئے وہ سچے نبی نہیں ہو سکتے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
                یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْھِم  مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ۔
ترجمہ :۔وائے حسرت بندوں پر !ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر و ہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔
اس اعتراض کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر تمسخر اڑانے کی بیہودہ کوشش ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی صداقت ہے۔

کس کی گواہی پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے ؟

حیرت ہوتی ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے سوچتے کیوں نہیں کہ یہ اعتراض انکی حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتا ہے ۔کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارے میں جو سوانح ان لوگوں نے قلمبند کی ہیں جو ان ایام میں آپ کے ساتھ تھے ، انہی کی بات سچی سمجھی جائے گی۔ کیا یہ اعتراض کرنے والا کوئی مخالف یا معاند یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس موجود تھا ؟اگر نہیں تھا تو پھر کس کی شہادت کی بناء پر ایسا بیہودہ اعتراض کیا جاتا ہے ؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارہ میں جماعت احمدیہ میں جو لٹریچر موجود ہے اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ آپؑ نعوذباللہ بیت الخلاء میں فوت ہوئے بلکہ یہی ذکر ملتا ہے کہ آپؑ اپنے بستر پر فوت ہوئے اور آپؑ کے آخری الفاظ “اللہ میرے پیارے اللہ”تھے۔
پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت بھی آپؑ کے معاندین نے یہ اعتراض نہیں کیا بلکہ آپؑ کی وفات کے بہت  بعد میں یہ اعتراض بنایا گیا ہے ۔اگر فی الحقیقت ایسا ہوا تھا تو اس وقت کے معاندین احمدیت کے پاس یہ اچھا موقع تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اعتراض کرنے کا۔اس سے یہی پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض گھڑا گیا ہے اور اسکی کوئی حقیقت نہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی تصنیف “سلسلہ احمدیہ “میں حضورؑ کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
 کوئی گیارہ بجے رات کا وقت ہو گا آپ کو پاخانہ جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور آپ اٹھ کر رفع حاجت کےلئے تشریف لے گئے ۔ آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی ۔ اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحب کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہو گئی ہے ۔ وہ فورًا اٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں اور چونکہ آپؑ کو پاؤں دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا اس لئے چارپائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں۔ اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کےلئے گئےاور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چارپائی پر لیٹتے ہوئے اپنے جسم کو سہار نہیں سکےاور قریبًا بے سہارا ہو کر چارپائی پر گر گئے۔ اس پر حضرت والدہ صاحب نے گھبرا کر کہا”اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ؟”آپؑ نے فرمایا “یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔”یعنی اب مقدر وقت آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک نہایت ماہر طبیب تھے)کو بلوا لو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ محمود (یعنی ہمارے بڑے بھائی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب)اور میر صاحب(یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے خسر تھے) کو جگا دو۔ چنانچہ یہ سب لوگ جمع ہو گئےاور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوا لیا گیا اور علا ج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی  وہ کی گئی ۔ مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں۔ کمزوری لحظہ بلحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی ۔ دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپؑ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تینوں لفظو ں میں محدود تھا ۔”اللہ میرے پیارے اللہ۔”اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا ۔
 صبح کی نماز کا وقت ہوا تو خاکسار مؤلف بھی پاس کھڑا تھا نحیف آواز میں دریافت فرمایا “کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”ایک خادم نے عرض کیا۔ ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم  کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیتے  ہی نماز کی نیت باندھی ۔ مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت  ہو گئی ۔ جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا کیا”نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ “اللہ ۔ میرے پیارے اللہ”سنائی دیتےتھے اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جا تا تھا ۔
  آخر صبح دس بجےکے قریب نزع کی حالت پیدا ہو گئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالت بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس وقت تک حضرت والدہ صاحب نہایت صبراور برداشت کے ساتھ دعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آتا تھا کہ “خدایا!ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوتی ہے تو میری زندگی بھی انکو عطا کر دے۔”لیکن اب جبکہ نزع کی حالت پیدا ہو گئی تو انہوں نے نہایت درد بھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا “خدایا !اب یہ تو ہمیں چھوڑرہے ہیں لیکن تو ہمیں نہ چھوڑیو۔”آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقااور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ  ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔”
(سلسلہ احمدیہ ۔ جلد اول صفحہ 176تا178)
یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور آپؑ کے آخری لمحات میں آپؑ کے پاس موجود تھے ۔ آپؑ کے بیان میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ نعوذباللہ حضور ؑ بیت الخلاء میں فوت ہوئے۔نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ محترمہ بھی وہاں موجود تھیں۔ ان میں سے کسی سے ایسا کوئی بیان منسوب نہیں جو اعتراض کیا جا رہا ہے ۔
            اور اگر کوئی معاند و مخالف حضور ؑ کی دستوں کی بیماری پر تمسخر کرتا ہے تو یہ اسکی اپنی گندہ دہنی اور ذہنی پستی کا ثبوت ہے ۔ اس سے حقیقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ حضور ؑ نے اپنے بستر پر  وفات پائی ۔

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

نبیوں کا وسال سے قبل بیمار ہونا اعتراض کا باعث نہیں ہوسکتا اس کی ذیل میں نبی کریمﷺ کے وصال اک واقعہ جو بالکل ایسا ہی ہے جب نبی کریمﷺ کمزوری سے بول نہیں سکتے تھے اور کاپی پنسل منگوایا لیکن کچھ لکھوا نہ سکے اور نماز پر چل کر نہ جاسکے اور صحابہ ؓ کے کندھے پر مسجد میںگئے وغیرہ بھی درج کیا جاسکتا ہے ۔ آپ نے اچھا جواب دیا ہے اس میں مزید اضافہ بھی کرتے رہیں