Thursday, 28 April 2016

احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟




احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟


(تفریح کی گھنٹی بجی ۔جمیل اور جلیل جھٹ میدان میں گھا س پر ایک طرف بیٹھ گئے )
جمیل :
بھائی جلیل !کل آپ نے امام مسجد صاحب سے پوچھا تھا کہ احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟ 
جلیل :
پوچھا تو تھا مگر وہ احمدیوں کا نام سنتے یہ لال پیلے ہو گئے اورناراضگی سے کہنے لگے کہ تمہیں احمدیوں اور احمدیوں کے عقائد سے کیا واسطہ ؟ایسی باتیں مت کیا کرو۔ 
جمیل :
میں نے اباجان سے پوچھا تھا کہ احمدی لوگ کیا عقائد رکھتے ہیں؟ انہوں نے بڑی محبت سے بتلایا کہ احمدی اللہ کی توحید کے قائل ہیں۔ وہ ایک ہی خدا مانتے ہیں۔ دو تین خدا نہیں مانتے ۔ 
جلیل :
مسلمان تو سارے ہی ایک خدا کو مانتے ہیں۔ 
جمیل :
منہ سے سب کا یہی اقرار ہے مگر بعض لوگ قبروں پر سجدہ بھی کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں سے مرادیں مانگتے ہیں ایسے لوگ توحید کے قائل قرار نہیں پا سکتے۔ 
جلیل :
اچھا اس بات کو چھوڑو۔ تم یہ بتائو کہ تمہارے اباجان نے اور کیا کیا فرق احمدی اور غیر احمدی میں بتلائے ہیں؟ 
جمیل :
انہوں نے فرمایا کہ چار باتوں کا فرق ہے۔ (۱) احمدی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے ہیں (۲) احمدی لوگ قرآن مجید کی کسی آیت یا حکم کو منسوخ نہیں ٹھہراتے بلکہ سارے قرآن مجید کو قائم دائم جانتے ہیں (۳) احمدی لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی قرآن مجید کے ماننے والوں سے پیار کی باتیں کرتا ہے یعنی ان پر الہام اور وحی نازل کرتا ہے۔ مگر یہ الہام شریعت اور احکام والا کلام نہیں ہوتا۔ (۴) چوتھا فرق یہ ہے کہ احمدی لوگ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام کو امت مسلمہ کا مجدد اور مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔ بس یہ چار فرق ہیں۔ دوسراکوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ 
جلیل :
میں نے جب امام صاحب سے پوچھا تھا تو وہ ناراض ہو گئے تھے۔ مگر چلتے چلتے کہہ گئے تھے کہ مرزائی لوگ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے ۔ 
جمیل :
یہ تو بالکل غلط بات ہے ۔ مجھے تو اباجان نے بار بار بتایا ہے کہ ہم احمدی آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ 
(بات یہاں تک پہنچی تھی کہ گھنٹی بج گئی۔ دونوں بچے اپنی اپنی کلاس میں چلے گئے )

مکمل تحریر >>

Tuesday, 26 April 2016

مفکراحرار چوہدری افضل حق کی شاندار گواہی

مجلس احرار جو کہ جماعت احمدیہ کے ہمیشہ سے سخت مخالف رہی ہے ، ان کے مشہور و معروف لیڈر چوہدری افضل حق بھی جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور تبلیغی جوش کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’آریہ سماج کے معرض وجو د میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا ۔جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔سو امی دیانندکی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لیے چو کنا کر دیا تھا مگر حسبِ معمول جلد ہی خواب گراں طاری ہو گئی۔مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پید ا نہ ہو سکی ہا ں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے آگے بڑھا۔ اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا۔ تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیداکر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔‘‘
(فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۶)
پھر اسی کتاب میں ایک جگہ کہتے ہیں :
’’سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔کس قدر حیر ت ہے کہ سارے پنجاب میںسوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کابھی تبلیغی نظام موجو دنہیں۔‘‘
( فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۱ )





مکمل تحریر >>

Monday, 25 April 2016

شورش کاشمیری کی گواہی جماعت احمدیہ کے حق میں

کسی بھی نبی کی جماعت کی شان نہ صرف عقائد بلکہ اس کے افراد کے اخلاق  سے بھی ہوتی ہے ، جناب شورش کاشمیری جو کہ مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری اور جماعت احمدیہ کے شدید مخالف تھے ان کی ایک گواہی ذیل میں انہی کی کتاب سے پیش کی جاتی ہے کہ جیل کے دوران ایک احمدی افسر سے وہ کیسے متاثر ہوئے ۔
شورش کاشمیری اپنی کتاب '' پس دیوارزندان '' میں رقمطراز ہیں :
’’میجر حبیب اللہ شاہ کا سلوک بہر حال شریفانہ تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ پکے قادیانی تھے ۔ انکی ہمشیرہ میر زا بشیر الدین محمود کے عقدمیں تھیں ۔ قادیان کے ناظر امور عامہ سیّد زین العابدین ولی اللہ ا ن کے بڑے بھائی تھے ۔ انہیں یہ کبھی علم تھا کہ میں آل انڈیا مجلس احرار کا جنرل سیکر ٹری ہوں اور احرار قادیا نیوں کے حریف ہیں بلکہ دونوں میںانتہائی  عداو ت ہے۔میجر حبیب اللہ شاہ نے اشارۃ ً بھی اس کا احساس نہ ہونے دیا ۔ انہوں نے اخلاق و شرافت کی انتہاکردی ۔ پہلے دن اپنے دفتر میں اس خوش دلی اور کشادہ قلبی سے ملے گویا مدۃ العمر کے آشنا ہیں ۔ انہوں نے مجھے بیماروں میں رکھا اور اچھی سے اچھی دوا و غذادینا شروع کی ۔ نتیجۃ ً میری صحت کے بال و پر پیدا ہوگئے اور میں چندہی ہفتوں میں تندرستی کی راہ پر آگیا ۔ وہ بڑے جسور ‘انتہائی حلیم ‘بے حد خلیق اور غایت درجہ کے دیا نت دار آفیسر تھے ۔ ان کے پہلو میں یقینا ایک انسان کا دل تھا ۔ ان کی بہت سی خوبیوں نے انہیں سیاسی قیدیوں میں مقبول و محترم بنا دیا تھا ۔ ‘‘
(پس دیوار زنداں ، صفحہ 257 تا 258 )

پھر اسی کتاب میں ایک مقام پر شورش کاشمیری نے میجر حبیب اللہ شاہ کی دینی غیرت کا ایک واقعہ بھی بتایا ہے ۔
'' لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہینڈ ر سن تھا ۔ اس نے ایک دن اس سوال پر کوئی ناگوار بات کہی ۔میجر صاحب کو غصہ آگیا۔ ہینڈرسن کو فورا ٹوکا ’’آپ اذان یا قرآن کے بارے میں محتاط رہیں ۔میں نہیں روک سکتا۔‘‘ میجر صاحب ہینڈر سن سے الجھ پڑے ۔ ایک دفعہ پہلے بھی ہینڈرسن نے حضورﷺ کا نام بے ادبی سے لیا تو اس سے الجھے تھے ۔ تمام جیل میں ان کی اس حمیّت کا چرچا تھا ۔''
 (پس دیوار زندان ، صفحہ 310)











مکمل تحریر >>

داڑھی کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا لطیف ارشاد



داڑھی کے بارے میں آج کل بعض احمدی مسلمان نوجوان بھی لا پرواہی کرتے نظر آتے ہیں ، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ حضرت مصلح موعود مرزا بشیرالدین محمود احمد ؓ کا یہ لطیف بیان آپ کے سامنے پیش کیا جائے ۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :
’’ تیسری بات جس کی میں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے عمل میں درستی پیدا کریں ۔چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے چھوڑنے میں کوئی دقت نہیں ، میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک انہی باتوں کو ہماری جماعت کے افراد نہیں چھوڑ سکے، مثلاً داڑھی رکھنا ہے ۔ میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو داڑھی نہیں رکھتے۔ حالانکہ اس میں کونسی دقت ہے آخر ان کے باپ دادا داڑھی رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو پھر اگر وہ بھی داڑھی رکھ لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟پھر باپ دادا کو جانے دو سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی رکھتے تھے یا نہیں؟ اگررکھتے تھے تو آپؐ کی طرف منسوب ہونے والے افراد کیوں داڑھی نہیں رکھ سکتے؟ مجھ سے ایک دفعہ ایک نوجوان نے بحث شروع کردی کہ داڑھی رکھنے میں کیا فائدہ ہے ۔وہ میرا عزیز تھا اورہم کھانا کھاکر اس وقت بیٹھے ہوئے تھے ۔اورچونکہ فراغت تھی اس لئے بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔جب میں نے دیکھا کہ کج بحثی کررہا ہے تو میں نے اسے کہا میں مان لیتا ہوں کہ داڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں ۔اس پر وہ خوش ہوا کہ اس کی بات تسلیم کرلی گئی ہے ۔میں نے کہا میں تسلیم کرلیتا ہوں کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں مگر تم بھی ایک بات مان لو اوروہ یہ کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ بے شک داڑھی رکھنے میں کوئی خوبی بھی نہ ہو۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھو۔ تم بے شک سمجھو کہ یہ چیز ہر رنگ مضر اور نقصان دہ ہے مگر کیا بیسیوں مضر چیزیں ہم اپنے دوستوں کی خاطر اختیار نہیں کرلیا کرتے ؟ اول تو مجھے داڑھی رکھنے میں کوئی ضرر نظر نہیں لیکن سمجھ لو کہ یہ مضر چیز ہے پھر بھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھیں ۔ آخر ایک شخص کو ہم نے اپنا آقا اورسردار تسلیم کیا ہواہے۔ جب ہماراآقا اورسردار کہتا ہے کہ ایسا کرو تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے پیچھے چلیں خواہ اس کے حکم کی ہمیں کوئی حکمت نظر نہ آئے۔ صحابہ ؓ کو دیکھو ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا عشق تھا ۔داڑھی کے متعلق تو ہم دلیلیں دے سکتے ہیں اورداڑھی رکھنے کی معقولیت بھی ثابت کرسکتے ہیں ۔ لیکن صحابہ بعض دفعہ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر اس پر عمل کرنے کے لئے بے تاب ہوجاتے تھے کہ بظاہر اس کی معقولیت کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرمارہے تھے کہ آپؐ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا’’ بیٹھ جائو‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس وقت گلی میں آرہے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ان کے کانوں میں پڑگئے اور وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوںنے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا ۔ ایک دوست ان کے پاس سے گزرے تو انہیں کہنے لگے عبداللہ بن مسعود! تم اتنے معقول آدمی ہوکر یہ کیا کررہے ہو؟ انہوںنے کہا ۔ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کان میں آئی تھی کہ بیٹھ جائو ۔اس پر میں بیٹھ گیا ۔انہوںنے کہایہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو مسجد میں آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو ، بے شک آپؐ کا یہی مطلب ہوگا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں مسجد میں پہنچنے سے پہلے مرگیا تو ایک بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر عمل کے رہ جائے گی ۔ اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا تاکہ آپ کے حکم پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکوں۔
یہ ایمان ہے جوصحابہؓ کے اندر پایا جاتا تھا اوریہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے ۔‘‘
   (الفضل ، ۱۴ اپریل  ۱۹۴۸ء)

مکمل تحریر >>

مولانا محمد قاسم نانوتوی اور تحذیر الناس





مولانا محمد قاسم نانوتوی کسی تعارف کے محتاج نہیں ، مولانا اپنی گہری علمی قابلیت کی وجہ سے نا صرف ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی معروف تھے ، آج بھی دیوبندی مسلک کے بڑے بزرگ شمار کیے جاتے ہیں ، ان کی ایک نامور کتاب تحذیر الناس اصل میں ان کی مقبولیت کی وجہ بنی ، جس میں آیت خاتم النبیین اور اثر ابن عباس پر نہایت علمی بحث فرمائی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ علم تو ان کی علمی قابلیت کے اور بھی معترف ہو گئے لیکن بعض ایسے علماء جو محض پرانی تفسیروں اور اپنے مسلک کے بزرگوں کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں ، ایسے علماء نے اس کتاب کی وجہ سے مولانا صاحب پر کفر کے فتویٰ کا بازار گرم کر دیا ۔ کتاب کا بنیادی نکتہ اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نہ صرف خاتم النبیین ہیں بلکہ باقی انبیاء کی نبوت بھی ظلی ہے اور اصل مصدر آنحضرت ﷺ ہی ہیں ، خاتم النبیین کی یہی تفسیر جماعت احمدیہ کرتی ہے تو ان پر قادیانی کافر کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں ، حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نے ایک قطعی اور اصولی فیصلہ یہ فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں لفظ خاتم النّیین رسول مقبول ﷺ کے لئے مقامِ مدح میں استعمال ہواہے اور مقامِ مدح میں اس لفظ کا استعمال افضل النّبیین کے معنوں میں ہی مستعمل قرارپاسکتا ہے فضیلت کو تقدم یا تأخر زمانی سے کچھ واسطہ نہیں۔
مولانا تحریر فرماتے ہیں:۔ 
 ’’اوّل معنی خاتم النّبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ سو عوامؔ کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ ؐ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِؔ مدح میں ولٰکن رسُول اللہ وخاتم النّبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتاہے؟ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیّت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر مَیں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔‘‘ (تحذیر النّاس ص۳)
خاتم کے مطلب کو واضح کرنے کے لیے بادشاہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ علم سے اوپر کوئی ایسی صفت نہیں جس کو عالم سے تعلق ہو تو خواہ مخواہ اس بات کا یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ پر تمام مراتبِ کمال اسی طرح  ختم ہوگئے جیسے بادشاہ پر مراتبِ حکومت ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لئے جیسے بادشاہ کو خاتمؔ الحکام کہہ سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو خاتم ؔ الکاملین اور خاتمؔ النّبیین کہہ سکتے ہیں۔‘‘
 (رسالہ حجۃ الاسلام شائع کردہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ص۴۵)
 ’’سوائے آپ کے اور کسی نبی نے دعویٰ خاتمیت نہ کیا بلکہ انجیل میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا یہ ارشاد کہ جہاں کا سردار آتا ہے خود اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسٰی خاتم نہیں۔ کیونکہ حسب اشارہ مثال خاتمیتِ بادشاہ خاتم وہی ہوگا جو سارے جہاں کا سردار ہو۔ اس وجہ سے ہم رسول اللہ ﷺ کو سب میں افضل سمجھتے ہیں۔ پھر یہ آپ کا خاتم ہونا آپ کے سردار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ (حجۃ ؔالاسلام ص۴۵۔۴۶)

مولانا نبی کے آنے کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
 ’’غرض اختتام اگر بایںؔ معنی تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپؑ کا خاتم ہونا انبیاء گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا۔ بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ؔ ہو جب بھی آپ کا خاتمؔ ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ ‘‘ (تحذیرؔ الناس ص۱۴)
 ’’اگر خاتمیت ؔ بمعنی اتصافؔ ذاتی بوصف نبوت لیجئے۔ جیساکہ اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسُول اللہ صلعم اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی صلعم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاءؔ کے افرادخارجیؔ ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی۔ افراد مقدرہؔ پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہوجائے گی۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعیم بھی کوئی بنی پیدا ہوتوپھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا فرض کیجئے اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔‘‘ (تحذیرؔ الناس ص۲۸)
ان دو۲ عبارتوں سے واضح ہے کہ جو معنی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بانیٔ مدرسہ دیوبند خاتم النّبیین کے سجمھتے ہیں ان کے رُو سے آنحضرت ﷺ کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا بھی خاتمیت محمدیہ کے منافی نہیں کیونکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء موصوف بوصف النّبوۃ بالذات ہیں ۔ اور آپ کے سوا کوئی اور نبی بالذات اس وصف سے نہ متصف ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ 

خاتمیت زمانی کا وہ عام مفہوم جو عوام کے خیال میں ہے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب اس سے اتفاق نہیں فرماتے جیسا کہ تحذیرؔ الناس کے صفحہ ۳ پر آپ نے اس مفہوم کی واضح تردید فرمائی ہے۔ ہاں البتہ آپ نے آنحضرت ﷺ؍ کو ان معنوں میں خاتم زمانی قرار دیا ہے کہ آپ نے اور نبیوں کی شرائع کو منسوخ فرمایا مگر آپ کی شریعت ابدالآباد تک قائم رہے گی۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’خاتم مراتب نبوّت کے اوپرؔ اور کوئی عہدہ یا مرتبہ ہی نہیں ۔ جو ہوتا ہے اس کے ماتحتؔ ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام اوروں کے احکام کے ناسخ ہوںگے۔ اوروں کے احکام اس کے ناسخ نہ ہوں گے۔ اور اسلئے یہ ضرور ہے کہ وہ خاتم زما نی بھی ہو۔‘‘
(مباحثہ ؔشاہجہانپور ص۲۵)
’’ آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر حضرت موسٰیؑ بھی زندہ ہوتے تومیرا ہی اتباع کرتے۔ علاوہ بریں بعد نزول حضرت عیسٰیؑ کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر مبنی ہے۔‘‘ (تحذیرؔالناس ص۴)
قارئین کرام غور فرمائیں کہ مولانا محمد قاسم صاحب نے مباحثہؔ شاہجہانپور ص۲۵ کی مذکورہ بالا میں ’’ماتحت‘‘ صاحبِ عہدہ ومرتبہ کو خاتم مراتب نبوت کے منافی قرار نہیں دیا اور تحذیرؔ الناس ص۴ میں مسیح موعود کو شریعت محمدیہ پر عمل کرنے والا قرار دیاہے گویا آپ کے نزدیک آنحضرت ﷺ انہی معنوں میں خاتم زمانی ہیں کہ آپ کی شریعت آخری ہے اب جو آئے گا۔ وہ آپ کے ماتحتؔ ہوگا۔ اور آپ ؑکی شریعت کے تابع ہوگا۔ 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا حیات مسیح کے قائل تھے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ تسلیم کرتے تھے ، اس بارے مولانا کے یہ اقتباس واضح ثبوت ہیں کہ ان کے بزدیک ہر نبی وفات پا گیا ۔
(۱) ’’حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرجس قدر انبیاءؔ ہوئے سب مرگئے جس قدر بادشاہ اس زمانہ سے پہلے ہوئے وہ سب مرگئے۔ بزور دین کوئی چھوٹتا تو انبیاء چھوٹتے ۔ اوربزور دنیا کوئی بچتا تو بادشاہ بچتے۔‘‘
(لطائف قاسمیہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ص۲۲)
(۲) ’’اسی زمانے میں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو چاروناچار رسول عربی ﷺ ہی کا اتباع کرنا پڑتا۔‘‘
(مباحثہؔ شاہجہانپور ص۳۳)

جماعت احمدیہ خاتم النّبیین کے معنوں اور تشریح میں اسی مسلک پر قائم ہے جو ہم نے بطور بالامیں جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے حوالہ جات سے ذکر کیا ہے۔ زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے ایک اقتباس پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ حضورتحریر فرماتے ہیں :۔
’’عقیدہ کی رُو سے جو خدا تم سے چاہتا وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد ﷺ اس کی نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طورسے محمدیت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جُدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جُدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہوکر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو اگرچہ بظاہر دونظر آتے ہیں۔ صرف ظلّ اور اصل کا فرق ہے سو ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا۔‘‘
(کشتیٔ نوح ص۲۲۔۲۳)

نوٹ : اس مضمون کے لیے ماہنامہ الفرقان کی اکتوبر 1964 کی اشاعت سے فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔
مکمل تحریر >>

Sunday, 24 April 2016

شانِ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم - حضرت بانی سِلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کی پچیس تحریرات


شانِ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم 

حضرت بانی سِلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کی پچیس تحریرات

۱-’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے-جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدّم رکھا جائیگا نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن-اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلّم-سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو-تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ-‘‘
(کشتی ٔ نوع صفحہ ۲۳)
۲-’’مَیں جناب خاتم الا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختمِ نبوّت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھا ہوں-ایسا ہی مَیں ملائکہ اور معجزات لیلۃ القدر وغیرہ کا قائل ہُوں-‘‘
(تقریر واجب الاعلانؔصفحہ ۵ مطبوعہ۱۸۹۱ء)
۳-’’ہمارا اعتقاد جو ہم دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں-جس کے ساتھ ہم بفضل وتوفیق باری تعالیٰ اس عالمِ گزراں سے کُوچ کریں گے-یہ ہے کہ حضرت سیّدنا ومولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین وخیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھوں سے اکمالِ دین ہو چُکا اور وُہ نعمت بہ مرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہِ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے-‘‘
(ازالہ اوہامؔ حصّہ اوّل ص۱۳۷ مطبوعہ ۱۸۹۱ء)
۴-’’اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہمارے رُسول (سیّدنا محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلّم )تمام رسولوں سے بہتر اور سب رسولوں سے افضل اور خاتم النبیّین ہیں-اور افضل ہیں ہر ایسے انسان سے جو آئندہ آئے یا جو گزر چکا ہو-‘‘
(آئینہ کمالاتِؔاسلام ص۳۲۷ مطبوعہ ۱۸۹۲ء)
۵-’’وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصیفاء ختم المرسلین‘ فخر النبیّین جنابِ محمد مُصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم ہیں اے پیارے خدا اس پیارے نبیؐ پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائے دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو-‘‘
(اتمام الحجۃؔ ص۲۸ مطبوعہ ۱۸۹۴)
۶-’’مجھ کو خدا کی عزّت وجلال کی قسم کہ مَیں مُسلمان ہوں اور ایمان رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پر اور تمام رسولوں پر اور تمام فرشتوں اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر اور مَیں ایمان رکھتا ہوں اس پر کہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل اور خاتم الانبیاء ہیں-‘‘
ّ(حمامۃ البشریٰؔ ص۸ مطبوعہ ۱۸۹۴ء)
۷-’’درود و سلام تمام رسولوں سے بہتر اور تمام برگزیدوں سے افضل محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم پر کہ خاتم الانبیاء اور شفیع المذبنین اور تمام اولین وآخرین کے سردار ہیں اور آپؐ کی آل پر کہ طاہر ومطہر ہیں اور آپؐ کے اصحابؓ پر کہ حق کا نشان اور اللہ کی حجّت ہیں اہلِ ایمان کے لئے-‘‘
(انجام آتھمؔ ص۷۳ مطبوعہ ۱۸۹۲ء)
۸-’’اگر دل سخت نہیں ہو گئے تو اس قدر دلیری کیوں ہے کہ خواہ نخواہ ایسے شخص کو کافر بنایا جاتا ہے جو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کو حقیقی معنے کی رُو سے خاتم الانبیاء سمجھتا ہے-اور قرآن کو خاتم الکتب تسلیم کرتا ہے-تمام نبیوںؑ پر ایمان لاتا ہے اور اہلِ قبلہ ہے اور شریعت کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے-‘‘
(سراجؔ منیر ص۴ مطبوعہ ۱۸۹۷ء)
۹-’’ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سول اور خاتم الانبیاء ہیں-‘‘
(ایام الصلحؔصفحہ  ۸۲   ۸۷ مجریہ ۱۸۹۹ء)
۱۰-’’عقیدہ کی رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے-وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے-‘‘
کشتی نوحؔ ص۱۵ مطبوعہ ۱۹۰۲ء)
۱۱-’’ایک وہ زمانہ تھا کہ انجیل کے واعظ بازاروں اور گلیوں اور کُوچوں میں نہایت دریدہ دہنی اور سراسر افتراء سے ہمارے سیّدد مولیٰ خاتم الانبیاء اور افضل الرّسل والاصفیاء اور سیّد المعصومین والاتقیاء حضرت محبوبِ جنابِ احدیّث محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کی نسبت یہ قابلِ شرم جھوٹ بولا کرتے تھے کہ جبابؐسے کوئی پیشگوئی یا معجزہ ظہور میں نہیں آیا-اور اب یہ زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے علاوہ اُن ہزار ہا معجزات کے جو ہمارے سرور ومولیٰ شفیع المذبنین صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف اوراحادیث میں اس قدر کثرت سے مذکور ہیں جو اعلیٰ درجہ کے تواتر پر ہیں-تازہ بتازہ صد ہا نشان ایسے ظاہر فرمائے کہ کسی مخالف او رمنکرکو اُن کے مقابلہ کی طاقت نہیں-‘‘
(تریاق القوبؔص۵ مجزہ ۱۹۰۲ء)
۱۲-’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا-جس کے یہ معنے ہیں کہ آپؐ کے بعد براہ راست فیوضِ نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمالِ نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا- جو اپنے اعمال پر اتباعِ نبویؐ کی مُہر رکھتا ہو گا-اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا بیٹا اور آپؐ کا وارث ہو گا-‘‘
(ریولوبر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی صفحہ ۶  ۷ مطبوعہ ۱۹۰۶ء)
۱۳-’’ہم مسلمان ہیں ایمان رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کی کتاب فرقانِ حمید پر-اور ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلّم خدا کے نبی اور اس کے رسول ہیں اور وہ سب دینوں سے بہتر دین لائے اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ آپؐ خاتم الانبیاء ہیں-‘‘
(مواہبؔ الرحمن صفحہ ۶۶ مطبوعہ ۱۹۰۳ء)
۱۴-’’اب بجز محمّدیؐ نبوت کے سب بنوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیںآ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتّی ہو-‘‘
(تجلیاتؔ الہیٰہ ص۲۶ مطبوعہ ۱۹۰۶ء)
۱۵-’’ اللہ جل شانہ‘ نے آنحضرت صلّے اللہ علیہ وسلّم کو صاحبِ خاتم بنایا یعنی آپؐ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اورنبی کو ہرگز نہیں دی گئی-اس وجہ سے آپؐ کا نام خاتم النبیّین ٹھہرا-یعنی آپؐ کی پَیروی کمالاتِ نبوت بخشتی ہے اور آپؐ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوتِ قوسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی‘‘
(حقیقۃ الوحیؔ ص۹۷ حاشیہ-مطبوعہ ۱۹۰۷ء)
۱۶-’’خد اس شخص کو پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستورالعمل قرار دیتا ہے اور اُس کے رسول حضرت محمد صلی علیہ وسلم کو درحقیت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے-‘‘
(چشمہ معرفؔ ص۳۶۴ مطبوعہ ۱۹۰۸ء)
۱۷-’’ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا
وَلٰکِنْ رسول اللّٰہ وَ خاتم النبیّین-‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ-مطبوعہ ۱۹۰۱ء)
۱۸-’’ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء ہیں اور ہم فرشتوں اورمعجزات اور تمام عقائد اہلِ سنت کے قائل ہیں-‘‘ 
(الکتاب البرییّہؔ حاشیہ ص۸۳ مطبوعہ ۱۸۹۸ء)
 ۱۹-’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین ہیں-اور قرآن شریف خاتم الکتب-‘‘
(پیغام امامؔ ص۳۰ لیکچر ۱۹۰۵ء)
۲۰-’’مجھ پر اور میری جماعت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیّین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے-ہم جس قوت‘ یقین ومعرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصّہ بھی لوگ نہیں مانتے-‘‘
(الحکم ؔ۱۷؍مارچ ۱۹۰۵ء)
۲۱-’’قرآن میں آنحضرت کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا-‘‘
(اربعینؔنمبر ۲۴ مطبوعہ ۱۹۰۰ء)
۲۲-’’پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سیّد ومولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے-‘‘
(لیکچر لاہور ص۳۱ مطبوعہ ۱۹۰۴ء)
۲۳-’’ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین ہیں-‘‘
(حقیقۃ الوحیؔص۶۴ مطبوعہ ۱۹۰۷ء)
۲۴-’’تمام تعریفیں خدا کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا پروردگار ہے اور درود وسلام اس کے نبیوں کے سردارؐ پر جو ااس کے دوستوں میں سے برگزیدہ اور اس کی مخلوقات میں سے پسندیدہ اور خاتم الانبیاء اور فخر الانبیاء اور فخرالاملیاء ہے-ہمارا سیّد‘ہمارا امام‘ ہمارا نبی‘ محمد مصطفیٰؐ- جو زمین کے باشندوں کے دل روشن کرنے کے لئے خدا کا آفتاب ہے-‘‘
ٰ(نور الحقؔ ص ۱ مطبوعہ ۱۸۹۴ء)
۲۵-’’مجھے اللہ جل شانہ‘ کی قسم ہے کہ مَیں کافرنہیں-لا اِلٰہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پر میرا عقیدہ ہے اور وَلکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیّین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے-‘‘
(کرامات الصّادقین ص۲۵ مطبوعہ ۱۸۹۴ء)    



مکمل تحریر >>

دلچسب مکالمہ - مسلمان کون اور کافر کون ؟




دلچسب مکالمہ  از جناب ارشاد احمد صاحب شکیب

چند دن ہوئے لائلپور میں میری ملاقات ایک ایسے صاحب سے ہوئی جو سابقہ جماعت اسلامی کے بڑے سرگرم اور فعال کارکن رہ چکے ہیں ۔ رسمی تعارف کے بعد احمدیت پر گفتگو شروع ہوگئی۔ انہوں نے یکدم احمدیت پر چند ایک اعتراضات کر ڈالے ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ قبل اس کے کہ میں آپ کے اعتراضات کا جواب دوں مجھے آپ یہ بتادیں کہ آپ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں یا کافر؟
جواب ۔ کافر
سوال ۔ اچھا تو بتائیے کہ آپ خود کیا ہیں؟ہندو ہیں ،سکھ ہیں، عیسائی ہیں، یہودی ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ؟
جواب ۔ انہوں نے دیکھاکہ میں نے سوال میں اور سب کچھ کہہ ڈالا مگر مسلمان نہیںکہا ۔ تو وہ بڑے تلملائے اور تلملاہٹ کو چھپاتے ہوئے فرمانے لگے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ 
سوال۔ میں کیسے تسلیم کروں کہ آپ مسلمان ہیں آپ کی پیشانی پر تو لکھا ہوا نہیں کہ آپ مسلمان ہیں آخر ایک کافر کو آپ کے مسلمان ہونے کا کیسے پتہ چلے گا ۔؟
جواب۔ میں اسلام کا پیرو ہوں ،کلمہ پڑھتا ہوں ، قرآن مجید پڑھتا ہوں ،قرآن کو خدا کی الہامی کتاب اور آخری شریعت مانتا ہوں ۔ اور آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتا ہوں ۔ اس لئے مسلمان ہوں ۔
میں ۔ کیا ان باتوں کے ماننے سے کوئی شخص مسلمان ہو جاتا ہے ؟
وہ ۔ ضرور ہو جاتا ہے 
میں ۔ میں تو نہیں مانتا کہ ان باتوں کے ماننے سے کوئی شخص مسلمان ہو جاتا ہے یہ سب تو پرانی باتیں ہیںکوئی نئی بات بتائیں ؟
وہ ۔ میں کون سی نئی بات بتائوں گا میں تو وہی باتیں بتائوں گا جو اسلام نے شرائط بتائی ہیں ۔ 
میں ۔ اچھا تو اتنااور بتا دیجئے کہ ان شرائط کوپورا کر کے فقط آپ ہی مسلمان ہو سکتے ہیں یا کوئی اور بھی کوئی دوسرا شخص بھی ہو سکتا ہے ؟
وہ ۔ جو بھی ان شرائط کو پورا کر ے وہ مسلمان ہو سکتا ہے ۔ 
میں ۔ تو لیجئے پھر مجھے مسلمان کر لیجئے میں آپ کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں ان سب باتوں پر ایمان لاتاہوں ؟
وہ ۔ کیا آپ آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین بھی مانتے ہیں ۔
میں ۔ جی ہاں ۔ضرور مانتا ہوں یہ تو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے ۔ 
وہ ۔ لیکن آپ لوگ خاتم النبیین کے ان معنوں پر ایمان نہیں لاتے جو ہمارے علماء کرتے ہیں؟۔
میں ۔ یہ بتائیے کہ قرآن مجید عربی میں نازل ہوا ہے یا اُردو میں ؟
وہ ۔ عربی میں 
میں ۔ توپھر ہمیں قرآن مجید کے عربی الفاظ پر ایمان لانا چاہیے یا آپ کے علماء کے تراجم پر؟
اس پروہ لاجواب ہو گئے اور کہنے لگے کہ بھئی مان گئے کہ مرزائیوں سے دلائل کے ساتھ بات کرنا بہت مشکل ہے ۔ 
دو چار روز کے وقفہ کے بعد پھر انہی صاحب سے احمدیت کے موضوع پر گفتگو چھڑ گئی ۔ اور میں نے پوچھا کہ اب تو آپ ہمیں مسلمان سمجھنے لگ گئے ہوں گے؟ اس دوران ذرا ان سے بے تکلفی پیدا ہو چکی تھی ۔ اس لئے سنجیدہ منہ بنا کر فرمانے لگے کہ نہیں جناب ہم آپ کو اب بھی کافر ہی سمجھتے ہیں۔
میں ۔ ٹھیک ہے کہ آپ رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں جو چاہیں سمجھیں لیکن مجھے اتنا بتا دیں کہ کسی کو مسلمان یا کافر قرار دینا حق کس کا ہے؟
وہ ۔ علمائے اُمت کا 
میں ۔ اچھا تو ہمیں اپنے مسلمان ہونے کا ایک سو ایک مرتبہ یقین ہے ۔ اور آپ کے کافر ہونے کا ایک سو دو دفعہ ۔
وہ ۔ (حیران ہو کر) یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
اس پر میں نے ایک ایسا پمفلٹ نکال کر اُن کے ہاتھ میں تھمادیا جس میں ۲۵ علماء نے مودودی صاحب کو ضال ، مضل، اور دجال قرار دیا ہے ۔ اورکہا کہ آپ چونکہ کسی کو کافر یا مسلمان ہونے کا حق علمائے امت کو دیتے ہیں تو علمائے اُمت کی رائے تو آپ کے متعلق یہ ہے ۔ باقی رہا ہمارا معاملہ تو ہمارے نزدیک یہ حق صرف خد ا اور اس کے رسول ؐ کا ہے اس لئے اپنے مسلمان ہونے کا ہمیں کامل یقین ہے ۔ 
اس دن سے انہوں نے کافر کہنا ترک کر دیا ہے ۔ 
( ماہنامہ الفرقان ، فروری 1961 ، صفحہ 41 )

مکمل تحریر >>

لفظی الہام اور علامہ اقبال





از مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعۃ المبشرین

مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے ایک کتاب ذکر اقبال کے نام سے شائع کی ہے جسے بزم اقبال نے شائع کیا ہے اس کے صفحہ ۲۴۴ پر الہام لفظی کے عنوان کے ماتحت سالک صاحب لکھتے ہیں :۔
’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے فارمن کرسچن لاہور کا سالانہ اجلاس تھا جس میں علامہ بھی مدعو تھے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ سے کہاکہ آپ چائے اور اجلاس سے فارغ ہونے کے بعد ذرا ٹھہرئیے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ڈاکٹرلوکس تقریب سے فارغ ہونے  کے بعد علامہ کے پاس آئے اور سوال کیا کہ آیاآپ کے نزدیک آپ کے نبی ؐ پر قرآن مجید کا مفہوم نازل ہوا تھا جسے و ہ آپ الفا ظ میں بیان کر دیتے تھے یا الفاظ بھی نازل ہوتے تھے؟ علامہ نے صاف جواب دیا کہ میرے نزدیک قرآن کی عبارت عربی زبان میں آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھی یعنی قرآن کے مطالب ہی نہیں بلکہ الفاظ بھی الہامی ہیں ڈاکٹر لوکس نے اس پر بہت تعجب کا اظہار کیا اورکہا کہ میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جیسا اعلیٰ پایہ کا فلسفی Verbal Inspiration(الہام لفظی) پر کیونکر اعتقاد رکھ سکتا ہے علامہ نے ارشاد فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب میں اس معاملہ میں کسی دلیل کا محتاج نہیں مجھے تو خود اس کا تجربہ حاصل ہے میں پیغمر نہیں ہوں محض شاعر ہوں جب مجھ پر شعرکہنے کی کیفت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلاے شعر اُترنے لگتے ہیں اور میں انہیں بعینہ نقل کر لیتاہوں بارہا ایسا ہوا ہے کہ میں نے ان شعروں میں کوئی ترمیم کرنی چاہی لیکن میری کوئی ترمیم اصل اور نازل شدہ شعرمیں بہت ہی ہیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں رکھا ۔ جس حالت میں ایک شاعرپر پورا شعر نازل ہو سکتا ہے تو اس میں کیا مقام تعجب ہے کہ آنحضرت صلعم  پر قرآن کی ساری عبارت لفظ بہ لفظ نازل ہوتی تھی؟ اس پر ڈاکٹر لوکس لاجواب ہوگئے۔

سوال کیا گیا کہ آیا آپ پر شعر کہنے کی کیفت اکثر طاری ہوتی ہے ؟فرمایا نہیں ایسی کیفیت سال بھر میں دو تین دفعہ ہوتی ہے لیکن اس وقت مضامین کے ہجوم کی کیفیت وہی ہوتی ہے جیسے کسی ماہی گیر کے جال میں اس کثرت سے مچھلیاں پھنس جائیں کہ وہ پریشان ہو جائے کہ کس کو پکڑوں اور کس کو چھوڑدوں۔
پھر فرما یا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل مدت کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس سے پہلی کیفت کے آخری لمحات میں جو اشعار کہے تھے ان کی طرف ذہن خود بخود منقتل ہو جاتا ہے گویا یہ فیضان کے لمحے ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو میں ایک قسم کی تکان ، عصبی اضمحلال، اور پژمردگی سی محسوس کرتاہوں. ‘‘

میں نے بغیر کسی تبصرہ کے یہ اقتباس نقل کیا ہے لیکن فقیہان شہر یہ پوچھنے کی جرات کرتاہوں 
۱۔الہام و وحی جاری ہے یا بند؟
۲۔ یہ قسم جس کے الفاظ بھی خدا کے ہوں (جو علامہ اقبال کو ہوئی تھی) آپ کی اصطلاح میں وحی کی کونسی قسم ہے ؟
( ماہنامہ الفرقان ، مارچ 1956 ، صفحہ 34 )






مکمل تحریر >>

Saturday, 23 April 2016

تذکرہ شعرائے پنجاب میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ذکر

تذکرہ شعرائے پنجاب ایک ایسی فارسی کتاب ہے جسے خواجہ عبدالرشید صاحب نے نہایت محنت سے ترتیب دیا ۔ پنجاب کے فارسی شعراء میں فاضل مؤلف نے سیّدناحضر ت مسیح موعود علیہ السلام  حضرت مولاناعبید اللہ صاحب بسمل ؓمرحوم ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ،محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہرطال عمرہ، اور محترم جناب حکیم عبد الرحمن صاحب خاکیؔ طال عمرہ کابھی ذکر فرمایاہے مؤلف نے سلسلہ احمدیہ اور احمدی شعراء کے کلام سے جو مؤثر نمونے فارسی اشعار کے پیش فرمائے ہیں ان سے عیاں ہے کہ یہ بزرگ کس طرح توحید الہی ، نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حقائق قرآنیہ اور عشق و محبت اسلام کے چلتے پھرتے نمونے تھے۔ درحقیقت ایسے ہی شعراء کی تعریف میں قرآن پاک نے  وَ ذَکَرُوااللہ کَثِیْراً فرمایاہے۔
فی الحال ہم اس کتاب کا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے متعلق اقتباس پیش کرتے ہیں ۔۔
مصنف '' میرزا غلام احمد قادیانی '' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں ۔۔
’’اوردر دہی کہ باسم قادیان معروف ودرشہر معوف گورداسپور واقع است بدنیا آمدند۔ سال تولدوی ۱۸۳۵است ۔اززمانِ کو دکی نسبت بہ دینِ مبین اسلام علاقمند بودو مطالعات عمیقی رادر پیرامون این مذہب آغاز نمود درآن زمان ہندو ھاو مسیحی ھا برعلیہ اسلام تبلیگ نمودہ ۔ مردم راازجادہ حق منحرف می گردا نید ند ، میرزا مذکور در جواب تبلغات ضد اسلامی قیام نمودہ و باد لایلی بسیار محکم وقاطع دشمنان اسلام را شکست داد۔تعداد تصنیفات دی در حدود ہشتاد جلد است۔ زوق شعری ہم داشت و کتابی باسم درثمین بزبان فارسی چاپ کرد۔ درزیر انتخابی ازآن د ادہ شدہ است۔‘‘
( تذکرہ شعرائے پنجاب ، ص 260 تا 261 )
ترجمہ : آپ ضلع گورداسپور کے قادیان نامی گائوں میں ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ آپ بچپن ہی سے دین مبین اسلام سے محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسلام کا بنظر غائر مطالعہ شروع کر دیا۔ان دنوں ہندو اور عیسائی اسلام کیخلاف پروپیگنڈا کرکے عوام کو راہِ حق سے منحرف کررہے تھے(حضرت)میرزا صاحب موصوف اسلام کے خلاف اعتراضات کے جواب کے لئے قمر بستہ ہوئے اور نہایت محکم اور قاطع دلائل کے ساتھ دشمنان اسلام کوشکست دی ۔ آپ کی تصنیفات کی تعداد۸۰ کے لگ بھگ ہے۔ ذوق شعری بھی رکھتے  تھے۔ فارسی میں درثمین نامی کتاب شائع کی ۔ یہ کلام اسی کتاب سے منتخب ہے۔

اس سے آگے فاضل مصنف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی کلام سے چند اشعار پیش کیے ہیں ۔








مکمل تحریر >>

Tuesday, 1 March 2016

مقطعاتِ قرآنی




سورۃ یونس کی تفسیر کرتے ہوئے  سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود، خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مقطعات قرآنی پر درج ذیل لطیف نکات بیان فرمائے :
حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں۔ کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتا ہے۔ جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔ 
میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورت کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے۔ اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔ 
میں بتا چکا ہوں کہ میری تحقیق میں سورہ بقرہ سے لے کر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے۔ یہ سب سورتیں الٓم سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۂ بقرہ الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورہ آل عمران بھی الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورہ نساء، سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروفِ مقطعات سے خالی ہیں۔ اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ جن کی ابتداء الم سے ہوئی ہے۔ ان کے بعد سورۂ اعراف المٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الم موجود ہے۔
ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے۔ اس کے بعد سورہ انفال اور براءۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں۔ پس سورۂ براءۃ تک الم کا مضمون چلتا ہے۔ سورہ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لے جاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں صٓ کو بڑھادیا گیا ہے۔ 
سورہ یونس سے الم کی بجائے الر شروع ہو گیا ہے۔ الٓ تو وہی رہا اور مٓ کو بدل کر ر کر دیا۔ پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لے کر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لے کر سورہ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے۔ اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ الٓر یعنی انااللہ اری۔ میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں۔ اور تمام دنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رؤیت کی صفت پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔ 
میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے۔ مگر ان لوگوں کی تردید خود حروفِ مقطعات ہی کر رہے ہیں۔ چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈال کر یہ کہتے ہیں کہ کہاں کہاں حروف مقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ سورہ بقرہ الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورۂ آل عمران الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورۂ نساء سورۂ مائدہ سورۂ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف المص سے شروع ہوتی ہے۔ اور سورہ انفال اور براءۃ خالی ہیں۔ ان کے بعد سورۂ یونس، سورۂ ہود، سورۂ یوسف الر سے شروع ہوتی ہیں۔ اور سورۂ رعد میں م بڑھا کر الٓمٓرٰ کر دیا گیا ہے۔ لیکن جہاں المصٓ میں صٓ آخر میں رکھا یہاں مٓ کو رٰ سے پہلے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی مقصد کو مدنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہئے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا راء کے بعد رکھا جاتا۔ میم کو الٓرٰ کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنی ہیں۔ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمٓ کی سورتیں ہیں اور اس کے بعد الٓرٰ کی تو صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو راء پر تقدم حاصل ہے۔ اور سورۂ رعد میں میم اور راء جب اکٹھے کر دیئے گئے ہیں تو میم کو راء سے پہلے رکھنا اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے۔ سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓرٰ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن نحل بنی اسرائیل اور کہف میں مقطعات استعمال نہیں ہوئے۔ اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کٓہٰیٰعٓصٓ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ سورۂ مریم کے بعد سورہ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انبیاء، حج، مومنون، نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں۔ آگے سورۂ شعراء طٰسٓمٓ سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھاء کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورۂ نمل ہے۔ جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں سے میم کو اڑا دیا گیا ہے۔ اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورہ قصص کی ابتداء پھر طٰسٓمٓ سے کی گئی ہے۔ گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورۂ عنکبوت کو پھر الٓمٓ سے شروع کیا گیا ہے اور دوبارہ علم الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے۔ (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کررہا لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورہ بقرہ سے الٓمٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمٓ کے مخاطب مومن ہیں۔) سورہ عنکبوت کے بعد سورہ روم، سورہ لقمان اور سورہ سجدہ کو بھی الٓمٓ سے شروع کیا گیا ہے۔ ان کے بعد سورہ احزاب، سبا، فاطر بغیر مقطعات کے ہیں۔ اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورہ یسٓ ہے۔ جس کو یس کے حروف سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورہ صافات بغیر مقطعات کے ہے۔ اس کے بعد سورہ صٓ حرف صٓ سے شروع کی گئی ہے۔ پھر سورۂ زمر حروف مقطعات سے خالی اور پہلی سورت کے تابع ہے۔ اس کے بعد سورہ مومن حٰمٓ سے شروع کی گئی ہے۔ اس کے بعد سورہ حم سجدہ کو بھی حٰمٓ سے شروع کیا گیا ہے۔ پھر سورہ شوریٰ کو بھی حٰمٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھر سورہ دخان، جاثیہ اور احقاف بھی حٰمٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بعد سورہ محمد، فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ سورہ قٓ صرف ق سے شروع ہوتی ہے۔ اور قرآن کریم کے آخر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے۔ 
یہ ترتیب بتارہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے۔ پہلے الٓمٓ آتا ہے۔ پھر الٓمٓصٓ آتا ہے۔ جس میں صٓ کی زیادتی کی جاتی ہے۔ پھر الٓمٓرٰٓ آتا ہے کہ جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے۔ پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کرکے طٰسٓمٓ کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے۔ اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا، کہیں زائد کر دیا جاتا، کہیں کم کر دیا جاتا۔ 
علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استدلال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب ان کی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہیں ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں۔ الٓمٓ کی سورتیں اکٹھی آگئی ہیں۔ الٓرٰ کی اکٹھی۔ طٰہٰ اور اس کے مشترکات کی اکٹھی۔ پھر الٓمٓ کی اکٹھی۔ حٰمٓ کی اکٹھی۔ اگر سورتیں ان کے حجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حروف مقطعات کے کچھ معنی ہیں۔ خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورت کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہوجانا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد سوم ، صفحہ ۷ تا ۱۰ )

مکمل تحریر >>