Thursday, 15 January 2015

قرآن میں ہے کہ دین مکمل ہو چکا پھر کسی مسیح یا مہدی کی امت محمدیہ کو کیا ضرورت ہے ؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’افسوس کہ معترض نے ایسا خیال کرکے خود قرآن کریم پر اعتراض کیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ ابھی گذر چکا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے وقتوں میں دین استحکام پکڑے گا اور تزلزل اور تذبذب دور ہوگا۔ اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا پھر اگر تکمیل دین کے بعد کوئی بھی کارروائی درست نہیں تو بقول معترض کے جو تیس سال کی خلافت ہے وہ بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ جب دین کامل ہوچکا تو پھر کسی دوسرے کی ضرورت نہیں۔ لیکن افسوس کہ معترض بے خبر نے ناحق آیت{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ} (المائدة 4)کو پیش کردیا۔ ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گذرنے کے بعد جب پاک تعلیم پرخیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے۔ تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مجدد اور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں۔ نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں اور معترض کا یہ خیال کہ ان کی ضرورت ہی کیا ہے صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ معترض کو اپنے دین کی پرواہ نہیں اور کبھی اس نے غور نہیں کی کہ اسلام کیا چیز ہے اور اسلام کی ترقی کس کو کہتے ہیں اور حقیقی ترقی کیونکر اور کن راہوں سے ہوسکتی ہے اور کس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مسلمان ہے یہی وجہ ہے کہ معترض صاحب اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ قرآن موجود ہے اور علماء موجود ہیں اور خود بخود اکثر لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف حرکت ہے پھر کسی مجدد کی کیا ضرورت ہے لیکن افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی مرسل تھے اور ان کی توریت بنی اسرائیل کی تعلیم کے لئے کامل تھی اور جس طرح قرآن کریم میں آیت{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ} (المائدة 4)ہے اسی طرح توریت میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دی گئی ہے جس کا نام توریت ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی توریت کی یہی تعریف ہے لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہو گئی ہو ان کو پھر زندہ ایمان بخشیں چنانچہ اللہ جلّ شانہٗ   خود قرآن کریم میں فرماتا ہے {وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ} (البقرة 88)یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تعلیم کی تائید اور تصدیق کریں اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے {ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى } (المؤمنون 45) یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے۔ پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائبل شہادت دے رہی ہے۔
    اس کثرت ارسال رسل میں اصل بھید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عہد موکد ہوچکا ہے کہ جو اس کی سچی کتاب کا انکار کرے تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے{وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ } (البقرة 40)یعنی جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اب جب کہ سزائے انکار کتاب الٰہی میں ایسی سخت تھی اور دوسری طرف یہ مسئلہ نبوت اور وحی الٰہی کا نہایت دقیق تھا بلکہ خود خدا تعالیٰ کا وجود بھی ایسا دقیق در دقیق تھا کہ جب تک انسان کی آنکھ خدا داد نور سے منور نہ ہو ہرگز ممکن نہ تھا کہ سچی اور پاک معرفت اس کی حاصل ہوسکے چہ جائیکہ اس کے رسولوں کی معرفت اور اسکی کتاب کی معرفت حاصل ہو۔ اس لئے رحمانیت الٰہی نے تقاضا کیا کہ اندھی اور نابینا مخلوق کی بہت ہی مدد کی جائے اور صرف اس پر اکتفا نہ کیا جائے کہ ایک مرتبہ رسول اور کتاب بھیج کر پھر باوجود امتدادازمنہ طویلہ کے ان عقائد کے انکار کی وجہ سے جن کو بعد میں آنے والے زیادہ اس سے سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ایک پاک اور عمدہ منقولات ہیں ہمیشہ کی جہنم میں منکروں کو ڈال دیا جائے اور درحقیقت سوچنے والے کے لئے یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ وہ خدا جس کا نام رحمن اور رحیم ہے اتنی بڑی سزا دینے کے لئے کیونکر یہ قانون اختیار کرسکتا ہے کہ بغیر پورے طور پر اتمام حجت کے مختلف بلاد کے ایسے لوگوں کو جنہوں نے صدہا برسوں کے بعد قرآن اور رسول کا نام سنا اور پھر وہ عربی سمجھ نہیں سکتے۔ قرآن کی خوبیوں کو دیکھ نہیں سکتے دائمی جہنم میں ڈال دے اور کس انسان کی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بغیر اس کے کہ قرآن کریم کا منجاب اللہ ہونا اس پر ثابت کیا جائے یوں ہی اس پر چھری پھیر دی جائے پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلی طور پر انوار نبوت پاکر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہریک زمانہ کے لئے اتمام حجت بھی مختلف رنگوں سے ہوا کرتا ہے اور مجدد وقت ان قوتوں اور ملکوں اور کمالات کے ساتھ آتا ہے جو موجودہ مفاسد کا اصلاح پانا ان کمالات پر موقوف ہوتا ہے سو ہمیشہ خدا تعالیٰ اسی طرح کرتا رہے گا جب تک کہ اس کو منظور ہے کہ آثار رشد اور اصلاح کے دنیا میں باقی رہیں اور یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ نظائر متواترہ اس کے شاہد ہیں اور مختلف بلاد کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو چھوڑ کر اگر صرف بنی اسرائیل کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں پر ہی نظر ڈالی جائے تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ۱۴۰۰ سو برس کے عرصہ میں یعنی حضرت موسیٰ سے حضرت مسیح تک ہزارہا نبی اور محدث ان میں پیدا ہوئے کہ جو خادموں کی طرح کمر بستہ ہوکر توریت کی خدمت میں مصروف رہے۔ چنانچہ ان تمام بیانات پر قرآن شاہد ہے اور بائیبل شہادت دے رہی ہے اور وہ نبی کوئی نئی کتاب نہیں لاتے تھے کوئی نیا دین نہیں سکھاتے تھے صرف توریت کے خادم تھے اور جب بنی اسرائیل میں دہریت اور بے ایمانی اور بدچلنی اور سنگدلی پھیل جاتی تھی تو ایسے وقتوں میں وہ ظہور کرتے تھے۔ اب کوئی سوچنے والا سوچے کہ جس حالت میں موسیٰؑ کی ایک محدود شریعت کے لئے جو زمین کی تمام قوموں کیلئے نہیں تھی اور نہ قیامت تک اس کا دامن پھیلا ہوا تھا خدا تعالیٰ نے یہ احتیاطیں کیں کہ ہزارہا نبی اس شریعت کی تجدید کیلئے بھیجے اور بارہا آنے والے نبیوں نے ایسے نشان دکھلائے کہ گویا بنی اسرائیل نے نئے سرے خدا کو دیکھ لیا تو پھر یہ امت جو خیرالا مم کہلاتی ہے اور خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے لٹک رہی ہے کیونکر ایسی بدقسمت سمجھی جائے کہ خدا تعالیٰ نے صرف تیس برس اس کی طرف نظر رحمت کر کے اور آسمانی انوار دکھلا کر پھر اس سے منہ پھیر لیا اور پھر اس امت پر اپنے نبی کریم کی مفارقت میں صدہا برس گذرے اور ہزارہا طور کے فتنے پڑے اور بڑے بڑے زلزلے آئے اور انواع و اقسام کی دجالیت پھیلی اور ایک جہان نے دین متین پر حملے کئے اور تمام برکات اور معجزات سے انکار کیا گیا اور مقبول کونا مقبول ٹھہرایا گیا لیکن خداتعالیٰ نے پھر کبھی نظر اٹھا کر اس امت کی طرف نہ دیکھا اور اس کو کبھی اس امت پر رحم نہ آیا اور کبھی اس کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ لوگ بھی تو بنی اسرائیل کی طرح انسان ضعیف البنیان ہیں اور یہودیوں کی طرح ان کے پودے بھی آسمانی آبپاشی کے ہمیشہ محتاج ہیں کیا اس کریم خدا سے ایسا ہوسکتا ہے جس نے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ کے مفاسد کے دور کرنے کے لئے بھیجا تھا کیا ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ پہلی امتوں پر تو خدا تعالیٰ کا رحم تھا اس لئے اس نے توریت کو بھیج کر پھر ہزارہا رسول اور محدث توریت کی تائید کے لئے اور دلوں کو بار بار زندہ کرنے کے لئے بھیجے لیکن یہ امت مورد غضب تھی اس لئے اس نے قرآن کریم کو نازل کرکے ان سب باتوں کو بھلا دیا اور ہمیشہ کے لئے علماء کو ان کی عقل اور اجتہاد پر چھوڑ دیا اور حضرت موسیٰ کی نسبت تو صاف فرمایا{وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا۔ رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا } (النساء۔ 165-166)یعنی خدا موسیٰ سے ہمکلام ہوا اور اس کی تائید اور تصدیق کے لئے رسول بھیجے جو مبشر اور منذر تھے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہے اور نبیوں کا مسلسل گروہ دیکھ کر توریت پر دلی صدق سے ایمان لاویں۔ اور فرمایا{وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ} (النساء 165)یعنی ہم نے بہت سے رسول بھیجے اور بعض کا تو ہم نے ذکر کیا اور بعض کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن دین اسلام کے طالبوں کے لئے وہ انتظام نہ کیا گویا جو رحمت اور عنایت باری حضرت موسیٰ کی قوم پر تھی وہ اس امت پر نہیں ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہمیشہ امتداد زمانہ کے بعد پہلے معجزات اور کرامات قصہ کے رنگ میں ہوجاتے ہیں اور پھر آنے والی نسلیں اپنے گروہ کو ہریک امر خارق عادت سے بے بہرہ دیکھ کر آخر گذشتہ معجزات کی نسبت شک پیدا کرتی ہیں پھر جس حالت میں بنی اسرائیل کے ہزارہا انبیاء کا نمونہ آنکھوں کے سامنے ہے تو اس سے اور بھی بیدلی اس امت کو پیدا ہوگی اور اپنے تئیں بدقسمت پاکر بنی اسرائیل کو رشک کی نگہہ سے دیکھیں گے یا بدخیالات میں گرفتار ہوکر ان کے قصوں کو بھی صرف افسانجات خیال کریں گے‘‘۔
            (شہادت القرآن ۔روحانی خزائن جلد6صفحہ 339تا344)

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

ماشا ء اللہ بہت عمدہ کولیکشن ہے جس میں ہر لحاظ سے مکمل جواب دیا گیا ہے ۔ جزاک اللہ احسن الجزاء