Sunday, 28 May 2017

روزہ اور رمضان سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات



روزہ اور رمضان 
فرمایا :
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، اورہرایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پرحج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
     (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15) 
رؤیت ہلال
 خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا مثلاً روزہ رکھنے کیلئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہوگا یا تیس کا۔ تب تک رویت کا ہرگز اعتبار نہ کرو اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالایطاق ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رویت پر مدار رکھیں صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عندالعقل رویت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رویت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی  ایجادکئے اور بذریعہ رویت تھوڑے ہی دنوں میں اجرام علوی و سفلی کے متعلق وہ صداقتیں معلوم کرلیں کہ جو ہندوئوں بیچاروں کو اپنی قیاسی اٹکلوں سے ہزاروں برسوں میں بھی معلوم نہیں ہوئی تھیں اب آپ نے دیکھا کہ رویت میں کیا کیا برکتیں ہیں انہیں برکتوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے خدائے تعالیٰ نے رویت کی ترغیب دی۔ ذرہ سوچ کرکے دیکھ لو کہ اگر اہل یورپ بھی رویت کو ہندوئوں کی طرح ایک ناچیز اور بے سود خیال کرکے اور صرف قیاسی حسابوں پر جو کسی اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھے گئے مدار رکھتے تو کیونکر یہ تازہ اور جدید معلومات چاند اور سورج اور نئے نئے ستاروں کی نسبت انہیں معلوم ہوجاتے سو مکرر ہم لکھتے ہیں کہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ رویت میں کیا کیا برکات ہیں اور انجام کار کیا کیا نیک نتائج اس سے نکلتے ہیں۔
                (سرمہ چشمِ آریہ ۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ192،193)
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے (جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہوچکا تھا۔ ناقل) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟   فرمایا :
’’ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے۔ ‘‘ 
     (بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7) 
چاند دیکھنے کی گواہی 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیااور اسی دن (ہم) قادیان قریبًا ظہر کے وقت پہنچے اوریہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے۔اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غورہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیراحمدیوں نے دیکھا تھا۔‘‘ ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ ’’چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔ اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔‘‘  
           (سیرت المہدی جلد 2صفحہ265) 
سحری میں تاخیر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں ؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھاناان کے لئے تیار کیا جائے ۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔                            
(سیرت المہدی جلد2صفحہ127) 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی   اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے ۔ اس لئے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں ۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔
        (سیرت المہدی جلد1صفحہ295،296) 

سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اورفرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیںرکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اوراس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طورپرظاہر ہوجاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔   (سیرت المہدی جلد 1صفحہ520) 
 سفر میں روزہ ، حکم ہے اختیار نہیں
آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ:
قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ  فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍِ اُخَرَ (البقرۃ : ۱۸۵) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیںاس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ   کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔
اس پر مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایاتھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کرجو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔ 
                       (الحکم31جنوری  1899ء صفحہ7) 
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے شیخ محمد چٹو آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں۔ محض اپنے خلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے۔ احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی۔ چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لئے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے۔ جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تومعمول کے موافق خدام پر وانہ وار آپ کی طرف دوڑے ۔ آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا:۔ 
حضرت اقدس ۔ آپ اچھی طرح سے ہیں ؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں۔ 
بابا چٹو۔ شکر ہے۔ 
حضرت اقدس:۔ (حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کر کے )یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کردو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کردو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار کرے۔ 
حکیم محمد حسین :۔  بہت اچھا حضور۔ انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ 
حضرت اقدس:۔  (بابا چٹو کو خطاب کر کے ) آپ تو مسافر ہیں۔ روزہ تو نہیں رکھا ہوگا؟
بابا چٹو:۔  نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے ۔ 
حضرت اقدس:۔  اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔ کیوں کہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے  مَنْ کَانَ مِنْکُمْْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ (البقرہ:۱۸۵) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یاا یسی بیماری ہو ۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا۔ چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جائوں گا۔ کیا آپ بھی چلیں گے۔ 
بابا چٹو:۔  نہیں میں تو نہیں جاسکتا۔ آپ ہو آئیں۔ یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے۔ 
حضرت اقدس:۔ یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے ۔ قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اب آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ زندگی کا اعتبار کچھ نہیں۔ انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے اور صراط مستقیم مل جاوے۔ 
بابا چٹو:۔ میں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھائوں۔ اگر یہی راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مرجاویں۔ 
حضرت اقدس:۔ ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے۔ میں تھوڑی دور ہو آئوں ۔ آپ آرام کریں۔ (یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے۔ )         (الحکم 31جنوری 1907ء صفحہ14)
بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا ۔حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے  فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّ ۃٌ مّنْ اَیَّامٍِ اُخَرَ ( البقرۃ : ۱۸۵)جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے ۔اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں ۔ خد تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے ۔بعد کے روزے اس پر بہر حال فرض ہیں ۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امرز ائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے ۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا ۔ 
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :۔
 جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حا صل کر سکتا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے، مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توا ن پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔                                                                 (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔۔۔۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا، یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا میاں عبداللہ! خدا کا حُکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے۔ آپ سب روزے افطار کردیں۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے۔     (سیرت المہدی جلد2صفحہ125) 
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔حضرت صاحب نے اسے فرمایاآپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سادن رہ گیا ہے۔ اب کیا کھولنا ہے۔ حضور ؑنے فرمایا آپ    سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔              (سیرت المہدی جلد1صفحہ97) 
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
 حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی تحریر کرتے ہیں کہ :۔
ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اورمیرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اورفرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔میں نے تعمیل ارشاد کی اوراس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو) ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔حضرت مسکرائے اورجھٹ اندر تشریف لے گئے۔ اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اورمنشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کردیا۔
      (روایت حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی ؓ اصحاب احمد جلد4صفحہ224نیا ایڈیشن ) 
سفر میں روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھاریوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اوررمضان کا مہینہ تھا۔ بہت دوست اردگرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑدئیے۔     (سیرت المہدی جلد2صفحہ303) 
 سفر میں رخصت، ملامت کی پرواہ نہ کی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل(جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی پھر وہ اور آگے ہوئے ۔ پھر بھی حضور مصروفِ لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کردی تو حضور نے لے کر چائے پی لی اس پر لوگوں نے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام ، روزے نہیں رکھتے اوربہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضوراس میں داخل ہوگئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اوربہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیامگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اوربعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’ اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادِتّا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سُنا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اوران کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑبڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا تو حضور نے فرمایا: مفتی صاحب نے کوئی بُرا کام نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے۔    (سیرت المہدی جلد2صفحہ147) 
مسافر کا حالتِ قیام میں روزہ رکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں : 
سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔ 
ادھر الفضل میں میرایہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ 
اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا ۔ ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں ،مَیں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اورانہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اس پر اتنی لمبی بحث اورگفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے۔ اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کرکے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اورانہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے ۔ اس دوران میں ،مَیں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔ گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اورلوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے۔ البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا توہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی۔ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی فتویٰ ہے۔پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قراردیتے رہے ہیںاور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے، لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایاکہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تولے لیں اور دوسراچھوڑدیں۔
            (الفضل 4؍جنوری1934ء صفحہ4-3)
(اس مسئلہ پر سیرت المہدی سے بھی ایک روایت ملتی ہے)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کاذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔ چاردن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا: ’’سفرمیں توروزہ نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ حضور ؑ نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :ہم روزہ رکھیں گے۔ آپؑ نے فرمایا ’’ بہت اچھا! آ پ سفر میں ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ حضور ؑ! چند روز قیام کرناہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ اچھا!ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔‘ ‘ ہم نے خیال کیا کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے؟ جب سحری کا وقت ہوا اورہم تہجد و نوافل سے فار غ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے۔ (جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے۔ کشمیری تھیں اورپراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں۔ حضور ؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔ پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اورحضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اورفرماتے تھے۔ ’’ اچھی طرح کھاؤ۔‘‘ مجھے تو شرم آتی تھی اورڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور ؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہورہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اورکھاؤ ،ابھی بہت وقت ہے ۔‘‘ فرمایا : ’’ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیں ابھی وقت بہت ہے ۔ مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔ ‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضور ؑ  کھڑے رہے اورٹہلتے رہے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں ،میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔ اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔  
      (سیرت المہدی جلد 2صفحہ202،203) 
حضرت سید محمد سرورشاہ صاحب تحریرفرماتے ہیں :۔
روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہوتو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔    (فتاوٰی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر5دارالافتاء ربوہ)
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھاہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اورہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ اس وقت غروبِ آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فورًا روزہ توڑدیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیارفرمایا کرتے تھے۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ  کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔   (سیرت المہدی جلد1صفحہ637) 
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت 
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ :۔ 
ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا۔ ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا۔ ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہوجاتا تھا۔ اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نمازیاں بیٹھتے تھے۔میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں ۔ اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کردیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں۔ غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو۔ سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہوگئے ہیں۔ اگر روزہ افطار کردیا(یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا )کریں(تو بہتر ہو) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں۔ صبح کو تپ اتر جاتا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔(قلمی کاپی صفحہ ۵۲تا۵۴)
         (اصحابِ احمد جلد10صفحہ397،398نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب ) 
بیماری میں روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا معمول
حضرت مصلح موعود ؓ سے سوال پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیماررہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟  آپؓ نے فرمایا: 
حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمزور زیادہ ہو گئے تھے اورمرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے، یعنی ۵،۶،۷  (۱۹۰۵، ۱۹۰۶ اور ۱۹۰۷ء مراد ہے۔ ناقل)             
     (الفضل 12جون1922ء صفحہ7) 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے  حضرت والدہ صاحبہ نیبیان کیا  کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ دوسرا رمضان آیا تو 
آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دَورہ ہوا۔ اس لئے باقی چھوڑ دئیے اور فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیاتو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعدجو رمضان آیاتو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتدا دوروں کے زمانہ میں روز ے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کردیا تھا۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ کو دورانِ سر اور بردِاطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہوگئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھرشوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کردیتے تھے اوربقیہ کا فدیہ ادا کردیتے تھے۔ واللّٰہ اعلم۔              (سیرت المہدی جلد1صفحہ59) 
مسافر اور مریض فدیہ دیں 
فرمایا:  اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہو ں ۔ ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔  (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
   فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
 ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
                        (البدر12دسمبر1902ء صفحہ52)  
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
 حضرت مصلح موعودؓ  تحریرفرماتے ہیں:
فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوجاتابلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ اِن مبارک ایّام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بناء پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ بشرطِ استطاعت اِن دونوں حالتوں میںدینا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اُس کی صحت اجازت دے اُسے پھر روزے رکھنے ہوں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اِس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہواگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایّام میں روزے رکھے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اِسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔                (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ389) 
فدیہ کسے دیں؟
 سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ 
فرمایا:۔
    ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے ۔ 
        (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے  
(۱) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھاجاتاان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟    فرمایا:۔ 
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے ۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے ۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔ 
(۲) اور وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ (البقرۃ:۱۸۵) کی نسبت فرمایا کہ :۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے ۔        (بدر26ستمبر1907ء صفحہ7) 
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ  فرماتے ہیں:۔ 
بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ 
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اوربجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔
   (الفضل 11؍اپریل1925 ء صفحہ7 ) 
حضرت مصلح موعود ؓ  تحریرفرماتے ہیں ۔ 
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچّوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرورکرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچّوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اورروزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اِس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے ۔اِس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچّوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں ۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچّہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اِسی طرح بعض بچّے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچّوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیںکہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچّے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اِس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچّہ غالبًا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اورنہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچّہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔        (تفسیر کبیر جلد2صفحہ385) 
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت 
حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ تحریرفرماتی ہیں:۔
 قبل بلوغت کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے ۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ افطار دی تھی۔یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں میں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایاکہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالبًا حضرت اماں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔تم کمزورہو،ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔میں نے پان تو کھالیامگر آپ سے کہاکہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ)نے بھی رکھا ہے۔اُن کا بھی تڑوادیں۔فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔میں بُلا لائی۔وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھاکر دیا اورفرمایا لو یہ کھالو۔تمہارا روزہ نہیں ہے ۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالبًا۔                    (تحریراتِ مبارکہ صفحہ227،228) 
شوّال کے چھ روزوں کا التزام 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکرفرمایاکرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔ فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھاناجب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھااور شام کا خود کھالیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟والدہ صاحبہ نے کہاکہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔ خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے۔)
                           (سیرت المہدی جلد 1صفحہ14) 
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ  فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سُن لیں اورجو غفلت میں ہوں ہوشیار ہوجائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔ 
                                                                 (الفضل 8جون 1922ء صفحہ7)
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا 
 حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا: 
’’جائز ہے ۔‘‘ 
      (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ حالت ِ روزہ میں سر کو یا داڑھی کوتیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟  فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘         (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہوتو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟  فرمایا: 
’’ یہ سوا ل ہی غلط ہے ۔ بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں۔ ‘‘
       (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ دارکاخوشبو لگانا
 سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں ؟  فرمایا: 
’’جائز ہے ۔ ‘‘
        (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے ؟
 فرمایا: 
’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ۔ رات کو سرمہ لگا سکتاہے ۔‘‘  
       (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
نمازِ تراویح
اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں   رات کو اُٹھنے اورنماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عمومًا محنتی، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائیں تو کیا یہ جائز ہوگا۔ 
حضرت اقدس ؑ نے جواب میں فرمایا
’’کچھ حرج نہیں ، پڑھ لیں۔ ‘‘ 
   (بدر 18؍اکتوبر1906ء صفحہ4) 
تراویح کی رکعات 
تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیاا رشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے ۔ فرمایا:
 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اوریہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصے میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔ 
 (بدر مؤرخہ 6فروری 1908ء صفحہ7) 
  تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے 
ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے ؟  فرمایا : 
’’سفر میں دو گانہ سنت ہے ۔تروایح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں ۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو ۔‘‘
         (بدر26دسمبر1907ء صفحہ6)
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی  ؓ نے فرمایا:
میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا۔ اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قراردیا ہے۔ 
فرمایا :  جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اوراس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔
عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا:
 اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود  علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اوربیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اوروہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔                                           
  (الفضل21؍فروری1930ء صفحہ 12 ) 
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقتِ سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا۔ جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے۔ کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟  فرمایا : 
’’ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلہ میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔ ‘‘ 
      (الحکم 24فروری 1907ء صفحہ14) 
رسول اللہ  ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
سوا ل : کیا آنحضرت ؐ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟  فرمایا:
’’ ضروری نہیں۔  ‘‘
      (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5) 
 کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
سوا ل پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کاروزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟  فرمایا: 
’’ضروری نہیں ہے۔ ‘‘
     (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5) 
اعتکاف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ  کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔    
    (سیرت المہدی جلد1صفحہ62)
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
سوال: جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کرسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: سخت ضرورت کے سبب کرسکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے ۔    
   (بدر 21فروری 1907ء صفحہ5) 
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات 
 ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو دونوں معتکف تھے) کو مخاطب کرکے فرمایا :
 اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اوربالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔ چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جاکر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اورہر ایک ضروری بات کرسکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے ۔                        (البدر2جنوری 1903ء صفحہ74 ) 
اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو ناپسند فرمایا  
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ  تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دِنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔ چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟     
        (سیرت المہدی جلد1صفحہ97) 

انتخاب از کتاب فقہ المسیح شریعت کے اصول اور فقہی مسائل سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات
مکمل تحریر >>

Monday, 8 May 2017

حضرت مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کی سچائی جاننے کا آسان طریقہ


” اس جگہ یہ بھی بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مواخذہ الٰہی سے ڈرتے ہیں وہ بلاتحقیق اس زمانہ کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں اور آخری زمانہ کے مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے ویسا ہی ڈرتے رہیں اوران کے فتووں کو دیکھ کر حیران نہ ہوجاویں کیونکہ یہ فتوے کوئی نئی بات نہیں اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیاہے اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اول توبہ نصوح کرکے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں جس کی پہلی رکعت میں سورۃ یٰسین اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورۃ اخلاص ہو اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک کہ جو مسیح موعود اور مہدی اور مجدّد الوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے۔ کیا صادق ہے یا کاذب اور مقبول ہے یا مردود۔ اپنے فضل سے یہ حال رؤیا یا کشف۔ یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہوجائیں۔ ہمیں ہر ایک قسم کے فتنہ سے بچا کہ ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے۔ آمین۔ یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتے کریں لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر۔ کیونکہ جو شخص پہلے ہی بُغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اس پر غالب آگئی ہے اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے جس کو وہ بہت ہی بُرا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور ُپر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ پس اس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ سو اگر تو خدائے تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے تو اپنے سینہ کو بکلّی بغض اور عناد سے دھو ڈال اور اپنے تئیں بکلی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوؤںُ بغض اور محبت سے الگ ہو کر اس سے ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دخان نہیں ہوگا۔ سو اے حق کے طالبو! ان مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں مت پڑو اٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قوی اور قدیر اور علیم اور ہادی مطلق سے مدد چاہو اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کردی ہے آئندہ تمہیں اختیار ہے۔”
 (نشانِ آسمانی روحانی خزائن جلد 4صفحہ400-401)
مکمل تحریر >>

Monday, 24 April 2017

اسلامی اصول کی فلاسفی




ایک صاحب سوامی سادھو شوگن چندر نامی جو تین چار سال تک ہندئوں کی کائستھ قوم کی اصلاح و خدمت کا کام کرتے رہے تھے ۱۸۹۲ ء؁ میں انہیں یہ خیال آیا کہ جب تک سب لوگ اکٹھے نہ ہوں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ آخر انہیں ایک مذہبی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز سوجھی۔ چنانچہ اس نوعیت کا پہلا جلسہ اجمیر میںہوا۔ اس کے بعد وہ ۱۸۹۶ء؁ میں دوسری کانفرنس کے لئے لاہور کی فضا کو موزوں سمجھ کر اس کی تیاری میں لگ گئے۔
سوامی صاحب نے اس مذہبی کانفرنس کے انتظامات کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ ماسٹردرگا پرشاد اور چیف سیکرٹری چیف کورٹ لاہور کے ایک ہندو پلیڈر لالہ دھنپت رائے بی ۔ اے ، ایل ایل بی تھے۔
کانفرنس کے لئے ۲۶؍ ۲۷؍ ۲۸؍ دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کی تاریخیں قرار پائیں اور جلسہ کی کارروائی کے لئے مندرجہ ذیل چھ موڈریٹر صاحبان نامزد کئے گئے۔
۱۔رائے بہادر بابو پرتول چند صاحب جج چیف کورٹ پنجاب
۲۔خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج سمال کاز کورٹ لاہور
۳۔ رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جموں
۴۔ حضرت مولوی حکیم نور الدینؓ صاحب طبیب شاہی
۵۔ رائے بھوانی داس صاحب ایم ۔ اے اکسٹر اسیٹلمنٹ آفیسر جہلم
۶۔ جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کمیٹی لاہور۔
             (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ’’ب‘‘ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷؁ء)
سوامی شوگن چندر صاحب نے کمیٹی کی طرف سے جلسہ کا اشتہار دیتے ہوئے مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ صاحبان کو قسم دی کہ اُن کے نامی علماء ضرور اس جلسہ میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان فرمائیں۔ اور لکھا کہ جو جلسۂ اعظم مذاہب کا بمقام لاہور ٹائون ہال قرار پایا ہے اس کی اغراض یہی ہیں کہ سچے مذہب کے کمالات اور خوبیاں ایک عام مجمع مہذبین میں ظاہر ہو کر اُس کی محبت دلوں میں بیٹھ جائے اور اُس کے دلائل اور براہین کو لوگ بخوبی سمجھ لیں۔ اور اس طرح ہر ایک مذہب کے بزرگ واعظ کو موقع ملے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائیاں دوسرے کے دلوں میں بٹھا دے اور سننے والوں کو بھی یہ موقع حاصل ہو کہ وہ ان سب بزرگوں کے مجمع میں ہر ایک تقریر کا دوسرے کی تقریر کے ساتھ موازنہ کریں اور جہاں حق کی چمک پاویں اُس کو قبول کر لیں۔
اور آج کل مذاہب کے جھگڑوں کی وجہ سے دلوں میں سچے مذہب کے معلوم کرنے کی خواہش بھی پائی جاتی ہے اور اس کے لئے احسن طریق یہی معلوم ہوتا ہے کہ تمام بزرگانِ مذہب جو وعظ اور نصیحت اپنا شیوہ رکھتے ہیں ایک مقام میں جمع ہوں اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں سوالات مشتہرہ کی پابندی سے بیان فرمائیں۔ پس اس مجمع اکابر مذاہب میں جو مذہب سچے پرمیشر کی طرف سے ہو گا ضرور وہ اپنی نمایاں چمک دکھلائے گا۔ اسی غرض سے اس جلسہ کی تجویز ہوئی ہے اور ہر ایک قوم کے بزرگ واعظ خوب جانتے ہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی ظاہر کرنا اُن پر فرض ہے۔ پس جس حالت میں اِس غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں تو خدا تعالیٰ نے ان کو اِس غرض کے ادا کرنے کا اب خوب موقع دیا ہے جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
پھر انہیں ترغیب دیتے ہوئے لکھا:۔
’’کیا میں قبول کر سکتا ہوں کہ جو شخص دوسروں کو ایک مہلک بیماری میں خیال کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اُس کی سلامتی میری دوا میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے وہ ایسے موقعہ میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے بلاتے ہیں وہ دانستہ پہلو تہی کرے؟ میرا دل اِس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کونسا مذہب درحقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس سچّے جوش کو بیان کر سکوں۔‘‘
اِس مذہبی کانفرنس یا جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں شمولیت کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندوں نے سوامی صاحب کی دعوت قبول کی اور دسمبر ۱۸۹۶ء کے بڑے دن کی تعطیلات میں بمقام لاہور ایک جلسۂ اعظم مذاہب منعقد ہوا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے کمیٹی جلسہ کی طرف سے اعلان کر دہ پانچ سوالوں پر تقریریں کیں جو کمیٹی کی طرف سے بغرض جوابات پہلے شائع کر دیئے گئے تھے اور اُن کے جوابات کے لئے کمیٹی کی طرف سے یہ شرط لگائی گئی تھی کہ تقریر کرنے والا اپنے بیان کو حتّی الامکان اس کتاب تک محدود رکھے جس کو وہ مذہبی طور سے مقدس مان چکا ہے۔
سوالات یہ تھے:۔
۱۔ انسان کی جسمانی، اخلاقی اور رُوحانی حالتیں۔
۲۔ انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی عقبیٰ۔
۳۔ دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟
۴۔ کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے؟
۵۔ علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟
        (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ’’ب‘‘  مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷؁ء)
اِس جلسہ میں جو ۲۶؍ دسمبر سے ۲۹؍ دسمبر تک ہوا سناتن دھرم ، ہندو ازم، آریہ سماج، فری تھنکر، برہمو سماج، تھیو سوفیکل سوسائٹی، ریلیجن آف ہارمنی، عیسائیت ، اسلام اور سکھ ازم کے نمائندوں نے تقریریں کیں لیکن ان تمام تقاریر میں سے صرف ایک ہی تقریر ان سوالات کا حقیقی اور مکمل جواب تھی۔ جس وقت یہ تقریر حضرت مولوی عبدالکریم  ؓ سیالکوٹی نہایت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ رہے تھے۔ اُس وقت کا سماں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کسی مذہب کا کوئی شخص نہیں تھا جو بے اختیار تحسین و آفرین کا نعرہ بلند نہ کر رہا ہو۔ کوئی شخص نہ تھا جس پر وجد اور محویّت کا عالم طاری نہ ہو۔ طرزِ بیان نہایت دلچسپ اور ہر دلعزیز تھا۔ اس سے بڑھ کر اس مضمون کی خوبی اور کیا دلیل ہو گی کہ مخالفین تک عش عش کر رہے تھے۔ مشہور و معروف انگریزی اخبار سول ملٹری گزٹ لاہور نے باوجود عیسائی ہونے کے صرف اِسی مضمون کی اعلیٰ درجہ کی تعریف لکھی اور اِسی کو قابلِ تذکرہ بیان کیا۔
یہ مضمون حضرت مرزا غلام احمدؐ صاحب قادیانی بانی ٔ جماعت احمدیہ کا لکھا ہوا تھا ۔اس مضمون کے مقررہ وقت میں جو دو گھنٹہ تھا ختم نہ ہونے کی وجہ سے ۲۹ ؍ دسمبر کا دن بڑھایا گیا۔ ’’پنجاب آبزرور‘‘ نے اس مضمون کی توصیف میں کالموں کے کالم بھر دیئے۔ پیسہ اخبار، چودھویں صدی، صادق الاخبار ، مخبر دکن و اخبار ’’جنرل وگوہر آصفی ‘‘ کلکتہ وغیرہ تمام اخبارات بالاتفاق اِس مضمون کی تعریف و توصیف میں رطبُ اللِّسان ہوئے۔ غیر اقوام اور غیر مذاہب والوں نے اس مضمون کو سب سے بالا تر مانا۔ اِس مذہبی کانفرنس کے سیکرٹری دھنپت رائے بی ۔اے، ایل ایل بی پلیڈر چیف کورٹ پنجاب کتاب ’’رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب‘‘ (دھرم مہو تسو) میں اِس تقریر سے متعلق لکھتے ہیں:۔
’’پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا ۔لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا۔ ڈیڑھ بجے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھرنے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پُر ہو گیا۔ اس وقت کوئی سات اور آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا۔ مختلف مذاہب و مِلَل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتدبہ اور ذی علم آدمی موجود تھے اگرچہ کُرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیّا کیا گیا لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤساء ، عمائد پنجاب، علماء ، فضلاء، بیرسٹر ، وکیل، پروفیسر ، اکسٹر ا اسسٹنٹ ، ڈاکٹر، غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے۔ اور ان لوگوں کے اس طرح جمع ہو جانے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدس تحریک سے ہمدردی تھی مصنّف تقریر اصالتاً تو شریک جلسہ نہ تھے۔ لیکن خود انہوں نے اپنے ایک شاگردِ خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مضمون پڑھنے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ اِس مضمون کے لئے اگرچہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی تھے۔ لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو تب تک کارروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جاوے۔ اُن کا ایسا فرمانا عین اہلِ جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشا کے مطابق تھا۔ کیونکہ جب وقتِ مقررہ کے گذرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دے دیا تو حاضرین اور موڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ جلسہ کی کارروائی ساڑھے چار بجے ختم ہو جانی تھی لیکن عام خواہش کو دیکھ کر کارروائی جلسہ ساڑھے پانچ بجے کے بعد تک جاری رکھنی پڑی کیونکہ یہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہوا اور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔‘‘   (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۷۹،۸۰ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷؁ء)
عجب بات یہ ہے کہ جلسہ کے انعقاد سے قبل ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کو حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ نے اپنے مضمون کے غالب رہنے کے لئے اﷲ تعالیٰ سے خبر پا کر ایک اشتہار شائع کیا جس کی نقل درجِ ذیل ہے۔
’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری‘‘
جلسۂ ٭اعظم مذاہب جو لاہور ٹائون ہال میں ۲۶؍ ۲۷؍ ۲۸ ؍ دسمبر ۱۸۹۶؁ء کو ہو گا۔ اُس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا۔ یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اُس کی تائید سے لکھا گیا ہے۔ اِس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور ربّ العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب سُنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اُس میں چمک اُٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اُس کے ہاتھ آ جائے گی۔ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزّہ ہے۔ مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اِس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نُور سے نفرت رکھتے ہیں۔ مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سُنیں شرمندہ ہو جائیں گی۔ اور ہرگز قادر نہیں ہو ں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اُس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو۔ میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مار گیا اور اُس کے چھونے سے اُس محل میں سے ایک نُور ساطعہ نکلا جو ارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اُس کی روشنی ہوئی۔ تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا۔ اَللّٰہُ اکْبَر خَرِبَتْ خَیْبَر اِس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلولِ انوار ہے۔ اور وہ نُورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں جن میں شرک اورباطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی۔ یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے۔ سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا۔ اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے۔ پھرمیں اُس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا۔ اِنَّ اﷲَ مَعَکَ اِنَّ اﷲَ یَقُوْمُ اَیْنَمَا قُمْتَ۔ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے۔ اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تُو کھڑا ہو۔ یہ حمایتِ الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے۔ اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا۔ ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کر کے اِن معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ اُن کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گے۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدی۔ 
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
         (مجموعہ اشتہار۔ جلدنمبر۱ صفحہ ۶۱۴،۶۱۵۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

  ٭  حاشیہ  سوامی شوگن چند صاحب نے اپنے اشتہار میںمسلمانوں اور عیسائی صاحبان اور آریہ صاحبوں کو قسم دی تھی کہ ان کے نامی علماء اس جلسہ میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں ضرور بیان فرمادیں۔ سو ہم سوامی صاحب کو اطلاع دیتے ہیں کہ ہم اس بزرگ قسم کی عزت کے لئے آپ کے منشا کو پورا کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمارا مضمون آپ کے جلسہ میں پڑھا جائے گا۔ اسلام وہ مذہب ہے جو خداتعالیٰ کا نام درمیان میں آنے سے سچے مسلمان کو کامل اطاعت کی ہدایت فرماتا ہے لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ آپ کے بھائی آریوں اور پادریوں صاحبوں کو اپنے پرمیشر یا یسوع کی عزت کا کس قدر پاس ہے اور وہ ایسے عظیم الشان قدوس کے نام پر حاضر ہونے کے لئے مستعد ہیں یا نہیں؟  منہ

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بطور نمونہ دو تین اخبارات کی آراء ذیل میں درج کر دی جائیں۔
سول اینڈ ملٹری گزٹ (لاہور) نے لکھا:۔
’’اِس جلسہ میں سامعین کو دلی اور خاص دلچسپی  میرزا غلام احمدؑ قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت و حفاظت میں ماہر کامل ہیں۔ اس لیکچر کے سُننے کے لئے دُور و نزدیک سے مختلف فرقوں کا ایک جمِّ غفیر اُمڈ آیا تھا۔ اور چونکہ مرزا صاحب خود تشریف نہیں لا سکتے تھے اس لئے یہ لیکچر اُن کے ایک لائق شاگرد منشی عبدالکریم صاحب فصیح سیالکوٹی نے پڑھ کر سُنایا۔ ۲۷؍ تاریخ کو یہ لیکچر تین گھنٹہ تک ہوتا رہا اور عوام الناس نے نہایت ہی خوشی اور توجّہ سے اس کو سُنا لیکن ابھی صرف ایک سوال ختم ہوا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر وقت ملا تو باقی حصہ بھی سُنا دوں گا اِس لئے مجلس انتظامیہ اور صدر نے یہ تجویز منظور کر لی کہ ۲۹؍ دسمبر کا دن بڑھا دیا جائے۔‘‘ (ترجمہ)
اخبار ’’ چودھویں صدی‘‘ (راولپنڈی )نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اِس لیکچر پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا:۔
’’ان لیکچروں میں سب سے عمدہ لیکچر جو جلسہ کی رُوح رواں تھا  مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے پڑھا یہ لیکچر دو دن میں تمام ہوا۔ ۲۷؍ دسمبر قریباً چار گھنٹے اور ۲۹؍ دسمبر کو دو گھنٹے تک ہوتا رہا ۔کل چھ گھنٹے میں یہ لیکچر تمام ہوا۔ جو حجم میں ۱۰۰ صفحے کلاں تک ہو گا۔ غرضیکہ مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لٹو ہو گئے۔ فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین کی طرف سے فرمائش کی جاتی تھی عمر بھر ہمارے کانوں نے ایسا خوش آئند لیکچر نہیں سُنا دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے سچ تو یہ ہے کہ وہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے عموماً سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم مَسْ کیا اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر اُس میں جاندار بات کوئی نہیں تھی۔ بجز مرزا صاحب کے لیکچر کے جو اِن سوالوں کا    علیحدہ علیحدہ مفصّل اور مکّمل جواب تھا اور جس کو حاضرین جلسہ نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سُنا اور بڑا بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا۔
    ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ اُن سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے۔ اور نہ کوئی سلیم الفطرت اور صحیح کانشنس اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دیئے اور تمام بڑے بڑے اصول اور فروعاتِ اسلام کو دلائلِ عقلیہ سے اور براہینِ فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزیّن کیا۔ پہلے عقلی دلائل سے الہٰیات کے مسئلہ کو ثابت کرنا اور اس کے بعد کلامِ الٰہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان دکھاتا تھا۔
   مرزا صاحب نے نہ صرف مسائلِ قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظِ قرآن کی فلالوجی اور فلاسوفی بھی ساتھ ساتھ بیان کردی۔ غرضیکہ مرزا صاحب کا لیکچر بہ ہیئت مجموعی ایک مکمّل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بے شمار معارف و حقائق و حکم و اسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفۂ الٰہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہلِ مذاہب ششدر رہ گئے کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا۔ اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے۔ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں میں امتیاز کے لئے اس قدر کہنا کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس طرح آ آ کر گری جیسے شہد پر مکّھیاں۔ مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اُٹھ جاتے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لیکچر بالکل معمولی تھا وہی ملاّئی خیالات تھے جن کو ہم لوگ ہر روز سُنتے ہیں۔ اس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے لیکچر کے وقت کئی شخص اُٹھ کر چلے گئے تھے۔ مولوی صاحب ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔‘‘
(اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی بمطابق یکم فروری ۱۸۹۷ء)
اخبار ’’جنرل و گوہر آصفی‘‘ کلکتہ نے ۲۴؍ جنوری ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں ’’جلسہ اعظم منعقدہ لاہور‘‘ اور ’’فتح اسلام‘‘ کے دوہرے عنوان سے لکھا:۔
’’پیشتر اس کے کہ ہم کارروائی جلسہ کی نسبت گفتگو کریں ہمیں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہمارے اخبار کے کالموں میں جیسا کہ اُس کے ناظرین پر واضح ہو گا یہ بحث ہو چکی ہے کہ اس جلسہ اعظم مذاہب میں اسلامی وکالت کے لئے سب سے زیادہ لائق کون شخص تھا۔ ہمارے ایک معزز نامہ نگار صاحب نے سب سے پہلے خالی الذہن ہو کر اور حق کو مدّنظر رکھ کر حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کو اپنی رائے میں منتخب فرمایا تھا جس کے ساتھ ہمارے ایک اور مکّرم مخدوم نے اپنی مراسلت میں توارداً اتفاق ظاہر کیا تھا جناب مولوی سید محمد فخر الدین صاحب فخر نے بڑے زور کے ساتھ اس انتخاب کی نسبت جو اپنی آزاد مدلّل اور بیش قیمت رائے پبلک کے پیش فرمائی تھی اُس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان، جناب سرسید احمد صاحب آف علی گڑھ کو انتخاب فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس اسلامی وکالت کا قرعہ حضرات ذیل کے نام نکالا تھا۔ جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی، جناب مولوی حاجی سید محمد علی صاحب کانپوری اور مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی، یہاں یہ ذکرکر دینا بھی نامناسب نہ ہو گا کہ ہمارے ایک لوکل اخبار کے ایک نامہ نگار نے جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مصنّف تفسیر حقّانی کو اس کام کیلئے منتخب فرمایا تھا۔‘‘
اِس کے بعد سوامی شوگن چندر کے اشتہار سے اُس حصّہ کو نقل کر کے جس میں انہوں نے علمائے مذاہب مختلفہ ہند کو بہت عار دلا دلا کر اپنے اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے طلب کیا تھا۔ یہ اخبار لکھتا ہے:۔
’’اِس جلسے کے اشتہاروں وغیرہ کے دیکھنے اور دعوتوں کے پہنچنے پر کِن کِن علمائے ہند کی رگِ حمیّت نے مقدس دینِ اسلام کی وکالت کے لئے جوش دکھایا اور کہاں تک انہوں نے اسلامی حمایت کا بیڑہ اُٹھا کر حجج و براہین کے ذریعے فرقانی ہیبت کا سکّہ غیر مذاہب کے دل پر بٹھانے کے لئے کوشش کی ہے۔
    ہمیں معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ کارکنانِ جلسہ نے خاص طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور سرسید احمد صاحب کو شریک جلسہ ہونے کے لئے خط لکھا تھا حضرت مرزا صاحب تو علالت طبع کی وجہ سے بنفسِ نفیس شریک جلسہ نہ ہو سکے۔ مگر اپنا مضمون بھیج کر اپنے ایک شاگردِ خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو اس کی قراء ت کے لئے مقرر فرمایا۔ لیکن جناب سرسیّد نے شریک جلسہ ہونے اور مضمون بھیجنے سے کنارہ کشی فرمائی۔ یہ اس بنا پر نہ تھا کہ وہ معمّرہو چکے ہیں اور ایسے جلسوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے ہیں۔ اور نہ اس بنا پر تھا کہ اُنہی ایّام میں ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد میرٹھ میں مقرر ہو چکا تھا بلکہ یہ اِس بنا پر تھا کہ مذہبی جلسے اُن کی توجہ کے قابل نہیں کیونکہ انہوں نے اپنی چٹھی میں جس کو ہم انشاء اﷲ تعالیٰ اپنے اخبار میں کسی اور وقت درج کریں گے صاف لکھ دیا ہے کہ وہ کوئی واعظ یا ناصح یا مولوی نہیں۔ یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے۔ جلسے کے پروگرام کے دیکھنے اور نیز تحقیق کرنے سے ہمیں یہ پتہ ملا ہے کہ جناب مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری، جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی نے اس جلسہ کی طرف کوئی جوشیلی توجہ نہیں فرمائی اور نہ ہمارے مقدس زمرۂ علماء میں سے کسی اور لائق فرد نے اپنا مضمون پڑھنے یا پڑھوانے کا عزم بتایا۔ ہاں دو ایک عالم صاحبوں نے بڑی ہمت کر کے مانحن فیھا میں قدم رکھا ۔مگر اُلٹا۔ اس لئے انہوں نے یا تو مقرر کردہ مضامین پر کوئی گفتگو نہ کی یا بے سروپا کچھ ہانک دیا۔ جیسا کہ ہماری آئندہ رپورٹ سے واضح ہو گا۔ غرض جلسہ کی کارروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اِس میدانِ مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے اور اس انتخاب کو راست کیا ہے جو خاص آپ کی ذات کو اسلامی وکیل مقرر کرنے میںپشاور۔ راولپنڈی۔ جہلم۔ شاہ پور۔ بھیرہ۔ خوشاب۔ سیالکوٹ۔ جموں۔ وزیر آباد۔ لاہور ۔ امرتسر۔ گورداسپور۔ لدھیانہ۔ شملہ۔ دہلی۔ انبالہ۔ ریاست پٹیالہ۔کپورتھلہ۔ ڈیرہ دون۔ الٰہ آباد۔ مدراس۔ بمبئی۔ حیدر آباد دکن۔ بنگلور وغیرہ بلاد ہند کے مختلف اسلامی فرقوں سے وکالت ناموں کے ذریعہ مزیّن بدستخط ہو کر وقوع میں آیا تھا۔ حق تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس جلسے میں 
حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلّت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا تعالیٰ کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اُس کو اِس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین 
مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اُٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔صرف اسی  قدر نہیںبلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ جو انتخابِ تیر بہدف کی طرح روزِ روشن میں ٹھیک نکلا۔ اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ بلکہ وہ ہمارے فخر و ناز کا موجب ہے اس لئے اِس میں اسلامی شوکت ہے۔ اور اِسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی ہے۔
اگرچہ جلسہ اعظم مذاہب کا ہند میں یہ دوسرا اجلاس تھا لیکن اِس نے اپنی شان و شوکت اور جاہ و عظمت کی رُو سے سارے ہندوستانی کانگرسو ں اور کانفرنسوں کو مات کر دیا ہے ہندوستان کے مختلف بلاد کے رؤساء اِس میں شریک ہوئے اور ہم بڑی خوشی کے ساتھ یہ ظاہر کیا چاہتے ہیں کہ ہمارے مدراس نے بھی اِس میں حصہ لیا ہے جلسہ کی دلچسپی یہاں تک بڑھی کہ مشتہرہ تین دن پر ایک دن بڑھانا پڑا۔ انعقاد جلسہ کے لئے کارکن کمیٹی نے لاہور میں سب سے بڑی وسعت کا مکان اسلامیہ کالج تجویز کیا لیکن خلقِ خدا کا اژدہام اس قدر تھا کہ مکان کی (وسعت)  غیر  مکتـفی ثابت ہوئی۔ جلسہ کی عظمت کا یہ کافی ثبوت ہے کہ کل پنجاب کے عمائدین کے علاوہ چیف کورٹ اور ہائی کورٹ الہ آباد کے آنریبل ججز بابو پرتول چندر صاحب اور مسٹر بینر جی نہایت خوشی سے شریک جلسہ ہوئے۔‘‘
یہ مضمون پہلے ’’رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب‘‘ لاہور میں من و عن شائع ہوا۔ اور جماعت احمدیہ کی طرف سے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے عنوان کے ماتحت کتابی صورت میں اس کے کئی ایڈیشن اردو اور انگریزی میں شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کا ترجمہ فرانسیسی ۔ ڈچ۔ سپینش۔ عربی۔ جرمن وغیرہ زبانوں میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اور اِس پر بڑے بڑے فلاسفروں اور غیر ملکی اخبارات و رسائل کے ایڈیٹروں نے بھی نہایت عمدہ ریویو لکھے۔ اور مغربی مفکّرین نے اس لیکچر کو بے حد سراہا۔  مثلاً
۱۔ ’’برسٹل ٹائمز اینڈ مرر‘‘ نے لکھا :۔  ’’یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں یورپ و امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا۔‘‘
۲۔ ’’سپریچوال جرنل‘‘ بوسٹن نے لکھا :۔ ’’یہ کتاب بنی نوع انسان کے لئے ایک خالص بشارت ہے۔‘‘
۳۔ ’’تھیا سوفیکل بُک نوٹس‘‘ نے لکھا :۔  ’’یہ کتاب محمد (صلعم) کے مذہب کی بہترین اور سب سے زیادہ دلکش تصویر ہے۔‘‘
۴۔ ’’انڈین ریویو‘‘ نے لکھا :۔ ’’اِس کتاب کے خیالات روشن، جامع اور حکمت سے پُر ہیں اور پڑھنے والے کے منہ سے بے اختیار اس کی تعریف نکلتی ہے۔‘‘
۵۔ ’’مسلم ریویو‘‘ نے لکھا:۔  ’’اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس میں بہت سے سچّے اور عمیق اور اصلی اور رُوح افزا خیالات پائے گا۔‘‘ 
(سلسلہ احمدیہ مؤلفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ ۶۹)
اس مضمون کی یہ خوبی ہے کہ اِس میں کسی دوسرے مذہب پر حملہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ محض اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور سوالات کے جوابات قرآن مجید ہی سے دیئے گئے ہیں اور ایسے طور پر دیئے گئے ہیں کہ جن سے اسلام کا تمام مذاہب سے اکمل اور احسن اور اتم ہونا ثابت ہو تا ہے۔
        خاکسار
جلال الدین شمسؔ
(تعارف از روحانی خزائن جلد ۱۰)

Click To Download : Islami Usool Ki Philosphy






مکمل تحریر >>

Sunday, 16 April 2017

مولانا عبداللطیف صاحب بہاولپوری فاضل دیوبند کی قبولیت احمدیت کی داستان



حضرت مولانا عبداللطیف صاحب بہاولپوری مرحوم جماعت احمدیہ کے ایک خاموش ، درویش منش اور صاحب رؤیاو کشوف بزرگ عالم دین تھے۔ آپ نے قرآن کریم کی بعض سورتوں کی تفسیر خصوصاً سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف شائع کر کے خاص شہرت پائی۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے جماعت کے اخبارات اور رسائل میں ان گنت علمی مضامین کے خزانے چھوڑ ے ہیں۔ 
آپکے قبول احمدیت کی داستان بہت ایمان افروز ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے خود ہی آپ کی رہنمائی احمدیت کی طرف فرمائی اور صداقت احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت و توفیق بخشی۔ اس پہلو سے آپکا وجود دیگر ہزارہا افراد کی طرح حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے اس الہام الٰہی کی صداقت پر ایک گواہ تھا جس میں حضور علیہ السلام کو خبر دی گئی تھی کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء۔ یعنی ایسے عظیم لوگ تیری مدد کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے۔ قارئین الفضل کی دلچسپی کے لئے حضرت مولانا عبداللطیف صاحب بہاولپوری کے قبول احمدیت کی داستان خود آپ ہی کے الفاظ میں پیش ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مجھے ابتدائے عمر سے احمدیت کے خلاف ہمیشہ ایسی باتیں سننے میں آتیں جن کی وجہ سے دل میں سلسلہ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی۔ یہاں تک کہ خلوت میں دعائیں بھی اس قسم کی کی جاتیں کہ الٰہی کسی مرزائی (احمدی) کی شکل تک نظر کے سامنے نہ آئے۔ خاکسار نے دارالعلوم دیوبند میں نصاب تعلیم کی تکمیل کی۔ بعد فراغتِ تعلیم جب گھر واپس آیا تو ایک دفعہ میرے والد صاحب مرحوم ومغفور نے مجھ سے دریافت کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یافوت ہو چکے ہیں۔ تو جھٹ اسی پرانے عقیدے کی بنا پر یہی جواب دیا کہ زندہ ہیں اورکہا کہ اہل سنت والجماعت کا یہی اجماعی عقیدہ ہے ۔ حالانکہ اس مسئلہ کے متعلق خود کبھی تحقیق نہیں کی تھی۔ پراناعقیدہ دل میں اس قدر راسخ تھا جس کی وجہ سے تحقیق کی طرف توجہ دینا ہی فضول سمجھتا تھا۔ اس کے بعد جب اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس ورطۂ ضلالت سے نکالنا چاہا تو اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت میری ہدایت و راہنمائی کا سامان بھی عجیب طرح غیب سے پیدا فرمایا ۔بجائے اس کے کہ کسی احمدی سے میر ی ملاقات ہوتی اور اس سے تبادلہ خیالات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچتا۔ اﷲ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے میری ہدایت کا نرالا سامان مہیا فرمایا۔
ضلع حیدرآباد سندھ میں ایک گاؤں بنام ’’گوٹھ پیر جھنڈا ‘‘ ہے۔ اس میں مولوی عبیداﷲ سندھی نے ایک عربی مدرسہ بنام دارالرشاد قائم فرمایا تھا۔ جس میں ابتداء ً مولانا موصوف خود بھی تعلیم دیتے تھے ۔ بعد میں جب آپ سیاست میں منہمک ہو گئے تو پہلے کچھ عرصہ دیوبند میں قیام پذیر ہو کر ایک تحریک چلائی ۔ مگر بعد میں بعض وجوہات کی بنا پر وہاں سے ہٹ کر دہلی میں اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے ’’نظارۃ المعارف القرآنیہ‘‘ کے نام سے قرآنی تعلیم کی درسگاہ قائم فرمائی۔ سندھ سے آپ کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کے اس مدرسہ دارالرشاد کے انتظام کاکام ایک انجمن تعلیم و ارشاد کے سپرد تھا۔ ۱۹۲۲؁ء کا واقعہ ہے کہ مجھے اس مدرسہ میں تعلیم دینے کی خاطر بلایا گیا۔ جب میں نے تعلیمی چارج لیا تو الٰہی حکمت سے تفسیر قرآن کامضمون بھی میرے سپرد ہوا۔ اتفاق سے پہلے ہی دن جو مضمون میں نے پڑھانا تھا وہ آیت ’’یٰعیسیٰ انی متوفّیک وَ رافعک اِلیٖ‘‘ کی تفسیر کا تھا۔ چونکہ میں نووارد تھا اورماشاء اﷲ طلبہ بھی اچھے لائق اور ہوشیار تھے اس لئے اس آیت کے متعلق مجھے اچھی خاصی تحقیق کی ضرورت تھی۔ وہاں اعلیٰ پیمانہ پر ایک کتب خانہ بھی تھا رات کو جب میں نے کتب تفاسیر وغیرہ کا انبار لے کر مطالعہ شروع کیا تو میرے تعجّب کی کوئی انتہا نہ رہی کہ جس مسئلہ کو ہمیں فاضل استادوں نے اہل سنت کااجماعی عقیدہ جتلا کر مضمون ازبر کرایا تھا وہ نظریہ ہی صریح غلط اور پرفریب نظر آیا۔ میں جوں جوں کتب تفاسیر کا مطالعہ کرتا اس مسئلہ میں سلف صالحین سے دونوں قسم کی روایات پاتا اور جب وفات مسیح کے دلائل پر غور کی تو مجھے یہی پلہ بھاری نظر آیا۔ اور اس کے مقابل حیات مسیح کی دلیلیں کمزور اور پھُسپھُسی سی معلوم ہوئیں۔ مطالعہ کتب کے بعد میرے دل کی کیفیت یہ ہو گئی کہ جس کو میں قبل ازیں اپنا ایمانی عقیدہ قرار دے رہا تھا اس کے متعلق مجھے پورا انکشاف ہو گیا کہ یہ فریب نفس سے کچھ زیادہ نہیں تھا۔(ع)
أ تحت رجلک ، فرس او حمار
اس پر میری طبیعت حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے بیزار ہو گئی۔ اگرچہ مجھے اب تک کسی احمدی سے مل کر ان سے تبادلہ خیالات کرنے اور ان کے عقائد کا جائزہ لینے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ چونکہ نفس امارہ کا ابھی تک میری طبیعت پر بہت کچھ اثر تھا اس نے مجھے اس موقعہ پر دھوکہ دیا کہ جس نتیجہ پر تو پہنچا ہے یہ عقیدہ مرزائیوں کا ہے۔ چونکہ ان کے متعلق دوسرے علماء کی طرح علمائے دیوبند کا بھی یہی فتویٰ تھا کہ وہ ضالّ و مُضِلّ اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ اس طرح جو نفرت میرے دل میں احمدیوں کے متعلق تھی اس جذبہ نفرت کو ابھار کر میرے نفس نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ مرزائیوں کی طرح کہیں تو خود گمراہ ہو کر دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث نہ بنے اس سے دل میں خوف پیدا ہوا۔ چونکہ رحمت الٰہی نے دستگیر ی فرمانی تھی۔ دل میں فوراً خیال آیاکہ اس کے متعلق استخارہ کر لوں۔ فوراً اٹھا ۔ وضو کر کے نماز شروع کی ۔ دعائے استخارہ کرنے کا موقعہ تو آخر میں آنا تھا ۔اس سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ نے میرے انشراح صدر کے لئے آسمانی کھڑکی کھول دی۔
سورۃ فاتحہ ختم کر کے ابھی دوسری سورۃ پڑھنے ہی والا تھا کہ طبیعت میں ایک قسم کی ہچکچاہٹ سی ہوئی کہ کون سی سورۃ پڑھوں اس حالت میں معاً ایسامحسوس ہوا جیسا کوئی دھکا دے کر سورہ ضحی پڑھنے کو کہتا ہے ۔ تب فوراً ہی سورۃ ضحی کی تلاوت شروع کی ۔ زبان پر تو سورۃضحی کے الفاظ جاری تھے مگر دل کی کیفیت کچھ اور ہی تھی۔ القائی طورپر جو سورۃ کا مفہوم دل پر وارد ہوا اس میں کچھ ایسا کھویا کہ محوِ حیرت بن گیا۔ یہ مفہوم میرے دماغی تفکر کا نتیجہ نہیں تھا ۔ کیف آمد تھی آورد نہ تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا یہ سورۃ میرے لئے نازل ہوئی ہے او ر اس میں میری دعا ئے استخارہ کاجواب ہے۔
سورۃ کے مضمون کا مجھ پر یوں انکشاف ہوا گویا مجھے خطاب ہو کر ارشاد ہوتاہے کہ تو گھبراتاکیوں ہے ۔ ہمارے ظاہری نظامِ لیل ونہار کی طرح ایمان کے روحانی نظام میں بھی ایک طرح کے لیل ونہار ہیں۔ عقائدِ حقہ اپنے روشن دلائل اور براہین نیرہ کی تیز شعاعوں کے ساتھ بصیرت ایمانی کے لئے گویا ضحوۃ النہار ہیں اور عقائدِ باطلہ اپنے کمزور دلائل، اغلوطات اور تاویلات رکیکہ کی تاریکی میں محجوب ہونے کے باعث اندھیری رات کی مانند ہیں ۔ پس ان دونوں کا دنیا میں موجود رہنا بھی قانون الٰہی کے ماتحت ضروری ہے۔ اس سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ بصیرت کی آنکھ سے ان کے آثار و اثمار کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔ اس وقت جو تجھ پر حقیقت حال کا انکشاف ہوا ہے یہ دلیل ہے اس بات کی کہ خدا تجھ سے روٹھانہیں پس گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ مَا وَدٖعَکَ رَبّکَ وَمَا قَلٰی۔
اس کیف سے بھرپور ہونے کے بعد جب میں اپنے ہوش و حواس میں آیا تو دل میں ایسا اطمینان و سرور تھا جو حدّ بیان سے باہر ہے ۔ اور پھر جب پہلی رکعت ختم کر کے دوسری رکعت میں اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ کی تلاوت کی تب تو روح گویا وجد میں آگئی اور آستانہ الٰہی پر سجدہ ریز ہو کر حمد الٰہی کا ترانہ یوں گانے لگی۔ الحمد للّٰہِ الٖذِی ھَدانا لِھذا وَ ما کُنٖا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لاَاَنْ ھَدَانا اللّٰہ۔ اس انکشاف کے بعد اتنا تو واضح ہو گیا کہ احمدیوں کا مسلک وفات مسیح کے مسئلہ میں حق پر ہے مگر انکی طرف جو دوسری رکیک باتیں اور غلط عقائد منسوب کئے جاتے تھے ان کی بناء پر ان سے دل میں بدستور نفرت موجود تھی ۔ احمدیت قبول کرنا تو کجا اس کے قریب پھٹکنا بھی ابھی تک گوارا نہ تھا۔ مگر ربوبیت الٰہیہ بھی میری اصلاح و ہدایت کے لئے ایک مناسب موقعہ کی تاک میں تھی۔
انہی دنوں میں مجھے مولانا عبیداﷲ سندھی کے افاضات علمی سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملا۔ آپ صوفی منش ،روشن دماغ، وسیع المشرب تھے۔ عام مولویوں کے برعکس آپ کی طبیعت تعصّب مذہبی کے متعفنہ مواد سے پاک صاف تھی ۔ آپ کھلے بندوں عموماً قادیان میں بھی جاتے تھے ۔ حضرت خلیفۃ اول رضی اﷲ عنہ کے درس میں شامل ہونے کا تو آپ نے کئی بار موقعہ پایا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی حضور کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے کئی دفعہ مولانا موصوف کو تبادلہ خیالات کرنے کا موقع ملا۔ انہی تاثرات سے آپ کو بھی قرآن مجید کے مطالعہ کا بہت کچھ شغف تھا۔ حالاتِ حاضرہ کے مطابق قرآن مجید کے خطابات کو نئے اسلوب و انداز میں پیش کرنے کا آپ کو اچھا خاصا ملکہ تھا۔ احمدیہ تبلیغی نظام سے متاثر ہو کر آپ بھی مبلغین اسلام کی ایک جماعت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے آ پ فاضلانِ دیوبند اور علی گڑھ کالج کے گریجوئیٹوں کے امتزاجِ عناصر اسلام کا حزب الانصار تیار کر رہے تھے۔ اس حزب کی تیاری کے لئے ’’نظارۃ المعارف القرآنیہ‘‘ نامی درسگاہ دہلی میں آ پ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا ۔ آ پ کے درس کے نوٹوں کا قلمی مجموعہ مجھے وہاں مدرسہ دارالرشاد گوٹھ پیرجھنڈا میں دستیاب ہوا جس سے میں نے استفادہ کر کے احمدیت سے قبل ایک حد تک قرآن فہمی کے لئے ذوق حاصل کیا۔ فجزاہ اﷲ تعالیٰ۔ آ پ کے دل میں مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کے متعلق عمیق جذبہ موجزن تھا مگر ان کی اصلاح و تربیت کا طریقہ بزرگانِ زمانہ سید جمال الدین افغانی، شیخ محمد عبدہ، شیخ عبدالعزیز شادیش وغیرہ سیاسی لیڈروں کے مسلک سے ملتا جلتا تھا۔آپ مسلمانوں کے سیاسی احساسات کو بیدار کرنے کے لئے مذہب اسلام اور قرآن کی تعلیم کوسیاسی رنگ میں پیش کرنے میں منہمک تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کو روشن کرنے کے لئے آ پکا ایک خاص منصوبہ تجویز کردہ تھا جسے شاہ ولی اﷲ ؒ کا فلسفہ قرار دیتے ۔ سیاسی انہماک کے باعث آپ مہدی کی آمد کے عقیدہ کی یوں تاویل کرتے تھے کہ ’’اگر آئندہ زمانہ میں ایک ایسا عالم پیدا ہو جو سید بھی ہو (تا شیعہ سنی دونوں فرقوں کو متحد کر سکے) اور اعلیٰ درجہ کا امام بھی ہو ۔ پس جس وقت مسلمانوں میں ایسا عالم پیدا ہو جو ان کو مرکز اسلام(حجاز وشام) اور مصر و ایران و افغانستان وغیرہ کے مسلمانوں کو متحد کر دے تو یہی مہدی ہوگا‘‘۔
(درس القرآن زیر آیت یاعیسی انی متوفیک ورافعک الی )
مولانا کی اس تاویل سے مجھے شدید انکار تھا۔ میں تو سیدھے طور پر عام مسلمانوں کی طرح اس مہدی کی آمد کا معتقد اور منتظر تھا جسے اﷲ تعالیٰ خود مبعوث فرمائے گا۔ اور زمانہ کے پیش آمدہ حالات و علامات کی رو سے آپ کے جلد مبعوث ہونے کی توقع بھی رکھتا تھا۔ 
فرطِ اشتیاق کے جذبہ سے سرشار ہو کر ایک دفعہ میں نے سورۃ بنی اسرائیل کی بعض آیات کے استنباط سے اس موضوع پر ایک مضمون بھی لکھنا چاہا مگر بعد میں اچانک دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس مختصر مضمون کی بجائے کیوں نہ مکمل سورۃ بنی اسرائیل کی تفسیر لکھی جائے ۔ (چنانچہ یہ تفسیر میرے احمد ی ہوجانے کے بعد بنام ’’دستورا لارتقاء‘‘ چھپ کر شائع ہو چکی ہے)۔ بعد کے واقعات سے معلوم ہوا کہ درحقیقت اس تحریک سے مشیت الٰہی میں میری ہدایت یابی کا سامان مقدر تھا جسے میں خود نہیں جانتا تھا۔ کیونکہ وہ مہدی موعود جس کی جلد تشریف آوری کی بشارت دینے کے لئے میں قلم اٹھانے لگا تھا۔ وہ امن کا شہزادہ ، دنیا کو امن کا پیغام دینے والا موعود اقوام عالم تو واقعہ میں مبعوث ہو کر اپنا کام سرانجام فرما چکا تھا مگر اس کی شناخت سے میں اب تک جہالت کی وجہ سے محروم تھا۔ خدا تعالیٰ نے اب اس کے ذریعہ سے میرے لئے اس کی شناخت کا موقعہ غیب سے مہیا فرمایا تھا اور وہ یوں ہوا کہ جب میں سورۂ بنی اسرائیل کی تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا اور اس کے متفرق مضامین کی ترتیب و تنظیم کا خاکہ ذہن میں جمایا تو بعض جگہ تفسیر آیات اور ترتیب مضامین کے متعلق سخت مشکلات پیش آئیں جن کے حل کی بڑی کوشش کی ، بعض استادوں سے دریافت کیا، کتب تفاسیر دیکھیں مگر گرہ کشائی نہ ہو سکی۔ آخر آستانہ الٰہی پر گر کر متضرعانہ دعاؤں سے رحمت الٰہی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو بحمداﷲ گوہر مراد پا لیا۔
اجابت دعا کا نمونہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی افاضہ سے
 مقام محمود کی تفسیر کا انکشاف
ان پیش آمدہ عقدوں میں سے ایک اہم ترین عقدہ مقام محمود کی تفسیر کے متعلق تھا۔ عام طور پر تو مفسرین آیت عسٰی اَنْ یٖبْعَثَکَ رَبُک مقاماً مَحمُوداً کے وعدہ کو آخرت پر چسپاں کرتے ہوئے وہ روایات بیان کرتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ قیامت کے دن آنحضرت ﷺ تمام اُمتوں کی شفاعت کے لئے دربارِ الٰہی میں سربسجود ہونگے۔ مجھے ان کی اس تفسیر پر دراصل کوئی اعتراض نہیں تھا مگر اسے محض وعدۂ فردا قرا ر دینا ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا تھا۔ میرا قلب مضطرب تو اسے آنحضرتﷺ کی حیات مقدسہ کے متعلق پیشگوئی سمجھتے ہوئے اس کا ظہور بدیہی طورپر واقعات مشہودہ کی صورت میں دیکھنے کا متمنی تھا۔ تا مبلغ اسلام خود علی وجہ البصیرت ہو کر اور حاملِ لواء الحمدبن کر اقوام عالم کو یہ بشارت سنا سکے۔ اس رنگ میں تفسیر کے لئے مجھے اساتذہ یا علمائے زمانہ کی طرف رجوع کرنا بے سود نظر آیا۔ کیونکہ اس سے مجھے خطرہ تھا کہ مجھ پر تفسیر بالرائے کے قائل ہونے کا فتویٰ نہ جڑ دیا جائے۔ مگر دل کی پیاس بجھتی بھی نظر نہیں آتی تھی۔ آخر جناب الٰہی میں تضرع و الحاح سے دعا کی تویہ عقدہ بھی حل ہوا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میری قسمت ایسی جاگے گی کہ روح پر فتوح حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے لئے خضرِ راہ بنے گی کیونکہ جھوٹے پروپیگنڈا کے باعث آپ کی ذات کے متعلق اب تک میرے دماغ میں بدظنی کا زہریلا اثر موجود تھا۔ البتہ حضرت خلیفۃ اول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے متعلق کچھ حسنِ ظنّی تھی کیونکہ استادوں سے سنا ہوا تھا کہ آپ عالم متبحر ہیں مگر کسی مصلحت سے مرزا صاحب کے پیرو بن گئے ہیں۔ میں دعا کر کے سو گیا تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پالتی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے زانو پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سر مبارک رکھے خوابِ استراحت فرما رہے ہیں۔ چونکہ میں نے حضرت مولاناموصوف کے علمی تبحر کاچرچا سنا ہوا تھا فوراً آپ کی خدمت میں اپنا عقدہ پیش کر کے ا س کا حل چاہا۔ قبل اس کے کہ حضرت مولانا ممدوح میرے سوال کا جواب دیتے دیکھاکہ میری گفتگو ختم ہوتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیدار ہو گئے اور جلدی سے اٹھ کر میری طرف مخاطب ہو کر ایک مفصل اور لمبی تقریر فرمائی جو نہایت ہی دلچسپ اور معارف و حقائق سے لبریز تھی۔ آپ کی تقریر سن کر میرے تمام عقدے حل ہو گئے اور جو کیفیتِ سرُور اس تقریر کے سننے سے میرے دل میں پیدا ہوئی اسے اب تک میرے قلب نے فراموش نہیں کیا۔
بیدار ہونے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لایا اور اپنے سابقہ خیال سے توبہ و استغفار کی ۔ اب میرا ذہنی انقلاب ہو چکا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات سے جو مجھے پہلے نفرت و بدظنی تھی وہ دور ہو چکی اور آپؑ کی صداقت و محبت کے جذبہ سے دل معمور ہو گیا۔ حضور کی تصانیف کا مطالعہ کر کے اپنے دل کی پیاس بجھائی اور حالاتِ سلسلہ کا تفحّص کر کے حصولِ حق میں بصیرت پائی۔ مگر ابھی تک نفسِ امّارہ کے چنگل سے پوری طرح نجات نہیں پائی تھی۔ بلکہ اب تک بھی دل میں ایک مخفی بُت موجود تھا جس کے توڑنے کے لئے پھر ایک آسمانی ضرب مقدر تھی اور وہ یوں کہ اگرچہ میں اس وقت احمدیت کو حق سمجھتا تھا ۔ جب کبھی اس کے خلاف کوئی آواز سنتا تو غیرت برداشت نہ کرتی جب تک جواب نہ دے لیتا چین نہ پڑتا مگر بیعت کرنا ضروری نہیں جانتا تھا۔ حرّیت زمانہ کی مسموم فضا کے اثر سے نفسِ اماّرہ کی جڑ صحنائے قلب میں ابھی باقی تھی جس کی وجہ سے میں اس وسوسۂ شیطانی کا شکار تھا کہ اسلام کے وسیع دائرہ کو جس میں کروڑوں مسلمان شامل ہیں چھوڑ کر احمدیت کے محدود دائرہ میں کیوں مقیّد بنوں۔ آوارگی نفس کی تاریکی میں کچھ عرصہ گزرا۔ آخر رحمت الٰہیہ نے آسمانی نور کی شعاع میرے دل و دماغ پر ڈال کر یہ ظلمانی پردہ بھی ہٹا دیا اور وسوسۂ شیطانی کی دیوار توڑ کر میری اصلاح کے لئے پھر ایک نیا روحانی نظار ہ دکھایا۔
رؤیا میں حضرت مسیح موعود ؑکی بیعت کرنا
خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت وجیہہ شکل میں عمدہ سبز لباس پہنے کھڑے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک فل سکیپ کا غذ ہے جس میں مبایعین کے نام درج ہیں ۔تمام صفحہ ناموں سے بھرا ہوا ہے ۔ صرف آخری سطر خالی ہے۔ حضور مجھے و ہ کاغذ دے کر فرماتے ہیں کہ اس میں اپنا نام لکھ دو۔ میں وہ کاغذ لے لیتا ہوں ۔ سامنے ایک پلنگ پڑاہے جس کے سرہانے حضور مجھے بیٹھنے کا ارشاد فرماتے ہیں اور خود پائنتی کی طرف بیٹھ جاتے ہیں ۔ حضور کے ان اخلاق کو میں دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔ پاس ہی قلم دوات پڑ ی ہوئی تھی ۔ میں نے اپنا نام لکھ کر کاغذ حضور کے حوالے کر دیا۔ پھر خیال آیا کہ بیعت کے لئے نام لکھ دیا مگر ابھی تو میرے دل میں بعض عقدے باقی ہیں۔ انہیں بھی آپ سے حل کرا لوں مگر حیا کی وجہ سے حضور کی خدمت میں عرض کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ اس اثناء میں بیدار ہو جاتا ہوں ۔ وقت سحر تھا ۔ اٹھ کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی اگر تیرا منشاء بیعت کرانے کا ہے تو دل کے عقدے بھی کھول د ے تا کہ شرح صدر سے بیعت کر سکوں۔اس رؤیا سے چند دنوں بعد اﷲ تعالیٰ نے دل کی وہ تمام کدورتیں دھو ڈالیں اور انشراحِ صدر سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ستمبر 1927 میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ فالحمد ﷲ علی ذلک حمد اً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ۔
(مضامینِ لطیفہ صفحہ ۳ تا ۱۳)
مکمل تحریر >>