Sunday, 24 April 2016

لفظی الہام اور علامہ اقبال





از مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعۃ المبشرین

مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے ایک کتاب ذکر اقبال کے نام سے شائع کی ہے جسے بزم اقبال نے شائع کیا ہے اس کے صفحہ ۲۴۴ پر الہام لفظی کے عنوان کے ماتحت سالک صاحب لکھتے ہیں :۔
’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے فارمن کرسچن لاہور کا سالانہ اجلاس تھا جس میں علامہ بھی مدعو تھے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ سے کہاکہ آپ چائے اور اجلاس سے فارغ ہونے کے بعد ذرا ٹھہرئیے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ڈاکٹرلوکس تقریب سے فارغ ہونے  کے بعد علامہ کے پاس آئے اور سوال کیا کہ آیاآپ کے نزدیک آپ کے نبی ؐ پر قرآن مجید کا مفہوم نازل ہوا تھا جسے و ہ آپ الفا ظ میں بیان کر دیتے تھے یا الفاظ بھی نازل ہوتے تھے؟ علامہ نے صاف جواب دیا کہ میرے نزدیک قرآن کی عبارت عربی زبان میں آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھی یعنی قرآن کے مطالب ہی نہیں بلکہ الفاظ بھی الہامی ہیں ڈاکٹر لوکس نے اس پر بہت تعجب کا اظہار کیا اورکہا کہ میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جیسا اعلیٰ پایہ کا فلسفی Verbal Inspiration(الہام لفظی) پر کیونکر اعتقاد رکھ سکتا ہے علامہ نے ارشاد فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب میں اس معاملہ میں کسی دلیل کا محتاج نہیں مجھے تو خود اس کا تجربہ حاصل ہے میں پیغمر نہیں ہوں محض شاعر ہوں جب مجھ پر شعرکہنے کی کیفت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلاے شعر اُترنے لگتے ہیں اور میں انہیں بعینہ نقل کر لیتاہوں بارہا ایسا ہوا ہے کہ میں نے ان شعروں میں کوئی ترمیم کرنی چاہی لیکن میری کوئی ترمیم اصل اور نازل شدہ شعرمیں بہت ہی ہیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں رکھا ۔ جس حالت میں ایک شاعرپر پورا شعر نازل ہو سکتا ہے تو اس میں کیا مقام تعجب ہے کہ آنحضرت صلعم  پر قرآن کی ساری عبارت لفظ بہ لفظ نازل ہوتی تھی؟ اس پر ڈاکٹر لوکس لاجواب ہوگئے۔

سوال کیا گیا کہ آیا آپ پر شعر کہنے کی کیفت اکثر طاری ہوتی ہے ؟فرمایا نہیں ایسی کیفیت سال بھر میں دو تین دفعہ ہوتی ہے لیکن اس وقت مضامین کے ہجوم کی کیفیت وہی ہوتی ہے جیسے کسی ماہی گیر کے جال میں اس کثرت سے مچھلیاں پھنس جائیں کہ وہ پریشان ہو جائے کہ کس کو پکڑوں اور کس کو چھوڑدوں۔
پھر فرما یا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل مدت کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس سے پہلی کیفت کے آخری لمحات میں جو اشعار کہے تھے ان کی طرف ذہن خود بخود منقتل ہو جاتا ہے گویا یہ فیضان کے لمحے ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو میں ایک قسم کی تکان ، عصبی اضمحلال، اور پژمردگی سی محسوس کرتاہوں. ‘‘

میں نے بغیر کسی تبصرہ کے یہ اقتباس نقل کیا ہے لیکن فقیہان شہر یہ پوچھنے کی جرات کرتاہوں 
۱۔الہام و وحی جاری ہے یا بند؟
۲۔ یہ قسم جس کے الفاظ بھی خدا کے ہوں (جو علامہ اقبال کو ہوئی تھی) آپ کی اصطلاح میں وحی کی کونسی قسم ہے ؟
( ماہنامہ الفرقان ، مارچ 1956 ، صفحہ 34 )






0 comments: