Sunday, 4 February 2018

تحریک آزادی کشمیر اور سیّدنا حضرت مصلح موعود کی مساعی




تحریک آزادی کشمیر
اور
سیّدنا حضرت مصلح موعود کی مساعی
(از : مکرم حنیف احمد محمودصاحب)


قدر ت کے دلکش ،خوبصورت اور دلفریب مناظر سے اٹی جنت نظیر کے نام سے موسوم وادی کشمیر کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ مسیح اوّل واقعہ صلیب کے بعد کشمیرمیں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی ہدایت و راہنمائی کرنے کے بعد اسی خطہ میں سرینگر کے مقام پر مدفون ہیں اور مسیح ثانی کی بڑی بھاری جماعت وہاں موجود ہے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ۔
’’جس ملک میں دو مسیحیوں کا دخل ہے وہ ملک بہرحال مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کو ہی ملنا چاہئے‘‘ (الفضل ۲۳؍فروری ۱۹۵۷ء)
اس وادی میں مختلف و قتوں میں مختلف قومیں قابض رہیں اور یہ قوم ان کے زیر تسلط رہی ہندو ، بدھ ، کشان، سکھ اور انگریزوں کے زیر تسلط رہنے والی یہ قوم ظلم ،بربریت کا نشان بنی ہوئی تھی ۔ اس وادی میں مادی درخت تو سرسبز تھے ہی اور کھیت لہلاتے اور وادی شاداب تھی مگر وہ درخت جو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کی شکل میں پیدا کیا اس پر مردنگی چھائی ہوئی تھی اور مسلسل کئی صدیوں سے زیر تسلط رہنے کی وجہ سے سوچ وبچار نہ ہونے کے برابر تھا اور ترقی کا مادہ مفقود تھا ۔ اسی اثناء میں انگریزوں کے ذریعہ ڈوگرہ راج قائم ہوا جس نے مظالم کی انتہا کر دی۔
ان مظالم سے آزادی دلوانے کی مہم میں سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کی نمایاں کوششیں اس مضمون کا حصہ ہیں ۔

کشمیریوں کی آزادی کے لئے حضرت مصلح موعود کے دل میں تحریک کا موجب 

کشمیریوں کی تحریک آزادی پر گو کام شروع ہو گیا تھا مگر سیدنا حضرت مصلح موعود کی اس میں براہ راست مداخلت کشمیریوں کے بارے وہ ہمدردیاں بنیں جب آپ نے اپنے زمانۂ خلافت سے پانچ سال قبل ۲۰سال کی عمر میں یکم جولائی۱۹۰۹ء کو پہلی بار کشمیر کا دورہ فرمایا۔ اسی دوران قیام کشمیر میں آپ نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کے ایسے ایسے نظارے دیکھے کہ آپ کی آنکھیں غم سے بھر آئیں اور ان مظلوموں اور بے کسوں کی رہائی اور آزادی کے لئے آپ کے دل میں زبردست جذبہ پیدا ہوا۔ آپ انہی جیسے دردناک واقعات کا نظارہ کرنے کے بعد خود ہی فرماتے ہیں۔
’’یہ ایسی دردناک بات تھی جس سے میں بہت ہی متاثر ہوا اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی کہ کشمیر کے لوگوں کی آزادی کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
(الفضل ۲۴؍جون۱۹۴۶ء از تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۳۷۳)
یہاں قارئین کی دلچسپی کے لئے چند ایک ایسے واقعات اختصار کے ساتھ درج کرنے ضروری ہوں گے تا کشمیریوں پر ظلم وستم کی ایک لمبی داستان کی ایک جھلک مضمون پر تفصیلی نگاہ ڈالنے سے قبل نظروں سے گزر جائے۔ اسی سفر میں حضرت مصلح موعود کو قیا م کشمیر کے دوران ایک بار بوجھ اٹھانے کے لئے ایک آدمی کی ضرورت محسوس ہوئی تو تحصیلدار نے ایک ایسے کشمیری کو پکڑ کر بھجوا دیا جو اپنے علاقے کا معزز زمیندار تھا اور ایک برات کے ساتھ جا رہا تھا ۔
اسی طرح اسی سفر کے دوران اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ واقعہ ایک افسر نے حضرت مصلح موعود کو سنایا کہ جب وہ پونچھ میں وزارت کے عہدہ پر فائز تھا تب اسے ایک دفعہ مزدوروں کی ضرورت پڑی جب انہوں نے حاکم مجاز سے مطالبہ کیا تو اس نے جو لوگ بھجوائے ان میں سے ایک بھی مزدور نہ تھا وہ سب کے سب براتی تھے جس میں دولہا بھی شامل تھا۔
الغرض اس نوعیت کے تلخ واقعات کی یاد لے کر آپ۲۲؍اگست۱۹۰۹ء کو واپس قادیان پہنچے ۔ آپ نے آتے ہی کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لئے جو پہلا قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ کشمیری طلبہ کو تعلیم دلوانے کے لئے قادیان ہی میں انتظام فرمایا۔ ان کے وظائف مقرر فرمائے۔ ا سی پر بس نہیں بلکہ کشمیر میں احمدیوں کے مشہور گاؤں نا سنور میں۱۹۰۹ء کے جلسہ میں آپ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور جو وہاں تاریخی خطاب ارشاد فرمایا اس سے متاثر ہو کر وہاں کے ایک احمدی دوست حضرت حاجی عمر ڈار رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ریاست میں تعلیم بالغاں کی بنیاد رکھی اور اس میدان میں خوب محنت کی اور نام کمایا۔
چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کی کاوشوں سے متاثر ہو کر ایک غیر احمدی صحافی جناب منشی محمد الدین صاحب فوق نے لکھا۔
’’مرزا صاحب کے عقائد و دعاوی سے کسی کو مخالفت ہو یا موافقت اور خواجہ عمر ڈار کی قبول احمدیت اچھی ہو یا بُری لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی احمدیت نے اس گاؤں میں ایک بیداری سی پیدا کر دی ہے اور اس بیداری نے وہ علمی انقلاب پیدا کر دیا جس کی بدولت آج ناسنور میں ایک پرائمری اسکول کے علاوہ ایک زنانہ اسکول بھی قائم ہے اور چھمولوی فاضل کا امتحان پاس ہونے کے علاوہ متعدد انگریزی خوان نوجوان وہاں موجود ہیں جو مختلف محکموں میں اچھے اچھے عہدوں پر برسرروزگار ہیں ۔‘‘
(تاریخ اقوام کشمیر جلد۲صفحہ۱۷۵،۱۷۶از تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۳۷۴)

آزادی کشمیر میں حضرت مصلح موعود کی دلچسپی لینے کے مزید عوامل ومحرکات

مندرجہ بالا سبب کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے میدان عمل میں آنے کے چار مزید اسباب و وجوہ بنے۔ آپ خود فرماتے ہیں ۔
۱- پہلی وجہ تو یہ تھی کہ میں کشمیر کا کئی دفعہ سفر کر چکا تھا اور میں نے وہاں کے مسلمانوں کی مظلومیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا تھا۔
۲- دوسری وجہ یہ تھی کہ پچاس ہزار کے قریب وہاں احمدی تھے جن کے حالات احمدی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے مجھے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا اور اس وجہ سے ان کی مظلومیت مجھ پر زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتی رہتی تھی۔
۳- نواب امام دین صاحب ( جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں جالندھر کے گورنر تھے) کو سکھ گورنمنٹ نے گورنر بنا کر کشمیر بھجوا یا۔ آپ نے اپنے گہرے دوست مرزا غلام مرتضیٰ صاحب رئیس قادیان (میرے دادا) کو بطور مددگار ساتھ لے جانے کی اجازت چاہی۔ ان دونوں کے کشمیر جانے پر انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی ہوئی اور انگریزوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لڑکے پر فتح پائی۔ انگریزوں نے تاوان جنگ مانگا جو سکھوں کے پاس نہ تھا ۔ جس کے عوض کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاں بیچ دیا گیا۔ جس نے اردگرد مسلمان ریاستوں پر قبضہ کر کے ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ملانا چاہا ۔ جس پر نواب امام دین صاحب نے اس کے خلاف مسلمان ریاستوں کا ایک جتھہ بنانا چاہا۔ مسلمانوں نے مشورہ دیا کہ یہ جنگ انگریزوں کے خلاف ہو گی اور انگریزوں کے خلاف پہاڑی نواب نہیں لڑ سکتے۔ اس لئے نواب امام دین صاحب چارج دے کر وہاں سے آگئے۔ (خلاصہ)
۴- چوتھی وجہ کشمیر میں دلچسپی کی یہ تھی کہ میرے استاد اور جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ اور میرے خسر حضرت مولوی نور الدین صاحب کشمیر میں بطور شاہی حکیم کے ملازم رہے تھے۔ راجہ ہری سنگھ کے باپ امر سنگھ اور چچا رام سنگھ جو عمر میں ۱۵،۱۶سال کے تھے نے اسلام کی خوبیوں کو محسوس کیا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب سے قرآن کریم پڑھنا شروع کیا ۔ ابھی۱۵-۱۵پارے پڑھے تھے کہ مہاراجہ کو علم ہوا تو مہاراجہ (پرتاپ سنگھ ) نے حضرت مولوی صاحب کو تین دن کے اندر اندر جموں سے نکل جانے کا حکم دیا ……ان سب کی ترقی کے لئے کوشش کروں میں نے فوراً اس معاملہ میں دلچسپی لینی شروع کر دی ۔‘‘
(خلاصہ تحریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی از تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ ۳۹۴،۳۹۵)

اہل کشمیر کو رسم و رواج کے چنگل سے آزاد ہونے کی تحریک 

سیدنا حضرت مصلح موعود کی اہل کشمیر کے ساتھ ڈوگرہ راج کے روح فرسا حالات کو دیکھ کر اور پڑھ کر ہمدردیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور آپ ایسے اقدام اٹھا رہے تھے جن کے طفیل کشمیریوں کو مظالم سے Reliefمل سکے۔ تاہم کشمیریوں کے ساتھ مظالم کی داستان کا بنظر غایت مطالعہ کرنے کے لئے آپ نے ۱۹۲۱ء میں کشمیر کا دوسرا سفر اختیار کیا۔ جس میں آپ نے مظلومین کشمیر کو باہمی اتحاد، اتفاق ، تعلیم کی اشاعت اقتصادی حالت کی بہتری بالخصوص اسلامی احکام کی تعمیل اور رسم و رواج سے علیحدگی کی طرف توجہ دلائی ۔ کیونکہ کشمیر میں تعلیم کا فقدان تھا اور اسلامی تعلیم کی جگہ لوکل رسم و رواج نے لے رکھی تھی۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق یہ لوگ اپنے قدیم مذہبی خیالات و عقائد سے زبردست متاثر اور ان پر سختی سے قائم تھے۔چنانچہ حضور نے اپنے قیام کے دوران ایک خطبہ جمعہ میں اہل کشمیر کو مخاطب ہو کر فرمایا :
’’اگر کامیابی یا ترقی کرنا چاہتے ہو تو جہاں خدا کا حکم آوے اسے کبھی حقیر نہ سمجھو ۔ رسم و رواج کو جب تک خدا کے لئے چھوڑنے کو تیار نہ ہو گے تب تک نمازیں، روزے اور دوسرے اعمال آپ کو مسلمان نہیں بنا سکتے۔ جہاں نفس فرمانبرداری سے انکار کرتا ہے اسی موقعہ پر حقیقی فرمانبرداری کرنے کا نام اسلام ہے اگر کوئی ایسا فرمانبردار نہیں ہے اور رسم و رواج کو مقدم کرتا ہے تو اس کا اسلام اسلام نہیں ہے۔‘‘ (الفضل یکم ستمبر 1921ء)

ڈوگرہ راج کے مظالم کا تسلسل اور احمدی مخلصین کی قربانیاں 

گو ابھی تک حضرت مصلح موعود نے کشمیریوں کی امداد و تعاون کے لئے مجموعی طور پر کوئی تحریک جماعت کے سامنے نہ رکھی تھی تاہم احباب جماعت نے اپنے خلیفہ کی نبض شناس بنتے ہوئے خلیفۃ المسیح کی خوشنودی کی خاطر کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام شروع کر دیا۔ چنانچہ ۱۹۲۴ء میں ڈوگرہ مظالم سے تنگ آ کر جب مسلمانان کشمیر کے نمائندوں نے اپنی سیاسی، مذہبی اور معاشرتی شکایات کا ایک میموریل تیار کر کے لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کو پیش کیا تو مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے ان لوگوں پر مظالم ڈھانے شروع کئے اور جن لوگوں نے اس میموریل پر دستخط کئے تھے ۔ اس کے پاداش میں ان لوگوں کی جائیداد یں ضبط کی گئیں۔ ملک بدر کیا گیا ۔ نوکریوں سے نکالا گیا۔ بغاوت کے مقدمات بنائے گئے۔ ایسے حالات میں بعض احمدیوں نے نجی طور پر کشمیریوں کے حقوق کے لئے علم بلندکیا۔ 

کشمیر اور جموں میں تعلیمی جدوجہد اور زمینداروں کو منظم کرنے کی سعی

خواجہ محمد عمر صاحب ڈار کے بیٹے خواجہ عبدالرحمن صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نصائح پر عمل پیرا ہو کر سارے علاقہ کا دورہ کیا۔ مسلمانوں کو منظم کیا ۔ ان کے اختلافات رفع کرنے کی کوشش کی۔ ادھر علاقہ جموں میں میاں فیض احمد صاحب نے خواجہ عبدالرحمن صاحب کے دوش بدوش اس تحریک میں حصہ لیا۔
کشمیر میں زمینوں کی مالک ریاست تھی اور کوئی زمیندار اپنی ہی زمین پر مالکانہ تصرف نہ رکھتا تھا وہ اپنی زمین پر اُگے درخت کاٹ نہیں سکتا تھااور نہ ہی کوئی مکان تعمیر کر سکتا تھا۔ حتیٰ کہ ریاست کویہ بھی قانوناً حق حاصل تھا کہ ریاست کو جب بھی زمین کی ضرورت محسوس ہو گی معمولی معاوضہ پر زمیندار کو بے دخل کر دیا جائے گا حتیٰ کہ مسلمان زمینداروں پر غیر مسلم اشخاص کو لا کر مالک قرار دیا گیا ۔
زمینداروں کی اس حالت زار کو دیکھ کر خواجہ عبدالرحمن صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایات کی روشنی میں زمینداروں کی تنظیم واصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے ریاست بھر کے مسلمان زمینداروں کی تنظیم قائم کر لی۔جس پر حکام ریاست نے انہیں ظلم وستم کا نشانہ بنایا اور پولیس نے ان کو ڈوگرہ مظالم کے خلاف احتجاج اور محض زمینداروں کو منظم کرنے کے جرم میں باغیوں میں شامل کر لیا۔

ii- ایک اور احمدی خلیفہ عبدالرحیم صاحب کی خدمات اور وزیر خارجہ و سیاسیات سر ایلبین بینر جی کے استعفیٰ کی صورت میں ایک اہم نمایاں کامیابی

چونکہ ریاست کی کلیدی آسامیوں پر مسلمانوں کی ملازمت برائے نام تھی اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو مسلسل تلقین فرمائی کہ وہ ریاست کی ملازمت میں زیادہ سے زیادہ آگے آنے کی کوشش کریں اور جو مسلمان ان آسامیوں پر ہیں وہ مسلمانوں کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں ۔ چنانچہ حضرت خلیفہ نور الدین جمونی صاحب کے فرزند جناب خلیفہ عبدالرحیم صاحب ( جو بعد میں ہوم سیکرٹری حکومت جموں و کشمیر بنے) نے اپنے دور ملازمت میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا اور جو کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے ریاستی وزراء سر ایلبین بینر جی اور مسٹر ویکفیلڈ کے سامنے اعدادو شمار کے ذریعہ واضح کیا کہ کس طرح ۹۵فیصد مسلمان اکثریت بے انصافی اور جبر و تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔
جناب خلیفہ عبدالرحیم صاحب کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ سر ایلبین بینر جی وزیرخارجہ و سیاسیات اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے اور استعفیٰ کے بعد اپنے مشاہدہ و تجربہ کی بناء پر مسلمانان کشمیر کے متعلق ایک اہم بیان دیا جو اخبار سٹیٹسمین (Statesman)کلکتہ نے شائع کر دیا۔
’’کشمیر کی ریاست میں تقریباً تمام مسلمانوں کی آبادی ہے لیکن اس قدر جاہل اس قدر سادہ لوح اور مظلوم و معصوم کہ حالت حد بیان سے باہر ہے افلاس بے انتہا بڑھا ہوا ہے اور حکومت کی بے اعتنائی اور جَور اسی قدر ناقابل برداشت ہیں کہ مجھے ان کی حالت دیکھ دیکھ کر رقت ہوتی ہے حکومت اور رعایا کے درمیان کوئی رابطۂ محبت نہیں ہے وہ بے زبان مویشیوں کی طرح ہیں جو حاکم جس صورت سے چاہتا ہے ان سے کام لیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا حکومت کی انتظامی مشینری اس قدر خراب اور ناقص ہے کہ میں عرض نہیں کرسکتا ۔ اشد ضروری ہے کہ تمام انتظامی عملہ کو از سر نو تشکیل کیا جائے اور تمام نقائص فوراً دور کر دئیے جائیں……کشمیر کے دستکار جس قدر…… جفا کش مشہور تھے اب ان کی ہمت افزائی نہیں ہوتی اور اس وجہ سے ان کی حالت اس قدر مائل بہ انحطاط ہے کہ بیان سے باہر ہے حکومت ان کی سرپرستی اور امداد نہیں کرتی اس وجہ سے ان کی حالت روز بروز گرتی چلی جا رہی ہے ۔ میسور کی حکومت اپنے صناعوں کی جتنی امداد و سرپرستی کرتی ہے وہ اس ریاست (کشمیر) کے لئے نمونہ ہے۔‘‘
 (اسٹیٹسمین کلکتہ ۱۹؍اگست ۱۹۳۱ء بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہا سبھائی از ملک فضل حسین صاحب صفحہ ۵۹،۶۲)

iii- سر ایلبین کے بیان پر حکومت ہند کا ردّ عمل او ر ایک احمدی ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب کی خدمات

احمدیوں کی نجی طور پر کشمیریوں کے حقوق میں آواز بلند کرنے کی ایک مثال ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب آف جموں کی خدمات کی ہے۔جنہوں نے اس وقت بڑی 
Uجانفشانی کوشش، خلوص اور استقلال سے کردار ادا کیا جب حکومت ہند کی تمام مشینری سر ایلبین کے بیان کی نفی کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئی اور اسلامی انجمنوں سے اس بیان کی تردید کی کوششیں ہونے لگیں اور عملاً ان انجمنوں نے اس کی تردید کے لئے حامی بھی بھر لی۔ تب ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب نے یہ تجویز دی کہ ایسا قدم اٹھانے سے قبل مسلمانوں سے استصواب ضروری ہے ۔ یہ آواز بلند ہونی تھی کہ پاسا ہی پلٹ گیا ۔ کُل انجمن اسلامیہ نے سر ایلبین بینرجی کے خیالات پر اظہار رائے کے لئے منادی کروا دی۔ پھر کیا تھا ۔ اسلامی انجمنوں کو لینے کے دینے پڑ گئے اور مسلمانوں نے اپنی تمام مشکلات کا ذکر کیا اور رائے سر ایلبین کے بیان اور خیالات کے حق میں دی۔ اس تمام واقعہ کا ذکر ہندوستان کے ایک مشہور اخبار ’’انقلاب ‘‘ نے اپنے تین شماروں میں کیا ۔ ایک شمارہ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب کو یوں خراج تحسین پیش کیا۔
’’خدا بھلا کرے مستری یعقوب علی صاحب قبلہ کا جنہوں نے کہہ دیا کہ پہلے مسلمانوں سے استصواب ضروری ہے۔‘‘ (انقلاب ۷؍اپریل ۱۹۲۹ء)

حضرت مصلح موعود کا تیسر ا سفر کشمیر اور کشمیریوں کی بیداری 

کشمیر کے بے بس اور مظلوم مسلمانوں کی غلامانہ زندگی کی دکھ بھری داستان سے اس مہربان کا دل بہت دکھ محسوس کرنے لگا تو آپ نے کشمیریوں پر اخلا ق سو ز اور خلاف انسانیت واقعات کا جائزہ لینے اور ان کے سدباب کے لئے جون۱۹۲۹ء میں تیسری بار کشمیر کا سفر اختیار کیا۔ حضور کو اس سفر میں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کشمیر اب بیدار ہو رہا ہے مگر اس بات سے ٹھیس بھی پہنچی کہ کشمیر کی آزادی کے لئے کام کرنے والوں سے ریاستی سلوک بہت ناروا ہے۔ اس سفر میں کشمیر کے لوگوں کی ہمدردی کا نقش اور گہرا ہو گیا اور حضور نے اہل کشمیر کو اپنی مدد آپ اور آپس میں متحد ومنظم رہنے کی پر زور تلقین فرمائی ۔

سرینگر میں ریڈنگ روم پارٹی کا قیام اور خواجہ غلام نبی گلکار کی خدمات 

خواجہ غلام نبی گلکار سری نگر کے پُر جوش احمدی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔۱۹۲۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جب سری نگر بھی تشریف لے گئے تو موصوف نے حضور کی تحریک اپنی مدد آپ پر لبیک کہتے ہوئے پبلک مقامات پر اصلاحی تقاریر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور تعلیم ‘ اتحاد اور معاشرتی رسوم و رواج کی اصلاح پر زور دینے لگے۔
چونکہ ریاست میں سیاسی انجمن بنانے کی اجازت نہ تھی ۔ اس لئے آپ نے مساجد اور دوسرے اجتماعات سے انجمنوں کا کام لے کر لیکچرز دئیے اور بعدازاں تحریک آزادی کے لئے ایک پراپیگنڈہ سینٹر ’’ریڈنگ روم‘‘ کے نام سے کھولا۔ اس سے وابستہ لوگ ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے موسوم ہوئے۔ اس کے صدر شیر کشمیر محمد عبداﷲ جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سری نگر واپس آ چکے تھے مقرر ہوئے اور جنرل سیکرٹری محترم خواجہ صاحب موصوف کو مقرر کیا گیا اور اس پارٹی کے ذریعہ جموں کی طرح سری نگر سے بھی پنجاب کے مسلم پریس میں ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم اور مسلمانوں کی مظلومی اور بے کسی کے متعلق خطوط و مضامین بھجوائے جانے لگے۔
سری نگر کا مشہوراخبار’’ اصلاح‘‘جناب خواجہ غلام نبی گلکار کی ان ابتدائی خدمات کا ذکر یوں کرتا ہے:
’’کشمیر کا ہر کس و ناکس بخوبی جانتا ہے کہ مسٹر گلکار ہی وہ مایہ ناز ہستی ہے جس کو سب سے پہلے اپنی قوم کی مظلومی و بے کسی کے خلاف آواز اٹھانے کا فخر حاصل ہوا۔ کشمیر کا بچہ بچہ اس امر کا زندہ گواہ ہے کہ مسٹر گلکار ان ہونہار نوجوانوں میں سے ہے جس کے دل نے سب سے پہلے قوم کی خستہ حالی پر درد محسوس کیا جونہی کہ اس نے عالم شباب میں قدم رکھا ۔ اس کی نگاہ قوم کی زبوں حالی وبدحالی پر پڑی اور اس کے دل پر ایسی چوٹ پڑی کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تحریک کشمیر کا جھنڈا بلند کرتا ہوا میدان میں کودا اور خطرات ومصائب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قوم کو بیدار اور ہوشیار کرنے کے لئے عملی جدوجہد شروع کر دی۔ اس مجاہد اعظم کی درد بھری آواز او رمخلصانہ تحریک نے صدیوں کے سوئے ہوئے غلامِ مُلک کو بیدار کیا اور سالہا سال کی روندی ہوئی قوم میں زندگی کی لہر پیدا کر دی ۔‘‘ (اصلاح ۲۷؍نومبر۱۹۳۵ء)

تحریک آزادی کے انقلاب انگیز دور کا آغاز اور حضرت مصلح موعود کے مضامین

۱۹۳۱ء کا سال تحریک آزادی کشمیر کے لئے بہت اہمیت کا سال ثابت ہوا۔ سال کے آغاز پر اپریل کے مہینہ میں عیدالا ضحیہ کے روز ایک آریہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس نے جموں کی مسجد کے ایک خطیب کو عید کا خطبہ دینے سے روک دیا اور اس کے چند روز بعد ۵؍جون کو ایک ہندو سارجنٹ کے ہاتھوں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم کی سخت بے حرمتی کا دل آزار واقعہ پیش آیا۔ جس پر مسلمانان کشمیر سراپا احتجاج بن گئے۔ حکومت جموں و کشمیر نے مسلمانوں پر مزید سختی شروع کر دی اور مسلم اخبارات جیسے انقلاب ،مسلم آوٹ لک اور سیاست کے ریاست کے اندر داخلے پر پابندی لگا دی۔ جب دوسرے ناموں سے اخبار نکالنے شروع کئے تو وہ بھی حکماً بند کر دئیے گئے جس پر مسلمان نوجوانوں کے ایک وفد نے ۹؍جون ۱۹۳۱ء کو ریاست کے انگریز وزیر (دفاع اور پولیٹیکل امور ) مسٹر ویکفیلڈ (Mr Wakefield)جو ان دنوں جموں آئے ہوئے تھے سے ملاقات کی ۔ اپنی شکایات ان کی سامنے رکھیں ۔ اپنے مطالبات سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہماری درخواست کو مہاراجہ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ مسٹر ویکفیلڈ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا ایک وفد تشکیل دیں اور خود مہاراجہ صاحب کے پاس جا کر شکایات پیش کر یں۔وہ خود بھی مہاراجہ صاحب کے ساتھ مشورہ کر کے ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔ (انقلاب ۱۲؍جون۱۹۳۱ء)
(یہاں یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جن چار مسلمان لیڈروں کا وفد تجویز ہوا ان میں ایک پرجوش احمدی مستری(ٹھیکیدار ) یعقوب علی صاحب بھی شامل تھے۔جن کاذکر اوپر گزر گیا ہے)
جونہی انقلاب ۱۲؍جون ۱۹۳۱ء کی خبر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نظروں سے گزری تو آپ نے اپنی خداداد فراست و ذہانت سے ضروری جانا کہ اب کی خاموشی کشمیریوں کی ابدی غلامی پر منتج ہو گی آپ نے فوراً آزادی کشمیر کے متعلق مضامین کا آغاز فرمایا اور پہلا مضمون ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی حالت کے عنوان سے تحریر فرمایا جو انقلاب کے علاوہ ۱۶؍جون ۱۹۳۱ء کے الفضل میں بھی شائع ہوا۔
اس مضمون میں حضور نے زمینداروں کو اپنے حقوق کے حصول کی طرف توجہ دلائی اور صنعت وحرفت کے ذریعہ کشمیر کو مضبوط کرنے کی تجویز دی نیز اپنے مطالبات تفصیل کے ساتھ مسٹر ویکفیلڈ کے سامنے پیش کرنے کی درخواست کی اور انجمنیں قائم کرنے کی تلقین فرمائی اور لاہور۔ سیالکوٹ۔ راولپنڈی میں سے ایک جگہ کانفرنس منعقد کرنے کا اہلِ کشمیر کو مشورہ دیا ۔

حضور کے پہلے مضمون کی صدائے باز گشت اور اس کے نتائج 

حضور کا مضمون ابھی شائع ہوا ہی تھا کہ مسلمانان کشمیر سے ہمدردی رکھنے والے مسلمانوں نے فوراً اس پر ردعمل ظاہر کیا اور روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر نے اس کی تائید میں ایک مضمون بعنوان’’ کشمیرکانفرنس کے انعقاد کی تجویز‘‘ لکھا اور مسلمانان ہند کے مشہور صوفی لیڈر شمس العلماء خواجہ حسن نظامی دہلوی صاحب نے حضور کے نام ایک خط میں کشمیر کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر دی۔
اسی پر بس نہیں جنرل سیکرٹری مسلم کشمیری کا نفرنس لاہور جناب سید محسن شاہ صاحب بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ نے حضور کو ایک مکتوب لکھا جو انقلاب یکم جولائی ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا۔ اس خط میں موصوف نے حضور کی کشمیر کی آزادی کی خاطر کاوش کو سراہا اور لکھا کشمیر کا معاملہ ایسامعاملہ ہے جس میں سب مسلمانوں کا متفقہ طور پر شریک ہونا نہایت ضروری ہے جس کے لئے الگ انجمن قائم کرنی زیادہ مفید ہو گی اور آخر میں لکھا:
’’میں اور تمام مسلمان آپ کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے اس معاملے میں دلی ہمدردی اور دلچسپی کا اظہار فرمایا ہے۔ جس سے یقین کامل ہے کہ بہت جلد مفید عملی نتائج پیدا ہوں گے ۔ خداوند کریم آپ کو اس نیک کام میں حصہ لینے کے لئے جزاہائے خیر عطا فرمائے۔‘‘
(انقلاب یکم جولائی ۱۹۳۱ء)

آزادی کشمیر سے متعلق دوسرا مضمون
اور کشمیر بارے کانفرنس کے انعقاد سے اتفاق 

پہلے مضمون کے ردعمل کے طور پر جو خطوط حضور کو موصول ہوئے اور جو مضامین اخبارات میں لکھے گئے۔ ان سے متاثر ہو کر حضور نے دوسرا مضمون ’’ریاست کشمیر اور مسلمان‘‘کے عنوان سے تحریر فرمایا جو انقلاب ۲۵؍جون ۱۹۳۱ء اور الفضل ۲؍جولائی۱۹۳۱ء میں شائع ہوا۔ جس میں حضور نے کانفرنس کے انعقاد کے لئے اپنے بھرپور تعاون اور مدد کی یقین دہانی کروائی اور اس کانفرنس کو کامیاب او رمؤثر کن بنانے کے لئے بعض تجاویز بھی دیں۔ اور پبلسٹی کمیٹی کے قیام سے بھی اتفاق فرمایا بلکہ پُر زور تائید فرمائی ۔ کانفرنس میں کشمیری نمائندوں کو شامل کرنے کی تجویز دی۔ یہ مضمون اس قدر جان دار اور مؤثر تھا کہ مسلمانان کشمیر کے اندر اس مضمون نے ایک نئی روح پھونک دی۔

آزادی کشمیر کے متعلق تیسرا مضمون اور متفقہ کشمیر ڈے منانے کی تجویز 

کشمیر بارے حضرت مصلح موعود کا پہلے مضمون پذیرائی پا رہے تھے اور آپ کی تجاویز کو سراہا جانے لگا تو مسلمانوں نے کسی نظام کے ماتحت نہیں بلکہ کشمیر ڈے منانے کے لئے الگ الگ تاریخیں مقرر کر دیں جیسے پشاور نے ۱۰؍جولائی ،کا نپور نے ۲۸؍جولائی اور لاہور نے ۲۴؍جولائی تب حضور نے تیسرا مضمون تحریر فرمایا جو الفضل کے ۱۶؍جولائی اور انقلاب کے ۱۸؍جولائی ۱۹۳۱ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔ اس میں حضور نے تحریر فرمایا کہ یہ کام بغیر نظام کے ہونے والا نہیں ۔ انگریز کہہ چکا ہے کہ میں ریاستوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا اور ہندو اور مسلمان ان کی اسی پالیسی کو پسند کر چکے ہیں اس لئے جب تک’’ کل ہند‘‘ بنیاد پر کوئی تحریک جاری نہ کی جائے اور ان مشکلات کو سوچ کر کوئی قدم نہ اٹھایا گیااس وقت تک یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہو گا۔ پس میں تحریک کرتا ہوں کہ ایک ایسے مقام پر جہاں کشمیر کے لوگ بھی بآسانی آ سکیں کل ہند مسلم اجتماع کیا جائے ۔پھر تحریر فرمایا کہ :
’’میں نے تو اس مشکل کا حل یہ کیا کہ دس جولائی کو اپنی جماعت کا جلسہ کرا دیا تاکہ ہمارے پشاور کے دوستوں کی تحریک رائیگاں نہ جائے اور دشمنوں کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی بات کا احترام کرنے کے لئے تیار نہیں ۔‘‘
حضور نے مزید تحریر فرمایا:
’’میرے نزدیک کشمیر ڈے کی کوئی تاریخ مقررکرنی چاہئے ۔ کہ سارے ہندستان میں جلسوں کی تیاری کی جا سکے اس دن علاوہ کشمیر کے حالات سے مسلمانوں کو واقف کرنے کے پروگرام کا وہ حصہ بھی لوگوں کو سنایا جائے جس کا شائع کرنامناسب سمجھا جائے اور ہرمقام پر چندہ بھی (جمع) کیا جائے اگر فی گاؤں پانچ پانچ روپیہ بھی اوسطاً چندہ کے ہو جائیں۔ تو قریباً تین لاکھ روپیہ پنجاب میں ہی جمع ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جدوجہد میں بہت کچھ روپیہ بھی صرف کرنا پڑے گا اور بغیر ایک زبردست فنانشل کمیٹی کے جس پر ملک اعتبار کر سکے۔ کسی بڑے چندہ کی تحریک کرنا یقینا مہلک ثابت ہو گا۔
میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، شیخ دین محمد صاحب، سید محسن شاہ صاحب اور اسی طرح دوسرے سربرآوردہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت میں کسی دوسرے سے کم نہیں ہیں ۔ اس موقعہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملوکی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہو جائے گی اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔‘‘
(الفضل قادیان ۱۶؍جولائی ۱۹۳۱ء)

مظلومین کشمیر کی فوری مالی اعانت اور مفتی اعظم کا حضور کو خراج تحسین 

حضرت مصلح موعود نے جہاں مضامین میں مالی اعانت کرنے کی مسلمان لیڈروں کو درخواست کی وہاں خود ایک خطیر رقم فوری طور پر بھجوائی جس کی نسبت تحریک آزادی کے ایک مشہور لیڈر مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء سابق مفتی اعظم پونچھ نے فارسی زبان میں ایک نوحہ کشمیر تحریر کیا۔ جس میں لکھا:
’’آغاز تحریک آزادی میں مظلوم کشمیریوں کی طرف سے زعماء ہندوستان کی خدمت میں خطوط بھیجے گئے جن میں ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال صاحب (شاعر مشرق )، جناب شیخ صادق حسن صاحب امرتسری، امام جماعت احمدیہ اور خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی شامل ہیں اور کہا گیا کہ مظلوموں کی مدد کیجئے۔ امام جماعت احمدیہ کے سوا سب کی طرف سے یہ جواب آیا کہ آپ نے ایسے خطرناک کام میں کیوں ہاتھ ڈالا اور بس ۔ صرف امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے یکمشت ایک خطیر رقم مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے موصول ہو گئی ۔‘‘
(اردو ترجمہ نوحہ کشمیر صفحہ ۱۳-۱۲بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۵صفحہ ۴۰۱)

حضور کے مضامین کا ردّعمل اور مسلمانان کشمیر پر مظالم میں تیزی 

جناب محمد یوسف صاحب بی اے ایل ایل بی نے سری نگر سے حضور کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا کہ 
’’حضور کے دوسرے مضمون نے جو الفضل میں شائع ہوا بہت مفید نتیجہ یہاں پیدا کیا ہے اور مطالبات میں ان مضامین سے Pointsلئے جا رہے ہیں ۔ یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی توجہ حضور کی طرف بہت زیادہ ہو گئی ہے اور اب ہر بات میں وہ حضور کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۴۰۳)
چنانچہ خانقاہ معلی اور جامع مسجد سری نگر میں آزادی کشمیر کے حوالے سے باقاعدہ اجلاس منعقد ہونے شروع ہوئے اور ایک جلسہ جامع مسجد سری نگر میں منعقد ہوا جس میں ۳۰ہزار مسلمانوں نے شرکت کی ۔ اس طرح ۲۱؍جون ۱۹۳۱ء کو خانقاہ معلٰی کے کھلے صحن میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ جس کی روئیداد پنڈت پریم ناتھ بزا ز نے اپنی کتاب Inside Kashmir میں لکھی ہے۔ اس کے صفحہ 125پر لکھتے ہیں کہ 
’’یہ تحریک آزادی کی تاریخ میں نہایت اہم جلسہ تھا جس میں میر واعظ یوسف شاہ اور مولوی عبداﷲ وکیل ’’ مرزائی ‘‘ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے۔ تمام فرقہ وارانہ اختلاف یکسر نظر انداز کر دئیے گئے اور سنی ‘ شیعہ ‘ حنفی اور وہابی اور احمدی پوری طرح اپنے مطالبات منوانے کے لئے متفق و مجتمع ہو گئے۔‘‘
’’جلسہ میں امروہہ یوپی سے ایک صاحب عبدالقدیر خاں بھی موجود تھے جنہوں نے جلسہ کے آخر میں ایک پُر جوش اور جذ باتی تقریر کی اور توہین قرآن جیسے واقعات یاد کروا کروا کر مسلمانوں کو بے غیر تی کی زندگی ترک کرنے کو کہا۔‘‘
(کشمیر کے حالات از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ ۲۸)
اس صاحب کو گرفتار کرکے بغاوت کا مقدمہ دائر کیا گیا اور۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کو مقدمہ کی سماعت کے دن ہزاروں کی تعداد ہری بت جیل پہنچ گئی جہاں یہ مسلمان پولیس کے مظالم کا نشانہ بنے ان پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں۔ کئی دسیوں شہید ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں ۔ عینی شاہد وں کا بیان ہے کہ اس روز بے بس نہتے مسلمان پولیس کی گولیوں سے اس طرح گرے جس طرح درخت سے پتے گرتے ہیں ۔
ان واقعات نے کشمیر میں گویا ایک قیامت برپا کر دی ۔ شہر میں عام ہڑتال کا اعلان ہوا جو ۱۷دن تک جاری رہی ۔ حکومت نے خبروں پر سنسر لگا دیا ریاست کے مفاد کے خلاف کوئی مواد بذریعہ تار یا ڈاک باہر نہ جا سکتا تھا کہ ان حالات کی تمام روئید اد کا علم حضرت مصلح موعود کو ایک تار کے ذریعے ہوا جو سیالکوٹ سے کی گئی تھی ۔

۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کے المناک حادثہ پر حضرت مصلح موعود کی خدمات 

جونہی بذریعہ تار اس قتل و غارت کی اطلاع حضرت مصلح موعود کوپہنچی ۔ آپ نے فوراً ہدایت فرمائی کہ زخمی مسلمانوں کی طبی امداد کے لئے ایک وفد ریاست بھجوائے جانے کی استدعا کی جائے۔ یہ وفد ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کی سرکردگی میں بھجوایا جانا تجویز ہوا تھا جسے حکومت کشمیر نے داخلہ کی اجازت نہ دی۔ (الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۳۱ء)

دوسرا قدم: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا وائسرا ئے ہند کے نام تار 

حضور کو اس خونی واقعہ سے بہت تکلیف پہنچی تھی۔ حکومت نے اسی پر بس نہیں کی تھی بلکہ واقعہ کے بعد یہ بھانپتے ہوئے کہ مسلمان اب آپے سے باہر ہو گئے ہیں اور مظالم کی برداشت ان سے نا ممکن ہے حکومت کشمیر نے اہم اسلامی لیڈروں کو حیلے بہانوں سے قید کر دیا اور ہندو اخبارات نے اس پر آگ جلتی کاکام کیا۔ اس پر حضور نے دوسرا اہم کام یہ کیا کہ فوراً اسی روز وائسرائے ہند لارڈ ولنگڈن کو ایک تار بھجوایا ۔ جس میں مسلمانوں پر نہایت ہی خلاف انسانیت اور وحشیانہ مظالم کا ذکر کیا اور لکھا کہ حکومت کشمیر کی۹۵فیصد آبادی کو اس کے جائز حقوق سے صریح نا انصافی کر کے محروم رکھا گیا ہے اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس لئے آنجناب سے اپیل ہے کہ آپ کشمیر کے لاکھوں غریب مسلمانوں کو جنہیں برٹش گورنمنٹ نے چند سکّوں کی عوض غلام بنا دیا ان مظالم سے بچا لیں تاکہ ترقی اور آزاد خیالی کے موجودہ زمانہ کے چہرہ سے سیاہ داغ دور ہو سکے اگر حکومت ہند اس میں مداخلت نہ کرے گی تومجھے خطرہ ہے مسلمان اس انتہائی ظلم وستم کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوئے گول میز کانفرنس میں شمولیت سے انکار نہ کر دیں ۔ 
(الفضل ۱۸؍جولائی ۱۹۳۱ء)

تیسرا قدم

 مظلومین کی امدادکے لئے مکرم چوہدری عصمت اﷲ صاحب کے ذریعہ پانچصد روپیہ فی الفور ارسال فرما دیا۔

چو تھا قدم ۔ شملہ میں کشمیر کانفرنس کا انعقاد 

اس لرزہ خیز سانحہ کے بعد چوتھا قدم جو حضور نے اٹھایا وہ یہ تھا کہ آپ نے جہاں شملہ میں مسلمان لیڈروں کو ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو بلوایا وہاں تین مزید یہ اقدام فرمائے۔
i- لندن مشن کو کشمیر کے حالات پر احتجاج کرنے کو لکھا ۔
ii- روزنامہ الفضل کو اس ظلم وستم پر آواز بلند کرنے کی ہدایت فرمائی ۔
iii- افراد جماعت کو تحریک آزادی کے لئے مستعد وتیار رہنے کے لئے ۱۸؍جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان میں وسیع پیمانہ پر غیر احتجاجی جلسہ منعقد کیا۔

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام 

حضور کی درخواست پر بہت سے مسلم زعماء ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ اکٹھے ہو گئے اور نواب سر ذوالفقار علی خان آف مالیر کوٹلہ کی کوٹھی Fair Viewپر اجلاس ہوا۔
جس میں اور بہت سی مفید تجاویز کے ساتھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اجراء ہوا اور ڈاکٹر سر محمد اقبال کے پُر زور اصرار پر ۳۲لاکھ مسلمانان جموں کو بنیادی انسانی حقوق دلانے اور انہیں اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس کی صدارت قبول فرمائی اور نمائندوں کی رضامندی سے کمیٹی کے سیکرٹری مولوی عبدالرحیم درد صاحب ایم اے مقرر ہوئے۔
اس سارے اجلاس کی روداد قلمبند کرنے کا فریضہ جناب چوہدری ظہور احمد صاحب سابق ایڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ادا کیا وہ اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے تجویز کیا کہ اس کمیٹی کے صدر امام جماعت احمدیہ ہوں ان کے وسائل مخلص اور کام کرنے والے کارکن یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان سے بہتر ہمارے پاس کوئی آدمی نہیں۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے فوراً اس کی تائید کی اور سب طرف سے درست ہے کی آوازیں آئیں ۔ ‘‘
اس پر امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ
’’مجھے اس تجویز سے ہرگز اتفاق نہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری جماعت ہر رنگ میں کمیٹی کے ساتھ تعاون کرے گی لیکن مجھے صدر منتخب نہ کیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے امام جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے فرمایا :
’’حضرت صاحب جب تک آپ اس کام کو اپنے صدر کی حیثیت سے نہ لیں گے یہ کام نہیں ہوگا۔‘‘ ( ہفت روزہ لاہور ۵؍اپریل ۱۹۶۵ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ ۴۱۶،۴۱۷)
اس امر کا اظہار خود ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے ملک غلام فرید صاحب ایم اے سے بھی ایک ملاقات میں کیا۔
( ہفت روزہ لاہور مئی ۱۹۶۵ء)

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو فعال بنانے کی سعی 

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی قیادت و صدارت میں تحریک آزادی کشمیر بڑی شان کے ساتھ آگے بڑھی اور منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہی۔ آپ نے سب سے قبل اس کا آئینی ڈھانچہ اور لائحہ عمل تشخیص دیا اور اس امر کی وضاحت فرمائی کہ ہماری ساری کوششیں کانسٹیٹیوشن یعنی دائرہ نظام کے اندر ہوں گی اور تعاون کی اسی روح پر مبنی ہوں گی جو جماعت احمدیہ کے مذہبی اصول میں سے ایک اہم اصل ہے۔
دوسر اا ہم کام اس سلسلہ میں آپ نے یہ کیا کہ آپ نے ملک ہند کے مختلف مسلمانوں لیڈروں کو خطوط ،تار اور نمائندوں کے ذریعہ کمیٹی سے تعاون کی اپیل کی حتیٰ کہ آپ نے مظہر علی صاحب اظہر اور چوہدری افضل حق صاحب (مفکر احرار) جیسے لوگوں کو بھی خطوط لکھوائے کہ مجھے امید ہے کہ آپ اس میں شامل ہو کر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے گو انہوں نے تو شمولیت سے انکار کر دیا لیکن حضور کی مسلسل توجہ اور زبردست کوشش سے بہت سے اہم مذہبی پیشوا، سکالر ز، صحافی اس کمیٹی کے ممبر بن گئے۔ جن کی یہاں فہرست دینی مضمون کے طوالت کا باعث بنے گی ۔

پبلسٹی کمیٹی

اگست ۱۹۳۱ء کے آغاز میں ہی حضور نے ایک پبلسٹی کمیٹی تشکیل دی ۔ جس کا کام مسلمانان کشمیر کے حقوق و مطالبات کی حمایت و اشاعت تھا چنانچہ اس کمیٹی کی کاوشوں سے ’’کشمیر کے حالات ‘‘ ’’مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج‘‘ اور’’ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی‘‘ جیسی اہم کتب منظر عام پر آئیں جن سے کشمیریوں کے موقف کو بہت تقویت ملی۔ اس اہم لٹریچر کے علاہ ہینڈ بلزاور ٹریکٹ بھی شائع ہو کر تقسیم ہوتے رہے۔ مہاراجہ کشمیر کے لئے مسلمانان کشمیر کا محضر نامہ شائع ہوا۔ احمدی اخبارات الفضل ،پیغام صلح اور سن رائز نے کشمیریوں کے حقوق پر ادارئیے لکھے۔جن سے متاثر ہو کر پنجاب کے مشہور صحافی اور سیاسی لیڈر مولوی ظفر علی خاں صاحب مدیر زمیندار نے لکھا کہ
’’ شیخ محمد عبداﷲ صاحب تو اخبار الفضل کے اداریوں سے شیر کشمیر بنے ہیں‘‘ 
بلکہ جناب شیخ محمد عبداﷲ نے خود شیر کشمیر کے عنوان پر ایک نظم لکھی جس میں یہ شعر بھی تھا۔
؂ شیر کشمیر بن گیا ہوں میں
فقط الفضل کے مقالوں سے 
سن رائز جس کے ادارئیے خود حضور لکھا کرتے تھے اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ بغیر نام کے شائع ہوتے تھے کے متعلق بمبئی کے اخبار سوشل ریفارمز نے لکھا کہ
’’سن رائز جس جرات اور قابلیت سے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے مسلمانوں کا کوئی اور اخبار نہیں کرتا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۴۳۴)

کشمیر ریلیف فنڈ 

اس سے قبل ہر گاؤں کے لئے ۵روپے کی تحریک تو حضور کر چکے تھے تاہم اب حضور نے ہر احمدی کے لئے ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے کشمیر ریلیف فنڈ لازمی قرار دے دیا۔ اس فنڈ کے پہلے فنانشل سیکرٹری چوہدری برکت علی خان صاحب مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ مالی قربانی کا ذکر مختلف جگہوں پر موجود ہے۔

کشمیر کمیٹی کے اجلاسات کے لئے حضور کے دورہ جات اور مسلم زعماء کی قادیان آمد

کشمیر کمیٹی کے اجلاسات میں شمولیت اور تحریک آزادی کے سلسلہ میں مختلف شہروں کا حضور نے دورہ فرمایا اور اب چونکہ قادیان تحریک آزادی کشمیر کے لئے اہم مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا تھا اس لئے مسلم زعماء کی قادیان حضرت مصلح موعود سے مشورہ کی غرض سے آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
تحریک آزادی کشمیر میں احمدیوں کی کاوش کو جناب محی الدین صاحب قمر قمرازی مصنف ارمغان کشمیر نے سراہتے ہوئے لکھا:
’’تحریک آزادی کے دوران جو پارٹ احمدیوں اور ان کے امیر جماعت نے ادا کیا ہے وہ کوئی شخص بشرطیکہ غیر متعصب ہو بھلا نہیں سکتا۔ تحریک کے دنوں میں سوپور میں سپیشل طور پر گورنر کشمیر ٹھاکر کرتار سنگھ کے حکم سے وہاں تعینات ہوا تھا اور مجھے بخوبی علم ہے کہ احمدی جماعت کے افراد نہایت تندہی اور خلوص نیت سے تحریک آزاد کی قلمے‘ درمے امداد کرتے رہتے تھے۔ مجھے یادہے کہ میں گھر میں صبح سویرے اٹھتا تھا تو مجھے سرہانے پر تحریک کشمیر کے سلسلہ میں کارکنان جماعت احمدیہ کی طرف سے ٹریکٹ رکھے ہوئے مل جاتے تھے جنہیں پڑھ کر ہماری بڑی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ ۴۴۱)
جناب پروفیسر محمد اسحق صاحب قریشی ایم اے نے جماعت احمدیہ کی خدمات کو یوں خراج تحسین پیش کیا۔
’’میرا تاثر یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر ۱۹۳۱-۳۲ء میں جو ذہنی انقلاب اور عملی تحریک ابھری اس میں سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کی مخلصانہ کوششوں کا عمل دخل تھا۔ میں نے جس تنظیم، مستعدی اور خلوص سے اس زمانہ میں تحریک آزادی کشمیر کے لئے جماعت احمدیہ کو کام کرتے دیکھا وہ اب تک میں پاکستان میں بھی نہ دیکھ سکا ۔ جماعت احمدیہ نے اس سلسلہ میں مالی اور قانونی امداد بھی کی اور ہر رنگ میں تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کے لئے ایثار و اخلاص سے بے مثال کام کیا ہے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۴۴۵)

شیر کشمیرشیخ محمد عبداﷲ صاحب سے صدر کشمیر کمیٹی کی پہلی ملاقات 

شیر کشمیر شیخ محمد عبداﷲ جب قلعہ ہری پربت سے رہا ہو کر واپس آئے تو گڑھی حبیب اﷲ میں ملاقات کا انتظام کروایا گیا ۔ اس ملاقات میں کشمیر کی آزادی بارے لمبی گفتگو ہوئی ۔ جس میں حضور نے کشمیر میں تحریک آزادی کا لیڈر بننے کی درخواست کی ۔مگر جناب شیخ محمد عبداﷲ صاحب نے انکار کر دیا۔ تب حضور نے اصل حقیقت یوں سمجھائی۔
بات یہ ہے کہ جب ہم برطانوی ہندوستان میں کشمیر کے متعلق آواز اٹھائیں گے تو لازماً انگریز ہم سے یہ پوچھے گا۔ آپ لوگ تو ریاست کے باشندے نہیں ۔ آپ ان کے معاملات میں کیوں دخل دیتے ہیں اس کے دو ہی جواب میں ان کو دے سکتا ہوں یا تو یہ کہ وہ احمدی ہیں مگر ان کی اکثریت احمدی نہیں ہے اور یا میں ان کو یہ جواب دے سکتاہوں کہ میں ان کا وکیل ہوں اور وکیل کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ اس ملک کا باشندہ ہو۔ پس مجھے کشمیر میں تنظیم کی اس لئے ضرورت ہے کہ جب کبھی میں گورنمٹ برطانیہ کو مخاطب کروں اور (وہ) مجھ سے پوچھیں کہ تمہارا ان سے کیا واسطہ ہے تو میں ان کو دلیری سے کہہ سکوں کہ میں کشمیر اور جموں کے لوگوں کا وکیل ہوں ۔ پس جب تک جموں و کشمیر سے ایسی آواز نہ اٹھتی رہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے صدر اس کے نمائندے ہیں اور وکیل ہیں اس وقت تک ہماری کوششیں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ شیخ محمد عبداﷲ ! تم یہ بتاؤ کہ کیا یہ آواز تم کشمیر سے زور کے ساتھ اٹھوا سکتے ہو یا نہیں ؟ شیخ محمد عبداﷲ نے جواب دیا یہ آواز تو نہایت شاندار طور پر اٹھا سکتا ہوں اس پر میں نے کہا بس آپ اس کام کے اہل ہیں اور خدا کا نام لے کر اس کوشروع کر دیں میں نے ان کو اخراجات کے متعلق ہدایتیں دیں کہ اس طرح دفتر بنانا چاہئے اور وعدہ کیاکہ دفتر کے اخراجات اور دوسری ضرورتیں جو پیدا ہوں گی ان کے اخراجات میں مہیا کرتا رہوں گا چنانچہ اس گفتگو کے بعد درد صاحب شیخ محمد عبداﷲ صاحب کو لے کر کشمیر چلے گئے اور ان کی واپسی پر کشمیر گورنمنٹ کو علم ہوا کہ انہوں نے کشمیر کے بارڈر پر مجھ سے ملاقات کی۔ چنانچہ اس کی طرف مسٹر جیون لعل پرسنل اسسٹنٹ پرائم منسٹر نے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے…… جس کے الفاظ یہ ہیں ۔
’’کسی قدر ہمیں یہ تسلی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آکر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں اور تمام معاملات معلوم کر گئے ہیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۴۴۷-۴۴۶)

وائسرائے ہند سے ملاقات اور کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کی اپیل 

حضور ۲۴؍جولائی ۱۹۳۱ء کو جب کانفرنس میں شرکت کے لئے شملہ تشریف لے گئے تو آپ نے وائسرائے سے ملاقات کے لئے لکھا یہ درخواست منظور ہو گئی اور حضور نے مولوی عبدالرحیم درد صاحب کے ساتھ یکم اگست۱۹۳۱ء کو وائسرائے ہند لارڈن و لنگڈن سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کی تفصیل اور اس کے نتائج حضور ہی کے الفاظ میں یہ ہیں :
’’پہلے تو وہ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے جب میں نے کشمیر کا نام لیا تو وہ اپنے کوچ سے کچھ آگے کی طرف ہو کر کہنے لگے کہ کیا آپ کو بھی کشمیر کے معاملات میں انٹرسٹ ہے آپ تو مذہبی آدمی ہیں مذہبی آدمی کا ان باتوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے میں نے کہا میں بے شک مذہبی آدمی ہوں اور مجھے مذہبی امور میں ہی دخل دینا چاہئے مگر کشمیر میں تو لوگوں کو ابتدائی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں اور یہ وہ کام ہے جو ہر مذہبی شخص کر سکتا ہے بلکہ اسے کرنا چاہئے اس لئے مذہبی ہونے کے لحاظ سے بھی اور انسان ہونے کے لحاظ سے بھی میرا فرض ہے کہ میں انہیں وہ ابتدائی انسانی حقوق دلواؤں جو ریاست نے چھین رکھے ہیں آپ اس بارے میں کشمیر کے معاملات میں دخل دیں تاکہ کشمیریوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کا انسداد ہو۔وہ کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ ریاستوں کے معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے۔ میں نے کہا میں یہ جانتا توہوں مگر کبھی کبھی آپ دخل دے دیتے ہیں چنانچہ میں نے کہا کیا حیدر آباد میں آپ نے انگریز وزیر بھجوائے ہیں یا نہیں؟ کہنے لگے تو کیا آپ کو پتہ نہیں نظام حیدر آباد کیسا مناتا ہے ۔میں نے کہا یہی بات تو میں کہتا ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے کہ نظام حیدر آباد بُرا منائیں تو آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور مہاراجہ صاحب کشمیر برا منائیں تو آپ ان کے معاملات میں دخل دینے سے رک جائیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ ۴۵۲)
پھر دونوں میں گفتگو ہوتی رہی اور اخیر میں ان الفاظ میں تسلی دلائی کہ
 ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں کروں گا اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔‘‘
(الموعود لیکچر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جلسہ سالانہ ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۶۱)

یوم کشمیر (کشمیر ڈے) کے عظیم الشان جلسے

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس کے فیصلہ کے مطابق ۱۴؍اگست ۱۹۳۱ء کو ملک بھر میں کشمیر ڈے منایا گیا جس کو شایان شان طریق سے منانے کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۶؍اگست کو ایک مضمون کے ذریعہ پر زور تحریک ان الفاظ میں کر دی تھی:
’’مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے بتیس لاکھ بھائی بے زبان جانوروں کی طرح قسم قسم کے ظلموں کا تختہ مشق بنائے جا رہے ہیں جن زمینوں پر وہ ہزاروں سال سے قابض تھے ان کو ریاست کشمیر اپنی ملکیت قرار دے کر ناقابل برداشت مالیہ وصول کر رہی ہے۔ درخت کاٹنے ، مکان بنانے ، بغیر اجازت زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں ۔ اگر کوئی شخص کشمیر میں مسلمان ہو جائے تو اس کی جائیداد ضبط کی جاتی ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل وعیال بھی اس سے زبردستی چھین کر الگ کر دئیے جاتے ہیں ۔ ریاست جموں و کشمیر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں، انجمن بنانے کی اجازت نہیں ۔ اخبار نکالنے کی اجازت نہیں غرض اپنی اصلاح اور ظلموں پر شکایت کرنے کے سامان بھی ان سے چھین لئے گئے ہیں وہاں کے مسلمانوں کی حالت اس شعر کے مصدا ق ہے۔ 
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
(الفضل ۶؍اگست ۱۹۳۱ء)
چنانچہ۱۴؍اگست کو ہندوستان بھر کے مشہور شہر اور بستی جیسے دیو بند ،علی گڑھ ،کلکتہ ، بہار اور سری نگر وغیرہ وغیرہ میں بڑے جوش وخروش سے یوم کشمیر منایا جانے کے علاوہ قادیان میں بھی یوم کشمیر منایا گیا۔

قادیان میں یو م کشمیر 

اس روز قادیان میں بھی مظلومین کشمیر کی حمایت میں مظاہرہ کیا گیا ۔چھہزار سے زائد افراد نے جلوس میں شرکت کی۔ یہ اس شان کا جلوس تھا کہ قادیان میں اس جیسا جلوس پہلے نہ دیکھا گیا تھا۔ حضور ناسازی طبع کے باوجود بیت مبارک کی سیڑھیوں پر ایک گھنٹہ تک کھڑے جلوس کو دیکھتے رہے۔ جلوس سبزی منڈی کے قریب جا کر ختم ہوا جہاں جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ کی صدارت میں جلسہ ہوا۔ جس میں جناب ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب اور جناب حکیم فضل الرحمن صاحب نے تقاریر کیں اور ڈوگرہ حکومت کے جابرانہ قوانین کے خلاف اور مظلوم کشمیریوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لئے گیارہ ریزولیوشن متفقہ طور پر پاس ہوئے اور مظلومان کشمیر کی امداد کے لئے چندہ بھی اکٹھا ہوا۔
قادیان کی خواتین کا الگ اجلاس محترمہ سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم ثانی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی منعقد ہوا۔
(الفضل ۲۰؍اگست ۱۹۳۱ء)

سری نگر میں یوم کشمیر 

یہاں ہر جگہ کے جلسہ کی روداد دینی مشکل ہے تاہم سری نگر میں کشمیر ڈے کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ ایک دفعہ پھر اس موقعہ پر خون کی ہولی کھیلی گئی جب جلوس پر حکومت کشمیر نے گولی چلا دی ۔چونکہ حضرت مصلح موعود کشمیریوں کی آزادی کے لئے کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے سے نہ دیتے تھے اس لئے آپ نے فوراً دو تاروں کے ذریعہ اس واقعہ کی اطلاع مہاراجہ کشمیر اور وائسرائے ہند کو کر دی اور اپنا ایک نمائندہ فوٹو گرافر کے ساتھ بھجوایا جس نے اس سارے واقعہ کو تصویری رنگ میں محفوظ کر لیا۔

ملک ہند سے باہر دیگر ممالک میں آزادی کشمیر کے لئے پراپیگنڈہ

حکومت ہند اور ریاست کشمیر پر دباؤ ڈالنے کے لئے ایک مؤثر ذریعہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنایا وہ غیر ممالک میں کشمیری عوام کے حق میں مہم کا آغاز تھا ۔ حضور نے اپنی توجہ امریکہ ، سماٹرا ، جاوا، عرب، مصر و شام بالخصوص انگلستان کی برطانوی حکومت ، برطانوی پریس اور برطانوی عوام کی طرف دی کیونکہ ریاست کشمیر حکومت ہند کی نگرانی میں تھی اور حکومت ہند برطانوی حکومت کے ماتحت تھی۔
اس سلسلہ میں آپ نے سب سے پہلے لندن مشن کے انچارج مکرم مولوی فرزند علی صاحب کو آزادی کشمیر کے لئے آواز بلند کرنے کی ہدایات دیں۔ جن کی تعمیل میں Kashmir Past and Presentکشمیر ماضی و حال کے نام سے پمفلٹ اور کئی ایک مؤثرمضامین اخبارات میں شائع ہوئے۔
حضور نے امام بیت الفضل لندن کو یہ بھی تاکید فرمائی کہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے والے مسلمان ممبروں کے ذریعہ بھی مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے۔
لندن میں اہل کشمیر کے حق میں جو آواز حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ نے بلند کی اور اس کے جو نتائج نکلنے لگے ان کا اقرار غیر وں نے بھی کیا جیسے انقلاب اخبار نے لکھا:
’’آج کل برطانوی اخبارات میں کشمیر کے متعلق جو مضامین شائع ہو رہے ہیں ان کی بناء پر معتبر حلقوں میں اہل کشمیر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔‘‘ (انقلاب یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء)
جناب غلام رسول مہر صاحب نمائندہ انقلاب نے لکھا:
’’کشمیر ی مسلمانوں کے تعلق میں برطانوی جرائد کا رویہ پہلے کی نسبت بہتر ہے اور اس میں بلا شائبہ و ریب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد لندن کا بڑا حصہ ہے جو شروع سے لے کر کشمیر کے تعلق میں مسلسل جدوجہد فرماتے رہے ہیں ۔‘‘ (انقلاب ۱۹؍نومبر۱۹۳۱ء)
جناب عبدالحمید سالک صاحب نے لکھا:
’’انگلستان میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جو کام کیا وہ ہندوستان کے کام سے بھی کہیں زیادہ بیش بہا ہے……آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کے برقی پیغامات اور مولوی فرزند علی امام مسجد لندن کی ان تھک مساعی سے اب حالات بہت بہتر ہیں اور اکثر انگریزی اخبارات کا لب و لہجہ ہمدردانہ ہو گیا ہے ۔‘‘ (انقلاب ۲۰؍نومبر ۱۹۳۱ء بحوالہ الفضل ۲۶؍نومبر ۱۹۳۱ء)

مہاراجہ کشمیر کی ساز ش

انگلستان میں آزادی کشمیر کے حوالے سے کامیاب تحریک پر مہاراجہ کشمیر اور اس کے دیگر عمائدین بوکھلا گئے اور انہوں نے بھی اپنے حق میں پراپیگنڈہ کرنے کی ٹھانی اور منصوبے بنائے مگر ان کو منہ کی کھانی پڑی ۔ ہندو لیڈر دیوان چمن لال کے ذریعہ لندن میں ایک صحافی خاتون اور گول میز کانفرنس کے ممبروں کو ریاست کشمیر کے حق میں کرنے کے لئے ریاست کے ایک وزیر کی تقرری ہوئی مگر حضور کی بروقت کارروائی سے ان ہر دو اشخاص سے نہ صرف پراپیگنڈہ بند کیا بلکہ معذرت بھی کی ۔ (الفضل ۱۴؍نومبر ۱۹۵۴ء)

سیالکوٹ میں کشمیرکمیٹی کا جلسہ اور مخالفین کی سنگباری 

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات پر جہاں اندرون اور بیرون ملک سے ہمدردیاں مل رہی تھیں وہاں مخالفت کا بھی شدید سامنا کرنا پڑ ا۔ جس میں ہندو اخبار بالخصوص ’’ملاپ‘‘ پیش پیش تھا۔ اس مخالفت میں اپنے مسلمان بھائی بھی شامل ہو گئے اور احرار نے بھی نہ صرف مخالفت میں اپنا حصہ ڈالا ۔ بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئے اور درپردہ مہاراجہ کشمیر اور دوسرے اعلیٰ افسروں سے روابط کر کے کشمیر ایجی ٹیشن کو قادیانی سازش کا حصہ قرار دینے لگے۔
اس کے چند روز بعد ۱۲،۱۳؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو سیالکوٹ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عارضی معاہدہ کی روشنی میں کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا ۔ کشمیر کمیٹی کا اجلاس تو بخیرو خوبی اختتام پذیر ہوا جبکہ کشمیر کمیٹی نے ۱۳؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو سیالکوٹ میں قلعہ کے میدان میں ایک بہت بڑے جلسہ کا پروگرام بنایا جس میں صدر کشمیر کمیٹی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تقریر کرنی تھی ۔ مخالفین نے اس روز فتنہ پیدا کرنے کے لئے اوباش اور لفنگے اکٹھے کر رکھے تھے ابھی حضور جلسہ گاہ تشریف نہ لائے تھے کہ انہوں نے پتھراؤ شروع کر دیا بہت سے شرکاء زخمی بھی ہوئے۔ حضور کو مشورہ دیا گیا کہ آپ اس جلسہ میں شرکت نہ فرمائیں مگر حضور نے حاضر ہو کر تقریر کرنے کا فیصلہ فرمایا اور ایسی زور دار اور مؤثر اور نہایت پُرشوکت تقریر فرمائی کہ سب لوگ نہ صرف اپنے زخموں اور چوٹوں کو بھول گئے بلکہ نہایت لطف و سرور محسوس کرنے لگے حضور نے اس میں فرمایا ۔ یہ خون آخر ایک دن ضرو ررنگ لائے گااور یہ جلسہ آزادی کشمیر کے لئے ایک نیا دروازہ کھولنے کا باعث بنا۔
حضور نے اپنی تقریر کے آخر میں فرمایا :
’’آخر میں سب حاضرین سے اور ان سب سے جن تک میرا یہ پیغام پہنچے کہتا ہوں کہ اٹھو ! اپنے بھائیوں کی امداد کرو۔ اپنے کام بھی کرتے رہو مگر کچھ نہ کچھ یا د ان مظلوموں کی بھی دل میں رکھو جہاں اپنے خانگی معاملات اور ذاتی تکالیف کے لئے ہمارے دلوں میں ٹیسیں اٹھتی ہیں وہاں ایک ٹیس ان مظلوموں کے لئے بھی پیدا کرو اور ان آنسوؤں کی جھڑیوں میں سے جواپنے اور اپنے متعلقین کے لئے برساتے ہواور نہیں تو ایک آنسو ان ستم رسیدہ بھائیوں کے لئے بھی ٹپکاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ تمہاری آنکھوں سے ٹپکا ہوا ایک ایک آنسو جس کی محرک سچی ہمدردی ہو گی۔ ایک ایسا دریا بن جائے گا۔ جو ان غریبوں کی تمام مصائب کو خس وخاشاک کی مانند بہا کر لے جائے گا اور اس ملک کو آزاد کر دے گا۔‘‘ (الفضل ۲۴؍ستمبر۱۹۳۱ء)
اس موقعہ پر احمدی جو زخمی ہوئے نہایت صبر کے ساتھ زخمی حالت میں اپنے آقا کی تقریر سنتے رہے اوریوں اپنے آقا سے وفاداری کا ثبوت دیا۔
اس کا اظہار ہفت روزہ’’ سلطنت‘‘دہلی کے ایڈیٹر سید شفیع احمددہلوی نے اپنے اداریہ ۲۱؍اکتوبر۱۹۳۱ء میں یوں کیا۔
’’غرض جب پتھروں کی بارش پورے زور پر تھی تو احمدیوں کے کسی ایک بچہ نے بھی خطرہ کو محسوس کر کے اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت نہ سمجھی ۔ تمام لوگ نہایت صبر و سکون کے ساتھ پتھر کھاتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے……اشرار کی اس شرارت اور احمدیوں کے صبر واستقلال اپنے خلیفہ کے لئے جذبہ فداکاری اور خطرناک سے خطرناک حالات میں اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل واطاعت کے جوش سے سیالکوٹ کے شریف النفس اور سمجھدار لوگ بے حد متاثر ہوئے۔‘‘ (رسالہ ہفت روزہ سلطنت دہلی ۲۱؍اکتوبر ۱۹۳۱ء)

کشمیر میں شدید مخالفت اور ظلم و بربریت کا بازار گرم ہونا اور حضرت مصلح موعود کا عزم

سیالکوٹ کے اجلاس کے بعد کشمیر میں ریاستی زعماء کی طرف سے بھی مخالفت میں تیزی آ گئی ۔ شیخ محمد عبداﷲ صاحب کو گرفتار کر لیا گیا تو احتجاج کرنے والوں پر ریاستی پولیس اور فوج نے حملہ کر دیا متعدد مسلمان شہید ہوئے پھر اسلام آباد میں مسلمانوں کا کشت وخون ہوا اور ۲۵مسلمان شہید ہوئے۔ شو پیاں اور اس کے نواح میں بعض مسلمانوں کے مکانوں کو نہایت بے دردی اور بے رحمی سے جلا دیا گیا۔ جس پر مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور ۲۸؍ستمبر۱۹۳۱ء کو مارشل لا لگا دیا گیا۔ (الفضل۶؍اکتوبر۱۹۳۱ء)
حضور کو جب ان مظالم کی رپورٹ مع فوٹوز ملی تو اندیشہ محسوس کیا کہ کہیں یہ تحریک دب ہی نہ جائے ۔ جس پر حضور نے اہل کشمیر اور مسلمانان ہند کو تحریک آزادی کے لئے مسلسل قربانیوں کی پر جوش تحریک یوں فرمائی :
’’میرے نزدیک اپنی اور اپنی ملک کی سب سے بڑی خدمت یہ ہو گی کہ ہر باشندہ کشمیر جو آزادی کی خواہش رکھتا ہے یہی ارادہ کر لے کہ خواہ میری ساری عمر آزادی کی کوشش میں خرچ ہو جائے میں اس کام میں اسے خرچ کردوں گا اور آگے اپنی اولاد کو بھی یہی سبق دوں گا کہ اسی کوشش میں لگی رہے اور اسی طرح قربانی کے متعلق ہر ایک شخص کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آزادی جیسی عزیز شے کے لئے جو کچھ بھی مجھے قربان کرنا پڑے میں قربان کر دوں گا۔ اگر اس قسم کا ارادہ رکھا جائے گا تو لازماً درمیانی مشکلات معمولی معلوم ہوں گی اور ہمت بڑھتی رہے گی ۔‘‘ (الفضل ۲۷؍ستمبر ۱۹۳۱ء)

مظلومین کشمیر کی مالی امداد

کشمیر ریلیف فنڈ کا ذکراوپر گزر چکا ہے۔۱۹۳۱ء کا سال مظلوم ، نہتے اور مفلوک الحال کشمیریوں پر مصائب و آلام کا پہاڑ بن کر آیا اور اس تکلیف دہ عرصہ میں جو مسائل سامنے آئے ان میں 
i- ڈوگرہ مظالم سے زخمی ہونے والوں کے علاج کا معاملہ 
ii- اسیران کشمیر کے اہل وعیال کی ضروریات
iii- ا سیران کشمیر کے لئے آئینی امداد
چنانچہ ان مسائل کے حل کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اپنے ذاتی، جماعتی اور ممبران کشمیر کمیٹی کے تمام وسائل وذرائع بروئے کار لائے زخمیوں کو طبی امداد پہنچانے کے لئے مکرم چوہدری عصمت اﷲ خاں صاحب کی نگرانی میں ڈاکٹروں کا پہلا وفد جموں بھجوایا۔ دوسرا طبی وفد مکرم میجر ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کی نگرانی میں میر پور اور تیسرا مکرم ڈاکٹر محمدمنیر صاحب کی نگرانی میں بھمبر بھجوایااور اسیران کشمیر کے اہل وعیال کی مالی اعانت ، ان کے کیسزکی آئینی امداد کے لئے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اخبار انقلاب نے اس کا اعتراف یوں کیا ہے:
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مسلمانان کشمیر کے شہداء پسماندگان اور زخمیوں کی امداد اور ماخوذین بلا کی قانونی اعانت میں جس قابل تعریف سرگرمی محنت اور ایثار کا ثبوت دیا ہے اس کو مسلمانان کشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ اب تک اس کمیٹی کے بے شمار کارکن اندرون کشمیر مختلف خدمات میں مصروف ہیں اور ہزارہا روپیہ مظلومین و ماخوذین کی امداد میں صرف کر رہے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اب تک اس کمیٹی کی مالی امداد میں کافی سرگرمی کا اظہار نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمیٹی ہزارہا روپیہ کی مقروض ہے۔‘‘ (انقلاب ۱۱؍مارچ ۱۹۳۲ء)
پھر سری نگر کے معزز مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی کی شاندار خدمات پر ہدیہ تشکر یوں پیش کیا:
’’ان حالات میں ہم تمام مسلمانان کشمیر جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے دوسرے رہبران قوم کے ساتھ شامل ہو کر بہت ہی بلند کام کیا ہے اور جو اَن تھک کوششیں وہ ہم مظلومین کی امداد کے لئے کر رہے ہیں اس کو بیان کرنے سے ہماری ناچیز زبانیں قاصر ہیں ۔ ہم کو جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے عقائد اور اختلافی خیالات سے کوئی غرض نہیں ہے ہم ان کے اختلافی خیالات کے ایسے ہی مخالف ہیں جیسے کہ خواجہ حسن نظامی صاحب و دیگر عمائدین دین متین مخالف ہیں لیکن قومیت کے سوال میں عقائد کو چھوڑ کر ان کا کام نہایت ہی قابل تعریف ہے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۴۷۳)
جناب سید حبیب صاحب مدیر’’ سیاست‘‘کا تبصرہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
’’مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے صرف دو جماعتیں پیدا ہوئیں ۔ایک کشمیر کمیٹی دوسری احرار۔ تیسری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بن سکی۔ احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامیٰ ،مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کر کے احرار شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس جرم کا مرتکب نہ ہوا ہو۔ کشمیر کمیٹی نے انہیں دعوت اتحاد عمل دی ۔ مگراس شرط پر کہ کثرت رائے سے کام ہو اور حساب باقاعدہ رکھا جائے۔ انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا میرے لئے سوائے ازیں چارہ نہ تھا کہ میں کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیتا اور میں یہ بہ بانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی ، محنت ، ہمت ،جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اوراس کی وجہ سے میں ان کی عزت کرتا ہوں۔‘‘
(تحریک قادیان حصہ اول صفحہ۴۲از مولانا سید حبیب مدیر سیاست )

ریاست کشمیر کے حکام نے ظلم و ستم کی حد کر دی تھی اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی مگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مساعی جمیلہ کا بالآخر رنگ لائی اور مہاراجہ ہری سنگھ نے ۵؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اپنی سالگرہ کے موقعہ پر شیخ محمد عبداﷲ صاحب اور بعض دوسرے سیاسی قیدیوں کی عام رہائی کا اعلان کر دیا۔ مارشل لاء ختم کر دیا اور مسلمانوں کے حقوق و مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ اس عظیم الشان تغیر پر جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی زبردست جدوجہد اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی کوششوں سے رونما ہوا تھا۔ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے روزنامچہ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو عظیم الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ 
’’حقیقت یہ ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے اراکین کی اندرونی کوششوں کا یہ نتیجہ ہے………… زیادہ اثر انڈیا کشمیر کمیٹی کے ولایتی پراپیگنڈہ کا ہے۔‘‘ (الفضل ۱۰؍نومبر ۱۹۳۱ء)
اور یہاں تک لکھ دیا کہ یہ صدر صاحب کشمیر کمیٹی کا کمال ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو آپس میں لڑنے سے محفوظ رکھ کر پیار و محبت کی فضا میں یہ تحریک آگے چلائی ۔

مہاراجہ کے سامنے مطالبات کی فہر ست

جونہی مہاراجہ صاحب نے اپنی سالگرہ پر آزادی کشمیر بارے مسلمانوں کے مطالبات پر غور کرنے کا اعلان کیا تو کشمیر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وفد خود مہاراجہ کی خدمت میں حاضر ہو کر مطالبا ت پیش کرے۔ جس کے لئے مسٹر یعقوب علی صاحب اور چوہدری عباس علی صاحب نے قادیان حاضر ہو کر حضور کی راہنمائی میں ایک مسودہ تیار کیا ۔ ادھر شیخ محمد عبداﷲ صاحب نے تار کے ذریعہ حضور سے درخواست کر دی کہ اپنے ذمہ دار نمائندوں کو کشمیر بھجوائیں تا وہ اسے آخری شکل دے کر خود مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کر یں۔
حضور نے اس درخواست پر مولوی عبدالرحیم درد صاحب کی سرکردگی میں ۴افراد پر مشتمل وفد سری نگر بھجوایا۔ ادھر ریاستی کا رندوں کو بھی وفد کے آنے کا علم ہو گیا تو انہوں نے ان کا استقبال چیکنگ پوسٹ پر کیا اور سرکاری رہائش کی درخواست کی مگر جناب درد صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم تو ان کے مہمان ہیں جنہوں نے ہمیں بلوایا ہے۔
چنانچہ یہ وفدمیرا کدال پہنچا جہاں شیخ محمد عبداﷲ صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہاں غورو خوض کر کے اس مسودہ کو آخری شکل دی گئی ۔ بعض ترامیم ہوئیں اور ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو نمائندگان نے خود مہاراجہ کے سامنے اس مسودہ اور میموریل کو پیش کیا ۔ 
(لاہور ۳؍مئی ۱۹۶۵ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۴۸۸،۴۸۹)

دوسری کامیابی

 مہاراجہ نے ابتدائی حقو ق دینے کا اعلان کر دیا اور پتھر مسجد واگزار کر دی
مہاراجہ سے وفد کی ملاقات کے معاً بعد حضور نے مہاراجہ صاحب کو ان کے نام ایک تار کے ذریعہ ’’دلال کمیشن‘‘ کے جانبدارانہ رویہ کی طرف توجہ دلا کر اس کی رپورٹ کو منسوخ کرنے کی درخواست کی ۔ اس تار کے چند روز کے اندر اندر مہاراجہ صاحب نے رعایا کو ۱۲؍نومبر ۱۹۳۱ء کو ابتدائی انسانی حقوق دینے کا مفصل اعلان کر دیا۔ یہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور تحریک آزادی کشمیر کی شاندار فتح تھی۔ جو حضر ت خلیفۃ المسیح الثانی کی حکمت عملی ‘ فہم و تدبر اور آئینی جدوجہد کی مرہون منت تھی یہ اعلان ۱۱؍نومبر کو لکھا گیا۔ ا س اعلان میں ایسی مساجد جن پر گورنمنٹ کا قبضہ تھا واگزار کرنے کو کہا۔ آزادی تحریر و تقریر و اجتماع کا ذکر تھا اور بہت سی مراعات کا بھی ۔ 
چنانچہ مہاراجہ صاحب نے اس سلسلہ میں سب سے پہلا اور فوری قدم یہ اٹھایا کہ پتھر مسجد جو سرکاری گودام کے طور پر استعمال ہو رہی تھی بڑی فراخد لی کے ساتھ مسلمانوں کے سپرد کر دی۔ اس مسجد کی رسم افتتاح بڑے جوش وخروش کے ساتھ ۲۹؍نومبر ۱۹۳۱ء کو عمل میں آئی جب ۵۰ہزار افراد کا عظیم جلسہ ہوا اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکریہ کی قراردادیں منظور ہو ئیں ۔ مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب جو اس جلسہ میں مدعو تھے شامل ہوئے ۔
 (ہفت روزہ لاہور ۱۰؍مئی ۱۹۶۵ء)

گلانسی اور مڈلٹن کمیشن کاقیام اور جماعت کی فتح 

اب حضور کی کاوشوں کے رنگ لانے کا وقت آ چکا تھا ۔ ایک دو بڑی کامیابیاں تو حاصل ہو گئی تھیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ والی جموں و کشمیر نے۱۱؍نومبر ۱۹۳۱ء کے اعلان کے بعد جو کمیشن مڈلٹن اور گلانسی کے نام سے قائم کئے۔ جن کے سپرد تمام واقعات کی تحقیق اور مفید شہادتوں کا اکٹھا کرنا تھا۔
اس معرکہ کو سر کرنے کے لئے بھی صدر صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے بہت جدو جہد کی اور سری نگر، جموں، پونچھ اور میر پور میں فوراً ایسی معلومات اکٹھی کرنے کے لئے دفاتر کھول دئیے اور احمدی جانثار کا رندوں کو مختلف کام سونپے۔ جن میں شیخ بشیر احمد صاحب بی اے ایل یل بی مولوی عبدالرحیم درد صاحب، چوہدری عصمت اﷲ صاحب ،چوہدری ظہور احمد صاحب اورصوفی عبدالقدیر صاحب نیاز نمایاں تھے۔ زعمائے کشمیر نے بھی حضور سے بذریعہ خطوط۔ تار روابط رکھے ان کمیشنز کو تحقیق کرنے اور رپورٹ کی تیاری میں جناب ملک فضل حسین صاحب کی دو تصانیف مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج اور مسئلہ کشمیر اور ہندو مہا سبھائی نے اہم کردار ادا کیا۔
گلانسی نے اپنی رپورٹ پہلے تیار کر لی ۔ جسے قبل از دستخط کسی طریق سے حضور تک پہنچایا گیا حضور نے ملاحظہ فرمائی اور بعض غلطیوں اور غلط مندرج امور کی طرف توجہ دلائی اور مہاراجہ صاحب کی خدمت میں رپورٹ پیش ہوتے ہی مہاراجہ صاحب نے ۱۰؍اپریل ۱۹۳۲ء کو رپورٹ کی سفارشات منظور کرنے کے احکام جاری کر دئیے اور جوں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی قیادت میں صرف چند ماہ کی آئینی جدوجہدسے اہل کشمیر کو اکثر و بیشتر وہ حقوق قانوناً حاصل ہو گئے جو سکھوں کے عہد حکومت سے چھن گئے تھے اور جن کے حصول کی خاطریہ قانونی جنگ جاری تھی۔
چنانچہ گلانسی کمیشن کے نتیجہ میں خانقاہ سوختہ خانقاہ شاہدرہ، زیارت مدنی صاحب، خانقاہ بلبل شاہ ، خانقاہ دار اشکوہ۔ شاہی باغ مسجد، خانقاہ مدنی شاہ، عید گاہ سری نگر اور بہت سی مساجد ، مقابر اور مقدس مقامات جو مدت سے ڈوگرہ حکومت کے قبضہ میں تھے مسلمانوں کو واپس کر دئیے گئے۔
اور مہاراجہ صاحب نے یہ اعلان کیا کہ اس نوع کی تمام مقدس عمارتیں مسلمانوں کے سپرد کر دی جائیں گی اور اگر ان پر قابض لوگوں کو معاوضہ دینے کا عدالتی فیصلہ ہو تو ریاست اسے معاوضہ ادا کرے اور نئی مساجد بنانے کی درخواست پر بھی ہمدردانہ غور کیا جائے۔
اس کے علاوہ مذہبی آزادی ۔ مذاہب کی تبدیلی کے جو ہراساں اور خوفزدہ کیا جاتا تھا اس کی گوشمالی کرنے کا حکم دیا۔ تعلیم عام کر دی گئی ۔ اسلامی وظائف بڑھا دئیے گئے۔ زمینداروں کو حقوق مالکانہ مل گئے اور سب سے بڑھ کر مہاراجہ صاحب نے ریاستی مطالبہ کو برطانوی ہند کے مطابق بنانے کے لئے ایک نیا ترمیم شدہ قانون جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور اس بارے میں احکام بھی جاری کر دئیے گئے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۵صفحہ۵۱۳،۵۱۴)

گلانسی اور زعماء کشمیر کو مبارکباد

حضور نے اس اعلان کے بعد گلانسی ، مہاراجہ صاحب اور زعمائے کشمیر کو مبارکباد پیش کی اور ان کی خدمات کو سراہا اور مکرم سید زین العابدین ولی اﷲ شاہ صاحب کو کشمیر کے دورہ پر بھجوایا تا وہ اندرون کشمیر کا دورہ کر کے رپورٹ کر یں کہ گلانسی کمیشن کی اصطلاحات پر کہاں تک عمل ہو رہا ہے۔

مظلومان کشمیر کی مالی اعانت اور دعاؤں کی تحریک پر مشتمل خطبات

تحریک آزادی کشمیر میں ایک اہم قدم سیدنا حضرت مصلح موعود کا خطبات کی ایک سیریز جاری کرنا ہے۔ جن کے ذریعہ آپ نے احمدیوں میں ایک زبردست جذبہ اور روح پھونک دی۔ یہ پانچ خطبات درج ذیل تاریخوں میں آپ نے ارشاد فرمائے جو خطبات محمود جلد ۱۳ میں طبع ہو چکے ہیں۔
٭ ۲۳؍جنوری۱۹۳۲ء بعنوان مسلمانان کشمیر کی مال اور دعا سے مدد کرو۔
٭ ۵ ؍فروری ۱۹۳۲ء بعنوان مسلمانان کشمیر کی مدد کرواور فتنہ و فساد سے بچو۔
٭ ۱۲؍ فروری۱۹۳۲ء بعنوان دعوت الی اﷲ پر زور دو اور مخالفین کا ڈردل سے نکال دو۔
٭ ۱۹ ؍فروری ۱۹۳۲ء بعنوان کشمیر کے مظلومین کی امداد کرو۔
٭ ۲۶؍ اگست۱۹۳۲ء بعنوان جماعت کے مخلصین سے قربانیوں کا مطالبہ۔
یہ خطبات چونکہ رمضان المبارک میں دیئے گئے اس لئے ان میں حضور نے احباب جماعت سے کشمیر کی آزادی کے لئے جہاں دعاؤں کی بار بار خصوصی تحریک فرمائی وہاں مالی امداد کی طرف بھی بلایا۔
’’میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری ایام کی مبارک دعاؤں اور صدقوں میں ان مظلومین کو نہ بھولواور چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلمنے فرمایا ہے کہ بہترین عبادت وہی ہے جس پر مداومت اختیار کی جائے۔ اس لئے آئندہ بھی جب تک یہ کام ختم نہ ہو اس سلسلہ کو جاری رکھو۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ قلیل ترین اخراجات کے لئے اس تحریک پر دو ہزار روپیہ ماہوار خرچ آتا ہے اور اگر ہماری جماعت کے دوست ایک پائی فی روپیہ ماہوار اپنے اوپر مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے لازم کرلیں تو بھی کافی رقم جمع ہو سکتی ہے………… جو زیادہ دے سکتا ہو وہ زیادہ دے لیکن کم از کم ایک پائی تو ہر شخص دے اور یہ کوئی بڑا بوجھ نہیں۔ جو شخص ماہوار سو روپیہ تنخواہ پاتا ہے اسے سو پائی یعنی سوا آٹھ آنہ ماہوار دینے ہوں گے اور یہ کوئی ناقابل برداشت بوجھ نہیں۔ پچاس روپے والے کو چار آنہ اور ایک دھیلہ دینا پڑے گا ۔ اس قسم کے چندوں میں طالب علم بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ جو طالب علم پندرہ روپیہ ماہوار خرچ کر لیتا ہے وہ نہایت آسانی کے ساتھ پندرہ پائیاں ادا کر سکتا ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۳ صفحہ۳۵۲،۳۵۳)
دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’دوسری چیزدعا ہے میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ رمضان کی دعاؤں میں کشمیر کی آزادی کو بھی شامل رکھیں۔ اگر ہمارے پاس ریاست کے مقابلہ میں روپیہ نہیں، آدمی نہیں، فوجیں نہیں اور دوسرے دنیوی اسباب نہیں تو کچھ پرواہ نہیں کیونکہ ہمارے پاس وہ ہتھیار ہے جو دنیا کے سارے بادشاہوں کے پاس نہیں اور جس سے تمام حکومتوں کی متحدہ طاقتوں کو بھی شکست دی جا سکتی ہے اور وہ دعا ہے ………… سو اگر تم اس مالی خدمت کے علاوہ جو کر سکتے ہوسہام اللّیل بھی چلاؤ اور دعائیں کرو اور اگر مالی امداد نہیں کر سکتے تو صرف دعائیں ہی کرو تو یہ مدد معمولی مدد نہیں۔‘‘ (خطبات محمود جلد۱۳صفحہ۳۳۸)
پھر ایک اور خطبہ میں فرمایا:
’’پس دوستوں کو پہلے سے بھی زیادہ دعاؤں اور توجہ کی نصیحت کرتا ہوں۔ بتیس لاکھ بندگان خدا کی مظلومیت کوئی معمولی بات نہیں۔ کسی انسان کا اگر ایک بیٹا یا بیٹی بیمار ہو تو اسے کس قدر تکلیف ہوتی ہے لیکن خداتعالیٰ کی اتنی مخلوق جب اس قدر مصیبت میں گرفتارہے تو یقینا ہم بھی آرام کی نیند نہیں سو سکتے۔ ہم اگر اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اگرچہ اور بھی کئی طریق سے ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔مثلاً روپیہ سے، لوگوں میں ان کے لئے ہمدردی پیدا کرنے سے، غرضیکہ کئی ذرائع ہیں لیکن اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا تو ضرور کریں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔‘‘
(خطبات محمود جلد۱۳صفحہ۳۷۷)
ان خطبات میں کشمیریوں سے محبت سے سرشار دل اور درد کے ساتھ احباب کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
’’میں احباب جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تیس لاکھ انسانوں کی قوم سینکڑوں سال سے ظلم اورا ستبداد کے نیچے چلی آتی ہے۔ پھر وہ ہماری تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل میں سے ہے۔ وہی بنی اسرائیل جنہیں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے ذریعہ فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ پھر اس فرعونی حکومت سے ان غریبوں کو بھی بچانا چاہتا ہو۔ اس لئے اس معاملہ میں ہماری مدد اس کی خوشنودی کا موجب ہو گی۔ پس جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اس موقع سے محروم نہ رہیں اور اس معاملہ میں یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ لوگ ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے، ہمیں ان کی مدد کی کیا ضرورت ہے، جس طرح خداتعالیٰ کا احسان اپنے پرائے میں کوئی فرق نہیں کرتا اسی طرح مومن کے احسان میں بھی کوئی اس قسم کی تمیز نہ ہونی چاہئے۔‘‘ (خطبات محمود جلد۱۳ صفحہ۳۵۲)

کشمیریوں کی آزادی کے لئے نوجوانوں کو اپنی زندگیاں پیش کرنے کی تحریک

جب حکومت کشمیر نے ہمارے اُن احمدیوں کو جو کشمیر میں خدمات بجا لا رہے تھے ریاست سے نکال دیا اور ہمارے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو حضور نے احمدی نوجوانوں کو کشمیر جا کر آزادی کشمیر کے لئے جماعت کی جدوجہد میں ہاتھ بٹانے کی تحریک اپنے ایک خطبہ جمعہ فرمودہ۱۲؍ فروری۱۹۳۲ء میں یوں فرمائی۔
’’دوسرا کام جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے وہ مظلومان کشمیر کی امداد کا کام ہے۔ اس وقت غلط طور پر ریاست کشمیر سخت جوش میں آئی ہوئی ہے اور اس نے اسی جوش میں ہمارے آدمیوں کو جو وہاں کام کر رہے تھے نکال دیا ہے………… ہم کشمیر میں عدل اور انصاف قائم کرنا چاہتے تھے مگر باوجود اس کے حکومت نے نہایت ہی ظالمانہ اور غیر منصفانہ طریق پر ہمارے نمائندوں کو وہاں سے نکال دیا ہے………… ہماری جماعت کے نوجوان اس مہم کے سر کرنے کے لئے اپنے آپ کو بطور والنٹیئرز پیش کریں اور وہ اپنے عمل سے دکھا دیں کہ اگر ان کے بھائیوں کو ریاست سے نکال دیا گیا ہے تو وہ ان کی جگہ کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں جنہوں نے ابھی تک کوئی ملازمت اختیار نہیں کی یا کوئی کام شروع نہیں کیا تو میں سمجھتا ہوں ایسے سینکڑوں نوجوان ملیں تو اس معاملہ میں ہمیں بہت جلدی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد۱۳صفحہ ۳۶۹،۳۷۲)

اسیران کی رستگاری کا موجب
 احمدی وکلاء کی مقدمات میں شاندار وکالت اور بے نظیر کامیابی

آزادی کشمیر کے لئے جماعت احمدیہ کے سامنے کئی آئینی محاذ تھے۔ ان میں سے ایک تو مڈلٹن کمیشن اور گلانسی کمیشن تھا جہاں احمدی وکلاء اور مندوبین نے نہایت اعلیٰ رنگ میں اپنا کیس پیش کیا اور شاندار طریق پرکامیاب و کامران ہوئے۔
اس کے علاوہ ایک محاذ مظلومین کشمیر کے مقدمات کی پیروی کا تھا۔ جس میں احمدی وکلاء کو بہت محنت کرنے اور مالی قربانی کرکے محاذ کے ہر حصے پر جنگ لڑنا پڑی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی خود ان وکلاء کی بے لوث قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء میں متواتر حکومت کشمیر نے مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے گرفتار کر لیا ان گرفتاریوں کے نتیجہ میں بہت سے مقدمات دائر ہوئے جن میں، بعض قتل کے تھے بعض ڈکیتی،بعض بغاوت، بعض بلوے کے تھے۔ یہ بیسیوں تھے اور سینکڑوں ملزم اس میں پیش ہوئے۔ ان لوگوں کے دفاع کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے عموماً اور احمدیہ جماعت نے خصوصاً اپنے وکلاء کی خدمات پیش کیں۔ عملاً احمدیہ جماعت سے باہر صرف ایک صاحب یعنی غلام مصطفی صاحب نائک بیرسٹر گوجرانوالہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ جنہوں نے ایک مہینے کے قریب کام کیا۔ باقی تمام کے تمام وکلاء جو سب نوجوان احمدی تھے۔ اور اپنی عمر کے اس دور میں سے گزر رہے تھے کہ اگرایک ماہ بھی اس کام میں حرج ہو جائے تو سای عمر کی پریکٹس ضائع ہو جاتی ہے۔ ان کے نام اور کام کی تفصیل یہ ہے۔
۱- شیخ بشیر احمد صاحب وکیل جو اس وقت لاہور کے چوٹی کے سول سائڈ کے وکیل ہیں انہوں نے چار ماہ تک سری نگر میں کام کیا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ انہوں نے میرپور میں بھی کام کیا۔
۲- چوہدری یوسف خاں اور چوہدری عصمت اﷲ صاحب وکلاء نے میرپور میں کئی ماہ تک کام کیا۔
۳- شیخ محمد احمد صاحب وکیل جو ریاست کپورتھلہ میں سیشن جج اور ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے ہیں انہوں نے سات ماہ تک سرینگر میں کام کیا۔
۴- چوہدری یوسف خان صاحب نے اڑھائی ماہ سری نگر میں کام کیا۔
۵- چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ نے پانچ ماہ تک پونچھ میں کام کیا۔
۶- قاضی عبدالحمید صاحب پلیڈر نے پونچھ میں چار ماہ تک کام کیا۔
۷- میر محمد بخش صاحب پلیڈر نے جو گوجرانوالہ میں کامیاب ترین وکلاء میں سے ہیں۔ جموں میں چھ ماہ تک کام کیا۔
۸- چوہدری اسداﷲ خان صاحب بار ایٹ لاء (برادر چوہدری ظفراﷲ خان صاحب) نے بعض اپیلوں میں کام کیا۔
۹- قاضی عبدالحمید صاحب پلیڈر نے راجوری میں تین ماہ تک کام کیا۔
۱۰- میر محمد بخش صاحب نے نوشہرہ میں تین ماہ کام کیا۔
جو مقدمات ہوئے ان میں ۱۲۱۰آدمیوں پر مقدمات چلائے گئے اور اندازاً ایک سو مقدمات تھے۔ ان وکلاء کی کوشش سے ان میں۱۰۷۰ کے قریب بری ہو گئے اور۱۴۰ کو بہت ہی معمولی سزائیں ہوئیں۔ حالانکہ مقدمات اکثر قتل اور ڈکیتی وغیرہ تھے……ہمارے احمدی وکیل ڈیڑھ درجن کے قریب تھے جن میں سے نصف نے اپنے آپ کو پیش کیا اور بعض ایسے ہیں جو آج تک دوبارہ اپنی پریکٹس نہیں کر سکے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحہ۵۳۵،۶۳۶)
پھر ایک موقعہ پر فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے وکلاء نے کشمیر کے معاملہ میں بہت بڑی قربانی کی ہے۔ کئی ہیں جنہوں نے اپنی مفت خدمات پیش کیں اور بغیر ایک پیسہ لینے کے انہوں نے کام کیا ۔ کئی ہیں جنہوں نے اپنے پیشے چھوڑ دئیے۔ دکانیں بند کر دی اور بغیر کوئی معاوضہ لئے کام کرنے لگ گئے۔‘‘ (خطبات محمود جلد۱۳صفحہ۳۷۳)
وکلاء کی خلوص و ہمدردی سے پُر خدمات کو اندرون و بیرون کشمیر غیروں کی طرف سے سراہا گیا۔ یہاں صرف ایک کشمیر ی لیڈر جناب عتیق اﷲ کشمیر کا حوالہ درج کرتے ہیں آپ وکلاء کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جس خلوص اور ہمدردی کے ساتھ مظلوم مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کو مالی، جانی، قانونی امداد دی۔ اس کے لئے ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ زبان سپاس ہے اور ہم لوگ اس کمیٹی کی بے لوث مالی امداد کے تازیست ممنون رہیں گے۔ اس کمیٹی نے شہداء کے پسماندگان کا خیال رکھا۔ یتامیٰ و ایامیٰ کی پرورش کی۔ محبوسین کے پسماندگان کو مالی امداد دی۔ ماخوذین کو قانونی امداد دی۔ کارکنوں کو گرانقدر مشورے دئیے جنگلوں اور پہاڑوں میں جا کر مظلومین کی امداد کی۔ماخوذین کی اپیلیں دائر کیں۔ اور ان کے مقدمات کی پیروی کی۔ قابل ترین قانونی مشیر بہم پہنچائے۔ہندوستان اور بیرون ہند میں ہماری مظلومیت ظاہر کرنے کے لئے جان توڑ کوشش کی۔ ہماری آواز کو مقام بالا تک پہنچایا۔ ہماری تسلی اور تسکین کی خاطراشتہارات اور ٹریکٹ شائع کئے۔ ہر وقت قابل اور موزوں والنٹیئر دئیے۔ دنیائے اسلام کو ہمارے حالات سے آگاہ کرکے ہمدردی پر آگاہ کیا۔ اخبارات کے ذریعہ سے ہماری مظلومیت کو ظاہر کیا گیا۔‘‘
(انقلاب۳۰؍ اپریل۱۹۳۲ء)

مطبوعہ خطوط کے ذریعہ اہل کشمیر کو ایک پلیٹ فارم پر رکھنے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اہل کشمیر کی یکجہتی ، تنظیم اور ان میں روح قربانی قائم رکھنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا۔ اخبارات میں مضامین لکھنے، خطبات جمعہ اور تقاریر کے ذرائع اپنانے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ ایک اہم ذریعہ خطوط ہے جو آپ نے اہالیان کشمیر کو تحریر فرمائے۔ ان خطوط نے بالخصوص ان ایام میں جبکہ شیخ محمد عبداﷲ صاحب نظر بند تھے کشمیریوں میں زبردست تنظیم ولولہ اور جوش پیدا کر دیا۔
حضور نے ان خطوط میں اس حد تک دلچسپی لی کہ جب ایک دو خطوط حکام نے ضبط کر لئے تو حضور نے فرمایا
’’آئندہ لوگ یہ احتیاط کیا کریں کہ میرا مطبوعہ خط ملتے ہی فوراً اسے پڑھ کر دوسروں تک پہنچا دیا کریں۔‘‘
ان اہم اور ولولہ انگیز پیغامات بذریعہ خطوط کی تعداد بیسیوں سے بھی زائد ہے ان تمام کو یہاں درج کرنا مشکل ہو گا تاہم یہ خطوط حریت کشمیر کی مستند تاریخ ہیں۔ ایک خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’پس جن تقریروں سے آپ کو باہر روک دیا گیا ہے وہ تقریریں آپ میں سے ہر شخص رات کے وقت اپنے اپنے گھر میں گھر کی عورتوں اور بچوں کے سامنے کرے کہ اس سے سارے ملک کی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی اور باہر کی تقریروں کا جو مقصد تھا اس طرح اور بھی زیادہ عمدگی سے پورا ہوتا رہے گا۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ جو شخص اکیلا ہے اسے چاہئے کہ رات کو سونے سے پہلے خواہ اونچی آواز سے خواہ دل میں ایک دفعہ ان ظلموں کا ذکر کر لیا کرے۔ جو امن کے قیام کے نام سے گزشتہ دنوں میں کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں۔
دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ رات کو سونے سے پہلے سب گھر والوں کو جمع کرکے اپنے ان لیڈروں کی آزادی کے لئے جو اپنے کسی جرم کے بدلے میں نہیں۔ بلکہ صرف آپ لوگوں کو انصاف دلانے کے لئے جیل خانوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ رو رو کر دعائیں کریں تاکہ آپ کی دعائیں عرش عظیم کو ہلائیں اوروہ شہنشاہ جو سب بادشاہوں پر حکمران ہے آپ کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنے فرشتوں کو بھیجے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۵۵۸)
اپنے ایک خط میں مساجد کے اماموں سے اپیل کی کہ وہ نمازیوں سے ان تمام مظالم اور مسلمانوں کی قربانیوں کاذکرکرے دعا اور چندہ کی اپیل کریں۔

مسلم کانفرنس کا قیام 

برادران کشمیر کے نام حضور نے اپنے آٹھویں خط میں اہل کشمیر کو یہ تحریک فرمائی تھی کہ ہماری کاوشوں سے مسلمانوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہندوؤں نے بھی ایجی ٹیشن شروع کر دی ہے تا جو تھوڑے بہت حقوق مسلمانوں کو ملے ہیں وہ بھی نہ ملیں۔ اس لئے مسٹر عبداﷲ کی عدم موجودگی میں ایک انجمن مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بنائی جائے۔
اس تجویز کو بہت سراہا گیا اور جب شیخ عبداﷲ صاحب رہا ہو کر آئے تو آپ نے ایک خط کے ذریعہ یہ اطلاع بھجوائی کہ میں ایک پولیٹکل کانفرنس کشمیر ستمبر کے پہلے ہفتہ ہی بلا رہا ہوں۔ آپ اس میں شامل ہوں۔ آپ کی شمولیت کانفرنس کے کامیاب بنانے میں ہمیں بہت امداد مل سکتی ہے۔
چنانچہ حضور بنفس نفیس تو تشریف نہ لاجا سکے تاہم آپ نے سید ولی اﷲ شاہ صاحب اور مولوی عبدالرحیم درد صاحب کو انتظامات کرنے اور تعاون کی غرض سے کشمیربھجوایا۔ جن کے تعاون سے پہلا اجلاس۱۵؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو پتھر مسجد میں ہوا۔
حضور نے جو پیغام بھجوایا ۔ اس میں آپ نے تحریر فرمایا:
’’برادران میرا آپ کے لئے یہی پیغام ہے کہ جب تک انسان اپنی قوم کے مفاد کے لئے ذاتیات کو فنا نہ کر دے وہ کامیاب خدمت نہیں کر سکتا۔ بلکہ نفاق اور انشقاق پیدا کرتا ہے۔ پس اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو نفسانی خیالات کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دو۔ اور اپنے قلوب کو صاف کرکے قطعی فیصلہ کر دو کہ خالق ہدایت کے تحت آپ ہر چیز اپنے اس مقصد کے لئے قربان کر دیں گے جو آپ نے اپنے لئے مقرر کیا ہے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم یعنی مسلمانان ہندوستان آپ کے مقصد کے لئے جو کچھ ہماری طاقت میں ہے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور خدا کے فضل سے آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ اور امیدوں سے بڑ ھ کر ہوں گے۔ اور آپ کا ملک موجودہ مصیبت سے نکل کر پھر جنت نشان ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔‘‘ (الفضل قادیان۲۵؍ اکتوبر۱۹۳۲ء)
یہ اجلاس پانچ دن جاری رہا۔ اور اس کے بعد مختلف سالوں میں اس کے اجلاس منعقد ہوتے رہے۔ اس کانفرنس نے سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرلیا۔ اور مسلمانوں کو ایک متحدہ سیاسی پلیٹ فارم حاصل ہوا۔

کشمیر کمیٹی سے حضور کا استعفیٰ اور اس کا ردعمل اور حضور کو خراج تحسین

مسلم کانفرنس بھی مسلمانوں کے افتراق و تشتت کی وجہ سے اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی تو یہ آوازبلند کر دی گئی کہ آئندہ کشمیر کمیٹی کا صدر غیرقادیانی ہو اور لاہور کے گیارہ ارکان کے دستخطوں سے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک مکتوب پہنچا کہ آپ پندرہ دن کے اندر اندر عہدیداروں کا انتخاب کروا دیں۔ چنانچہ حضور نے ۷؍ مئی ۱۹۳۳ء کو اجلاس بلوا کر آپ نے ایک تحریر سنائی۔ جس میں آپ نے فرمایا:
’’غرض میں ان احباب کی خواہش سے متفق ہوں اور آئندہ انتخاب کے لئے راستہ صاف کرنے کی غرض سے اور اس امرکو مدنظر رکھتے ہوئے اب کشمیر کمیٹی کے کام کی نوعیت بہت کچھ بدل گئی ہے میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہوتا ہوں۔ میں اس موقعہ پر یہ بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں کا شکریہ ادا کروں۔ انہوں نے باوجود قسم قسم کے مشکلات کے حتی الوسع تعاون سے کام لیا۔ اور کئی موقع پر میری خواہش کی بناء پر اپنی آراء کو ایک ایسے دائرہ میں محدود کر دیا جو اتحاد کے لئے ضروری تھا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵ صفحہ۶۴۴)
بعد ازاں جو قرار داد منظور ہوئی اس میں بھی حضور کی مسلمانان کشمیر کے لئے گراں قدر مخلصانہ خدمات پر دلی شکریہ ادا کیا گیا اور ڈاکٹر سر محمد اقبال کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قائم مقام صدر اور ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ کو قائم مقام جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ جو زیادہ دیر تک قیاد ت نہ کر سکے اور ۲۰؍جون۱۹۳۳ء کو مستعفی ہو گئے۔ اور یوں یہ کمیٹی اپنا مقام کھو بیٹھی۔ قدیم کشمیر کمیٹی کے خاتمہ پر جدید کشمیر کمیٹی کا آغاز ہوا مگر اس کی زندگی بھی مختصر رہی۔

ردعمل

حضور کے مستعفی ہونے کے بعد مسلمانان کشمیر جبرو تشدد کا تختہ بننے لگے۔ گرفتاریاں دوبارہ شروع ہوئیں اور مشکلات میں اضافہ ہوا۔
حضور کے استعفیٰ پراندرون و بیرون کشمیر حضور کے کام اور انتھک محنت کو خراج تحسین پیش کیا گیا جو تاریخ احمدیت کا ایک زندہ باب ہے۔ چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔ میر احمد ﷲ حمدانی میر واعظ کشمیر نے لکھا۔
۱- اگرچہ میں قادیانیت سے دور ہوں مگر سیاسی مصالح کے لحاظ سے متحدہ محاذ بنانے کے حق میں ہوں کشمیر کمیٹی اور جناب کی انتھک کوشش ہمارے دلی شکریہ کی مستحق ہے جس کی ہر وقت کی امداد اور قیمتی مشوروں نے مشکلات کے حل کرنے میں آسانیاں پیدا کیں۔
۲- وائس پریذیڈنٹ انجمن اسلامیہ کوٹلی نے لکھا:
’’ احرار کمیٹی نے مسلمانوں کو تحتہ لحد میں پہنچا دیا۔ ہم مسلمانان ریاست آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تہ دل سے مشکور ہیں کہ جنہوں نے اس نازک موقعہ پر جانی ومالی و دماغی امداد دے کر ہمیں مشکور کیا۔اگر کشمیر کمیٹی کا وجود نہ ہوتا تو مسلمانان ریاست ہی معدوم ہو گئے ہوتے۔‘‘ 
(تاریخ احمدیت جلد۵ صفحہ۶۴۷)
۳- سری نگر کے مسلمانوں نے اعلان کیا:
’’ ہم مسلمانان محلہ کلاش پورہ محلہ مخدوم منڈو اور محلہ باباندہ گنائی…… جناب مرزا محمود احمد صاحب نے جو خدمات مسلمانان کشمیر کے لئے فرمائیں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ آئندہ بھی مسلمانان کشمیر کی اعانت پہلے سے بھی زیادہ فرمائیں گے۔ کیونکہ مسلمانان کشمیر کو ان کی ہمدردی اور مدد کی ہر وقت ضرورت ہے جملہ مسلمانان کشمیر کو جناب ممدوح پر بہت اعتماد اور بھروسہ ہے اور جناب ممدوح کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے عنصرکو کشمیری مسلمان قومی غدار خیال کرتے ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۳ ؍ اگست۱۹۳۳ء)
۴- جناب شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ جموں نے اپنے بیان میں کہا:
’’میرے نزدیک دیانتدار ی کا تقاضایہ ہے کہ اس امر کا اظہار بلاخوف تردید کیا جائے کہ میاں بشیرالدین محمود احمدصاحب امام جماعت احمدیہ اور ان کی تشکیل کردہ کشمیر کمیٹی اور ان کی جماعت کے افراد نے جو گراں بہا خدمات تحریک آزادی کشمیر کے سلسلہ میں انجام دیں۔ اس کا ہی یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانان ریاست اپنے حقوق حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔
تعصب مذہبی نے جب میاں بشیرالدین صاحب کوکشمیر کمیٹی کی صدارت سے علیحدگی پر مجبور کر دیا۔ تو ان کی جگہ علامہ ڈاکٹر سر محمداقبال مرحوم ومغفور صدر چنے گئے علامہ مسلمانوں کے لحاظ سے بڑے محتر م تھے مگر ان کے پاس ایسی کوئی منظم جماعت نہ تھی کہ جیسی جماعت احمدیہ میاں بشیرالدین صاحب کے تابع فرمان تھی اور نہ ہی علامہ کے پاس ایسا کوئی سرمایہ تھا کہ جس سے وہ ریاست کے اندر جماعت احمدیہ کی طرح اپنے خرچ پر دفاتر کھول دیتے۔ اس لئے ان کی صدارت کے ایام میں کوئی نمایاں کام نہ ہو سکا۔ کہاں میاں بشیرالدین محمود کے حکم سے سرظفراﷲ اور شیخ بشیر احمد و چودھری اسداﷲ وغیرہ وکلاء مقدمات کی پیروی کے لئے آتے رہے بلکہ مستقبل طور پر بعض سری نگر، میرپور، نوشہرہ و جموں میں رہ کر کام کرتے رہے ان کے طعام و قیام وغیرہ کے تمام اخراجات بھی میاں صاحب بھیجتے رہے۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد نہ دفتر رہے نہ مستقل وکلاء ہی رہے۔‘‘
۵- پروفیسر علیم الدین صاحب سالک اسلامیہ کالج لاہورنے لکھا :
’’امام جماعت احمدیہ نے استعفیٰ دے دیا اور اس طرح حکومت کشمیر اور ہندو قوم کے راستہ سے بزعم ان کے وہ کانٹا دور ہو گیا جس نے ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے انگلستان و امریکہ کے در ودیوار تک ان کے ناک میں دم کر رکھا تھا جس نے حکومت کشمیر کو صدیوں کے جبرو استبداد کے راستہ میں چٹان بن کر تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا انقلاب پیدا کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں حکومت کشمیر مسلمانان کشمیر کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئی تھی اور اسے عوام کو مطلوبہ حقوق دینے پڑے تھے۔
اِدھر امام جماعت احمدیہ نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اُدھر اندرون کشمیر جو کام چل رہا تھا اس میں یکایک تعطل پیدا ہو گیا۔ اور ایک عام بے چینی پھیل گئی کیونکہ وہاں پکڑ دھکڑ جاری تھی اور اس سلسلہ میں ان کی مالی اور قانونی امداد جو صدر کشمیر کمیٹی کی طرف سے جاری تھی بند ہو گئی اور نئے عہدیداران اندرون کشمیر کام کرنے والے سابق وکلاء اورکارکنوں کو نہ نئے انتخاب اور نئے انتظام کی کوئی اطلاع بھیج سکے اور نہ ہی ان سابق کارکنوں کے خورونوش اور رہائش اور کام کے لئے کوئی بندوبست کر سکے اور نہ اپنی طرف سے متبادل مالی اور قانونی امداد کشمیر میں بھیج سکے جس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ سابق وکلاء اور کارکن کام سے واپس آنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘ 
(تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۵۵۶،۵۵۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے صدارت کمیٹی کے استعفیٰ پر اہل کشمیر پرکیا بیتی اس کا مختصر تذکرہ اوپر ہو گیا ہے پنجاب کے مسلم پریس نے بھی اس کو موت کے مترادف ہی قرار دیا۔ چنانچہ جناب سید حبیب صاحب نے اخبار سیاست۱۸؍ مئی۱۹۳۳ء میں لکھا:
’’میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے‘‘
(الفضل۲۸؍ مئی ۱۹۳۳ء)

اخبار’’اصلاح‘‘کا اجراء

۴؍ اگست ۱۹۳۴ء کا دن تحریک آزادی کشمیرکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ اس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خاص ہدایت سے مسلمانان کشمیر کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور ترجمانی کے لئے سری نگر سے سہ روزہ اخبار ’’اصلاح‘‘جاری کیا گیا۔
اخبار اصلاح کو اپنے مدلل اور ٹھوس ادارتی مضامین کی وجہ سے کافی شہرت ملی اور اس نے مسائل حاضرہ میں مسلمانان کشمیر کی بروقت رہنمائی کرکے اہم خدمات انجام دیں۔

سری نگر میں ہنگامہ اور جماعت کی خدمات

ہندو اخبار ’’ملاپ‘‘کی مخالفت اور مسلمانوں کوطیش دلانے اور ان میں پھوٹ ڈالنے کے کردار کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو جو کامیابیاں مل رہی تھیں اور آئندہ ملنے والی تھیں ان کی روک تھام کے لئے سری نگر سے ہندو اخبار ’’مارتنڈ‘‘ نے بعض اداریوں اور خبروں کے لئے کشمیر کے امن کو برباد کرنے کی کوشش کی اور ایسی خبریں شائع کیں جو مسلمانوں کو مذہبی جوش دلانے والی تھیں۔اس کی بعض خبروں کی وجہ سے مسلمانوں نے جلوس نکالے۔ شہر اورریاست کا امن تارتار ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔
اس موقعہ پر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پیچھے نہیں رہے بلکہ مجروحین و مظلومین کی مالی امداد کروائی۔ اور ان خبروں کے جواب میں ’’اصلاح‘‘میں مضامین چھپوائے جن میں مہاشہ محمد عمر صاحب کے مضامین بہت پسند کئے گئے۔
اخبار’’ہدایت‘‘ نے لکھا:
’’یہ مضامین نہایت ہی پُر از معلومات اور مفید ثابت ہوئے اور انہیں ریاست کے گوشہ گوشہ میں نہایت ہی پسند کیا گیا۔‘‘ (ہدایت کشمیر۷ ؍مئی ۱۹۴۰ء)

مسلم کانفرنس کا احیاء 

اس دوران یہ المیہ پیش آیا کہ مسلم کانفرنس جو کشمیریوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی ۔ نیشنل کانفرنس میں بدل گئی۔ حضرت مصلح موعود کو ساتھ کے ساتھ تمام اطلاعیں مل رہی تھیں۔ آپ نے پیچھے رہ کر بعض اراکین کے ذریعہ مسلم کانفرنس کا احیاء کروایا۔ اور حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لئے ۱۹۴۴ء میں آل جموں و کشمیر ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا۔ جو مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کی آواز کو حکومت تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔ (اخبار اصلاح ۲۱؍ستمبر ۱۹۴۴ء)

آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کی صورت میں کشمیر کمیٹی کا احیاء

جب قدیم کشمیر کمیٹی عملاً معطل و مفلوج ہو کر رہ گئی اور کشمیریوں کی مشکلات میں پھر سے اضافہ ہونے لگا تو ممبران کے مشورہ سے کشمیر کمیٹی کی جگہ ایسوسی ایشن کے نام سے ایک اورادارہ بنایا گیا۔ سید حبیب صاحب مدیر سیاست اس کے صدراور منشی محمدالدین صاحب فوق اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔یہ تنظیمچارسال تک کام کرتی رہی اور اس تنظیم کی مالی ضروریات کے بار حسب سابق جماعت احمدیہ نے اٹھائے اور ہر معاملہ میں اس کی پوری پوری سرپرستی فرمائی۔ جن احمدیوں نے اس کے تحت نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا نام تو سرفہرست ہے ہی اس کے علاوہ حضرت سید زین العابدین ولی اﷲ شاہ صاحب اور چوہدری اسداﷲ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء بھی شامل ہیں۔

آزاد کشمیر حکومت کا قیام

اسیروں کی رستگاری کا الہام ایک دفعہ پھر سیدنا حضرت محمود کے وجود باوجود میں مورخہ ۴؍ اکتوبر۱۹۴۷ء کو پورا ہوا جب آپ کے مبارک دور میں آپ کی مساعی سے آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ اور خواجہ غلام نبی گلکار انور صاحب پہلے صدر مقرر ہوئے۔ اور کابینہ بھی تشکیل دی۔
چنانچہ مسٹر ریڈی نے انہی دنوں پاکستان سے ہندوستان پہنچنے کے بعد’’پاکستان کابھانڈا چورا ہے پر‘‘ نامی ایک کتابچہ شائع کیا۔ جس میں لکھا کہ
’’آزاد کشمیر کا قیام مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کے دماغ کا نتیجہ ہے جس کا پروگرام انہوں نے رتن باغ لاہور میں بنایا تھا۔ ۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت آزادکشمیر کا قیام دراصل اس پروگرام کا ابتدائی اقدام تھا۔‘‘
(میری یادداشت کا ایک ورق از خواجہ عبدالغفار ڈارمحررہ دسمبر۱۹۶۳ء)
معروف مضمون نویس اور تحریک آزادی کشمیرکے ایک مشہور کارکن پروفیسر سرمحمد اسحاق قریشی صاحب قائم مقام جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس نے اس کامیابی کو یوں نقل کیا:
’’میں ذاتی علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ امام جماعت احمدیہ کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں بہت اہم رول ادا کر رہے تھے۔ اور حکومت پاکستان کے وزیر اعظم کی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس سلسلہ میں انہیں حمایت حاصل تھی۔ اور حضرت صاحب جو کچھ کہہ رہے تھے حکومت کے علم کے ساتھ کہہ رہے تھے۔ میں متعدد بار حضرت میاں بشیرالدین محمود احمد سے ملا ہوں۔ اور کشمیر کو آزاد کرنے کے سلسلے میں جو تڑپ میں نے ان کے دل میں دیکھی ہے۔ وہ دنیا کے بڑے بڑے محب وطنوں میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس موضوع پر میں نے ان کے ساتھ بڑی طویل ملاقاتیں کی ہیں اور میں نے ان جیسی صاف سوچ اور ان جیسا تدبر بہت کم مدبروں میں دیکھا۔ میرا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن میں نے میاں بشیرالدین صاحب کا ان جذبات کے لئے ہمیشہ احترام کیا ہے۔ میں نے اب تک حضرت مرزا صاحب جیسا عالی دماغ مدبر اور آزادی کشمیر میں مخلص کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵ صفحہ۸۸۸)

کشمیر فنڈ کا قیام اور مجاہدین کشمیر کی اعانت

تحریک آزادی کشمیرکے پورے عرصہ میں حضور مظلومین کشمیر کی مالی اعانت فرماتے رہے اور اس بارہ میں تحریکات مختلف اوقات میں اپنی تقریروں، و خطبات اور تحریروں میں کیں۔۱۲؍نومبر۱۹۴۷ء کو کشمیر فنڈ کے قیام کی تحریک فرمائی اور ملک کے طول و عرض میں مختلف اہم شہروں میں پبلک لیکچر دئیے۔
حضور کے۲؍ دسمبر۱۹۴۷ء لاہور کے لیکچر کا خلاصہ اخبار ’’نظام‘‘ نے یوں شائع کیا:
’’مسئلہ کشمیر پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ کشمیر کا ہندوستان میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ہر سمت سے گھیر لیاجائے۔ اور اس کی طاقت کو ہمیشہ زیر رکھا جائے انہوں نے فرمایا کہ باشندگان پاکستان کو کشمیر کے جہاد حریت میں ہر قسم کی امداد کرنی چاہئے۔ مجاہدین کشمیر میں نہایت بہادرانہ جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کو گرم کپڑوں کی فوری اشد ضرورت ہے جو ان کو فوراً پہنچائے جائیں۔‘‘
اخبار’’سفینہ‘‘(۴ ؍دسمبر۱۹۴۷ء) نے حضور کے یہ الفاظ شائع کئے:
’’پاکستان کے باشندوں کو کشمیر کی جنگ آزادی جیتنے کے لئے پوری پوری کوشش کرنی چاہئے اس میں پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے استحکام اور دفاع کا راز ہے کشمیر میں مجاہدین مشکل ترین حالات کے باوجود جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہیں گرم کپڑوں کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ ۶۹۵)

سلامتی کونسل میں اہل کشمیر کی طرف سے نمائندگی

حکومت ہند کا خیال تھا کہ سلامتی کونسل کے ذریعہ پاکستان کو حملہ آور قرار دلوا کر پوری ریاست پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ مگر پاکستان کے نمائندہ وزیر خارجہ چوہدری سرظفراﷲ خان صاحب نے اہل کشمیر کے حق ارادیت اور تحریک آزادی کشمیر کی اس قابلیت اور عمدگی سے نمائندگی کی کہ دنیا پر بھارتی موقف کی غیر معقولیت ہی نہیں اس کی جارحانہ روش بھی واضح ہو گئی۔ اور ایک ایسی قرار داد منظور کروائی جو آج بھی سلامتی کونسل میں موجود ہے اور تحریک آزادی کشمیر کی آئینی و قانونی جدوجہد کا کام دے رہی ہے۔
پاکستانی پریس نے حضرت چوہدری صاحب کو جس والہانہ انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس میں ایک نوائے وقت بھی ہے وہ لکھتا ہے :
’’ہندوستان نے کشمیر کا قضیہ یو۔ این۔ او میں پیش کر دیا چوہدری صاحب پھر نیویارک پہنچے ۱۶؍ فروری۱۹۴۸ء کو آپ نے یو۔ این۔ او میں دنیا بھر کے چوٹی کے دماغوں کے سامنے اپنے ملک و ملت کی وکالت کرتے ہوئے مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے تقریر کی۔ ظفراﷲ کی تقریر ٹھوس، دلائل اور حقائق سے لبریز تھی……کشمیر کمیشن کا تقرر ظفراﷲ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مسلمان کبھی نہ بھولیں گے۔‘‘ (نوائے وقت۲۴؍ اگست۱۹۴۸ء)
اخبار’’ سفینہ‘‘لاہورنے اپنی اشاعت ۲؍جولائی۱۹۴۹ء میں یوں تبصرہ کیا:
’’سر محمد ظفراﷲ خان نے مسئلہ کشمیر اس خوبی اور جانفشانی سے پیش کیا کہ انہوں نے اپنے حریف آئنگر کو شکست فاش دی اور میدان سیاست میں آنے کا نہیں چھوڑا۔ اکیس ہفتوں کے قلمی اور عقلی معرکوں کے بعد سرظفراﷲ اپنے وطن لوٹے…… جس دن وادیٔ کشمیر کا الحاق حکومت پاکستان سے اعلان کیا جائے گا تو سرظفراﷲ خان کی عزت اور شہرت اور بھی بڑھ جائے گی ان کی شخصیت حکومت پاکستان کی تاریخ میں درخشندہ ستارہ رہے گی۔‘‘
ایک ممتاز رہنما سابق سفارتکار اور خارجہ امور کے ماہرجناب شاہد امین نے یوں خراج تحسین پیش کیا:
’’اس زمانے میں وزیر خارجہ سر ظفراﷲ خاں تھے۔ بڑے مضبوط کردار کے حامل تھے۔ بیورو کریسی ان کو گھما نہیں سکتی تھی۔ وہ خاص نظریات کے حامل فرد تھے۔ میرا ذاتی تاثر ہے کہ انہوں نے اپنی ان ہی خصوصیات کی وجہ سے اقوام متحدہ میں خاص تاثر قائم کیا تھا۔ کشمیر کے سلسلے میں انہوں نے پاکستان کا کیس بڑے مضبوط طریقے سے پیش کیا تھا۔‘‘
(روزنامہ جنگ ۱۸ ؍ اکتوبر۲۰۰۱ء)
بھارتی پریس میں بھی حضرت چوہدری صاحب کی تقریرپر رد عمل ہوا۔ ہندو اخبار’’پرتاب‘‘ نے۲۳؍ اگست ۱۹۵۰ء کے شمارہ میں لکھا کہ
’’یو این او سے پاکستان کے خلاف فریاد کرنا ہمالیہ جیسی بڑی غلطی تھی۔ ہم وہاں گئے تھے مستغیث بن کر اور لوٹے وہاں سے ملزم بن کر‘‘

فرقان بٹالین کا قیام

۱۹۴۷ء میں جب پاکستان کے لئے سرحدیں متعین ہو رہی تھیں تو ملی بھگت سے پنجاب کی تقسیم کے وقت برصغیر کے آخری گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے کمیشن کے سربراہ ریڈ کلف کو ساتھ ملا کر مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریت کے کچھ علاقے بھارت میں شامل کروا دئیے اور یوں پٹھان کوٹ بھارت میں چلے جانے سے کشمیر کے ساتھ ہندوستان کا زمینی رابطہ ہوگیا اور کشمیرکو ہڑپ کرنے کے اقدام اس نے شروع کر دئیے۔ جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں حالات کشیدہ سے کشیدہ تر ہو گئے۔ تب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے وطن عزیز پاکستان کی طرف سے جہاد کشمیر میں حصہ لینے کے لئے جون۱۹۴۸ء میں فرقان بٹالین قائم فرمائی اور معراجکے میں متعین احمدی سپاہی اس بٹالین میں منتقل کر دئیے گئے اور اپنے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا۔ 
سرائے عالمگیر کے قریب تربیتی کیمپ میں ایک ماہ فوجی ٹریننگ کے بعد بٹالین محاذ جنگ باغسر (باگسر) کی طرف روانہ ہوئی۔ جہاں راستوں اور بارشوں کی شدید مشکلات میں یہ فورس آگے بڑھنے لگی۔ میدان جنگ میں حضرت سیدنا حضرت المصلح الموعود بھی بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ آپ کی تشریف آوری سے احمدی جوانوں میں ایک نیا جوش نئی امنگ اور نیا ولولہ پیدا ہوا۔ اور فتح سے ہمکنار ہوئے تاہم حکومت پاکستان کے ایک فیصلہ کے مطابق محاذ آزاد کشمیر سے رضا کار سپاہیوں کو واپس بلا لیا گیا اور ۱۷؍ جون۱۹۵۰ء کو فرقان بٹالین کی سبکدوشی کی تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریس کا درج ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا:
’’آپ کی بٹالین خاص رضا کار بٹالین تھی جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ان میں کسان بھی تھے اور مزدور پیشہ بھی، کاروباری لوگ بھی تھے اور نوجوان طلباء و اساتذہ بھی۔ وہ سب کے سب خدمت پاکستان کے جذبہ میں سرشار تھے آپ نے اس قربانی کے بدلے میں جس کے لئے آپ میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو بخوشی پیش کیا کسی قسم کے معاوضہ اور شہرت و نمود کی توقع نہ کی۔
آپ جس جوش اور ولولے کے ساتھ آئے اور اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے لئے تربیت حاصل کرنے میں جس ہمہ گیر اشتیاق کا اظہار کیا اس سے ہم سب بہت متاثرہوئے ان تمام مشکل مراحل پر جو نئی پلٹن کو پیش آتے ہیں آپ کے افسروں نے بہت عبور حاصل کر لیا۔
کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا اور آپ نے ان تمام توقعات کو پورا کر دکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کی گئی تھیں۔ دشمن نے ہوا پر سے اور زمین پر سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی آپ کے انفرادی اور مجموعی اخلاق کا معیار بہت بلند تھا اور تنظیم کا جذبہ بھی انتہائی قابل تعریف!! 
اب جبکہ آپ کا مشن مکمل ہو چکا ہے آپ کی بٹالین تخفیف میں لائی جا رہی ہے۔ میں اس قابل قدرخدمت کی بناء پر جو آپ نے اپنے وطن کی انجام دی ہے آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کرتا ہوں ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۵صفحہ ۷۰۲)
معراجکے میں دو احمدی جوانوں کی شہادت کے علاوہ فرقان بٹالین کے (نو) احمدی جوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔جس کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحب نے بٹالین کے جوانوں کے قادیان پہنچے پر ایک تقریب کے دوران یوں فرمایا:
’’ہم نے کشمیر میں اپنے شہید چھوڑے ہیں جگہ جگہ ان کے خون کے دھبوں کے نشان چھوڑے ہیں۔ ہمارے لئے کشمیرکی سرزمین اب مقدس جگہ بن چکی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ جب تک ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنا لیں اپنی کوششوں میں کسی قسم کی کوتاہی نہ آنے دیں۔‘‘
(الفضل۲۳؍ جون ۱۹۵۰ء)
غیروں نے بھی اس فرقان فورس کے کاموں کو سراہا۔ جیسے حکیم احمدالدین صاحب صدر جماعت ’’المشائخ‘‘ سیالکوٹ نے اپنے رسالہ ’’قائداعظم‘‘ بابت ماہ جنوری ۱۹۴۹ء میں لکھا:
’’اس وقت تمام مسلم جماعتوں میں سے احمدیوں کی قادیانی جماعت نمبر اول پرجا رہی ہے وہ قدیم سے منظم ہے نماز روزہ وغیرہ امور کی پابندہے یہاں کے علاوہ ممالک غیر میں بھی اس کے مبلغ احمدیت کی تبلیغ میں کامیاب ہیں۔ قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے اس کا ہاتھ بہت کام کرتا تھا جہاد کشمیر میں مجاہدین آزاد کشمیر کے دوش بدوش جس قدر احمدی جماعت نے خلوص اور درد دل سے حصہ لیا ہے اور قربانیاں کی ہیں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی کسی دوسری جماعت نے ابھی تک ایسی جرأت اور پیش قدمی نہیں کی ۔ ہم ان تمام امور میں احمدی بزرگوں کے مداح اور مشکور ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ملک و ملت اور مذہب کی خدمت کرنے کی مزید توفیق بخشے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۵ صفحہ ۷۰۸)
گو سلامتی کونسل کے فیصلہ کی تعمیل میں فرقان فورس واپس بلا لی گئی تھی مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دل میں آزادی کشمیرلَو اس قدرروشن ہو چکی تھی کہ آپ تمام عمر آزادی کشمیر کے لئے سعی میں مصروف رہے۔ اور مسئلہ کشمیر کو ملک میں زندہ اور تازہ رکھنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزشت نہیں رکھا۔
چنانچہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۹ء کو آزادی کشمیر کے تعلق میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے خصوصیت سے یہ تڑپ ہے کہ کشمیر کے مسلمان آزاد ہوں اور اپنے دوسرے بھائیوں سے مل کر اسلام کی ترقی کی جدوجہد میں نمایاں کام کریں اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں تمام ان لوگوں سے جو کشمیر کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ یہ آزادی کی تحریک آخری ادوار میں سے گزر رہی ہے اپنی سب طاقت اس کی کامیابی کے حصول کے لئے لگا دیں اور ایسی تمام باتوں کو ترک کر دیں۔ جو اس مقصد کے حصول کے لئے روک ہو سکتی ہیں۔ ‘‘
(الفضل ۱۷؍ مئی ۱۹۴۹ء)

آزادی کشمیرکے لئے دعاکی تحریک

۳؍ دسمبر۱۹۵۵ء کو مشہور کشمیری قلم کار جناب کلیم اختر صاحب مصنف شیر کشمیر سے ملاقات کے دوران فرمایا:
’’میرا مسئلہ کشمیر سے گہرا تعلق ہے اور اس سانحہ کا زخم ابھی میرے دل پر قائم ہے میں ہر وقت کشمیریوں کی بے بسی پر خون کے آنسو روتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ سے ان کی رستگاری کے لئے دعا گو ہوں۔‘‘ (شیر کشمیر صفحہ۱۲۹)
پھر ۲۸؍دسمبر ۱۹۵۶ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر دعا کی پُر زور تحریک فرمائی۔پھر اگلے سال کے آغاز پر ۸؍ فروری ۱۹۵۷ء کو حضور نے آزادی کشمیر کے لئے ایک بارپھر خصوصی دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :
’’ہماری جماعت کے دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ کشمیر کے قریباً نصف کروڑ مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ اپنے منشاء کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس پر کار بند رہنے کی توفیق دے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ یہ لوگ جبری غلامی میں نہ رہیں۔ بلکہ اپنی مرضی سے جس ملک کے ساتھ چاہیں مل جائیں۔‘‘
حضور نے دعاؤں کی تحریکات پر ہی اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں پاک بھارت کی پہلی جنگ کے دوران صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صاحب کے نام ۶؍ ستمبر۱۹۶۵ء کو درج ذیل پیغام بھجوایا:
’’میں اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کو دل و جان کے ساتھ مکمل تعاون اور مدد کا یقین دلاتا ہوں۔ اس نازک موقعہ پر ہم ہر مطلوبہ قربانی بجا لانے کا عہد کرتے ہیں۔ میں اﷲ تعالیٰ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ اپنے بے پایاں فضل کے نتیجہ میں اپنی خاص راہنمائی سے آپ کو نوازے اور ہم سب کو اپنے وطن عزیز کا دفاع کرنے کی طاقت و ہمت عطافرمائے یہاں تک کہ اس کے فضل سے کلی طور پر فتحیاب ہوں اور ہمارے کشمیری بھائی آزادی سے ہمکنار ہوں۔ آمین۔‘‘ (الفضل ۸؍ ستمبر ۱۹۶۵ء)
اسیروں کا رستگار
 یہ تھی حضرت مصلح موعود کی کشمیر کی خاطر قربانی اور آزاد کروانے کے لئے سعی اور اس کا نتیجہ۔ آپ کے اسی عمل سے پیشگوئی مصلح موعود کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ آپ خود فرماتے ہیں:
’’پھر اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے کشمیر کا واقعہ بھی اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے اور ہر شخص جو ان واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے یہ تسلیم کئے بغیرنہیں رہ سکتا کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی کشمیریوں کی رستگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی۔‘‘
اس حوالہ سے آپ دوستوں سے بھی یوں مخاطب ہوئے:
’’دوستوں کو چاہئے کہ پہلے سے بھی زیادہ دعائیں کریں اور مالی و جانی قربانیوں کے لئے بھی تیار رہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ یہ بھی غلام کو آزاد کرانا ہے۔ اب اس قسم کے غلام تو نہیں جو پہلے زمانہ کے تھے۔ اس لئے اس زمانہ میں ایسے لوگوں کو جو اس طرح کے مظلوم اور حکام کی تیغ ستم کے نیچے ہیں چھڑانا غلام کو آزاد کرانے کے مترادف اور ثواب کا موجب ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد۱۳ صفحہ۳۷۹)

اور پھر فرمایا
’’کشمیر کے مسلمان احمدی نہیں ہیں کہ کوئی ہم پر اعتراض کر سکے۔ یہ غلام قوم کی آزادی کا سوال ہے۔ اس کے لئے کسی سے مانگنے اور تحریک کرنے میں کوئی شرم نہیں۔ ایک، دو، تین، چار دن بلکہ اس وقت تک جاؤ جب تک کہ خداتعالیٰ ان غلاموں کو آزاد کرا دے۔ ویسے غلام تو اس زمانہ میں نہیں ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ ان کو تو یورپ نے آزاد کر ا دیا۔ اب یہی غلام باقی ہیں جو نام کے طور پر آزاد ہیں لیکن عملاً غلام ہیں۔ ان کو آزادی دلانے کے لئے ہمیں ثواب کا ایک موقع حاصل ہے۔ پس جہاں جہاں بھی کوئی احمدی ہے خواہ جماعت کی صورت میں خواہ اکیلا۔ میں پھر اسے متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم الشان کام سے غفلت نہ کرے۔‘‘
(خطبات محمود جلد۱۳ صفحہ۳۴۰،۳۴۱)

کشمیریوں کو مظالم سے الگ کرنے کے لئے موجودہ سعی

سیدنا حضرت مصلح موعودکے آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے الگ ہونے کے بعد گو (جیسا کہ ہم بڑھ آئے ہیں) حضور نے تعاون بھی جاری رکھا اور مالی امداد بھی فرماتے رہے مگر کمیٹی اس طرح منظم کام نہ کر پائی جس طرح حضرت مصلح موعود کی زیرک اور بافراست قیادت کے تحت کرپا رہی تھی اور آپ کی کوششوں سے کامیابیاں ملنے لگی تھیں۔ جو تعصب اور دشمنی حضور کو علیحدہ کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس میں زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ نہ صرف اضافہ ہوتا گیا بلکہ تاریخ کو مسخ کرکے جماعت احمدیہ کو کشمیر کے دشمنوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ اور ان کی کوششوں میں ایسی بے برکتی پڑی کہ ۷۵ سال گزر جانے کے باوجود ان کی کوششیں کوئی رنگ نہ لا سکیں۔ ہر سال یوم خود ارادیت، یو م یکجہتی کشمیر ، یوم سیاہ منا کر اپنی آواز حکام بالا تک پہنچاتے ہیں۔ جس میں جلسے جلوس، ریلیاں اور تقریبات منعقد ہوتیں۔ قراردادیں اور ریزولیوشن پاس ہوتے۔ مختلف عالمی اداروں اور بڑے ملکوں کی ایمبسیوں میں وہ یادداشتیں بھجوائی جاتی ہیں۔ گو وہ بے نتائج رہتی ہیں تاہم ان میں سہارا اُسی قرار دادکا لیا جاتا ہے جو سلامتی کونسل میں سر چوہدری سر ظفراﷲ خاں صاحب کی تقریر کے بعد پاس ہوئی تھی۔

مکمل تحریر >>

Monday, 1 January 2018

بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی صداقت کے تین شاہد




30 ستمبر 1936ء کا دن یوم تبلیغ کے طور پر منایا گیا۔ اس موقع کی مناسبت سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مبنی ایک مضمون تحریر فرمایا۔ ذیل میں یہ مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔ یہ مضمون انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 463 تا 475سے لیا گیا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
’’انسانی کامیابی کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہے:
اوّل اعتقادات کی درستی کہ خیالات کی درستی کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ خیال کی حیثیت روشنی کی ہوتی ہے اور اس کے بغیر انسان اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ 
دوسرے عمل کی درستی۔ عمل اگر درست نہ ہو تب بھی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عمل کی مثال ہاتھ پائوں کی ہے اگرہاتھ پائوں نہ ہوں تب بھی انسان اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا۔ 
تیسرے محرک۔ اگر محرک نہ ہو تب بھی انسان کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ خیالات خواہ درست ہوں‘ عمل خواہ درست ہو لیکن محرک موجود نہ ہو تو انسان کے عمل میں استقلال نہیں پیدا ہوتا۔ استقلال جذبات کی شدت سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جب جذبات کمزور ہوں تو انسان استقلال سے کام نہیں کر سکتا۔
اَب اے دوستو! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کے سینہ کو حق کے لئے کھولے اگر آپ غور کریں اور اپنے دل سے تعصّب کے خیالات کو دور کر دیں اور ہارجیت کی کشمکش کو نظرانداز کر دیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کے وقت بھی اور آج بھی یہ تینوں باتیں مسلمانوں سے مفقود ہیں اور صرف بانی سلسلہ احمدیہ کی بدولت یہ تینوں چیزیں جماعت احمدیہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے راستباز بندے تھے اور اس کی طرف سے مامور۔
اے دوستو! میں کس طرح آپ کے سامنے اپنا دل چیر کر رکھوں اور کس طرح آپ کو یقین دلائوں کہ آپ کی محبت اور آپ کی خیر خواہی میرے دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے اور اگر ایک طرف میرے ہر ذرّہ ٔجسم پر اللہ تعالیٰ کی محبت قبضہ کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف اسی کے حکم اور اسی کے ارشاد کے ماتحت آپ لوگوں کی خیر خواہی اور آپ کی بھلائی کی تڑپ بھی میرے جذبات میں ایک تلاطم پیدا کر رہی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں آپ کو دھوکا دینے کیلئے یہ سطور نہیں لکھ رہا نہ آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں اور نہ آپ پر اپنی بڑائی جتانے کے لئے لکھ رہا ہوں بلکہ میرا پیدا کرنے والا اور میرا مالک جس کے سامنے میں نے مر کر پیش ہونا ہے اس امر کا شاہد ہے کہ میں آپ کی بہتری اور بہبودی کیلئے یہ سطور لکھ رہا ہوں اور سوائے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے میری اور کوئی غرض نہیں اور اس لئے ہی آپ سے بھی خواہش کرتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کریں کہ کیا یہ تینوں باتیں جو مذہب و جماعت کی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہیں دوسرے مسلمانوں میں موجود ہیں؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر آپ غور کریں کہ میں جو آپ کو کامیابی کی راہ کی طرف بلاتا ہوں آپ کا دوست ہوں یا وہ لوگ جو آپ کو اس سے روکتے ہیں وہ آپ کے دوست ہیں؟ میں آپ کو تفصیل میں ڈالنا پسند نہیں کرتا اور ایک مختصر اشتہار میں تفصیل بیان بھی نہیں کی جا سکتی مگر میں اعتقادات میں سے صرف ایک اعتقاد کو لے لیتا ہوں اور وہ وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا عقیدہ ہے۔
حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے جب دعویٰ کیا اُس وقت سب مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آئندہ کسی وقت دنیا میں تشریف لائیں گے اور کافروں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ ہر تعلیم یافتہ آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ خواہ غلط ہو خواہ صحیح قوم کے خیالات اور اعمال پر کیسے گہرے اثر ڈال سکتا ہے اور مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی ہوا بھی۔
جب مرزا صاحب علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ یہ عقیدہ نہایت خطرناک ہے اُس وقت صرف سرسید اور ان کے ہمنوا وفاتِ مسیح کے قائل تھے مگر اس وجہ سے نہیں کہ مسیح کا زندہ آسمان پر ہونا قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ اس لئے کہ یہ اَمر قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور چونکہ سرسید قانونِ قدرت کے خلاف جسے وہ معلومہ سائنس کے مترادف خیال کرتے تھے کوئی فعل جائز نہ سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اس عقیدہ کا بھی انکار کیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ مذہب سے لگائو رکھنے والوں کے لئے یہ دلیل تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی۔ وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو صرف اس کے ارادہ کی حد بندیوں میں رکھنے کی اجازت دے سکتے ہیںاور انسان کے محدود تجربہ کو قانونِ قدرت کا عظیم الشان نام دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ نے اس دعویٰ کو پیش کیا تو سب فرقوں کی طرف سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور آپ کو معجزات کا منکر اور نبوت کا منکر اور قدرتِ الٰہی کا منکر اور مسیح ناصری کی ہتک کرنے والا اور نہ معلوم کیا کیا کچھ قرار دیا گیا۔ اس واقعہ کو صرف سینتالیس سال کا عرصہ ہوا اور ان تماشوں کو دیکھنے والے لاکھوں آدمی اَب بھی موجود ہیں۔ ان سے دریافت کریں اگر آپ اس وقت پیدا نہ ہوئے تھے یا بچے تھے اور پھر سوچیں کہ مسلمانوں کے دل پر اس عقیدہ کا کتنا گہرا اثر تھا۔ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے اعلان وفاتِ مسیح سے وہ یوں معلوم کرتے تھے کہ گویا ان کا آخری سہارا چھین لیا گیاہے لیکن آپ نے اس مخالفت کی پرواہ نہ کی اور برابر قرآن کریم، حدیث اور عقل سے اپنے دعویٰ کو ثابت کرتے چلے گئے۔ آپ نے ثابت کیا کہ:۔
(1) قرآن کریم کی نصوصِ صریحہ مسیح علیہ السلام کو وفات یافتہ قرار دیتی ہیں۔ مثلاً وہ مکالمہ جو قیامت کے دن حضرت مسیح علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوگا اور جس کا ذکر قرآن کریم میں، سورۃ  المائدۃ:118۔117 میں، ہے صاف بتاتا ہے کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے مشرک نہیں بنے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی لوگ ابھی حق پر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت ہی نہیں پیدا ہوئی۔
(2) احادیث میں صریح طور پر لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ہمارے آقا سیدِ دو جہان سے دوگنی تھی  (  کنزالعمال جلد13 صفحہ 676 دارالکتب الاسلامی حلب)  پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ سمجھا جائے تو حضرت عیسیٰ کی عمر اِس وقت تک بھی تیس گُنے تک پہنچ جاتی ہے اور نہ معلوم آئندہ کس قدر فرق بڑھتا چلا جائے۔
(3) اگر حضرت مسیح علیہ السلام واپس تشریف لاویں تو اس سے ختمِ رسالت کا انکار کرنا پڑتا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے نبوت کا مقام پا چکے تھے اور آپ کا پھر دوبارہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے دنیا آخری استفادہ کرے گی۔
(4) اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیحؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے تو اس میں حضرت مسیحؑ کی ہتک ہے کہ وہ نبوتِ مستقلہ کے مقام سے معزول ہو کر ایک اُمتی کی حیثیت سے نازل کئے جائیں گے۔
(5) اسی عقیدہ سے اُمتِ محمدیہ کی بھی ہتک ہے کہ پہلی اُمتیں تو اپنے اپنے زمانہ میں اپنے قومی فسادوں کو دُور کرنے کے لئے ایسے آدمی پیدا کر سکیں جنہوں نے ان مفاسد کو دور کیا لیکن اُمتِ محمدیہ پہلے ہی صدمہ میںایسی ناکارہ ثابت ہوگی کہ اسے اپنی امداد کے لئے باہر کی مدد کی ضرورت پیش آئے گی۔
(6) اس عقیدہ سے عیسائی مذہب کو بہت تقویت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ مسیحی مسلمانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ تمہارا رسول فوت ہو چکا ہے ہمارا مسیح زندہ ہے اور جب تمہارے رسولؐ کی اُمت گمراہ ہو جائے گی اس وقت ہمارا مسیح تمہارے عقیدہ کی رُو سے ان کے بچائو کے لئے آسمان سے نازل ہوگا۔ اب بتائو زندہ اچھا ہوتا ہے یا مُردہ اور مدد مانگنے والا بڑا ہوتا ہے یا مدد دینے والا جب کہ مدد مانگنے والے کا اس پر کوئی احسان نہ ہو۔
(7) اس عقیدہ سے مسلمانوں کی قوۃِ عملیہ جاتی رہی ہے۔ کیونکہ جب کسی قوم کو خیال ہو جائے کہ بجائے انتہائی قربانیوں سے اپنی حالت بدلنے کے اسے خود بخود کسی بیرونی مدد سے ترقی تک پہنچا دیا جائے گا تو اس کی عزیمت کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے عمل میں ضُعف پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ اس کا اثر مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ دلائل کا ایک ذخیرہ تھا جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے پیش کیا لیکن مسلمانوں نے ان دلائل پر کان نہ دھرا اور اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے۔ اب اے دوستو! آپ خود ہی غور کریں کہ کیا اوپر کے دلائل ایسے نہیں کہ جنہیں سن کر ہر درد مند کا دل اسلام کے درد سے بھر جاتا ہے اور وہ اس عقیدہ کی شناعت اور بُرائی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ گو یہ عقیدہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے لئے اس میں کس قدر زہر بھرا ہوا ہے۔ پس اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر بھی زور دیا درست تھا اور آپ کی یہ خدمت اسلام کی عظیم الشان خدمت تھی اور مسلمانوں پر احسان۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر اس کا اثر کیا ہوا؟ سو آپ کو معلوم ہو کہ یا تو ہر مسلمان وفاتِ مسیحؑ کے عقیدہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگاتا تھا یا اب اکثر تعلیم یافتہ طبقہ حضرت مسیح ناصری ؑ کو وفات یافتہ کہتا ہے اور کفر کا فتویٰ لگانے والے علماء اس مسئلہ پر بحث کرنے سے کترانے لگ گئے ہیں اور یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ مسئلہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہمیں اس سے کیا کہ عیسیٰ مر گیا یا زندہ ہے۔
لیکن اے دوستو! یہ جواب درست نہیں جس طرح پہلے انہوں نے غلطی کی تھی اب بھی وہ غلطی کرتے ہیں۔ جب کہ یہ ثابت ہے کہ حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ قرآن کریم کے خلاف ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے تو پھر یہ کہنا کہ ہمیں کیا مسیحؑ زندہ ہیں یا مر گئے پہلی بیوقوفی سے کم بیوقوفی نہیں کیونکہ اس کے معنی تو یہ بنتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا کہ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہی جاتی ہے ہمیں اس سے کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے، ہمیں اس سے کیا کہ اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔ مگر بہرحال اس تغیر مقام سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دل اس عقیدہ کی غلطی کو تسلیم کر چکے ہیں گو ضد اور ہٹ صفائی کے ساتھ اس کے تسلیم کرنے میں روک بن رہے ہیں۔ مگر کیا وہ لوگ اسلام کے لیڈر کہلا سکتے ہیں جو صرف اس لئے ایک ایسے عقیدہ پر پردہ ڈال رہے ہوں جو اسلام کیلئے  مُضِرّ ہے کہ اسے ردّ کرنے سے لوگوں پر یہ کُھل جائے گا کہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں غلطی کی تھی۔
بہرحال علماء جو رویہ چاہیں اختیار کریں ہر اک مسلمان پر اب یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ عقائد کی جنگ میں دوسرے علماء مرزا صاحب علیہ السلام کے مقابل پر سخت شکست کھا چکے ہیں اور وہ مسئلہ جس کے بیان کرنے پر علماء نے بانی سلسلہ احمدیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا آج اکثر مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں قائم ہو چکا ہے اور یہ پہلی شہادت مرزا صاحب کی صداقت کی ہے۔
دوسری چیز جس سے انسان کو کامیابی حاصل ہوتی ہے درستی عمل ہے اور اس بارہ میں حضرت مسیح موعود    علیہ السلام کی کوششوں میں سے میں ایک کوشش کو بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا مسلمانوں کی عملی سُستی اور بیچارگی حد سے بڑھی ہوئی تھی‘ عوام الناس کی قوتیں مفلوج ہو رہی تھیں اور خواص عیسائیت کے حملہ سے بچنے کیلئے اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا رہے تھے۔ اسلام کے خادم اپالوجسٹس APOLOGISTS)) کی صفوں میں کھڑے ان اسلامی عقائد کیلئے جنہیں یورپ ناقابلِ قبول سمجھتا تھا معذرتیں پیش کر رہے تھے۔ اُس وقت بانی سلسلہ احمدیہ نے اِن طریقوں کے خلاف احتجاج کیا، اُس وقت انہوں نے اپنی تنہا آواز کو دلیرانہ بلند کیا کہ اسلام کو معذرتوں کی ضرورت نہیں۔ اِس کا ہر حکم حکمتوں سے پُر اور اس کا ہر ارشاد صداقتوں سے معمور ہے۔ اگر یورپ کو اس کی خوبی نظر نہیں آتی تو یا وہ اندھا ہے یا ہم شمع اُس کے قریب نہیں لے گئے پس اسلام کی حفاظت کا ذریعہ معذرتیں نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو یورپ تک پہنچانا ہے۔ اُس وقت جب کہ یورپ کو اسلام کا خیال بھی نہیں آ سکتا تھا انہوں نے انگریزی میں اپنے مضامین ترجمہ کروا کے یورپ میں تقسیم کرائے اورجب خدا تعالیٰ نے آپ کو جماعت عطا فرمائی تو آپ نے انہیں ہدایت کی کہ جہاد اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جہاد کسی وقت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جس طرح نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اسلام کے ایسے احکام ہیں کہ جن پر عمل کرنا ہر زمانہ میں ضروری ہے اسی طرح جہاد بھی ایسے اعمال میں سے ہے جس پر ہر زمانہ میں عمل کرنا ضروری ہے اور اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو صورتیں مقرر کی ہیں‘ ایک جنگ کے ایام کیلئے اور ایک صلح کے ایام کے لئے۔ جب مسلمانوں پر کوئی قوم اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام کو قبول کیا ہے اور انہیں بزور اسلام سے منحرف کرنا چاہے جیسا کہ مکہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تو اُس وقت ان کیلئے یہ حکم ہے کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں اور جب غیر مسلم لوگ تلوار کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے نہ روکیں تو اُس وقت بھی جہاد کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا۔ اِس وقت دلیل اور تبلیغ کی تلوار چلانے کا مسلمانوں کو حکم ہے تا کہ اسلام جس طرح جنگ کے ایام میں ترقی کرے صلح کے ایام میں بھی ترقی کرے اور دونوں زمانے اس کی روشنی کے پھیلانے کا موجب ہوں اور مسلمانوں کی قوتِ عملیہ کمزور نہ ہو۔
یاد رہے کہ اس جہاد کا ثبوت قرآن کریم میں بھی پایا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے۔   فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - (1) یعنی کفار کی باتوں کو مت مان بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے ان سے جہادِ کبیر کرتا چلا جا یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں پر فتح پالے۔
افسوس کہ مسلمانوں کی عملی طاقتیں چونکہ ماری گئی تھیں ان کے لیڈروں نے اس مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی اور چونکہ وہ کام نہ کرنا چاہتے تھے اور یہ اقرار بھی نہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ کام سے جی چُراتے ہیں انہوں نے یہ عجیب چال چلی کہ لوگوں میں شور مچانا شروع کر دیا کہ بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر ہیں حالانکہ یہ سراسر بُہتان اور جھوٹ تھا۔ بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر نہ تھے بلکہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاد باقی ارکانِ اسلام کی طرح ہر زمانہ میں ضروری ہے اور چونکہ تلوار کا جہاد ہر زمانہ میں نہیں ہو سکتا اور چونکہ جماعت کا سُست ہو جانا اس کی ہلاکت کا موجب ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو قسمیں مقرر کی ہیں۔ جب تلوار سے اسلام پر حملہ ہو تلوار کا جہاد فرض ہے اور جب لوہے کی تلوار کا حملہ ختم ہو تو قرآن کریم کی تلوار لے کر کافروں پر حملہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ غرض جہاد کسی وقت نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کبھی مسلمانوں کو تلوار کے ذریعہ سے جہاد کرنا پڑے گا اور کبھی قرآن کے ذریعہ سے۔ وہ جہاد کو کسی وقت بھی چھوڑ نہیں سکتے۔
غرض یہ عجیب اور پُرلطف جنگ تھی کہ جو شخص جہاد کے لئے مسلمانوں کو بُلا رہا تھا اور جہاد کو ہر زمانہ میں فرض قرار دے رہا تھا اُسے جہاد کا منکر کہا جاتا تھا اور جو لوگ نہ تلوار اُٹھاتے تھے اور نہ قرآن کریم کا جہاد کر رہے تھے‘ انہیں جہاد کا ماننے والا قرار دیا جاتا تھا مگر ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس جنگ سے سلسلہ احمدیہ کے راستہ میں روکیں تو پیدا کی جا سکتی تھیں مگر اسلام کو کیا فائدہ تھا؟ اسلام حضرت زین العابدین کی طرح میدانِ کربلا میں بے یارومددگار پڑا تھا اور مسلمان علماء جہاد کی تائید کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کے لئے جہاد کرنے والوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور دشمنانِ اسلام کے لئے انہوں نے میدان خالی چھوڑ رکھا تھا۔
شاید کوئی یہ کہے کہ دوسرے مسلمان بھی تو تبلیغ کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں  اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ (2)جہاد امام کے پیچھے ہوتا ہے بغیر امام کے نہیں اور مسلمان اِس وقت کسی امام کے ہاتھ پر جمع نہیں۔ پس اِن کی تبلیغ تو بھاگی ہوئی فوج کے افراد کی منفردانہ جنگ ہے۔ کبھی اس طرح فتح حاصل نہیں ہوتی۔ فتح تو منظم فوج کو ہوتی ہے جس کا افسر سب امور پر غور کر کے مناسب مقامات حملے کے لئے خود تجویز کرتا اور عقل اور غور سے جنگ کے محاذ کو قائم کرتا ہے۔ پس بعض افراد کی منفردانہ کوششیں جہاد نہیں کہلا سکتیں۔ 
آج اس قدر لمبے عرصہ کے تجربہ کے بعد سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ عملی پروگرام جو بانی سلسلہ نے قائم کیا تھا وہی درست ہے پچاس سال کے شور کے بعد مسلمان تلوار کا جہاد آج تک نہیں کر سکے کفر کا فتویٰ لگانے والے مولویوں میں کسی کو آج تک تلوار پکڑنے کی توفیق نہیں ملی۔ قرآن کریم سے جہاد کرنے والے احمدیوں کو خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی ہے۔ وہ لاکھوں آدمی اِن مولویوں کی مخالفت کے باوجود چھین کر لے گئے ہیں اور یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں ہزار ہا آدمیوں کو جو پہلے ہمارے آقا اور مولیٰ کو گالیاں دیتے تھے حلقہ بگوشانِ اسلام میں شامل کر چکے ہیں اور وہ جو پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے آج ان پر درود بھیج رہے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تنظیم کا نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تنظیم کیوں پیدا ہوئی اور کیوں دوسروں سے تنظیم کی توفیق چِھن گئی؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوتِ عملیہ پیدا کرنے کا صحیح نسخہ استعمال نہیں کیا گیا۔ جس فوج کو مشق نہ کرائی جائے وہ وقت پر لڑ نہیں سکتی‘ جس قوم کو ہر وقت جہاد میں نہ لگایا جائے وہ خاص مواقع پر بھی جہاد نہیں کر سکتی پس اس معاملہ میں بھی فتح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو حاصل ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ جس نکتہ تک آپ کا دماغ پہنچا دوسروں کا نہیں پہنچا۔ دنیا نے آپ کامقابلہ کیا اور شکست کھائی‘ آپ نے دنیا کے چیلنج کو قبول کیا اور فتح حاصل کی۔ 
تیسرا ذریعہ انسانی کامیابی کا محرکِ صحیح کا میسر آنا ہے۔ بانی سلسلہ کے دعویٰ کے وقت محرک کے بارہ میں بھی آپ میں اور دوسرے علماء میں اختلاف ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے سامنے حقیقت پیش کی کہ انسانی زندگی کا نقطۂ مرکزی محبتِ الٰہی ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندہ کا تعلق محبت کا ہے تو سزا تابع ہے انعام اور بخشش کی‘ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتدا بھی رحمت سے کی جاتی ہے اور انتہاء بھی رحمت سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندہ کو عبودیت اور بخشش کیلئے پیدا کیا ہے اور ہر بندہ کو یہ چیز نصیب ہوکر رہے گی۔ یہ جذبۂ محبت پیدا کر کے آپ نے اپنی جماعت کے دلوں میں عمل کا یہ محرک پیدا کر دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس قدر احسانات ہیں تو ہمیں بھی اس کے جواب میں بطور اظہارِ شکریہ اس مقصود کو پورا کرنا چاہئے جس کے لئے اُس نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ اس محبتِ الٰہی کے جذبہ نے انہیں تمام انعامات اور تمام دیگر خواہشات سے مستغنی کر دیا ہے۔ وہ عہدوں اور جزاء کے امیدوار نہیں۔ وہ سب ماضی کو دیکھتے ہیں اور آئندہ کیلئے خدا تعالیٰ سے سودا نہیں کرنا چاہئے۔ اس محرک کے متعلق بھی علماء نے اختلاف کیا وہ محبت کے جذبہ کو کُچلنے میں لُطف محسوس کرتے تھے۔ انہیں اس امر کاشوق تھا کہ دنیا کے سب بزرگوں کو جن کا نام قرآن کریم میں مذکور نہیں جھوٹا اور فریبی کہیں‘ انہیں شوق تھا کہ وہ اپنے اور یہود کے باپ دادوں کے سوا سب کو جہنم میں دھکیل دیں‘ وہ اس امر میں مسرت حاصل کرتے تھے کہ ایک دفعہ جہنم میں دھکیل کر وہ پھر کسی کو باہر نہیں نکلنے دیں گے‘ انہیں محبتِ الٰہی کے لفظ پر اعتراض نہ تھالیکن وہ محبت پیدا کرنے کے سب ذرائع کو مٹا دینا چاہتے تھے‘ وہ خدا تعالیٰ کو ایک بھیانک شکل میں پیش کر کے کہتے تھے کہ ہمارا یہ خدا ہے‘ اب جو چاہے اس سے محبت کرے مگر کون اس خدا سے محبت کر سکتا تھا‘ نتیجہ یہ تھا کہ مسلمانوں کیلئے محرکِ حقیقی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ چند وقتی سیاسی ضرورتیں‘ چند عارضی قومی جھگڑے انہیں کبھی عمل کی طرف مائل کر دیں تو کر دیں لیکن مستقل آگ‘ ہمیشہ رہنے والی جلن انہیں نصیب نہ تھی۔ مگر مرزا صاحب علیہ السلام نے باوجود کفر کے فتووں کے اس بات کا اعلان کیا کہ سب قوموں میں نبی گزرے ہیں‘ راستباز ظاہر ہوئے ہیں اور جس طرح موسیٰ علیہ السلام اور مسیح علیہ السلام خدا کے برگزیدہ تھے کرشن، رامچندر، بدھ، زردشت بھی خدا کے برگزیدہ تھے۔ اُس نے ہمیشہ محبت اور بخشش کا ہاتھ لوگوں کی طرف بڑھایا ہے اور آئندہ بڑھاتا رہے گا۔ نیز یہ کہ جس طرح وہ ماضی میں بخشش کا ہاتھ بلند کرتا رہا ہے آئندہ بھی وہ ایسا ہی کرے گا اور دائمی دوزخ کسی کو نہ ملے گی سب بندے آخر بخشے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سزا بطور علاج ہوتی ہے نہ بطور ایذاء اور تکلیف دہی کے۔ آہ! علماء کا وہ غصہ دیکھنے کے قابل تھا جب انہوں نے مرزا صاحب کے یہ الفاظ سنے جس طرح سارا دن کی محنت کے بعد شکار پکڑ کر لانے والے چِڑی مار کی چِڑیاں کوئی چھوڑ دے تو وہ غصہ میں دیوانہ ہو جاتا ہے‘ اسی طرح علماء کے چہرے غصہ سے سرخ ہو گئے اور یوں معلوم ہوا جیسے کہ ان کے پکڑے ہوئے شکار مرزا صاحب نے چھوڑ دیئے ہیں۔ مگر بانی سلسلہ نے ان امور کی پرواہ نہیں کی انہوں نے خود گالیاں سنیں اور ایذائیں برداشت کیں لیکن خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا راستہ کھول دیا اور اعمالِ مستقلہ کیلئے ایک محرک پیدا کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کی وہ آگ پیدا ہو گئی جو انہیں رات دن بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لانے پر مجبور کر رہی ہے۔
عشق آہ! کیسا پیارا لفظ ہے۔ یہ عشق کی آگ ہمارے دلوں میں مرزا صاحب نے پیدا کر دی، عشق زبردستی نہیں پیدا ہوتا۔ عشق حُسن سے پیدا ہوتا ہے یا احسان سے۔ ہم ایک حسین یا محسن کو بدنما صورت میں پیش کر کے عشق نہیں پیدا کر سکتے۔ عشق حُسن و احسان سے ہی پیدا ہوتا ہے اور مرزا صاحب نے ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کو جس صورت میں پیش کیا وہ حقیقی حُسن اور کامل احسان کو ظاہر کرنے والا تھا اور اس کا نتیجہ جو نکلا وہ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ ہم دیوانے ہیں خدا تعالیٰ کے‘ ہم مجنون ہیں اس حُسن کی کان کے، فریفتہ ہیںاس احسانوں کے منبع کے، اس کی رحمتوں کی کوئی انتہاء نہیں، اس کی بخششوں کی کوئی حد نہیں، پھر ہم کیوں نہ اسے چاہیں اور کیوں اس محبت کرنے والی ہستی کی طرف دنیا کو کھینچ کر نہ لاویں۔ لوگوں کی بادشاہت ملکوں پر ہے ہماری بادشاہت دلوں پر ہے۔ لوگ علاقے فتح کرتے ہیں ہم دل فتح کرتے ہیں اور پھر انہیںنذر کے طور پر اپنے آقا کے قدموں پر لا کر ڈالتے ہیں۔ بھلا ملک فتح کرنے والے اپنے خدا کو کیا دے سکتے ہیں کیا وہ چین کا محتاج ہے یا جاپان کا؟ لیکن وہ پاک دل کا تحفہ قبول کرتا ہے، محبت کرنے والے قلب کو شکریہ سے منظور کرتا ہے۔ پس ہم وہ چیز لاتے ہیں جسے ہمارا خدا قبول کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ ہم اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے بلکہ خدا تعالیٰ کیلئے چاہتے ہیں۔
اب اے دوستو! دیکھو کیسا زبردست محرک ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں اب اس سے غرض نہیں کہ ہندو مسلمان کی لڑائی ہو رہی ہے یا سکھ مسلمان کی یا عیسائی مسلمان کی، ان عارضی محرکات سے ہم آزاد ہیں۔ یہ لڑائیاں تو ختم ہو جاتی ہیں اور ساتھ ہی جوش بھی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور عمل ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارا محرک تو محبتِ الٰہی ہے جو کسی عارضی تغیر سے متأثر نہیں،  یہ عشق کسی وقت میں بیکار بیٹھنے نہیں دیتا اس لئے ہمارا مقام ہر وقت آگے ہے، ہماری رفتار ہر وقت تیز ہے، بڑا کام ہمارے سامنے ہے لیکن ایک بڑی بھٹی بھی ہمارے دلوں میں جل رہی ہے جو ہر وقت بانی سلسلہ کی دُوربینی اور حقیقت بینی پر شاہد ہے  اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی خَلِیْفَتِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔
اے دوستو! ہزاروں گواہ بانی سلسلہ کی سچائی کے ہیں اے دوستو! ہزاروں گواہ بانی سلسلہ کی سچائی کے ہیں لیکن یہ تین گواہ میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں اور عقملند کیلئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ پس آپ ان امور پر غور کریں اور جدھر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اشارہ کر رہا ہے اُدھر چل پڑیں۔ یہ عمر چند روزہ ہے اور اِس دنیا کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔ اُس جگہ اپنا گھر بنائیں جو فنا سے محفوظ ہے اور اُس یار سے اپنا دل لگائیں جس کی محبت ہر نقص سے پاک کر دینے والی ہے۔ ایک عظیم الشان نعمت کا دروازہ آپ کے لئے کھولا گیاہے‘ اس دروازہ سے منہ موڑ کر دوسری طرف نہ جائیں کہ  بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ(3) کا ارشاد آپ کو اس سے روک رہا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر بیان کرتا ہوں کہ آپ کی ہمدردی نے مجھے اِس پیغام پر مجبور کیا ہے اور کسی نفسانی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی ہمدردی کی وجہ سے میں نے یہ آواز اُٹھائی ہے۔ پس ایک درد مند کی آواز سنیں اور ایک خیر خواہ کی بات پر کان دھریں کہ اس میں آپ کا بھلا ہوگا اور آپ کا دین اور دنیا دونوں اس سے سُدھر جائیں گے۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اسے قبول کریں اور اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف کو عینِ راحت سمجھیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ 
وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
والسلام،خاکسار
مرزا محمود احمد
     امام جماعت احمدیہ‘‘
(مطبوعہ 30 ستمبر1934ء کوآپریٹوسٹیم پرنٹنگ پریس وطن بلڈنگس لاہور)(انوار العلوم جلد 13صفحہ 465 تا475)
(1) الفرقان: 53۔
(2) بخاری کتاب الجھاد والسیر باب یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِ الْاِمَامِ وَیُتَّقٰی بِہٖ،۔
(3)الحدید: 14

مکمل تحریر >>

Friday, 1 December 2017

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ




آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ
تحریر فرمودہ : حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ

درود شریف کی اہمیت اور عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نماز کا فریضہ جسے ہر ایک مسلم کے لئے طرّۂ امتیاز قرار دیا گیا ہے اور جس کی ادائیگی ہر مومن کے لئے ایسی ہی ضروری قرار دی گئی ہے جیسے قیامِ زندگی کے لئے غذا اور دفعِ علالت کے لئے علاج اور دوا۔ درود شریف کو اس دائمی اور ابدی عظیم الشان عبادت کا جزو قرار دیا گیا ہے اور جس طرح نماز کے لئے قرآن کریم اور احادیثِ نبویّہ میں لفظ صلوٰۃ استعمال ہوا ہے اسی طرح یہی لفظ درود شریف کے لئے رکھا گیا ہے۔ جس سے یہ امرقرینِ قیاس اور صحیح الامکان معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا نام صلوٰۃ نماز کے اسی جزو کی بناء پر رکھا گیا ہے جیسے بعض سورِ قرآنیہ کے اسماء ان کے بعض اجزاء کے نام پر رکھ دیئے گئے ہیں۔ علاوہ اس کے درود شریف کا نماز کے ہم اسم ہونے کی صورت میں پایا جانا اس کی اہمیت اور فضیلت کو جس اجلٰی شان کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے۔ وہ مخفی نہیں۔

فضیلتِ درود

درود شریف بہترین حسنات کے ذخائر اور خزائن میں سے ہے اور اس سے بڑھ کر درود شریف کا پڑھنا اور کیا موجبِ حسنات ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے اپنا اور اپنے ملائکہ کا فعل قرار دیا ہے جس سے درود شریف پڑھنے والا مومن خداتعالیٰ اور ملائکہ کا شریکِ فعل ہو جاتا ہے گو یہ دوسری بات ہے کہ ہر ایک کے درود شریف کی نوعیّت جداگانہ ہے۔ درود شریف چونکہ مومنوں کاوصف ہے اس لئے درود شریف علامتِ ایمان اور اﷲ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھے تو خدا تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت نازل فرماتا ہے یہ بشارت دراصل آیت قرآنی مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا کے ماتحت ہے کہ ایک نیکی کی جزا کم از کم دس گنا زیادہ ملتی ہے لیکن عرفان اور نیت کی وسعت سے جزا کا دائرہ اور بھی وسیع ہو جاتا ہے۔

درود شریف کا ماحصل

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا مطلب وہی ہے جو لفظ صلوٰۃ اور سلام سے ظاہر ہے۔ صلوٰۃ کا لفظ اﷲ تعالیٰ کی صفت حمید و مجید کے لحاظ سے جو درود شریف میں دعائے صلوٰۃ کی مناسبت سے لائی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے حمد اور حُسن ثناء اور آپ کی عظمت اورمجد کے لئے درخواست کرنے کے معنوں میں ہے۔ اُوْلٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ کے ارشاد باری میں صلوات کے معنے حسنِ ثناء بھی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے متعلق ثناء اور تعریف کا اظہار ہوتا ہے۔اسی طرح آیت ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلوٰۃ سے مراد ایسی رحمت بھی ہے کہ جس کے ذریعہ انسانوں کو انواع و اقسام کی تاریکیوں سے نور کی طرف نکالا جاتا ہے ان معانی کے لحاظ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا مفہوم اور مطلب یہ ہو گا کہ سب مومن صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْماًکے ارشاد کی تعمیل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق مخالفین اور کافرین کی مذمتوں اور غلط بیانیوں کے مقابل حسنِ ثناء اور مدح اور تعریف کی اشاعت کریں کیونکہ کافر اورمخالف لوگ اپنے بُرے پراپیگنڈے سے ظلمات اور تاریکی کے پردے حائل کرنا چاہتے ہیں تا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت او رآپ کی نبوّت و رسالت کی اصلی اور خوبصورت شان کو دیکھ کر لوگ مسلمان نہ ہوجائیں۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جہاں مخالف لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت پر تاریکی کے پردے ڈال کر آپؐ کی اصل حقیقت کو چھپانا چاہیں تم مومن لوگ ان کے اعتراضات کی تردید اور ان کے غلط خیالات کا ازالہ کرتے ہوئے وہ سب تاریکی کے پردے ہٹا دو اور دنیا کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصل حال اور حقیقی نورِ صداقت سے آگاہ کر دو۔ تا ایک طرف تمہارے اس صلوٰۃ اور سلام سے آپؐ مخالفوں کی پیداکردہ تاریکیوں سے باہر آ جائیں اور دوسری طرف محقق اور طالبانِ حق آپؐ کی اصل اور پُرحقیقت شان سے آگاہ ہو کر اس حق کو قبول کر کے نورحاصل کر لیں۔

صلوٰۃ اور سلام کی چار قسمیں

غرض مومنوں کا صلوٰۃ اور سلام چار رنگوں کا ہو سکتا ہے اول یہ کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں اور مخالفوں کے تاریک اور پرمذمت پراپیگنڈہ کی تردید اور اس کا کما حقہ ازالہ کریں اور بتائیں کہ آپؐ مذمّم نہیں بلکہ محمد ہیں اور آپؐ کاذب اور مفتری نہیں بلکہ خدا کے سچے نبی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ امام مہدی کے اصحاب ہر مجلس میں مہدی کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کریں گے اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ مہدی کے مخالفوں کی طرف سے چونکہ جابجا مخالفانہ ذکر ہوں گے اس لئے اصحابِ مہدی بطور ذبّ کے تردید کریں گے اور تبلیغ کی غرض سے مہدی کا ذکر بکثرت وقوع میں آئے گا۔
دوسرے یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کے خلقِ عظیم کے سچے وارث بن کر پاک نمونہ اور پاک اخلاق کے ساتھ دنیا کو دکھائیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ نمونہ نہ تھا جو مخالف اور آپؐ کے دشمن پیش کرتے ہیں بلکہ آپ کا نمونہ اور خلق وہ ہے جو مومنین کی پاک جماعت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کو اپنے پاک نمونہ اور پاک اعمال سے ظاہر کر رہی ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جلوۂ صداقت جو مومنین کے پاک نمونہ کے ذریعہ ظہور میں آئے گا، مخالفوں کو تاریکیٔ شبہات سے باہر نکالے گا۔
تیسرے یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کی اشاعت اور اسلام کی تبلیغ کے لئے دنیا کی ہر قوم کو دعوت دے کر آپؐ کے محامد اور محاسن سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے لوگوں کے آگے سے تاریکی جہالت کے پردوں کو اٹھایا جائے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نورِ صداقت کا ہر وقت اور ہرجگہ جلوۂ حقیقت ظاہر کیا جائے۔
چوتھے یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی جناب میں بکمال تضرُّع و خشوع اور بکمال ارادت و صدق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دعائیں کی جائیں تاکہ تاریکی کے سب پردے اٹھا دیئے جائیں اور ہر ایک انسان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نمونہ کا مظہر ہو کر آپ ؐ کی قوت قدسیہ کا جلوہ دنیا کو دکھائے اور تا ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی وہ نسل جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک نمونہ سے منحرف ہو کر جہنمی زندگی کے اتھاہ گڑھے میں گر پڑی ہے دوبارہ آپؐ کی اتباع سے آدم کی طرح مسجودِ ملائکہ بننے کی مستحق ٹھہرے پس یہ صلوٰۃ او رسلام جو چار رنگوں کا ہے اگر مومن اس کی تعمیل کریں تو یہ انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے انصار میں سے بنا دیتا ہے اور باوجود بُعدِ زمانی اور مکانی کے ایسا مومن جو صلوٰۃ اور سلام کے مذکورہ کوائف سے اپنا درود شریف پیش کرتا ہے لاریب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا سچا اور کامل ناصر اور جماعتِ انصار میں اپنی خاص شان کا انصاری ہوتا ہے۔

درود شریف سے صفاتِ الٰہیہ کا ظہور 

اﷲ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اس سے پہلے آتا ہے سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔ ان دو آیتوں کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرسلوں کو معصوم تسلیم کرنا، ہر عیب اور ہر نقص سے پاک اور سلامتی کے ساتھ ماننا ہی اس بات کی دلیل اور علامت ہے کہ سب کی سب اور کامل حمد اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے جس کی حمد کی یہ شان ہے کہ وہ سب عالموں کی ربوبیت کا فیضان ہروقت ناز ل فرما رہا ہے اور جس کی ربوبیت کے ماتحت خدا کے مرسلوں کی بعث ظہورمیں آئی اور بالآخر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے عظیم الشان مرسل کو تمام دنیا کی قوموں اور سب عالموں کی ربوبیت کے لئے مبعوث فرمایا۔ تاخدا تعالیٰ کی حمد کے اظہار کے علاوہ دہریوں اور مشرکوں پر یہ ثابت کرے کہ تیرا رب جس نے اے رسول تجھے مبعوث فرمایا بہت بڑی عزت والا ہے اور ان سب نقائص اور عیوب سے منزہ ہے جن کو اس قدوس اور سبّوح ذات کی طرف جاہل مشرک اور دہریہ لوگ منسوب کرتے ہیں۔
پس صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا کے ارشاد میں صلوٰۃ کے علاوہ سلام بھیجنے کی غرض انہی معنوں میں ہے جیسا کہ اوپر بیان کر دیا گیا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کے لئے جو الفاظ مسنونہ صلوٰۃ کے ہیں ان میں اﷲ تعالیٰ کی صفت حمید اور مجید کو پیش کیا گیا جس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی حمد اور مجد کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرسل ہونے کی حیثیت اور آپ کی صداقت کے ظہور کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے۔

آنحضرت ؐ کے اغراض و مقاصد 

درود شریف کو جب دعا کے طور پر پڑھا جائے تو چاہیئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اغراض ومقاصد کو ملحوظ رکھ کر ان کی تکمیل کے لئے دعا کی جائے۔ آپ کے اغراض و مقاصد تین طرح پر ہیں ایک خالق کے متعلق دوسرے مخلوق کے متعلق تیسرے نفس کے متعلق۔ خالق کے متعلق آپ کا مقصد یہ ہے کہ اِعلاءِ کلمۃ اﷲ اور تعظیم لامر اﷲ کی شان دنیا میں ظاہر ہو۔ مخلوق کے متعلق یہ کہ ہر انسان خد ا تعالیٰ کی توحید کو اعتقادی اور عملی صورت میں پانے والا ہو جائے اور حق اﷲ اور حق العباد کی امانت کو ادا کرنے والا اور تعظیم لامر اﷲ اور شفقت علیٰ خلق اﷲ کے فرائض کی ادائیگی کے لئے کامل نمونہ ہو۔ خدا کے قرب اور وصل سے جنت کا وارث اور جہنمی زندگی سے نجات پانے والا بنے۔ ذاتی مقصد یہ ہے کہ اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کے مطابق آپؐ خدا تعالیٰ کے عرفان اور قرب و وصل کے مدارج میں جس قد ربھی پیش از پیش ترقی کے خواہشمند ہیں ان مدارج میں آپؐ کو ہر لمحہ ترقی حاصل ہوتی رہے چنانچہ وَ لَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ میں اس امر کی بشارت دی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ترقی غیر متناہی مدارج کی شان رکھتی ہے۔

صلوٰۃ نسک حیات و ممات 

آیت کریمہ اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صلوٰۃ کو مقامِ استفاضہ پر اور حیات کے بالمقابل رکھا ہے اور نُسُکی یعنی آپ کی قربانی کو مقام افاضہ پر اور ممات کے بالمقابل پیش کیا ہے۔ اس سے آپ کی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ایک طرف اﷲ تعالیٰ سے استفاضہ کا لامتناہی سلسلہ علی الدّوام جاری ہے اور دوسری طرف آپ کی طرف سے خلق خدا کے لئے افاضہ کا غیر متناہی اور ابدی سلسلہ چلتا رہے اسی مقصد کو فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ کے الفاظ میں بھی پیش کیا گیا ہے یعنی فَصَلِّ سے استفاضہ کر اور اَنْحَرْ سے قربانی کا سلسلہ جاری رکھ جو تیری طرف سے خلق کے لئے افاضہ کی حیثیت میں ہے اس کے نتیجہ میں کوثر تجھے عطا ہو گا۔یعنی ہر طرح کے انعامات اور برکات کی وہ کثرت جو غیر متناہی اور گنتی و شمار کی حدود سے باہر ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قربانی کو لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْا مُؤمِنِیْنَ اور عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ کے الفاظ میں بھی ذکر کیا ہے کہ دوسری مخلوق کے متعلق آپؐ کی ہمدردی اور شفقت تو درکنار کافروں تک کے لئے جو آپ کے جانی دشمن تھے آپؐ کی ہمدردی اور قربانی کا یہ حال تھا کہ خدا تعالیٰ جو خالقِ فطرت اور عالمِ سرّ و علن ہے شہادت دیتا ہے کہ آپ کافروں اور دشمنوں کی ہمدردی سے اس قدر گداز ہو رہے تھے کہ اپنی جان کو بوجہ شفقت اور مجاہداتِ شاقّہ کے ہلاکت میں ڈالے ہوئے تھے۔ پس آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ان شفقتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور آپؐ کی محسنانہ اور کریمانہ عنائتوں اور مہربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپؐ پر درود شریف پڑھتے وقت آپؐ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے دعائیں کرنا چاہیئے۔

اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا درود

اﷲ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کا درود مومنوں سے الگ حیثیت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور ملائکہ کا درود صفتِ رحمانیت کے افاضہ کے رنگ میں بلا محنت بلاکسی معاوضہ و مبادلہ کے پیش ہوتا ہے لیکن مومنوں کا درود ایک دعا اور روحانی مجاہدہ اور کوشش ہے جس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور معاوضہ صفتِ رحیمیّت کے افاضہ کے ماتحت فیضان نازل ہوتا ہے اس طرح سے آنحضرت صلعم کو صفت رحمانیت اور صفت رحیمیّت دونوں قسموں کے فیضان کامورد بنایا جاتا ہے ہاں یہ دوسری بات ہے کہ مومن اپنی نیت اور عرفانی وسعت سے اپنے درود میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کے درود بلکہ جمع انبیاء و مومنین کے برکاتِ دعا اور انعامات و دعوات کو بھی شامل کر کے دعا کرے اور اس طرح کی دعا کے وسیع دائرہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے استفاضہ کے دائرہ کو وسعت دے اور اپنے درود میں صفت رحمانیت اور رحیمیت کے فیوض کو جمع کر کے جامع حیثیت میں پیش کرے۔

النّبی اور آل کا لفظ 

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا کے ارشاد میں صرف النّبیکا لفظ لایا گیا حالانکہ درود شریف میں آل کا لفظ پیش کیا گیاہے یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے البنی کی تشریح لفظِ محمد اور آلِ محمد سے فرمائی ہے اور اس لئے کہ نبوّت کے لحاظ سے اگرچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے نبی تھے لیکن شخصی حیثیت سے جب آپ تریسٹھ سال کی عمر تک پہنچ کر دنیا سے رحلت فرما گئے تو شخصی وجود کی عدم موجودگی میں آپ کی قائم مقامی میں آلِ محمدؐ ہی کام کر سکتی تھی اور آلِ محمدؐ سے مراد آپ کی امت کے صدیق ،شہید، صالح اور خصوصاً امت کے مجدّدین جو علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کے مصداق ہیں اور خلفائے راشدین مہدیین ہیں او رچونکہ نبی بغیر امت کے نہیں ہو سکتا اس لئے النبی کے لفظ کے بطن میں جب امت داخل ہے تو آلِ محمد جو نبی کے سچے وارث اور اس کی امانت کے سچے حامل ہیں کیوں داخل نہ ہوں اور جب النبی اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے امت کے انصار کی دعا اور درود شریف کی نصرت کا مقتضی ہے تو آل نبی اور آل محمد جو محمد رسول اﷲ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کی غرض سے ہی حاملِ امانت کی حیثیت میں کام کرنے والے ہیں ان کو کیوں اس درود شریف میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا النبی کے لفظ کی تشریح اور توضیح میں درود شریف میں محمد اور آلِ محمدؐ کے الفاظ کو پیش کرنا عین حکمت اور ضرورت کے اقتضاء کے ماتحت ہے اور تفسیر کے لحاظ سے نہایت ہی صحیح اور بہترین تفسیر لفظ النبی کی فرمائی گئی ہے۔

ایک سوال کا جواب 

ہاں یہ امر کہ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ الخ کے الفاظ پڑھنے کی ضرورت کیوں اور کہاں سے پیداکی گئی۔ سو اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعافرمائی تھی رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ اور ساتھ ہی یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا جیسے ہم دونوں یعنی ابراہیم اور اسمٰعیل(علیہما السلام) تیرے خادم اور دینِ حنیف کی اشاعت و حمایت کرنے والے ہیں۔ اسی طرح اس دین کی خدمت اور اشاعت کے لئے ہماری ہی اولاد اور ذریّت سے ایک امت مسلمہ بنانا اور اس میں ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرمانا جو تیری آیات ان پر تلاوت کرے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو اعتقادی اور عملی اور حالات کے لحاظ سے پاک کرے۔
یہ وہ دعا ہے جس کے اثر اور نتیجہ کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ظہور میں آئی اور اسی کے ماتحت آپ کی امت جو امت ِ مسلمہ ہے ظہور پذیر ہوئی۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے آپؐ کو یہ برکت ملی کہ آپؐ کے برکات کا سلسلہ اور آپ کی ذریّت اور اولاد کی برکات کا سلسلہ علی الدّوام قیامت تک کے لئے لمبا کیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق دوسرے مقام میں بھی اس بات کا بطور برکت ذکر فرمایا۔ کہ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِیْ الظَّلِمِیْنَ اس دعا کی رو سے جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریّت اور نسل دنیا میں رہے گی امامت اور نبوت کا انعام آپ کی صالح اولاد میں جاری رہے گا اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریّت کا سلسلہ قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔ لہذا سلسلہ برکاتِ امامت و نبوت بھی قیامت تک جاری رہنے والا ہے ہاں اس انعام کی محرومی کے لئے صرف ظالمین کو مستثنےٰ کیا ہے۔ لیکن اس استثناء سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک غیر ظالم ذریّت بھی اس انعام سے ابد تک محروم رکھی جائے۔
ان دونوں آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے اثر اور نتیجہ میں آپ کی نسل دو سلسلوں میں چلی اور دونوں کو انعامات امامت اور برکات نبوت سے مستفیض فرمایا گیا۔ ایک سلسلہ حضرت اسحٰق علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت مسیح پر ختم ہوا اور دوسرا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے شروع ہو کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچا۔ 
پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا درود شریف کے الفاظ میں ابراہیم اور آلِ ابراہیم کے صلوات اور برکات کے لئے دعائیہ الفاظ پیش کرنا اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے انہی برکات کے سلسلہ کی غرض سے ہے۔

درود شریف کے پاک اثرات 

امت کی یہ دعا جو درود شریف کے الفاظ میں پیش کی گئی ہے اور جو خدا تعالیٰ کے امر اور ارشاد کے ماتحت مانگی جاتی ہے ایک قبول شدہ دعا ہے۔ اس کی قبولیت کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بشارت بھی دی گئی۔ اسی بشارت کے ماتحت آپ نے فرمایا عُلَمَاءُ اُمتی کَاَنبِیَآءِ بنی اسرائیل اور فرمایا یُوْشِکُ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکْمًا عَدَلًا وَ اِمَامًا مَھْدِیًّا یعنی میری امت کے علماء مجددّین جو اسرائیلی انبیاء کی طرح مخصوص القوم اور مخصوص الزمان حیثیت سے مبعوث ہوں گے، وہ اسرائیلی انبیاء کے نمونہ پر ہو ں گے اور یہ برکت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ نسل کے لحاظ سے اس نمونہ پر عطا ہو گی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسحاقی سلسلہ کے ذریعہ عطا کی گئی اور مسیح موعود کی برکت جو امام مہدی ہو کر آنے والے ہیں اور جن کی بعثت دنیا کی سب قوموں اور قیامت تک کے لئے ہو گی، وہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلۂِ نسل کے لحاظ سے اس نمونہ پر عطا ہو گی۔ جو حضرت ابراہیم کو اسمٰعیلی سلسلہ اور آنحضرت ؐ کے وجودِ باجود کے ظہور سے ملی۔ سو خدا کے فضل سے آج اس زمانہ تک امت کی دعا اور درود کے پاک اثرات ظہور میں آ چکے اور ایک طرف تیرھویں صدی تک ہر صدی کے سر پر مجددّین کی بعثت سے عُلَمَاءُ امتی کَاَنبِیَآءِ بنی اسرائیل کے رو سے اسحاقی سلسلہ کی برکت کا نمونہ ظاہر ہو گیا اور دوسری طرف اس چودھویں صدی کے سر پر سیدنا حضرت مسیح موعودو امام مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت سے وہ دوسری بات بھی ظاہر ہو گئی جو اسمٰعیلی سلسلہ کی برکت کے نمونہ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے ظہور میں آئی اور جس طرح آپ کی بعثت اسرائیلی انبیاء کے بعد ظہورمیں آئی اور شان میں بھی اسرائیلی انبیاء کی برکات سے بڑھ چڑھ کر ظہور میں آئی۔ اسی طرح تیرھویں صدی تک کے مجددین جو اسرائیلی انبیاء کے نمونہ پر آئے ان سے مسیح موعود علیہ السلام بوجہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مظہرِ اکمل اور بروزِ اتم ہونے کے پہلے کے سب مجددین سے افضل شان کے ساتھ ظہور فرما ہوئے اور جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں خاتم الانبیاء ہونے کی خصوصیت ہے اسی طرح آپ میں خاتم الاولیاء ہونے کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ پس آج اس زمانہ میں اہلِ اسلام کے لئے بے حد مسرت اور خوشی کا موقع ہے کہ ان کا درودشریف پڑھنا بابرکت ثمرات اور مبارک نتائج کے ساتھ ظہور پذیر ہوا۔

رسول کریم کی نبوت کے برکات

اگرچہ صدیقیت شہدیت اور صالحیت کے مدارج کے لوگ بھی امت میں پیدا ہوئے لیکن النبی کے لفظ میں جو یصلّون علی النبی کے ارشاد میں ہے اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صدیقیت۔ شہیدیت۔ صالحیت اور اپنی مومنانہ شان کا جلوہ دکھاتے ہوئے جہاں بہت سے صدیق شہید صالح اور مومن پیدا کئے۔ وہاں نبی بھی آپ کی اتباع سے آپ کی امت میں پیدا ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آلِ محمد کو النبی کے لفظ میں داخل کر کے کمالاتِ نبوت میں بھی ظلی طور پر شامل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا۔

درود شریف اور حضرت مسیح موعودؑ

درود شریف جس کے الفاظ نماز میں پڑھے جاتے ہیں ان پر غور کرنے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والے مسیح موعود محمدی ہیں نہ کہ اسرائیلی اور وہ اس طرح کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دعا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیمؑ کے برکات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آلِ محمد کو عطا ہوں او رچونکہ مسیح اسرائیلی بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے اور اسرائیلی نبیوں میں سے ہیں اور آلِ ابراہیم میں سے ، اس لئے درود شریف کی دعا سے یہ مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیمؑ اور آپؑ کی آل کی طرح ایک مسیح بھی دیا جائے۔ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے مسیح کی طرح کا ایک اور مسیح دیا جانا ہے نہ یہ کہ وہی پہلا مسیح آپ کو دیا جانا ہے اگر پہلا مسیح آئے تو پھر کَمَا کا حرفِ تشبیہہ جو پہلے مسیح کے مشبّہ کو چاہتا ہے نہ کہ پہلے مسیح کے عین کو وہ اپنے مفاد کے لحاظ سے باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ مشبّہ اور مشبّہ بہ کے درمیان مغائرت کا پایا جانا ضروری ہے ورنہ تشبیہ کا فائدہ ہی کیا پس حرف کما نے اپنے مفاد سے یہ ظاہر کر دیا کہ آنے والا مسیح موعود پہلا مسیح اور اسرائیلی مسیح نہیں بلکہ اس کا مثیل ایک دوسرا مسیح ہے جو مسیح محمدی اور امت محمدیہ کا ایک فرد ہے جیسا کہ حدیث اِمَامُکُمْ مِنْکُم اور حدیث حُلْیَتَیْن اور آیتِ استخلاف یعنی وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کے لفظ مِنْکُمْ اور کَمَا میں بھی اسی طرح اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نیابت اور خلافت کے لئے جو شخص متعین ہو گا وہ امت محمدیہ کا فرد ہو گا۔اس صورت میں مسیح اسرائیلی جو قرآن اور حدیث اور واقعاتِ تاریخیہ کی رو سے فوت شدہ ثابت ہیں اگر انہیں زندہ تسلیم کر لیا جائے تو بھی وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ نہیں بن سکتے اس لئے کہ قرآن، حدیث اور درود شریف کے الفاظ منکم اور کما اس امر کے لئے مانع ہیں کہ ایسا مسیح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ بنے جو آپ کی امت سے نہ ہو۔

مسیح موعودؑ میں شانِ محمدیّت کا جلوہ 

درود شریف کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم کی سب برکات کا مورد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آلِ محمد کو بنایا جانا ان معنوں میں ہے کہ آپؐ آدم سے لے کر مسیح تک سب انبیاء کے کمالات اور برکات کے مورد بنائے گئے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ کشف جس میں آپ نے بیت المقدس میں سب انبیاء کی امامت میں نماز ادا کی اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی اتباع سے سب انبیاء کے کمالات منفرداً اور مجموعاً حاصل ہو سکتے ہیں۔
چنانچہ عُلَمَاءُ اُمّتی کَاَنبِیَآءِ بنی اسرآئیل کے ارشاد کے رو سے آپؐ کی امت کے مجددّین میں سے ہر ایک مجدد کسی نہ کسی نبی کے کمالات کا وارث ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو مجددِ اعظم ہیں جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کی شان کے ساتھ سب انبیاء کے کمالات کے مجموعی طور پر وارث بنائے گئے بلکہ اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی آلِ ابراہیمؑ سے ہیں۔ مسیح موعود آلِ محمدؐ میں سے ہونے کی وجہ سے کما صَلَّیتْاور کما بارکتَ علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم کے الفاظ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کمالات او ربرکات کے بھی ظلی طور پر کامل وارث ہوئے۔
درود شریف کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی وحی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو وحی درود شریف کے متعلق نازل ہوئی وہ یہ ہے صلّ علیٰ محمد و اٰلِ محمد الصّلوٰۃ ھوالمربّی انی رَافعکَ الیّ والقیتُ علیکَ محبۃً مِنّیْ یعنی محمد اور آل محمد پر درود بھیج۔ درود ہی تربیت کرکے ترقی اور کمال بخشنے والا ہے میں تجھے بلند کروں گا۔ میں اپنی طرف سے تجھے محبت کا خلعت پہناؤں گا۔ حضرت مسیح موعود نے یہ ترجمہ خود فرمایا۔ اور اس کے ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے انسان عیسیٰ بلکہ موسیٰ کا مقام پا سکتا ہے۔ جس کا ثبوت میں تیرے وجود کو پاک بناؤں گا۔ پھر حقیقۃ الوحی کے ص ۱۲۸ پر فرماتے ہیں:۔
’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہو ا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں۔ وہ بجز وسیلہ نبی کریمؐ کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (اس کی طرف وسیلہ طلب کرو)تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلّیْتَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ (یعنی یہ اس کی وجہ سے ہے جو تم نے محمدؐ پر درود بھیجا ہے)‘‘

درود شریف کے برکات 

درود شریف پڑھنے کے بہت سے فوائد ہیں منجملہ دیگر فوائد کے ایک یہ بھی ہے کہ درود شریف کی دعا چونکہ قبول شدہ ہے اس لئے اگر اپنی ذاتی دعا سے پہلے اور پیچھے اسے پڑھ لیا جائے تو یہ امر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کے معنوں میں قبولیتِ دعا کے لئے بہت بھاری ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم چونکہ بنی نوع انسان کی شفقت کی وجہ سے ہر ایک انسان کی زندگی کے بہترین دینی و دنیوی مقاصد کے حصول کے خواہاں ہیں اس لئے آپ ہی کے مقاصد میں اگر اپنے مقاصد کو بھی شامل کر کے درود شریف پڑھا جائے تو یہ امر بھی قبولیت دعا اور حصولِ مقاصد کے معنوں میں نہایت مفید ہے کوئی مشکل امر جو حاصل نہ ہو سکتا ہو درود شریف پڑھنے سے اس صورت میں حاصل اور حل ہو سکتا ہے کہ درود شریف پڑھنے سے جو دس گنا ثواب جزا کے طور پر ملتا ہے اس ثواب کو مشکل کے حل ہونے کی صورت میں جذب کیاجائے اس طرح ضرور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

قربِ الٰہی کا عجیب و غریب ذریعہ 

چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو معراج بھی قرار دیا ہے اور درود شریف نماز کا جزو ہے اس لئے درود شریف معراج کے معنوں میں قربِ الٰہی اور وصلِ الٰہی کے منازل تک پہنچانے کے لئے عجیب ذریعہ ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم شب معراج خدا تعالیٰ کے قرب اور وصل کے لحاظ سے اس مقام اور مرتبہ پر پہنچے جہاں کے لئے فرمایا کہ لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِیْ فِیْہِ نَبِیٌّ مُرْسَلَ وَلَا مَلَکٌ مُّقَرُّبٌ یعنی خدا کی معیت اور حالتِ وصول کے لحاظ سے مجھے وہ وقت بھی میسر آجاتا ہے کہ میں قرب اور وصلِ الٰہی کے اس بلند تر اور قریب تر مرتبہ پر ہوتا ہوں جہاں نہ کوئی نبی مرسل پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کسی مَلکِ مقرّب کی رسائی ہے بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے حضور پہنچے تو آپ نے فرمایا اَلتَّحیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ کہ ہر قسم کی قولی اور بدنی اور مالی قربانی خدا ہی کے لئے ہے۔ اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمایا گیا اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ گویا سلام رحمت اور برکات ہر سہ امور خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کئے گئے۔
اب ان الفاظ کے پڑھنے کا موقع نماز میں قعدہ اور تشہد ہے۔ تشہد سے مرتبہ شہود کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر ایک مومن نماز کے ذریعہ جو معراج المومنین ہے تشہد کی آخری منزل میں قرب اور وصلِ الٰہی کے مرتبہ کو حاصل کرنے والا ہے چنانچہ مومن کا التَّحیات لِلّٰہ والصلوات والطیبات کے الفاظ کو خدا کے حضور پیش کرنا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ظلیّت میں آپ کی مظہریّت اور فنا فی الرسول کے مرتبہ کو حاصل کرنا ہے۔کیونکہ یہ مرتبہ اصالۃً اور حقیقۃً آپ ؐ کا ہے اور اس پر جو شخص بھی فائز ہو گا ظلی اور بروزی طور پر ہی ہوگا اور جب مومن اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ کے الفاظ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کرتا ہے تو اس وقت یہ فنا فی اﷲ کی حیثیت میں خدا تعالیٰ کی ظلیّت کی چادر پہن کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے۔
پس درود شریف ان معنوں کے لحاظ سے نماز کی اس حقیقت پر بہترین دلالت ہے جو معراج کے معنوں پر اشتمال رکھتی ہے کیونکہ درود شریف سے فنا فی الرسول اور فنا فی اﷲ اور اﷲ اور رسول کی ظلیّت کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے وھوالمراد رزقنا اللّٰہ ھٰذا المرام۔
اسی طرح وہ سب مومن جو نماز کے معراج کی برکات سے متمتع ہوتے ہیں وہ سب کے سب آلِ محمدؐ میں داخل ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ کے سلام میں جو بالفاظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیش ہوا۔ آپؐ نے اسے اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی اَلسَّلَام ُعَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ فرما کر اس سلام میں اپنی آل کو بھی جو عباداللّٰہ الصَّالحین ہیں شامل فرما لیا اور جیسے یصلّون علی النبیّ کے ارشاد میں النبی کے لفظ کے نیچے محمد اور آل محمد کو پیش کیا اسی طرح اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ کے فقرہ میں لفظ نبی کے نیچے اَلسَّلَام ُعَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ فرما کر عَلَیْنَا کی ضمیر جمع متکلم جو مجرور واقع ہوئی ہے اس سے عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ کی شمولیت کی وضاحت فرما دی کہ النبی اپنے سلسلہ نبوت کے امتداد کے لئے عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَکے وجود کا بالضرور مقتضی ہے تا نبی کی شخصی زندگی کے خاتمہ کے بعد آل نبی اور عباد اﷲ الصّالحین اس کی تعلیم اور امانتِ نبوت کے حامل پائے جائیں۔ سو جس طرح اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ الخ کے فقرہ کے بعد اَلسَّلَام ُعَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ فرما کر نبی کے ساتھ عباد اﷲ الصّالحین کا الحاق فرمایا اسی طرح اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ اور اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ الخ میں وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کے الحاق کو پیش کیا اور سلام کے الفاظ میں جنہیں عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ کے وصف سے نامزد کیا۔ انہیں صلوٰۃ والی بشارت میں آل محمد کے لفظ سے تعبیر کر دیا۔ اس وضاحت اور الحاق سے آپ کی امید افزاء بشارت نے بتا دیا کہ جو کمالات قرب الٰہی اور وصل الٰہی کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہیں وہ سب کے سب ظلّی طو رپر آپ کی آل کو وراثتاً عطا ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اَلصّلوٰۃ معراج النبی نہیں فرمایابلکہ اَلصّلوٰۃ معراج المومن فرمایا کہ اس معراج میں ہر ایک مومن اپنے نبی کی اقتدا میں ظلّی طور پر حصہ دار ہے۔

ایّہا النبِیّ کے خطاب میں ایک خاص نکتہ

یہ بات کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو فوت ہو چکے ہیں اور حاضر نہیں پھر آپؐ کو التّحیات میں بیٹھ کر ایّہا النبیّ کے صیغہ مخاطب سے پکارنا کس وجہ سے ہے؟اس کے متعلق عرض ہے کہ یہ خطاب شخصی حیثیت سے نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یا محمد نہیں کہا جاتا اور جہاں درود شریف میں محمدؐ کا لفظ لایا گیا ہے وہاں اللّٰہمّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ سے خطاب خداتعالیٰ سے کیا ہے اور محمد اور آلِ محمد کو صیغہ غائب کی حیثیت میں پیش کیا ہے ایّہا النبیّ کے صیغہ خطاب کو لانے سے یہ مدّعا ہے کہ مومن نماز کے آخری نتیجہ میں اور اس کے آخری حصہ میں روحانیت کے اس بلند تر مقام کو جس کے حصول کے لئے نماز کو معراج بتایا گیا ہے حاصل کر کے صرف شخصی حیثیت کے محمد کو نہیں بلکہ محمدؐ بشانِ نبوت کو اپنی ظلیت کے مرتبہ پر مشاہدہ کرے اور انوار نبوت کو مشاہدہ کرتے ہوئے النبی کو پردہ غائب میں نہیں بلکہ مرتبہ شہود میں انکشافِ سرِّ حقیقت و حقیقتِ سرِّ نبوت منہ سے یہ کہے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ۔پس یہ خطاب اور صیغہ مخاطب صرف قال کے لحاظ سے نہیں بلکہ حال کے لحاظ سے بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر مومن کو یہ مرتبہ عطا کرے۔

انتخاب از : حیات قدسی جلد پنجم صفحہ 136 - 149
مکمل تحریر >>

Friday, 10 November 2017

اسلام احمدیت سے مکرم بشیر احمد آرچرڈ کی زندگی میں زبردست تغیر





مکرم بشیر احمد آرچرڈ جماعت احمدیہ عالمگیر کے سب سے پہلے انگریز مبلغِ اسلام اور پہلے یورپین واقف زندگی ہیں۔ آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب آپ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہندوستان میں برطانوی فوج کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر واپس اپنے گھر انگلینڈ آرہے تھے۔ آپ کوقادیان میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انگلینڈ پہنچ کر آپ نے جماعت کے مرکزی مشن مسجد فضل سے رابطہ کیا اور اپنی زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ آپ کے وقف کا عرصہ ۵۲ سال پر محیط ہے ،جس میں سے آپ نے ۱۸ سال انگلینڈ میں ، ۲۰سال سکاٹ لینڈ میں اور ۱۴سال ویسٹ انڈیز کے مختلف ممالک میں مبلغ کا فریضہ انجام دیا۔
مکرم آرچرڈ صاحب کے قبول اسلام کے بعد ان کی زندگی میں جو تغیر رونما ہوا اس بارہ میں آپ خود فرماتے ہیں کہ :۔
’’حقیقت یہ ہے کہ صرف مال چنداں خوشی اور قناعت نہیں دے سکتا۔ امن اور سکون بخشنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج مجھے وہ ذہنی اطمینان اور سکون قلب میسر ہے جو ایک زمانہ میں میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا۔
احمدیت کے طفیل ایک اورتغیر جو میری زندگی میں رونما ہوا وہ نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :۔ ذکرِ الٰہی سے قلوب طمانیت حاصل کرسکتے ہیں۔میں ابھی اس میدان میں مبتدی ہوں لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور ملفوظات سے بہت کچھ پایا ہے۔ مجھے اس بات پر سخت تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے والا ایک شخص جو خود کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہو وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی کیونکر کرسکتا ہے اور فرض نمازوں کی ادائیگی سے کیسے غافل رہ سکتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ جب میں اسلام لانے کے بعد قادیان گیا تھا میں نے مسجد مبارک کے باہر نوٹس بورڈ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا یہ ارشاد پڑھا کہ جس شخص نے گذشتہ دس برسوں میں ایک نماز بھی عمداً چھوڑی وہ سچا احمدی نہیں کہلا سکتا‘‘۔
(عظیم زندگی صفحہ ۱۰)
مکمل تحریر >>