Monday, 9 May 2016

جناب شیخ عبدالقادر صاحب کاایک نایاب تحقیقی مقالہ



ذبیح اللہ کون تھا؟
کیا حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں؟
کتاب موسیٰ کی تصدیق سے کیا مراد ہے؟
’’ کلام حق‘‘ کے مقالہ کا جواب


(مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب۔ لاہور)

’’ کلام حق‘‘ راسخ الاعتقاد مسیحیت کا واحد علمبردار ماہنامہ ہے۔ اس کے شمارہ ستمبر ، اکتوبر 1983ء میں ایک مضمون شائع ہوا ہے ۔ جس کا عنوان ہے:۔
’’ قربانی کے لئے کون پیش کیا گیا؟۔ اسماعیل یا اضحاق‘‘
مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ 
’’ اسماعیل، ابراہیم کا بیٹا تھا لیکن وہ لونڈی سے پیدا ہوا تھا جو ابراہیم کی بیاہتا بیوی نہ تھی۔ اس کی اصل بیوی سارہ تھی لہٰذا ذبیح اللہ اضحاق تھا نہ اسماعیل، کیونکہ لونڈی کی اولاد جائز وارث نہیں ہوتی‘‘۔
اس دعویٰ کے جواب میں گذارش ہے کہ مضمون نگار کا موقف تعاملِ دین ابراہیم کے سر اسر خلاف ہے۔ 
تورات کھول کر دیکھئے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ جن میں آٹھ ان کی دو بیویوں کی اولاد اور چار دو لونڈیوں کی اولاد سے تھے۔ (پیدائش 35/23-26) کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ بنی اسرائیل کا 1/3حصہ جائز وارث نہیں۔ وہ محروم الارث ہے کیونکہ وہ تو لونڈیوں کی اولاد ہے۔ کیا اہل کتاب نے بنی اسرائیل کے لئے پیمانہ اور رکھا ہے ، بنی اسرائیل کے لئے اور؟
حضرت یوسف علیہ السلام بازارِ مصر میں بطور غلام بیچے گئے۔ اس کے بعد ان کو نبوت ملی۔ کیا وہ اور ان کی اولاد داغِ غلامی کی وجہ سے انعام خداوندی سے محروم تھے۔ یہی نہیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بنی اسرائیل جلا وطن ہو کر غلامی میں چلے گئے۔ ستر سال کی بد ترین غلامی کے بعد بارہ میں سے دو فرقے واپس لوٹے۔ انہی کی نسل سے آگے چل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیداہوئے کیا غلامی کے باعث یا جسمانی لحاظ سے وہ محروم الارث تھے؟ اور پھر یہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے۔ 
حضرت ہاجرہ اصالتاً لونڈی نہ تھیں۔ جیوئش انسائیکلو پیڈیا اور یونیورسل انسائیکلو پیڈیا ملاحظ کریں۔ آئمہ بنی اسرائیل کیا سمجھتے تھے؟ لکھا ہے کہ ان کے ہاں دو مکتب فکر تھے پہلے کی ر وسے ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھیں۔ حضرت سارہ کو مجبوراً بادشاہ کے محل میں رہنا پڑا۔ سارہ کی بزرگی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ہاجرہ اس درجہ متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ایک انقلاب آفرین اور تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ 
’’ بادشاہ کے گھر میں شہزادی بن کر رہنے سے یہ بہتر ہے کہ میں سارہ کے گھر میں اس کی لونڈی بن کر رہوں گی‘‘
اس فیصلہ کے نتیجہ میں ہاجرہ کو سارہ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ 
’’ اسے بطور لونڈی قبول فرمائیں‘‘
یہ ہے لونڈی بننے کی حقیقت۔ جو خود زمانۂ قدیم کے علماء ربانیین نے بیان کی اور مدرش میں آج بھی درج ہے۔ مدرش یہود کی کتاب حدیث و تفسیر ہے۔ اس میں بائیبل کے دس صحیفوں کی شرح ہے۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے اسے ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔ مدرش میں ہاجرہ کی جس غلامی کا ذکر ہے، اس پر ہزار آزادیاں قربان ہیں۔ 
قرآن حکیم کی سورۂ الصافات دیکھئے اول غلام حلیم کی بشارت ہے اور اسی کے متعلق ذبیح اللہ ہونے کے واقعہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد فرمایا:۔
و بشرناہ باسحٰق (الصافات آیت: ۱۱۳(
صاف ظاہر ہے کہ بروئے قرآن ذبیح اللہ والا واقعہ اسحاق سے پہلے ہو چکا تھا۔ اور پھر قرآن حکیم میں اسحاق کو غلام علیم کہا گیا اور بڑے بیٹے اسماعیل کو غلام حلیم۔ اس سیبھی معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ بڑا بیٹا تھا۔ چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس تورات میں ایک عجیب تضاد ہے۔ لکھا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دو۔ اور پھر لکھا ہے۔ اکلوتا اضحاق ہے۔ ظاہر ہے کہ اکلوٹا بڑا بیٹا ہو سکتا ہے۔ چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات میں زمانہ قدیم میں تحریف ہو چکی تھی۔ یعنی اسماعیل کی جگہ اضحاق لکھ دیا گیا۔ علمائے بائیبل تسلیم کرتے ہیں کہ ہاجرہ اور اسماعیل تورات کے بیانات عصبیت اور قومی تعصبات کے آئینہ دار ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ پلوٹھے کو چھوڑ کر دوسرا بیٹا اکلوتا ہو۔ 
مِدرش نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ہاجرہ اسیرانِ جنگ والی لونڈی نہ تھیں۔ بلکہ ان کی یہ عظیم الشان اور بے مثال قربانی تھی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر شہزادی سے لونڈی بننا قبول کیا۔ ہاجرہ کی اس عظیم قربانی کے نتیجہ میںوہ خلیل اللہ کے عقد میں آئیں، اسماعیل پیدا ہوئے اور پھر اسماعیل نے ذبیح اللہ والی قربانی پیش کی۔ بڑے ہوئے تو بیت اللہ کی بنیاد پر باپ بیٹے نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی اور ان کی نسل سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔ جو کہ خدا تعالیٰ کی تقدیروں میں غایت الغایات تھے۔ 
اس عظیم الشان پس منظر کو مضمون نگار غلامی کے طعن سے داغدار کرنا چاہتے ہیں حالانکہ خدا کی نظر میں آقا و غلام سب برابر ہیں۔ (کلسیوں 3/11)
یہ ہے عیسائیت کی تعلیم جو کہ انجیل میں درج ہے  جسے خود عیسائیت کے علمبرداروں نے نظر انداز کر دیا۔ (گلتیوں 4/23)
اب یونیورسل جیوئش انسائیکلو پیڈیا کے اقتباس کا ترجمہ پیش ہے۔ زیر لفظ ہاجرہ (Hagar) لکھتے ہیں:۔
’’ بائیبل کے سکالرز ہاجرہ کے بارہ میں تورات کی کہانیوں کو بنی اسرائیل اور عرب قبائل کے تعلقات اور باہمی تعصبات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسماعیل کو قرابت دار تو سمجھا جاتا مگر درجہ میں اسرائیل سے کمتر قرار دیا جاتا۔ ‘‘
اسی تسلسل میں لکھا ہے کہ:۔
’’ علماء بنی اسرائیل (ربانیین) نے ہاجرہ کے بارہ میں اپنے نکتۂ نظر کو بہت جلد تبدیل کر لیا۔ پہلا خیال یہ تھا کہ ہاجرہ ایک خدا پرست اور خدا ترس خاتون تھی جو کہ اصالتاً مصری شہزادی تھی۔ اس نے سارہ کے بارہ میں معجزات دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ سارہ کے گھر میں لونڈی بن کر رہنا اپنے گھر میں مالکہ بن کر رہنے سے بہر حال بہتر ہے۔‘‘
دوسرے علماء نے ہاجرہ میں ذَم کے پہلو تلاش کئے اور تنقیص کی۔ فاضل مضمون نگار بھی یہود کے نقشِ قدم پر ذَم کے پہلو تلاش کر رہے ہیں۔ مقصد واضح ہے کہ نسل اسماعیل میں جو عظیم المرتبت بطلِ جلیل پیدا ہوا اسے لونڈی کی اولاد قرار دے کر محروم الارث ثابت کیا جائے لیکن اس کے برعکس ربانی علماء نے کیا کہا ایک حوالہ گذر چکا۔ اب جیوئش انسائیکلو پیڈیا کا حوالہ ملاحظہ ہو۔’’ ہاجرہ ربانی لٹریچر میں‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:۔
’’ مدرش میں ہے کہ ہاجرہ فرعون مصر کی لڑکی تھی۔ فرعون نے جب وہ معجزات دیکھے جو سارہ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے تو اس نے کہا کہ ہاجرہ کے لئے اپنے گھر کی مالکہ بن کر رہنے کی بہ نسبت سارہ کے گھر میں لونڈی بن کر رہنا زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ اس جذبہ کے تحت ہاجرہ کو سارہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اسی واقعہ کے پیش نظر لفظ ہاجرہ کے معنے بیان کئے گئے۔ یہ گویا ھا اَجر ہے جس کے معنے ہیں یہ انعامِ (خداوندی) ۔‘‘
آگے لکھا ہے:۔
’’ ہاجرہ کے دوسرے معنے آراستہ کرنے اور زینت دینے کے ہیں۔ چونکہ یہ خاتون تقویٰ تقدس اور اعمالِ صالحہ کے زیور سے آراستہ تھیں اس لئے ہاجرہ کے نام سے موسوم ہوئیں۔‘‘
پھر لکھا ہے:۔
’’ شادی کی تجویز پر ہاجرہ متذبذب تھیں۔ سارہ نے ترغیب دی۔ ’’ تُو کتنی خوش قسمت ہے کہ ایک بزرگ انسان سے تیرا عقد ہو رہا ہے۔ تجھے خوش ہونا چاہیے‘‘۔
اسی تسلسل میں ہے:۔
’’ہاجرہ کی وفاداری اس لحاظ سے بھی قابل تعریف مانی گئی کہ (خدا تعالیٰ کے حکم پر ) حضرت ابراہیم نے اسے الگ کر کے دور دراز بھیج دیا۔ پھر بھی اس نے عقد نکاح اور شادی کے معاہدہ کو آخری دم تک قائم رکھا۔‘‘
اس نوٹ میں ہے کہ علماء ربانیین کے گروہ اول کے نزدیک حضرت ہاجرہ غایت درجہ تقویٰ و طہارت اور خدا شناسی کا نمونہ تھیں۔ جو خلیل اللہ کے عہد کی یادگار ہے۔ آگے چل کراسی مضمون میں ہے کہ 
’’ جب سارہ فوت ہو گئیں تو اسحق، ہاجرہ کو اپنے باپ کے گھر میں لانے کے لئے روانہ ہوئے‘‘
رشی یہود کے سب سے بڑے عالم دین اور مفسر توراۃ ہیں۔ شرح کتاب پیدائش میں لکھتے ہیں ہاجرہ اصالتاً شہزادی تھی۔ اسے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کی بزرگی کے پیش نظر بطور لونڈی پیش کیا گیا۔ 
یہ ہیں حضرت ہاجرہ کے مناقب۔ مضمون نگار کی یہ کوشش کہ داغِ غلامی سے اسے داغدار کیا جائے۔ بے سود ہے۔ 
رسالتماب صلی اللہ علیہ و سلم کی جدہ ماجدہ عصر ابراہیم میں ایک مثالی نمونہ تھیں۔ ایک عظیم خاتون جس نے قربانی کے فلسفہ کو عملی رنگ دے دیا۔ جو شہزادی سے لونڈی بن گئی۔ اس کے بیٹے نے خود کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا۔ اور ذبیح اللہ کی نسل میں اس بطلِ جلیل کی ولادت ہوئی جس کی ساری زندگی ’’ ذبح عظیم‘‘ سے عبارت ہے۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔
مضمون نگار نے ایک عجیب و غریب دعویٰ اور بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں ذبیح اللہ کا نام نہیں آیا۔ لیکن تورات میں ’’ اضحاق‘‘ مرقوم ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’ قرآن مجید نے تورات کی تصدیق مصدقا لما بین یدیہ کہہ کر کر دی ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ بنی اسرائیل یا مسیحیوں کے پاس الہام کی صورت میں جو کچھ بھی موجود ہے۔ درست اور صداقت پر مبنی ہے بلکہ ہدایت اور نور ہے۔‘‘
اس طرح اضحاق کی قربانی کی تصدیق ہو گئی۔ اضحاق کی عظمت اور فضیلت پر مہر لگا دی گئی۔ 
صاحبِ مضمون نے آیہ قرآنی کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھا۔ سورۂ انعام میں یہ ذکر ہے۔ فرمایا:۔
’’ تُو اس سے کہہ دے کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے۔ وہ لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی۔ اس کو کس نے اتارا تھا؟ تم اسے ورق ورق کر رہے ہو۔ اس کو ظاہر بھی کرتے ہو اور بڑے حصہ کو چھپاتے ہو…… اور یہ قرآن ایک (عظیم الشان) کتاب ہے جسے ہم نے اتارا اوروہ برکات کی جامع ہے اور جو (کلام) اس سے پہلے تھا۔ اس کی تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘ (۹۲:۹۳)
ان آیات مبارکہ میں یہ امر واضح کر دیا گیا ہے کہ تورات محفوظ نہیں ہے۔ اس کا بڑا حصہ پردۂ اخفاء میں ہے۔ وہ جامع صورت میں موجود نہیں۔ جبکہ قرآن کتاب موسیٰ کی تصدیق کے لئے آیا ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ تورات میں حیاۃ الآخرۃ کا کوئی ذکر نہیں۔ قیامت۔ جنت اور دوزخ کا کوئی بیان نہیں۔ تورات کی یہ تعلیم ورق ورق ہے۔ کسی حد تک طالمود میں ملتی ہے۔ یہود کا دعویٰ ہے کہ عزرا فقیہ نے تورات کی تدوینِ نو کے وقت 94صحیفے مرتب کئے۔ صرف 24 عوام پر ظاہر کئے۔ باقی ستر چھپا لئے گئے۔ وہ خواص کے لئے ہیں۔ (صحیفہ عزرا چہارم باب 14)
اس طرح تورات کا وہ حصہ جس میں حیاۃ الآخر کا ذکر تھا۔ نظروں سے مستور ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حیاۃ الآخرۃ کی تعلیم تورات میں مفقود اور طالمود میں موجود ہے۔ اسی طرح قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ اہل کتاب کے اختلافات میں حکم ہے۔ پس قرآن نے غلط حصوں کی تصدیق نہیں کی۔ اس کلام کی تصدیق فرما دی جو کلیم اللہ پر نازل ہوا۔ یا جو تشریحات کلیم اللہ نے قلمبند کی ہیں۔ اس کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ حیاۃ الآخرۃ کتاب موسیٰ کا نکتۂ مرکزی ہے۔ جبکہ موجودہ تورات میں یہ ذکر مفقود ہے۔ 
ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ تورات میں ہے کہ اضحاق ذبیح اللہ ہے۔ قرآن نے بتایا کہ ذبیح اللہ غلام حلیم ہے جبکہ اسحاق غلام علیم تھے۔ پس قرآن نے غلام علیم اور غلام حلیم کے ذکر میں بین اشارہ کر دیا کہ ذبیح اللہ بڑا بھائی ہے چھوٹا بھائی نہیں۔ 
حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کے بارہ میں تورات کے بیانات میں سخت تضاد ہے۔ تورات میں ان کے محامد بھی ہیں۔ اور ذم کے پہلو بھی۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات تغیر و تبدل کا تختۂ مشق رہی ہے۔ اب اس میں اوراق پریشان ہیں۔
تورات کے بعض حقائق مدرش میں درج ہیں۔ جن میں یہاں تک ذکر ہے کہ سارہ کی وفات کے بعد اسحاق خود گئے اور ہاجرہ کو لے آئے اور اپنے باپ کا گھر آباد کیا۔ مدرش سے معلوم ہوتا ہے ۔ ہاجرہ اسیرانِ جنگ والی لونڈی نہیں تھی بلکہ فرعون مصر کی بیٹی تھی۔
جبکہ تورات میں بتکرار لونڈی کا طعن ہے۔ اور یہ لکھا ہے کہ عہد کا فرزند اضحاق ہے نہ کہ اسماعیل۔
تورات کے کسی قدیم نسخہ کا ایک حوالہ یہودیوں کی کتاب جوبلی میں درج ہے۔ یہ کتاب 2100سال پرانی ہے۔ تورات کے موجودہ متن میں ہے کہ اپنے اکلوتے کو قربان کر دو۔ کتاب جوبلی میں اکلوتے کی جگہ پلوٹھے کا لفظ ہے۔ ظاہر ہے کہ اکلوتا یا پلوٹھا اضحاق نہیں ہو سکتے۔ صرف اسماعیل ہو سکتے ہیں۔ اس کے با وصف تحریف کا کمال یہ ہے کہ تورات کی رو سے ذبیح اللہ ااسماعیل نہیں اسحاق ہے۔ 
مضمون نگار نے یہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ صدر اول میں اکابر صحابہ مانتے تے کہ ذبیح اللہ اسحاق ہیں نہ اسماعیل۔ اس کا جواب ہم ’’ جامعہ احمدیہ‘‘ ربوہ کے ’’مجلہ الجامعہ‘‘کے ایک مضمون میں دے چکے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دونوں طرح کی روائیتں ملتی ہیں۔ ذبیح اللہ اسحاق تھے۔ اسماعیل ذبیح اللہ تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے پہلے خیال سے رجوع کر لیا تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں اختلاف روایات کی تفصیل درج ہے۔ ظاہر ہے کہ تورات کے اثر کی وجہ سے اسحاق ؑ کو ذبیح اللہ کہتے۔ جب تورات پر تحقیق ہوئی اور قرآن حکیم پر تدبر تو پہلے خیال سے رجوع فرما لیا۔ 
الغرض صاحبِ مضمون نے جو بحث اٹھائی ہے وہ حقائق کے خلاف ہے۔ حضرت ہاجرہ اگر لونڈی تھیں ان کو جو مقام ملا لونڈی ہونا اس میں حارج نہیں۔ اگر وہ شہزادی تھیں تو تاریخ میں ایک درخشاں مثال بن گئیں۔ ایک شہزادی نے لونڈی بننا قبول کر لیا۔ اس قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے خلیل اللہ کے عقد میں دے دیا۔ اسماعیل ذبیح اللہ قرار پائے۔ ان کی ذریت میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے۔ معراج انسانیت کا یہ نمونہ تاریخ میں منفرد ہے۔ 
مضمون کے آخر میں ایک بہت دلچسپ اور تازہ انکشاف ملاحظہ ہو۔ کتاب مقدس کے بعض اقتباسات جو کہ چرچ میں بطور اسباق اور ادعیہ کے بکثرت پڑھے جاتے ہیں۔ ان کا نیا ترجمہ امریکہ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں بعض دلچسپ تبدیلیاں ہیں۔ مثلاً پولوس کے خط رومیوں میں جہاں ذکر ہے۔ ’’ ہمارا ایک باپ ہے وہ ابراہیم ہے‘‘۔ اس سے آگے ہلالی خطوط میں یہ عبارت ہے۔
And Sarah and Hagar as our Mothers
اور سارہ اور ہاجرہ ہماری مائیں ہیں۔ (نیوز ویک 24اکتوبر 1984ء ) 
اس سے معلوم ہوتا ہے جبکہ عیسائیت میں ہاجرہ کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اب اسے امہات المومنین میں شامل کر لیا گیا یہ ایک نیک اور خوشگوار تبدیلی ہے جو چرچ کے ایک حصہ میں پیدا ہو رہی ہے۔ 


(انصار اللہ ربوہ مئی 1984ء ) 

1 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ اچھا مضمون ہے اور مدلل جواب ہے