Sunday, 24 April 2016

لفظی الہام اور علامہ اقبال





از مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعۃ المبشرین

مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے ایک کتاب ذکر اقبال کے نام سے شائع کی ہے جسے بزم اقبال نے شائع کیا ہے اس کے صفحہ ۲۴۴ پر الہام لفظی کے عنوان کے ماتحت سالک صاحب لکھتے ہیں :۔
’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے فارمن کرسچن لاہور کا سالانہ اجلاس تھا جس میں علامہ بھی مدعو تھے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ سے کہاکہ آپ چائے اور اجلاس سے فارغ ہونے کے بعد ذرا ٹھہرئیے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ڈاکٹرلوکس تقریب سے فارغ ہونے  کے بعد علامہ کے پاس آئے اور سوال کیا کہ آیاآپ کے نزدیک آپ کے نبی ؐ پر قرآن مجید کا مفہوم نازل ہوا تھا جسے و ہ آپ الفا ظ میں بیان کر دیتے تھے یا الفاظ بھی نازل ہوتے تھے؟ علامہ نے صاف جواب دیا کہ میرے نزدیک قرآن کی عبارت عربی زبان میں آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھی یعنی قرآن کے مطالب ہی نہیں بلکہ الفاظ بھی الہامی ہیں ڈاکٹر لوکس نے اس پر بہت تعجب کا اظہار کیا اورکہا کہ میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جیسا اعلیٰ پایہ کا فلسفی Verbal Inspiration(الہام لفظی) پر کیونکر اعتقاد رکھ سکتا ہے علامہ نے ارشاد فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب میں اس معاملہ میں کسی دلیل کا محتاج نہیں مجھے تو خود اس کا تجربہ حاصل ہے میں پیغمر نہیں ہوں محض شاعر ہوں جب مجھ پر شعرکہنے کی کیفت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلاے شعر اُترنے لگتے ہیں اور میں انہیں بعینہ نقل کر لیتاہوں بارہا ایسا ہوا ہے کہ میں نے ان شعروں میں کوئی ترمیم کرنی چاہی لیکن میری کوئی ترمیم اصل اور نازل شدہ شعرمیں بہت ہی ہیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں رکھا ۔ جس حالت میں ایک شاعرپر پورا شعر نازل ہو سکتا ہے تو اس میں کیا مقام تعجب ہے کہ آنحضرت صلعم  پر قرآن کی ساری عبارت لفظ بہ لفظ نازل ہوتی تھی؟ اس پر ڈاکٹر لوکس لاجواب ہوگئے۔

سوال کیا گیا کہ آیا آپ پر شعر کہنے کی کیفت اکثر طاری ہوتی ہے ؟فرمایا نہیں ایسی کیفیت سال بھر میں دو تین دفعہ ہوتی ہے لیکن اس وقت مضامین کے ہجوم کی کیفیت وہی ہوتی ہے جیسے کسی ماہی گیر کے جال میں اس کثرت سے مچھلیاں پھنس جائیں کہ وہ پریشان ہو جائے کہ کس کو پکڑوں اور کس کو چھوڑدوں۔
پھر فرما یا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل مدت کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس سے پہلی کیفت کے آخری لمحات میں جو اشعار کہے تھے ان کی طرف ذہن خود بخود منقتل ہو جاتا ہے گویا یہ فیضان کے لمحے ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو میں ایک قسم کی تکان ، عصبی اضمحلال، اور پژمردگی سی محسوس کرتاہوں. ‘‘

میں نے بغیر کسی تبصرہ کے یہ اقتباس نقل کیا ہے لیکن فقیہان شہر یہ پوچھنے کی جرات کرتاہوں 
۱۔الہام و وحی جاری ہے یا بند؟
۲۔ یہ قسم جس کے الفاظ بھی خدا کے ہوں (جو علامہ اقبال کو ہوئی تھی) آپ کی اصطلاح میں وحی کی کونسی قسم ہے ؟
( ماہنامہ الفرقان ، مارچ 1956 ، صفحہ 34 )






مکمل تحریر >>

Saturday, 23 April 2016

تذکرہ شعرائے پنجاب میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ذکر

تذکرہ شعرائے پنجاب ایک ایسی فارسی کتاب ہے جسے خواجہ عبدالرشید صاحب نے نہایت محنت سے ترتیب دیا ۔ پنجاب کے فارسی شعراء میں فاضل مؤلف نے سیّدناحضر ت مسیح موعود علیہ السلام  حضرت مولاناعبید اللہ صاحب بسمل ؓمرحوم ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ،محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہرطال عمرہ، اور محترم جناب حکیم عبد الرحمن صاحب خاکیؔ طال عمرہ کابھی ذکر فرمایاہے مؤلف نے سلسلہ احمدیہ اور احمدی شعراء کے کلام سے جو مؤثر نمونے فارسی اشعار کے پیش فرمائے ہیں ان سے عیاں ہے کہ یہ بزرگ کس طرح توحید الہی ، نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حقائق قرآنیہ اور عشق و محبت اسلام کے چلتے پھرتے نمونے تھے۔ درحقیقت ایسے ہی شعراء کی تعریف میں قرآن پاک نے  وَ ذَکَرُوااللہ کَثِیْراً فرمایاہے۔
فی الحال ہم اس کتاب کا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے متعلق اقتباس پیش کرتے ہیں ۔۔
مصنف '' میرزا غلام احمد قادیانی '' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں ۔۔
’’اوردر دہی کہ باسم قادیان معروف ودرشہر معوف گورداسپور واقع است بدنیا آمدند۔ سال تولدوی ۱۸۳۵است ۔اززمانِ کو دکی نسبت بہ دینِ مبین اسلام علاقمند بودو مطالعات عمیقی رادر پیرامون این مذہب آغاز نمود درآن زمان ہندو ھاو مسیحی ھا برعلیہ اسلام تبلیگ نمودہ ۔ مردم راازجادہ حق منحرف می گردا نید ند ، میرزا مذکور در جواب تبلغات ضد اسلامی قیام نمودہ و باد لایلی بسیار محکم وقاطع دشمنان اسلام را شکست داد۔تعداد تصنیفات دی در حدود ہشتاد جلد است۔ زوق شعری ہم داشت و کتابی باسم درثمین بزبان فارسی چاپ کرد۔ درزیر انتخابی ازآن د ادہ شدہ است۔‘‘
( تذکرہ شعرائے پنجاب ، ص 260 تا 261 )
ترجمہ : آپ ضلع گورداسپور کے قادیان نامی گائوں میں ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ آپ بچپن ہی سے دین مبین اسلام سے محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسلام کا بنظر غائر مطالعہ شروع کر دیا۔ان دنوں ہندو اور عیسائی اسلام کیخلاف پروپیگنڈا کرکے عوام کو راہِ حق سے منحرف کررہے تھے(حضرت)میرزا صاحب موصوف اسلام کے خلاف اعتراضات کے جواب کے لئے قمر بستہ ہوئے اور نہایت محکم اور قاطع دلائل کے ساتھ دشمنان اسلام کوشکست دی ۔ آپ کی تصنیفات کی تعداد۸۰ کے لگ بھگ ہے۔ ذوق شعری بھی رکھتے  تھے۔ فارسی میں درثمین نامی کتاب شائع کی ۔ یہ کلام اسی کتاب سے منتخب ہے۔

اس سے آگے فاضل مصنف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی کلام سے چند اشعار پیش کیے ہیں ۔








مکمل تحریر >>

Tuesday, 1 March 2016

مقطعاتِ قرآنی




سورۃ یونس کی تفسیر کرتے ہوئے  سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود، خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مقطعات قرآنی پر درج ذیل لطیف نکات بیان فرمائے :
حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں۔ کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتا ہے۔ جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔ 
میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورت کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے۔ اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔ 
میں بتا چکا ہوں کہ میری تحقیق میں سورہ بقرہ سے لے کر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے۔ یہ سب سورتیں الٓم سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۂ بقرہ الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورہ آل عمران بھی الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورہ نساء، سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروفِ مقطعات سے خالی ہیں۔ اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ جن کی ابتداء الم سے ہوئی ہے۔ ان کے بعد سورۂ اعراف المٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الم موجود ہے۔
ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے۔ اس کے بعد سورہ انفال اور براءۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں۔ پس سورۂ براءۃ تک الم کا مضمون چلتا ہے۔ سورہ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لے جاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں صٓ کو بڑھادیا گیا ہے۔ 
سورہ یونس سے الم کی بجائے الر شروع ہو گیا ہے۔ الٓ تو وہی رہا اور مٓ کو بدل کر ر کر دیا۔ پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لے کر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لے کر سورہ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے۔ اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ الٓر یعنی انااللہ اری۔ میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں۔ اور تمام دنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رؤیت کی صفت پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔ 
میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے۔ مگر ان لوگوں کی تردید خود حروفِ مقطعات ہی کر رہے ہیں۔ چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈال کر یہ کہتے ہیں کہ کہاں کہاں حروف مقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ سورہ بقرہ الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورۂ آل عمران الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورۂ نساء سورۂ مائدہ سورۂ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف المص سے شروع ہوتی ہے۔ اور سورہ انفال اور براءۃ خالی ہیں۔ ان کے بعد سورۂ یونس، سورۂ ہود، سورۂ یوسف الر سے شروع ہوتی ہیں۔ اور سورۂ رعد میں م بڑھا کر الٓمٓرٰ کر دیا گیا ہے۔ لیکن جہاں المصٓ میں صٓ آخر میں رکھا یہاں مٓ کو رٰ سے پہلے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی مقصد کو مدنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہئے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا راء کے بعد رکھا جاتا۔ میم کو الٓرٰ کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنی ہیں۔ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمٓ کی سورتیں ہیں اور اس کے بعد الٓرٰ کی تو صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو راء پر تقدم حاصل ہے۔ اور سورۂ رعد میں میم اور راء جب اکٹھے کر دیئے گئے ہیں تو میم کو راء سے پہلے رکھنا اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے۔ سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓرٰ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن نحل بنی اسرائیل اور کہف میں مقطعات استعمال نہیں ہوئے۔ اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کٓہٰیٰعٓصٓ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ سورۂ مریم کے بعد سورہ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انبیاء، حج، مومنون، نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں۔ آگے سورۂ شعراء طٰسٓمٓ سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھاء کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورۂ نمل ہے۔ جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں سے میم کو اڑا دیا گیا ہے۔ اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورہ قصص کی ابتداء پھر طٰسٓمٓ سے کی گئی ہے۔ گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورۂ عنکبوت کو پھر الٓمٓ سے شروع کیا گیا ہے اور دوبارہ علم الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے۔ (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کررہا لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورہ بقرہ سے الٓمٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمٓ کے مخاطب مومن ہیں۔) سورہ عنکبوت کے بعد سورہ روم، سورہ لقمان اور سورہ سجدہ کو بھی الٓمٓ سے شروع کیا گیا ہے۔ ان کے بعد سورہ احزاب، سبا، فاطر بغیر مقطعات کے ہیں۔ اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورہ یسٓ ہے۔ جس کو یس کے حروف سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورہ صافات بغیر مقطعات کے ہے۔ اس کے بعد سورہ صٓ حرف صٓ سے شروع کی گئی ہے۔ پھر سورۂ زمر حروف مقطعات سے خالی اور پہلی سورت کے تابع ہے۔ اس کے بعد سورہ مومن حٰمٓ سے شروع کی گئی ہے۔ اس کے بعد سورہ حم سجدہ کو بھی حٰمٓ سے شروع کیا گیا ہے۔ پھر سورہ شوریٰ کو بھی حٰمٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھر سورہ دخان، جاثیہ اور احقاف بھی حٰمٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بعد سورہ محمد، فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ سورہ قٓ صرف ق سے شروع ہوتی ہے۔ اور قرآن کریم کے آخر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے۔ 
یہ ترتیب بتارہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے۔ پہلے الٓمٓ آتا ہے۔ پھر الٓمٓصٓ آتا ہے۔ جس میں صٓ کی زیادتی کی جاتی ہے۔ پھر الٓمٓرٰٓ آتا ہے کہ جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے۔ پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کرکے طٰسٓمٓ کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے۔ اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا، کہیں زائد کر دیا جاتا، کہیں کم کر دیا جاتا۔ 
علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استدلال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب ان کی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہیں ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں۔ الٓمٓ کی سورتیں اکٹھی آگئی ہیں۔ الٓرٰ کی اکٹھی۔ طٰہٰ اور اس کے مشترکات کی اکٹھی۔ پھر الٓمٓ کی اکٹھی۔ حٰمٓ کی اکٹھی۔ اگر سورتیں ان کے حجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حروف مقطعات کے کچھ معنی ہیں۔ خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورت کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہوجانا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد سوم ، صفحہ ۷ تا ۱۰ )

مکمل تحریر >>

Friday, 26 February 2016

مسیح ابن مریم کے نزول کی علامات اور ان کی تشریح



آنے والے مسیح موعود کے آنے کے بارہ میں بعض علامات احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام پر یہ علامات کیسے پوری ہوئیں؟

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ جو جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ تھے ،فرماتے ہیں :۔


مسیح کیلئے جو نشان آپ لوگوں نے مقرر کئے ہیں وہ زیادہ تر یہی مشہورہیں ۔


1۔دو زرد چادروں کے ساتھ اترے گا۔ 2 ۔ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اترے گا۔ 3۔ کافر اس کے دم سے مریں گے۔ 4۔ ایسا معلوم ہو گا کہ ابھی ابھی حمام سے نکلا ہے اور پانی کے قطرے اس کے سر کے بالوں سے موتیوں کی طرح ٹپک رہے ہوں گے۔5۔ دجال کے بالمقابل خانہ کعبہ کا طواف کریگا۔ 6۔ صلیب کو توڑے گا۔7۔ خنزیر کو قتل کریگا۔ 8۔ ایک بیوی کریگا اس سے اولاد اس کیلئے ہوگی۔ 9۔ دجال کو قتل کریگا۔ 10۔ مسیح موعود ؑ طبعی موت مرے گا اور آنحضرت کے مقبرہ میں دفن ہوگا۔


اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود ؑ ہی کی تحریر سے پیش کرتا ہوں ۔


1۔ دو زرد چادریں وہ دو بیماریاں ہیں (دیکھو کتب تعبیر الروٴیا) جو بطور علامت کے مسیح موعود ؑ کے جسم کو ان کا روزِ ازل سے لاحق ہونا مقدر کیا گیا تھا تاکہ اس کی غیر معمولی صحت بھی ایک نشان ہو۔


2۔ دو فرشتوں سے مراد اس کیلئے دو قسم کے غیبی سہارے ہیں جن پر اس کی اتمام حجت موقوف ہے ایک وہبی علم متعلق عقل اور نقل کے ساتھ اتمام حجت جو بغیر کسب اور اکتساب کے اس کو عطا کیا جائے گا۔ دوسری اتمام حجت نشانوں کے ساتھ جو بغیر انسانی دخل کے خدا کی طرف سے نازل ہوں گے۔


3۔ کافروں کو دم سے مارنا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود ؑ کے نفس یعنی اس کی توجہ سے کافر ہلاک ہوں گے۔


4۔ اور سر کے بالوں سے موتیوں کی طرح قطرے ٹپکنا اس کشف کے یہ معنی ہیں کہ مسیح موعود ؑ اپنی بار بار توبہ اور تضرّع سے اپنے اس تعلق کو جو اس کو خدا کے ساتھ ہے تازہ کرتا رہیگا۔ گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے ۔ ورنہ جسمانی غسل میں کونسی خاص خوبی ہے اس طرح تو ہندو بھی ہر روز صبح کو غسل کرتے ہیں اور غسل کے قطرے بھی ٹپکتے ہیں۔


5۔ اور طواف خانہ کعبہ وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہو گا جس کا نام دجا ل ہے وہ اسلام کا سخت دشمن ہو گا۔ اور وہ اسلام کو نابود کرنے کیلئے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے چور کی طرح اس کے گرد طواف کریگا تا اسلام کی عمارت کو بیخ و بُن سے اکھاڑ دے۔ اس کے مقابل پر مسیح موعود ؑ بھی مرکز اسلام کا طواف کریگا جس کی تمثیلی صورت خانہ کعبہ ہے اور اس طواف سے مسیح موعود ؑ کی غرض یہ ہوگی کہ اس چور کو پکڑے جس کا نام دجال ہے اور اس کی دست درازیوں سے مرکز اسلام کو محفوظ رکھے۔


6۔ اور صلیب توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی  کی صلیبیں توڑ دی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے۔ اس قسم  کی  صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں ۔ بلکہ اس سے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود ؑ صلیبی عقیدہ کو توڑ دیگا۔ اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشوونما نہ ہوگا۔۔۔اس کا اقبال صلیب کے زوال کا موجب ہوگا۔ اور صلیبی عقیدہ کی عمر اس کے ظہور سے پوری ہو جائے گی۔ اور خود بخود لوگوں کے خیالات صلیبی عقیدہ سے بیزار ہوتے چلے جائیں گے۔ جیسا کہ آج کل یورپ میں ہو رہا ہے۔


7۔ اور یہ پیشگوئی کہ خنزیر کو قتل کریگا۔ یہ ایک نجس اور بدزبان دشمن کو مغلوب کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی طرف اشارہ ہے کہ ایسا دشمن مسیح موعود ؑ کی دعا سے ہلاک کیا جاوے گا۔


8۔ مسیح کی اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کریگا جو اس کا جانشین ہو گا اور دین اسلام کی حمایت کریگا۔


9۔ دجال کو قتل کریگا اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ظہور سے دجالی فتنہ روبزوال ہوجائے گا اور خود بخود کم ہوتا جائے گا۔ اور دانشمندوں کے دل توحید کی طرف پلٹا کھا جائیں گے۔


10۔ مسیح موعود ؑ بعد وفات کے آنحضرت ﷺ کی قبر میں داخل ہوگا۔ اس کے یہ معنی کرنا کہ نعوذباللہ آنحضرت ﷺ کی قبر کھودی جائے گی ۔ یہ جسمانی خیال کے لوگوں کی غلطیاں ہیں جو گستاخی اور بے ادبی سے بھری ہوئی ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعود ؑ مقام قرب میں آنحضرت ﷺ سے اس قدر قریب ہو گا کہ موت کے بعد آنحضرت ﷺ کے قرب کا رُتبہ اس کو ملے گا ۔ اور اس کی روح آنحضرت ﷺ کی روح سے جا ملے گی گویا ایک ہی قبر میں ہیں۔



(خدا کے فرستادہ پر ایمان لاؤ۔انوار العلوم جلد 1ص 409-410)

مکمل تحریر >>

پاک اولاد پیدا کرنے کا نسخہ







پاک اولاد پیدا کرنے کا نسخہ
 
ہر خاوند اور ہر بیوی اس نسخہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے


مصنف : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ


دنیا میں ہر شریف اور ہر دیندار انسان کو پاک اور صالح اولاد پیدا کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔اور طبعاََ یہ خواہش ہماری جماعت کے افراد میں زیادہ پائی جانی چاہئیے کیونکہ وہ دینداری اور طہارت کی قدر کو دوسروں کی نسبت بہت زیادہ جانتے اور زیادہ پہچانتے ہیں۔مگر ظاہر ہے کہ کوئی بات محض خواہش سے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے حصول کے لئے ان روحانی اور جسمانی ذرائع کو اختیار نہ کیا جائے جو خدا کے ازلی قانون میں اس کے لئے مقرر کردئیے گئے ہیں۔
اوپر کے اصول کے ماتحت غور کیا جائے تو اچھی اور پاک اولاد پیدا کرنے کے لئے دو قسم کے اسباب ضروری نظر آتے ہیں۔اوّل وہ اسباب جو بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے سے اثر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔کیونکہ یہ ثابت ہے کہ بچہ اپنے ماں باپ کے رجحانات اور اخلاق سے حصہ لیتا ہے ۔اور دوم وہ اسباب جو بچہّ کی پیدائش کے بعد اس کی تعلیم وتربیت وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مجھے اس جگہ مختصر طورپر صرف پہلی قسم کے اسباب کا ذکر کرنا مدنظر ہے جن کا تعلق زمانہ ماقبل ولادت کے ساتھ ہے۔سویہ اسباب بھی دوقسم کے ہیں۔
اوّل:وہ اسباب جو ماں باپ یا ان سے بھی پہلے کے آباؤاجداد کے اخلاق کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ اسلامی تعلیم سے پتہ لگتا ہے کہ فطری قویٰ اور فطری رجحانات کے لحاظ سے بچہ اپنے والدین اور والدین کے آبائو اجداد کے اخلاق کا وارث بنتا ہے۔چنانچہ جہاں قرآن شریف نے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کا ذکر کیا ہے وہاں اس حقیقت کی طرف بھی ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ:
 وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ     ( الشعراء: 219)
یعنی اے رسول تو نسلاََ بعدَ نسلٍ ایسے لوگوں کی پشتوں میں سے نکلا ہے جو اخلاق کے میدان میں خدا کے بنائے ہوئے قانون پر چلتے رہے ہیں۔بے شک اس آیت کے اور معنی بھی ہیں لیکن اس میں یہ اشارہ بھی ضرور مضمر ہے جو اوپر بیان کیا گیاہے۔اور بعض پرانے مفسرین نے بھی اس اشارہ کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔بہر حال یہ مسلّم ہے کہ بچہّ اپنے اخلاق میں اپنے والدین اور آبائو اجداد کا ورثہ لیتا ہے۔پس ضروری ہے کہ نیک اولاد پیدا کرنے کے لئے والدین اپنے اخلاق کو درست کریں اور اپنے اندر وہ پاک باطنی اور دینداری کا جذبہ پیدا کریں جس کا اثر لازماََ اولاد میں بھی پہنچتا ہے۔
دوسری قسم اسباب کی جو زمانہ ماقبل ولادت سے تعلق رکھتی ہے وہ ہے جس کا تعلق اس قلبی اور ذہنی کیفیت کے ساتھ ہے جو خاص خلوت کے اوقات میں خاوند اور بیوی میں پائی جاتی ہے اور دراصل اسی پہلو کی طرف اشارہ کرنا میرے اس مضمون کی غرض وغایت ہے۔یہ بات دینی اور طبّی ہر دو لحاظ سے ثابت ہے کہ بچہّ صرف والدین کے سابقہ اخلاق سے ہی حصّہ نہیں پاتا بلکہ اس وقت کے جذبات سے بھی حصّہ لیتا ہے کہ جب خاوند اور بیوی اپنے مخصوص تعلق کی غرض سے اکٹھے ہوتے ہیں۔چنانچہ کچھ عرصہ ہوا یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ولایت میں ایک انگریز عورت کے گھر ایک ایسا بچہّ پیدا ہواجو اپنی شکل وصورت وغیرہ میں بالکل ایک حبشی بچّہ معلوم ہوتا تھا۔ اس پر علمی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور چونکہ عورت کی پاک دامنی شک وشبہ سے بالاتھی اس لئے وہ وجوہات تلاش کی جانے لگیں جن کے نتیجہ میں انگریز والدین کے بچہ نے حبشی خدوخال اور حبشی رنگ ڈھنگ اختیار کرلیا تھا۔آخر پتہ لگا کہ جس ہوٹل کے کمرہ میں یہ میاں بیوی اکٹھے ہوئے تھے اس میں ان کی چارپائی کے سامنے ایک انگریز اور حبشی مرد کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔یہ انگریز اور حبشی کشتی لڑ رہے تھے اور تصویر میں حبشی مرد نے انگریز کو زمین پر گرا کر اس پر غلبہ پایا ہوا تھا۔ان دونو ںمیاں بیوی نے اس تصویر کو دیکھا اور اس نقشہ کا ان کے دل پر ایسا گہرا ثر پیدا ہوا کہ اس خلوت کے نتیجہ میں جو بچہّ پیدا ہوا وہ حبشی صورت اختیار کر گیا۔
لیکن موجودہ زمانہ کے ترقی یافتہ لوگوں کی اس بیسویں صدی کی ایجاد کے مقابلہ پر ہمارے آقا ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل یہ تعلیم دی تھی کی جب خاوند اور بیوی خلوت کی حالت میں اکٹھے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اس وقت اپنے خیالات کو پاک بنانے کی غرض سے یہ دعا پڑھا کریں کہ :

اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطٰنَ وَجَنِّبِ الشَّیْطٰنَ مَا رَزَقْتَنَا


یعنی اے ہمارے خدا!تو ہم دونو کو شیطانی اثرات سے بچا کر رکھ اور اسی طرح توجو اولاد ہمیں عطا کرے اسے بھی شیطانی اثرات سے محفوظ رکھ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگرکوئی خاوند یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی اس وقت کی اولاد کو شیطانی تصرفات سے محفوظ رکھے گا۔اب دیکھو کہ یہ کیسا آسان نسخہ ہے جو ہمارے مہربان آقا نے ہمارے ہاتھ میں دیدیا ہے جسے اختیا ر کر کے ہم خدا کے فضل سے پاک صالح اولاد پیدا کر سکتے ہیں اور اگر آگے ہماری اولاد بھی اس نسخہ پر کاربند ہو تو نیک اولاد کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جو خدا کے فضل سے جماعت کی بنیاد وں کو ہمیشہ کے لئے پاکیزگی اور طہارت پر استوار کرسکتا ہے ۔کاش ہمارے بھائی اور بہنیں اس نکتہ کو سمجھیں اور اس سے وہ عظیم الشان فائدہ اٹھائیں جس کا یہ نسخہ حقدار ہے۔
مگر میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس نسخہ کا استعمال اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ وہ بظاہر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے لئے پہلے سے تیاری اور ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے دراصل چونکہ خاوند بیوی کا مخصوص تعلق ایک خاص نفسانی جوش کا حامل ہوتا ہے اس لئے اس وقت اس قسم کی دعا زبان پر لانا ہرگز آسان نہیں ہوتا۔ہمارے حکیم وعلیم خد ا نے روح اورجسم کا قانون کچھ اس رنگ میں بتایا ہے کہ ان میں سے ایک کی مضبوطی دوسرے کی کمزوری بن جاتی ہے اور ایک کی کمزوری دوسرے کی طاقت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔پس جب نفس یعنی جسم کے جذبات زور پر ہوں تو روح کو ابھارنا آسان نہیں ہوتا۔اور جب روح ابھرنے کے لئے تیار ہوتی ہے تو جسم کی طاقتیں ڈھیلی پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔لہذاجب تک پہلے سے تیاری نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو اس کا عادی نہ بنالے اس وقت تک اس دعا کا دل سے نکلنا تو الگ رہازبان پربھی اس کے الفاظ کا لانا مشکل ہوتاہے۔
مجھے یاد ہے کہ (اور نیک غرض کے ماتحت حق بات کہنے میں شرم نہیں ہونی چاہیئے)کہ جب میں ابھی بالکل نوجوان تھا تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشادکو حدیث میں پڑھ کر اس پر عمل کرنا چاہا تو اولاََ تو میں اس وقت یہ دعا ہی زبان پر نہ لاسکا اور جب بالآ خر کوشش کے ساتھ اسے زبان پرلایا تو ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ گویا اس وقت میری جسمانی کیفیت سلب ہو گئی ہے۔اُس وقت مجھے یہ نکتہ حل ہوا کہ حقیقتاََیہ چھوٹی سی آسان دعا بھی کوئی منترجنتر نہیں ہے بلکہ اس کے لئے پہلے سے تیاری اور ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ امید موہوم ہے کہ انسان عین وقت پر جبکہ نفسانی جذبات کا ہجوم ہوتا ہے یہ پاک اور مطہر دعازبان پر لاسکے گاوالشاذکالمعدوم۔خیر اس کے بعد مجھے خدا نے اس دعا کی توفیق عطا کی اور نیک اولاد تو بعد کی بات ہے (وَاَرْجُوْامِنَ اللّٰہِ خَیْراً) میں نے اس دعا کو، نفس کے جذبات کو بھی مناسب حدود کے اندر رکھنے میں بہت مفید پایا۔
بہرحال میں اس وقت اپنے دوستوں کے سامنے یہ آسان (گو استعمال کے لحاظ سے قدرے مشکل)نسخہ رکھناچاہتا ہوں جسے اختیار کرکے وہ اپنے لئے پاک اور صالح اولاد کا رستہ کھول سکتے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحدّی کے ساتھ فرمایا ہے کہ جو میاں بیوی خلوت کے وقت میں یہ دعا پڑھیں گے تو اگر اس وقت ان کے لئے کوئی اولاد مقدر ہوگی تو خدا کے فضل سے یہ اولاد شیطانی اثرات سے محفوظ رہے گی۔میں اپنے ناظرین کی سہولت کی غرض سے اس جگہ پوری حدیث دہرا دیتا ہوں۔ہمارے آقا (فداۂ نفسی)فرماتے ہیں:۔

   لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا۔صحيح البخاري ، كتاب الدعوات ، باب مَا يَقُولُ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ )


یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے یہ دعا پڑھے گا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنا ہر کام خدا کے نام پر شروع کرتا ہوں۔اے میرے خدا تو ہم دونو میاں بیوی کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھ اورجو اولاد تو ہمیں عطا کرے اسے بھی شیطانی اثرات سے بچا کر رکھ ۔


تو اگر اس خلوت کے نتیجہ میں ان کے لئے کوئی بچہ مقدر ہوگا تو یہ بچہ خدا کے فضل سے ہمیشہ اس بات سے محفوظ رہے گا کہ شیطان اسے کوئی ضرر پہنچا سکے۔
دوستو یہ کتنا آسان نسخہ ہے جس کے ذریعہ آپ اپنی ہونے والی اولاد کو پاک بنا سکتے ہیں۔مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں؟اور اگر مرد کے ساتھ عورت بھی اس دعا میں شریک ہو جائے تو پھریہ سونے پر سہاگہ ہے۔پس میں یہ عرض کروں گا کہ اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما۔

‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍ دسمبر۱۹۴۸)

مکمل تحریر >>

Tuesday, 16 February 2016

ریویوآف ریلیجنز اردو کے چار اہم مضامین




 ریویوآف ریلیجنز اردو میں بہت سے مقالہ جات اور علمی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ، جن میں سے چار اہم مضامین ذیل 
میں  دیے جارہے ہیں تاکہ احباب کے علم میں اضافہ کا باعث ہوں ۔




مکمل تحریر >>

Friday, 1 January 2016

سیرت المہدی کی ایک روایت پر اعتراض کا جواب



حق کی مخالفت کرنے والوں کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے والے انبیاء جو مخلوق کی ہدایت اور ان کا زندہ خدا سے تعلق جوڑنے کے لیے آتے ہیں ، ان پاک محسنوں پر طرح طرح کے اعتراضات کے ذریعے چند خبث باطن لوگ تمسخر کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےيَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (یس : 31) ترجمہ : وائے حسرت بندوں پر! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں چند نام نہاد مسلمان گروہ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ نئے سے نئے اعتراض تلاش کر کے اپنے اعتراضات کی فہرست کو طویل کر لیا جائے ، چاہے کسی بات میں سے تعریف کا پہلو بھی نکلتا ہو اس میں سے بھی اعتراض ہی نکالناان کو وراثت میں ملا ہے ، چنانچہ سیرت المہدی مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ سے ایک روایت پیش کر کے اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے کالا جادو یا کوئی غیر شرعی عمل کیا۔ (معاذ اللہ)
آیئے مل کرسیرت المہدی کی اس معترضہ روایت پر نظر ڈالتے ہیں ، سیرت المہدی کی روایت نمبر 511 درج ذیل ہے :
{511} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صا حبہ یعنی امّ المؤمنین اَطَالَ اللّٰہُ بَقَائَہَا نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب کو سخت بخار ہوا۔ جس کا دماغ پر بھی اثر تھا۔ اس وقت کوئی اور طبیب یہاں نہیں تھا۔ مرزا نظام الدین صاحب کے عزیزوں نے حضرت صاحب کو اطلاع دی آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور مناسب علاج کیا۔ علاج یہ تھا کہ آپ نے مُرغا ذبح کراکے سر پر باندھا۔ جس سے فائدہ ہو گیا۔ اس وقت باہمی سخت مخالفت تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہو گی ورنہ آخری زمانہ میں تو حضرت خلیفہ اوّل جو ایک ماہر طبیب تھے ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے یا ممکن ہے کہ یہ کسی ایسے وقت کی بات ہو۔ جب حضرت خلیفہ اوّلؓ عارضی طور پر کسی سفر پر باہر گئے ہونگے مگر بہرحال حضرت صاحب کے اعلیٰ اخلاق کا یہ ایک بیّن ثبوت ہے کہ ایک دُشمن کی تکلیف کا سُنکر بھی آپ کی طبیعت پریشان ہو گئی۔ اور آپ اس کی امداد کے لئے پہنچ گئے۔

اس روایت میں مرغا ذبح کر کے اس سے علاج کرنے پر اعتراض کی بنیاد رکھی جاتی ہے ، لیکن یہ بھی محض معترض کی لاعلمی ہے ، ورنہ جانوروں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے علاج کے ذرائع رکھے ہیں جو اس دورمیں بھی زیادہ سے زیادہ انسانوں کے لیے شفاء کا باعث بن رہے ہیں چنانچہ سانپ کا زہر بھی بعض ادویات کے تیار کرنے میں استعمال ہوتا ہے ، یونہی مرغ کے بارے میں كمال الدين الدّميريررحمۃاللہ علیہ کی مشہور ومعروف کتاب حياة الحيوان الكبرى میں یہ درج ہے کہ''اگر مرغ کے داہنے بازو کی ہڈی کو بخار میں مبتلا شخص کے گلے میں ڈال دیا جائے تو اس کا بخار ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا ۔'' (حیات الحیوان اردومترجم مولانا ظمرالدین ، جلد دوئم صفحہ 94)
یہاں تک آپ نے دیکھ لیا کہ یہ اعتراض بھی مخالفین کے تعصب اور جہالت کا ثبوت ہے اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس روایت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم اخلاق اور انسانی ہمدردی کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ ایک شدید مخالف کی بیماری کا سن کر بھی آپ نے اس کا علاج کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مخالفین کو بھی اس محمدی مسیح کی طرف کھینچ لائے جس کی گواہی خودوہ اپنے عرش سے دے رہا ہے۔ آمین



مکمل تحریر >>

Monday, 21 December 2015

قرآن کریم سے شیعہ مذہب کی تردید

حضرت مولانا حکیم نورالدّین بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ  فرماتے ہیں : 
 میں نے ایک مرتبہ مالیر کوٹلہ میں مولوی شیخ احمد صاحب مجتہد سے کہا- یہ بتائو کہ کیا ثابت کیا جا سکتا ہے یا تمہارا اعتقاد ہے یا کسی شیعہ کا یہ اعتقاد ہے کہ قرآن شریف میں کوئی ایک پوری سورت بنا کر کسی نے داخل کر دی ہے‘ خواہ وہ مصنوعی سورت چھوٹی سے چھوٹی کیوں نہ ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں کوئی بھی سورت قرآن شریف میں اضافہ نہیں کی گئی- ہاں یہ ممکن ہے کہ قرآن شریف میں سے بعض سورتیں یا بعض آیتیں کم کی گئی ہوں اور ترتیب بگاڑی گئی ہو- جب انہوں نے یہ فرمایا تو میں نے ان سے کہا کہ إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً  سے معلوم ہوتا ہے کہ افواج در افواج لوگ دین الٰہی میں داخل ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھے- آپ مجھے  صرف ایک فوج اور ایک فوج بھی نہ سہی ایک فوج کے صرف ایک دستہ اور ایک دستہ بھی نہ سہی صرف دس پندرہ ہی نام سنادیں (علی مرتضیٰؓ کے سوا شیعوں کے اعتقاد میں صرف دو ڈھائی شخص مومن تھے ) یہ سن کر شیخ احمد صاحب مجتہد ایسے سٹ پٹائے اور گھبرائے کہ انہوں نے کہا کہ اول تو لفظ  اذا  کی تحقیق نقلی طور پر ہونی چاہئے- پھر یہ کہ آیا زمانہ حادث ہے یا قدیم- پاک ہے یا نجس- متصل ہے یا منفصل-  میں نے عرض کیا کہ اسے لکھ دیجئے کہ ہم  اذا کے معنی نہیں جانتے- انہوں نے لکھ دیا کہ ہم  اذا کے معنی نہیں جانتے- جب بعد میں دوسرے شیعہ لوگوں کو معلوم ہوا تو بڑا شور مچا کہ یہ کیا کیا کہ تحریر دے دی- پھر تم مجتہد ہی کاہے کے ہوئے- جب  اذا  کے معنی نہیں جانتے- چنانچہ میرے پاس ان کے آدمی آئے اور خوشامد کرنے لگے کہ وہ پرچہ دے دو- میں نے وہ پرچہ ان کو دے دیا-
( مرقات الیقین فی حیات نورالدین ، صفحہ ۲۶۸ تا ۲۶۹ )

مکمل تحریر >>