سوال۔ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے ساتھ احادیث میں کہیں مثیل کا لفظ دیکھا نہیں جاتا۔ یعنی یہ کسی جگہ نہیں لکھا کہ مثیل مسیح ابن مریم آوے گا بلکہ یہ لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم آوے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’اما الجواب۔ پس سوچنا چاہیئے کہ جب خدائے تعالیٰ نے آنے والے مثیل کا ابن مریم ہی نام رکھ دیا تو پھر وہ اس کو مثیل ابن مریم کر کے کیوں لکھتا۔ مثلاً تم سوچو کہ جو لوگ اپنی اولاد کے نام موسیٰ و داؤد وعیسیٰ وغیرہ رکھتے ہیں اگرچہ اُن کی غرض تو یہی ہوتی ہے کہ وہ نیکی اور خیر و برکت میں ان نبیوں کے مثیل ہو جائیں مگر پھر وہ اپنی اولاد کو اس طرح کر کے تو نہیں پکارتے کہ اے مثیل موسیٰ۔اے مثیل داؤد۔ اے مثیل عیسیٰ۔ بلکہ اصل نام ہی بطور تفاؤل پکارا جاتا ہے۔ پس کیا جو امر انسان محض تفاؤل کی راہ سے کر سکتا ہے وہ قادرمطلق نہیں کر سکتا ؟ کیا اس کو طاقت نہیں کہ ایک آدمی کی روحانی حالت کو ایک دوسرے آدمی کے مشابہ کرکے وہی نام اُس کا بھی رکھ دیوے؟ کیا اُس نے اسی روحانی حالت کی وجہ سے حضرت یحییٰ کا نام ایلیانہیں رکھ دیا تھا؟ کیا اسی روحانی مناسبت کی وجہ سے حضرت مسیح ابن مریم کا نام توریت پیدائش باب ٤٩ میں سیلا نہیں رکھا گیا اور سیلا یہودا بن یعقوب علیہ السلام کے پوتے کا نام تھا۔ یہود اکو اسی باب میں مسیح ابن مریم کے آنے کی ان لفظوں میں بشارت دی گئی کہ یہودا سے ریاست کا عصا جدا نہ ہو گا جبتک سیلا نہ آوے۔ یہ نہ کہا گیا کہ جب تک ابن مریم نہ آوے۔ چونکہ مسیح ابن مریم اُس خاندان سے پیداہونے کی وجہ سے یہوداکا پوتا ہی تھا اس وجہ سے اس کا نام سیلا ہی رکھ دیا گیا۔ اسی توریت پیدائش با ب ٤٨ آیت پندرہ ١٥ میں حضرت یعقوب کی یہ دعا ذکر کی ہے کہ اُس نے یوسف کے لئے برکت چاہی اور یوسف کے لڑکوں کے لئے دعاکرکے کہا کہ وہ خداجس نے ساری عمر آج کے دن تک میری پاسبانی کی اِن جوانوں کو برکت دےوے اور جو میرا اور میرے باپ دادوں ابراہام اور اسحاق کا نام ہے سو اُن کا رکھا جاوے۔پس اللہ جلّشانہُ کی اس عادت قدیمہ سے انکار نہیں ہو سکتاکہ وہ روحانی مناسبت کی وجہ سے جو ایک کا نام ہے وہ دوسرے کا رکھ دیتا ہے۔ ابراہیمی المشرب اس کے نزدیک ابراہیم ہے اور موسوی المشرب اس کے نزدیک موسیٰ ہے اور عیسوی المشرب اس کے نزدیک عیسیٰ ہے اور جو اِن تمام مشربوں سے حصہ رکھتا ہے وہ اِن تمام ناموں کا مصداق ہے۔ ہاں اگر کوئی امر بحث کے لائق ہے تو یہ ہے کہ ابن مریم کے لفظ کو اس کے ظاہری اور متبادر معنوں سے کیوں پھیراجائے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بوجہ قیام قرینہ قویہ کے کیونکہ قرآن کریم اورحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوضاحت ناطق ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ جاں بحق ہوا اور خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھایا گیا اور اپنے بھائیوں میں جا ملا۔ اور رسول مقبول نبی آخر الزمان نے اپنی معراج کی رات میں یحییٰ نبی شہید کے ساتھ دوسرے آسمان میں اُس کو دیکھا یعنی گذشتہ اور وفات یافتہ لوگوں کی جماعت میں اُس کو پایا۔ قرآن کریم و احادیث صحیحہ یہ امید اور بشارت بتواتر دے رہی ہیں کہ مثیل ابن مریم اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے مگر کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ کوئی گذشتہ اور وفات یافتہ نبی بھی پھر دنیامیں آجائے گا۔ لہٰذا یہ بات ببداہت ثابت ہے کہ ابن مریم سے وہ ابن مریم رسول اللہ مراد نہیں ہے جو فوت ہو چکا اور فوت شدہ جماعت میں جاملا اور خدائے تعالیٰ کی اس حکمت عجیبہ پر بھی نظر ڈالو کہ اُس نے آج سے قریبًا دس برس پہلے اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا اور بتوفیق و فضل خود براہین میں چھپواکر ایک عالم میں اس نام کو مشہور کر دیا۔
اب ایک مدّت دراز کے بعد اپنے خاص الہام سے ظاہرفرمایا کہ یہ وہی عیسیٰ ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ برابر دس ١٠ برس تک لوگ اس نام کو کتاب براہین میں پڑھتے رہے اور خدائے تعالیٰ نے دس برس تک اس دوسرے الہام کو جو پہلے الہام کے لئے بطور تشریح تھا پوشیدہ رکھا تا اس کے پُرحکمت کام ایک غور کرنے والے کی نظر میں بناوٹ سے مصفّٰی ثابت ہوجائیں۔ کیونکہ بناوٹ کا سلسلہ اس قدر لمبا نہیں ہو سکتاجس کی بنیاد ایک طول طویل مدّت سے پہلے ہی رکھی گئی ہو۔ فتدبروا یا اولوالابصار۔‘‘
اب ایک مدّت دراز کے بعد اپنے خاص الہام سے ظاہرفرمایا کہ یہ وہی عیسیٰ ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ برابر دس ١٠ برس تک لوگ اس نام کو کتاب براہین میں پڑھتے رہے اور خدائے تعالیٰ نے دس برس تک اس دوسرے الہام کو جو پہلے الہام کے لئے بطور تشریح تھا پوشیدہ رکھا تا اس کے پُرحکمت کام ایک غور کرنے والے کی نظر میں بناوٹ سے مصفّٰی ثابت ہوجائیں۔ کیونکہ بناوٹ کا سلسلہ اس قدر لمبا نہیں ہو سکتاجس کی بنیاد ایک طول طویل مدّت سے پہلے ہی رکھی گئی ہو۔ فتدبروا یا اولوالابصار۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 313تا315)
1 comments:
الحمد للہ ۔ جزاکم اللہ کافی و شافی جواب ہے
Post a Comment