Friday, 29 April 2016

حضرت بابا نانک کا اسلام اور سکھ صاحبان کے اعتراضات کے جواب




حضرت بابا نانک کا اسلام اور سکھ صاحبان کے اعتراضات کے جواب 

از جناب عباداللہ صاحب گیلانی

پہلا اعتراض :۔

اگر بابانانک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ اپنا آبائی دھرم چھوڑ کر مسلمان بن گئے تھے تو چاہیے تھا کہ آپ کا نام تبدیل کردیا جاتا ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے والدین نے آپ کا نام ’’نانک‘‘ رکھا اور آخر تک آپ اسی نام سے پکارے گئے۔ یعنی اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس صورت میں یہ کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آپ مسلمان بن گئے تھے ؟
جواب :۔
اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ اول یہ کہ یہ کوئی اسلامی مسئلہ نہیں کہ ہر ایک نومسلم کا نام تبدیل کردیا جائے ۔ اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ رسول مقبول ﷺ کے زمانہ میں سینکڑوں اور ہزاروں کافر بت پرست اور مشرک لوگ اسلام میں داخل ہوئے لیکن ان میں سے کسی کے نام میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اور انہیں آخر تک اسی نام سے پکارا گیا جس سے کہ اسلام سے قبل انہیں پکارا جاتا تھا ۔ البتہ ان لوگوں کے نام ضرور تبدیل کئے گئے جن کے ناموں سے شرک کی بو آتی تھی۔ یعنی وہ مشرکانہ نام تھے باقی کسی بھی شخص کا نام محض نام کے تبدیل کرنے کی خاطر نہیں بدلا گیا۔ 
۲۔ سکھ لٹریچر سے اس امر کاپتہ چلتا ہے کہ خود سکھوں کے نزدیک بھی نانک نام ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں میں یکساں طور پر رکھا جاتا ہے۔ آج کل بھی پنجاب کے دیہات میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں ’’نانک‘‘ نام رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے۔ اور نانک نام کے متعدد ہندو اور مسلمان ملتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک غیر مسلم کنگھم کی یہ شہادت ہے:۔
"Nanak is thus a name of uaual occurance both among Hindus and Musalmans"
(History of the Sikhs P.39)
یعنی:۔
’’نانک نام عام طور پر ہندوئوں اور مسلمانوں میں ، غریبوں اور امیروں میں یکساں طور پر رکھا جاتا ہے‘‘۔
(ترجمہ از سکھ اتہاس ص ۸۴)
جنم ساکھی بھائی بالا کے ابتداء میں مرقوم ہے کہ جب پنڈت نے غور و فکر کے بعد بابا جی کا نام’’نانک‘‘ تجویز کیا تو آپ کے والدین نے یہ کہا کہ یہ نام ہندوئوں اور مسلمانوں میں مشترک ہے اس لئے اس کی بجائے کوئی اور نام تجویز کرو (ملاحظہ ہو جنم ساکھی بھائی بالا ص ۶) باباجی کے والدین کا یہ قول دوسری سکھ کتب میں بھی درج ہے (ملاحظہ ہونا نک پرکاش پورباردھ ادھیائے ۴ ص ۱۵۹ و گورونانک سورجودے جنم ساکھی ص ۸ وغیرہ)
۳۔ باباجی نے خود اپنا جو نام ظاہر کا ہے وہ بھی آپ کا اسلام سے تعلق ظاہر کرتا ہے ۔ اور بتاتا ہے کہ آپ نے ہندوئوں سے اپنا رشتہ توڑنے کی غرض سے اپنے نام میں بھی کچھ مناسب ترمیم کرلی تھی۔ چنانچہ جنم ساکھی کے ایک مقام پر مرقوم ہے کہ باباجی نے خود اپنا نام ’’نانک شاہ ملنگ‘‘ بیان کیا تھا۔ جیسا کہ لکھا ہے:۔
بانی سچ خدائیدی 
کہے نانک شا ملنگ 
(جنم ساکھی بھائی بالا ص ۲۰۸) 
پس ’’نانک شاہ ملنگ‘‘ کسی ہندو یا سکھ کا نام نہیں ہوسکتا ۔ یہ وہ نام ہے جو خود باباجی نے اپنا بیان کیا ہے ۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے نام میں مناسب ترمیم کرلی تھی۔ تا کہ اگر کسی کو آپ کے اسلام کے بارہ میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
مشہور سکھ و دوان بھائی گورداس نے ’’ملنگ‘‘ مسلمانوں میں شامل کئے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان ہے :۔
شہدے لکھ شہید ہوئے
لکھ ابدال ’’ملنگ‘‘ مولا نے 
(وار ۸ پوڑی ۸)
پنجابی شبد بھنڈار میں ’’ملنگ‘‘ کے بارہ میں یہ بیان کیاگیا ہے :۔
’’ملنگ۔ لمبے کھلے بالوں والا مسلمان فقیر ۔ بے پرواہ۔‘‘
(ترجمہ از پنجابی شبد بھنڈار ص ۹۰۹)
سرداربہادر کاہن سنگھ جی مابھہ نے ’’ملنگ‘‘ لفظ کی تشریح میں لکھا ہے:۔
’’ ملنگ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے جو زند ہ شاہ مدار سے شروع ہوا ہے۔ ملنگ سر کے کیس کے منڈواتے ‘‘ 
(ترجمہ از مہان کوش ص ۲۸۶۶)
پس باباجی کا اپنے نام کے ساتھ مالنگ لفظ شامل کرکے اپنا نام ’’نانک شاہ ملنگ‘‘بیان کرنا خود کو مسلمان ظاہر کرنا مقصد تھا اور یہ بھی بتادینا مقصود تھا کہ ان کا تعلق زندہ شاہ مدار سے ہے ۔ کیونکہ جنم ساکھیوں میں مرقوم ہے کہ آپ نے اپنے پیر کا نام ’’زندہ پیر‘‘ بتایا ہے ۔ (ملاحظہ ہو جنم ساکھی بھائی بالا ص ۲۵۲) اور یہ زندہ پیر زندہ شامدار ہی ہوسکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ نے اپنے نام کے ساتھ ’’شاہ‘‘ اور ’’ملنگ‘‘ کے الفاظ شامل کئے تھے ۔


دوسرا اعتراض :۔

اگر بابا نانک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا اور آپ مسلمان بن گئے تھے تو آپ نے اپنا نیا مذہب کیوں جاری کیا ؟ کیا کسی نئے مذہب کا بانی بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کاپابند مسلمان قراردیا جاسکتا ہے؟اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس صورت میں بابا جی کو مسلمان کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ سکھ دھرم کے بانی تھے ؟ 
جواب :۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی نئے مذہب کا بانی اسلام کا پابند مسلمان قرا ر نہیں دیاجاسکتا کیونکہ ایک مسلمان کے لئے یہی لازم ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرے اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کا پابند ہو۔ جو شخص خود کوئی نئی شریعت ، نیادین یا نیا قبلہ اور نیا مذہب پیش کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے:۔
’’خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریک شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلا ف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے ‘‘ ۔
(چشمہ معرفت ص ۲۲۵) 
پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ بابا نانک جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور انہوں نے اسلام سے الگ اپناکوئی نیادھرم دنیا میں پیش کیا تھا تو اس صورت میں آپ کو مسلمان قرارنہیں دیا جاکستا ۔ اور اگر آپ کا اسلام ثابت ہوجائے جیسا کہ ثابت ہے تو اس صورت میں آپ کوسکھ دھرم یا کسی اوردھرم کابانی قرار دینا بالکل غلط اوربے بنیاد ہوگا۔ 
۲۔ دنیا میں جس قدر بھی مذاہب پائے جاتے ہیں ان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اقرار پر ہے ۔اورتمام مذاہب اس امر میں متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ہمارا خالق اور مالک ہے اور ہم اپنے اعمال کے لئے اس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہر مذہب نے خداتعالیٰ کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ چنانچہ عیسائیت نے خداتعالیٰ کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایک تین اور تین ایک ہے ۔ یعنی عیسائیت کی رو سے باپ ، بیٹا اور روح القدس تینوں مل کر ایک خدا بنتے ہیں ۔ ویدک دھرم کی دوبڑی شاخیں آریہ سماج اور سناتن دھرم ہیں ۔ سناتن دھرم نے خداتعالیٰ کا یہ تصور پیش کیا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت انسانوں ،حیوانوں اور درندوں کی شکل میں اس دنیا میں پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ نیز اس کے نزدیک برہما ، بشن اور امیش تینوں مل کراس دنیاکا کاروبار چلارہے ہیں ۔ آریہ سماج کے نزدیک خداتعالیٰ کا یہ تصور ہے کہ اس نے نہ تو روح کو پیدا کیا ہے اور نہ مادہ کو ۔ گویا خداتعالیٰ روح اور مادہ تینوں ازلی اور ابدی ہین ، ان کی کسی نے بھی تخلیق نہیں کی ۔ خداتعالیٰ کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق بار بار اس دنیا میں مختلف جونوں میں بھیجتا رہتا ہے۔ آریہ سماج کے نزدیک اللہ تعالیٰ کویہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ کسی کو دائمی نجات دے سکے۔ بلکہ ناجی روحوں کو بھی وہ دنیا میں بھیجنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس صورت میں ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک بھی روح باقی نہ رہے جسے وہ دنیا میں جنم دے سکے ۔ اسلام نے خداتعالیٰ کے بارے میں جو تصور پیش کیا ہے وہ ان تمام مذاہب سے مختلف ہے ۔ اسلام کا پیش کردہ خداتعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ روح کا بھی خالق ہے اور مادہ کا بھی پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی بھی چیز ازلی اور ابدی نہیں ۔وہ غیر مجسم اور لا محدود ہے۔ اسے اس دنیا کا کاروبار چلانے کے لئے اسے کسی سہارا یا مددگار کی ضرورت نہیں۔ وہ جنم مرن سے پاک ہے۔ اس کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ بیوی ۔ 
ان مختلف مذاہب کا خداتعالیٰ کے بارے میں الگ الگ تصورہی اصل میں انہیں ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے ۔ اور ان تصورات میں جس تصور کو بھی کوئی شخص اپناتا ہے وہی اس کا مذہب ہوگا یعنی تثلیت کے ماننے والے عیسائی کہا جائے گا ۔ اوراوتار واد کا ماننے والا سناتن دھرمی کہلائے گا۔ نیز روح و مادہ کو ازلی ابدی ماننے والے کو آریہ سماجی اور قادر مطلق حی و قیوم خداکے قائل کو مسلمان کہاجائے گا ۔ پس اگر فی الحقیقت بابانانک جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور انہوں نے اپنا کوئی نیا دھرم الگ پیش کیا تھا تو چاہیے کہ خداتعالیٰ کے بارے میں وہ تصوربتایا جائے جو باباجی نے پیش کیا ہے۔ اور وہ ان تمام مذاہب کے پیش کردہ تصورسے مختلف ہو ۔ کیونکہ جب تک یہ چیز ثابت نہ کی جائے بابا جی کو کسی نئے مذہب کابانی قرارنہیں دیا جاسکتا۔ 
اس کے برعکس جب ہم بابا جی کی بانی کامطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ اسلام کی پیش کردہ توحید کے قائل تھے۔ چنانچہ مشہور فارسی مصنف محسن فانی نے بابا جی کے بارہ میں گورو ہرگوبند ج کے زمانہ میں یہ شہادت دی تھی کہ :۔
’’نانک قائل توحید باری بود بامویکہ منطوق شرع محمدیست‘‘ 
(بستان مذاہب ص ۲۲۳)
یعنی بابا نانک جی کا توحید باری تعالیٰ کے بارے میں وہی تصور تھا جو اسلام نے پیش کیا ہے 
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باباجی کو مسلمان ثابت کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :۔
’’درحقیقت بابا صاحب جس خداتعالیٰ کی طرف اپنے اشعار میں لوگوں کو کھینچنا چاہتے ہیں اس پاک خدا کا نہ ویدو میں کچھ پتہ چلتا ہے اور نہ عیسائیوں کی انجیل مخرف مخرب میں ۔بلکہ وہ کامل اور پاک خدا نہ قرآن شریف کی مقدس آیات میں جلوہ نما ہے ‘‘ ۔ (ست بچن ص ۵۸)
پروفیسر کرتار سنگھ جی ایم ۔اے نے لکھا ہے ۔ کہ باباجی نے بغداد میں یہ فرمایا تھا :۔
’’صرف اس لئے کہ میں اس ایک ہی خدا کا پرستار ہوں جس جیسا اور جس کے برابر اور کوئی نہیں۔ اس ایک نے ساتھ کسی دوسرے کو شامل کرنے سے انکار کی وجہ سے میں مسلمان کہلانے والوں سے اسلام کی خالص توحید (ایک کی پرستش) کے اصول میں زیادہ نزدیک ہوں ‘‘۔
(ترجمہ از جیو کتھا گورونانک ص ۳۲۲) 
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ بابا نانک جی اسلام کی پیش کردہ توحید کے قائل تھے۔ اس صورت میں انہیں کسی نئی مذہب کا بانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ نئے مذہب کے بانی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے بارے میں کوئی ایسا تصور پیش کرے جو دوسرے مذاہب سے مختلف ہو۔
۳۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکھ لوگ بغیر کسی ٹھوس دلیل اور یقینی ثبوت کے بابانانک جی کو سکھ دھرم کا بانی پیش کرتے ہیں ۔ لیکن بابانانک جی سے کوئی بھی ایسا شبد وہ پیش نہیں کرسکتے جسے سے  بابا صاحب کا کسی نئی مذہب کا بانی ہونا ثابت ہوسکے۔ 
اس کے علاوہ آج سکھ دھرم کے جو عقائد اور اصول پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ باباجی کی وفات کے صدیوں بعد عالم وجود میں آئے ہیں۔ اور باباجی کے زمانہ میں ان کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آج سکھ لوگ پانچ ککوں کے دھارنی ہیں۔ یعنی کرپان ، کڑا ، کچہرا، اور کیس یہ پانچ چیزیں ان کے مذہب کی بنیاد ہیں۔ ان کو اختیار کئے بغیر کوئی سکھ سچا سکھ نہیں کہلا سکتا ۔ چنانچہ ایک سکھ ودوان کابیان ہے:۔
’’ککھارھاران نہ کرنے والا تنخواہیا قصوروار ہے‘‘
(سکھ قانون ص ۲۳۰)
نیز کڑوں کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ :۔
’’ اگر سکھ کرپان دھارن نہ کرے تو وہ سکھ نہیں رہتا۔ پلت ہوجاتا ہے‘‘ ۔
(ترجمہ از خالصہ کا چار یکم مئی ۱۹۴۷ء؁)
ایک اور صاحب کا بیان ہے :۔
’’کرپان کے بغیر سکھی ادھوری اور نامکمل ہے‘‘ 
(ترجمہ از اکالی ۲؍ مئی ۱۹۴۷ء؁)
لیکن کوئی سکھ دودان اس بات کو ثابت نہیں کرسکتا کہ بابا جی نے اپنی تمام عمر میں کسی شخص کو ان پانک ککاروں کو دھارن کرنے کی تلقین کی ہو یا خود اختیار کئے ہوں۔ یا انہیں سکھ دھرم یا اپنے پیش کردہ دھرم کا کوئی حصہ قرار دیا ہو۔ اس کے برعکس سکھ ودوانوں کو یہ امر مسلم ہے کہ باباجی نے اپنی تمام زندگی میں کرپان کو دھارن نہیں کیا۔ حالانکہ موجودہ زمانہ کے سکھ کرپان کے بغیر کسھی کو ادھوری اور سکھ کو پتت خیال کرتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ باباجی نے اپنے تمام کلام میں کرپان دھارن کرنے کا اپدیش دنیا تو الگ رہا کرپان کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا۔ اس صورت میں آپ کوسکھ دھرم کا بانی کیونکرقراردیا جاسکتا ہے ؟
۴۔ سکھ لٹریچر سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ بابا جی کو کوئی ایسا دعویٰ نہ تھا کہ وہ کسی نئے مذہب کو جاری کرنے پر مامور کئے گئے ہیں ۔ اور نہ انہوں نے اپنا کوئی الگ مذہب بنایا ہے ۔ مذاہب عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے ۔ کہ دنیا میں جس قدر بھی بانیان مذاہب گزرے ہیں ان سب نے دنیا کے سامنے اپنا یہ دعویٰ پیش کیاہے کہ وہ نیا مذہب چلانے کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں۔ چنانچہ گورو گو بند سنگھ جی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ :۔
جو جو ہوت بھیو جگ سیانا 
تن من اپنو پنتھ چلانا 
(دسم گرنتھ ص۵۱)
لیکن اس کے برعکس باباجی کا ہمیں ایسا کوئی دعویٰ ان کے کلام سے نہیں ملتا ۔ پس اگر باباجی فی الحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے کسی نئے مذہب کو چلانے کے لئے مامور تھے تو چاہیے تھا کہ آپ خود اس بات کو پیش کرتے۔ کیونکہ باباجی کے منصب کو خود ان سے زیادہ اور کوئی نہیںسمجھ سکتا تھا۔ 
جب ہم سکھ لٹریچر کا مطالعہ اس نقطہ نگاہ سے کرتے ہیں توہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خود سکھ ودوان بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ باباجی نے نہ صر ف یہ کہ ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس سے صاف الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ وہ کسی نئے مذہب کو جاری کرنے کی غرض سے دنیا میں نہیں آئے۔ چنانچہ مشہور سکھ ودوان گیانی شیر سنگھ جی کابیان ہے کہ :۔
’’ انہوں نے (یعنی بابا نانک جی نے ) اپنے منہ سے خود کو گورو نہیں کہا‘‘ ۔
(ترجمہ از گورگرنتھ پنتھ ص ۱۷)
مشہور سکھ مورخ گیانی گیان سنگھ جی کابیان ہے:۔
’’ انہوں نے (یعنی بابا نانک جی نے) خود کو بزرگ، پیغمبر یا اوتار ظاہر نہیں کیا اور نہ حکم دیا ہے کہ انہیں اوتار یا پیغمبر مانا جائے ‘‘
(ترجمہ از تواریخ گورو خالصہ ص ۶۱۲)
ایک اور سکھ ودوان کا بیان ہے:۔
’’ گورونانک خود کو اوتار نہیں کہتے تھے اگر بندے اور اوتار میں زمین و آسمان کافرق ہے تو عجز اور انکساری کے سبب سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘ ۔
(ترجمہ از پریت لڑی نومبر ۱۹۳۶ء؁)
یہ یاد رہے کہ خود سکھ ودوانوں نے کسی شخصیت کے گرو ہونے سے انکار کرنے کو اس کے گورو نہ ہونے کی دلیل قرار دیا (ملاحظہ ہو گرو پدنر نے ص ۱۸۰)
پس جس صورت میں خود سکھ ودوان اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ بابا جی نے گورو ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا اورانہوں نے اپنا کوئی نیا مذہب جاری نہیں کیا تھا اس صورت میں باباجی کے بارے میں یہ اعتراض کرنا کہ چونکہ وہ سکھ دھرم کے بانی تھے اس لئے مسلمان نہیں تھے خود بخود باطل ہوجاتا ہے۔ 
۵۔ دنیا میں جتنے بھی بانیان مذاہب ہوئے ہیں ۔ انہوںنے واضح الفاظ میں لوگوں کو اپنی طرف بلایا ہے اور یہ تلقین کی ہے کہ وہ اپنے خیالات ترک کرکے ان کے بتائے ہوئے راستہ پر گامزن ہوں ایک بھی ایسا بانی مذہب نہیں ہوا جس نے قوموں کو دوسروں کے مرید بننے کی تلقین کی ہو۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بابا جی دوسرے لوگوں کو یہ اپدیش دیا کرتے تھے کہ وہ شیخ فرید کے پیر کے مرید بنیں۔ چنانچہ جنم ساکھی بھائی بالا میں آپ کی ایک ساکھی درج ہے جس پر مرقوم ہے کہ یہ ساکھی پیرجلال الدین سے ہوئی تھی ۔ اس کے آخر میں یہ درج ہے کہ :۔
’’ پیرکو حکم ہوا تو پورا پیر کر۔ تب پیر جلال الدین نے کہا کہ گورو جی میں کس کو مرشد بنائوں ۔ تو گورو جی نے کہا کہ جو پیر فرید نے کیا ہے ۔ تب پیر جلال الدین گورو نانک سے رخصت ہوا ‘‘ ۔
(تراجم از جنم ساکھی بھائی بالا ص ۴۵۷)
اسی طرح پور اتن جنم ساکھی کے آخر میں ایک ساکھی مخدوم بہاء الدین اسے ہوئی درج ہے۔ اس کا نمبر ۴۵ ہے۔ اس ساکھی کے آخر میں مرقوم ہے کہ :۔
’’تب مخدوم بہاء الدین کو حکم ہوا ک جائو اور مرشد دھارن کرو۔ تب مخدوم بہائوالدین نے کہا کہ میں کس کو مرشدبنائوں ۔ تب بابا جی نے فرمایا کہ جسے شیخ فرید نے بنایا ہے۔ تب مخدوم بہائوالدین نے سلام کیا ۔ مصافحہ کیا۔ باباجی نے رخصت کیا ‘‘ ۔
(ترجمہ از پور اتن جنم ساکھی ص ۱۰۵)
پس اگربابا جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور وہ نیا مذہب جاری کرنے کا انہیں خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ملا تھا تو اس صورت میں آ پ نے دوسروں کو شیخ فرید کے مرشد کی بیعت کرنے کی تلقین کیوں کی۔ اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کوکسی بھی نئے مذہب کے جاری کرنے کا کوئی دعویٰ نہ تھا ۔ نیز وہ خود بھی چشتی طریقہ کے قائل تھے ۔ کیونکہ بابا جی ایسا انسان دوسروں کو اسی بات کی تلقین کرسکتا تھا جسے وہ خود صحیح اور درست خیال کرتے ہوں ۔ چنانچہ ایک سکھ ودوان نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ بابا جی کے صوفی مسلمانوں خصوصاً چشتی طریقہ کے مسلمانوں سے بہت گہرے تعلقات تھے ۔ جیسا کہ ان کابیان ہے:۔
’’گورونانک صاحب کا ……مسلمان صوفی فقیروں سے بہت گہرے تعلقات رہے ہیں……ان صوفی فقیروں میںسے جن کے ساتھ گورو صاحب کا ذاتی پیار تھا۔ ایک بہت بڑے مشہور بزرگ بابا فرید کا کلام گورو گرنتھ صاحب میں درج ہے۔ پنجاب میں ان دنوں جو صوفی مذہب پردھان تھا وہ چشتی فرقہ تھا ‘‘ 
(ترجمہ از گورمت درشن ص ۱۴۷)
مہاتمائی ایل واسوانی نے بیان کیا ہے کہ بابا نانک جی اور شیخ فرید ثانی جی بارہ سال مل کر لوگوں میں تبلیغ کافریضہ ادا کرتے رہے۔ اور متعدد و مقامات پر ہندوئوں نے باباجی کی اس حرکت کو ناپسند کیا جیسا کہ ان کا بیان ہے:۔
’’ میں سمجھتا ہوں کہ گورونانک صاحب کا مذہب ملاپ اور ایکتا کا مذہب تھا اس لئے انہوں نے اسلام کی تعلیم میں وہ کچھ دیکھا جو دوسرے ہندوئوں کو بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ گوروصاحب کو مسلمانوں کے ساتھ ملاپ کرنے میں لذت محسوس ہوتی تھی۔ شیخ فرید (ثانی) دس سال گورو صاحب سے مل کر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا راستہ بتاتا رہا ۔ متعدد مقامات کے ہندوئوں نے گورو صاحب کے مسلمانوں سے گہرے میل  ملاپ کو ناپسند بھی کیا ۔ مگر ایکتا کے اوتار نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی ‘‘ 
(ترجمہ از اخبار موجی ۱۸؍جنوری ۱۹۳۷ء؁)
بابانانک صاحب کا شیخ فرید (ثانی) جی سے مل کر پرچار کرنا اوردس سال تک لگاتار لوگوں کو اللہ کا راستہ بتانا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کااور شیخ صاحب کا ایک ہی مذہب تھا۔ اور وہ اسلام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد مقامات کے ہندوئوں نے باباجی کی اس تبلیغ کو ناپسند کیا ۔ اگربابا جی نے اسلام کے مقابلہ پر کوئی الگ مذہب پیش کیا ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ شیخ فرید (ثانی ) ایسابزرگ مسلمان آپ کے ساتھ مل کر تبلیغ کرتا۔ اور پھر متعدد مقامات کے ہندئوں کو بھی باباجی کی اس تبلیغ کو ناپسند کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی ۔ بلکہ پھر تو وہ خوش ہوتے کہ ان کی جاتی میں سے پیدا ہو کر ایک شخص اعلانیہ طور پر اسلام کا رد کررہا ہے اور اپنا نیا مذہب لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی باباجی کا تعلق چشتی خاندان کے لوگوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں کہ :۔
ملا تب خد اسے اسے ایک پیر 
کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیر 
وہ بیعت سے اس کی ہوا فیضیاب
سنا شیخ سے ذکر راہ صواب 
(ست بچن ص ۴۰)
پس بابا صاحب کا لوگوں کو شیخ فرید کے مرشد کی بیعت کرنے کی تلقین کرنا اور شیخ فرید ثانی سے مل کردس سال تک لوگوں کو اللہ کاراستہ بتانا اور ہندوئوں کاباباجی کی اس تبلیغ کا ناپسند کرنا ثابت کرتا ہے کہ بابا جی خود کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے بلکہ آپ کے چشتی طریقہ کے لوگوں سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ اور آپ خود بھی اس طریقہ کے پابند تھے ۔ کیونکہ بابا جی کا اپناہی ارشاد ہے کہ :۔
’’ آپ نہ بوجھاں لوک بوجھائی ایسا آگودہواں 
نانک اندھا ہوئیکے دسے سہاتے مبس مہائے ساتھے
آگے گیا موہے ہنہ پاہے سو ایسا آگو جاپے 
(وارماجھ محلہ ۱ ص ۱۴۰)
الغرض باباجی کے بارے میں یہ بیان کرنا کہ انہیں کسی نئے مذہب کا دعویٰ تھا یا وہ نیا مذہب جاری کرنے کے لئے دنیا میں آئے بے بنیاد ہے۔ بابا جی چشتی طریقہ میں شامل تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں کو اس طریقہ میں شامل ہونے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔
۶۔ سکھ کتب سے یہ ثابت ہے کہ نئے مذہب کے جاری کرنے کی ذمہ داری گوروگوبند سنگھ جی نے خود ہی اپنے اوپر لی ہے ۔یعنی موجودہ زمانہ کے سکھ جس خالصہ دھرم کو مان رہے ہیں اور اس کے جو سدھانت اور اصول تسلیم کررہے ہیں وہ بابا نانک جی کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد گورو گوبند جی نے ایجاد کئے تھے ۔ جن میں بعد میں اضافے بھی کئے جاتے رہے ۔ چنانچہ سکھ ودوان بیان کرتے ہیں کہ گورو گوبند سنگھ جی نے شروع میں پانچوں ککوں کی بجائے تین مندرادھارن کرنے کا اپدیش ہرایک سکھ کو دیا تھا جو یہ ہیں۔ 
’’کیس ۔کچھ ۔ کرپان ‘‘
(ملاحظہ ہو گورپرتاب سورج رت ۳۔ انسو ۔۲۰ مہان کرش ص ۵۰۹ و پنتھ پرکاش ۷۶۵)
مگر بعد میں ان تین مندرا کو پانچ ککوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ سردار بہادر کاہن سنگھ جی کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ گورو گوبند سنگے جی نے پانچ ککوں کا کوئی حکم نہیں دیاتھا۔ یہ گورو صاحب کے کافی عرصہ بعد مشہورہوا (ملاحظہ ہوا گور مت سدھا کر ص ۴۶۷)
ایک اور سکھ ودوان نے اس سلسلہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی بھی پراچین کتاب میں پانچ ککاروں کی وضاحت نہیں کی گئی ( پریم سمارگ ص ۳۶)
بعض لوگ گوروگوبند سنگھ جی کا ایک فارسی شباس سلسلہ میں پیش کیا کرتے ہیں کہ 
؎ نشان سکھی ایں پنج حرف کا ف 
ہرگز نہ باشد ایں پنج معاف 
کڑا کاروو کچھ کنگھا بداں 
بلا کیس ہیچست جملہ نشاں
ایک سکھ ودوان نے اس شبد کو گوبند سکھ جی کا بیان کردہ تسلیم نہیں کیا بلکہ بعد کی بناوٹ ظاہر کیا ہے(پریم سمارگ ص۳۷) 
بھائی رندھیر سنگھ کا بیان ہے کہ پانچ ککوں میں کیس شامل نہیں ہے۔ کیس تو پہلے ہی سکھ رکھا کرتے تھے ۔ گورو صاحب نے کھیسوں کی بجائے کیسکی دھارن کرنے کا حکم دیا تھا مگربعد میں لوگوں نے کسیکی (چھوٹی پگڑی) کو کیسوں میں بدل دیا۔ 
(ملاحظہ ہو نر بھے خاصلہ دستار انگ اگست ۱۹۵۰ء؁ ، ص ۲۲۔۳۹۔۴۰ وغیرہ ) 
گورو گوبند سکھ جی نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ :۔
’’ پنتھ پرچور کرب کو ساجا ‘‘ 
(وسم گرنتھ ص ۵۱)
یعنی خداتعالیٰ نے گورو گوبند سنگھ کو نیا پنتھ جاری کرنے پر مامور کیا ‘‘ ۔
ایک اور مقام پرآپ نے فرمایا ہے :۔
راج ساج جب ہم پر آئیو
جتھا شکت تب دھرم چلائیو 
(دسم گرنتھ ص ۵۴)
’’یعنی جب میں نے سیاست میں دخل حاصل کرلیا تو اپنی طاقت کے مطابق نیا پنتھ جاری کیا ‘‘۔
دسم گرنتھ کے بعض قلمی نسخوں میںگورو گوبند سنگھ جی کا یہ قول بھی درج ہے :۔
دوہوں پنتھ میں کپٹ و دیا چلانی 
بہر تیسرو پنتھ کیجے پردھانی
(نامدھاری نت بنیم ص ۶۳۲ گور مت سدھاکر ص ۱۵۴ ورتمان سیکھ راجنیتی ص ۲۔ من مت پرہار ۲۔ص ۲۳ ، کتھاراپدیش ساگر ص ۲۴۰۔ہم ہندو ہیں۔ ص ۵۵ ، رسالہ سنت سپاہی جولائی ۱۹۴۹ء نومبر ۱۹۵۰ء؁)
گوروگوبند سنگھ جی کا یہ قول بھی سکھ کتب میں موجود ہے۔ 
’’گورو نانک صاحب سے لیکر نوگورو صاحبان تک کسی نے کوئی مذہب مریادہ اور جاری نہیں کی۔ صرف ہمیں ہندو مذہب سے گلانی(نفرت) پیداہوئی تو تیسرا پنتھ سنگھوں کا جاری کیا ہے‘‘ 
(ترجمہ از بجے مکت گرنتھ ص ۲۰۳)
بھائی گورد اس کی اکتالیسویں وار میں گورو گوبند سنگھ جی کے بارے میں یہ مرقوم ہے:۔
گور گو بند سنگھ پرگیٹو دسواں اوتارا جن الکھ اپار نرنجنان جپیو کو تارا نج پنتھ چلائیو خالصہ دھرتیج قرارا یعنی گوروگو سنگھ جی دسویں اوتار ظاہر ہوئے اور انہوں نے تیسرا پنتھ خالصہ جاری کیا ‘‘۔
ماسٹرتارا سنگھ جی نے گورو گو بند سنگھ جی کے قول بہ تیسرو پنتھ کیجئے پردھانی کی بناء پر لکھا ہے:۔
’’گورو صاحب کا یہاں صاف منشاء ہے کہ دو پنتھ ہندو مسلمان تھے اور تیسرا خالصہ پنتھ جاری کیا گیا ‘‘
(ترجمان از ورتمان سکھ راجنیتی ص ۲)
ان حوالہ جات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ گورو گو بند سنگھ جی تیسرے مذہب کے بانی تھے ۔ اس صورت میں بابانانک جی کو کسی نئے مذہب کا بانی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ سکھوں میں ایسے لوگ موجود ہیں بابانانک جی کے بارے میں یہ کہتے ہیں :۔
’’انہوں نے کسی نئے مت کی ستھا پنا نہیں کی ‘‘
(شروت منی چترا مرت حصہ دوم ص ۱۶۹)
البتہ یہ درست ہے کہ بعد میں لوگوں نے انہیں سکھ دھرم کا بانی قراردینا شروع کردیا جیسا کہ سردار گو رنجش سنگھ جی بی ایس سی بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’وقت گزرنے کے بعد عقید تمندوں نے انہیں (یعنی بابا صاحب کو) اپنا خاص گورو بنالیا۔ اور اس گوروسنستھا پر ایک شاندار پنتھ کی عمارت بٹالی‘‘ 
(ترجمہ از پریت لڑی نومبر ۱۹۴۸ء؁)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ بعد میں لوگوں نے گورونانک جی کو سکھ دھرم کا بانی قراردیدیا ۔ باباجی کو خود ایساکوئی دعویٰ نہ تھا کہ وہ کسی نئے مذہب کے بانی ہیں۔


مکمل تحریر >>

بہائی صاحبان کے اعتراضات کے جواب





بہائی صاحبان کے اعتراضات کے جواب 
ایک کشمیری رسالہ پر نظر

دیباچہ کاخلاصہ 

جناب ابو ظفر صاحب کشمیر ی نے ایک رسالہ احمدی صاحبان کے لئے لمحہ فکریہ لکھا ہے ۔اس کے دیباچہ میں آپ نے تحریر کیا ہے ۔ کہ جس طرح مخالفین احمدیت کی تحریریں جماعت احمدیہ پر حجت نہیں ہیں ۔ اسی طرح اہل بہاء کے خلاف ان کے مخالفین کے لٹریچر سے سند پکڑنا درست نہیں پھر لکھتے ہیں ۔ 
’’بہا ئیوں کو صر ف حضرت باب وبہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریریں مسلم ہیں ۔
اس پر سوال پیدا ہو تا ہے ۔ کہ جناب باب کی ساری وحی کو بہائی لوگ منسوخ مانتے ہیں پھر باب کی تحریرون کے مسلم ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ باقی رہے جناب بہاء اللہ سو ان کی تیار کردہ کتاب الاقدس کو جو اہل بہاء کی شریعت ہے ۔ آپ لوگوں نے آج تک شائع نہیں کیا۔ پھر کس طرح کہا جاسکتا ہے ۔ کہ ان تحریروں میں کسی قسم کی کمی اور بیشی آپ لوگ نہیں کر رہے ۔
کیا یہ عجب بات نہیں کہ آپ لوگوں نے عمداًاصل کتابیں شائع نہیں کیں ۔ کیونکہ جناب بہاء اللہ نے آپ کو حکم دے رکھا ہے ۔
استم ذھبک وذھابک و مذھبک ،‘‘
’’کہ اپنے مال ۔ آمدروفت اور مذہب کہ مخفی رکھو‘‘      ( بھجۃ الصدور صفحہ ۸۳)
اور پھر بنا ء گفتگو یہ ٹھہرا رہے ہیں کہ ہم صرف باب بہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریروں کو تسلیم کرتے ہیں ۔
جناب ابوظفر صاحب صرف تحریروں کو حجت قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ بہائی عقیدہ کے مطابق ان لوگوں کا قول بھی وحی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ تنگی دامن کا رویہ کسی مصلحت کے ماتحت تو اختیار نہیں کیا جا رہا ہمیں ہی یہ شکایت نہیں کہ بہائی لوگ اپنے اصلی لٹریچر کو شائع نہیں کرتے بلکہ خو د بہائی بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔ چنانچہ جناب حشمت اللہ قریشی بہائی لکھتے ہیں ۔
’’عام طور پر حضرت باب حضرت بہاء اللہ اور حضرت عبدالبھا ء کی کتابوں کے کامیاب ہونے کی وجہ سے بعض تاریخی اور تعلیمی غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں ۔(رسالہ بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۲)
ابو ظفر صاحب کہتے ہیں کہ :
’’بہائیوں کی تاریخ باب الحیاۃ یا مقالہ ساح یا عصر جدید یا اس قسم کی دوسری کتابیں ہیں جو بہائیوں کو مسلم ہیں  ان کے ذریعہ بہائیوں پر اتمام حجت ہو سکتی ہے ۔
اول تو یہ سوال ہے کہ آیا یہ کتابیں باب یا بہاء اللہ یا عبدالبھا ء کی تحریریں ہیں ۔ مقالہ سیاح کو محقیقین تو عبدالبھاء کی تصنیف قرار دیتے ہیں ۔ مگر بہائی اس کا کھلا اعتراف نہیں کرتے ۔ عصر جدید تو اس امریکن بہائی کی کتاب کا ترجمہ ہے ۔ اگر بہائیوں کو صر ف باب یا بہاء اللہ اور عصر البھاء کی تحریریں ‘‘ہی مسلم ہیں ۔ تو ان تاریخی کتابوں سے ان پر اتمام حجت کیونکر ہو گا ؟
یہ امر بھی موجب حیرت ہے کہ ابوظفر صاحب جناب علمی بہائی کے رسالہ کو کب ہند کے حوالہ جات ماننے سے بھی گزیر کر رہے ہیں ۔ حالانکہ جناب علمی کو ان بہائیوں میں صاحب البیعت ‘‘ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔
ابو ظفر جناب پروفیسر برائون پر ناراض ہیں کہ انہوں نے نکتہ انکاف میرزا کاشانی کی شائع کردی جس سے یابی اور بہائی تحریک کے بہت سے تاریک پہلو نمایاں ہو گئے حالانکہ پروفیسر برائون اہل بہاء کے نزدیک خاص مقرب شخص تھے جنہوں نے بابی اور بہائی تاریخ کا قریب سے مطالعہ کیا تھا۔ اس بارے میں عصر جدید کے مصنف نے لکھا ہے ۔
سوائے پر وفیسر برائون کی ملاقات کے جنہوں نے ۱۸۹۰ء؁ میں چار مرتبہ آپ (بہاء اللہ) سے ملاقات فرمائی اورہر متبہ ۲۰ یا۳۰منٹ تک آپ کے حضور میں رہے ۔ آپ نے کسی متنور مغربی اہل خیال سے ملاقات نہ فرمائی تھی ۔ 
(عصر جدید اردو صفحہ ۵۶)
ان حالات میں ابوظفر کی ناراضگی حقائق کو بدل نہیں سکتی ۔ اور تاریخی واقعات کو اس قسم کی حرکات سے مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم ابو ظفر صاحب کو یقین دلاتے ہیں ۔ کہ ہم آپنے جوابا ت میں کوئی ایساحوالہ یا ایسی عبارت ان پر اتمام حجت کے طور پر پیش نہ کرینگے جوان کے مسلمات میں نہ ہو۔ اگرچہ ہمارے نزدیک بہت سے حقائق دوسرے مقامات پرمذکور ہیں  ۔اور ہم انہیں عندا لضرورت ذکر کرتے ہیں ۔
اس یقین دہانی کے ساتھ ساتھ ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ کہ ابوظفر صاحب نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بات کرتے وقت اصول کو مدنظر نہیں رکھا ۔ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ۔ گویا ان کے  دینے کے باٹ اور ہیں اور لینے کے اور اس حقیقت کا بیان ہمارے جوابات کے آئندہ صفحات میں آپ کی نظر سے گزر ے گا ۔

صادق مدعی کی ایک علامت 

جناب ابو ظفر صاحب نے دیباچہ کے بعد بابیت اور بہائیت کی سر سری ا و ر غیر مستند تاریخ میں چند سطور لکھنے کے بعد یہ سوال اٹھایا ہے ۔ کہ صادق مدعی کی یہ علامت ہوتی ہے ۔ کہ وہ تمام مدعیوں میں پہلا دعویٰ کرنے والا ہوتا ہے ۔ نیز چونکہ باب و بہاء نے مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام سے پہلے کیا تھا۔ اس لئے ثابت ہوا کہ باب و بہاء کا دعویٰ سچا تھا ۔ حضرت میرزا صاحب نے صرف ان کی نقل کی ہے ۔

حضرت مسیح موعود ؑ کی عبارتیں ۔

ابوظفر نے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ صادق مدعی کا دعویٰ سب سے پہلے ہوتا ہے ۔ 
حضرت مسیح علیہ السلام کی کتاب چشمہ معرفت کتاب ضرورۃ الاسام سے نیز اخباربدر سے حوالے پیش کئے ہیں ۔ ابوظفر صاحب نے حوالہ جات کے نقل کرنے میں پوری احتیاط نہیں کی رہم پہلے متعلقہ عبارتیں اصلی کتاب سے درج کرتے ہیں:۔
۱۔ منجملہ لوازم خاصہ کے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے زمانہ میں اس کا ظہور سب مدعیوں سے پہلے ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ نبیوں کا نام ونشان نہ تھا۔ اورجب ان کا نورزمین پر خوب روشن نہ تھا ۔ تب مسیلمہ کذاب اوراسود عنسی اورابن صیاد وغیرہ جھوٹے نبی ظاہر ہوئے تاجداد دکھاوے کہ کس  طرح وہ سچے کی حمایت کرتا ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ ۔ سچے نبی کے ظہور کیوقت بارش کے موسم کی طرح آسمان پرانتشار روحانیت ہوتا ہے ۔ اوراکثر لوگوں کو سچی خوابیں آنی شروع ہوجاتی ہے۔ الہام بھی ہونے لگتے ہیں۔ اس دھوکہ سے بعض جھوٹے نبی اپنی حد سے بڑھ کرنبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۰۱ حاشیہ )
۲۔ ہمارے نبی ﷺ نے امام آخر الزماں کی ضرورت ہر ایک صدی کے لئے قائم کی ہے۔ اورصاف فرمادیا ہے۔ کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا۔ کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا۔ وہ اندھا آئے گا۔ اورجاہلیت کی موت پر مریگا۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے کسی علہم یا خواب بیں کا استثنیٰ نہیں کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے۔ کہ کوئی علہم یاخواب بین ہواگروہ امام الزماں کے سلسلہ میںداخل نہیں ہے۔ توا س کا خاتمہ خطر ناک ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے مخاطب تمام مومن اورمسلمان ہیں ۔ اوران میں ہرایک زمانہ میں ہزاروں خواب میں اورعلہم بھی ہوتے آئے ہیں۔ بلکہ سچ تویہ ہے۔ کہ امت محمدیہ میں کئی کروڑ ایسے بندے ہونگے ۔ جن کو الہام ہوگا ۔ پھر ماسوااس کے حدیث وقرآن سے ثابت ہے۔ کہ امام الزماں کے نور کا ہی پر تو ہوتا ہے۔ جومستعددلوں پر پڑتا ہے حقیقت یہ ہے۔ کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے۔ توہزاررہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں۔ اورآسمان میں ایک صورت انبسامی پیدا ہوجاتی ہے ۔ انتشار روحانیت اورنورانیت ہوکر نیک استعداد یں جاگ اٹھتی ہیں۔ پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتاہے۔ اس کو سلسلہ الہام شروع ہوجاتاہے ۔ اورجوشخص فکروغور کے ذریعہ سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کے تدبر اورسوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اورجس کوعبادت کی طرف رغبت ہو اس کو تعبداور پر ستش میں لذت عطا کی جاتی ہے۔ اورجو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحتات کرتا۔ اس کو استدلال اوراتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ جوامام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اورہرایک مستعد کے دل پر نازل ہوئی ہے۔ ‘‘
(ضرورۃ الامام صفحہ ۴)
۳۔ فرمایا پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں بھی بہت سے جھوٹے نبی پید اہوئے تھے ۔مگر جھوٹا ہمیشہ بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ سچا پہلے ظاہر ہوجاتاہے۔ توپھر اس کی ریس کرکے جھوٹے بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے دعویٰ سے پہلے کوئی نہیں کہ سکتا کہ کس نے اس طرح خدا تعالیٰ سے الہام پاکر مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہو ۔ مگر ہمارے دعویٰ کے بعد چراغ دین اورعبدالحکیم اورکئی ایک دوسر ے ایسے پیدا ہوگئے ہیں۔ 
(بدریکم اگست ۱۹۰۷ء؁ جلد ۶)
(نمبر ۳۱صفحہ ۱۰)
جناب ابوظفر صاحب کشمیر ی ان حوالہ جات کے بعد لکھتے ہیں :۔
’’ازالہ وہام ایڈیشن ثالث صفحہ ۲۷۹ نورالحق جلد دوم صفحہ ۱۵ ‘وصفحہ ۱۶۰ وخطبہ الہامیہ صفحہ ۱۲۴ و اخبار بدرقادیان جلد ۶ نمبر ۳۱ ۱۹۰۷ء؁ پر بڑے زوردار الفاظ میں فرماتے ہیں۔ کہ مسیح موعود کا ظہور چودھویں صدی سے پہلے یا چودھویں صدی کے سرپر ہوگا۔ اس سے تجاوز نہ کرے گا۔ یہ عاجزایسے وقت میں آیا ہے۔ جس وقت میں مسیح موعود کو آنا چاہیئے تھا۔ دوسرے ملکوں میں یہاں تک کہ بلاد عرب شام ایسے مدعی کے وجود سے خالی ہیں۔یہ دعویٰ تیرہ سوبرس سے آج تک بجز اس عاجز (مرزاصاحب )کے کسی نے نہیں کیا ہے۔ ‘‘
گویا آپ کا سوال یہ ہے کہ جب باب اوربہاء اللہ نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام سے پہلے مہدی اورمسیح ہونے کا دعویٰ کررکھا تھا۔ توحضرت مرزا صاحب یہ کس طرح کہتے ہیں۔ کہ ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا۔ نیز یہ کہ پہلے دعویدار ہونے کے باعث باب اوربہاء اللہ کو سچا ماننا چاہیئے ۔ 
اس سوال کے جواب کی وضاحت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حوالہ جات خاص طور پر قابل توجہ ہیں ۔ حضور تحریر فرماتے ہیں :۔
(الفؔ)مجھے عین چودھویں صدی کے سر پر جیسا کہ مسیح ابن مریم چودھویں صدی کے سرپر آیا تھا۔ مسیح الاسلام کرکے بھیجا ۔ اورمیرے لئے اپنے زبردست نشان دکھلا رہا ہے اور آسمان کے نیچے کسی مخالف مسلمان یا یہودی یا عیسائی وغیرہ کو طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کرسکے ۔ ‘‘
                            (کشتی نوح ؑ صفحہ ۵۰) 
(بؔ)’’اس آیت کی تشریح میںیہ حدیث ہے ۔ لوکان الایمان معلقا ً بالثر یالسنالہ رجل من فارس 
اورچونکہ ا س فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے۔ جو مسیح موعوداورمہدی سے مخصوص ہے۔ یعنی زمین جو ایمان اورتوحید سے خالی ہوکر ظلم سے بھر گئی ہے۔ پھر اس کو  عدل سے پر کرنا ۔ لہذا یہی شخص مہدی اورمسیح موعود ہے  اوروہ میں موں اورجس طرح کی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پرنہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سوبرس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ دعویٰ نہیں کیا ۔ کہ اس پیشگوئی لنالہ رجل من فارس کا مصداق میں ہوں ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸ طبع سوم )

دونوں دعووں میں فرق

ان دوعبارتوں کو ابوظفر صاحب کے ذکر کردہ حوالہ جات کے ساتھ ملانے سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مدعیوں کا ذکر فرمارہے ہیں۔جن کے دعویٰ کی نوعیت اورکیفیت ایک ہو۔ اوروہ ایک ہی زمانہ اورعلاقے میں ہوں جن کے بارے میں باسبدایت سمجھا جاسکے ۔ کہ پہلے مدعی کے بعد دوسروںنے اس کی ریس کرکے دعوے کئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے مدعیوں میں سے پہلے دعویٰ کرنے والے کو ترجیح حاصل ہوگی۔ اوراگر دیگر دلائل صداقت کے لوازم خاصہ میں سے ایک بھی شمار ہوگا۔ کہ اس نے سب سے پہلے دعویٰ کیا ہے۔ 
اس وضاحت کی روشنی میں یہ  سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ چونکہ باب اوربہاء نے حضرت میرزا صاحب سے پہلے دعویٰ کردیا تھا ۔ اس لئے کیوں نہ ان کو صادق سمجھا جائے اورحضرت میرزا صاحب کو ان کی ر یس کرنے والا قرار دیا جائے کیونکہ بہائیوں کے پیشوائوں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے ٰ میں زمین وآسمان کا فر ق ہے یا درہے کہ :۔
(۱)باب اوربہاء نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے ماتحت کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ وہ تواپنے ہر قول کو الہام دوحی قرار دیتے تھے۔ اوران کا دعویٰ اسی طرح الوہیت کا دعویٰ تھا جس طرح عیسائی حضرت مسیح کو اللہ اورابن اللہ قرار دیتے ہیں۔ 
(۲)باب اوربہاء نے مہدی اورمسیح کو الگ الگ قرار دیا اورایک ایک دعویٰ اپنالیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح اورمہدی کو ایک وجود قرار دیکر خود دعویٰ فرمایا 
(۳)باب اوربہاء کے دعووں کا مقصد یہ تھا ۔ کہ قرآن مجید منسوخ ہوگیا۔ اب نئی شریعت البیان یاالاقدس پر عمل کرنا چاہیئے ۔ اسلام بھی منسوخ اس لئے یہ لوگ تومسیح الاسلام نہ تھے۔ بلکہ ناسخ الاسلام تھے ۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نصب العین یہ تھا۔ کہ قرآنی شریعت محکم زندہ اورقائم ہے ۔ اوراسلام زندہ مذہب ہے۔ حضور تحریر فرماتے ہیں۔ 
(الفؔ)’’ خدا تعالیٰ اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے ۔ اورمحمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے۔ اوراپنی شریعت چلانا چاہتاہے۔ ‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۴)
(ب)اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تینسخ یاکسی ایک حکم کا تبدیل یا تغیر کرسکتا ہو ۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے ۔تووہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اورملحداورکافر ہے۔‘(لفالہ ادہام صفحہ ۶۰ ،صفحہ ۶۱)
اس صورت حالات کی موجودگی میں کوئی انتہائی فریبی یا فریب خورہ انسان ہی کہہ سکتاہے کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام باب وبہاء کے دعویٰ کی نقل کی ہے۔ 
جب بہاء اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ تویہ کہنا کہ چونکہ بہاء نے پہلے دعویٰ کردیا تھا۔ اس لئے انہیں بہر طو ر سچا مانا جائے گا۔ اورحضرت مرزا صاحب کو بہرحال ان کی نقل کرنے والا ٹھہرایا جائے گا۔ انتہائی غلط بیانی ہے۔ پس ابوظفر صاحب کے تقدیم وتاخر دعویٰ والے سوال کا پہلا جواب تویہ ہے۔

سچے مسیح موعود سے پہلے جھوٹے مدعیوں کا وجود ضروری تھا 

دوسرا جواب ابوظفر صاحب کے سوال کا یہ ہے کہ مشابہت اورپیشگوئیوں کے مطابق ضروری تھا۔ کہ سچے مسیح موعود سے پہلے کا ذب مدعی پیدا ہوئے تھے ۔ گملی ایل فریسی نے تبلیغ کرنے والے حواریوں کے متعلق کہاتھا کہ 
’’اے اسرائیلیو! ان آدمیوں کے ساتھ جوکچھ کیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا ۔ کیونکہ ان دنوں سے پہلے تھیوداس نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں بھی کچھ ہوں اورتخمینا ً چار سوآدمی اس کے ساتھ ہوگئے تھے مگر وہ مارا گیا۔ اورجتنے اس کے ماننے والے تھے سب تتر بتر ہوگئے ۔ اورمٹ گئے۔ اس شخص کے بعد یہوداہ گلیلی اسم نویسی کے دنوں میں اٹھا ۔ اورکچھ لوگ اپنی ف کرلئے وہ بھی ہلاک ہوا ۔۔۔۔ الخ (اعمال  5\38,36)
پس مسیح موعودؑ کی مسیح ناصری ؑ سے مشابہت کے باعث تھیود اس اوریہوداہ گلیلی کے مظہر باب وبہاء کا آپ سے پہلے کا ذب مدعی ہونا ضروری تھا پیشگوئیوں میں اسے احادیث نبویہ میں تفریح موجود ہے ۔ کہ مسیح الدجال پہلے ظاہر ہوگااوردین اسلام میں نقص پیدا کرنے کی کوشش کریگا اورپھر مسیح الموعو د مبعوث ہوگا جواسلام کو زندہ کریگا اس لحاظ سے بھی باب بہاء کا دعویٰ پہلے ہونا لازمی تھا ۔ چنانچہ ایساہی ہوا ۔ زہر کے بعد نزیاق اوربیماری کے بعد علاج کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگیا۔الحمد اللہ (باقی آئندہ )

( ماہنامہ الفرقان جون جولائی 1959 )
مکمل تحریر >>

Thursday, 28 April 2016

احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟




احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟


(تفریح کی گھنٹی بجی ۔جمیل اور جلیل جھٹ میدان میں گھا س پر ایک طرف بیٹھ گئے )
جمیل :
بھائی جلیل !کل آپ نے امام مسجد صاحب سے پوچھا تھا کہ احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟ 
جلیل :
پوچھا تو تھا مگر وہ احمدیوں کا نام سنتے یہ لال پیلے ہو گئے اورناراضگی سے کہنے لگے کہ تمہیں احمدیوں اور احمدیوں کے عقائد سے کیا واسطہ ؟ایسی باتیں مت کیا کرو۔ 
جمیل :
میں نے اباجان سے پوچھا تھا کہ احمدی لوگ کیا عقائد رکھتے ہیں؟ انہوں نے بڑی محبت سے بتلایا کہ احمدی اللہ کی توحید کے قائل ہیں۔ وہ ایک ہی خدا مانتے ہیں۔ دو تین خدا نہیں مانتے ۔ 
جلیل :
مسلمان تو سارے ہی ایک خدا کو مانتے ہیں۔ 
جمیل :
منہ سے سب کا یہی اقرار ہے مگر بعض لوگ قبروں پر سجدہ بھی کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں سے مرادیں مانگتے ہیں ایسے لوگ توحید کے قائل قرار نہیں پا سکتے۔ 
جلیل :
اچھا اس بات کو چھوڑو۔ تم یہ بتائو کہ تمہارے اباجان نے اور کیا کیا فرق احمدی اور غیر احمدی میں بتلائے ہیں؟ 
جمیل :
انہوں نے فرمایا کہ چار باتوں کا فرق ہے۔ (۱) احمدی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے ہیں (۲) احمدی لوگ قرآن مجید کی کسی آیت یا حکم کو منسوخ نہیں ٹھہراتے بلکہ سارے قرآن مجید کو قائم دائم جانتے ہیں (۳) احمدی لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی قرآن مجید کے ماننے والوں سے پیار کی باتیں کرتا ہے یعنی ان پر الہام اور وحی نازل کرتا ہے۔ مگر یہ الہام شریعت اور احکام والا کلام نہیں ہوتا۔ (۴) چوتھا فرق یہ ہے کہ احمدی لوگ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام کو امت مسلمہ کا مجدد اور مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔ بس یہ چار فرق ہیں۔ دوسراکوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ 
جلیل :
میں نے جب امام صاحب سے پوچھا تھا تو وہ ناراض ہو گئے تھے۔ مگر چلتے چلتے کہہ گئے تھے کہ مرزائی لوگ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے ۔ 
جمیل :
یہ تو بالکل غلط بات ہے ۔ مجھے تو اباجان نے بار بار بتایا ہے کہ ہم احمدی آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ 
(بات یہاں تک پہنچی تھی کہ گھنٹی بج گئی۔ دونوں بچے اپنی اپنی کلاس میں چلے گئے )

مکمل تحریر >>

Tuesday, 26 April 2016

مفکراحرار چوہدری افضل حق کی شاندار گواہی

مجلس احرار جو کہ جماعت احمدیہ کے ہمیشہ سے سخت مخالف رہی ہے ، ان کے مشہور و معروف لیڈر چوہدری افضل حق بھی جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور تبلیغی جوش کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’آریہ سماج کے معرض وجو د میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا ۔جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔سو امی دیانندکی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لیے چو کنا کر دیا تھا مگر حسبِ معمول جلد ہی خواب گراں طاری ہو گئی۔مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پید ا نہ ہو سکی ہا ں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے آگے بڑھا۔ اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا۔ تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیداکر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔‘‘
(فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۶)
پھر اسی کتاب میں ایک جگہ کہتے ہیں :
’’سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔کس قدر حیر ت ہے کہ سارے پنجاب میںسوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کابھی تبلیغی نظام موجو دنہیں۔‘‘
( فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۱ )





مکمل تحریر >>

Monday, 25 April 2016

شورش کاشمیری کی گواہی جماعت احمدیہ کے حق میں

کسی بھی نبی کی جماعت کی شان نہ صرف عقائد بلکہ اس کے افراد کے اخلاق  سے بھی ہوتی ہے ، جناب شورش کاشمیری جو کہ مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری اور جماعت احمدیہ کے شدید مخالف تھے ان کی ایک گواہی ذیل میں انہی کی کتاب سے پیش کی جاتی ہے کہ جیل کے دوران ایک احمدی افسر سے وہ کیسے متاثر ہوئے ۔
شورش کاشمیری اپنی کتاب '' پس دیوارزندان '' میں رقمطراز ہیں :
’’میجر حبیب اللہ شاہ کا سلوک بہر حال شریفانہ تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ پکے قادیانی تھے ۔ انکی ہمشیرہ میر زا بشیر الدین محمود کے عقدمیں تھیں ۔ قادیان کے ناظر امور عامہ سیّد زین العابدین ولی اللہ ا ن کے بڑے بھائی تھے ۔ انہیں یہ کبھی علم تھا کہ میں آل انڈیا مجلس احرار کا جنرل سیکر ٹری ہوں اور احرار قادیا نیوں کے حریف ہیں بلکہ دونوں میںانتہائی  عداو ت ہے۔میجر حبیب اللہ شاہ نے اشارۃ ً بھی اس کا احساس نہ ہونے دیا ۔ انہوں نے اخلاق و شرافت کی انتہاکردی ۔ پہلے دن اپنے دفتر میں اس خوش دلی اور کشادہ قلبی سے ملے گویا مدۃ العمر کے آشنا ہیں ۔ انہوں نے مجھے بیماروں میں رکھا اور اچھی سے اچھی دوا و غذادینا شروع کی ۔ نتیجۃ ً میری صحت کے بال و پر پیدا ہوگئے اور میں چندہی ہفتوں میں تندرستی کی راہ پر آگیا ۔ وہ بڑے جسور ‘انتہائی حلیم ‘بے حد خلیق اور غایت درجہ کے دیا نت دار آفیسر تھے ۔ ان کے پہلو میں یقینا ایک انسان کا دل تھا ۔ ان کی بہت سی خوبیوں نے انہیں سیاسی قیدیوں میں مقبول و محترم بنا دیا تھا ۔ ‘‘
(پس دیوار زنداں ، صفحہ 257 تا 258 )

پھر اسی کتاب میں ایک مقام پر شورش کاشمیری نے میجر حبیب اللہ شاہ کی دینی غیرت کا ایک واقعہ بھی بتایا ہے ۔
'' لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہینڈ ر سن تھا ۔ اس نے ایک دن اس سوال پر کوئی ناگوار بات کہی ۔میجر صاحب کو غصہ آگیا۔ ہینڈرسن کو فورا ٹوکا ’’آپ اذان یا قرآن کے بارے میں محتاط رہیں ۔میں نہیں روک سکتا۔‘‘ میجر صاحب ہینڈر سن سے الجھ پڑے ۔ ایک دفعہ پہلے بھی ہینڈرسن نے حضورﷺ کا نام بے ادبی سے لیا تو اس سے الجھے تھے ۔ تمام جیل میں ان کی اس حمیّت کا چرچا تھا ۔''
 (پس دیوار زندان ، صفحہ 310)











مکمل تحریر >>

داڑھی کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا لطیف ارشاد



داڑھی کے بارے میں آج کل بعض احمدی مسلمان نوجوان بھی لا پرواہی کرتے نظر آتے ہیں ، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ حضرت مصلح موعود مرزا بشیرالدین محمود احمد ؓ کا یہ لطیف بیان آپ کے سامنے پیش کیا جائے ۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :
’’ تیسری بات جس کی میں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے عمل میں درستی پیدا کریں ۔چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے چھوڑنے میں کوئی دقت نہیں ، میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک انہی باتوں کو ہماری جماعت کے افراد نہیں چھوڑ سکے، مثلاً داڑھی رکھنا ہے ۔ میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو داڑھی نہیں رکھتے۔ حالانکہ اس میں کونسی دقت ہے آخر ان کے باپ دادا داڑھی رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو پھر اگر وہ بھی داڑھی رکھ لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟پھر باپ دادا کو جانے دو سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی رکھتے تھے یا نہیں؟ اگررکھتے تھے تو آپؐ کی طرف منسوب ہونے والے افراد کیوں داڑھی نہیں رکھ سکتے؟ مجھ سے ایک دفعہ ایک نوجوان نے بحث شروع کردی کہ داڑھی رکھنے میں کیا فائدہ ہے ۔وہ میرا عزیز تھا اورہم کھانا کھاکر اس وقت بیٹھے ہوئے تھے ۔اورچونکہ فراغت تھی اس لئے بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔جب میں نے دیکھا کہ کج بحثی کررہا ہے تو میں نے اسے کہا میں مان لیتا ہوں کہ داڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں ۔اس پر وہ خوش ہوا کہ اس کی بات تسلیم کرلی گئی ہے ۔میں نے کہا میں تسلیم کرلیتا ہوں کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں مگر تم بھی ایک بات مان لو اوروہ یہ کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ بے شک داڑھی رکھنے میں کوئی خوبی بھی نہ ہو۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھو۔ تم بے شک سمجھو کہ یہ چیز ہر رنگ مضر اور نقصان دہ ہے مگر کیا بیسیوں مضر چیزیں ہم اپنے دوستوں کی خاطر اختیار نہیں کرلیا کرتے ؟ اول تو مجھے داڑھی رکھنے میں کوئی ضرر نظر نہیں لیکن سمجھ لو کہ یہ مضر چیز ہے پھر بھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھیں ۔ آخر ایک شخص کو ہم نے اپنا آقا اورسردار تسلیم کیا ہواہے۔ جب ہماراآقا اورسردار کہتا ہے کہ ایسا کرو تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے پیچھے چلیں خواہ اس کے حکم کی ہمیں کوئی حکمت نظر نہ آئے۔ صحابہ ؓ کو دیکھو ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا عشق تھا ۔داڑھی کے متعلق تو ہم دلیلیں دے سکتے ہیں اورداڑھی رکھنے کی معقولیت بھی ثابت کرسکتے ہیں ۔ لیکن صحابہ بعض دفعہ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر اس پر عمل کرنے کے لئے بے تاب ہوجاتے تھے کہ بظاہر اس کی معقولیت کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرمارہے تھے کہ آپؐ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا’’ بیٹھ جائو‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس وقت گلی میں آرہے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ان کے کانوں میں پڑگئے اور وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوںنے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا ۔ ایک دوست ان کے پاس سے گزرے تو انہیں کہنے لگے عبداللہ بن مسعود! تم اتنے معقول آدمی ہوکر یہ کیا کررہے ہو؟ انہوںنے کہا ۔ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کان میں آئی تھی کہ بیٹھ جائو ۔اس پر میں بیٹھ گیا ۔انہوںنے کہایہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو مسجد میں آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو ، بے شک آپؐ کا یہی مطلب ہوگا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں مسجد میں پہنچنے سے پہلے مرگیا تو ایک بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر عمل کے رہ جائے گی ۔ اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا تاکہ آپ کے حکم پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکوں۔
یہ ایمان ہے جوصحابہؓ کے اندر پایا جاتا تھا اوریہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے ۔‘‘
   (الفضل ، ۱۴ اپریل  ۱۹۴۸ء)

مکمل تحریر >>

مولانا محمد قاسم نانوتوی اور تحذیر الناس





مولانا محمد قاسم نانوتوی کسی تعارف کے محتاج نہیں ، مولانا اپنی گہری علمی قابلیت کی وجہ سے نا صرف ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی معروف تھے ، آج بھی دیوبندی مسلک کے بڑے بزرگ شمار کیے جاتے ہیں ، ان کی ایک نامور کتاب تحذیر الناس اصل میں ان کی مقبولیت کی وجہ بنی ، جس میں آیت خاتم النبیین اور اثر ابن عباس پر نہایت علمی بحث فرمائی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ علم تو ان کی علمی قابلیت کے اور بھی معترف ہو گئے لیکن بعض ایسے علماء جو محض پرانی تفسیروں اور اپنے مسلک کے بزرگوں کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں ، ایسے علماء نے اس کتاب کی وجہ سے مولانا صاحب پر کفر کے فتویٰ کا بازار گرم کر دیا ۔ کتاب کا بنیادی نکتہ اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نہ صرف خاتم النبیین ہیں بلکہ باقی انبیاء کی نبوت بھی ظلی ہے اور اصل مصدر آنحضرت ﷺ ہی ہیں ، خاتم النبیین کی یہی تفسیر جماعت احمدیہ کرتی ہے تو ان پر قادیانی کافر کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں ، حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نے ایک قطعی اور اصولی فیصلہ یہ فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں لفظ خاتم النّیین رسول مقبول ﷺ کے لئے مقامِ مدح میں استعمال ہواہے اور مقامِ مدح میں اس لفظ کا استعمال افضل النّبیین کے معنوں میں ہی مستعمل قرارپاسکتا ہے فضیلت کو تقدم یا تأخر زمانی سے کچھ واسطہ نہیں۔
مولانا تحریر فرماتے ہیں:۔ 
 ’’اوّل معنی خاتم النّبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ سو عوامؔ کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ ؐ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِؔ مدح میں ولٰکن رسُول اللہ وخاتم النّبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتاہے؟ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیّت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر مَیں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔‘‘ (تحذیر النّاس ص۳)
خاتم کے مطلب کو واضح کرنے کے لیے بادشاہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ علم سے اوپر کوئی ایسی صفت نہیں جس کو عالم سے تعلق ہو تو خواہ مخواہ اس بات کا یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ پر تمام مراتبِ کمال اسی طرح  ختم ہوگئے جیسے بادشاہ پر مراتبِ حکومت ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لئے جیسے بادشاہ کو خاتمؔ الحکام کہہ سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو خاتم ؔ الکاملین اور خاتمؔ النّبیین کہہ سکتے ہیں۔‘‘
 (رسالہ حجۃ الاسلام شائع کردہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ص۴۵)
 ’’سوائے آپ کے اور کسی نبی نے دعویٰ خاتمیت نہ کیا بلکہ انجیل میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا یہ ارشاد کہ جہاں کا سردار آتا ہے خود اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسٰی خاتم نہیں۔ کیونکہ حسب اشارہ مثال خاتمیتِ بادشاہ خاتم وہی ہوگا جو سارے جہاں کا سردار ہو۔ اس وجہ سے ہم رسول اللہ ﷺ کو سب میں افضل سمجھتے ہیں۔ پھر یہ آپ کا خاتم ہونا آپ کے سردار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ (حجۃ ؔالاسلام ص۴۵۔۴۶)

مولانا نبی کے آنے کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
 ’’غرض اختتام اگر بایںؔ معنی تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپؑ کا خاتم ہونا انبیاء گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا۔ بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ؔ ہو جب بھی آپ کا خاتمؔ ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ ‘‘ (تحذیرؔ الناس ص۱۴)
 ’’اگر خاتمیت ؔ بمعنی اتصافؔ ذاتی بوصف نبوت لیجئے۔ جیساکہ اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسُول اللہ صلعم اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی صلعم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاءؔ کے افرادخارجیؔ ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی۔ افراد مقدرہؔ پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہوجائے گی۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعیم بھی کوئی بنی پیدا ہوتوپھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا فرض کیجئے اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔‘‘ (تحذیرؔ الناس ص۲۸)
ان دو۲ عبارتوں سے واضح ہے کہ جو معنی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بانیٔ مدرسہ دیوبند خاتم النّبیین کے سجمھتے ہیں ان کے رُو سے آنحضرت ﷺ کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا بھی خاتمیت محمدیہ کے منافی نہیں کیونکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء موصوف بوصف النّبوۃ بالذات ہیں ۔ اور آپ کے سوا کوئی اور نبی بالذات اس وصف سے نہ متصف ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ 

خاتمیت زمانی کا وہ عام مفہوم جو عوام کے خیال میں ہے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب اس سے اتفاق نہیں فرماتے جیسا کہ تحذیرؔ الناس کے صفحہ ۳ پر آپ نے اس مفہوم کی واضح تردید فرمائی ہے۔ ہاں البتہ آپ نے آنحضرت ﷺ؍ کو ان معنوں میں خاتم زمانی قرار دیا ہے کہ آپ نے اور نبیوں کی شرائع کو منسوخ فرمایا مگر آپ کی شریعت ابدالآباد تک قائم رہے گی۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’خاتم مراتب نبوّت کے اوپرؔ اور کوئی عہدہ یا مرتبہ ہی نہیں ۔ جو ہوتا ہے اس کے ماتحتؔ ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام اوروں کے احکام کے ناسخ ہوںگے۔ اوروں کے احکام اس کے ناسخ نہ ہوں گے۔ اور اسلئے یہ ضرور ہے کہ وہ خاتم زما نی بھی ہو۔‘‘
(مباحثہ ؔشاہجہانپور ص۲۵)
’’ آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر حضرت موسٰیؑ بھی زندہ ہوتے تومیرا ہی اتباع کرتے۔ علاوہ بریں بعد نزول حضرت عیسٰیؑ کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر مبنی ہے۔‘‘ (تحذیرؔالناس ص۴)
قارئین کرام غور فرمائیں کہ مولانا محمد قاسم صاحب نے مباحثہؔ شاہجہانپور ص۲۵ کی مذکورہ بالا میں ’’ماتحت‘‘ صاحبِ عہدہ ومرتبہ کو خاتم مراتب نبوت کے منافی قرار نہیں دیا اور تحذیرؔ الناس ص۴ میں مسیح موعود کو شریعت محمدیہ پر عمل کرنے والا قرار دیاہے گویا آپ کے نزدیک آنحضرت ﷺ انہی معنوں میں خاتم زمانی ہیں کہ آپ کی شریعت آخری ہے اب جو آئے گا۔ وہ آپ کے ماتحتؔ ہوگا۔ اور آپ ؑکی شریعت کے تابع ہوگا۔ 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا حیات مسیح کے قائل تھے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ تسلیم کرتے تھے ، اس بارے مولانا کے یہ اقتباس واضح ثبوت ہیں کہ ان کے بزدیک ہر نبی وفات پا گیا ۔
(۱) ’’حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرجس قدر انبیاءؔ ہوئے سب مرگئے جس قدر بادشاہ اس زمانہ سے پہلے ہوئے وہ سب مرگئے۔ بزور دین کوئی چھوٹتا تو انبیاء چھوٹتے ۔ اوربزور دنیا کوئی بچتا تو بادشاہ بچتے۔‘‘
(لطائف قاسمیہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ص۲۲)
(۲) ’’اسی زمانے میں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو چاروناچار رسول عربی ﷺ ہی کا اتباع کرنا پڑتا۔‘‘
(مباحثہؔ شاہجہانپور ص۳۳)

جماعت احمدیہ خاتم النّبیین کے معنوں اور تشریح میں اسی مسلک پر قائم ہے جو ہم نے بطور بالامیں جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے حوالہ جات سے ذکر کیا ہے۔ زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے ایک اقتباس پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ حضورتحریر فرماتے ہیں :۔
’’عقیدہ کی رُو سے جو خدا تم سے چاہتا وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد ﷺ اس کی نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طورسے محمدیت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جُدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جُدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہوکر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو اگرچہ بظاہر دونظر آتے ہیں۔ صرف ظلّ اور اصل کا فرق ہے سو ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا۔‘‘
(کشتیٔ نوح ص۲۲۔۲۳)

نوٹ : اس مضمون کے لیے ماہنامہ الفرقان کی اکتوبر 1964 کی اشاعت سے فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔
مکمل تحریر >>

Sunday, 24 April 2016

شانِ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم - حضرت بانی سِلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کی پچیس تحریرات


شانِ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم 

حضرت بانی سِلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کی پچیس تحریرات

۱-’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے-جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدّم رکھا جائیگا نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن-اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلّم-سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو-تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ-‘‘
(کشتی ٔ نوع صفحہ ۲۳)
۲-’’مَیں جناب خاتم الا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختمِ نبوّت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھا ہوں-ایسا ہی مَیں ملائکہ اور معجزات لیلۃ القدر وغیرہ کا قائل ہُوں-‘‘
(تقریر واجب الاعلانؔصفحہ ۵ مطبوعہ۱۸۹۱ء)
۳-’’ہمارا اعتقاد جو ہم دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں-جس کے ساتھ ہم بفضل وتوفیق باری تعالیٰ اس عالمِ گزراں سے کُوچ کریں گے-یہ ہے کہ حضرت سیّدنا ومولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین وخیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھوں سے اکمالِ دین ہو چُکا اور وُہ نعمت بہ مرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہِ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے-‘‘
(ازالہ اوہامؔ حصّہ اوّل ص۱۳۷ مطبوعہ ۱۸۹۱ء)
۴-’’اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہمارے رُسول (سیّدنا محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلّم )تمام رسولوں سے بہتر اور سب رسولوں سے افضل اور خاتم النبیّین ہیں-اور افضل ہیں ہر ایسے انسان سے جو آئندہ آئے یا جو گزر چکا ہو-‘‘
(آئینہ کمالاتِؔاسلام ص۳۲۷ مطبوعہ ۱۸۹۲ء)
۵-’’وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصیفاء ختم المرسلین‘ فخر النبیّین جنابِ محمد مُصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم ہیں اے پیارے خدا اس پیارے نبیؐ پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائے دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو-‘‘
(اتمام الحجۃؔ ص۲۸ مطبوعہ ۱۸۹۴)
۶-’’مجھ کو خدا کی عزّت وجلال کی قسم کہ مَیں مُسلمان ہوں اور ایمان رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پر اور تمام رسولوں پر اور تمام فرشتوں اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر اور مَیں ایمان رکھتا ہوں اس پر کہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل اور خاتم الانبیاء ہیں-‘‘
ّ(حمامۃ البشریٰؔ ص۸ مطبوعہ ۱۸۹۴ء)
۷-’’درود و سلام تمام رسولوں سے بہتر اور تمام برگزیدوں سے افضل محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم پر کہ خاتم الانبیاء اور شفیع المذبنین اور تمام اولین وآخرین کے سردار ہیں اور آپؐ کی آل پر کہ طاہر ومطہر ہیں اور آپؐ کے اصحابؓ پر کہ حق کا نشان اور اللہ کی حجّت ہیں اہلِ ایمان کے لئے-‘‘
(انجام آتھمؔ ص۷۳ مطبوعہ ۱۸۹۲ء)
۸-’’اگر دل سخت نہیں ہو گئے تو اس قدر دلیری کیوں ہے کہ خواہ نخواہ ایسے شخص کو کافر بنایا جاتا ہے جو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کو حقیقی معنے کی رُو سے خاتم الانبیاء سمجھتا ہے-اور قرآن کو خاتم الکتب تسلیم کرتا ہے-تمام نبیوںؑ پر ایمان لاتا ہے اور اہلِ قبلہ ہے اور شریعت کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے-‘‘
(سراجؔ منیر ص۴ مطبوعہ ۱۸۹۷ء)
۹-’’ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سول اور خاتم الانبیاء ہیں-‘‘
(ایام الصلحؔصفحہ  ۸۲   ۸۷ مجریہ ۱۸۹۹ء)
۱۰-’’عقیدہ کی رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے-وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے-‘‘
کشتی نوحؔ ص۱۵ مطبوعہ ۱۹۰۲ء)
۱۱-’’ایک وہ زمانہ تھا کہ انجیل کے واعظ بازاروں اور گلیوں اور کُوچوں میں نہایت دریدہ دہنی اور سراسر افتراء سے ہمارے سیّدد مولیٰ خاتم الانبیاء اور افضل الرّسل والاصفیاء اور سیّد المعصومین والاتقیاء حضرت محبوبِ جنابِ احدیّث محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کی نسبت یہ قابلِ شرم جھوٹ بولا کرتے تھے کہ جبابؐسے کوئی پیشگوئی یا معجزہ ظہور میں نہیں آیا-اور اب یہ زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے علاوہ اُن ہزار ہا معجزات کے جو ہمارے سرور ومولیٰ شفیع المذبنین صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف اوراحادیث میں اس قدر کثرت سے مذکور ہیں جو اعلیٰ درجہ کے تواتر پر ہیں-تازہ بتازہ صد ہا نشان ایسے ظاہر فرمائے کہ کسی مخالف او رمنکرکو اُن کے مقابلہ کی طاقت نہیں-‘‘
(تریاق القوبؔص۵ مجزہ ۱۹۰۲ء)
۱۲-’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا-جس کے یہ معنے ہیں کہ آپؐ کے بعد براہ راست فیوضِ نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمالِ نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا- جو اپنے اعمال پر اتباعِ نبویؐ کی مُہر رکھتا ہو گا-اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا بیٹا اور آپؐ کا وارث ہو گا-‘‘
(ریولوبر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی صفحہ ۶  ۷ مطبوعہ ۱۹۰۶ء)
۱۳-’’ہم مسلمان ہیں ایمان رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کی کتاب فرقانِ حمید پر-اور ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلّم خدا کے نبی اور اس کے رسول ہیں اور وہ سب دینوں سے بہتر دین لائے اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ آپؐ خاتم الانبیاء ہیں-‘‘
(مواہبؔ الرحمن صفحہ ۶۶ مطبوعہ ۱۹۰۳ء)
۱۴-’’اب بجز محمّدیؐ نبوت کے سب بنوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیںآ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتّی ہو-‘‘
(تجلیاتؔ الہیٰہ ص۲۶ مطبوعہ ۱۹۰۶ء)
۱۵-’’ اللہ جل شانہ‘ نے آنحضرت صلّے اللہ علیہ وسلّم کو صاحبِ خاتم بنایا یعنی آپؐ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اورنبی کو ہرگز نہیں دی گئی-اس وجہ سے آپؐ کا نام خاتم النبیّین ٹھہرا-یعنی آپؐ کی پَیروی کمالاتِ نبوت بخشتی ہے اور آپؐ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوتِ قوسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی‘‘
(حقیقۃ الوحیؔ ص۹۷ حاشیہ-مطبوعہ ۱۹۰۷ء)
۱۶-’’خد اس شخص کو پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستورالعمل قرار دیتا ہے اور اُس کے رسول حضرت محمد صلی علیہ وسلم کو درحقیت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے-‘‘
(چشمہ معرفؔ ص۳۶۴ مطبوعہ ۱۹۰۸ء)
۱۷-’’ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا
وَلٰکِنْ رسول اللّٰہ وَ خاتم النبیّین-‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ-مطبوعہ ۱۹۰۱ء)
۱۸-’’ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء ہیں اور ہم فرشتوں اورمعجزات اور تمام عقائد اہلِ سنت کے قائل ہیں-‘‘ 
(الکتاب البرییّہؔ حاشیہ ص۸۳ مطبوعہ ۱۸۹۸ء)
 ۱۹-’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین ہیں-اور قرآن شریف خاتم الکتب-‘‘
(پیغام امامؔ ص۳۰ لیکچر ۱۹۰۵ء)
۲۰-’’مجھ پر اور میری جماعت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیّین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے-ہم جس قوت‘ یقین ومعرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصّہ بھی لوگ نہیں مانتے-‘‘
(الحکم ؔ۱۷؍مارچ ۱۹۰۵ء)
۲۱-’’قرآن میں آنحضرت کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا-‘‘
(اربعینؔنمبر ۲۴ مطبوعہ ۱۹۰۰ء)
۲۲-’’پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سیّد ومولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے-‘‘
(لیکچر لاہور ص۳۱ مطبوعہ ۱۹۰۴ء)
۲۳-’’ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین ہیں-‘‘
(حقیقۃ الوحیؔص۶۴ مطبوعہ ۱۹۰۷ء)
۲۴-’’تمام تعریفیں خدا کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا پروردگار ہے اور درود وسلام اس کے نبیوں کے سردارؐ پر جو ااس کے دوستوں میں سے برگزیدہ اور اس کی مخلوقات میں سے پسندیدہ اور خاتم الانبیاء اور فخر الانبیاء اور فخرالاملیاء ہے-ہمارا سیّد‘ہمارا امام‘ ہمارا نبی‘ محمد مصطفیٰؐ- جو زمین کے باشندوں کے دل روشن کرنے کے لئے خدا کا آفتاب ہے-‘‘
ٰ(نور الحقؔ ص ۱ مطبوعہ ۱۸۹۴ء)
۲۵-’’مجھے اللہ جل شانہ‘ کی قسم ہے کہ مَیں کافرنہیں-لا اِلٰہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پر میرا عقیدہ ہے اور وَلکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیّین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے-‘‘
(کرامات الصّادقین ص۲۵ مطبوعہ ۱۸۹۴ء)    



مکمل تحریر >>

دلچسب مکالمہ - مسلمان کون اور کافر کون ؟




دلچسب مکالمہ  از جناب ارشاد احمد صاحب شکیب

چند دن ہوئے لائلپور میں میری ملاقات ایک ایسے صاحب سے ہوئی جو سابقہ جماعت اسلامی کے بڑے سرگرم اور فعال کارکن رہ چکے ہیں ۔ رسمی تعارف کے بعد احمدیت پر گفتگو شروع ہوگئی۔ انہوں نے یکدم احمدیت پر چند ایک اعتراضات کر ڈالے ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ قبل اس کے کہ میں آپ کے اعتراضات کا جواب دوں مجھے آپ یہ بتادیں کہ آپ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں یا کافر؟
جواب ۔ کافر
سوال ۔ اچھا تو بتائیے کہ آپ خود کیا ہیں؟ہندو ہیں ،سکھ ہیں، عیسائی ہیں، یہودی ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ؟
جواب ۔ انہوں نے دیکھاکہ میں نے سوال میں اور سب کچھ کہہ ڈالا مگر مسلمان نہیںکہا ۔ تو وہ بڑے تلملائے اور تلملاہٹ کو چھپاتے ہوئے فرمانے لگے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ 
سوال۔ میں کیسے تسلیم کروں کہ آپ مسلمان ہیں آپ کی پیشانی پر تو لکھا ہوا نہیں کہ آپ مسلمان ہیں آخر ایک کافر کو آپ کے مسلمان ہونے کا کیسے پتہ چلے گا ۔؟
جواب۔ میں اسلام کا پیرو ہوں ،کلمہ پڑھتا ہوں ، قرآن مجید پڑھتا ہوں ،قرآن کو خدا کی الہامی کتاب اور آخری شریعت مانتا ہوں ۔ اور آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتا ہوں ۔ اس لئے مسلمان ہوں ۔
میں ۔ کیا ان باتوں کے ماننے سے کوئی شخص مسلمان ہو جاتا ہے ؟
وہ ۔ ضرور ہو جاتا ہے 
میں ۔ میں تو نہیں مانتا کہ ان باتوں کے ماننے سے کوئی شخص مسلمان ہو جاتا ہے یہ سب تو پرانی باتیں ہیںکوئی نئی بات بتائیں ؟
وہ ۔ میں کون سی نئی بات بتائوں گا میں تو وہی باتیں بتائوں گا جو اسلام نے شرائط بتائی ہیں ۔ 
میں ۔ اچھا تو اتنااور بتا دیجئے کہ ان شرائط کوپورا کر کے فقط آپ ہی مسلمان ہو سکتے ہیں یا کوئی اور بھی کوئی دوسرا شخص بھی ہو سکتا ہے ؟
وہ ۔ جو بھی ان شرائط کو پورا کر ے وہ مسلمان ہو سکتا ہے ۔ 
میں ۔ تو لیجئے پھر مجھے مسلمان کر لیجئے میں آپ کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں ان سب باتوں پر ایمان لاتاہوں ؟
وہ ۔ کیا آپ آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین بھی مانتے ہیں ۔
میں ۔ جی ہاں ۔ضرور مانتا ہوں یہ تو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے ۔ 
وہ ۔ لیکن آپ لوگ خاتم النبیین کے ان معنوں پر ایمان نہیں لاتے جو ہمارے علماء کرتے ہیں؟۔
میں ۔ یہ بتائیے کہ قرآن مجید عربی میں نازل ہوا ہے یا اُردو میں ؟
وہ ۔ عربی میں 
میں ۔ توپھر ہمیں قرآن مجید کے عربی الفاظ پر ایمان لانا چاہیے یا آپ کے علماء کے تراجم پر؟
اس پروہ لاجواب ہو گئے اور کہنے لگے کہ بھئی مان گئے کہ مرزائیوں سے دلائل کے ساتھ بات کرنا بہت مشکل ہے ۔ 
دو چار روز کے وقفہ کے بعد پھر انہی صاحب سے احمدیت کے موضوع پر گفتگو چھڑ گئی ۔ اور میں نے پوچھا کہ اب تو آپ ہمیں مسلمان سمجھنے لگ گئے ہوں گے؟ اس دوران ذرا ان سے بے تکلفی پیدا ہو چکی تھی ۔ اس لئے سنجیدہ منہ بنا کر فرمانے لگے کہ نہیں جناب ہم آپ کو اب بھی کافر ہی سمجھتے ہیں۔
میں ۔ ٹھیک ہے کہ آپ رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں جو چاہیں سمجھیں لیکن مجھے اتنا بتا دیں کہ کسی کو مسلمان یا کافر قرار دینا حق کس کا ہے؟
وہ ۔ علمائے اُمت کا 
میں ۔ اچھا تو ہمیں اپنے مسلمان ہونے کا ایک سو ایک مرتبہ یقین ہے ۔ اور آپ کے کافر ہونے کا ایک سو دو دفعہ ۔
وہ ۔ (حیران ہو کر) یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
اس پر میں نے ایک ایسا پمفلٹ نکال کر اُن کے ہاتھ میں تھمادیا جس میں ۲۵ علماء نے مودودی صاحب کو ضال ، مضل، اور دجال قرار دیا ہے ۔ اورکہا کہ آپ چونکہ کسی کو کافر یا مسلمان ہونے کا حق علمائے امت کو دیتے ہیں تو علمائے اُمت کی رائے تو آپ کے متعلق یہ ہے ۔ باقی رہا ہمارا معاملہ تو ہمارے نزدیک یہ حق صرف خد ا اور اس کے رسول ؐ کا ہے اس لئے اپنے مسلمان ہونے کا ہمیں کامل یقین ہے ۔ 
اس دن سے انہوں نے کافر کہنا ترک کر دیا ہے ۔ 
( ماہنامہ الفرقان ، فروری 1961 ، صفحہ 41 )

مکمل تحریر >>

لفظی الہام اور علامہ اقبال





از مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعۃ المبشرین

مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے ایک کتاب ذکر اقبال کے نام سے شائع کی ہے جسے بزم اقبال نے شائع کیا ہے اس کے صفحہ ۲۴۴ پر الہام لفظی کے عنوان کے ماتحت سالک صاحب لکھتے ہیں :۔
’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے فارمن کرسچن لاہور کا سالانہ اجلاس تھا جس میں علامہ بھی مدعو تھے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ سے کہاکہ آپ چائے اور اجلاس سے فارغ ہونے کے بعد ذرا ٹھہرئیے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ڈاکٹرلوکس تقریب سے فارغ ہونے  کے بعد علامہ کے پاس آئے اور سوال کیا کہ آیاآپ کے نزدیک آپ کے نبی ؐ پر قرآن مجید کا مفہوم نازل ہوا تھا جسے و ہ آپ الفا ظ میں بیان کر دیتے تھے یا الفاظ بھی نازل ہوتے تھے؟ علامہ نے صاف جواب دیا کہ میرے نزدیک قرآن کی عبارت عربی زبان میں آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھی یعنی قرآن کے مطالب ہی نہیں بلکہ الفاظ بھی الہامی ہیں ڈاکٹر لوکس نے اس پر بہت تعجب کا اظہار کیا اورکہا کہ میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جیسا اعلیٰ پایہ کا فلسفی Verbal Inspiration(الہام لفظی) پر کیونکر اعتقاد رکھ سکتا ہے علامہ نے ارشاد فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب میں اس معاملہ میں کسی دلیل کا محتاج نہیں مجھے تو خود اس کا تجربہ حاصل ہے میں پیغمر نہیں ہوں محض شاعر ہوں جب مجھ پر شعرکہنے کی کیفت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلاے شعر اُترنے لگتے ہیں اور میں انہیں بعینہ نقل کر لیتاہوں بارہا ایسا ہوا ہے کہ میں نے ان شعروں میں کوئی ترمیم کرنی چاہی لیکن میری کوئی ترمیم اصل اور نازل شدہ شعرمیں بہت ہی ہیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں رکھا ۔ جس حالت میں ایک شاعرپر پورا شعر نازل ہو سکتا ہے تو اس میں کیا مقام تعجب ہے کہ آنحضرت صلعم  پر قرآن کی ساری عبارت لفظ بہ لفظ نازل ہوتی تھی؟ اس پر ڈاکٹر لوکس لاجواب ہوگئے۔

سوال کیا گیا کہ آیا آپ پر شعر کہنے کی کیفت اکثر طاری ہوتی ہے ؟فرمایا نہیں ایسی کیفیت سال بھر میں دو تین دفعہ ہوتی ہے لیکن اس وقت مضامین کے ہجوم کی کیفیت وہی ہوتی ہے جیسے کسی ماہی گیر کے جال میں اس کثرت سے مچھلیاں پھنس جائیں کہ وہ پریشان ہو جائے کہ کس کو پکڑوں اور کس کو چھوڑدوں۔
پھر فرما یا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل مدت کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس سے پہلی کیفت کے آخری لمحات میں جو اشعار کہے تھے ان کی طرف ذہن خود بخود منقتل ہو جاتا ہے گویا یہ فیضان کے لمحے ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو میں ایک قسم کی تکان ، عصبی اضمحلال، اور پژمردگی سی محسوس کرتاہوں. ‘‘

میں نے بغیر کسی تبصرہ کے یہ اقتباس نقل کیا ہے لیکن فقیہان شہر یہ پوچھنے کی جرات کرتاہوں 
۱۔الہام و وحی جاری ہے یا بند؟
۲۔ یہ قسم جس کے الفاظ بھی خدا کے ہوں (جو علامہ اقبال کو ہوئی تھی) آپ کی اصطلاح میں وحی کی کونسی قسم ہے ؟
( ماہنامہ الفرقان ، مارچ 1956 ، صفحہ 34 )






مکمل تحریر >>