Monday, 9 May 2016

قائلینِ وفاتِ مسیح





۱۔ مشہور و معروف بزرگ مالکی مسلک کے پیشوا حضرت امام مالک ؒ (۹۰ھ تا۱۷۹ھ)کے متعلق لکھا ہے:
’’وَالْاَکْثرُ ان عیسٰی لم یَمُت وقال مالک مَات‘‘
(مجمع بحار الانوار صفحہ ۲۸۶ از علامہ شیخ محمد طاہر زیر مادہ حکم مطبع لمنشی نول کشور)
یعنی اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے لیکن حضرت امام مالکؒ کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
۲۔ رئیس المحدثین حضرت علامہ ابن قیم متوفی (۷۵۱ھ) ’’زاد المعاد‘‘ میں جسمانی رفع کے عقیدے کا رد کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:۔
’’وامّا ما یُذکر عن المسِیح انہ رفع الی السّماء ولہ ثلاثۃٌ وثلاثون سنۃً فھذا لا یعرف لہٗ اثر متصل یجِب المصِیر الیہ‘‘
(زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد الجزء الاول از امام علامہ شمس الدین ابی عبداللہ محمد بن عبدالملک المشہور بابن قیم صفحہ۲۰ طبع بالمطبعۃ المیمنیۃ بمصر)
ترجمہ:’’وہ جومسیح علیہ السلام کے متعلق روایت ہے کہ جب انہیں آسمان پر اٹھایا گیا تو ان کی عمر تینتیس برس کی تھی، تو اس کے متعلق کوئی متصل سند کی حدیث نہیں ملتی کہ جس پر اعتماد کی جا سکے۔‘‘
(ترجمہ از سید رئیس احمد جعفری زادالمعاد مترجم جلد اول ۔ نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی ۔ دسمبر۱۹۸۶ء)
اسی کتاب میں دوسری جگہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:۔
’’فالانبیائُ انّما اسْتقرّت ارواحُھم ھناک بعد مفارِقۃِ الابدانِ‘‘
(زاد المعاد الجزء الاول صفحہ۳۰۴)
یعنی معراج کی رات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنیاء سے ملاقات کی تو یہ ان انبیاء کی روحیں تھیں جنہوں نے جسم عنصری سے جدا ہو کر آسمانوں میں قرار پکڑا تھا۔
اسی طرح علامہ ابن قیم اپنی کتاب ’’مدارج السالکین ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ولو کان موسٰی وعیسٰی علیھماالسلام حیَّیْنِ لکانا من اَتْبَاعِہ‘‘
(مدارج السالکین الجزء الثانی صفحہ۴۹۶- لابن قیم (۶۹۱تا ۷۵۱ھ ) دارالکتب العلمیۃ بیروت ۔ لبنان ۔ الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۰۸ھ ۔ ۱۹۸۸ء)
اور اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو لازما ًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے۔
۳۔ ساتویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ صوفی، الشیخ الاکبر العارف باللہ مصنف’’فتوحات مکیہ(متوفی ۶۳۸ھ)‘ ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔
’’رَفْعُ عیسیٰ  علیہ السلام اتِّصالُ روحِہ عند المُفارقۃِ عن العالم السّفلِی بالعالم العَلویِّ‘‘
(تفسیر القرآن الکریم للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین ابن عربیؒ ۔ المتوفی سنۃ ۶۳۸ھ ۔ تحقیق وتقدیم الدکتور مصطفی غالب۔ المجلد الاول صفحہ ۲۹۶ زیر آیت بل رفعہ اللہ الیہ)
یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع دراصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے۔
پھر اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔
’’وجب نُزولُہ فی آخرِالزّمان بتعلّقہ ببدنٍ آخَر‘‘
(تفسیر ابن عربی حوالہ مذکور)
یعنی آپؑ کا نزول آخری زمانے میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق پکڑکر ہونا ضروری ہے۔ گویا وہ اسرائیلی مسیح کی آمد کے نہیں بلکہ غیر اسرائیلی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔
۴۔پانچویں صدی کے مجدد، مشہور و معروف عالم دین، بلند پایہ محدث اور فقیہہ علامہ ابن حزم (متوفی۴۵۶ھ) اپنی کتاب ’’المحلّی‘‘ میں وفات مسیح کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’وان عیسٰی علیہ السلام لم یُقْتَل ولم یُصْلب ولکن توفاہ اللہ عزوجل ثم رفعہ الیہ ۔ وقال عزوجل (وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ) وقال تعالیٰ(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) وقال تعالیٰ عنہ انہ قال (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ  کُلِّ شَیْٔ  قَدِیْرٌ) وقال تعالیٰ (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا ) فالوفاۃ قسمان : نوم، وموت فقط، ولم یرد عیسیٰ  علیہ السلام بقولہ (فلما توفیتنی)وفاۃ النوم فصح انہ انما عنی وفاۃ الموت‘‘۔
(المحلّی لابی محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم المتوفی سنۃ ۴۵۶ھ۔ الجزء الاول صفحہ۲۳ مسئلہ نمبر۴۱)
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ قتل ہوئے اور نہ صلیب پر مارے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی اور پھر اپنے حضور رفعت بخشی۔ اور خدائے عزوجل کے قرآن مجید میں یہ فرمان ہیں  (وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ)(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ  کُلِّ شَیْٔ  قَدِیْرٌ) (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا ) وفات کی فقط دو اقسام ہیں: نیند اور موت(اس کے علاوہ اور کوئی قسم بیان نہیں ہے۔) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول فلما توفیتنیمیںنیند مراد نہیں ہے۔ پس واضح ہوتا ہے کہ یہاں صرف طبعی موت مراد ہے۔
علامہ ابن حزم اسی کتاب کے مسئلہ نمبر ۴۳ میں واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات جن انبیاء سے ملاقات کی تھی، یہ ان کی روحیں تھیں نہ کہ مادی اجسام، چنانچہ فرماتے ہیں:۔
’’ففِی ھذاالْخبر مکانُ الارْواحِ وان ارواحُ الانْبِیائِ فی الجنّۃ‘‘
(المحلّی لابن حزم صفحہ ۲۵ مسئلہ نمبر ۴۳)
یعنی معراج والی حدیث میں ارواح کے ساتھ ملاقات کرکے روحوں کی جگہ کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ یقیناانبیاء کی روحیں جنت میں ہیں۔
اسی طرح حضرت امام ابن حزم ؒ کے بارے میں حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ نے لکھا ہے :۔
’’وتمسّک ابن حزم بظاھر الآیۃ وقال بمَوتہ۔‘‘
(حاشیہ بین السطور جلالین مع کمالین صفحہ۱۰۹ زیر آیت فلما توفیتنی)
یعنی امام ابن حزم نے اس آیت کو ظاہر پر حمل کیا ہے اور توفی کا معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت بیان فرمایا ہے۔
۵۔علامہ ابن الوردی فرماتے ہیں:۔
’’وقالت فِرقۃٌ نزولُ عیسیٰ  خروجُ رجلٍ یَشبہُ عیسیٰ  فی الفضلِ والشّرفِ کما یُقال لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ ملَک وللشریر شیطَانٌ تشبیھا بھما ولا یُراد الاعیانُ ‘‘
(خریدۃ العجائب وفریدۃ الغرائب صفحہ۲۶۳ تالیف سراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی (۶۸۹ھ تا۷۴۹ھ ) الطبعۃ الثانیۃ طبع بمطبعۃ بمصر زیر عنوان ذکر نزول عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام )
اور ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسیٰ سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو فضیلت اور شرف میں عیسیٰ سے مشابہ ہو ۔ اور جس طرح اچھے آدمی کو فرشتہ اور برے کو شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد فرشتہ وشیطان نہیں بلکہ ان سے مشابہت ہوتی ہے۔
علامہ ابن الوردی صاحب ، خود مفتی صاحب کی طرح حیات مسیح اور ان کے دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل ہیں اس لیے انہوں نے خود اس قول کی تصدیق نہیں کی لیکن پھر بھی وہ اس امر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مسیح ناصری کی وفات اور مثیل مسیح کا عقیدہ ان کے زمانے میں امت میں موجود تھا۔
۶۔مشہور عالم دین شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ’’اقتباس الانوار‘‘(تالیف۱۱۳۰ھ)میں لکھتے ہیں:۔
’’ایک فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی آخرالزمان حضرت عیسیٰ بن مریم ہوںگے‘‘
(اقتباس الانوار صفحہ ۱۶۶ از شیخ محمد اکرم قدوسیؒ مترجم کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری۔(اشاعت دوم ۱۴۰۹ھ))
شیخ محمد اکرم صاحب کا چونکہ اپنا عقیدہ حیات مسیح کا ہے اس لیے انہوں نے اس روایت کے ضعف کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے زمانے میں ایک فرقہ اسرائیلی مسیح کی دوبارہ آمد کا قائل نہیں تھا۔
۷۔مشہور شیعہ عالم قمی (متوفی۳۸۱ھ) وفات مسیح کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’ولَم یقدِروا علی قتْلہ وصلبہ لانھم لو قدروا علی ذالک کان تکْذیبا لقولہ تعالیٰ ولٰکن رَّفع اللّہ الیہ بعد ان توفّاہ‘‘
(اکمال الدین واتمام النعمۃ جلداول صفحہ۳۳۲ تالیف شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمۃ ۔ کتابفروشی اسلامیہ، تہران)
اور وہ (یعنی یہودی مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پا سکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہو جاتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو طبعی طور پر وفات دی اور اس کے بعد ان کو رفعت بخشی۔
۸۔ مفسر قرآن علامہ الاستاذ شیخ مفتی محمد عبدہ (۱۸۳۹تا۱۹۲۵ء) مفتی مصر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ میں زیر آیت یعیسیٰ  انی متوفیک لکھتے ہیں:۔
’’فالْمتبادر فی الآیۃ انی ممیتک وجاعلُک بعد الموتِ فی مکانٍ رفیع عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ ھذا ما یفھمہ القاری الخالی الذھن من الرّوایات والاقوال لانہ ھوالمتبادرُمن العبارۃ وقد ایدناہ بالشواھد من الآیات ولکن الْمفسّرین قد حوّلوا الکلام عن ظاھرہ لیَنطبقَ علی ما اعطتْھم الروایات من کَون عیسیٰ  رفع الی السّماء بجسدِ ہ ‘‘
(تفسیرالقرآن الحکیم لاستاذ مفتی محمد عبدہٗ جز ثالث صفحہ۳۱۶ زیر آیت انی متوفیک)
ترجمہ: اس آیت کا مفہوم ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے موت دینے والا ہوں اور موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت ورفعت والی جگہ میں رکھنے والا ہوں۔ جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی …… ہر قاری جو روایات اور اقوال سے خالی الذہن ہو اس آیت کا یہی مفہوم سمجھتا ہے اور یہی اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور ہم اس مفہوم کے حق میں آیات قرآنیہ کو بطور گواہ لائے ہیں ۔ لیکن مفسرین نے اس کلام کو ظاہر سے پھیرا ہے۔ تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی رفع الی السماء کے متعلق جو ان کے پاس روایات ہیں ان کی تطبیق کر سکیں۔
اسی آیت کی تفسیر میں اس سے آگے مفتی محمد عبدہ صاحب لکھتے ہیں:۔
’’والطّریقۃ الثّانیۃ ان الآیۃ علی ظاھرھا وان التوفی علی معناہ الظّاھر الْمتبادر وھو الْاماتَۃ العادیّۃ وان الرفع یکون بعدہ وھو رفْع الروح‘‘
(حوالہ مذکورہ صفحہ۳۱۷)
اور دوسرا طریق یہ ہے کہ آیت کے مفہوم کو ظاہر ا ً  مانا جائے۔ اس صورت میں توفی کے ظاہر و باہر معنی طبعی موت ہی ہیں اور یقینا رفع جو اس توفی کے بعد ہے وہ صرف روح ہی کا رفع ہے۔
۹۔علامہ احمد المصطفیٰ المراغی جو ازہر یونیورسٹی کے رئیس تھے، وفات مسیح کے قائل ہیں۔ چنانچہ اپنی تفسیر میں انی متوفیک کے تحت انہوں نے علماء کے دو اقوال لکھے ہیں۔دوسرا قول یہ لکھاہے:۔
’’ان الآیۃ علی ظاہرھا ، وان التّوفی ھوالاماتۃ العَادیۃ ، وان الرفع بعدہ للرّوح … والمعنی ۔ انی ممیتک وجاعلُک بعد الموت فی مکانٍ رفیعٍ عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام ورفعْناہُ مکَانًا علیّا ۔ وحدیث الرّفع والنّزول آخر الزمان حدیث آحادٌ یتعلق بامرٍ اعتقادیّ ، والامور الاعتقادیّۃ لا یوخذ فیھا الّا بالدّلیل القاطعِ من قرآنٍ او حدیثٍ متواترٍ ، ولا یُوجدھنا واحدٌ منھما ‘‘
(تفسیر المراغی تالیف احمد مصطفی المراغی زیر آیت متوفیک)
 یعنی آیت سے ظاہری معنی مراد ہیں اور توفی سے طبعی موت مراد ہے۔ اور اس موت کے بعد رفع سے روحانی رفع مراد ہے۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں طبعی موت کے بعد بلندمقام میں رکھنے والا ہوں جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں آیت مذکور ہے کہ ہم نے ان کو بلند مقام پر رفعت دی۔  اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور آخری زمانے میں نزول کی احادیث احاد ہیں۔ جو اعتقادی امور سے متعلق ہیں اور اعتقادی امور کی بنیاد تو قرآن کریم یا احادیث متواترہ کے قطعی دلائل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور یہاں ان دونوں میں سے یعنی قرآن کریم اور احادیث متواترہ میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ 
۱۰۔علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر (۱۸۶۵ء تا ۱۹۳۵ ء ) مدیر رسالہ المنار مصری ، انہوں نے اپنے استاد مفتی مصر محمد عبدہ سے علم حاصل کیا اور ’’الارشاد والالدعوۃ‘‘ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔ حکومت مصر نے ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کو مفتی مصر مقرر کر دیا۔یہ اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الحکیم‘‘ میں زیر آیت انی متوفیک وفاتِ مسیح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’فالمتبادر فی الآیۃ انّی ممیتکَ وجاعلُک بعد الموت فی مکان رفیع عنْدی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَا ہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘
(تفسیر القرآن الحکیم الشہیربتفسیر المنار از علامہ محمد رشید رضا زیر آیت انی متوفیک المجلد الثالث صفحہ۳۱۶)
یعنی اس آیت سے ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے طبعی موت دینے ولا ہوں اور طبعی موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت و رفعت والی جگہ میں رکھنے ولا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی۔
۱۱۔ علامہ محمود  شلتوت صاحب مفتی مصر نے نہایت وضاحت و صراحت اور شد و مد سے وفات عیسیٰ ٰ کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:۔
’’والمَعنی ان اللّہ توفی عیسٰی ورفعہ الیہ وطھّرہ من الذین کفرُوا ۔وقد فسّر الالوسی قولہ تعالیٰ ’’انّی متوفّیک‘‘ بوجوہٍ منھا ۔ وھواظھرھا۔ انی مستوفٍ اجلک وممیتک حتْفَ انفِک لا اسلّط علیک من یقْتُلک …… وظاہر ان الرّفع الذی یکون بعد التّوفیۃ۔ ھورفْعُ المکانۃ لا رفْع الجسد …… فمِن این تُؤْخذ کلمۃُ السّماء من کلمۃٍ(الیہ)؟ اللّھم ان ھذاالظّلم للتّعبیر القرآنیّ الواضح خضُوعا لقِصص وروایات لَّم یقم علی الظن بھا  فضلا عن الیقین ۔ برھان ولا شبہ برھان‘‘
(الفتاویٰ للامام الاکبر محمود شلتوت صفحہ۵۳،۵۴)
ترجمہ: انی متوفیک کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دی، عزت دی اور کافروں کے الزامات سے پاک کیا۔ علامہ الوسی نے اپنی تفسیر میں انی متوفیک کے کئی معنی کیے ہیں ان میں سے سب سے مضبوط معنی یہ ہیں کہ میں تیری عمر پوری کرکے تجھے طبعی طورسے وفات دوں گا۔ اور میں تجھ پر ایسے لوگوں کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر دیں۔ پھر رفع کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔  ظاہر ہے کہ وہ رفع جو توفی کے بعد ہو سکتا ہے وہ رفع مرتبہ ہی ہے نہ کہ رفع جسمانی ۔ پھر رفع سماوی کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ  میں آسمان کا کوئی لفظ موجود نہیں ۔ پھر جسمانی رفع کے قائلین کی طرف سے آسمان کا لفظ کہاں سے لیا جاتا ہے۔ یقینا یہ قرآن کے ایک واضح مفہوم کے ساتھ زیادتی ہے ۔ محض ایسے قصے اور ظنی روایات قبول کرتے ہوئے جن پر کوئی دلیل تو کیا دلیل کا کوئی ادنی سا شائبہ بھی نہیں۔
۱۲۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (متوفی ۱۹۰۱ء) بھی وفات مسیح کے قائل تھے۔ چنانچہ ’’اشارات فریدی‘‘ میں لکھا ہے:۔
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا معروف موت کے بعد آپ کی روح مرفوع ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ باقی انبیاء اور اولیاء کی طرح مرفوع ہوئے ہیں۔ ‘‘
(اشارات فریدی مقابیس المجالس مترجم اردو کپتان واحد بخش سیال صفحہ۷۳۱ مقبوس نمبر ۶۰ بروز یکشنبہ ۲۰ ذیقعد ۶ا۱۳ھ)
۱۳۔ مشہور عالم دین اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علامہ عبیداللہ سندھی صاحب (متوفی ۱۹۴۴ء) اپنی تفسیر ’’الہام الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘(اردو ترجمہ) میں فرماتے ہیں:۔
’’مُمِیْتُکَ : تجھے مارنے والا ہوں ۔ یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی۔ نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔ مسلمانوں میں فتنہ عثمان کے بعد بواسطہ انصار بنی ہاشم یہ بات پھیلی اور یہ صابی اور یہودی تھے…… قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا اور وہ زندہ ہے اور نازل ہو گا۔ ‘‘
(الہام الرحمن فی تفسیر القرآن اردو ترجمہ صفحہ۲۴۰، ۲۴۱ زیر آیت انی متوفیک آل عمران :۵۶)
  ۱۴۔  غلام احمد پرویز ایڈیٹر طلوع اسلام کراچی اور اہل قرآن کے عظیم عالم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’باقی رہا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ تو قرآن سے اس کی بھی تائید نہیں ہوتی، بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دوسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت عمر پوری کرنے کے بعد وفات پائی۔‘‘
(شعلۂ مستور صفحہ۸۰)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کی تائید قرآن کریم کی آیات سے نہیں ملتی ۔ بلکہ اس کے برعکس آپ کے’’ گذر جانے‘‘ اور وفات پا جانے کی شہادت قرآن میں موجود ہے۔ ‘‘
(شعلۂ مستور صفحہ۸۲،۸۳)
علاوہ ازیں موجودہ وقت میں اہل قرآن فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے انبیاء کی طرح وفات پاچکے ہیں اور اب تک آسمان پر زندہ نہیں ہیں۔
  ۱۵۔مشہور عالم لیڈر شیخ الہند مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ء تا۱۹۵۸ء ) فرماتے ہیں:۔
’’بلاشبہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل ولباس میں نمودار ہوا ہوا ہے۔‘‘
(نقش آزاد صفحہ۱۰۲ مولف غلام رسول مہرطابع شیخ نیاز احمد، مطبع علمی پرنٹنگ پر یس ہسپتا ل روڈ لاہور ناشر کتاب منزل لاہور )
۱۶۔مسلمانانِ برصغیر کے عظیم راہنماسید احمد خان صاحب (۱۸۱۷ء تا۱۸۹۸ء)بانیٔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے…… مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاریٰ کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کی بے جا کوشش کی ہے۔‘‘
(تفسیر القرآن مع تحریر فی اصول التفسیر از سر سید احمد خان صاحب تفسیر سورۃ آل عمران حصہ دوم صفحہ۴۱،۴۳)
مذکورہ حوالہ جات مفتی صاحب کے حیات مسیح پر نام نہاد اجماع کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ بزرگان دین اور علمائے امت کے ان اقتباسات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو رہا ہے۔ کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے ببانگ دہل وفات مسیح کا اعلان کیا۔ اور وفات مسیح کے قائلین میں اگر ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے جو ان بزرگوں اور علماء کے پیرو کارتھے تو بلاشبہ یہ تعداد لاکھوں ، کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ 

مکمل تحریر >>

جناب شیخ عبدالقادر صاحب کاایک نایاب تحقیقی مقالہ



ذبیح اللہ کون تھا؟
کیا حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں؟
کتاب موسیٰ کی تصدیق سے کیا مراد ہے؟
’’ کلام حق‘‘ کے مقالہ کا جواب


(مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب۔ لاہور)

’’ کلام حق‘‘ راسخ الاعتقاد مسیحیت کا واحد علمبردار ماہنامہ ہے۔ اس کے شمارہ ستمبر ، اکتوبر 1983ء میں ایک مضمون شائع ہوا ہے ۔ جس کا عنوان ہے:۔
’’ قربانی کے لئے کون پیش کیا گیا؟۔ اسماعیل یا اضحاق‘‘
مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ 
’’ اسماعیل، ابراہیم کا بیٹا تھا لیکن وہ لونڈی سے پیدا ہوا تھا جو ابراہیم کی بیاہتا بیوی نہ تھی۔ اس کی اصل بیوی سارہ تھی لہٰذا ذبیح اللہ اضحاق تھا نہ اسماعیل، کیونکہ لونڈی کی اولاد جائز وارث نہیں ہوتی‘‘۔
اس دعویٰ کے جواب میں گذارش ہے کہ مضمون نگار کا موقف تعاملِ دین ابراہیم کے سر اسر خلاف ہے۔ 
تورات کھول کر دیکھئے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ جن میں آٹھ ان کی دو بیویوں کی اولاد اور چار دو لونڈیوں کی اولاد سے تھے۔ (پیدائش 35/23-26) کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ بنی اسرائیل کا 1/3حصہ جائز وارث نہیں۔ وہ محروم الارث ہے کیونکہ وہ تو لونڈیوں کی اولاد ہے۔ کیا اہل کتاب نے بنی اسرائیل کے لئے پیمانہ اور رکھا ہے ، بنی اسرائیل کے لئے اور؟
حضرت یوسف علیہ السلام بازارِ مصر میں بطور غلام بیچے گئے۔ اس کے بعد ان کو نبوت ملی۔ کیا وہ اور ان کی اولاد داغِ غلامی کی وجہ سے انعام خداوندی سے محروم تھے۔ یہی نہیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بنی اسرائیل جلا وطن ہو کر غلامی میں چلے گئے۔ ستر سال کی بد ترین غلامی کے بعد بارہ میں سے دو فرقے واپس لوٹے۔ انہی کی نسل سے آگے چل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیداہوئے کیا غلامی کے باعث یا جسمانی لحاظ سے وہ محروم الارث تھے؟ اور پھر یہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے۔ 
حضرت ہاجرہ اصالتاً لونڈی نہ تھیں۔ جیوئش انسائیکلو پیڈیا اور یونیورسل انسائیکلو پیڈیا ملاحظ کریں۔ آئمہ بنی اسرائیل کیا سمجھتے تھے؟ لکھا ہے کہ ان کے ہاں دو مکتب فکر تھے پہلے کی ر وسے ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھیں۔ حضرت سارہ کو مجبوراً بادشاہ کے محل میں رہنا پڑا۔ سارہ کی بزرگی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ہاجرہ اس درجہ متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ایک انقلاب آفرین اور تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ 
’’ بادشاہ کے گھر میں شہزادی بن کر رہنے سے یہ بہتر ہے کہ میں سارہ کے گھر میں اس کی لونڈی بن کر رہوں گی‘‘
اس فیصلہ کے نتیجہ میں ہاجرہ کو سارہ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ 
’’ اسے بطور لونڈی قبول فرمائیں‘‘
یہ ہے لونڈی بننے کی حقیقت۔ جو خود زمانۂ قدیم کے علماء ربانیین نے بیان کی اور مدرش میں آج بھی درج ہے۔ مدرش یہود کی کتاب حدیث و تفسیر ہے۔ اس میں بائیبل کے دس صحیفوں کی شرح ہے۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے اسے ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔ مدرش میں ہاجرہ کی جس غلامی کا ذکر ہے، اس پر ہزار آزادیاں قربان ہیں۔ 
قرآن حکیم کی سورۂ الصافات دیکھئے اول غلام حلیم کی بشارت ہے اور اسی کے متعلق ذبیح اللہ ہونے کے واقعہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد فرمایا:۔
و بشرناہ باسحٰق (الصافات آیت: ۱۱۳(
صاف ظاہر ہے کہ بروئے قرآن ذبیح اللہ والا واقعہ اسحاق سے پہلے ہو چکا تھا۔ اور پھر قرآن حکیم میں اسحاق کو غلام علیم کہا گیا اور بڑے بیٹے اسماعیل کو غلام حلیم۔ اس سیبھی معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ بڑا بیٹا تھا۔ چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس تورات میں ایک عجیب تضاد ہے۔ لکھا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دو۔ اور پھر لکھا ہے۔ اکلوتا اضحاق ہے۔ ظاہر ہے کہ اکلوٹا بڑا بیٹا ہو سکتا ہے۔ چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات میں زمانہ قدیم میں تحریف ہو چکی تھی۔ یعنی اسماعیل کی جگہ اضحاق لکھ دیا گیا۔ علمائے بائیبل تسلیم کرتے ہیں کہ ہاجرہ اور اسماعیل تورات کے بیانات عصبیت اور قومی تعصبات کے آئینہ دار ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ پلوٹھے کو چھوڑ کر دوسرا بیٹا اکلوتا ہو۔ 
مِدرش نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ہاجرہ اسیرانِ جنگ والی لونڈی نہ تھیں۔ بلکہ ان کی یہ عظیم الشان اور بے مثال قربانی تھی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر شہزادی سے لونڈی بننا قبول کیا۔ ہاجرہ کی اس عظیم قربانی کے نتیجہ میںوہ خلیل اللہ کے عقد میں آئیں، اسماعیل پیدا ہوئے اور پھر اسماعیل نے ذبیح اللہ والی قربانی پیش کی۔ بڑے ہوئے تو بیت اللہ کی بنیاد پر باپ بیٹے نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی اور ان کی نسل سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔ جو کہ خدا تعالیٰ کی تقدیروں میں غایت الغایات تھے۔ 
اس عظیم الشان پس منظر کو مضمون نگار غلامی کے طعن سے داغدار کرنا چاہتے ہیں حالانکہ خدا کی نظر میں آقا و غلام سب برابر ہیں۔ (کلسیوں 3/11)
یہ ہے عیسائیت کی تعلیم جو کہ انجیل میں درج ہے  جسے خود عیسائیت کے علمبرداروں نے نظر انداز کر دیا۔ (گلتیوں 4/23)
اب یونیورسل جیوئش انسائیکلو پیڈیا کے اقتباس کا ترجمہ پیش ہے۔ زیر لفظ ہاجرہ (Hagar) لکھتے ہیں:۔
’’ بائیبل کے سکالرز ہاجرہ کے بارہ میں تورات کی کہانیوں کو بنی اسرائیل اور عرب قبائل کے تعلقات اور باہمی تعصبات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسماعیل کو قرابت دار تو سمجھا جاتا مگر درجہ میں اسرائیل سے کمتر قرار دیا جاتا۔ ‘‘
اسی تسلسل میں لکھا ہے کہ:۔
’’ علماء بنی اسرائیل (ربانیین) نے ہاجرہ کے بارہ میں اپنے نکتۂ نظر کو بہت جلد تبدیل کر لیا۔ پہلا خیال یہ تھا کہ ہاجرہ ایک خدا پرست اور خدا ترس خاتون تھی جو کہ اصالتاً مصری شہزادی تھی۔ اس نے سارہ کے بارہ میں معجزات دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ سارہ کے گھر میں لونڈی بن کر رہنا اپنے گھر میں مالکہ بن کر رہنے سے بہر حال بہتر ہے۔‘‘
دوسرے علماء نے ہاجرہ میں ذَم کے پہلو تلاش کئے اور تنقیص کی۔ فاضل مضمون نگار بھی یہود کے نقشِ قدم پر ذَم کے پہلو تلاش کر رہے ہیں۔ مقصد واضح ہے کہ نسل اسماعیل میں جو عظیم المرتبت بطلِ جلیل پیدا ہوا اسے لونڈی کی اولاد قرار دے کر محروم الارث ثابت کیا جائے لیکن اس کے برعکس ربانی علماء نے کیا کہا ایک حوالہ گذر چکا۔ اب جیوئش انسائیکلو پیڈیا کا حوالہ ملاحظہ ہو۔’’ ہاجرہ ربانی لٹریچر میں‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:۔
’’ مدرش میں ہے کہ ہاجرہ فرعون مصر کی لڑکی تھی۔ فرعون نے جب وہ معجزات دیکھے جو سارہ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے تو اس نے کہا کہ ہاجرہ کے لئے اپنے گھر کی مالکہ بن کر رہنے کی بہ نسبت سارہ کے گھر میں لونڈی بن کر رہنا زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ اس جذبہ کے تحت ہاجرہ کو سارہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اسی واقعہ کے پیش نظر لفظ ہاجرہ کے معنے بیان کئے گئے۔ یہ گویا ھا اَجر ہے جس کے معنے ہیں یہ انعامِ (خداوندی) ۔‘‘
آگے لکھا ہے:۔
’’ ہاجرہ کے دوسرے معنے آراستہ کرنے اور زینت دینے کے ہیں۔ چونکہ یہ خاتون تقویٰ تقدس اور اعمالِ صالحہ کے زیور سے آراستہ تھیں اس لئے ہاجرہ کے نام سے موسوم ہوئیں۔‘‘
پھر لکھا ہے:۔
’’ شادی کی تجویز پر ہاجرہ متذبذب تھیں۔ سارہ نے ترغیب دی۔ ’’ تُو کتنی خوش قسمت ہے کہ ایک بزرگ انسان سے تیرا عقد ہو رہا ہے۔ تجھے خوش ہونا چاہیے‘‘۔
اسی تسلسل میں ہے:۔
’’ہاجرہ کی وفاداری اس لحاظ سے بھی قابل تعریف مانی گئی کہ (خدا تعالیٰ کے حکم پر ) حضرت ابراہیم نے اسے الگ کر کے دور دراز بھیج دیا۔ پھر بھی اس نے عقد نکاح اور شادی کے معاہدہ کو آخری دم تک قائم رکھا۔‘‘
اس نوٹ میں ہے کہ علماء ربانیین کے گروہ اول کے نزدیک حضرت ہاجرہ غایت درجہ تقویٰ و طہارت اور خدا شناسی کا نمونہ تھیں۔ جو خلیل اللہ کے عہد کی یادگار ہے۔ آگے چل کراسی مضمون میں ہے کہ 
’’ جب سارہ فوت ہو گئیں تو اسحق، ہاجرہ کو اپنے باپ کے گھر میں لانے کے لئے روانہ ہوئے‘‘
رشی یہود کے سب سے بڑے عالم دین اور مفسر توراۃ ہیں۔ شرح کتاب پیدائش میں لکھتے ہیں ہاجرہ اصالتاً شہزادی تھی۔ اسے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کی بزرگی کے پیش نظر بطور لونڈی پیش کیا گیا۔ 
یہ ہیں حضرت ہاجرہ کے مناقب۔ مضمون نگار کی یہ کوشش کہ داغِ غلامی سے اسے داغدار کیا جائے۔ بے سود ہے۔ 
رسالتماب صلی اللہ علیہ و سلم کی جدہ ماجدہ عصر ابراہیم میں ایک مثالی نمونہ تھیں۔ ایک عظیم خاتون جس نے قربانی کے فلسفہ کو عملی رنگ دے دیا۔ جو شہزادی سے لونڈی بن گئی۔ اس کے بیٹے نے خود کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا۔ اور ذبیح اللہ کی نسل میں اس بطلِ جلیل کی ولادت ہوئی جس کی ساری زندگی ’’ ذبح عظیم‘‘ سے عبارت ہے۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔
مضمون نگار نے ایک عجیب و غریب دعویٰ اور بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں ذبیح اللہ کا نام نہیں آیا۔ لیکن تورات میں ’’ اضحاق‘‘ مرقوم ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’ قرآن مجید نے تورات کی تصدیق مصدقا لما بین یدیہ کہہ کر کر دی ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ بنی اسرائیل یا مسیحیوں کے پاس الہام کی صورت میں جو کچھ بھی موجود ہے۔ درست اور صداقت پر مبنی ہے بلکہ ہدایت اور نور ہے۔‘‘
اس طرح اضحاق کی قربانی کی تصدیق ہو گئی۔ اضحاق کی عظمت اور فضیلت پر مہر لگا دی گئی۔ 
صاحبِ مضمون نے آیہ قرآنی کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھا۔ سورۂ انعام میں یہ ذکر ہے۔ فرمایا:۔
’’ تُو اس سے کہہ دے کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے۔ وہ لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی۔ اس کو کس نے اتارا تھا؟ تم اسے ورق ورق کر رہے ہو۔ اس کو ظاہر بھی کرتے ہو اور بڑے حصہ کو چھپاتے ہو…… اور یہ قرآن ایک (عظیم الشان) کتاب ہے جسے ہم نے اتارا اوروہ برکات کی جامع ہے اور جو (کلام) اس سے پہلے تھا۔ اس کی تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘ (۹۲:۹۳)
ان آیات مبارکہ میں یہ امر واضح کر دیا گیا ہے کہ تورات محفوظ نہیں ہے۔ اس کا بڑا حصہ پردۂ اخفاء میں ہے۔ وہ جامع صورت میں موجود نہیں۔ جبکہ قرآن کتاب موسیٰ کی تصدیق کے لئے آیا ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ تورات میں حیاۃ الآخرۃ کا کوئی ذکر نہیں۔ قیامت۔ جنت اور دوزخ کا کوئی بیان نہیں۔ تورات کی یہ تعلیم ورق ورق ہے۔ کسی حد تک طالمود میں ملتی ہے۔ یہود کا دعویٰ ہے کہ عزرا فقیہ نے تورات کی تدوینِ نو کے وقت 94صحیفے مرتب کئے۔ صرف 24 عوام پر ظاہر کئے۔ باقی ستر چھپا لئے گئے۔ وہ خواص کے لئے ہیں۔ (صحیفہ عزرا چہارم باب 14)
اس طرح تورات کا وہ حصہ جس میں حیاۃ الآخر کا ذکر تھا۔ نظروں سے مستور ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حیاۃ الآخرۃ کی تعلیم تورات میں مفقود اور طالمود میں موجود ہے۔ اسی طرح قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ اہل کتاب کے اختلافات میں حکم ہے۔ پس قرآن نے غلط حصوں کی تصدیق نہیں کی۔ اس کلام کی تصدیق فرما دی جو کلیم اللہ پر نازل ہوا۔ یا جو تشریحات کلیم اللہ نے قلمبند کی ہیں۔ اس کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ حیاۃ الآخرۃ کتاب موسیٰ کا نکتۂ مرکزی ہے۔ جبکہ موجودہ تورات میں یہ ذکر مفقود ہے۔ 
ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ تورات میں ہے کہ اضحاق ذبیح اللہ ہے۔ قرآن نے بتایا کہ ذبیح اللہ غلام حلیم ہے جبکہ اسحاق غلام علیم تھے۔ پس قرآن نے غلام علیم اور غلام حلیم کے ذکر میں بین اشارہ کر دیا کہ ذبیح اللہ بڑا بھائی ہے چھوٹا بھائی نہیں۔ 
حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کے بارہ میں تورات کے بیانات میں سخت تضاد ہے۔ تورات میں ان کے محامد بھی ہیں۔ اور ذم کے پہلو بھی۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات تغیر و تبدل کا تختۂ مشق رہی ہے۔ اب اس میں اوراق پریشان ہیں۔
تورات کے بعض حقائق مدرش میں درج ہیں۔ جن میں یہاں تک ذکر ہے کہ سارہ کی وفات کے بعد اسحاق خود گئے اور ہاجرہ کو لے آئے اور اپنے باپ کا گھر آباد کیا۔ مدرش سے معلوم ہوتا ہے ۔ ہاجرہ اسیرانِ جنگ والی لونڈی نہیں تھی بلکہ فرعون مصر کی بیٹی تھی۔
جبکہ تورات میں بتکرار لونڈی کا طعن ہے۔ اور یہ لکھا ہے کہ عہد کا فرزند اضحاق ہے نہ کہ اسماعیل۔
تورات کے کسی قدیم نسخہ کا ایک حوالہ یہودیوں کی کتاب جوبلی میں درج ہے۔ یہ کتاب 2100سال پرانی ہے۔ تورات کے موجودہ متن میں ہے کہ اپنے اکلوتے کو قربان کر دو۔ کتاب جوبلی میں اکلوتے کی جگہ پلوٹھے کا لفظ ہے۔ ظاہر ہے کہ اکلوتا یا پلوٹھا اضحاق نہیں ہو سکتے۔ صرف اسماعیل ہو سکتے ہیں۔ اس کے با وصف تحریف کا کمال یہ ہے کہ تورات کی رو سے ذبیح اللہ ااسماعیل نہیں اسحاق ہے۔ 
مضمون نگار نے یہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ صدر اول میں اکابر صحابہ مانتے تے کہ ذبیح اللہ اسحاق ہیں نہ اسماعیل۔ اس کا جواب ہم ’’ جامعہ احمدیہ‘‘ ربوہ کے ’’مجلہ الجامعہ‘‘کے ایک مضمون میں دے چکے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دونوں طرح کی روائیتں ملتی ہیں۔ ذبیح اللہ اسحاق تھے۔ اسماعیل ذبیح اللہ تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے پہلے خیال سے رجوع کر لیا تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں اختلاف روایات کی تفصیل درج ہے۔ ظاہر ہے کہ تورات کے اثر کی وجہ سے اسحاق ؑ کو ذبیح اللہ کہتے۔ جب تورات پر تحقیق ہوئی اور قرآن حکیم پر تدبر تو پہلے خیال سے رجوع فرما لیا۔ 
الغرض صاحبِ مضمون نے جو بحث اٹھائی ہے وہ حقائق کے خلاف ہے۔ حضرت ہاجرہ اگر لونڈی تھیں ان کو جو مقام ملا لونڈی ہونا اس میں حارج نہیں۔ اگر وہ شہزادی تھیں تو تاریخ میں ایک درخشاں مثال بن گئیں۔ ایک شہزادی نے لونڈی بننا قبول کر لیا۔ اس قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے خلیل اللہ کے عقد میں دے دیا۔ اسماعیل ذبیح اللہ قرار پائے۔ ان کی ذریت میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے۔ معراج انسانیت کا یہ نمونہ تاریخ میں منفرد ہے۔ 
مضمون کے آخر میں ایک بہت دلچسپ اور تازہ انکشاف ملاحظہ ہو۔ کتاب مقدس کے بعض اقتباسات جو کہ چرچ میں بطور اسباق اور ادعیہ کے بکثرت پڑھے جاتے ہیں۔ ان کا نیا ترجمہ امریکہ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں بعض دلچسپ تبدیلیاں ہیں۔ مثلاً پولوس کے خط رومیوں میں جہاں ذکر ہے۔ ’’ ہمارا ایک باپ ہے وہ ابراہیم ہے‘‘۔ اس سے آگے ہلالی خطوط میں یہ عبارت ہے۔
And Sarah and Hagar as our Mothers
اور سارہ اور ہاجرہ ہماری مائیں ہیں۔ (نیوز ویک 24اکتوبر 1984ء ) 
اس سے معلوم ہوتا ہے جبکہ عیسائیت میں ہاجرہ کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اب اسے امہات المومنین میں شامل کر لیا گیا یہ ایک نیک اور خوشگوار تبدیلی ہے جو چرچ کے ایک حصہ میں پیدا ہو رہی ہے۔ 


(انصار اللہ ربوہ مئی 1984ء ) 
مکمل تحریر >>

برہانِ ہدایت یعنی علماء جماعت احمدیہ کے تبلیغی واقعات

برہانِ ہدایت : اس کتاب کے مصنف مولوی ابو ظفر عبدالرحمٰن مبشر صاحب جماعت احمدیہ کے نہایت قابل اور مشہور علماء میں سے تھے ، مرحوم نے اس کتاب میں نہایت محنت سے جماعت احمدیہ کے بزرگان اور علماء کے تبلیغی واقعات اس انداز سے جمع فرمائے ہیں کہ ایک عام پڑھنے والا انسان بھی دلائل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ کتاب ہر احمدی کی تبلیغی تربیت کے لیے نہایت قیمتی ہے اور غیروں کے لیے بھی یکساں مفید ہے ۔

ڈائون لوڈ کرنے لیے یہاں کلک کریں Download


مکمل تحریر >>

تفاسیر القرآن کا تحقیقی موازنہ

تفاسیر القرآن کا تحقیقی موازنہ : اس کتاب میں برہان احمد ظفر درانی صاحب نے نہایت محنت سے تفاسیر میں موجود مشہور غلط قصے کہانیوں پر تبصرہ کے ساتھ ان کی صحیح تفسیربھی پیش فرمائی ہے ۔ کتاب میں ناسخ و منسوخ ، حروف مقطعات ، ہاروت ماروت ، اصحاب کہف اور اصحاب فیل کے علاوہ انبیاء کے قرآنی واقعات کے بارہ میں اہم بحث کی گئی ہے ۔

ڈائون لوڈ کرنے لیے یہاں کلک کریں Download


مکمل تحریر >>

مقالہ بشاراتِ محمدیہ ؐ از مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب





               بشاراتِ محمدیہ ﷺ
(مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب۔ لاہور)

جناب پال ارنسٹ ’’ کلام حق ‘‘ کے خصوصی مقالہ نگار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارات کے بارہ میں ایک عرصہ سے خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک تورات میں رسالتماب صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ جناب پال ارنسٹ کی ایک ایک دلیل کو ہم توڑ چکے ہیں۔ اب ہمارے جواب میں انہوں نے سلسلۂ مضمون شروع کیا ہے۔ عنوان ہے۔
’’ وادیٔ فاران اور جلوۂ فاران کا جواب ‘‘
(کلام حق کاشمارہ ۔ جون، جولائی، اگست 1982 ء ملاحظہ ہو ) 
داستان طویل ہے۔ صرف اشارات پر اکتفا کر رہا ہوں۔ ہمارے دلائل ، پال صاحب کی بحث کا خلاصہ اور اس کا جواب درج ذیل ہے۔ 
’’علامہ پال ارنسٹ ‘‘کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وصیت میں کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ 
’’ خداوند سینا سے آیا۔ اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ ‘‘ (استثناء 33/2)
اس میں سارے ماضی کے صیغے ہیں۔ سینا اور شعیر کی تجلی کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ہے۔ فاران کا تعلق زمانہ آئندہ سے کیسے ہو سکتا ہے۔؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تورات میں عبرانی متن مخدوش ہے Good News بائیبل 1976 ء کے حاشیہ میں ہے Hebrew unclearکہ عبرانی الفاظ غیر واضح ہیں۔ جیسا کہ آگے یہ واضح کر دیا جائے گا ۔ متبادل متن یہ ہے ۔ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آتا ہے۔ گویا ماضی نہیں مضارع ہے۔ 
یہودیوں کی شائع کردہ تورات پر نوٹ ہے ۔ 
Heb Mimind Eshdath Obscure
عبرانی الفاظ ’’ میمنوا شداتھ‘‘ غیر اواضح اور مبہم ہیں۔ 
مسوراہی علماء نے جب تورات پر اعراب لگائے تو انہوںنے مزید ابہام ڈال دیا۔ دس ہزار واحد ہے۔ حرف ’’ب ‘‘ پر ایک نقطہ لگا کر اسے جمع بنادیا۔ اور ’’دسوں ہزار‘‘ کر دیا۔ 
دنیائے عیسائیت کے عظیم عالم آر۔ ایچ ۔ چارلس نے ’’ دی اپو کرفا آف اولڈ ٹیسٹا منٹ‘‘ میں صحیفہ حنوک کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ اس صحیفہ میں تورات کی پیشگوئی حنوک پیغمبرسے منسوب ہے بایں الفاظ :۔
And behold ! He cometh with ten thousands of his holy ones, to execute Judjement upon all, and to destroy all the ungoldy : 1:9
تورات میں ہے کہ کلیم اللہ نے وفات سے پہلے برکت دی۔ اور دس ہزار قدوسیوں کا ذکر کیا۔ صحیفہ حنوک میں ہے کہ حنوک پیغمبر نے مندرجہ بالا الفاظ سے برکت دی۔ 
آر ۔ ایچ۔ چارلس نے صحیفہ حنوک کے اس حوالے پر مندرجہ زیل نوٹ دیا ہے: ۔
’’ صحیفہ حنوک میں استثناء 33/2 کے مسوراہی متن کی صدائے بازگشت ہے۔ فرق یہ ہے کہ مروجہ متن تورات میں ہے۔ وہ قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور صحیفہ حنوک نے تورات کا ایسا متن درج کیا ہے جس میں عبرانی لفظ ’’اٰتا‘‘ وارد ہوا ۔ یعنی ’وہ آتا ہے‘ ۔ جبکہ دوسرے متنوں میں ’’ اٰتہ‘‘ ہے یعنی ’’ وہ آیا‘‘ صحیفہ حنوک کے مرتب نے اصل متن اٰتا کی تصدیق کی۔ اور اتہ کو درست نہیں سمجھا۔ ‘‘
(The Apocrypha of Old Testament p. 172 )
اس حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ تورات کے متن میں اختلاف ہے۔ ’’ قدوسیوں کے ساتھ آتا ہے۔ ‘‘متن بھی بہت پرانا ہے اور صحیفہ حنوک کا مصدقہ ہے۔ 
ساتویں صدی قبل مسیح میں حبقوق پیغمبر ہوئے ہیں۔ آپ نے بھی تورات کی اس بشارت کو دہرایا۔ آپ کے سامنے جو تورات تھی۔ اس میں تجلی فاران کا ذکر بطور پیشگوئی ہے۔ کوئی قصہ ماضی نہیں ۔ حبقوق کے صحیفہ میں ہے:۔ 
The Lord wil come with many thousands of his holly angels . 
یہ نیو انگلش بائیبل کا اقتباس ہے۔ گویا بروئے انجیل یہ ایک پیشگوئی ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ پیشگوئی آدم کی ساتویں پشت میں برپا ہونے والے حنوک پیغمبر سے وقت سے چلی آتی ہے۔ ‘‘
(خط یہودا 1/14)
ان شواہد سے ظاہر ہے کہ دس ہزار کے ذکر میں ایک عظیم الشان بشارت ہے۔ یہودیوں کی تحریف نے اسے قصہ ماضی بنا دیا۔ انبیاء نبی اسرائیل اور صلحاء یہود نے بتایا کہ یہ ماضی کا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک پیشگوئی ہے جو نسل آدم میں بڑے تواتر سے چلی آتی ہے۔ 
(۲)
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’ دس ہزار‘‘ ترجمہ عبرانی کی رو سے سراسر غلط ہے۔ اور ’’ لاکھوں‘‘ ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں ہم نے گڈ نیوز بائیبل (Good News Bible ) کو بطور شہادت پیش کیا۔ 
گڈ نیوز بائیبل دنیا کی ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کا مصدقہ ترجمہ ہے جو کہ 1976ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ گڈ نیوز بائیبل میں بشارت تورات کا ترجمہ بایں الفاظ ہے
And shone on his people from mount Paran. Ten thousand angels were with him, a flaming fire at his right hand.
’’ اور خداوند کوہ فاران سے اپنے لوگوں پر جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار فرشتے اس کے ساتھ تھے۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ایک شعلۂ نور تھا۔ ‘‘
حاشیہ میں ہے:۔ 
Probable text ten thousand…… right hand, hebrew unclear.
دس ہزار سے داہنے ہاتھ تک کا عبرانی متن غیر واضح ہے زیادہ درست متن ’’ دس ہزار‘‘ ہے۔ 
اب آئیے ایک نظر متن پر ڈالتے ہیں۔ 
متن کے غیر واضح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ’’ دس ہزار ‘‘ کے لئے عبرانی متن میں ’’ رب ب تھ‘‘ ہے۔ یہ ۳۳ باب کی دوسری آیت ہے۔ اس میں جمع کے لئے ’’ واؤ ‘‘ نہیں ہے۔ متن کو مشتبہ کرنے کے لئے علماء نے رب ب تھ کی دوسری ’’ بے‘‘ پر ایک علامت لگا دی کہ یہاں واؤ بھی پڑھو۔ عجیب بات یہ ہے کہ آیت ۱۷ میں’’ رب ب و تھ‘‘ ہے گویا واؤ موجود ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ آیت ۲ میں رب ب تھ جمع نہیں بلکہ واحد ہے۔ 
یہ علامت واؤ مسوراہی علماء نے عہد وسطیٰ میں لگائی۔ یہ متن کا حصہ نہیں ہے۔ 
دوسرا اشتباہ صیغہ میں ہے۔ بشارت کے الفاظ صحیفہ حنوک میں دہرائے گئے۔ وہاں مضارع کا صیغہ ہے۔ انجیل میں دہرائے گئے وہاں بھی مضارع ہے۔ ّیہودا 1/14)
عیسائی دنیا کے عظیم عالم آر۔ ایچ۔ چارلس نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تورات کے متن میں ایک متبادل قرأت اٰتا موجود تھی۔ موجودہ متن میں اتہ کوہے۔ اس کے معنے ہیں ۔ ’’ آیا‘‘ ۔ صحیفہ حنوک نے اٰتا کو صحیح سمجھا۔ اسے نقل کیا ہے اس کے معنے ہیں ۔ ’’ آتا ہے‘‘
ظاہر ہے جیسا کہ گڈ نیوز بائیبل کے حاشیہ پر ہے۔ متن غیر واضح ہے۔ ’’ دس ہزار‘‘ کو ’’ دس ہزاروں‘‘ بنا دیا۔ ’’ آتا ہے‘‘ کو ’’آیا‘‘ کر دیا۔ ایک غلطی گڈ نیوز بائیبل کے علماء نے نکال دی۔ دوسری غلطی کی نشاندہی آر۔ ایچ۔ چارلس نے کر دی۔ 
اب پال ارنسٹ کا تبصرہ ملاحظہ ہو:۔
’’ صرف  1976ء والے گڈ نیوز ترجمے میں ’’ دس ہزار فرشتے‘‘ ترجمہ کیا گیا۔ اور اس کے حاشیہ میں یہ نوٹ لکھا ہے کہ یہ قیاسی متن کا ترجمہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل عبرانی متن کا ترجمہ لاکھوں کروڑوں ہی ٹھیک ہے۔‘‘
تبصرہ کے یہ الفاظ قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ 
گڈ نیوز بائیبل کے حاشیہ میں ’’ دس ہزار ‘‘ کے لئے probable textکے الفاظ ہیں۔ اس کے معنے اصل سے زیادہ قریب ہیں۔ زیادہ درست متن کے ہیں۔ علامہ صاحب جان بوجھ کر ’’ کلام حق ‘‘ کے قارئین کو ’’ کلام ناحق ‘‘ سنا رہے ہیں۔ اصل حقیقت سے خود بھی دور ہیں۔ لوگوں کو بھی دور لے جا رہے ہیں۔ 
(۳)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو بائیبل کے علماء نے ’’ دس ہزار ترجمہ‘‘ کیوں کیا۔ پال ارنسٹ کہتے ہیں۔ یہ ترجمہ کی مجبوری تھی۔ مراد اس سے ’’ دس ہزار‘‘ نہیں بلکہ ’’ ہزارہا‘‘ ہے۔ 
ان کو مجبوراً ایسا کرنا پڑا ……دس ہزار در اصل ہزارہا کے معنوں میں ہے۔ 
یہ سفید جھوٹ ہے۔ 1870ء میں مرزا پور میں مطبوعہ اردو بائیبل ملاحظہ ہو۔ استثناء 33/2 میں ’’ دس ہزار‘‘ واحد ہے۔ آگے چل کر 33/17 میں ’’ دسوں ہزار‘‘ جمع ہے۔ اردو مترجمین کے نزدیک ’’ رب ب تھ‘‘ اور ’’ رب ب و تھ‘‘ واحد اور جمع ہیں۔ تورات کے ایک ہی ورق پر یہ لفظ پہلے واحد اور پھر جمع کی صورت میں آیا۔ 
اردو بائیبل 1870 ء کا ترجمہ ہے:۔
’’ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ ‘‘
آگے چل کر آیت نمبر 17کا ترجمہ یہ ہے:۔ 
’’ وے افرائیم کے دَسوں ہزار ہیں۔ ‘‘
صاف ظاہر ہے ۔ ترجمہ کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ دونوں لفظ موجود ہیں۔ واحد اور جمع۔ پہلے فقرہ میں واحد ہے آگے چل کر ’’ جمع ‘‘ ہے۔
فرمائیے۔ جناب پال ارنسٹ کو عبرانی زیادہ آتی ہے یا اردو بائیبل کے مترجمین اور دنیا کی ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کو؟ سوچ سمجھ کر جواب دیجئے۔ 
پورے عہد نامہ عتیق کا ترجمہ کرنے والے کیا پال ارنسٹ جتنی عبرانی بھی نہیں جانتے تھے؟ پال ارنسٹ کی عبرانی شناسی کا پندار ٹوٹ چکا ہے۔ 
(۴)
فاران سے کیا مراد ہے؟ اس پر بھی پال ارنسٹ نے تبصرہ کیا ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام فاران ہے۔ لیکن یہ پہاڑی مراد نہیں ہو سکتی۔ کیوں نہیں ہو سکتی اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہم فاران پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں۔ اب ہم ایک حدیث کے درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ 
حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے بیہقی میںیہ روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ تورات کے آخری حصہ کے ایک جملہ کا عربی ترجمہ یوں ہے۔ 
خدا آیا یا جلوہ گر ہوا۔ طور سینا سے اور نمودار ہوا ساعیر سے اور خود کو ظاہر کیا۔ جبالِ فاران سے۔ 
اور فاران ایک عبرانی نام ہے……اس سے مراد جبال بنی ہاشم ہیں۔ جن میں سے ایک پہاڑ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم عبادت و ریاضت کے لئے تشریف لے جاتے۔ اور وہیں وحی کی ابتدا ہوئی۔ پس فاران سے مراد مکہ کے تین پہاڑ ہیں۔ ایک کا نام ابو قیس، دوسرا قعیقان اور تیسرا حرا۔ حرا گویا مشرقی فاران ہے اور قعیقان سے بطن وادی کی جانب ملا ہوا ہے اور اس کو شعب بن ہاشم کہتے ہیں۔ اور اسی جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت ہوئی۔
(بحوالہ نور الابصار فی مناقب اٰل بیت النبی المختار تصنیف الشیخ سید مومن بن حسن مومن الشبلنجی صفحہ23)
اس حوالے سے ظاہر ہے کہ جبال مکہ، جبال فاران ہیں۔ یہ ان کاایک قدیمی نام ہے۔ 
(۵)
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ انبیائے بنی اسرائیل نے تورات کے الفاظ سے کیا سمجھا؟
بشارات تورات کو انبیائے بنی اسرائیل برابر دہراتے رہے۔ حضرت سلیمان ؑ کے غزل الغزلات ملاحظہ ہوں:۔
’’ تیرے محبوب کو دوسروں پر کیا فضیلت ہے۔کہ تُو ہمیں اس طرح قسم دیتی ہے۔‘‘
جواب ملاحظہ ہو:۔
’’ میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں افضل ہے۔‘‘
اس غزل کے آخر میں ہے:۔
’’اور وہ سراپا حسن انگیز (محمدیم) ہے۔  اے یروشلم کی بیٹیو میرا محبوب ایسا ہے۔ میرا پیارا ایسا ہے۔ ‘‘
(غزل الغزلات 5/9-16کیتھولک بائیبل 1958ء)
غزل کے شروع میں ہے:۔
’’جیسی تیرے لطیف عطروں کی خوشبو ۔ سو تیرا نام ہے۔‘‘ (1/3)
آگے استعارہ کے رنگ میں فرستادہ حق کی امت بول رہی ہے۔ 
’’ اے یروشلم کی بیٹیو! مَیں سیاہ فام پر جمیلہ ہوں۔ قیدار کے خیموں کی مثل اور سلمہ کے پردوں کی مانند۔‘‘ (1/5 کیتھولک بائیبل 1958ء)
قیدار حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے کا نام ہے۔ آنحضرت ﷺ بنو قیدار میں سے تھے۔ یہاں سلمہ کا لفظ غیر واضح ہے۔ بعض نے سمجھا ’’ سلیمان کا محل‘‘مراد ہے۔ سلم کے معنے سلامتی۔ سلمہ سلامتی والا۔ مراد یہ ہے کہ امت قیدار سلامتی کے گھر اور اس پر ڈالے گئے پردوں سے وابستہ ہے۔
غزل سے ظاہر ہے کہ محبوب سلیمان کا نام عطر میں بسا ہوا ہے ۔ اس کی امت دار السلام اور بنو قیدار سے متعلق ہے وہ محمدیم ہے۔ یعنی سراپا محمد۔ آنحضرت ﷺ بنو قیدار سے تھے۔ کعبۃ اللہ سے وابستہ امت کے آپ محبوب و مقصود تھے۔ 
اردو بائیبل 1870ء مطبوعہ مرزا پور میں غزل اول پر سرنامہ ملاحظہ ہو:۔
’’ کلیسیا کے مسیح پر عاشق ہونے کی بابت اس بیان میں کہ وہ اپنی بد صورتی مان لیتی اور منت کرتی کہ مسیح کے گلے میں شامل ہونے کے لئے راہنمائی پاوے۔ مسیح اے گڈریوں کے خیموں تک راہ بتلاتا۔ اور اپنا پیار دکھلا کے کئی ایک لطیف وعدے اس سے کرتا ہے۔ کلیسیا اور مسیح ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔‘‘
اس کے برعکس جناب پال ارنسٹ کہتے ہیں:۔
’’غزل الغزلات میں در اصل میاں بیوی کی محبت کا نمونہ پیش کیا گیا۔ یعنی ایک مرد کی صرف ایک بیوی ہونا چاہیے۔ اس میں نہ کوئی پیشگوئی ہے اور نہ کسی پیغمبر کے آنے کی اس میں کوئی خبر پائی جاتی ہے۔‘‘
جواباً گذارش ہے کہ پال ارنسٹ کا یہ تبصرہ سراسر غلط ہے برا ہو تعصب کا کہ وہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ انہی غزلات میں یہ عبارت ملاحظہ ہو۔
’’ حضرت سلیمان کے گھر میں رانیاں ساٹھ ہیں۔ حرمیں اسّی‘‘ ۔ (غزل الغزلات 6/8)
بتائیے ! تعدد ازدواج ہے یا ایک مرد کی ایک بیوی پر حصر۔ کیا یہی مطالعۂ بائیبل ہے۔ جس پر علامہ پال ارنسٹ کو فخر ہے۔ غزل اول کے علاوہ اب غزل پنجم کا سر نامہ ملاحظہ ہو:۔
’’ اس بیان میں کہ مسیح کلیسیا کے نام لے کے اسے جگاتا ہے۔ کلیسیا مسیح کی محبت سے حظ اٹھا کے عشق میں بیمار ہو جاتی ہے۔ مسیح کی خوبصورتی کا تفصیل وار بیان ہونا۔‘‘
ان سر ناموں سے ظاہر ہے کہ 
چرچ کے نزدیک اس غزل میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ سراپا عشق انگیز (محمدیم) مسیح کی تعریف کے لئے آیا ہے۔ 
پال ارنسٹ صاحب سرے سے بشارت کے منکر ہیں۔ جبکہ غزل الغزلات کے ہر باب پر یہ سر نامہ مرقوم ہے کہ یہ کلیسیا اور مسیح کے لئے پیشگوئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی مسیح کے لئے نہیں بلکہ سراپا محمدؐ کے لئے ہے ﷺ۔ 
بتائیے! سچا کون ہے؟ آپ کے گھر کا معاملہ ہے۔ 
’’ کلام حق ‘‘ والے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس حوالے میں پیشگوئی ہے یا نہیں۔ 
(۶)
ایک پھلجڑی  ’’عبرانی زبان‘‘ کی بھی چھوڑی گئی ہے۔ عبرانی لغت میں حرفِ خیھ ہے۔ اس کے نیچے حرفِ ح کے سب الفاظ آتے ہیں۔ مثلاً حبرون  بھی حروف خیھ سے ہے۔ حمدان کو بھی حرف خیھ سے لکھا گیا ہے۔ ان کو ح سے پڑھیں گے نہ کہ حرف خ سے۔ اسی طرح محمدیم میں حرفِ خیھ ہے۔ پادری صاحب کہتے ہیں۔ یہ محمدیم نہیں ۔ مخمدیم ہے۔ ان کو اتنا پتہ نہیں کہ عبرانی میں ’’حٰمد ‘‘روٹ سے ’’ حمدان‘‘ ہے۔ یہ اسم معرفہ ہے۔ یہ نام اردو بائیبل میں ’’ خمدان‘‘ نہیں ۔ بلکہ’’ حمدان‘‘ کی صورت میں آیا ہے۔ (پیدائش 36/26)
بتائیے! پال ارنسٹ درست تلفظ کرتے ہیں یا علماء بائیبل ۔ یہ کون علامہ ہیں؟ جو ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ جو کلیسیا کی شرح مندرجہ بائیبل کو نہیں مانتے۔ جو پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے منظور شدہ ترجمہ میں کیڑے نکالتے ہیں اور علماء کے تلفظ کو بھی درست نہیں مانتے۔ 
(۷)
پال ارنسٹ کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ عبرانی میں ’’ محمد‘‘ نہیں ’’ مخمد‘‘ ہے۔ یہ بات سرا سر دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ تلفظ اور لہجہ کے فرق سے روٹ بدل تو نہیں جاتا ۔ جیسے پشتو میں ’’ محمد‘‘ کے لہجے کے فرق کے باعث ’’ مخمد‘‘ کہتے ہیں۔ ح اور خ کی درمیانی آواز میں۔  جس کا نام محمد ہو۔ اسے ’’ مخمدے‘‘ کر کے بلاتے ہیں۔ دکنی لہجہ میں ’’قانتہ ‘‘  کو ’’ خانتہ‘‘ کہیں گے۔ اس سے سہ حرفی روٹ تو نہیں بدل جاتا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بستی الخلیل کو بائیبل میں حبرون کیا گیا۔ اسے خبرون کیوں نہیں پڑھتے۔ 
عبرانی میں حٰمد مادہ ہے۔ اس سے حمدان اسم معرفہ ہے اسے بائیبل میں خمدان کیوں نہیں لکھا گیا؟ اگر ’’ حبرون‘‘ اور ’’ حمدان‘‘ درست ہے تو ’’ محمدیم‘‘ کیوں درست نہیں۔ 
بنی اسرائیل کے تلفظ میں بالفرض اگر ’’ محمد‘‘ کو ’’ مخمد‘‘ بولتے ہیں تو روٹ اس کا ’’ حمد‘‘ ہی رہے گا ۔ لب و لہجہ کے فرق سے لغت کی حقیقت تبدیلی تو نہیں ہو جاتی۔ پادری صاحب تلفظ کے تغیر کو اٹھا کر لغت میں لے آئے ہیں یہ ان کی بنیادی غلطی ہے۔ یاد رہے کہ 
محمدیم  میں ’’ یم ‘‘ جمع کی نہیں بلکہ عظمت اور شان کی ہے۔ جیسے بعلیم، الوہیم میں ہے۔ لفظ ’’ محمدیم‘‘ بائیبل میں صرف ایک ہی مرتبہ یعنی زیر بحث آیت غزل الغزلات میں آیا ہے۔ دوسری جگہ نہیں۔ اس لفظ کے آخر میں ’’ یم‘‘ استعمال ہونے کی مترجمین بائیبل کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس کا ترجمہ کرتے جیسے بعلیم اور الوہیم کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ حضرت سلیمان کے خطاب وِ کل محمدیم کے معنے ہیں ۔ وہ ہستی مطلق محمد عظیم ہے۔ وہ ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے محمد صاحب ِ عظمت ہے۔ وہ سراپا محمد ہے۔ اس بشارت کو حبقوق نبی نے دہرایا ہے۔ 
’’ خدا جنوب سے آتا ہے۔ اور قدوس کوہ فاران سے اس کا جلال آسمان پر چھا گیا۔ اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گئی۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔‘‘ (حبقوق 3/3-4)
(۸)
یہاں سے واضح رہے کہ جیسے عربی میں حمد سے محمد ہے۔ اسی طرح عبرانی میں حٰمد سے محمٰد ہے۔ یہ مذکر ہے۔ معنے ہیں ۔ ’’ جسے کوئی چاہتا ہے۔‘‘ (لغات عبرانی اردو۔ از پادری ولیم ہوپر زیر لفظ حمد صفحہ119)
اب محمد کے بعد یم لگا دیجئے۔ عظمت کے معنے پیدا ہو جائیں گے جیسے الوہ سے الوہیم ، بعل سے بعلیم۔ نفتالی سے نفتالیم ۔ ظاہر ہے کہ ’’ محمدیم‘‘ کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جیسے الوہیم، بعلیم، نفتالیم کا ترجمہ ہم نہیں کرتے۔ 
(۹)
یہ عجیب بات ہے کہ عبرانی عہد عتیق میں ’’ محمدیم‘‘ یکتا اور منفرد ہے۔ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے زیر نظر غزل میں ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے کا نام نفتالی ہے۔ اسے انجیل میں دو دفعہ ’’ نفتالیم‘‘ لکھا گیا۔ (متی 4/14-15)
ظاہر ہے کہ ’’ یم‘‘ عظمت کے لئے ہے۔ نفتالیم کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح غزل سلیمان میں محمدیم کے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سراپا محمدؐ ہے۔ 
یہ سادہ ترجمہ ہر لحاظ سے درست ہے۔ 
چیلنج کا جواب 
پال ارنسٹ کہتے ہیں۔ ’’محمدیم کا معنوی لحاظ سے لفظ ’’محمدؐ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ‘‘
یہ تو ہم بتا چکے ہیں ۔ یہ لفظ در اصل محمدیم ہے۔ اس کا روٹ حمد ہے۔ محمدیم کے معنے عشق انگیز کے ہیں۔ محمد کے معنے ہیں جس کی بے انتہا تعریف کی جائے۔ حسن و احسان کے پیش نظر تعشق کے رنگ میں ، جو سراپا تعریف ہو ۔  ؎
محمد ہست برہان محمد 
فرمائیے ! معنوی تطابق ہے یا نہیں؟
سامی زبانوں میں ’’ حمد‘‘ روٹ کے قریب قریب دو ہی معنے ہیں۔ جو عربی میں ہیں۔ آنکھیں بند کر لی جائیں۔ تو سورج بھی نظر نہیں آتا۔ آنکھیں کھولئے۔ نور علم کو دیکھئے۔ ہمارے سامنے عبرانی انگریزی کی لغت ہے۔ السنہ سامیہ کے تقابلی مطالعہ کی سب سے بڑی ڈکشنری۔ عظیم علماء کا سرمایہ۔ ڈاکٹر فرانس براؤن نے اسے از سر نو مرتب کیا۔ 1955ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئی۔ اس میں حٰمد روٹ نکالئے اس کے نیچے لکھا ہے۔ 
’’ عبرانی میں حٰمد آرامی میں حَمَد سریانی میں احمودا عربی میں حَمِدَ سبائی کتبات میں یہ لفظ حمدم کی صورت میں ہے۔‘‘
اس ڈکشنری میں سامی زبانوں میں ’’ حمد‘‘ کے جو معنے دئیے ہیں ۔ ان میں اشتراک ہے۔ یہ لغت کی سب سے بڑی سند ہے۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ لفظ محمد سے عبرانی لفظ کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ عبرانی میں حمد نہیں خمد ہے۔ یہ کتنی بڑی علمی غلطی ہے۔ 
ماہرین السنہ سامیہ، عربی کے حَمِد روٹ میں سامی زبانوں کو مشترک قرار دیتے ہیں۔ 
عبرانی کا حٰمد اور عربی کا حمد ایک ہی ہے۔ 
افسوس! مذہبی تعصب کے باعث مقصدیت ختم ہو چکی۔ مطمع نظر یہ ہے کہ کہیں کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں ثابت نہ ہو جائے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ 
(۱۰)
بشاراتِ تورات کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سات سو سال بعد حضرت حبقوق نبی نے دہرایا۔ صحیفہ حبقوق میں ہے :۔ 
’’ خداوند جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آئے گا۔‘‘ (کیتھولک بائیبل 1925ء حبقوق 3/3)
یہاں ماضی نہیں ، مضارع ہے۔ پال ارنسٹ کہتے ہیں ۔ یہ استقبال بمعنے ماضی ہے۔ 
عجیب تضاد ہے۔ آنے والے مسیح کے لئے بصیغہ ماضی جو اشارات ہیں وہاں استقبال مراد ہے۔ آنے والے عظیم الشان پیغمبر کے لئے بصیغہ استقبال اگر کوئی پیشگوئی ہے۔ اسے عہد رفتہ پر چسپاں کر لو ۔  ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ارشاد ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات ماضی کے واقعات کے بارہ میں ہے لیکن حبقوق نبی کے صحیفہ میں ہے:۔
’’ کیونکہ رؤیا مقررہ وقت کے لئے ہے۔ وہ سر انجام ہو گا۔ اور خطا نہ کرے گا۔ اگر چہ دیر بھی کرے۔ تو بھی انتظار کرتے رہنا۔ کیونکہ وہ یقینا وقوع میں آئے گا۔ اور تاخیر نہ کرے گا۔ ‘‘ (2/3-4)
اس کے بعد تجلی فاران کی پیشگوئی درج ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ 
(۱۱)
ہم نے لکھا تھا کہ تورات کی پیشگوئی کو نہ صرف انبیاء بنی اسرائیل نے دہرایا ۔ بلکہ اس کے الفاظ عبرانی کے ادبیات عالیہ میں شامل ہو گئے اور ایک محاورہ بن گئے۔ مثلاً یشوع بن سیراخ میں ہے۔ ’’ دس ہزار‘‘ کے نعرہ سے ’’داؤد ‘‘ کی توصیف کی گئی ۔ زبو رمیں ہے:۔
’’ تیرے آس پاس ایک ہزار (جاں نثار)  گر جائیں گے اور تیرے دہنے ہاتھ کی طرف دس ہزار لیکن (ویران کرنے والی ہلاکت ) تیرے نزدیک نہ آئے گی۔ ‘‘ (زبور 91/7)
حضرت داؤد کے جان نثار اسے کہتے ہیں:۔
’’ اگر ہم آدھے مارے جائیں تو بھی (ہمارے دشمنوں کو ) کچھ پروا نہ ہو گی۔ کیونکہ تُو ہم میں سے ’’دس ہزار‘‘ کے برابر ہے۔ ‘‘ (سموئیل نمبر ۲   18/3)
یہاں وہی محاورہ بول رہا ہے جو تورات میں ہے ۔ اس کے داہنے ہاتھ ’’دس ہزار‘‘ قدسی ہیں۔ اس کے جواب میں پال ارنسٹ نے اول استہزا سے کام لیا۔ 
’’ شیخ صاحب کی بولی میں ہر حوالے میں دس ہزار کا لفظ بشارت تورات کا عطیہ ہے۔‘‘
اب بائیبل میں ’’ دس ہزار دشمنوں‘‘ ۔’’دس ہزار بھیڑوں‘‘ ۔ ’’ دس ہزار توڑے چاندی‘‘ کی مثالیں دے کر کہتے ہیں:۔
’’ اے شیخ صاحب کس طرح بشارت تورات بنائیں گے؟‘‘
اسے کہتے ہیں  کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ۔ بھان متنی نے کنبہ جوڑا۔ 
 پال ارنسٹ نے دوسری بات یہ کہی ۔ صحیفہ یشوع بن سیراخ میں ’’ دس ہزار ‘‘ کا نعرہ داؤد کے ہاتھوں دس ہزار مارے جانے والوں کے بارے میں ہے۔ 
پال ارنسٹ کا یہ استدلال درست نہیں ۔ کتاب مقدس کے الفاظ یہ ہیں۔
شاؤل نے مارا ہزاروں کو ۔ داؤد نے مارا لاکھوں کو ۔   (سموئیل نمبر ۱  18/7)
اگر نعرۂ توصیف میں دشمنوں کو ذکر ہوتا تو دس ہزار کی بجائے لاکھوں کے نعرے سے توصیف کی جاتی۔ داؤد کے داہنے ہاتھ دس ہزار جان نثاروں کا ذکر اور دس ہزار کے نعرے سے توصیف۔ بشارتِ تورات کی صدائے بازگشت ہے۔ لہٰذا تورات کے متن میں ’’ دس ہزار‘‘ کے الفاظ حقیقی ہیں ۔ ’’ لاکھوں‘‘ مراد لینا درست نہیں ہے۔ 
پال ارنسٹ حوالوں کے انبار میں حقائق کو یوں چھپاتے ہیں جیسے آنجناب موافق کتاب نہیں بلکہ مخالفِ حقائق ہیں ۔ 
ہمارے جواب میں جویائے حق کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 
حرف آخر
پال ارنسٹ کے مضمون کا حرف آخر:۔
’’شیخ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ تورات کے غزل الغزلات تک ایک سراپائے محمد، تعریف پیغمبر کا انتظار ہے۔ان کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے۔ حق یہ ہے کہ پیدائش سے ملاکی تک سراپا نجات مسیحا کا انتظار ہے۔‘‘
اس کے جواب میں گذارش ہے کہ انتظار کرنے والے پال ارنسٹ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے علماء کے کہنے پر حضرت یحیٰ علیہ السلام سے پوچھا:۔
کیا تُو آنے والا مسیح ہے؟ آپ نے جواب دیا ۔ میں تو المسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا۔ پھر کیا تو الیاس ہے؟ اس نے کہا۔ کہ میں نہیں ہوں۔ پھر کیا تو النبی ہے جس کا ہمیں انتظار ہے۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ (یوحنا 1/20-22)
اردو بائیبل مطبوعہ سوسائٹی آف سینٹ پال روما 1958ء میں ’’ النبی ‘‘ کا لفظ ہے۔ اور نیو انگلش بائیبل کے الفاظ ہیں 
Are you the prophet we await?
کیا تُو وہ پیغمبر ہے۔ جس کا ہمیں انتظار ہے۔ 
پال ارنسٹ صرف مسیحا کے انتظار کے قائل ہیں۔ انجیل میں ہے ۔ کاہن، لاوی اور عوام الناس ، مسیحا کے علاوہ ایک عظیم الشان پیغمبر’’ النبی‘‘ کے لئے بھی چشم براہ ہیں۔ 
اب بتائیے! پال ارنسٹ سچے ہیں یا انجیل مقدس۔

(انصار اللہ نومبر 1982ء صفحہ20تا31) 

مکمل تحریر >>

Friday, 29 April 2016

حضرت بابا نانک کا اسلام اور سکھ صاحبان کے اعتراضات کے جواب




حضرت بابا نانک کا اسلام اور سکھ صاحبان کے اعتراضات کے جواب 

از جناب عباداللہ صاحب گیلانی

پہلا اعتراض :۔

اگر بابانانک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ اپنا آبائی دھرم چھوڑ کر مسلمان بن گئے تھے تو چاہیے تھا کہ آپ کا نام تبدیل کردیا جاتا ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے والدین نے آپ کا نام ’’نانک‘‘ رکھا اور آخر تک آپ اسی نام سے پکارے گئے۔ یعنی اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس صورت میں یہ کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آپ مسلمان بن گئے تھے ؟
جواب :۔
اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ اول یہ کہ یہ کوئی اسلامی مسئلہ نہیں کہ ہر ایک نومسلم کا نام تبدیل کردیا جائے ۔ اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ رسول مقبول ﷺ کے زمانہ میں سینکڑوں اور ہزاروں کافر بت پرست اور مشرک لوگ اسلام میں داخل ہوئے لیکن ان میں سے کسی کے نام میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اور انہیں آخر تک اسی نام سے پکارا گیا جس سے کہ اسلام سے قبل انہیں پکارا جاتا تھا ۔ البتہ ان لوگوں کے نام ضرور تبدیل کئے گئے جن کے ناموں سے شرک کی بو آتی تھی۔ یعنی وہ مشرکانہ نام تھے باقی کسی بھی شخص کا نام محض نام کے تبدیل کرنے کی خاطر نہیں بدلا گیا۔ 
۲۔ سکھ لٹریچر سے اس امر کاپتہ چلتا ہے کہ خود سکھوں کے نزدیک بھی نانک نام ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں میں یکساں طور پر رکھا جاتا ہے۔ آج کل بھی پنجاب کے دیہات میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں ’’نانک‘‘ نام رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے۔ اور نانک نام کے متعدد ہندو اور مسلمان ملتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک غیر مسلم کنگھم کی یہ شہادت ہے:۔
"Nanak is thus a name of uaual occurance both among Hindus and Musalmans"
(History of the Sikhs P.39)
یعنی:۔
’’نانک نام عام طور پر ہندوئوں اور مسلمانوں میں ، غریبوں اور امیروں میں یکساں طور پر رکھا جاتا ہے‘‘۔
(ترجمہ از سکھ اتہاس ص ۸۴)
جنم ساکھی بھائی بالا کے ابتداء میں مرقوم ہے کہ جب پنڈت نے غور و فکر کے بعد بابا جی کا نام’’نانک‘‘ تجویز کیا تو آپ کے والدین نے یہ کہا کہ یہ نام ہندوئوں اور مسلمانوں میں مشترک ہے اس لئے اس کی بجائے کوئی اور نام تجویز کرو (ملاحظہ ہو جنم ساکھی بھائی بالا ص ۶) باباجی کے والدین کا یہ قول دوسری سکھ کتب میں بھی درج ہے (ملاحظہ ہونا نک پرکاش پورباردھ ادھیائے ۴ ص ۱۵۹ و گورونانک سورجودے جنم ساکھی ص ۸ وغیرہ)
۳۔ باباجی نے خود اپنا جو نام ظاہر کا ہے وہ بھی آپ کا اسلام سے تعلق ظاہر کرتا ہے ۔ اور بتاتا ہے کہ آپ نے ہندوئوں سے اپنا رشتہ توڑنے کی غرض سے اپنے نام میں بھی کچھ مناسب ترمیم کرلی تھی۔ چنانچہ جنم ساکھی کے ایک مقام پر مرقوم ہے کہ باباجی نے خود اپنا نام ’’نانک شاہ ملنگ‘‘ بیان کیا تھا۔ جیسا کہ لکھا ہے:۔
بانی سچ خدائیدی 
کہے نانک شا ملنگ 
(جنم ساکھی بھائی بالا ص ۲۰۸) 
پس ’’نانک شاہ ملنگ‘‘ کسی ہندو یا سکھ کا نام نہیں ہوسکتا ۔ یہ وہ نام ہے جو خود باباجی نے اپنا بیان کیا ہے ۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے نام میں مناسب ترمیم کرلی تھی۔ تا کہ اگر کسی کو آپ کے اسلام کے بارہ میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
مشہور سکھ و دوان بھائی گورداس نے ’’ملنگ‘‘ مسلمانوں میں شامل کئے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان ہے :۔
شہدے لکھ شہید ہوئے
لکھ ابدال ’’ملنگ‘‘ مولا نے 
(وار ۸ پوڑی ۸)
پنجابی شبد بھنڈار میں ’’ملنگ‘‘ کے بارہ میں یہ بیان کیاگیا ہے :۔
’’ملنگ۔ لمبے کھلے بالوں والا مسلمان فقیر ۔ بے پرواہ۔‘‘
(ترجمہ از پنجابی شبد بھنڈار ص ۹۰۹)
سرداربہادر کاہن سنگھ جی مابھہ نے ’’ملنگ‘‘ لفظ کی تشریح میں لکھا ہے:۔
’’ ملنگ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے جو زند ہ شاہ مدار سے شروع ہوا ہے۔ ملنگ سر کے کیس کے منڈواتے ‘‘ 
(ترجمہ از مہان کوش ص ۲۸۶۶)
پس باباجی کا اپنے نام کے ساتھ مالنگ لفظ شامل کرکے اپنا نام ’’نانک شاہ ملنگ‘‘بیان کرنا خود کو مسلمان ظاہر کرنا مقصد تھا اور یہ بھی بتادینا مقصود تھا کہ ان کا تعلق زندہ شاہ مدار سے ہے ۔ کیونکہ جنم ساکھیوں میں مرقوم ہے کہ آپ نے اپنے پیر کا نام ’’زندہ پیر‘‘ بتایا ہے ۔ (ملاحظہ ہو جنم ساکھی بھائی بالا ص ۲۵۲) اور یہ زندہ پیر زندہ شامدار ہی ہوسکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ نے اپنے نام کے ساتھ ’’شاہ‘‘ اور ’’ملنگ‘‘ کے الفاظ شامل کئے تھے ۔


دوسرا اعتراض :۔

اگر بابا نانک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا اور آپ مسلمان بن گئے تھے تو آپ نے اپنا نیا مذہب کیوں جاری کیا ؟ کیا کسی نئے مذہب کا بانی بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کاپابند مسلمان قراردیا جاسکتا ہے؟اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس صورت میں بابا جی کو مسلمان کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ سکھ دھرم کے بانی تھے ؟ 
جواب :۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی نئے مذہب کا بانی اسلام کا پابند مسلمان قرا ر نہیں دیاجاسکتا کیونکہ ایک مسلمان کے لئے یہی لازم ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرے اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کا پابند ہو۔ جو شخص خود کوئی نئی شریعت ، نیادین یا نیا قبلہ اور نیا مذہب پیش کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے:۔
’’خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریک شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلا ف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے ‘‘ ۔
(چشمہ معرفت ص ۲۲۵) 
پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ بابا نانک جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور انہوں نے اسلام سے الگ اپناکوئی نیادھرم دنیا میں پیش کیا تھا تو اس صورت میں آپ کو مسلمان قرارنہیں دیا جاکستا ۔ اور اگر آپ کا اسلام ثابت ہوجائے جیسا کہ ثابت ہے تو اس صورت میں آپ کوسکھ دھرم یا کسی اوردھرم کابانی قرار دینا بالکل غلط اوربے بنیاد ہوگا۔ 
۲۔ دنیا میں جس قدر بھی مذاہب پائے جاتے ہیں ان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اقرار پر ہے ۔اورتمام مذاہب اس امر میں متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ہمارا خالق اور مالک ہے اور ہم اپنے اعمال کے لئے اس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہر مذہب نے خداتعالیٰ کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ چنانچہ عیسائیت نے خداتعالیٰ کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایک تین اور تین ایک ہے ۔ یعنی عیسائیت کی رو سے باپ ، بیٹا اور روح القدس تینوں مل کر ایک خدا بنتے ہیں ۔ ویدک دھرم کی دوبڑی شاخیں آریہ سماج اور سناتن دھرم ہیں ۔ سناتن دھرم نے خداتعالیٰ کا یہ تصور پیش کیا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت انسانوں ،حیوانوں اور درندوں کی شکل میں اس دنیا میں پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ نیز اس کے نزدیک برہما ، بشن اور امیش تینوں مل کراس دنیاکا کاروبار چلارہے ہیں ۔ آریہ سماج کے نزدیک خداتعالیٰ کا یہ تصور ہے کہ اس نے نہ تو روح کو پیدا کیا ہے اور نہ مادہ کو ۔ گویا خداتعالیٰ روح اور مادہ تینوں ازلی اور ابدی ہین ، ان کی کسی نے بھی تخلیق نہیں کی ۔ خداتعالیٰ کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق بار بار اس دنیا میں مختلف جونوں میں بھیجتا رہتا ہے۔ آریہ سماج کے نزدیک اللہ تعالیٰ کویہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ کسی کو دائمی نجات دے سکے۔ بلکہ ناجی روحوں کو بھی وہ دنیا میں بھیجنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس صورت میں ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک بھی روح باقی نہ رہے جسے وہ دنیا میں جنم دے سکے ۔ اسلام نے خداتعالیٰ کے بارے میں جو تصور پیش کیا ہے وہ ان تمام مذاہب سے مختلف ہے ۔ اسلام کا پیش کردہ خداتعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ روح کا بھی خالق ہے اور مادہ کا بھی پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی بھی چیز ازلی اور ابدی نہیں ۔وہ غیر مجسم اور لا محدود ہے۔ اسے اس دنیا کا کاروبار چلانے کے لئے اسے کسی سہارا یا مددگار کی ضرورت نہیں۔ وہ جنم مرن سے پاک ہے۔ اس کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ بیوی ۔ 
ان مختلف مذاہب کا خداتعالیٰ کے بارے میں الگ الگ تصورہی اصل میں انہیں ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے ۔ اور ان تصورات میں جس تصور کو بھی کوئی شخص اپناتا ہے وہی اس کا مذہب ہوگا یعنی تثلیت کے ماننے والے عیسائی کہا جائے گا ۔ اوراوتار واد کا ماننے والا سناتن دھرمی کہلائے گا۔ نیز روح و مادہ کو ازلی ابدی ماننے والے کو آریہ سماجی اور قادر مطلق حی و قیوم خداکے قائل کو مسلمان کہاجائے گا ۔ پس اگر فی الحقیقت بابانانک جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور انہوں نے اپنا کوئی نیا دھرم الگ پیش کیا تھا تو چاہیے کہ خداتعالیٰ کے بارے میں وہ تصوربتایا جائے جو باباجی نے پیش کیا ہے۔ اور وہ ان تمام مذاہب کے پیش کردہ تصورسے مختلف ہو ۔ کیونکہ جب تک یہ چیز ثابت نہ کی جائے بابا جی کو کسی نئے مذہب کابانی قرارنہیں دیا جاسکتا۔ 
اس کے برعکس جب ہم بابا جی کی بانی کامطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ اسلام کی پیش کردہ توحید کے قائل تھے۔ چنانچہ مشہور فارسی مصنف محسن فانی نے بابا جی کے بارہ میں گورو ہرگوبند ج کے زمانہ میں یہ شہادت دی تھی کہ :۔
’’نانک قائل توحید باری بود بامویکہ منطوق شرع محمدیست‘‘ 
(بستان مذاہب ص ۲۲۳)
یعنی بابا نانک جی کا توحید باری تعالیٰ کے بارے میں وہی تصور تھا جو اسلام نے پیش کیا ہے 
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باباجی کو مسلمان ثابت کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :۔
’’درحقیقت بابا صاحب جس خداتعالیٰ کی طرف اپنے اشعار میں لوگوں کو کھینچنا چاہتے ہیں اس پاک خدا کا نہ ویدو میں کچھ پتہ چلتا ہے اور نہ عیسائیوں کی انجیل مخرف مخرب میں ۔بلکہ وہ کامل اور پاک خدا نہ قرآن شریف کی مقدس آیات میں جلوہ نما ہے ‘‘ ۔ (ست بچن ص ۵۸)
پروفیسر کرتار سنگھ جی ایم ۔اے نے لکھا ہے ۔ کہ باباجی نے بغداد میں یہ فرمایا تھا :۔
’’صرف اس لئے کہ میں اس ایک ہی خدا کا پرستار ہوں جس جیسا اور جس کے برابر اور کوئی نہیں۔ اس ایک نے ساتھ کسی دوسرے کو شامل کرنے سے انکار کی وجہ سے میں مسلمان کہلانے والوں سے اسلام کی خالص توحید (ایک کی پرستش) کے اصول میں زیادہ نزدیک ہوں ‘‘۔
(ترجمہ از جیو کتھا گورونانک ص ۳۲۲) 
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ بابا نانک جی اسلام کی پیش کردہ توحید کے قائل تھے۔ اس صورت میں انہیں کسی نئی مذہب کا بانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ نئے مذہب کے بانی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے بارے میں کوئی ایسا تصور پیش کرے جو دوسرے مذاہب سے مختلف ہو۔
۳۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکھ لوگ بغیر کسی ٹھوس دلیل اور یقینی ثبوت کے بابانانک جی کو سکھ دھرم کا بانی پیش کرتے ہیں ۔ لیکن بابانانک جی سے کوئی بھی ایسا شبد وہ پیش نہیں کرسکتے جسے سے  بابا صاحب کا کسی نئی مذہب کا بانی ہونا ثابت ہوسکے۔ 
اس کے علاوہ آج سکھ دھرم کے جو عقائد اور اصول پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ باباجی کی وفات کے صدیوں بعد عالم وجود میں آئے ہیں۔ اور باباجی کے زمانہ میں ان کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آج سکھ لوگ پانچ ککوں کے دھارنی ہیں۔ یعنی کرپان ، کڑا ، کچہرا، اور کیس یہ پانچ چیزیں ان کے مذہب کی بنیاد ہیں۔ ان کو اختیار کئے بغیر کوئی سکھ سچا سکھ نہیں کہلا سکتا ۔ چنانچہ ایک سکھ ودوان کابیان ہے:۔
’’ککھارھاران نہ کرنے والا تنخواہیا قصوروار ہے‘‘
(سکھ قانون ص ۲۳۰)
نیز کڑوں کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ :۔
’’ اگر سکھ کرپان دھارن نہ کرے تو وہ سکھ نہیں رہتا۔ پلت ہوجاتا ہے‘‘ ۔
(ترجمہ از خالصہ کا چار یکم مئی ۱۹۴۷ء؁)
ایک اور صاحب کا بیان ہے :۔
’’کرپان کے بغیر سکھی ادھوری اور نامکمل ہے‘‘ 
(ترجمہ از اکالی ۲؍ مئی ۱۹۴۷ء؁)
لیکن کوئی سکھ دودان اس بات کو ثابت نہیں کرسکتا کہ بابا جی نے اپنی تمام عمر میں کسی شخص کو ان پانک ککاروں کو دھارن کرنے کی تلقین کی ہو یا خود اختیار کئے ہوں۔ یا انہیں سکھ دھرم یا اپنے پیش کردہ دھرم کا کوئی حصہ قرار دیا ہو۔ اس کے برعکس سکھ ودوانوں کو یہ امر مسلم ہے کہ باباجی نے اپنی تمام زندگی میں کرپان کو دھارن نہیں کیا۔ حالانکہ موجودہ زمانہ کے سکھ کرپان کے بغیر کسھی کو ادھوری اور سکھ کو پتت خیال کرتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ باباجی نے اپنے تمام کلام میں کرپان دھارن کرنے کا اپدیش دنیا تو الگ رہا کرپان کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا۔ اس صورت میں آپ کوسکھ دھرم کا بانی کیونکرقراردیا جاسکتا ہے ؟
۴۔ سکھ لٹریچر سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ بابا جی کو کوئی ایسا دعویٰ نہ تھا کہ وہ کسی نئے مذہب کو جاری کرنے پر مامور کئے گئے ہیں ۔ اور نہ انہوں نے اپنا کوئی الگ مذہب بنایا ہے ۔ مذاہب عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے ۔ کہ دنیا میں جس قدر بھی بانیان مذاہب گزرے ہیں ان سب نے دنیا کے سامنے اپنا یہ دعویٰ پیش کیاہے کہ وہ نیا مذہب چلانے کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں۔ چنانچہ گورو گو بند سنگھ جی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ :۔
جو جو ہوت بھیو جگ سیانا 
تن من اپنو پنتھ چلانا 
(دسم گرنتھ ص۵۱)
لیکن اس کے برعکس باباجی کا ہمیں ایسا کوئی دعویٰ ان کے کلام سے نہیں ملتا ۔ پس اگر باباجی فی الحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے کسی نئے مذہب کو چلانے کے لئے مامور تھے تو چاہیے تھا کہ آپ خود اس بات کو پیش کرتے۔ کیونکہ باباجی کے منصب کو خود ان سے زیادہ اور کوئی نہیںسمجھ سکتا تھا۔ 
جب ہم سکھ لٹریچر کا مطالعہ اس نقطہ نگاہ سے کرتے ہیں توہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خود سکھ ودوان بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ باباجی نے نہ صر ف یہ کہ ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس سے صاف الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ وہ کسی نئے مذہب کو جاری کرنے کی غرض سے دنیا میں نہیں آئے۔ چنانچہ مشہور سکھ ودوان گیانی شیر سنگھ جی کابیان ہے کہ :۔
’’ انہوں نے (یعنی بابا نانک جی نے ) اپنے منہ سے خود کو گورو نہیں کہا‘‘ ۔
(ترجمہ از گورگرنتھ پنتھ ص ۱۷)
مشہور سکھ مورخ گیانی گیان سنگھ جی کابیان ہے:۔
’’ انہوں نے (یعنی بابا نانک جی نے) خود کو بزرگ، پیغمبر یا اوتار ظاہر نہیں کیا اور نہ حکم دیا ہے کہ انہیں اوتار یا پیغمبر مانا جائے ‘‘
(ترجمہ از تواریخ گورو خالصہ ص ۶۱۲)
ایک اور سکھ ودوان کا بیان ہے:۔
’’ گورونانک خود کو اوتار نہیں کہتے تھے اگر بندے اور اوتار میں زمین و آسمان کافرق ہے تو عجز اور انکساری کے سبب سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘ ۔
(ترجمہ از پریت لڑی نومبر ۱۹۳۶ء؁)
یہ یاد رہے کہ خود سکھ ودوانوں نے کسی شخصیت کے گرو ہونے سے انکار کرنے کو اس کے گورو نہ ہونے کی دلیل قرار دیا (ملاحظہ ہو گرو پدنر نے ص ۱۸۰)
پس جس صورت میں خود سکھ ودوان اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ بابا جی نے گورو ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا اورانہوں نے اپنا کوئی نیا مذہب جاری نہیں کیا تھا اس صورت میں باباجی کے بارے میں یہ اعتراض کرنا کہ چونکہ وہ سکھ دھرم کے بانی تھے اس لئے مسلمان نہیں تھے خود بخود باطل ہوجاتا ہے۔ 
۵۔ دنیا میں جتنے بھی بانیان مذاہب ہوئے ہیں ۔ انہوںنے واضح الفاظ میں لوگوں کو اپنی طرف بلایا ہے اور یہ تلقین کی ہے کہ وہ اپنے خیالات ترک کرکے ان کے بتائے ہوئے راستہ پر گامزن ہوں ایک بھی ایسا بانی مذہب نہیں ہوا جس نے قوموں کو دوسروں کے مرید بننے کی تلقین کی ہو۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بابا جی دوسرے لوگوں کو یہ اپدیش دیا کرتے تھے کہ وہ شیخ فرید کے پیر کے مرید بنیں۔ چنانچہ جنم ساکھی بھائی بالا میں آپ کی ایک ساکھی درج ہے جس پر مرقوم ہے کہ یہ ساکھی پیرجلال الدین سے ہوئی تھی ۔ اس کے آخر میں یہ درج ہے کہ :۔
’’ پیرکو حکم ہوا تو پورا پیر کر۔ تب پیر جلال الدین نے کہا کہ گورو جی میں کس کو مرشد بنائوں ۔ تو گورو جی نے کہا کہ جو پیر فرید نے کیا ہے ۔ تب پیر جلال الدین گورو نانک سے رخصت ہوا ‘‘ ۔
(تراجم از جنم ساکھی بھائی بالا ص ۴۵۷)
اسی طرح پور اتن جنم ساکھی کے آخر میں ایک ساکھی مخدوم بہاء الدین اسے ہوئی درج ہے۔ اس کا نمبر ۴۵ ہے۔ اس ساکھی کے آخر میں مرقوم ہے کہ :۔
’’تب مخدوم بہاء الدین کو حکم ہوا ک جائو اور مرشد دھارن کرو۔ تب مخدوم بہائوالدین نے کہا کہ میں کس کو مرشدبنائوں ۔ تب بابا جی نے فرمایا کہ جسے شیخ فرید نے بنایا ہے۔ تب مخدوم بہائوالدین نے سلام کیا ۔ مصافحہ کیا۔ باباجی نے رخصت کیا ‘‘ ۔
(ترجمہ از پور اتن جنم ساکھی ص ۱۰۵)
پس اگربابا جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور وہ نیا مذہب جاری کرنے کا انہیں خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ملا تھا تو اس صورت میں آ پ نے دوسروں کو شیخ فرید کے مرشد کی بیعت کرنے کی تلقین کیوں کی۔ اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کوکسی بھی نئے مذہب کے جاری کرنے کا کوئی دعویٰ نہ تھا ۔ نیز وہ خود بھی چشتی طریقہ کے قائل تھے ۔ کیونکہ بابا جی ایسا انسان دوسروں کو اسی بات کی تلقین کرسکتا تھا جسے وہ خود صحیح اور درست خیال کرتے ہوں ۔ چنانچہ ایک سکھ ودوان نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ بابا جی کے صوفی مسلمانوں خصوصاً چشتی طریقہ کے مسلمانوں سے بہت گہرے تعلقات تھے ۔ جیسا کہ ان کابیان ہے:۔
’’گورونانک صاحب کا ……مسلمان صوفی فقیروں سے بہت گہرے تعلقات رہے ہیں……ان صوفی فقیروں میںسے جن کے ساتھ گورو صاحب کا ذاتی پیار تھا۔ ایک بہت بڑے مشہور بزرگ بابا فرید کا کلام گورو گرنتھ صاحب میں درج ہے۔ پنجاب میں ان دنوں جو صوفی مذہب پردھان تھا وہ چشتی فرقہ تھا ‘‘ 
(ترجمہ از گورمت درشن ص ۱۴۷)
مہاتمائی ایل واسوانی نے بیان کیا ہے کہ بابا نانک جی اور شیخ فرید ثانی جی بارہ سال مل کر لوگوں میں تبلیغ کافریضہ ادا کرتے رہے۔ اور متعدد و مقامات پر ہندوئوں نے باباجی کی اس حرکت کو ناپسند کیا جیسا کہ ان کا بیان ہے:۔
’’ میں سمجھتا ہوں کہ گورونانک صاحب کا مذہب ملاپ اور ایکتا کا مذہب تھا اس لئے انہوں نے اسلام کی تعلیم میں وہ کچھ دیکھا جو دوسرے ہندوئوں کو بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ گوروصاحب کو مسلمانوں کے ساتھ ملاپ کرنے میں لذت محسوس ہوتی تھی۔ شیخ فرید (ثانی) دس سال گورو صاحب سے مل کر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا راستہ بتاتا رہا ۔ متعدد مقامات کے ہندوئوں نے گورو صاحب کے مسلمانوں سے گہرے میل  ملاپ کو ناپسند بھی کیا ۔ مگر ایکتا کے اوتار نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی ‘‘ 
(ترجمہ از اخبار موجی ۱۸؍جنوری ۱۹۳۷ء؁)
بابانانک صاحب کا شیخ فرید (ثانی) جی سے مل کر پرچار کرنا اوردس سال تک لگاتار لوگوں کو اللہ کا راستہ بتانا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کااور شیخ صاحب کا ایک ہی مذہب تھا۔ اور وہ اسلام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد مقامات کے ہندوئوں نے باباجی کی اس تبلیغ کو ناپسند کیا ۔ اگربابا جی نے اسلام کے مقابلہ پر کوئی الگ مذہب پیش کیا ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ شیخ فرید (ثانی ) ایسابزرگ مسلمان آپ کے ساتھ مل کر تبلیغ کرتا۔ اور پھر متعدد مقامات کے ہندئوں کو بھی باباجی کی اس تبلیغ کو ناپسند کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی ۔ بلکہ پھر تو وہ خوش ہوتے کہ ان کی جاتی میں سے پیدا ہو کر ایک شخص اعلانیہ طور پر اسلام کا رد کررہا ہے اور اپنا نیا مذہب لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی باباجی کا تعلق چشتی خاندان کے لوگوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں کہ :۔
ملا تب خد اسے اسے ایک پیر 
کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیر 
وہ بیعت سے اس کی ہوا فیضیاب
سنا شیخ سے ذکر راہ صواب 
(ست بچن ص ۴۰)
پس بابا صاحب کا لوگوں کو شیخ فرید کے مرشد کی بیعت کرنے کی تلقین کرنا اور شیخ فرید ثانی سے مل کردس سال تک لوگوں کو اللہ کاراستہ بتانا اور ہندوئوں کاباباجی کی اس تبلیغ کا ناپسند کرنا ثابت کرتا ہے کہ بابا جی خود کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے بلکہ آپ کے چشتی طریقہ کے لوگوں سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ اور آپ خود بھی اس طریقہ کے پابند تھے ۔ کیونکہ بابا جی کا اپناہی ارشاد ہے کہ :۔
’’ آپ نہ بوجھاں لوک بوجھائی ایسا آگودہواں 
نانک اندھا ہوئیکے دسے سہاتے مبس مہائے ساتھے
آگے گیا موہے ہنہ پاہے سو ایسا آگو جاپے 
(وارماجھ محلہ ۱ ص ۱۴۰)
الغرض باباجی کے بارے میں یہ بیان کرنا کہ انہیں کسی نئے مذہب کا دعویٰ تھا یا وہ نیا مذہب جاری کرنے کے لئے دنیا میں آئے بے بنیاد ہے۔ بابا جی چشتی طریقہ میں شامل تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں کو اس طریقہ میں شامل ہونے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔
۶۔ سکھ کتب سے یہ ثابت ہے کہ نئے مذہب کے جاری کرنے کی ذمہ داری گوروگوبند سنگھ جی نے خود ہی اپنے اوپر لی ہے ۔یعنی موجودہ زمانہ کے سکھ جس خالصہ دھرم کو مان رہے ہیں اور اس کے جو سدھانت اور اصول تسلیم کررہے ہیں وہ بابا نانک جی کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد گورو گوبند جی نے ایجاد کئے تھے ۔ جن میں بعد میں اضافے بھی کئے جاتے رہے ۔ چنانچہ سکھ ودوان بیان کرتے ہیں کہ گورو گوبند سنگھ جی نے شروع میں پانچوں ککوں کی بجائے تین مندرادھارن کرنے کا اپدیش ہرایک سکھ کو دیا تھا جو یہ ہیں۔ 
’’کیس ۔کچھ ۔ کرپان ‘‘
(ملاحظہ ہو گورپرتاب سورج رت ۳۔ انسو ۔۲۰ مہان کرش ص ۵۰۹ و پنتھ پرکاش ۷۶۵)
مگر بعد میں ان تین مندرا کو پانچ ککوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ سردار بہادر کاہن سنگھ جی کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ گورو گوبند سنگے جی نے پانچ ککوں کا کوئی حکم نہیں دیاتھا۔ یہ گورو صاحب کے کافی عرصہ بعد مشہورہوا (ملاحظہ ہوا گور مت سدھا کر ص ۴۶۷)
ایک اور سکھ ودوان نے اس سلسلہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی بھی پراچین کتاب میں پانچ ککاروں کی وضاحت نہیں کی گئی ( پریم سمارگ ص ۳۶)
بعض لوگ گوروگوبند سنگھ جی کا ایک فارسی شباس سلسلہ میں پیش کیا کرتے ہیں کہ 
؎ نشان سکھی ایں پنج حرف کا ف 
ہرگز نہ باشد ایں پنج معاف 
کڑا کاروو کچھ کنگھا بداں 
بلا کیس ہیچست جملہ نشاں
ایک سکھ ودوان نے اس شبد کو گوبند سکھ جی کا بیان کردہ تسلیم نہیں کیا بلکہ بعد کی بناوٹ ظاہر کیا ہے(پریم سمارگ ص۳۷) 
بھائی رندھیر سنگھ کا بیان ہے کہ پانچ ککوں میں کیس شامل نہیں ہے۔ کیس تو پہلے ہی سکھ رکھا کرتے تھے ۔ گورو صاحب نے کھیسوں کی بجائے کیسکی دھارن کرنے کا حکم دیا تھا مگربعد میں لوگوں نے کسیکی (چھوٹی پگڑی) کو کیسوں میں بدل دیا۔ 
(ملاحظہ ہو نر بھے خاصلہ دستار انگ اگست ۱۹۵۰ء؁ ، ص ۲۲۔۳۹۔۴۰ وغیرہ ) 
گورو گوبند سکھ جی نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ :۔
’’ پنتھ پرچور کرب کو ساجا ‘‘ 
(وسم گرنتھ ص ۵۱)
یعنی خداتعالیٰ نے گورو گوبند سنگھ کو نیا پنتھ جاری کرنے پر مامور کیا ‘‘ ۔
ایک اور مقام پرآپ نے فرمایا ہے :۔
راج ساج جب ہم پر آئیو
جتھا شکت تب دھرم چلائیو 
(دسم گرنتھ ص ۵۴)
’’یعنی جب میں نے سیاست میں دخل حاصل کرلیا تو اپنی طاقت کے مطابق نیا پنتھ جاری کیا ‘‘۔
دسم گرنتھ کے بعض قلمی نسخوں میںگورو گوبند سنگھ جی کا یہ قول بھی درج ہے :۔
دوہوں پنتھ میں کپٹ و دیا چلانی 
بہر تیسرو پنتھ کیجے پردھانی
(نامدھاری نت بنیم ص ۶۳۲ گور مت سدھاکر ص ۱۵۴ ورتمان سیکھ راجنیتی ص ۲۔ من مت پرہار ۲۔ص ۲۳ ، کتھاراپدیش ساگر ص ۲۴۰۔ہم ہندو ہیں۔ ص ۵۵ ، رسالہ سنت سپاہی جولائی ۱۹۴۹ء نومبر ۱۹۵۰ء؁)
گوروگوبند سنگھ جی کا یہ قول بھی سکھ کتب میں موجود ہے۔ 
’’گورو نانک صاحب سے لیکر نوگورو صاحبان تک کسی نے کوئی مذہب مریادہ اور جاری نہیں کی۔ صرف ہمیں ہندو مذہب سے گلانی(نفرت) پیداہوئی تو تیسرا پنتھ سنگھوں کا جاری کیا ہے‘‘ 
(ترجمہ از بجے مکت گرنتھ ص ۲۰۳)
بھائی گورد اس کی اکتالیسویں وار میں گورو گوبند سنگھ جی کے بارے میں یہ مرقوم ہے:۔
گور گو بند سنگھ پرگیٹو دسواں اوتارا جن الکھ اپار نرنجنان جپیو کو تارا نج پنتھ چلائیو خالصہ دھرتیج قرارا یعنی گوروگو سنگھ جی دسویں اوتار ظاہر ہوئے اور انہوں نے تیسرا پنتھ خالصہ جاری کیا ‘‘۔
ماسٹرتارا سنگھ جی نے گورو گو بند سنگھ جی کے قول بہ تیسرو پنتھ کیجئے پردھانی کی بناء پر لکھا ہے:۔
’’گورو صاحب کا یہاں صاف منشاء ہے کہ دو پنتھ ہندو مسلمان تھے اور تیسرا خالصہ پنتھ جاری کیا گیا ‘‘
(ترجمان از ورتمان سکھ راجنیتی ص ۲)
ان حوالہ جات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ گورو گو بند سنگھ جی تیسرے مذہب کے بانی تھے ۔ اس صورت میں بابانانک جی کو کسی نئے مذہب کا بانی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ سکھوں میں ایسے لوگ موجود ہیں بابانانک جی کے بارے میں یہ کہتے ہیں :۔
’’انہوں نے کسی نئے مت کی ستھا پنا نہیں کی ‘‘
(شروت منی چترا مرت حصہ دوم ص ۱۶۹)
البتہ یہ درست ہے کہ بعد میں لوگوں نے انہیں سکھ دھرم کا بانی قراردینا شروع کردیا جیسا کہ سردار گو رنجش سنگھ جی بی ایس سی بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’وقت گزرنے کے بعد عقید تمندوں نے انہیں (یعنی بابا صاحب کو) اپنا خاص گورو بنالیا۔ اور اس گوروسنستھا پر ایک شاندار پنتھ کی عمارت بٹالی‘‘ 
(ترجمہ از پریت لڑی نومبر ۱۹۴۸ء؁)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ بعد میں لوگوں نے گورونانک جی کو سکھ دھرم کا بانی قراردیدیا ۔ باباجی کو خود ایساکوئی دعویٰ نہ تھا کہ وہ کسی نئے مذہب کے بانی ہیں۔


مکمل تحریر >>

بہائی صاحبان کے اعتراضات کے جواب





بہائی صاحبان کے اعتراضات کے جواب 
ایک کشمیری رسالہ پر نظر

دیباچہ کاخلاصہ 

جناب ابو ظفر صاحب کشمیر ی نے ایک رسالہ احمدی صاحبان کے لئے لمحہ فکریہ لکھا ہے ۔اس کے دیباچہ میں آپ نے تحریر کیا ہے ۔ کہ جس طرح مخالفین احمدیت کی تحریریں جماعت احمدیہ پر حجت نہیں ہیں ۔ اسی طرح اہل بہاء کے خلاف ان کے مخالفین کے لٹریچر سے سند پکڑنا درست نہیں پھر لکھتے ہیں ۔ 
’’بہا ئیوں کو صر ف حضرت باب وبہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریریں مسلم ہیں ۔
اس پر سوال پیدا ہو تا ہے ۔ کہ جناب باب کی ساری وحی کو بہائی لوگ منسوخ مانتے ہیں پھر باب کی تحریرون کے مسلم ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ باقی رہے جناب بہاء اللہ سو ان کی تیار کردہ کتاب الاقدس کو جو اہل بہاء کی شریعت ہے ۔ آپ لوگوں نے آج تک شائع نہیں کیا۔ پھر کس طرح کہا جاسکتا ہے ۔ کہ ان تحریروں میں کسی قسم کی کمی اور بیشی آپ لوگ نہیں کر رہے ۔
کیا یہ عجب بات نہیں کہ آپ لوگوں نے عمداًاصل کتابیں شائع نہیں کیں ۔ کیونکہ جناب بہاء اللہ نے آپ کو حکم دے رکھا ہے ۔
استم ذھبک وذھابک و مذھبک ،‘‘
’’کہ اپنے مال ۔ آمدروفت اور مذہب کہ مخفی رکھو‘‘      ( بھجۃ الصدور صفحہ ۸۳)
اور پھر بنا ء گفتگو یہ ٹھہرا رہے ہیں کہ ہم صرف باب بہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریروں کو تسلیم کرتے ہیں ۔
جناب ابوظفر صاحب صرف تحریروں کو حجت قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ بہائی عقیدہ کے مطابق ان لوگوں کا قول بھی وحی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ تنگی دامن کا رویہ کسی مصلحت کے ماتحت تو اختیار نہیں کیا جا رہا ہمیں ہی یہ شکایت نہیں کہ بہائی لوگ اپنے اصلی لٹریچر کو شائع نہیں کرتے بلکہ خو د بہائی بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔ چنانچہ جناب حشمت اللہ قریشی بہائی لکھتے ہیں ۔
’’عام طور پر حضرت باب حضرت بہاء اللہ اور حضرت عبدالبھا ء کی کتابوں کے کامیاب ہونے کی وجہ سے بعض تاریخی اور تعلیمی غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں ۔(رسالہ بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۲)
ابو ظفر صاحب کہتے ہیں کہ :
’’بہائیوں کی تاریخ باب الحیاۃ یا مقالہ ساح یا عصر جدید یا اس قسم کی دوسری کتابیں ہیں جو بہائیوں کو مسلم ہیں  ان کے ذریعہ بہائیوں پر اتمام حجت ہو سکتی ہے ۔
اول تو یہ سوال ہے کہ آیا یہ کتابیں باب یا بہاء اللہ یا عبدالبھا ء کی تحریریں ہیں ۔ مقالہ سیاح کو محقیقین تو عبدالبھاء کی تصنیف قرار دیتے ہیں ۔ مگر بہائی اس کا کھلا اعتراف نہیں کرتے ۔ عصر جدید تو اس امریکن بہائی کی کتاب کا ترجمہ ہے ۔ اگر بہائیوں کو صر ف باب یا بہاء اللہ اور عصر البھاء کی تحریریں ‘‘ہی مسلم ہیں ۔ تو ان تاریخی کتابوں سے ان پر اتمام حجت کیونکر ہو گا ؟
یہ امر بھی موجب حیرت ہے کہ ابوظفر صاحب جناب علمی بہائی کے رسالہ کو کب ہند کے حوالہ جات ماننے سے بھی گزیر کر رہے ہیں ۔ حالانکہ جناب علمی کو ان بہائیوں میں صاحب البیعت ‘‘ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔
ابو ظفر جناب پروفیسر برائون پر ناراض ہیں کہ انہوں نے نکتہ انکاف میرزا کاشانی کی شائع کردی جس سے یابی اور بہائی تحریک کے بہت سے تاریک پہلو نمایاں ہو گئے حالانکہ پروفیسر برائون اہل بہاء کے نزدیک خاص مقرب شخص تھے جنہوں نے بابی اور بہائی تاریخ کا قریب سے مطالعہ کیا تھا۔ اس بارے میں عصر جدید کے مصنف نے لکھا ہے ۔
سوائے پر وفیسر برائون کی ملاقات کے جنہوں نے ۱۸۹۰ء؁ میں چار مرتبہ آپ (بہاء اللہ) سے ملاقات فرمائی اورہر متبہ ۲۰ یا۳۰منٹ تک آپ کے حضور میں رہے ۔ آپ نے کسی متنور مغربی اہل خیال سے ملاقات نہ فرمائی تھی ۔ 
(عصر جدید اردو صفحہ ۵۶)
ان حالات میں ابوظفر کی ناراضگی حقائق کو بدل نہیں سکتی ۔ اور تاریخی واقعات کو اس قسم کی حرکات سے مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم ابو ظفر صاحب کو یقین دلاتے ہیں ۔ کہ ہم آپنے جوابا ت میں کوئی ایساحوالہ یا ایسی عبارت ان پر اتمام حجت کے طور پر پیش نہ کرینگے جوان کے مسلمات میں نہ ہو۔ اگرچہ ہمارے نزدیک بہت سے حقائق دوسرے مقامات پرمذکور ہیں  ۔اور ہم انہیں عندا لضرورت ذکر کرتے ہیں ۔
اس یقین دہانی کے ساتھ ساتھ ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ کہ ابوظفر صاحب نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بات کرتے وقت اصول کو مدنظر نہیں رکھا ۔ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ۔ گویا ان کے  دینے کے باٹ اور ہیں اور لینے کے اور اس حقیقت کا بیان ہمارے جوابات کے آئندہ صفحات میں آپ کی نظر سے گزر ے گا ۔

صادق مدعی کی ایک علامت 

جناب ابو ظفر صاحب نے دیباچہ کے بعد بابیت اور بہائیت کی سر سری ا و ر غیر مستند تاریخ میں چند سطور لکھنے کے بعد یہ سوال اٹھایا ہے ۔ کہ صادق مدعی کی یہ علامت ہوتی ہے ۔ کہ وہ تمام مدعیوں میں پہلا دعویٰ کرنے والا ہوتا ہے ۔ نیز چونکہ باب و بہاء نے مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام سے پہلے کیا تھا۔ اس لئے ثابت ہوا کہ باب و بہاء کا دعویٰ سچا تھا ۔ حضرت میرزا صاحب نے صرف ان کی نقل کی ہے ۔

حضرت مسیح موعود ؑ کی عبارتیں ۔

ابوظفر نے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ صادق مدعی کا دعویٰ سب سے پہلے ہوتا ہے ۔ 
حضرت مسیح علیہ السلام کی کتاب چشمہ معرفت کتاب ضرورۃ الاسام سے نیز اخباربدر سے حوالے پیش کئے ہیں ۔ ابوظفر صاحب نے حوالہ جات کے نقل کرنے میں پوری احتیاط نہیں کی رہم پہلے متعلقہ عبارتیں اصلی کتاب سے درج کرتے ہیں:۔
۱۔ منجملہ لوازم خاصہ کے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے زمانہ میں اس کا ظہور سب مدعیوں سے پہلے ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ نبیوں کا نام ونشان نہ تھا۔ اورجب ان کا نورزمین پر خوب روشن نہ تھا ۔ تب مسیلمہ کذاب اوراسود عنسی اورابن صیاد وغیرہ جھوٹے نبی ظاہر ہوئے تاجداد دکھاوے کہ کس  طرح وہ سچے کی حمایت کرتا ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ ۔ سچے نبی کے ظہور کیوقت بارش کے موسم کی طرح آسمان پرانتشار روحانیت ہوتا ہے ۔ اوراکثر لوگوں کو سچی خوابیں آنی شروع ہوجاتی ہے۔ الہام بھی ہونے لگتے ہیں۔ اس دھوکہ سے بعض جھوٹے نبی اپنی حد سے بڑھ کرنبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۰۱ حاشیہ )
۲۔ ہمارے نبی ﷺ نے امام آخر الزماں کی ضرورت ہر ایک صدی کے لئے قائم کی ہے۔ اورصاف فرمادیا ہے۔ کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا۔ کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا۔ وہ اندھا آئے گا۔ اورجاہلیت کی موت پر مریگا۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے کسی علہم یا خواب بیں کا استثنیٰ نہیں کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے۔ کہ کوئی علہم یاخواب بین ہواگروہ امام الزماں کے سلسلہ میںداخل نہیں ہے۔ توا س کا خاتمہ خطر ناک ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے مخاطب تمام مومن اورمسلمان ہیں ۔ اوران میں ہرایک زمانہ میں ہزاروں خواب میں اورعلہم بھی ہوتے آئے ہیں۔ بلکہ سچ تویہ ہے۔ کہ امت محمدیہ میں کئی کروڑ ایسے بندے ہونگے ۔ جن کو الہام ہوگا ۔ پھر ماسوااس کے حدیث وقرآن سے ثابت ہے۔ کہ امام الزماں کے نور کا ہی پر تو ہوتا ہے۔ جومستعددلوں پر پڑتا ہے حقیقت یہ ہے۔ کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے۔ توہزاررہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں۔ اورآسمان میں ایک صورت انبسامی پیدا ہوجاتی ہے ۔ انتشار روحانیت اورنورانیت ہوکر نیک استعداد یں جاگ اٹھتی ہیں۔ پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتاہے۔ اس کو سلسلہ الہام شروع ہوجاتاہے ۔ اورجوشخص فکروغور کے ذریعہ سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کے تدبر اورسوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اورجس کوعبادت کی طرف رغبت ہو اس کو تعبداور پر ستش میں لذت عطا کی جاتی ہے۔ اورجو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحتات کرتا۔ اس کو استدلال اوراتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ جوامام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اورہرایک مستعد کے دل پر نازل ہوئی ہے۔ ‘‘
(ضرورۃ الامام صفحہ ۴)
۳۔ فرمایا پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں بھی بہت سے جھوٹے نبی پید اہوئے تھے ۔مگر جھوٹا ہمیشہ بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ سچا پہلے ظاہر ہوجاتاہے۔ توپھر اس کی ریس کرکے جھوٹے بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے دعویٰ سے پہلے کوئی نہیں کہ سکتا کہ کس نے اس طرح خدا تعالیٰ سے الہام پاکر مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہو ۔ مگر ہمارے دعویٰ کے بعد چراغ دین اورعبدالحکیم اورکئی ایک دوسر ے ایسے پیدا ہوگئے ہیں۔ 
(بدریکم اگست ۱۹۰۷ء؁ جلد ۶)
(نمبر ۳۱صفحہ ۱۰)
جناب ابوظفر صاحب کشمیر ی ان حوالہ جات کے بعد لکھتے ہیں :۔
’’ازالہ وہام ایڈیشن ثالث صفحہ ۲۷۹ نورالحق جلد دوم صفحہ ۱۵ ‘وصفحہ ۱۶۰ وخطبہ الہامیہ صفحہ ۱۲۴ و اخبار بدرقادیان جلد ۶ نمبر ۳۱ ۱۹۰۷ء؁ پر بڑے زوردار الفاظ میں فرماتے ہیں۔ کہ مسیح موعود کا ظہور چودھویں صدی سے پہلے یا چودھویں صدی کے سرپر ہوگا۔ اس سے تجاوز نہ کرے گا۔ یہ عاجزایسے وقت میں آیا ہے۔ جس وقت میں مسیح موعود کو آنا چاہیئے تھا۔ دوسرے ملکوں میں یہاں تک کہ بلاد عرب شام ایسے مدعی کے وجود سے خالی ہیں۔یہ دعویٰ تیرہ سوبرس سے آج تک بجز اس عاجز (مرزاصاحب )کے کسی نے نہیں کیا ہے۔ ‘‘
گویا آپ کا سوال یہ ہے کہ جب باب اوربہاء اللہ نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام سے پہلے مہدی اورمسیح ہونے کا دعویٰ کررکھا تھا۔ توحضرت مرزا صاحب یہ کس طرح کہتے ہیں۔ کہ ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا۔ نیز یہ کہ پہلے دعویدار ہونے کے باعث باب اوربہاء اللہ کو سچا ماننا چاہیئے ۔ 
اس سوال کے جواب کی وضاحت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حوالہ جات خاص طور پر قابل توجہ ہیں ۔ حضور تحریر فرماتے ہیں :۔
(الفؔ)مجھے عین چودھویں صدی کے سر پر جیسا کہ مسیح ابن مریم چودھویں صدی کے سرپر آیا تھا۔ مسیح الاسلام کرکے بھیجا ۔ اورمیرے لئے اپنے زبردست نشان دکھلا رہا ہے اور آسمان کے نیچے کسی مخالف مسلمان یا یہودی یا عیسائی وغیرہ کو طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کرسکے ۔ ‘‘
                            (کشتی نوح ؑ صفحہ ۵۰) 
(بؔ)’’اس آیت کی تشریح میںیہ حدیث ہے ۔ لوکان الایمان معلقا ً بالثر یالسنالہ رجل من فارس 
اورچونکہ ا س فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے۔ جو مسیح موعوداورمہدی سے مخصوص ہے۔ یعنی زمین جو ایمان اورتوحید سے خالی ہوکر ظلم سے بھر گئی ہے۔ پھر اس کو  عدل سے پر کرنا ۔ لہذا یہی شخص مہدی اورمسیح موعود ہے  اوروہ میں موں اورجس طرح کی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پرنہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سوبرس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ دعویٰ نہیں کیا ۔ کہ اس پیشگوئی لنالہ رجل من فارس کا مصداق میں ہوں ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸ طبع سوم )

دونوں دعووں میں فرق

ان دوعبارتوں کو ابوظفر صاحب کے ذکر کردہ حوالہ جات کے ساتھ ملانے سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مدعیوں کا ذکر فرمارہے ہیں۔جن کے دعویٰ کی نوعیت اورکیفیت ایک ہو۔ اوروہ ایک ہی زمانہ اورعلاقے میں ہوں جن کے بارے میں باسبدایت سمجھا جاسکے ۔ کہ پہلے مدعی کے بعد دوسروںنے اس کی ریس کرکے دعوے کئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے مدعیوں میں سے پہلے دعویٰ کرنے والے کو ترجیح حاصل ہوگی۔ اوراگر دیگر دلائل صداقت کے لوازم خاصہ میں سے ایک بھی شمار ہوگا۔ کہ اس نے سب سے پہلے دعویٰ کیا ہے۔ 
اس وضاحت کی روشنی میں یہ  سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ چونکہ باب اوربہاء نے حضرت میرزا صاحب سے پہلے دعویٰ کردیا تھا ۔ اس لئے کیوں نہ ان کو صادق سمجھا جائے اورحضرت میرزا صاحب کو ان کی ر یس کرنے والا قرار دیا جائے کیونکہ بہائیوں کے پیشوائوں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے ٰ میں زمین وآسمان کا فر ق ہے یا درہے کہ :۔
(۱)باب اوربہاء نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے ماتحت کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ وہ تواپنے ہر قول کو الہام دوحی قرار دیتے تھے۔ اوران کا دعویٰ اسی طرح الوہیت کا دعویٰ تھا جس طرح عیسائی حضرت مسیح کو اللہ اورابن اللہ قرار دیتے ہیں۔ 
(۲)باب اوربہاء نے مہدی اورمسیح کو الگ الگ قرار دیا اورایک ایک دعویٰ اپنالیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح اورمہدی کو ایک وجود قرار دیکر خود دعویٰ فرمایا 
(۳)باب اوربہاء کے دعووں کا مقصد یہ تھا ۔ کہ قرآن مجید منسوخ ہوگیا۔ اب نئی شریعت البیان یاالاقدس پر عمل کرنا چاہیئے ۔ اسلام بھی منسوخ اس لئے یہ لوگ تومسیح الاسلام نہ تھے۔ بلکہ ناسخ الاسلام تھے ۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نصب العین یہ تھا۔ کہ قرآنی شریعت محکم زندہ اورقائم ہے ۔ اوراسلام زندہ مذہب ہے۔ حضور تحریر فرماتے ہیں۔ 
(الفؔ)’’ خدا تعالیٰ اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے ۔ اورمحمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے۔ اوراپنی شریعت چلانا چاہتاہے۔ ‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۴)
(ب)اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تینسخ یاکسی ایک حکم کا تبدیل یا تغیر کرسکتا ہو ۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے ۔تووہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اورملحداورکافر ہے۔‘(لفالہ ادہام صفحہ ۶۰ ،صفحہ ۶۱)
اس صورت حالات کی موجودگی میں کوئی انتہائی فریبی یا فریب خورہ انسان ہی کہہ سکتاہے کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام باب وبہاء کے دعویٰ کی نقل کی ہے۔ 
جب بہاء اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ تویہ کہنا کہ چونکہ بہاء نے پہلے دعویٰ کردیا تھا۔ اس لئے انہیں بہر طو ر سچا مانا جائے گا۔ اورحضرت مرزا صاحب کو بہرحال ان کی نقل کرنے والا ٹھہرایا جائے گا۔ انتہائی غلط بیانی ہے۔ پس ابوظفر صاحب کے تقدیم وتاخر دعویٰ والے سوال کا پہلا جواب تویہ ہے۔

سچے مسیح موعود سے پہلے جھوٹے مدعیوں کا وجود ضروری تھا 

دوسرا جواب ابوظفر صاحب کے سوال کا یہ ہے کہ مشابہت اورپیشگوئیوں کے مطابق ضروری تھا۔ کہ سچے مسیح موعود سے پہلے کا ذب مدعی پیدا ہوئے تھے ۔ گملی ایل فریسی نے تبلیغ کرنے والے حواریوں کے متعلق کہاتھا کہ 
’’اے اسرائیلیو! ان آدمیوں کے ساتھ جوکچھ کیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا ۔ کیونکہ ان دنوں سے پہلے تھیوداس نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں بھی کچھ ہوں اورتخمینا ً چار سوآدمی اس کے ساتھ ہوگئے تھے مگر وہ مارا گیا۔ اورجتنے اس کے ماننے والے تھے سب تتر بتر ہوگئے ۔ اورمٹ گئے۔ اس شخص کے بعد یہوداہ گلیلی اسم نویسی کے دنوں میں اٹھا ۔ اورکچھ لوگ اپنی ف کرلئے وہ بھی ہلاک ہوا ۔۔۔۔ الخ (اعمال  5\38,36)
پس مسیح موعودؑ کی مسیح ناصری ؑ سے مشابہت کے باعث تھیود اس اوریہوداہ گلیلی کے مظہر باب وبہاء کا آپ سے پہلے کا ذب مدعی ہونا ضروری تھا پیشگوئیوں میں اسے احادیث نبویہ میں تفریح موجود ہے ۔ کہ مسیح الدجال پہلے ظاہر ہوگااوردین اسلام میں نقص پیدا کرنے کی کوشش کریگا اورپھر مسیح الموعو د مبعوث ہوگا جواسلام کو زندہ کریگا اس لحاظ سے بھی باب بہاء کا دعویٰ پہلے ہونا لازمی تھا ۔ چنانچہ ایساہی ہوا ۔ زہر کے بعد نزیاق اوربیماری کے بعد علاج کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگیا۔الحمد اللہ (باقی آئندہ )

( ماہنامہ الفرقان جون جولائی 1959 )
مکمل تحریر >>

Thursday, 28 April 2016

احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟




احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟


(تفریح کی گھنٹی بجی ۔جمیل اور جلیل جھٹ میدان میں گھا س پر ایک طرف بیٹھ گئے )
جمیل :
بھائی جلیل !کل آپ نے امام مسجد صاحب سے پوچھا تھا کہ احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟ 
جلیل :
پوچھا تو تھا مگر وہ احمدیوں کا نام سنتے یہ لال پیلے ہو گئے اورناراضگی سے کہنے لگے کہ تمہیں احمدیوں اور احمدیوں کے عقائد سے کیا واسطہ ؟ایسی باتیں مت کیا کرو۔ 
جمیل :
میں نے اباجان سے پوچھا تھا کہ احمدی لوگ کیا عقائد رکھتے ہیں؟ انہوں نے بڑی محبت سے بتلایا کہ احمدی اللہ کی توحید کے قائل ہیں۔ وہ ایک ہی خدا مانتے ہیں۔ دو تین خدا نہیں مانتے ۔ 
جلیل :
مسلمان تو سارے ہی ایک خدا کو مانتے ہیں۔ 
جمیل :
منہ سے سب کا یہی اقرار ہے مگر بعض لوگ قبروں پر سجدہ بھی کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں سے مرادیں مانگتے ہیں ایسے لوگ توحید کے قائل قرار نہیں پا سکتے۔ 
جلیل :
اچھا اس بات کو چھوڑو۔ تم یہ بتائو کہ تمہارے اباجان نے اور کیا کیا فرق احمدی اور غیر احمدی میں بتلائے ہیں؟ 
جمیل :
انہوں نے فرمایا کہ چار باتوں کا فرق ہے۔ (۱) احمدی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے ہیں (۲) احمدی لوگ قرآن مجید کی کسی آیت یا حکم کو منسوخ نہیں ٹھہراتے بلکہ سارے قرآن مجید کو قائم دائم جانتے ہیں (۳) احمدی لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی قرآن مجید کے ماننے والوں سے پیار کی باتیں کرتا ہے یعنی ان پر الہام اور وحی نازل کرتا ہے۔ مگر یہ الہام شریعت اور احکام والا کلام نہیں ہوتا۔ (۴) چوتھا فرق یہ ہے کہ احمدی لوگ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام کو امت مسلمہ کا مجدد اور مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔ بس یہ چار فرق ہیں۔ دوسراکوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ 
جلیل :
میں نے جب امام صاحب سے پوچھا تھا تو وہ ناراض ہو گئے تھے۔ مگر چلتے چلتے کہہ گئے تھے کہ مرزائی لوگ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے ۔ 
جمیل :
یہ تو بالکل غلط بات ہے ۔ مجھے تو اباجان نے بار بار بتایا ہے کہ ہم احمدی آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ 
(بات یہاں تک پہنچی تھی کہ گھنٹی بج گئی۔ دونوں بچے اپنی اپنی کلاس میں چلے گئے )

مکمل تحریر >>