Sunday, 5 February 2017

کشمیر کمیٹی کی شاندار اسلامی خدمات اور اُس کے نقّاد



کشمیر کمیٹی کی شاندار اسلامی خدمات اور اُس کے نقّاد
(از قلم جناب مولوی دوست محمد صاحب شاہد)



آل انڈیا کشمیر کمیٹی 

۱۹۳۱ء کی تحریکِ آزدی کشمیر میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سنہری خدمات ایسی بے مثال‘ ناقابلِ فراموش اور عظیم الشان ہیں کہ تاریخِ آزادیٔ کشمیر لکھنے والا کئی غیر جانبدار اور مؤرخ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ متّحد ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا جس کے پلیٹ فارم پر کلکتّہ سے لے کر لاہور تک اور ایبٹ آباد سے لے کر بمبئی تک تمام مشہور مسلمان لیڈر (جن میں سیاسی زعماء‘ صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے منتخب ارکان‘ وکلاء‘ مذہبی رہنما‘ صحافی‘ پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ رئیس غرضیکہ ہر طبقہ اور ہر خیال کے لوگ شامل تھے) اپنے مظلوم‘ بے بس اور ستم رسیدہ کشمیری بھائیوں کی امداد و اعانت کے لئے جمع ہو گئے۔

کمیٹی کے بعض ممتاز ارکان

اس ملک گیر ادارہ کے بعض ممتاز اور باقاعدہ ممبروں کے اسماء گرامی یہ تھے:۔ مسٹر ایچ۔ ایس سُہر وردی بار ایٹ لاء کلکتّہ۔ مولانا ابوظفر وجیہہ الدین آف کلکتہ‘ ایم محمد علی بخش صاحب سیکرٹری مسلم فیڈریشن بھٹی‘ مولانا ابو یوسف صاحب اصفہانی بمبئی‘ ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب الٰہ آباد‘ میاں سیّد جعفر شاہ صاحب شاہ آباد‘ سیّد کشفی صاحب نظامی رنگون‘ مولانا حسرتؔ موہانی صاحب کانپور‘ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب ایم۔ ایل۔ اے ایبٹ آباد‘ نواب ابراہیم خاں صاحب نواب آف کنج پورہ ایم۔ ایل ۔ اے کرنال‘ مولانا محمد شفیع صاحب داؤدی پٹنہ‘ چوہدری عبدالمتین صاحب سلہٹ آسام‘ جناب مشیر حسین صاحب قدوائی لکھنؤ‘ جناب سیّد غلام بھیک صاحب نیرنگ پلیڈر انبالہ‘ سیّد حبیب شاہ صاحب ایڈیٹر سیاست لاہور‘ مولوی نور الحق صاحب پروپرائٹر مسلم آؤٹ لک لاہور‘ سیّد محسن شاہ صاحب ایڈوکیٹ لاہور‘ مولانا غلام رسول صاحب مہرؔ مدیر ’’انقلاب‘‘ شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بار ایٹ لاہور‘ خان بہادر شیخ صاحب ریٹائر سیشن جج لاہور‘ آنریبل نواب ذوالفقار علی خان صاحب ایم۔ ایل۔ اے لاہور‘ ملک برکت علی صاحب ایڈوکیٹ لاہور‘ حاجی شمس الدین صاحب لاہور‘ میاں فیروزالدین صاحب سیکرٹری خلافت کمیٹی لاہور‘ مولانا عبدالمجید صاحب سالکؔ مدیر ’’انقلاب‘‘ لاہور‘ سیّد عبدالقادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور‘ شمس العلماء خواجہؔ حسن نظامی صاحب دہلی‘ حاجی سیٹھ عبداﷲ ہارون صاحب ایم۔ ایل۔ اے کراچی‘ مولانا سیّد محمد اسماعیل صاحب غزنوی امرتسری‘ مولانا مظہر الدین صاحب ایڈیٹر ’’الامان‘‘ دہلی‘ شیخ محمد صادق صاحب ایم۔ ایل۔ اے امرتسر‘ مولانا عقیل الرحمن صاحب ندوی سہارنپور‘ ایم حسام الدین صاحب آنریری مجسٹریٹ امرتسر‘ شیخ فضل حق صاحب ایم۔ ایل ۔ اے پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی بھیرہ‘ مولانا سیّد میرک شاہ صاحب فاضل دیو بند ایس۔ ایم عبداﷲ صاحب نائب صدر میونسپلٹی دہلی‘ سیّد ذاکر علی شاہ صاحب لکھنؤ۔

حضرت امامِ جماعتِ احمدیّہ کا انتخاب صدر کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں مُسلِم زعماء کی ایک نمائندہ کانفرنس کے دَوران ہؤا اور ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی تحریک بلکہ اصرار پر حضرت امام جماعت احمدیہ صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد (رضی اﷲ عنہ) نے اِ س کمیٹی کی عنانِ قیادت سنبھالی۔ جونہی آپؓ میدانِ عمل میں آئے ہندوستان کا ہندو پریس سخت غضبناک ہو کر یکا یک میدانِ مخالفت میں اُتر آیا۔

ہندو پریس کا زہریلہ پروپیگنڈا

اِس ضمن میں اخبار ’’ملاپ‘‘ کے صرف تین اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔ 
(۱) ’’ کشمیر کے متعلق سرمحمد اقبال‘ خواجہ حسن نظامی‘ قادیانی مرزا اور ’’انقلاب‘‘ و ’’مسلم آؤٹ آ ف لک‘‘ نے خفیہ اور اعلانیہ سرگرمیوں کا اظہار نہ کیا ہوتا تو ہندو دیکھتے کہ کشمیر کے مسلمان واقعی سخت تکلیف میں ہیں اور اُن کے حقوق خطرہ میں ہیں تو وہ بلا پس و پیش دربارِ کشمیر کو مجبور کرتے کہ ان کے مستحق کو اُس کا حق نہ دیا جائے۔‘‘ (ملاپ۔ ۲۰؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
(۲) ’’مرزائی قادیانی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اِسی غرض سے قائم کی ہے تاکہ کشمیر کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اِ س غرض کے لئے انہوں نے کشمیر کے گاؤں گاؤں میں پروپیگنڈا کیا․․․․․ انہیں روپیہ بھیجا۔ اُن کے لئے وکیل بھیجے۔ شورش پیدا کرنے والے واعظ بھیجے۔ شملہ میں اعلیٰ افسروں کے ساتھ ساز باز کرتا رہا۔‘‘ (ملاپ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
(۳)’’کشمیر میں قادیانی شرارت کی آگ لگائی۔ واعظ گاؤں گاؤں گھومنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ چھپوا دئے گئے۔ اُرد ومیں بھی اور کشمیری زبان میں بھی اور اُ نہیں ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مُفت تقسیم کیا گیا۔ مزید برآں روپیہ بھی بانٹا گیا۔‘‘ (ملاپ ۳۰؍ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ۵)

اہلِ کشمیر کو دھمکیاں

ہندو پریس نے کشمیر کو بھی ڈرایا دھمکایا اُن کی خیر اسی میں ہے کہ اِ س تحریک سے ہاتھ کھینچ لیں اور جو حقوق طلب کئے جا رہے ہیں اُن سے انکارکر دیں۔ چنانچہ ملاپؔ (۱۴؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵) نے لکھا کہ:۔
’’کشمیر ی مسلمانوں کو بھی دیکھنا چاہئیے کہ وہ کن ٹھگوں کے پنجہ میں پھنس گئے ہیں اور کس طرح اپنے مہاراجہ کے خلاف ایک بھاری سازش کے پُرزے بنے ہوئے ہیں۔ یہ حالات اُن کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو اب پرائسچت (کفّارہ) کے طور پر یہ اعلان کرنا چاہئیے کہ وہ کِسی قسم کے حقوق کا مطالبہ فی الحال نہیں کرتے۔ جس حالت میں وہ اب ہیں اسی حالت میں رہیں گے۔‘‘

برطانوی حکومت پر دباؤ

مگر جب ہندوؤں کا یہ داؤ بھی نہ چل سکا تو انہوں نے برطانوی حکومت پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ’’اِس فتنہ‘‘ کو مٹائے اور کشمیر کے اندر جو شورش برطانوی ہند کے مسلمانون کی شہ پر برپا کی جا رہی ہے کچل کر رکھ دے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے گورنمنٹ کو یہ کہہ کر متوجہ کیا:۔ 
’’حیرانی یہ ہے کہ ریاست کشمیر کے خلاف شملہ میں بیٹھ کر جو سازش کی جا رہی ہے یہ اسی پروگرام کی ایک مدّ ہے۔ حیرانی ہے کہ ریاستِ کشمیر کے خلاف اُسی حکومت کے پایۂ تخت میں بیٹھ کر سازش کی جا رہی ہے جس حکومت نے ریاست کشمیر کے حکمرانوں سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ بیرونی دشمنوں سے کشمیر کی حفاظت کرے گی۔‘‘ (ملاپؔ ۱۱؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
ازاں بعد آریہ سوراجیہ سبھا پنجاب نے وائسرائے ہندولنگٹن کو اِسی مضمون کا تار بھیجا:۔ 
’’برٹش انڈیا کے مسلمان بالعموم اور پنجابی مسلمان بالخصوص کشمیر در بار کے خلاف ایک بالکل بناوٹی اور باطلانہ بے بنیاد ایجی ٹیشن جو اچھی نیّت پر مبنی نہیں ہے پھیلا رہے ہیں۔ وہ ہندو مسلمانوں میں باہمی کشیدگی کی آگ مشتعل کر رہے ہیں۔ نیز ریاست کے اندر پولیٹیکل انقلاب کی انگیخت کر رہے ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں امنِ عوام کے لئے نہایت خطرناک ہیں۔ آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ اِ ن تمام ایجی ٹیٹروں پر جن میں اینگلور انڈین اخبارات بھی شامل ہیں پُورے زور سے دباؤ ڈالیں اور اس ایجی ٹیشن کی روک تھام کے لئے انسداد فرمائیں۔‘‘ (ملاپؔ ۲۰؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۶)
اِس کے بعد ایک طرف حکومتِ ہند کو یہ کہہ کہہ کر بھڑکانے کی کوشش کی ’’کشمیر کے چاروں طرف مسلمان حکومتیں ہیں کشمیر میں اگر اسلامی جھنڈا لہرایا تو گورنمنٹ کے لئے خطرہ ہو گا۔‘‘(ملاپؔ ۱۸؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۱۶) دوسری طرف انگلینڈ میں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ کشمیر ایجی ٹیشن پان اسلامک تحریک کا ایک جُزو ہے۔ چونکہ مسلمان ایک وسیع اسلامی فیڈریشن قائم کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ کشمیر کا علاقہ بھی اپنے قبضے میں کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اُن کی طرف سے اِس بات پر اتنا زور دیا گیا کہ پارلیمنٹ کے بعض انگریز ممبر بھی اس پروپیگنڈا کا شکار ہو گئے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’مسئلہ کشمیر اور ہندو سبھائی‘‘مؤلفہ جناب ملک فضل حسین صاحب)

حکومتِ ہند اور ڈوگرہ راج کا طرزِ عمل 

اِن حالات میں حکومتِ ہند نے ریاستِ کشمیر کے سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے سے ابتداً بالکل انکار کر دیا اور بعد کو تو انگریزی حکومت کا ایک وہ عنصر کھلم کھلا جماعت احمدیہ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہؤا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے خواب دیکھنے لگا۔ جہاں تک ڈوگرہ راج کا تعلق تھا مہاراجہ کے ہندو مشیروں نے طوفانِ مخالفت برپا کر کے کشمیر کمیٹی کو ناکام بنانے کی تیاریاں شروع کر دیں اور اپنے ایجنٹوں کا ایک جال سا بچھا دیا۔ 

شاندار کامیابی

الغرض قدم قدم پر اندرونی اور بیرونی مخالفتوں اور مزاحمتوں کے کوہِ گراں کھڑے کئے گئے مگر خدا کے فضل و کرم سے تحریک آزادیٔ کشمیر کا کارواں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور ریاست کے تشدّد‘ حکومتِ ہند کی بے نیازی اور ہندو سرمایہ کی پُشت پناہی کے باوجود غیر آئینی ذرائع سے نہیں بلکہ اور ریاستی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے ایک مختصر سی مدّت میں کشمیر میں محبوس انسانیت نے آزادی کا سانس لینا شروع کر دیا۔ وہ بے بس کشمیری مسلمان جونہایت شرمناک طریق پر انسانیت کے ابتدائی حقوق سے محروم کر دئیے گئے اور بقول سرایلین بینزجی (سابق وزیر خارجہ ریاست کشمیر) سچ مچ بے زبان مویشیوں کی طرح ہانکتے جا رہے تھے‘ شہریت کے ابتدائی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی قائم ہوئی اور مسلمانوں کے لئے ریاستی سیاست میں حصّہ لینے کی راہیں کھل گئیں۔

کمیٹی کی زرّیں خدمات پر دوسروں کا خراجِ تحسین

کشمیر کمیٹی کا یہ عظیم الشان ملّی اور اسلامی کارنامہ ہمیشہ آبِ زر سے لکھا جائے گا جس کی عظمت و ہیّت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بتانا کافی ہے کہ ان ممبروں کے سوا جو مفکّرِ احرار جناب چوہدری افضل حق صاحب کے بیان کے مطابق شروع ہی سے اس کی ’’تخریب میں لگ گئے تھے‘‘ (’’تاریخِ احرار‘‘ صفحہ۱۶۳) کشمیر کمیٹی کے اکثر و بیشتر ممبر اختلافِ مسلک کے باوجود صدر کشمیر کمیٹی (حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح ـالثانیؓ) کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللّسان رہے اور آپ کی بے لوث مساعی اور مخلصانہ جدّو جہد کو خراجِ تحسین ادا کیا۔ 

کشمیر کمیٹی کی خدمات مدیرِ’’سیاست‘‘ کی نظر میں

مثلاً اخبار ’’سیاست‘‘ کے مدیرِ شہیر مولانا سیّد حبیب صاحب نے اپنی کتاب ’’تحریک قادیان‘‘ میں لکھا:۔
’’مظلومینِ کشمیر کی امداد کے لئے صر دو جماعتیں پیدا ہوئیں۔ ایک کشمیر کمیٹی‘ دوسری احرارؔ۔ تیسری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بنا سکی۔ احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامیٰ مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کر کے احرار شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس جُرم کا مرتکب نہ ہؤا ہو۔ کشمیر کمیٹی نے اُنہیں دعوتِ اتحادِ عمل دی مگر اِس شرط پر کہ کثرتِ رائے سے کام ہؤااور حساب باقاعدہ رکھا جائے۔ انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لہذا میرے لئے سوائے ازیں چارہ نہ تھا کہ مَیں کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیتا۔ اور مَیں ببانگِ دُہل کہتا ہوں کہ مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی‘ ہمّت‘ جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا۔ اور اس کی وجہ سے مَیں اُن کی عزّت کرتا ہوں۔‘‘ (صفحہ۴۲)

اخبار ’’انقلاب‘‘ اور کشمیر کمیٹی

اِس سلسلے میں اخبار انقلابؔ کی رائے کئی لحاظ سے نہایت وقیع اور مستند سمجھی جا سکتی ہے خصوصاً اس لئے کہ خود مفکّرِ احرار نے ’’تاریخِ احرار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’خدا جزائے خیر دے ’’انقلاب‘‘ کو کہ اُس نے دیانتداری کے سارے تقاضوں کو پُورا کیا اور ساری تحریک میں اپنے انداز اور پالیسی کے پیشِ نظر ایک ہی روش پر قائم رہا۔‘‘ (تاریخِ ؔاحرار صفحہ ۸۸-۸۷)
اخبار انقلابؔ نے تحریکِ آزادی کے دَوران کشمیر کمیٹی کی سنہری خدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا:۔
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مسلمانانِ کشمیر کے شہداء‘ پسماندوں اور زخمیوں کی امداد اور ماخوذینِ بَلا کی قانونی اعانت میں جس قابلِ تعریف سرگرمی‘ محنت اور ایثار کا ثبوت دیا ہے اُس کو مسلمانانِ کشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔اب تک اس کمیٹی کے بے شمار کارکن اندرونِ کشمیر مختلف خدمات میں مصروف ہیں اور ہزارہا روپیہ مظلومین و ماخوذین کی امداد میں صرف کر رہے ہیں․․․․ کشمیر کمیٹی کے مختلف شعبے ہیں۔ بہت سا روپیہ پروپیگنڈا پر صرف ہوتا ہے اور بہت سا روپیہ امدادِ مظلومین اور اعانتِ ماخوذین اور مصارفِ مقدّمات اور قیامِ دفاتر کے سلسلہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے تقریباً تمام قابلِ ذکر مقامات پر کشمیر کمیٹی کے کارکن مصروفِ عمل ہیں۔‘‘(انقلاب ۱۱؍مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ۴)
نیز لکھا:۔
’’جب سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے اُس نے نہایت اخلاق سے مسلمانانِ کشمیر کی ہر ممکن طریق سے امداد کی ہے اور سینکڑوں تباہ حال مسلمانوں کو ہلاکت سے بچا لیا ہے۔ اگر اس کے راستے میں بعض لوگ رُکاوٹ نہ ڈالتے تو مسلمانانِ کشمیر نے اپنے حقوق حاصل کر لئے ہوتے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی کو مالی امداد دینے میں بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ حقیقی اور ٹھوس کام کشمیر کمیٹی ہی کر رہی ہے۔ چنانچہ اِس بات کے ثبوت میں ہم اِس وقت مسلمانانِ راجوری کی ایک مراسلت درج کرتے ہیں جس میں انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کاشکریہ ادا کیا ہے۔ اِس قسم کے بیسیوں مراسلات ہم کو کشمیر کے مختلف سے موصول ہو چکے ہیں جن میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کا سچّے دل سے اعتراف کیا گیا ہے۔ مسلمانانِ راجوری کا مراسلہ یہ ہے:۔
’’ہم مسلمانانِ راجوری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی ایک کمیٹی ہے جو ہر گلی کوچہ میں غریب اور ناتواں مسلمانوں کی خبر لے رہی ہے۔ ہم ایک ایسے ویران جنگل کے رہنے والے ہیں جن کا خبر گیراں تحت الثریٰ سے لَوح محفوظ تک سوائے ذاتِ باری کے اَور کوئی نہیں مگر اِ س کمیٹی نے ہماری دستگیری میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور ہم پر بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ کمیٹی کی نظر نہایت باریک ہے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے زمین و آسمان کے خالق اور دنیا و مافیہا کے ناظم! ہماری اِس ممّد و معاون کمیٹی کو جو آج آڑے وقت میں ہمارے کام آ رہی ہے مضبوط رکھ خصوصاً صدر صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے احسانات تمام فرقوں کے مسلمان کسی صُورت میں بھی بُھول نہیں سکتے۔ ہمارے بہت سے مصائب کا اِس کمیٹی کی مہربانی سے کچھ نہ کچھ ازالہ ہو گیا ہے اور ابھی بہت ہی مشکلات موجو د ہیں۔ اگر یہ کمیٹی اپنی پوری کوشِش جاری رکھنے میں سرگرم رہی تو انشاء اﷲ ایک نہ ایک دن اِن مصائب سے ہم نجات حاصل کر لیں گے۔‘‘ (انقلابؔ ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء)
اِسی طرح اِنقلابؔ نے۲۳؍جولائی ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نیک باشندگانِ کشمیر کی جو بے لَوث خدمت گزشتہ ایک سال کی مدّت میں انجام دی ہے اس کے شکریہ سے مسلمان کبھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اگر اس کمیٹی کا کام نہایت قابل‘ تجربہ کار‘ ہوشمند عہدہ داروں کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو خدا جانے ہمارے مظلوم کشمیری بھائیوں کو کس قدر شدید تکالیف سے دو چار ہونا پڑتا۔ اِس کمیٹی نے اپنے وسیع ذرائع و وسائل سے کام لے کر مسلمانانِ کشمیر کے مطالبات کی حمایت میں عالمگیر پروپیگنڈا کیاجس نے انگلستان کے جرائد و عمائد بلکہ اربابِ حکومت تک متأثر ہوئے اور ہر شخص پر اِن مطالبات کا حق بجانب ہونا ثابت ہو گیا۔ اِس کے علاوہ کشمیر کمیٹی نے سب سے زیادہ اہم خدمات خود کشمیر میں انجام دیں۔ شہداء و مجروحین کے متعلّقین کی مالی امداد کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کا انتظام کیا۔ کشمیر کے گوشے گوشے میں کارکنوں کی تنظیم اور ماخوذین کی قانونی امداد کیلئے نہایت قابل اور ایثار پیشہ اور بیرسٹر بھیجے جنہوں نے بلا معاوضہ تمام مقدّمات کی پَیروی کی اور بے شمار مظلوموں کو ظلم و ستم کے نیچے سے چُھڑا دیا۔‘‘

مخالفت برائے مخالفت

حضرت امام جماعت احمدیہ نے کشمیر کمیٹی سے کیوں استعفاء دیا اس کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے مدیر انقلابؔ مولانا عبدالمجید سالکؔ لکھتے ہیں:۔
’’جب احرار نے احمدیوں کے خلاف بلا ضرورت ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور کشمیر کی تحریک میں متخانف عناصر کی ہم مقصدی وہم کاری کی وجہ سے جو قوّت پیدا ہوئی تھی اس میں رخنے پڑ گئے تو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفاء دے دیا اور ڈاکٹر اقبال اس کے صدر مقرر ہوئے کمیٹی کے بعض ممبروں اور کارکنوں نے احمدیوں کی مخالفت محض اس لئے شروع کر دی کہ وہ احمدی ہیں۔ یہ صورتِ حال مقاصد کشمیر کے اعتبار سے سخت نقصان دِ ہ تھی۔ چنانچہ ہم نے کشمیر کمیٹی کے ساتھ ہی ساتھ ایک کشمیر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس میں سالکؔ‘ مہرؔ‘ سیّد حبیب‘منشی محمد الدین فوقؔ (مشہور کشمیری مؤرخ) مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کے احمدی اور غیر احمدی رفقاء سب شامل تھے۔ ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مبادا کشمیر کمیٹی آگے چل کر احرار ہی کی ایک شاخ بن جائے اور وہ متانت و سنجیدگی رفو چکر ہو جائے جس سے ہم اب تک کشمیر میں کام لیتے رہے ہیں بہرحال تھوڑا بہت کام ہوتا رہا لیکن کچھ مدّت کے بعد نہ کمیٹی رہی نہ ایسوسی ایشن۔‘‘ (سرگزشتؔ صفحہ۳۴۲)

تصویر کا دُوسرا رُخ

تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نسبت خالص کانگرسی نقطۂ نگاہ

یہ ہیں آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اُن کے خلاف متحارب طاقتوں کے صحیح خدو خال جن کی تفصیلات پر مستند اور محفوظ ریکارڈ اور مسلم پریس میں شائع شدہ مضامین کی روشنی میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھا جا سکتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر احباب جب تحریکِ آزادیٔ کشمیر پر خامہ فرسائی کرتے اور گوہر افشانی فرماتے ہوئے ۱۹۳۱ء کے انقلابی دَور پر آتے ہیں تو اُن کا قلم شاید غیر شعوری طور پر جادۂ صواب سے ہٹ کر اُس راہ پر چل پڑتا ہے جس کی نسبت جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا یہ فتویٰ ہے کہ:۔
’’احیاءِ حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض سے کام لیوے۔ اگر ناچار ہو تو کِذب صریح سے بولے۔‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل صفحہ۴۶۰)
’’احیاءِ حق‘‘کا پرچم لہرانے والے محقّقین و ’’مؤرخین‘‘ جونہی اِس منزل پر آ پہنچتے ہیں تو وہ بیچارے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اِ س دَورِ تاریخ کا مطالعہ اصلی واقعات و حقائق کی بجائے خالصۃً کانگریسی نقطۂ نگاہ سے فرمائیں اور پھر اس کے مطابق اپنے قیاسات‘ تخیّلات اور مفروضات کی پُوری عمازت اُستوار کر کے اُس پر تاریخ آزادیٔ کشمیر کا سائن بورڈآویزاں کر دیں۔ 
تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نسبت کانگرسی نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ:۔
(۱)کشمیر کا ڈوگرہ راج ۱۹۳۱ء کی تحریک کے آغا ز ہی میں مسلمانوں کو حقوق دینے کے لئے بے قرار تھا۔ 
(۲)اصل شرارت انگریزی حکومت کی کھڑی کی ہوئی تھی۔ انگریز دراصل چاہتا تھا کہ کانگرس کے (نام نہاد) ہندو مُسلم اتّحاد کو ضرب کاری لگائے اور گول میز کانفرس کے دَوران گاندھی جی کے مشن کو ناکام بنائے۔
(۳)اس مقصد کی تکمیل کے لئے انگریز ’’ کشمیر کے مسلمان کو استعمال کے لئے چُن لیا۔‘‘ بالفاظِ دیگر اُس زمانہ میں جمّوں‘ و کشمیر کے تمام مسلمان لیڈر انگریز ہی کے اشارے ہر کام کر رہے تھے اور دانستہ یا نادانستہ برطانوی سازش کی تکمیل میں مصروف عمل تھے۔ 
(۴)اِس سلسلہ میں جو لوگ شملہ میں کشمیر کمیٹی کی بنیاد کے لئے جمع ہوئے وہ سب ’’سرکاری مسلمان‘‘ تھے اس موقع پر ’’گورنمنٹ آف انڈیا نے کوشش کی کہ وہ اپنے فرستادہ لوگوں کی معرفت کام لے۔ چنانچہ ان عناصر نے علّامہ اقبالؔ کو لیپا پوتی کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔‘‘ (سوانح سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری صفحہ ۸۸ مؤلفہ شورشؔ کاشمیری)
ع قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا

’’رئیس الاحرار‘‘ اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا پس منظر

آل انڈیا نیشنل کانگریس کے اس زاویۂ نگاہ کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کانگرس کے مشہور خاندانی کارکن رئیس الاحرار مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کی خود نوشت یا دداشت بآسانی ہو سکتی ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ:۔
’’۱۹۳۱ء جب گانگرس اور گورنمنٹ کے درمیان گاندھی اِردن پیکٹ ہؤا تو یکایک کشمیر میں اِس طرح تحریکِ کشمیر کا آغاز ہؤاکہ جمّوں میں کسی ہندو سنیاسی نے قرآن شریف کی توہین کی ہے 1؂ جبکہ ایک مسلمان سپاہی پولیس لائن میں قرآن شریف پڑھ رہا تھا۔ اِس واقعہ کا مشہور ہونا تھا کہ تمام کشمیر میں مسلمانوں کے جزبات قابو سے باہر ہو گئے اور حکومتِ کشمیر کو دو ۲ بار گولی چلانی پڑی۔ جب حالات بہت نازک ہو گئے تو مہاراجہ کشمیر نے مولانا ابو الکلام آزادؔ کو بُلانے سے یہ سمجھا گیا کہ مہاراجہ کا ذہن غیر فرقہ وارانہ ہے۔ مولانا سے مہاراجہ نے یہ بھی کہا کہ مَیں مسلمان عوام کے معقول مطالبات پُورنے کرنا چاہتا ہوں جن کی آبادی نوّے فیصدی ہے لیکن وہ دفتری حکومت کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی ملاقات کے باوجود کشمیری مسلمان عوام مطمئن نہ ہوئے۔ ہندو مسلم فرقہ واریت 2؂ شباب پر آ گئی۔شروع جولائی میں چوہدری افضل حق مرحوم جو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے جیل سے رہا ہو کر آئے تھے۔ انہوں نے احرار راہنماؤں سے کہا کہ کشمیر کا فتنہ انگریز نے شروع کرایا ہے تاکہ ہندو مسلم اتحاد کی موجودہ فضا برباد ہو جائے۔ انگریز نے کشمیر کے مُسلمانوں کو استعمال کے لئے چُن لیا ہے۔ تمام ساتھیوں نے چوہدری صاحب کی یہ بات سُن کر ٹال دی۔ انگریز نے کشمیر کے ابتدائی ہنگامہ سے فائدہ اُٹھا کر اپنے بااعتماد آدمی ہری کرشن کول کو کشمیر کا وزیراعظم بنا دیا۔ دوسری طرف لاہوری قادیانی مرزائیوں نے کشمیری مسلمانوں کی ہمدردی میں سارے ہندوستا ن میں زہر آلود پروپیگنڈا شروع کر دیا اور کشمیر کے نئے لیڈر سامنے آ گئے۔ جن کی رہنمائی شیخ عبد اﷲ 3؂ کر رہے تھے۔ ۲۴؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں سر فضل حسین 4؂ کے اشارے سے سرکاری 5؂ مسلمانوں کا اجتماع ہؤا جس میں کشمیر کے دس نئے لیڈربھی شریک ہوئے۔ اِس جلسہ میں مرزا بشیر الدین محمودخلیفۂ قادیان کو کشمیر کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ مسٹر عبدالرحیم دردؔ کو جو خلیفہ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے کشمیر کمیٹی کا جنرل سیکرٹری ۴؂بنایا گیا۔ شملے سے ہی مرزا محمود نے اعلان کیا کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے مجھے اپنا رہنما تسلیم کر لیا ہے۔ اس لئے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ۱۴؍اگست۱۹۳۱ء کو تمام ہندوستان میں ’’یومِ کشمیر‘‘ منایا جائے 6؂ مسٹر عبدالرحیم دردؔ نے ہندوستان کے تمام مشہور علماء‘ فضلاء‘ وکلاء‘ اور ڈاکٹروں کو خطوط لکھے کہ آپ کو کشمیر کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے۔ ہندوستان کے تما م لوگ حقیقتِ حال سے ناواقف تھے۔ کسی نے کشمیر کمیٹی کی سیاسی سازش کی طرف توجہ نہ کی سوائے مجلس احرار کے راہنماؤں کے کسی نے بھی عبدالرحیم دردؔپرائیویت سیکرٹری مرزا محمود کو انکار کا خط ملا۔ 
۱۴؍اگست ۱۹۳۱ء کو گاندھی جی7؂ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لندن روانہ ہو گئے۔ مَیں اُسی وقت کشمیر کمیٹی کا وجود عمل میں آیا۔ ٹھیک گاندھی جی کی روانگی کے وقت ۱۴؍اگست۱۹۳۱ء کو کشمیر ڈے منانے کا اعلان کیا گیا تاکہ ہندو مسلم اتحاد پر گاندھی جی کے لندن پہنچنے سے پہلے ہی ضرب لگائی جائے۔ مَیں‘ مولانا سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری اور شیخ حسام الدین بمبئی میں تھے۔ ہم نے کانگرسی لیڈروں سے خاص کر مولانا ابوالکلام آزاد سے کشمیر کے مسئلے میں بات کی۔ مولانا نے فرمایا کہ مہاراجہ کشمیر خود چاہتا ہے کہ کشمیر میں کچھ ہو‘ تا کہ مسلمانوں کے مطالبوں کو پُورا کیا جا سکے۔ ہم نے موجودہ کشمیر کمیٹی کی سیاسی سازش‘ ڈاکٹر اقبال کی کشمیر کمیٹی میں شمولیت‘ سرفضل حسین کی سرپرستی اور انگریزی حکومت کی بدنیّتی‘ فرقہ وارانہ فسادات اور ہندو مسلمان اتحاد کے بارے میں مولانا آزاد سے تفصیلی گفتگو کی تو مولانا آزاد نے سب باتیں سُن کر کہا کہ احرار کو فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے مسئلہ کشمیر کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہئیے اور مہاراجہ کشمیر کے سامنے ریاست کی ترقی کے لئے جمہوری مطالبات رکھے جائیں ۔ میرا یقین ہے کہ مہاراجہ صاحب تھوڑی سی جدّوجہد کے بعد جمہوری مطالبات کو قبول کر لیں گے احرار رہنماؤں نے محسوس کیا کہ کشمیر کمیٹی کی وجہ سے تمام مسلمان مرزائی او قادیانی ہو جائیں گے۔ ہندو مسلمان اتحاد کو سخت دھکا لگے گا۔ مولانا مظہر علی نے مسئلہ کشمیر میں احرار کے شامل ہونے اعلان کر دیا۔ مولانا مظہر علی کو تحریک کشمیر کا ڈکٹیٹر بنا دیا گیا۔ مولانا مظہر علی صاحب نے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ ہم سب کو مل کر کشمیر کا سیاسی مسئلہ حل کرنا چاہئیے ورنہ کمشیر کمیٹی ملک کی سیاسی صورتحال خطرناک بنا دے گی۔ مہاراجہ صاحب کو لکھا گیا کہ ہم آپ کے خلاف نہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر عوام اور آپ کے تعلقات خراب ہوں ہم آپ کو گدّی سے اُتارنے کے حق میں نہیں ہیں8؂ کیونکہ مرزائیوں کی کشمیر کمیٹی انگریز کے اشارے پر آپ کو گدّی سے اُتارنے کے لئے زمین میں ہموار کر رہی ہے۔ احرار کا مقصد کشمیر میں ریاست کے باشندوں کو ایسے حقوق دلانا ہے جس سے کشمیر کے باشندے اقتصادی‘ تعلیمی ترقی کر سکیں مگر افسوس کشمیر کے اس پس منظر کو اُس وقت کوئی نہ سمجھتا تھا‘‘ (’’رئیس الاحرار اور ہندوستان کی جنگِ آزادی ‘‘ مرتبہ عزیزالرحمان جامی لدھیانوی صفحہ ۱۵۶ تا۱۵۹)

’’کانگریسی مؤرخ‘‘ کی فسانہ طرازی

قارئین! ’’ کانگریسی مؤرخ‘‘ کی فسانہ طرازی ملاحظہ فرمائیں اور غور کریں کہ کانگرسی مولانا کیا فرما رہے ہیں آپ کے ’’ارشاد گرامی‘‘ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۹۳۱ء کی تحریک آزادی کے دوران برطانوی ہندو اور ریاست جمّوں کشمیر تمام مشہور مسلمان لیڈر انگریز کے ہاتھ پر بِک گئے تھے اور اُس مجلس کے سوا جس نے ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہندوؤں کی سیاسی جماعت آل انڈیا نیشنل کانگرس کے اجلاس لاہور میں خود کانگرس ہی کے سٹیج پر جنم لیا تھا اس سازش سے کوئی نہ بچ سکا۔

قدرت کاانتقام 

قدرت کا انتقام دیکھئے احراری لیڈر اگرچہ کانگریسی لیڈروں کے مشورہ سے اِس تحریک میں شامل ہوئے تھے مگر جونہی گاندھی جی کو اِس کی خبر پہنچی اُنہوں نے جھٹ یہ اعلان کر دیا کہ یہ لوگ انگریز کے اشاروں پر ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں چنانچہ مفکّر احرار چوہدری افضل حق صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔
’’مہاتما گاندھی بڑے دھرتے کا آدمی ہے جس کے برخلاف ہو جائے اس کو خاک میں ملا کر چھوڑتا ہے ․․․․․ لندن میں آپ نے سُنا کہ احرار کشمیر پر چڑھ دوڑے۔ رئیس ہندو اور احرار مسلمان تھے ہماری تحریک کوآسانی سے فرقہ وارانہ رنگ دیا جا سکتا تھا مگر اس مردِ دانا نے اِس بات سے پہلو بچایا لیکن اعلان کیا اور تحریک انگریز کی تقویت کے لئے شروع کی گئی ہے۔ اُس زمانہ میں اس داؤں سے کوئی بچتا تھا۔ اِس داؤں کا گہاؤ گہرا ہؤا۔ سب ہندو مسلمانوں کا کانگریسی شعبے کی نظر سے دیکھنے لگے۔ جو تھوڑے بہت کانگریسی ہم میں شامل میں تھے اُداس ہو کر اُباسیاں لینے لگے9؂․․․․․․․ کانگریسی مسلمان کا ذہن بے حد متشکک اور متشدد ہے ۱۹۳۰ء سے پہلے تو لوگوں کو سی۔ آئی۔ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا۔ کانگریسی مسلمان اپنے دعویٰ اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بدعقل اور دوسروں کا آلۂ کار سمجھتے ہیں․․․․․ پھر ان کانگریسی احباب نے اَور غضب ڈھایا اس دروغ بے فروغ کو دنیا میں اُچھالا کہ احرار نے گلگت انگریزوں کو دُلایا۔ کئی سادہ مزاج اس سفید جھوٹ کو سچ سمجھ کرپیٹ پکڑ آئے کہ بھیا احرار والو! کہیں یہ غضب نہ کرنا کہ گلگت انگریزوں کو دلوا دو مَیں نے کہا کہ حضرت! یہ گلگت ہے کہاں؟ یوے کہ کشمیر میں ہی ہو گا۔ تو پھر مَیں نے کہا کہ بتائیے کہ کشمیر آزاد حکومت ہے؟ بولے: نہیں!انگریزوں کے ماتحت ہے۔ تو مَیں نے کہا کہ جب ساری ریاست ہی انگریزوں کے ماتحت ہے تو اس کا حصہ بھی انگریزوں کے ماتحت ہے اس کے لینے دینے کا سوال کیاہے۔ جُھوٹی خبروں کے احرار اور تکرار کوبھی پروپینگنڈے کے فن10؂ کا اہم جزُو قیاس کیا جاتا ہے۔ انسان کچھ وقت کے لئے دروغ بے فروغ کو بھی سچّائی جان سمجھنے لگ جاتا ہے بعض وقت تو دوسروں کے کہے بے وقوف بن کر اپنی پگڑی میں ہاتھی ٹٹولنے لگ جاتا ہے کیونکہ معتبر کہہ دیتا ہے کہ بھلے مانس تیری پگڑی میں ہاتھی ہے۔ کانگریسی مسلمانوں نے بھی بعض کے کان میں یہی پھونک دیا کہ بھیّا مسلمانو! احرار انگریز کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ریاست کے گلکت دلا رہے ہیں․․․․ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ اُس گروہ کا بھی کام تھاجو خلافت اور کانگرس میں ہمارا سردار اور طبقۂ اولیٰ تھا۔‘‘ (تاریخِ احرار صفحہ۶۰ تا ۶۲)

تاریخِ پاکستان اور کانگرسی مسلمان

حق یہ ہے کہ اگر تحریکِ آزادیٔ کشمیر کانگریس کی امامت میں مرتّب کرنا ہی صحیح نگاری ہے تو آزادیٔ کشمیر کی تاریخ ہی کا نہیں بلکہ مُسلم لیگ اور پاکستان کی تاریخ کا بھی خدا حافظ ہے۔ 
آئیے بے شمار مثالوں میں سے بطور نمونہ رئیس الاحرار مولوی حبیب الرحمن صاحب کی یہ تقریر پڑھیئے:۔
’’مُسلم لیگ کے ممبر جو تم کو اسلام کے نام پر کانگرس سے الگ ہونے کو کہتے ہیں یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے پچھلی جنگ میں تُم کو فوج بھرتی کرا کر تُرکوں سے لڑا دیا تھا۔ اور تمہارے ہاتھوں میں عراق کو‘ بغداد کو‘ فلسطین کو ترکوں سے لے کر انگریزی جھنڈے کے نیچے کر دیا۔ اس لئے یہ مسلمان جھوٹے ہیں۔ تم اِن کی امامت کا اعتبار نہ کرو۔ یہ اسلام کے حقیقی دشمن ہیں۔ یہ کانگرس سے اپنے اغراض کے لئے تُم کو جدا کرنا چاہتے ہیں۔ کہ اسلام کے لئے۔ تم یہ کہتے ہو کہ مجھے کانگریس نے روپے سے خرید لیا ہے سب سے زیادہ روپیہ انگریز کے پاس ہے اور اس کے بعد مسلم لیگ کے صدر مسٹر محمد علی جناح اور راجہ محمود آباد کے پاس۔ ‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۲۰۲)
مولوی صاحب موصوف نے ایک بار قائداعظم محمد علی جناح سے کہا کہ:۔
’’آپ کے ٹوڈی مسلمانوں کے حلقہ سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں اور انگریز جب چاہتا ہے اپنے مفاد کے لئے ٹوڈی مسلمانوں کو آپ کے ساتھ کر دیتا ہے۔’’ (رئیس الاحرار صفحہ ۹۳)
مولوی ظفر علی صاحب کا بیان ہے کہ:۔
’’میرٹھ میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی صدرِ مجلس احرار اِس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے‘ غصّہ میں آ کر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ دس ہزار جیناؔ اور شوکؔ اور ظفرؔ جواہر لال نہرو کی جُوتی کی نوک پر قربان کئے جا سکتے ہیں۔‘‘ (چمنستان صفحہ ۱۹۵)
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کانگریس کے معتبر راویوں کی معلومات یہ ہیں:۔
’’بلا شُبہ پاکستان کا تخیّل ’’سیاسی الہام‘‘ مگر ’’ربانی الہام‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’قصرِ بکنگھم کا الہام‘‘ ہے۔ جو ڈاکٹر اقبال کو بھی ہؤا تھا․․․․․․․․․ جب وہ لندن سے قریب ہی زمانہ میں واپس تشریف لائے تھے۔ اور وہ یہ الہام دوبارہ اس وقت پھر ہؤا جب کہ مسلم لیگ کا وفد جو زیرِ سرکردگی چوہدری خلیق الزمان مصر اور لندن کا حج کرنے گیا تھا۔ اُس نے ہندوستان آ کر بمبئی اُترنے کے ساتھ ہی پہلے انٹرویو میں اِس چیز کو ظاہر کر دیا تھا اور جس کو عرصہ کے بعد مسٹر جناح نے اپنایا اور لاہور میں پیش کرنے کی اجازت دی۔‘‘
(’’تحریکؔ پاکستان پر ایک نظر‘‘ از حضرت علّامہ الحاج مولانا محمد حفیظ الرحمن صاحب سیوہاروی ناظمِ اعلیٰ مرکزیہ جمیعۃ علماء ہند‘‘)

پنڈت موتی لال نہرو ’’آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس‘‘ کی صدارت پر 

بالآخر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ وہی رئیس الاحرار جنہوں نے ۱۹۳۱ء میں خطّۂ کشمیر پر ’’مرزائیت‘‘ کے چھا جانے کے خوف سے حضرت امام جماعت احمدیّہ کے صدر کشمیر کمیٹی منتخب کئے جانے پر صدائے احتجاج بلند کی۔ ۱۹۲۸ء میں موتی لال نہرو کو آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس کی مسندِ صدارت پر بٹھا چکے تھے۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کی سوانح عمری میں لکھا ہے:۔
’’۱۹۲۸ء میں آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس لدھیانہ میں ہوئی۔ اُس کی صدارت کے لئے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے خواجہ محمد یوسف صاحب کے ذریعے پنڈت موتی لعل نہرو کو کشمیر کانفرنس کا صدر بنایا۔ کانفر س میں بڑے بڑے مسلمان کشمیری تاجروں نے پنڈت موتی لعل کی گاڑی اپنے ہاتھ سے کھینچی۔ ایک لاکھ ہندو اور مسلمان نے اس کانفرس میں شرکت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ نہرو رپورٹ کی وجہ سے پنجاب میں پنڈت موتی لعل نہرو کی ہندوؤں‘ سکّھوں اور مسلمانوں میں سخت مخالفت ہو رہی تھی۔ لیکن رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اِس تدبیرِ سیاست نے ہوا کا رُخ پلٹ دیا۔ پنجاب کے عام ہندو مسلمان اور سکّھوں نے پنڈت جی کی تعریف کرنا شروع کی۔ پنجاب کے اخبارات کا رُخ بھی بدل گیا۔ پنڈت موتی لعل مولانا کی اِس تدبیرِ سیاست سے بہت خوش ہوئے اور جب تک زندہ رہے برابر پنڈت جی نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اپنے دوستوں اور خاص مشیروں کی فہرست میں رکھا۔‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۷۵-۷۴)
اِس سنسنی خیز انکشاف کے بعد بلا تامّل تسلیم کر لینا پڑتا ہے کہ اگر کشمیر کمیٹی کی صدارت جماعت کے امام ہمام کی بجائے موتی لعل نہرو کے جانشینوں میں سے کسی کو سونپ دی جاتی ہے تو نہ اس کو انگریز کی بنائی ہوئی کمیٹی کہا جاتا نہ اُس کے بانیوں کو ’’سرکاری مسلمانوں‘‘ کے خطاب سے نوازا جاتا اور نہ یہ سوال اُٹھائے جانے کی ضرورت پیش آتی کہ ہندو صدارت سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو گیا ہے کیونکہ ’’رئیس الاحرار‘‘ اور ’’امیر شریعت احرار‘‘ دونوں ہی مسلمانوں کے پُورے زور سے یہ یقین دلا چکے تھے کہ:۔
’’تم ہندوؤں سے ڈرتے ہو کہ ہمیں کھا جائیں گے۔ ارے! جو مُرغے کی ایک ٹانگ نہیں کھا سکتا وہ تمہیں کیا کھائے گا۔ ڈرنا ہندوؤں کو چاہیئے کہ تم سے کمزور ہیں۔ وہ صرف چھ صوبوں میں ہیں۔ تمام سرحدات پر تم رہتے ہو․․․․․ بھائی پر مانند اگر بُزدلی کی بات کرنا ہے تو وہ سچّا ہے۔‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۲۰۵)
’’سبحان اﷲ! کہتے ہیں ہندو ہم کو کھا جائے گا۔ مسلمان پُورا اُونٹ کھا جاتا ہے پُوری بھینس کھا جاتا ہے۔ اُس کو ہندو کیسے کھا سکتا ہے جو چڑیا بھی نہیں کھا سکتا۔‘‘ (تقریر سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری بمقام ایبٹ آباد ضلع ہزارہ۔ رسالہ ترجمانؔ اسلام لاہور۲۲؍ ستمبر۱۹۶۱ء صفحہ ۱۲
’’مُرغے کی ایک ٹانگ‘‘ یا ’’ چڑیا تک نہ کھا سکنے والا‘‘ اور ’’اہنسا کا پُجاری‘‘ آج کس طرھ کروڑوں دل جیتے جاگتے مسلمانوں کو ہڑپ کرنے کی فکر میں ہے، اِس کے کے متعلق اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں 
ع ناطقہ سر بگربیاں ہے اسے کیا کہئیے!

****************************
1؎ تحریک آزادی ڈوگرہ راج کے سالہاسال کے بے پناہ مظالم کا ردّعمل تھا اور مسلمان اپنے مطالبات برسوں سے کرتے آ رہے تھے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی تھی۔ مندرجہ بالا واقعہ ۵؍جون ۱۹۳۱ء کا ہے جو غلط رنگ میں لکھا گیا ہے۔ دراصل توہینِ قرآن کا ارتکاب کسی سنیاسی نے نہیں کیا ایک ہندو سارجنٹ نے کیا تھا مگر تحریک آزادی تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے نئے دَور کا آغاز اس سے چند ہفتہ قبل ۲۹؍ اپریل ۱۹۳۱ء کو ہؤا جبکہ جمّوں میں ایک آریہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس نے ایک مسلمان خطیب کو خطبۂ عید سے روک دیا۔ 
2؎ اس کے برعکس مجلس احرار نے ۱۵؍اگست ۱۹۳۱ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ ’’مجلسِ احرار کشمیر ایجی ٹیشن کو ہندو مسلم مسئلہ تصور نہیں کرتی۔‘‘ (’’ رئیسؔ الاحرار‘‘ صفحہ ۱۶۰)
3؎ بقول ’’رئیس الاحرار‘‘ ’’شیخ عبداللہ کو لاہور مرزائیوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں پوری مدد دی۔۔۔۔ اُنہیں آئندہ کشمیر میں اپنے مقاصد مین استعمال کرنے کے لئے اُن کا تعلق کشمیری عوام میں کشمیری راہنما کی حیثیت سے کرایا‘‘
4؎ ’’میاں صاحب سرفضل حسین ہندوئوں کی نظر میں اورنگزیب کا بروز تھے۔۔۔۔۔میاں صاحب کئی انگریز اعلیٰ افسروں کو ذلیل کر کے نکال کر چکے تھے جس کو ذرا سرکش پاتے تھے اُس کی سرکوبی پر آمادہ ہو جاتے تھے میاں صاحب کی یہ ادا انگریز کو نہ بہاتی تھی (تاریخ ؔاحرار صفحہ ۱۸۴-۱۸۵)
5؎ اِن ’’سرکاری مسلمانوں‘‘ کے اسماء گرامی اِس مقالہ کے شروع میں دئے جا چکے ہیں۔ انہیں مقتدر شخصیتوں کی نسبت چوہدری افضل حق لکھتے ہیں:۔ 
’’کچھ عافیت گوش مسلمان شملے کی بلندیوں سے بادل کی طرح ۔۔۔۔ اِن خانہ بربادرئوسا اور امراء نے غضب یہ بڑھایا کہ مرزابشیر محمود قادیانی کو اپنا قائد تسلیم کر لیا۔ جمیعۃ العلماء نے یہ کیا کہ اس بشیر کمیٹی سے تعاون کا اعلان کر دیا‘‘ (تاریخ احرار صفحہ۳۷)
6؎ واقعہ یہ ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں موجود مسلم لیڈروں نے ہی یہ متفقّہ فیصلہ کیا تھا کہ ۱۴؍ اگست کو یومِ کشمیر منایا جائے لہذا مزعومہ اعلان جس کی طر اُوپر اشارہ کیا گیا ہے ایک مَن گھڑت بات کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احرار نے یورمِ کشمیر بار بار منایا (تاریخ احرار صفحہ ۱۴)
7؎ جنہیں زعمائے احرار اپنا ’’گورُو ‘‘سمجھتے تھے۔ (تاریخ احرار صفحۃ ۳۷)
8؎ سی لئے تو احراری نمائندے ریاست کے شاہی مہمان کی حیثیت سے سرینگر میں تشریف فرما رہے ہیں۔ (تاریخ احرار صفحہ ۴۶)
9؎ مفکّرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب نے اپنے احراری سُورمائوںکی شجاعت اور بہادری کا نقشہ بایں الفاظ میں کھینچا ہے۔‘‘ (تاریخِؔ احرار صفحہ ۱۱۱)
10؎ کتاب ’’سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘ کے احراری مصنّف لکھتے ہیں:۔
احرار کسی بھی تخلیق فکر کے مظہر نہ تھے مگر ایجی ٹیشن اور پروپیگنڈا کے فن میں بے مثال تھے۔‘‘ 
(’’سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘ صفحہ ۲۰۸)
****************************
( ماہنامہ الفرقان ، مارچ 1968 )
مکمل تحریر >>

Wednesday, 4 January 2017

مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کا ادبی سرقہ



مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے اپنی کتا ب ''ذکر جمیل'' جو کہ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی سیرت کے بارے میں ہے ، ایک فارسی شعر کو علامہ اقبال کی طرف منسوب کر کے لکھا ہے لیکن اصل میں وہ علامہ اقبال کا لکھا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود اور امام مھدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی کتاب براھین احمدیہ سے لیا گیا ہے ، وہ فارسی شعر یہ ہے 'مصطفیٰ آئینۂ روئے خداست , منعکس دروے ہماں خوئے خداست' اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ ' مصطفیٰ تو خدا کے چہرہ کے آئینہ ہیں ، ان میں خدا کی صفات منعکس ہیں ' یہ ہے وہ خوبصورت کلام جو عشق رسول کی ایک بہترین مثال ہے ، لیکن افسوس کہ مولوی صاحب نے صرف دنیا سے خوف کر کے اس شعر کے لکھنے والے کا نام نہیں لیا اور اقبال کا نام لکھ کر سیرت نبوی کے نیک کام میں بھی جھوٹ سے کام لیا ۔




مکمل تحریر >>

فارسی الہام کا حوالہ اور سکین




بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے فرمایا ہے ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۵۹۸) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں الہام '' ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم '' ہوا۔ اس کا حوالہ دو؟یہ الہام کتاب کوثر النبی ؐباب الفاء میں ہے ، حوالہ پیش خدمت ہے ۔







مکمل تحریر >>

محمدی بیگم کے بیٹے کا ایک اہم تاریخی مضمون

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 
احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ! 
پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ وﷲ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤکے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؐ اپنے ہر دعویٰ میں صادق اور مامور من اﷲ ہیں۔ اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔ آپ کی تمام یپشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں۔ یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔ حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں۔
اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی اصلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اﷲ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے، جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسیٰؑ کی قوم کے حالات وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمْ الرِّجْزُ(اعراف :۱۳۵)  سے ظاہر ہے۔ اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحبؐ کی قوم او ررشتہ داروں نے گستاخی کی، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے، اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفتِ غفور الرحیم کے ماتحت قہر کو رحم سے بدل دیا۔
چونکہ اس پیشگوئی کا تعلق میرے والد صاحب ( مرزا سلطان محمد بیگ صاحب آف پٹی ) کے ساتھ بھی تھا اس لیے وہ بھی خوف میں مبتلا ہوئے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے  مرزا صاحب سے حسن عقیدت کے متعلق مختلف اوقات پر اپنا اظہار خیال بذریعہ خطوط فرمایا نہ صرف خیال ظاہر فرما دیا بلکہ معاندین سلسلہ کے اکسانے پر انہیں صاف جواب دے دیا۔ مثلاً ہندوئوں عیسائیوں اور مسلمانوں نے ہزاروں روپے کا لالچ دے کر اس بات کی کوشش کی۔ کہ آپ اس امر کا اعلان کر دیں کہ وہ پیشگوئی کی وجہ سے نہیں ڈرے لیکن آپ نے ہر گز ان کی بات نہ مانی۔
احمدیت کے متعلق ان کی حسن عقیدت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کے والد ابو طالب بعض دینوی مشکلات کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ لیکن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ، کو بیعت کر لینے سے نہیں روکا تھا۔ اسی طرح جب میں بھی خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوا تو آپ بجائے کسی قسم کی طعن و تشنیع کرنے کے خوش ہوئے۔ اگرچہ میرے والد صاحب کا تا حال احمدیت میں داخل نہ ہونا پیشگوئی کے پورے ہونے میں کسی طرح بھی مانع نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم خدا تعالیٰ نے یہ روک بھی دور کر دی۔ اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی فالحمدللہ علی ذلک ۔ 
میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔
میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہی درست فرمایا ہے۔ ؂
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے 
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار 
اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا 
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار 
خاکسار مرزا محمد اسحٰق بیگ، پٹی ضلع لاہور۔ حال وارد چک نمبر ۱۶۵۔ ۲ بی ‘‘

مکمل تحریر >>

Sunday, 11 December 2016

علامہ نیاز فتحپوری اور جماعت احمدیہ


میں اور احمدی جماعت

(نیازفتحپوری)
جب سے میں نے احمدی جماعت کے متعلق اظہار خیال شروع کیا ہے اسی وقت سے مجھے یقین ہے کہ دنیا کو سب سے پہلے یہی جستجو ہوگی کہ وہ شخص جو اپنے عقائد کے لحاظ سے دہریہ یا ملحد قسم کا انسان ہے کیوں احمدی جماعت کی موافقت کر رہا ہے اور مرزا غلام احمد صاحب کیا کیوں اس قدر معترف ہے اور اسی کے ساتھ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس جستجو میں کتنی بد گمانیاں پیدا ہوگئیں ۔ چنانچہ اس دوران میں جو خطوط ہندوستان پاکستان کے دور دراز گوشوں سے موصول ہوئے اُن سے میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے ۔
نمونہ کے طورپر ایک خطہ ملاحظہ ہو یہ خط چمن کے ایک صاحب شیخ عبدا للہ کا ہے لکھتے ہیں کہ
’’ اخبار والے ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا مضمون ہاتھ آجائے کہ خریداروں میں زبردست اضافہ ہو جائے ۔ اس لئے آپ کی موجودہ قلابازی پر کوئی تعجب نہیں ۔ پہلے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آپ دہریہ ہیں اب یہ خیال ہے کہ آپ مرزائی قادیانی ہوگئے ہیں یا ان سے کوئی رشوت عظیم کھائی ہے لہذا آپ کی باتیں کوئی وز ن نہیں رکھتیں جب تک آیات قرآنی اور حادیث اس کی تائید میں نہ ہوں ۔ آئندہ اگر نگار میں قادیانی مذہب کی حمایت کا ارادہ ہو تو قرآن و حدیث سے لیس ہو کر میدان میں آئیں ‘‘
اس سلسلہ میں تین الزام مجھ پر عائد کئے جاتے ہیں ایک یہ کہ اس سے میرا مقصود صرف نگار کی توسیع اشاعت ہے ۔ دوسرے یہ کہ میں احمدی ہوگیا ہوں لیکن بدنامی کے اندیشہ سے اسے کھل کر ظاہر نہیں کرتا۔ تیسرے یہ کہ تبلیغ احمدیت کے لئے مجھے احمدی جماعت کی طرف سے (ان کے الفاظ میں ) ’’کوئی رشوت عظیم‘‘ ملی ہے ۔
ان میں کوئی خیال ایسا نہیں جو انوکھا ہو ۔ کیوں کہ دنیائے صحافت و تبلیغ میں ایسی متعدد مثالیں موجودہیں کہ محض ذاتی اغراض کی بناء پر لوگوں نے اپنا Greed بدل دیا ۔ مذہب بدل دیا، اپنی وطینت و قومیت بدل دی ۔ لیکن جس حد تک نگار اور میری ذات تعلق ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہناچا ہتا کہ 
 گفتہ بودی ہمہ زرق اندوفریب اندروفسوس 
سعدی آں نیست ولیکن چوتو فرمائی ہست
ساری دنیا کو معلوم ہے کہ نگار کا ایک خاص حلقہ ہے ۔ ان حضرات کا جو ادب سیاست و مذہب ہر چیز میں آزادی فکر و خیال کے حامی ہیں اسی لئےاس وقت بھی جب پورے ہندوستان میں میرے اور نگار کے خلاف الزام دہریت و الحاد کا طوفان برپا تھا ۔ نگار کی اشاعت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور ایک اچھی خاصی جماعت میری ہمنوا ہوگئی ۔
اسی لئے ظاہر ہے کہ اس صورت میں حمایت احمدیت میں میرا کچھ لکھنا ، نگار کے لئے باع نقصان ہی ہو سکتا تھا نہ کہ نفع بخش کیونکہ اس طرح لوگوں کو یہ خیا ل پیدا ہوسکتا تھا کہ میں مذہب کے باب میں رجعت پسند ہوگیا ہوں اور وہ نگار سے دست کش ہو جاتے بنابریں یہ قیاس کرنا کہ یہ سب کچھ میں توسیع اشاعت نگار کے لئے کررہا ہوں ۔ کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ۔ اب رہا یہ پہلو کہ اس سے مقصود یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس طرح احمدیت جماعت میں نگار کے زیادہ خریدارپیدا ہو جائیں گے ۔ سو یہ بھی نہایت کمزور پہلوہے ۔ کیونکہ اول تو احمدی جماعت کو اس کی چنداں ضرورت ہی نہیں اور ان کا پروپنگیڈہ کرے دوسرے یہ کہ احمدی جماعت مشکل ہی سے باور کر سکتی ہے کہ میں کسی وقت احمدی ہو سکتا ہوں ، کیونکہ جس حد تک عقائد کا تعلق ہے میرے اور ان کے درمیان کافی اختلاف ہے ۔ رہی تیسری بات ’’رشوت عظیم‘‘ کی سو اس سلسلہ میں  سب سے پہلے یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں رشوت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جب کہ ان کے سارے کام بغیر رشوت کے ہی اچھی طرح چل رہے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ حقیقت کے لحاظ سے بھی یہ الزام غلط ہے اورمیرا یہ کہنا غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ بصورت دیگر کم ازکم احمدی جماعت تو یقینا سمجھ جاتی  کہ میں کس قدر جھوٹا و لغو انسان ہوں کہ باوجود رشوت لینے کے میں اس سے انکار کر رہا ہوں اور میں ان کی نگاہ میں اپنے آپ کو ذلیل کرنا پسند نہ کرتا ۔
بہرحال اس قسم کی بد گمانیوں کی پرواکئے بغیر میں ایک بار پھر نہایت صداقت کے ساتھ یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میں تو ان کی عملی زندگی کا یقینا مداح ہوں اور اگر میں بانی احمدیت کی تعریف کرتا ہوں تو اسی لئے کہ وہ مسلمانوں صحیح راستہ پر کھنیچ لائے اور احساس اجتماعی کا وہ زبردست ولولہ اپنی جماعت میں پیدا کر گئے جس کی نظیرمسلمانوں کی کسی دوسری جماعت میں نہں ملتی ۔ 
رہا یہ مطالبہ کہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس جماعت کے معتقدات پر گفتگو کروں ۔۔۔۔ تو مجھے اس مطالبہ پر سخت حیرت ہے کیوں کہ جب تک پہلے یہ نہ ثابت کر دیا جائے کہ احمدی جماعت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے منحرف ہے اس وقت تک قرآن و حدیث سے استدلال کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بلکہ میں تو الرغم اس الزام کے یہ دیکھتا ہوں کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرنے کا جو جذبہ ان مین پایا جاتا ہے وہ دوسری مسلم جماعتوں میں نظر ہی نہیں آتا ۔ 
سب سے بڑا الزام جو ان پر قائم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے قائل نہیں ۔ حالانکہ اس کے زیادہ لغو اور غلط بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔ مرزا غلام احمد نہ صرف یہ کہ رسو ل خدا ﷺ کو خاتم النبین سمجھتے تھے ۔ بلکہ شریعت رسول کو بھی آخری شریعت تسلیم کرتے تھے ۔ حیرت ہی کہ لوگوں کو ان کی طرف سے کیوں یہ غلط خیال قائم ہو گیا اور ان کی تصنیفات کا مطالعہ کئے بغیر محض دوسروں کے کہنے پرکیوں یقین کر لیا گیا ۔ 
اس سلسلہ میں ضرور ایک بات بحث طلب ہے کہ مہدی موعود یا مثیل مسیح ہونے کے سلسلہ میں انہوں جو کچھ کہا ہے وہ کس حد تک قابل قبو ل ہے سو میں اس کا زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اگر میں ان روایات کو درست نہ سمجھوئوں جو مہدی موعود اور ظہور دجال کے متعلق بیان کی جاتیں ہیں تو بھی یہ حقیقت بدستور اپنی جگہ پرقائم ہے ۔ کہ مرزا صاحب نے اسلام کی بڑی گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔ اور اصل چیز یہی ہے۔
 جس حد تک عقائد کا تعلق ہے ۔ عامتہ المسلین اور ان کے درمیان کوئی اختلا ف نہیں ۔ دونوں خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں ۔ دونوں رسول اللہ کو خاتم النبین سمجھتے ہیں ۔ دونوں قرآن کو خدا کا کلام جانتے ہیں ۔ دونوں استناد بل حدیث پر عامل ہیں ۔دونو ں بقاء روح ، حیاب بعد الموت ، حشر ونشر، جزاوو سزا ، بہشت دوزخ اور معجزہ وغیرہ کے قائل ہیں ۔
اس لئے عام مسلمانوں کو تو ان کے خلاف کہنے کا کچھ مواقع ہی نہیں ۔ رہی یہ بات کہ آپ کیوں یہ بات مانیں کہ مرزا صاحب مجدد تھے مہدی موعود تھے ۔ مثیل مسیح تھے وغیرہ وغیرہ ۔ سو اول تو اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اگر ہو بھی تو بھی آپ کا انکار کے لئے معقول وجہ موجود نہیں ۔ سوائے اس کے کہ آپ یہ کہیں کہ ایسا یقین کرنے کو ہمارا جی نہیں چاہتا برخلاف اس کے وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں متعدد روایات ایسی پیش کرتے ہیں جن کی صحت سے آپ کو بھی انکار نہیں اورپھر اس کو بھی جانے دیئجے ۔ خود مرزا صاحب کی زندگی اور ان کا کردار بجائے خود ان کے دعویٰ کا زبردست ثبوت ہے ۔ مشکل تو میرے لئے ہے کہ میرے نزدیک خدا ،رسول ، قرآن ، معجزہ، روح، معاد ، وحی الہام وغیرہ تمام مسائل کا مفہوم کچھ اورہے ۔ جو یقینا احمدی اور غیراحمدی دونوں جماعتو ں کے بالکل علیحدہ ہے ۔ لیکن آپ باوجود اس  کے کہ میرزا صاحب کو برا کہنے کی کوئی دلیل اپنے پاس نہیں رکھتے انکے مخالف ہیں ۔ اور میں ا ن کے بہت سے معتقدات کا اصولاً قائل نہیں ان سے محبت کرتاہوں ، ان کی بڑی عظمت اپنے دل مین پاتا ہوں ، میں ان کو بہت بڑا انسان سمجھتا ہوں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ غالباً اس لئے کہ آپ حقیقت کو ڈھونڈتے ہیں کتابوں میں ، میں اس کی جستجو کرتا ہوں دلوں میں ۔ اورمرزا غلام احمد کے دل میں نے اسی حقیقت  کو جلوہ گر پایا ۔ 
مجھے روایات مین نہ اُلجھائے ورنہ میں وہی عقل ہرزہ کار کی باتیں شروع کر دو نگا جو چالیس سال کی کوشش کے بعد بھی مجھے نہ انسان بنا سکیں کسی اور کو ، حالانکہ مرزا صاحب نے اپنی بہت سی سمجھ میں نہ آنے والی باتوں ہی سے نہ جانے کتنے حیوانوں کو انسان بنا دیا ۔
دلشتان مابین الخل و الخمر
(نگار ، دسمبر 1960 صفحہ 28 تا 30)

انتخاب از : ملاحظات نیاز فتحپوری





مکمل تحریر >>

Wednesday, 9 November 2016

علامہ اقبال اور ضرور ت مصلح


تحریر فرمودہ: مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (مرحوم )

علامہ اقبال پروفیسر نکلسن کو اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں :
’’ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے  اور بین الملّی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کردے‘‘۔
( دیکھئے مکاتیب اقبال صفحہ ۴۶۰ تا۴۶۴)  
اور پھر اسی خط میں پروفیسر مکینزی کی کتاب انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی  کے دو پیراگراف لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دو پیراگراف کس قدر صحیح ہیں۔ انہیں لفظ بلفظ نقل کردیتاہوں:
(۱)’’غالباً ہمیں پیغمبر  سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے  یا ایک ایسے شخص کی جوشاعری اور پیغمبری  کی دوگونہ صفات  سے متصف ہو‘‘۔
  (۲) ’’ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے  جو درحقیقت روح القدس کاسپاہی ہو‘‘ ۔
یہ پیراگراف درج کرنے کے بعد علامہ اقبال تحریر فرماتے ہیں  :
’’میرے افکار  کامطالعہ کریں ۔ ہمارے عہدنامے اور پنچائتیں جنگ و پیکار   کو صفحہ ہستی سے  محو نہیں کر سکتیں کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس شعر میں مَیں نے اسی کو مخاطب کیاہے   ؎
باز در عالم بیار ایاّمِ صلح
جنگجوئیاں را بدہ پیغامِ صلح
(مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۶۰ تا ۴۶۴)   
کہ پھر دنیا میں صلح کے ایا م لا اورجنگجو قوموں کو صلح کا پیغام دے ۔
        پھر مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۱ میں لکھتے ہیں :
’’کاش کہ مولانا  نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ صلعم پھرتشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں‘‘۔
یہ ضرورت نبوت کے قائل ہونے کا علامہ اقبال جیسے  آدمی کی طرف سے واضح اعتراف ہے  ۔ ان کے نزدیک  دنیامیں روحانی انقلاب  پیدا کرنا علماء کے بس کی بات نہیں کیونکہ اپنے زمانہ کے علماء   کی حالت کا نقشہ وہ یوں کھینچتے ہیں  ؎
مولوی بیگانہ از اعجازِ عشق
 ناشناس نغمہ ہائے سازِ عشق
(اسرار ورموز صفحہ ۶۸)   
مولوی عشق کے معجزے سے بیگانہ ہے اور عشق کے ساز کے نغموں سے ناشناس ہے ۔ واعظوں،  شیوخ اور صوفیاء کا حال دگرگوں یوں بیان کرتے ہیں     ؎
شیخ در عشقِ بتاں اسلام باخت
رشتۂ تسبیح را  زنّار ساخت
(اسرار ورموز صفحہ ۷۹)    
شیخ نے بتانِ مجازی کے عشق میں اسلام  کو ہار دیاہے اور تسبیح کے رشتہ کو زناّر بنا دیاہے ۔
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبارِ ملّتِ بیضا شکست
 واعظ اور صوفی منصب پرست ہو گئے ہیں اور انہوں نے ملتِ بیضا کااعتبار توڑ دیاہے۔
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی ٔ دینِ مبیں فتویٰ فروخت
ہمارے واعظ نے نگاہ بتخانہ پرجمادی ہے تو مفتیٔ دین  نے فتویٰ فروخت کرنا شروع کر دیاہے۔
چیست یاراں بعد ازیں تدبیرِ ما
رخ سُوئے میخانہ دارد پیر ما 
اے دوستو ! اس کے بعد اب ہماری کیا تدبیر  ہو سکتی ہے  ۔ ہمارے پیر صاحب تومیخانہ کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ۔(اسرار و رموز صفحہ ۷۹)
اس کا علاج یہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ روحانی سے آپؐکاکوئی ظل اور بروز ظاہر ہوکر روحانی انقلاب کی نئے سرے سے  بنیاد رکھتا ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے عین وقت پر مسیح موعود کو بھیج کر  امت محمدیہ کی دستگیری  فرمائی ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ فرماتے ہیں  ؎
وقت تھا وقت ِ مسیحا  نہ کسی اور کاوقت
میں نہ آتاتوکوئی اور ہی آیا ہوتا
(ماخوذ از کتاب ’’شان خاتم النبیین‘‘ صفحہ ۸۱۔۸۳)





مکمل تحریر >>

Tuesday, 8 November 2016

احمدیت اور اس کے اصول



(تحریر : مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب مبشر (مرحوم) مصنّف کتاب ’ بشارات رحمانیّہ‘)


احمدیت خدا کا ایک قائم کردہ سلسلہ ہے جو اسی اصل اسلام کا دوسرا نام ہے۔ جسے آج سے تیرہ سو سال قبل ہادی برحق حضرت محمد عربی  ﷺ (فداہ روحی) نے خدا کے حکم سے قائم کیاتھا۔ اگر یہ سلسلہ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے نعوذباللہ اسلام کی ضد یاا س کا مخالف ہوتا تو اس کے ایسے اصول ہوتے جو اسلام کے سراسر خلاف ہوتے۔ جیسا کہ بہائیت اور عیسائیت وغیرہ کے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔
 اسلام کے پانچ بڑے اصول جیسا کہ آپ کو معلوم ہے یہ ہیں۔ (اول) کلمہ شہادت یعنی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد ﷺاس کے رسول ہیں۔ (دوم) نماز کا قائم کرنا۔ (سوم) زکوٰۃ دینا (چہارم) رمضان شریف کے روزے رکھنا(پنجم) اگر توفیق ہو تو حج کرنا۔ 
اسی طرح اسلام نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ یہ ہیں (1)اللہ تعالیٰ پر(2)اس کے فرشتوں پر(3)اس کے رسولوں پر (4) اس کی کتابوں پر (5) بعث بعد الموت پر (6) اور تقدیر پریقین رکھنا۔ یہی اصل الاصول ہیں۔جو اعتقادات اور اعمال کا مرکزی دائرہ ہیں۔ باقی تمام فروعات ہیں جو اِن کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ 
جماعت احمدیہ کے بعینہٖ بغیر کسی قسم کے فرق کے مذکورہ بالا عقائد ہیں اور ایسے شخص کے لئے جوان عقائد پر سختی سے پابند نہ ہو جماعت احمدیہ کے دروازے بکلی بند ہیں۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘ کے صفحہ 87پر فرماتے ہیں۔
 ’’اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور سیدنا حضرت محمدمصطفی ﷺ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں۔ کہ جو کچھ اللہ جلّ شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لاالہ الا اللّہ محمّد رسول اللّہ اور اس پر مریں اور تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام کتابوں پر جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ایمان لاویں اور صوم وصلوٰۃ او زکوٰۃ وحج اور اسی طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا۔ اور وہ امور جواہل سنت کی اجماع سے اسلام کہلاتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں۔ کہ یہی ہمارا مذہب ہے۔‘‘ 
چنانچہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام کے تمام اصولوں پر عملی رنگ میں سختی سے کاربند ہے اور انہیں اصولوں کو دنیا میں رائج کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ مخالفین اسلام کی دشمنی کا باعث بھی یہی ہے کہ یہ جماعت انہیں اپنے راستے میں روڑا نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باقی تمام اسلامی جماعتوں کو چھوڑ کر صرف اور صرف اس جماعت کے درپے آزار نظر آتے ہیں۔ اور جہاں کہیں اس جماعت سے کسی قسم کا مقابلہ ہو تو تمام غیر مسلم جماعتیں اس کے خلاف محاذ میں جمع ہوتی ہیں۔ پس یہ بات بھی اس جماعت کے صحیح اسلامی جماعت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا حوالہ سے آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ جماعت احمدیہ صحیح معنوں میں اسلامی جماعت ہے اور مخالفین احمدیت کا اسے اسلام کے خلاف قرار دینا سراسر بہتان اور ظلمِ عظیم ہے۔ 
جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتے ہیں یہ ہیں۔
 (اول) اس جماعت کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کے متعلق قرآن کریم میں رسولا الیٰ بنی اسرائیلآیا ہے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے اور اس عقیدہ کی بنیاد قرآن و حدیث اور تاریخی ثبوتوں پر ہے۔ 
(دوم) حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانے میں مامور ہو کر آئے ہیں اور آپ ہی وہ مسیح موعود ہیں۔ جن کی پیشگوئی احادیث میں آئی ہے۔ بلکہ ادیان کل کے موعود ہیں۔ 
(سوم) آپ اس صدی کے مجدد ہیں اور آنحضرت ﷺ کا فرمان کہ ان اللّٰہ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأسکل مائۃ سنۃمن یجدد لہا دینھا (ابن ماجہ) یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں ایک شخص کھڑا کرے گا ۔ جو اس دین کی تجدید کرے گا۔ یہ پیشگوئی آنجنابؐ کی جس طرح گذشتہ صدیوں میں پوری ہوئی۔ اسی طرح اب بھی ہو گئی ہے ۔ اورہمیشہ ہوتی رہے گی۔
 (چہارم) آنحضرت خاتم النبیین ہیں۔ یعنی آپ ہی کے ذریعہ سے اب انسان تمام کمالات روحانیہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح آپ ؐپر نبوت ختم ہے اسی طرح ولایت، کرامت، شرافت، بلکہ انسانیت بھی آپ ؐ پر ختم ہے اور یہ تمام کمالات جو بنی نوع کی ذاتی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح و درستگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ ہی کے ذریعہ اور پیروی سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ 
چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جہاں کہیں نبوت یا رسالت کے الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے ہیں وہاں اس بات کو ہر جگہ واضح کیا ہے کہ یہ تمام کمالات مجھے اسی منبع فیض وبرکات سے حاصل ہوئے ہیں جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہے حضور اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ کے صفحہ 116پر فرماتے ہیں۔
 ’’ وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیت شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیاگیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوںگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے پائی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ ‘‘ 
پس آپ کی نبوت آنحضرت ؐ کی نبوت کی غیر نہیں اور خاتم النبیین کے اعلیٰ اعزاز کی حقیقت واضح کرنے والی ہے۔ 
(پنجم) قرآن کریم میں کوئی حکم یا آیت منسوخ نہیں اس کا ایک ایک حرف اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح وہ قابل تلاوت ہے۔
 (ششم) خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے جیسا کہ پہلے کیا کرتا تھا۔ اور اب بھی وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کو دنیا کی طرف مصلح بنا کر بھیجتا ہے جیسا کہ پہلے بنا کر بھیجا کرتا تھا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مَنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ چنتا ہے فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول۔
 (ہفتم) اسلام کی تعلیم اپنی صداقت اور دلائل کے رو سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرے گی اس کیلئے ظاہری زور یعنی تلوار چلانے کی ضرورت نہیں۔ اور لا اکراہ فی الدین( دین میں کوئی جبر نہیں) والا حکم اب منسوخ نہیں ہوگیا بلکہ واجب العمل ہے پس ایسا جہاد … جس میں تلوار کے ذریعہ سے کسی کو اپنے عقیدہ کا قائل کروانا مقصود ہو ہر گز ہرگز جائز نہیں کیونکہ تلوار کی حکومت جسم پر ہوگی روح پر ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اور اسلام انسانی روح پر اپنی حکومت کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ اسلام نے تو ظاہری اقرار اور باطنی انکار کا نام منافقت رکھا ہے اور اس کی سزا دوزخ کا سب سے نچلا حصہ قرار دیا ہے۔ پس تلوار کے ذریعہ مذہب پھیلانا اسلام کے منشاء کے سراسر خلاف ہے اور ایسا مہدی جو اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے غلبہ دے کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں حسب ضرورت بعض شرائط کے ساتھ جہاد بالسیف بھی جائز ہے اور اس کا حکم منسوخ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔
 (ہشتم) تمام مسلمانان عالم بلکہ تمام دنیا کی اصلاح خواہ وہ معاشرتی، تمدنی، عملی یا اعتقادی ہو۔ اب احمدیت سے وابستہ ہے اور وہ سنہری اصول جو احمدیت نے اس بارے میں دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں جو اصل اسلام ہی کے اصول ہیں ان پر چلنے سے دنیا کی نجات ہے۔ 
(نہم) احمدیہ جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی عیب چینی کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔ کیونکہ کسی کی کمزوری بیان کرنے سے اپنی بڑائی ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ ہماری تعلیم کی برتری ہی ہمارے مذہب کی برتری ثابت کرسکتی ہے۔ ہاں جوابی طور پر مجبواراً اگر دوسرے کی اعتقادی کمزوریاں اور مذہبی خامیاں بیان کرنی پڑیں تو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ مگر وہ بھی ایسی قوموں کے مقابلہ میں جن کا کام ہی ہمیشہ بد گوئی اور بد زبانی کرنا ہو۔ ورنہ نہیں اور یہی دنیا میں قیام امن کا ذریعہ ہے۔ جس پر یہ جماعت کاربند ہے۔ 
(دہم) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر زمانہ اور ہر قوم میں جتنے بھی مامور اور مصلح آئے ہیں۔ وہ سب واجب الاحترام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت تمام مصلحین کو خاص عزت کی نگاہ سے دیکھتی اور ہر جگہ علی الاعلان اس کا ذکر کرتی ہے۔ 
(یازدہم) اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے دین کے مخالف اگر وہ انہیں اپنی رحمت کاملہ سے بخش نہ دے۔ ایک ایسے مقام پر رکھے جائیںگے جسے ہم جہنم کہتے ہیں۔ اور جس میں آگ اور شدیدسردی کا عذاب ہو گا۔ جن کی غرض محض تکلیف دینا نہیں ہو گی۔ بلکہ اس میں ان لوگوں کی آئندہ اصلاح مد نظر ہو گی۔ حتیٰ کہ وہ دن آجائے جب اللہ تعالیٰ کا رحم جو ہر چیز پر غالب ہے۔ ان کو ڈھانپ لے اور یأتی علیٰ جہنم زمان لیس فیہا احد و نسیم الصبا یحرک ابوابہا (تفسیر معالم التنزیل زیر آیہ فاماالذین شقوا الخ) جہنم پر ایک وقت ایسا آئے گا جب کہ اس میں ایک متنفس بھی نہیں رہے گا اور باد صبا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی۔کا وعدہ پورا ہو جائے۔ 
یہ عقائد جو اختصاراً میں نے یہاں درج کئے ہیں۔ صحیح اور قابل قبول ہیں اور ان کی رو سے تمام مذاہب باطلہ پر اسلام کی صداقت اور برتری ثابت کر کے ان کے متبعین کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔ 
محترم بھائیو! حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ اٹھو اور دنیا کی اصلاح کرو تو سوائے تعمیل حکم کے آپ کیلئے اور کونسی راہ ہوسکتی ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں     ؎
اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تا رد کروں حکم شہہ ذوالاقتدار
اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام
گرچہ میں ہوں بس ضعیف وناتوان و دلفگار
خدا را آپ اتنا تو سوچیں کہ کیا مفتری انسان کبھی بارور اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور کبھی عالم الغیب خدا اس کی تائید اور تصدیق میں وہ نشانات ظاہر کرسکتا ہے۔ جو کسی سچے موعود کے بارے میں گزشتہ صحیفوں میں مرقوم ہوں۔ مثلاً دار قطنی کی حدیث ان لمہدینا اٰیتین (الحدیث) کے مطابق 1311ہجری میں سورج اور چاند کو رمضان شریف کے مہینہ میں گرہن لگنا،دمدار ستارے کا ظاہر ہونا، پھر مسلم کی حدیث ولیترکن القلاص فلا یسعی علیہا کہ مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ بیکار ہو جائیں گے، کے مطابق ریل اور دوسری تیز رفتار سواریوں کا ایجاد ہونا پھر صلیبی مذہب کا اطراف عالم میں پھیلنا، یاجوج ماجوج آگ کے ہتھیار استعمال کرنے والی آگ بگولا ہونے والی اور آگ سے ہی تمام کاروبار کرنے والی قوم کا اونچی اور نیچی جگہوں پر پھیلنا۔ پھر دریاؤں کا پھاڑے جانا اور نہروں کا نکالا جانا ، اسی طرح صحائف کا پھیلنا، اخبارات کا کثرت سے شائع ہونا، طاعون کا پڑنا، زلازل کا آنا، جنگوں کی کثرت ، کیازمین وآسمان کا اس قدر آپ کے زمانے میںنشانات ظاہر کرنا اہل تقویٰ کی چشم بصیرت کھولنے کیلئے کافی نہیں؟ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مفتری کے ناکام ونامراد مرنے اور اس کے ذلت سے بے یارومددگار مارے جانے کے متعلق جو قوانین بیان کئے ہیں۔ ان کا برعکس ہونا یعنی بجائے ناکام ونامراد مارے جانے کے آپ کا بامراد وکامیاب زندگی گزارنا اور اسلام کے فدائیوں کی ایک عظیم الشان جماعت پیدا کرنا۔ جن کے متعلق مخالف وموافق سب کا یک زبان ہو کر گواہی دینا کہ یہ جماعت اسلام کی بڑی خدمت کرنے والی فعال جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ساتھ سچے مامورین جیسا سلوک ہونا ہر موقع پر خداتعالیٰ کا آپ کی سپر بننا۔ کیا یہ سب باتیں کسی مفتری کو میسر آسکتی ہیں۔ چشم فلک نے کبھی ایسا نظارہ نہیں دیکھا کہ   ؎
 ذلت ہیں چاہتے یہاں اکرام ہوتا ہے
 کیا  مفتری کا یہی  انجام  ہوتا ہے 
ایک اور نظارہ ملاحظہ فرماویں کہ جسے مفتری کہا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور نہایت جسارت سے یہ التجا کرتا ہے کہ    ؎
اے قدیر و خالق ارض و سما
اے رحیم و مہرباں و راہنما
اے کہ میداری تو بر دِلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تومے بینی مرا بر فسق و شر
گر تو دید ہستی کہ ہستم بد گوہر
پارہ پارہ کن منے بد کار را
شاد کن ایں زمرہ اغیار را
آتش افشاں بر در و دیوار من
شمنم باش وتباہ کن کارمن
در مرا از بندگانت یافتی
قبلہ من آستانت یافتی
در دل من آں محبت دیدہ
کز جہاں آں راز را پوشیدہ
بامن از روئے محبت کارکن
اندکے افشاء آں اسرار کن
(حقیقۃ المہدی صفحہ 1)
مگرہوتا کیا ہے بجائے اس کے خدا تعالیٰ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا اور اس کے دشمنوں کو خوش کرتا۔ ہر ایک قوم ہر ایک فریق کے خدا ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ اور ان میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ الگ کر کے حضرت مرزا صاحب کو طاقتور اور مضبوط بنا دیتا ہے حتیٰ کہ دشمن بھی آپ کی ترقی کو دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے۔ پھر بجائے اس کے کہ آپ کے دشمن اپنی آنکھوں سے آپ کے در ودیوار پر آگ برستے دیکھتے۔ الٹا پھولوں کی بارش ہوتی دیکھتے ہیں۔ اور مال و دولت سے آپ کو مالامال کردیا جاتا ہے۔ نیک اور پاک اولاد سے آپ کو خوشحال کیا جاتا ہے۔ پھر آپ کو یہاں تک ترقی ملتی ہے کہ بے اختیار کہنا پڑتا ہے۔
گڑھے میں تُو نے سب دشمن اتارے 
ہمارے  کردیئے  اونچے  منارے
ان تمام باتوںکو دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقلمند آپ کو مفتری قرار دے سکتا ہے؟ ہر گز، ہر گز نہیں۔ اور اس پر طرفہ یہ کہ آپ مفتری قرار دینے والوں کو للکار کر کہتے ہیں کہ جاؤ اگر تمہیں میری صداقت پر اب بھی شبہ ہے تو اپنے مولیٰ سے اپنے پیدا کرنے والے سے پوچھو۔ سینکڑوں سعیدالفطرت احکم الحاکمین کے دربار میں سر بسجود ہو کر اور رو رو کر حقیقت حال دریافت کرتے ہیں وہاں سے سب کو یہی جواب ملتا ہے جاؤ جلدی کرو اور اسے جا کر قبول کرو۔ وہ ہمارا محبوب ہے۔ ہمارافرستادہ ہے۔ سچا ہے۔ آپ ان تمام رؤیاء وکشوف کو خود میری اس کتاب بشارات رحمانیہ میں ملاحظہ فرمائیںگے اور اگر خدانخواستہ اس سے بھی آپ کی تسلی نہ ہوتو پھرآپ خود ان لوگوں کی طرح اپنے مولا کے حضور التجائیں کریں وہ حقیقت حال واضح کر دے گا۔  …مبارک وہ جو اب بھی سمجھے اور خداتعالیٰ کے پاک اور سچے مامور کے دامن سے وابستہ ہو کر فلاح دارین حاصل کرے۔‘‘

(ماخوذ از کتاب بشارات رحمانیہ)


مکمل تحریر >>

Tuesday, 11 October 2016

شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بانی جماعت احمدیہ کی نظر میں




جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عوام الناس میں نفرت اور اشتعال پھیلانے کے لئے حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ پر ایک الزام یہ لگایا
 جاتا ہے کہ آپ نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور حقائق مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ اہلِ بیت سے بے حد محبت اور عشق رکھتے تھے۔ ذیل میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی اور آپ کی نظر میں ان کا کتنا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ہے۔

حضرت علیؓ اور آپ کے اہل بیت


’’حضرت علی رضی اللہ متقی، پاک اور خدائے رحمان کے محبوب ترین بندوں میں سے تھے۔
آپ ہم عصروں میں سے چنیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ آپ اللہ کے غالب شیر اور مردِ خدائے حنان تھے آپ کشادہ دست پاک دل اور بے مثال بہادر تھے۔

میدان جنگ میں انہیں اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ خواہ دشمنوں کی فوج بھی آپ کے مقابل پر ہوتی۔ آپ نے اپنی عمر سادگی میں گزاری۔ اور آپ زھد و ورع میں بنی نوع انسان کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ اپنی جائیداد کا عطیہ دینے اور لوگوں کے مصائب کو رفع کرنے میں اور یتامیٰ اور مساکین اور ہمسائیوں کی خبر گیری میں آپ مرد اول تھے۔ آپ معرکہ ہائے رزم میں ہر طرح کی بہادری میں نمایاں تھے اور شمشیر و سنان کی جنگ میں کارہائے نمایاں دکھلانے والے تھے۔ بایں ہمہ آپ بڑے شیریں اور فصیح اللسان تھے۔آپ کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ ذہنوں کے زنگ دور ہوجاتے تھے اور دلیل کے نور سے مطلع چکا چوندھ ہوجاتا تھا۔

آپ ہر قسم کے اسلوب کلام پر قادر تھے اور جس نے بھی آپ کا اس میدان میں مقابلہ کیا تو اسے ایک مغلوب آدمی کی طرح عذر خواہ ہونا پڑا۔ آپ ہر کار خیر میں اور اسالیب فصاحت و بلاغت میں کامل تھے۔ اور جس نے بھی آپ کے کمالات کا انکار کیا گویا وہ بے حیائی کی راہ پر چل پڑا۔ آپ بے قراروں کی دلجوئی کے لئے تیار رہتے۔ قانع اور غربت سے پریشان کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ بایں ہمہ آپ قرآن کریم کا جام نوش کرنے میں سر فہرست تھے اور قرآن کے دقائق کے ادراک میں آپ کو ایک عجیب فہم عطا ہوا تھا۔

میں نے آپ کو نیند کی حالت میں نہیں بیداری کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ نے خدائے علیم کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی ہے اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب یہ تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ پس جو تمہیں دیا جاتا ہے اس پر خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے ایک ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے معطی و قدیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو بہت مضبوط جسم والا اور پکے اخلاق والا متواضع اور منکسر، شگفتہ رو اور پُر نور پایا۔

اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ بہت پیار اور محبت سے پیش آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سچے مخلصوں کی طرح اظہار محبت کیا۔ اور آپ کے ساتھ حسن اور حسین دونوں اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے۔

اور آپ کے ساتھ ایک خوبصورت، نیک اور بارعب ، مبارک، پاکباز، قابلِ تعظیم، نوجوان، باوقار، ماہ رخ، پُرنور خاتون بھی تھیں۔ میں نے انہیں بہت غمگین پایا۔ وہ اپنے غم کو چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ فاطمۃ الزھراؓ ہیں۔ پھر وہ میرے پاس تشریف لائیں جبکہ میں لیٹا ہوا تھا۔ سو میں اٹھ بیٹھا اور انہوں نے میرا سر اپنی گود میں رکھ دیا اور اظہار لطف و کرم فرمایا۔ اور میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض دکھوں اور غموں پر آپ اس طرح غمگین و مضطرب ہوئیں جس طرح محبت و رافت و احسان رکھنے والی مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب پر بے قرار ہو جاتی ہیں۔ تب مجھے بتایا گیا کہ دینی تعلق کی بنا پر میں بمنزلہ آپ کے فرزند کے ہوں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ کا غم ان مظالم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہلِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والے ہیں۔

پھر میرے پاس حسن اور حسین آئے اور انہوں نے بھائیوں کی طرح میرے ساتھ محبت اور غم خواری کا اظہار کیا۔

اور یہ بیداری کے کشوف میں سے ایک کشف تھا اور اس پر چند سال گزر چکے ہیں۔ مجھے حضرت علی، حسن اور حسین کے ساتھ ایک لطیف قسم کی مشابہت ہے جس کا راز مشرق اور مغرب کا خدا ہی جانتا ہے۔

میں حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان کا دشمن ہے میں اس کا دشمن ہوں‘‘۔
(ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۸۔۳۵۹)

حضرت علیؓ حاجت مندوں کی امیدگاہ تھے


بے شک حضرت علی حاجت مندوں کی امید گاہ تھے اور سخیوں کے لئے نمونہ اور بندوں کے لئے حجۃ اللہ تھے ۔ آپ اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے بہتر تھے اور تمام دنیا کو منور کرنے کے لئے خدا کا نور تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حق حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جنہوں نے آپ کے زمانہ میں آپ سے جنگ کی انہوں نے بغاوت اور سرکشی کی‘‘۔ (ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۲۔۳۵۳)

حضرت علیؓ جامع فضائل


’’علی تو جامع فضائل تھا اور ایمانی قوت کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ نفاق کو پسند نہیں کیا اور اپنے قول اور فعل میں کبھی منافقانہ طریق نہیں برتا اور ریا کاروں میں سے نہ تھا‘‘۔ (حجۃ اللہ۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۲۔ صفحہ ۱۸۲)

حضرت امام حُسین ؓ و حسنؓ ائمۃ الہدیٰ


’’حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے‘‘۔

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۵۔ صفحہ ۳۶۴۔۳۶۵ حاشیہ)

ہم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں کے ثنا خواں ہیں


’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہوگئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لئے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لئے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثنا خواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔
(ملفوظات۔ جلد۴۔ صفحہ ۵۷۹۔۵۸۰)

حضرت امام حُسین ؓ سردارانِ بہشت میں سے


’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کاقدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہّرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘۔(مجموعہ اشتہارات۔ جلد ۳۔ صفحہ ۵۴۵)

حضرت امام حسینؓ کی شہادت


’’امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھاکتنا خوفناک ہے لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا‘‘۔(ملفوظات۔ جلد۵۔ صفحہ ۳۳۶)

حضرت امام حسینؓ سے غیر معمولی عشق


ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑاپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:۔

’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘

اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔

(روایت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ۔ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ۳۶۔۳۷)

حضرت بانی جماعت احمدیہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است

( درثمین فارسی۔ صفحہ  ۸۹ )

میری جان اور دل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچہ پر نثار ہے۔

مکمل تحریر >>