ضیائے حدیث کے مضمون چالیس جھوٹ کا جواب
تعارف مضمون
ماہنامہ ”ضیاء حدیث“لاہور اپریل مئی/2009ء کے شمارے میں ایک صاحب کا دس صفحات کا مضمون شائع ہواجس کا عنوان”مرزا قادیانی کے 40 جھوٹ“تھا۔جس میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قایانی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نعوذ باللہ جھوٹ بولنے کے الزامات لگا ئے گئے۔یہاں ان بے سرو پا اعتراضات کے جوابات پیش کئے جارہے ہیں۔
سورة مومنون کی آیت نمبر45میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔کُلَّمَاجَآءَ اُمَّةً رَّسُوْلُھاکَذَّبُوْہُ۔جب بھی کسی امت کی طرف سے اس کا رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ جنہیں دعویٰ سے پہلے قریش مکہ صدوق کہہ کر پکارا کرتے تھے۔یعنی انتہائی سچا۔جب آپﷺ نے دعویٰ فرمایا تو کفار نے کیا کہاسورة ص کی آیت 5 میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے فرمایا قَالَ الْکَافِرُونَ ھٰذَا سَاحِرٌ کَذَّاب حضرت محمد مصطفی ﷺ کا انکار کرنے والے کہتے ہیں ھٰذَا سَاحِرٌ کَذَّاب ۔یہ نبوت کا دعویدار نعوذباللہ جادوگر ہے اور نہ صرف یہ کہ جھوٹا بلکہ کذّاب، انتہائی جھوٹا ہے۔پس انبیاء کے مخالفین کی ہمیشہ یہی روش رہی ہے کہ وہ انبیا ء کو جھوٹا قرار دیتے ہیں اور یہی روش حضرت بانیٴ سلسلہ احمدیہ کے اس مخالف نے اپنے اس مضمون میں دنیا کے سامنے کر دکھائی ہے۔
جو انسان مدعی رسالت ہو مگر جھوٹ کا ارتکاب کر رہا ہو۔افتراء کا مظاہرہ کر رہا ہو ۔اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں کامیاب وکامران نہیں کیا کرتا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورة الانعام کی آیت نمبر 22میں فرماتا ہے وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً اَوْکَذَّبَ بِاٰیٰتِہ اِنَّہ لَایُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۔ اسی قرآنی اصول کے تحت خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ وہی سلوک رہا جو سچے انبیاء کے ساتھ تھا اور آپ کو فتح و نصرت کے وہ نظارے دکھائے جس کو آج بھی دنیا دیکھ رہی ہے اور قادیان کی گمنام بستی سے چلنے والا یہ قافلہ آج دنیا کے 209ممالک میں پہنچ چکا ہے۔
بخاری ومسلم میں درج ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔
اعتراض:۔
حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ کی کتاب’ازالہ اوہام‘حصہ دوم جلد نمبر3صفحہ496کی ایک عبارت درج کرتے ہیں ۔لکھتے ہیں۔کہ”بخاری ومسلم میں درج ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔انہوں نے زینب ؓ کی وفات کے وقت یقین کر لیا کہ پیشین گوئی پوری ہوگئی۔حالانکہ یہ بات اجماعی طور پر تسلیم ہو چکی تھی کہ سودہؓ کے لمبے ہاتھ ہیں وہی پہلے فوت ہوں گی ۔۔۔کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ہاتھوں کو ناپتے دیکھ کر بھی منع نہیں فرمایا تھا ،جس سے اجماعی طور پر سودہؓ کی وفات تمام بیویوں سے پہلے یقین کی گئی لیکن آخر کار ظاہری معنی صحیح نہ نکلے۔جس سے ثابت ہوا کہ اس پیشین گوئی کی اصل حقیقت آنحضرت ﷺ کو بھی معلوم نہیں تھی“
یہ اقتباس درج کر کے اس پر اعتراض یہ کرتے ہیں کہ مرزا جی نے حدیث پر جھوٹ بولا ہے کہ لمبے ہاتھوں کی پیشین گوئی سن کر بیویوں نے آپ کے روبرو ہاتھ ناپنا شروع کئے اور آپ یہ دیکھ کر خاموش رہے۔آگے کہتے ہیں غیرت مند قادیانیوں سے سوال ہے کہ حدیث میں سے یہ الفاظ دکھا دیں۔
جواب:۔
حدیث کا تذکرہ کرنے سے پہلے میں قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث بیان کیوں ہوئی اور مسئلہ ہے کیا جس کا وہاں پر حضور تذکرہ فرما رہے ہیں ۔تاکہ مضمون سمجھنے میں قارئین کو سہولت رہے۔ مخالفین کہتے تھے کہ علماء نے مسیح موعودؑ کی آمد اور اس کی علامات جو پیشگوئیوں کی صورت میں بیان کی گئی ہیں ان کی فلاں تشریح کی ۔ اس لئے اس سے الٹ تشریح قابل قبول نہیں۔ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام اپنی کتاب ’ازالہ اوہام‘میں اس مضمون کو متعدد مقامات پر بیان فرماتے ہیں۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
ایک ہوتے ہیں شرعی احکام ان کی کیفیت اور ہوتی ہے۔دوسری ہوتی ہیں مستقبل کے بارہ میں غیب کی پیشگوئیاں ۔ان کی حقیقت شرعی احکام کی کیفیت سے بالکل جدا ہوتی ہے۔ جو مستقبل کے بارہ میں خدا تعالیٰ خبریں دیتا ہے جو غیبی امور پر مشتمل ہوا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو غیب کی خبر دیتا ہے ۔لیکن وہ خبر کیسے پوری ہوگی ۔ظاہری طور پر پوری ہوگی یا کسی تاویلی یا مجازی رنگ میں پوری ہوگی۔اس کی بسا اوقات اپنے انبیاء کو بھی خدا تعالیٰ خبر نہیں دیتا ۔چنانچہ دیکھیں۔ان خبروں کی حقیقت کب پتہ چلتی ہے جب وہ خبریں پوری ہوجاتی ہیں۔چنانچہ قرآن پاک سورةالنمل کی آیت94میں اس مضمون کو بیان فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہ۔اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے نشانات دکھائے گا۔مستقبل کی بات کی۔سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے نشانات دکھائے گا۔فَتَعْرِفُوْنَھَا۔ نشانات کے دکھائے جانے کے بعد تم ان نشانات کو پہچان لو گے ۔یہ نہیں فرمایا کہ نشانات دکھانے سے پہلے تم نشانات کو پہچان لوگے۔یہ جملہ قابل غور ہے اس مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کہ غیبی امور، مستقبل کی پیشگوئیاں ان کی حقیقت کب سمجھ آتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان غیبی پیشگوئیوں کے پورا ہو چکنے کے بعد سمجھ آتی ہے۔ ان غیبی پیشگوئیوں کے پورا ہونے سے پہلے پہلے انبیاء، اولیاء،مومنین جو ان پیشگوئیوں کی تشریحات کرتے ہیں ۔بعض اوقات وہ ان کی بیان کردہ ،ان کی سمجھی ہوئی تشریحات کے مطابق پوری ہوتی ہیں اور بعض اوقات ان کی تشریحات کے مطابق وہ پوری نہیں ہوتیں کسی اور رنگ میں پوری ہوتی ہیں۔
چنانچہ اس مضمون کو سمجھانے کے لئے آپ نے بعض مثالیں بیان فرمائیں۔ مثلاً آپ نے ایک مثال یہ بیان کی کہ بخاری شریف میں لکھا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے پر آپ کو حضرت عائشہ ؓ کی تصویر دکھائی اور فرمایا یہ آپ کی بیوی ہوگی۔ حضرت رسول پاک ﷺ نے جبرائیل کی زبان سے یہ خبرسن کر فرمایا ۔اِنْ یَکُ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ یُمْضِہ۔ (بخاری کتاب التعبیر باب ثیاب الحریر فی المنام باب کشف المرأة فی المنام)اگر اس خبر کی یہی تعبیر ہے کہ یہ لڑکی درحقیقت میری بیوی ہوگی تو خدا اسی حقیقت کے مطابق اس خبر کو پورا کر دے گاورنہ جو اس کی کیفیت ،جو اس کی حقیقت خدا تعالیٰ کے علم میں ہے اس کے مطابق یہ پیشگوئی پوری ہوگی۔اسی طرح احادیث میں لکھا ہے حضرت رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں۔”گناہگار انسان جو ہوتے ہیں ۔گناہگار انسانوں کی قبروں میں بچھو ہوں گے،سانپ ہوں گے اور آگ ہوگی۔“(تفسیر کبیر ازامام رازی جلد20 زیر آیت النمل89)یہ خبرآپ نے ہر گناہ گار کی قبر کے بارہ میں بیان کی۔ اب دیکھیں یہ پیشگوئی کیسے پوری ہوئی۔ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئی۔زلزلے آتے ہیں قبریں پھٹ جاتی ہیں۔سیلاب آتے ہیں قبریں برباد ہوجاتی ہیں۔لاشیں ننگی ہوجاتی ہیں ۔کفن چور آتے ہیں۔قبریں اکھیڑتے ہیں ۔کفن اتار کر لے جاتے ہیں ۔ لاشیں ننگی پڑی ہوتی ہیں ۔کبھی کسی قبر میں نہ کسی کو بچھو دکھائی دیئے ظاہری طور پر ۔نہ وہاں پر سانپ دکھائی دئیے نہ وہاں پر آگ کے شعلے دکھائی دئیے ۔تو یہ پیشگوئی ہر گناہگار کی قبر کے بارہ میں کیسے پوری ہوئی۔ظاہری طور پر نہیں اپنی باطنی کیفیت کے ساتھ پوری ہوئی۔ایک مثال حضرت رسول پاک ﷺ نے یہ دی ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول پاک ﷺ کو یہ خبر دی کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔( تفسیر البغوی زیر آیت سورة الفتح:27 جزء 7 صفحہ322) یہ خدا تعالیٰ نے آپ کو غیب کی خبر دی ۔آپ نے اس کی تشریح یہ سمجھی کہ ہم اسی سال خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔آپ1400صحابہ کو ساتھ لے کر طواف کعبہ کے لئے مدینہ منورہ سے چل پڑے۔حدیبیہ کے مقام پر پڑاوٴ ہوا۔ قریش مکہ کو خبر ہوئی ۔انہوں نے رکاوٹ ڈالی کہ آپ کو اس سال ہم طواف کعبہ نہیں کرنے دیں گے ۔آخر بحث وتمحیص کے بعد ایک صلح نامہ تیار ہواجو صلح حدیبیہ کے نام سے تاریخ اسلام میں محفوظ ہے ۔اس کے مطابق آپ کو واپس جانا پڑا اور اگلے سال خانہ کعبہ کے طواف کے لئے آئے۔تو جو آپ نے اندازہ لگایا تھا کہ اسی سال ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔وہ اندازہ درست نہیں نکلا ۔آپ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ آپ جس مقام پہ ہجرت فرمائیں گے وہ کھجوروں والا ہوگا ۔ بخاری شریف میں لکھا ہے آپ فرماتے ہیں۔میرا خیال اس طرف گیا کہ یا تو وہ یمامہ کا علاقہ ہے یا حجر کا علاقہ ہے۔ مگر جو اندازے آپ نے لگائے وہ دونوں درست نہ نکلے ۔واقعات نے بتایا کہ وہ مدینۃ النبی یثرب کا علاقہ ہے۔(بخاری کتاب التعبیر باب روٴیا النبی) ان میں سے ایک مثال آپ نے یہ بیان فرمائی کہ بخاری شریف میں لکھا ہے جب آپ مرض الموت میں بیمار تھے۔ازواج مطہرات کو محسوس ہوا کہ اب آپ ہم سے جدا ہونے والے ہیں تو وہ جمع ہوئیں اور آپ سے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے کون ایسی خوش نصیب بیوی ہے جو سب سے پہلے وفات پا کر جنت میں آ پ سے ملاقات کرے گی۔
آپ کو جو خدا نے خبر دی آپ نے فرمایا تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں وہ سب سے پہلے فوت ہوگی۔ازواج مطہرات نے سمجھا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد ظاہری طور پر لمبے ہاتھوں کی لمبائی ہے ۔چنانچہ بخاری شریف میں لکھا ہے ۔فَاَخَذُوْا قَصَبَةً یَّذْرَعُوْنَھَا۔یہ جملہ قابل غور ہے ۔اس میں اس مضمون نگار کے اعتراض کا جواب آگیا ۔یہ مذکر کی ضمیریں ہیں ۔اگر رسول پاک ﷺ اس محفل میں موجود نہ ہوتے ۔وہ بعد میں کہیں اپنے ہاتھوں کو ناپتیں تو یہ مونث کے صیغے ہونے تھے مگرفَاَخَذُوْا قَصَبَةً یَّذْرَعُوْنَھَا۔(بخاری کتاب الزکوٰة باب فضل صدقةالشجیح الصحیح) سارے کے سارے مذکر کے صیغے ہیں ۔مذکر کے صیغے استعمال ہوکر حضرت عائشہ نے ہمیں سمجھا دیا کہ حضرت رسول پاک ﷺ جو مذکر تھے آپ کی موجودگی میں ازواج مطہرات نے ہاتھ ناپے تو حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لمبے تھے۔تو ازواج مطہرات نے یقین کر لیا کہ یہ پیشگوئی ظاہری طور پر پوری ہوگئی ہے۔حضرت رسول پاک ﷺ جن کے سامنے یہ کام ہوا۔ آپ ﷺ نے ان کی اس سمجھی ہوئی تشریح کا انکار نہیں کیا ۔اسے حدیث کی اصطلاح میں حدیث تقریری کہتے ہیں ۔یعنی صحابہ آپ کے سامنے کوئی کام کریںآ پ دیکھیں اور آپ اس کا انکار نہ کریں اس سے منع نہ فرمائیں ۔اگر کوئی یہ کہے کہ صاحب یہ آپ کی وفات کے بعدآپ کی ازواج مطہرات نے ہاتھ ناپے تھے تو یہ بات ان کے سوال کی روح کے خلاف ہے۔ ان کے دل میں تو یہ شوق ہے کہ جب رسول پاک ﷺ ہم سے جدا ہو رہے ہیں تو ہم میں سے کون ایسی خوش نصیب بیوی ہے جو سب سے پہلے فوت ہوکر آپ سے جنت میں جا ملے گی اور اگر ان کو پتہ لگے اور اس جواب کو سن کر وہ اس کی حقیقت کا پتہ نہ چلائیں اور بعد میں چند دنوں بعدیاچند ہفتوں بعدہاتھ ماپیں تو یہ بات عقل کے خلاف ہے ۔ جس شوق سے جس محبت سے انہوں نے سوال کیا اس شوق اور محبت کی نفی کرنے والی بات ہے اور مذکر کے صیغوں نے بھی وضاحت کر دی ۔پھرلفظ ہے فَاَخَذُوْا یہ نہیں فرمایا ثُمَّ اَخَذُوْا۔فَاَخَذُوْا اور ثُمَّ اَخَذُوْا میں فرق ہے ۔فَاَخَذُوْا کا مطلب ہوتاہے فوراً کوئی کام ہونا ثُمَّ اَخَذُوْاکا مطلب ہے بعد میں کبھی کوئی کام ہونا ۔چند دنوں کے بعد ،گھنٹوں کے بعدیا چند ہفتوں کے بعد یا چند مہینوں کے بعد ۔
چنانچہ اس حدیث کی تشریح میں حضرت امام بدرالدین عینی رحمة اللہ علیہ جو عمدة القاری شرح بخاری کے موٴلف ہیں لکھتے ہیں ۔ نِسْوَةٌ النَّبِیُّ حَمَلْنَ طُوْلَ الْیَدِ عَلَی الْحَقِیْقَةِ۔رسول پاک ﷺ کی بیویوں نے لمبے ہاتھوں سے مراد حقیقتاً جسمانی طور پر ہاتھوں کا لمباہونا سمجھ لیا ۔فَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْھِنَّ (عمدة القاری شرح صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب فضل الصدقة الشجیح الصحیح) اور رسول پاک ﷺ نے ازواج مطہرات کے اس خیال کا انکار نہیں فرمایا۔یہ جملہ قابل غور ہے ۔وہی بات جو آج سے صدیوں پہلے حضرت امام بدرالدین عینی نے اس حدیث کے الفاظ سے سمجھی اور اپنی شرح عمدة القاری شرح بخاری میں درج کی اسی کو حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں بیان فرما رہے ہیں۔ اگر یہ بات درست نہ تھی تو وہ درج کیوں کرتے۔ تو یہ لفظ فَاَخَذُوْا مذکر کے صیغے اور مذکر کر کے صیغوں پر فا کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ کام فوراً ہوا اور مرد کی شمولیت سے ہوا۔ تو ازواج مطہرات کی محفل میں مرداس وقت کون تھا ۔وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا وجود تھا۔
آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ جب آپ پر فرشتہ جبرائیل ظاہر ہوا تو آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے
اعتراض:۔
مضمون نگار نے اپنے اس مضمون کے صفحہ نمبر 162پر عنوان باندھا ہے ”جھوٹ نمبر2“اور نیچے حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام کی کتاب تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 160کا اقتباس درج کیا ہے ۔وہ اقتباس یہ ہے”آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ جب آپ پر فرشتہ جبرائیل ظاہر ہوا تو آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے بلکہ حضرت خدیجہ کے پاس ڈرتے ڈرتے آئے اور فرمایا کہ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ یعنی مجھے اپنے نفس کی نسبت بڑا اندیشہ ہے کہ کوئی شیطانی مکر نہ ہو“یہ اقتباس در ج کر کے وہ آگے اعتراض یہ کرتے ہیں ”قادیانیو! تمہارے نبی نے آپ پر جھوٹ بولا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی شیطانی مکر نہ ہو ۔یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔آپ پر کھلم کھلا بہتان ہے‘افتراء ہے،جھوٹ ہے“
جواب:۔
قارئین کرام!حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام اس پیش کردہ اقتباس کے سیاق وسباق میں یہ مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ انبیاء اور اولیاء کی احتیاط کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جب ان پر پہلی مرتبہ خدا کی وحی آتی ہے تو فی الفور اس پر یقین نہیں کرتے۔ایک عام آدمی جو خدا تعالیٰ کی محبت اور قرب کے مقامات سے محروم ہو۔اسے اگر کوئی ایک آدھ سچی خواب آجائے یاوہ کوئی آواز سن لے تووہ پوری دنیا میں ڈھنڈورہ پیٹتا پھرتا ہے کہ میں ولی اللہ بن گیا۔ میں ملہم من اللہ بن گیا ۔حضور یہ مضمون اس اقتباس میں بیان فرما رہے ہیں ۔ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام نے جو فرمایا کہ آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے وحی ہے۔اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی کے آنے پر فی الفور یقین کرلیا تھا کہ یہ الفاظ وحی الٰہی ہیں اور مجھے ملنے والا ،مجھے یہ فقرات سنانے والا وہ فرشتہ جبرائیل ہے تو معترض کا اعتراض درست ہوتا اور حضرت بانیٴ جماعت احمدیہؑ کا بیان غلط ثابت ہوتا لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت رسول پاک ﷺ نے غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی الٰہی کے نزول پر فی الفور یقین نہیں کیا کہ یہ خدا کی وحی ہے ،یہ بات کرنے والا فرشتہ جبرائیل ہے تو حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ کا بیان درست ہے اور معترض کا اعتراض باطل ہے۔
بخاری شریف میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے تین مقامات پر یہ مضمون بیان ہوا ہے۔
1۔بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ میں۔
2۔بخاری کتاب التعبیرباب اول ما بد یٴ بہ رسول اللہ من الوحی الروٴیا الصالحةمیں ،
3۔بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر اقراء باسم ربک الذی خلق میں
تینوں مقامات پر جو حدیث بیان ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے:۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ غار حرا میں تشریف رکھتے تھے ۔فرشتہ آیا اور اس نے حکم دیا کہ پڑھو۔آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا ۔اس نے آپ کو زور سے بھینچا۔آپ کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے زور سے بھینچنے کے نتیجہ میں شاید میری جان ہی نکل جائے۔پھر اس نے چھوڑا اور کہا کہ پڑھو۔آپ نے پھرفرمایا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا ۔اس نے پھر زور سے آپ کوبھینچا ۔آپ کو بہت تکلیف ہوئی ۔پھر اس نے چھوڑا اور پھر کہا کہ پڑھو۔آپ نے پھروہی جواب دیا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا ۔اس نے پھر آپ کو زور سے بھینچا ۔آپ کو بہت تکلیف ہوئی ۔پھر اس نے چھوڑا اور سورة العلق کی پہلی پانچ آیات پڑھیں۔ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۔الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ یہ پانچ آیات ہیں یہ اس نے پڑھیں ۔حضرت رسول پاک ﷺ نے اس کے پیچھے انہی پانچ آیات کو دہرایا اور نظارہ ختم ہوگیا۔آپ کو بڑی سخت گھبراہٹ تھی۔یہ زندگی میں وحی کے نزول کا پہلا موقع تھا اور فرشتے جبرائیل کی آمد کا بھی پہلا موقع تھا۔آپ بہت گھبرائے ۔اسی گھبراہٹ میں گھر آئے۔حضرت خدیجہؓ سے فرمایا مجھے بہت گھبراہٹ ہے مجھے کمبل اوڑھا دو ۔آپ کو کمبل اوڑھایا گیا۔ جب آپ کا خوف دور ہوا تو رسول پاک ﷺ نے فرمایا یَاخَدِیْجَةُ مَالِیَ۔ اے خدیجہ پتا نہیں مجھے کیا ہوا ہے ۔وَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور مجھے اپنی جان کے بارے میں بہت ڈر لگ رہا ہے اور سارا واقعہ بیان کیا ۔ اگر حضرت رسول پاک ﷺ پر اس سے پہلے بھی وحی الٰہی کا نزول ہوتا رہتا اور اس سے پہلے بھی آپ فرشتہ جبرائیل سے ملاقات کرتے رہتے تو آپ یہ نہ فرماتے مَالِیَ۔ مجھے کیا ہوا ۔بلکہ آپ فرماتے کہ اے خدیجہ خدا کا فرشتہ جبرائیل آیا اوراس نے مجھ پر وحی الٰہی نازل کی ہے اور یہ پانچ آیات مجھ پر نازل ہوئی ہیں۔آپ کا یہ فرمانا کہ مَالِیَ مجھے کیا ہوا ۔یہ بتاتا ہے کہ آپ کو یہ پتا نہیں تھا ۔ آپ نے فی الفور اس بات پہ یقین نہیں کیا کہ آنے والا فرشتہ جبرائیل تھااور یہ پانچ جملے خدا کی وحی ہے۔آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ پتا نہیں کیا ہوا۔وہ آنے والا کون تھا؟ کیا یہ کوئی شیطانی وسوسہ تھا یا کوئی جنون کا عارضہ تھا ۔یہ سارا واقعہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے فرمایا کلَّا ۔ہرگز نہیں ۔ جو آپ کاخیال ہے وہ درست نہیں۔لفظ کلَّا عربی زبان میں کسی بات یا کسی خیال کی تردید کے لئے آتا ہے۔وہ کیا خیال تھا۔حضرت خدیجہ نے کہا کہ آپ کے اندر تو پانچ ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو آج دنیا میں کسی انسان میں موجودنہیں ہیں۔ ایسی پاکیزہ خوبیوں والے انسان کو خدا تعالیٰ کیا جنون کا عارضہ لاحق کرے گا ۔کیا اسے شیطانی حملے کا مورد بنائے گا؟ ہرگز نہیں۔آپ تسلی رکھیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی بھی ایسی خوبیوں کے ساتھ ۔اس قسم کے خطرات سے دوچار کر کے دنیا میں آپ کو رسوا نہیں کرے گا ۔ آپ پھر حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔وہ عیسائی تھے بائیبل کے اورانبیائے بنی اسرائیل کی کتابوں کے بہت بڑے ماہر تھے۔آپ حضرت رسول پاک ﷺ کو ان کے پاس لے کرگئیں اور کہنے لگیں کہ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔انہوں نے کہا بھئی کیا ہوا۔آپ نے کیا نظارہ دیکھا ؟تو حضرت رسول پاک ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ چچا جبرائیل آیا تھا اس نے مجھ پر وحی الٰہی نازل کی ہے۔آپ نے واقعہ سنایا۔
ورقہ بن نوفل چونکہ بائیبل کی کتابوں کا ماہر تھا ،انبیائے بنی اسرائیل کی کتابوں کے مضامین کا ماہر تھا وہ جانتا تھا کہ آنے والے عظیم الشان نبی کے ظہورکی علامات پوری ہو چکی ہیں۔جب اس نے یہ واقعہ سنا تو اس نے بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ تو فرشتہ جبرائیل تھا جو حضرت موسیٰ پر آیا تھا۔وہی آپ پراترا ہے۔اس سارے واقعہ کو غور سے پڑھئیے گا ۔ایک مرتبہ بھی رسول پاک ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ فرشتہ تھا یہ جبرائیل تھا جو مجھے ملا اوریہ اس نے جو بعض فقرے مجھے سنائے یہ وحی الٰہی ہے ۔کیونکہ فرشتے نے نہیں کہا کہ میں فرشتہ ہوں ۔اس نے یہ نہیں کہا کہ میں جبرائیل ہوں یہ بھی نہیں کہا کہ میں تجھ کو خدا کی وحی کے فقرات سنارہا ہوں۔اوران فقرات میں بھی نہیں ہے کہ خدا نے فرمایا ہوکہ میں تجھ پر وحی کر رہا ہوں۔میں تجھ کو اپنی وحی کی بات سنا رہا ہوں۔نہ ان آیات میں نبی کا رسول کا لفظ پایا جاتا ہے ۔نہ ان آیات میں آپ کو نبی یا رسول کے لفظ سے پکارا گیا ۔تو کیسے سمجھتے کہ مجھے خدا نے نبی بنایا ۔
ہاں اگر اس سے پہلے فرشتہ جبرائیل آپ پر نازل ہوتا رہتا تو آپ اپنے مشاہدات کی بناء پر کہتے کہ یہ فرشتہ تھا،یہ جبرائیل تھا۔اگر اس سے پہلے بھی آپ پر خدا کی وحی کا نزول ہوتا رہتا تو آپ کہتے اپنے تجربات کی بناء پر کہ یہ خدا کی وحی نازل ہوئی۔مگر چونکہ یہ پہلا تجربہ تھا آپ کو پتا نہیں تھا ۔اس لئے جو حضور نے فرمایا کہ آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ خدا کی طرف سے ہے ۔یہ بیان بالکل سو فیصد درست ہے اور معترض کا اعتراض حقائق کو چھپانے کے برابر ہے۔
مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبیہ الٰہیہ سے مخصوص اور قیامت تک مخصوص رہیں گے ۔لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔
اعتراض:۔
تیسرا اعتراض انہوں نے جھوٹ نمبر3کے عنوان کے تحت لکھا ہے ۔وہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کا حقیقۃالوحی صفحہ 290کا اقتباس درج کرتے ہیں کہ
”مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبیہ الٰہیہ سے مخصوص اور قیامت تک مخصوص رہیں گے ۔لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔“
(حقیقۃ الوحی۔ رخ جلد 22صفحہ406)
یہ اقتباس درج کر کے معترض لکھتا ہے ۔جھوٹ، جھوٹ لوگو جھوٹ۔مجددالف ثانی پر جھوٹ ۔انہوں نے اپنے مکتوبات میں محدث کا لفظ لکھا ہے نبی کا لفظ نہیں لکھا جس کو مرزا جی نے لفظ نبی کے ساتھ بدل کر جھوٹ بولا ۔
جواب:۔
حضرت مجدد الف ثانی کی کتاب مکتوبات تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس میں جگہ جگہ اس مضمون کا تذکرہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ساتھ،اس امت کے نیک افراد کے ساتھ مکالمہ ومخاطبہ کرتا ہے۔انہوں نے اپنے بارے میں بھی تذکرہ فرمایا۔حضرت محی الدین ابن عربی کااپنے مکتوبات میں تذکرہ فرمایا۔ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ فرمایا اور بہت سے اولیاء کا اپنے مکتوبات میں ذکر فرمایا۔
رہی یہ بات کہ کیا آپ نے وہ بات بھی لکھی ہے جس کا تذکرہ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے ۔واضح ہو کہ حضرت صاحب کا اقتباس اردو زبان میں ہے ۔مکتوبات فارسی زبان میں ہیں ۔اور جس بات کا ذکر حضرت صاحب نے کیا وہ مکتوبات امام ربّانی جلد اوّل صفحہ نمبر466پرہے۔جس میں وہی مضمون پایا جاتا ہے جو حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام نے اپنے حقیقۃ الوحی کے اردو کے اقتباس میں درج فرمایا۔
فارسی زبان میں ۔یہ مکتوب نمبر310ہے مولانا محمد ہاشم کے نام آپ نے تحریر فرمایا۔اس میں آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی بعض آیات محکمات ہوتی ہیں بعض آیات متشابہات ہوتی ہیں اور مضمون یہ بیان ہورہا ہے کہ جو قرآن کریم کی متشابہ آیات ہیں ان کی کیا حقیقت ہے ۔ان کا کیا مفہوم ہے۔وہ صرف خدا جانتا ہے یا ایسے افراد جو علم میں راسخین ہوتے ہیں ۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ جو علم میں راسخین ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ متشابہات ِ قرآنی کی صحیح حقیقت سمجھاتا ہے۔اسی مضمون کے دوران آپ فرماتے ہیں:۔
” برعلم غیب کہ مخصوص باوست“
چنانچہ غیب کا علم جو اللہ سبحانہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔”خُلَّص رسل را اطلاع می بخشد“۔
(مکتوبات ربّانی جلد اوّل صفحہ446 مطبع نول کشور)
علم غیب جو خدا ئے سبحانہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص رسولوں کو علم غیب سے اطلاع دیتا ہے۔
یہی وہ مضمون ہے جو حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی کے اس اقتباس میں بیان فرمایا۔ اردو زبان میں جسے معترض نے پیش کیا ہے۔
اسی عنوان کے نیچے اس نے اعتراض کا دوسرا حصہ یوں لکھا ہے۔ معترض لکھتا ہے۔”اللہ نے مرزا جی کی زبان سے سچی بات بھی کہلوادی ۔کہتے ہیں مندرجہ ذیل حوالہ پڑھیں اور مرزا جی کو فن دروغ گوئی کی داد دیں“آگے اقتباس لکھا ہے حضور کی کتاب ’ازالہ اوہام‘ کا ۔کہ حضرت مجدد الف ثانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی صفحہ99میں ایک مکتوب بنام محمد صدیق لکھتے ہیں۔جس کی عبارت یہ ہے۔آگے عربی عبارت معترض نے درج نہیں کی اس کا ترجمہ درج کر دیا ۔”یعنی اے دوست تمہیں معلوم ہے کہ اللہ جل شانہ کا بشر کے ساتھ کلام کرنا کبھی روبرو اور ہمکلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو خدا تعالیٰ کے ہمکلا م ہوتے ہیں وہ خواص انبیاء میں سے ہیں اور کبھی یہ ہمکلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتا ہے کہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف ہمکلامی پاتا ہے اس کو محدّث بولتے ہیں ۔“ (مکتوبات امام ربّانی جلد ثانی ص99مطبع نول کشور)یہ اقتباس درج کر کے کہتے ہیں کہ مکتوبات کے اصل اقتباس میں محدث کا لفظ تھا اور حضرت بانی جماعت احمدیہ نے از خود تحریف کر کے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہوئے محدث کی جگہ نبی کا لفظ لکھ دیا ۔
قارئین کرام! وہ معترض جو حضرت بانی جماعت احمدیہ پرجھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کا الزام لگا رہا ہے ۔حقیقتاً وہ خود جھوٹ بولنے اور الزام تراشی کا ارتکاب کررہا ہے۔ کیوں؟حقیقۃ الوحی میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ مکتوبات کی جلد اوّل میں ہے اور یہاں پر جو مضمون بیان کیا گیا ہے ازالہ اوہام میں وہ خود حضور نے درج فرمایا کہ مکتوبات کی جلد ثانی میں ہے اور ازالہ اوہام کا اقتباس جو مکتوب ہے وہ محمد صدیق کے نام لکھا گیا اور جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، جس کی طرف اشارہ حقیقة الوحی کی اردو عبارت میں کیا گیا وہ مولانا محمد ہاشم کے نام مکتوب ہے۔دونوں مکتوب جدا جدا ہیں ۔دونوں کا مقام اندراج مختلف جلدوں میں ہے۔ مگر معترض پبلک کو دھوکہ دینے کی خاطر خود جھوٹ بول کر حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ پر جھوٹ بولنے کا،دھوکہ دینے کا الزام لگارہا ہے۔
ہندوستان میں ایک نبی گذرا۔جو سیاہ رنگ کا تھا۔اس کا نام کاہن تھا یعنی کنہیا جس کو کرشن کہتے ہیں
اعتراض:۔
معترض نے اپنے اس مضمون کے صفحہ نمبر163پر جھوٹ نمبر4کے زیر عنوان ایک اعتراض یہ کیا ہے ۔لکھتا ہے۔
مرزا قادیانی نے ہندوستان کے کرشن کنہیا کو نبی ثابت کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ پر جھوٹ بولا کہ آپ نے فرمایا:۔
”کَانَ فِی الْہِنْدِ نَبِیاًّ اَسْوَدَ اللَّوْنِ اِسْمُہ کَاھِناً ۔“ہندوستان میں ایک نبی گذرا۔جو سیاہ رنگ کا تھا۔اس کا نام کاہن تھا یعنی کنہیا جس کو کرشن کہتے ہیں۔
(ضمیمہ چشمہ معرفت ص10جلد23صفحہ382)
یہ اقتباس درج کر کے معترض اعتراض یہ کرتا ہے۔ حدیث کی کسی کتاب میں ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ہے۔
جواب:۔
قارئین کرام! حقیقت کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام اس جگہ پر اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی مخالفین اسلام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔جسے داغدار ثابت کرنے کے لئے معترض اس پر اعتراض کررہا ہے۔
حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کا حال یہ ہے کہ ان کی کتابیں پڑھو ۔ان کے ماننے والوں کے خیالات سنو تو وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے صرف ہماری قوم میں ،صرف ہمارے وطن میں ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا اور کسی قوم کو اپنی ہدایت سے فیض یاب نہیں کیا۔ کسی قوم میں خدا تعالیٰ نے ہادی اور راہنما نہیں بھیجے۔گویا دنیا کی تمام قومیں جن کی خدا تعالیٰ نے جسمانی نشو ونما کا انتظام کیا ۔انہیں ہر قسم کی دنیاوی نعمت سے مالا مال کیا لیکن ان کی اخلاقی اور روحانی راہنمائی کے لئے کوئی انتظام نہ کیا۔یہ بات خدا تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کے خلاف ہے۔ ہر قوم کے اعتقاد کے مطابق گویاخدا نے صرف انہی کی قوم کو مخصوص کیا ہادی اور راہنما بھیجنے کے لئے۔باقی تمام قوموں کو چھوڑ دیا۔ حالانکہ خدا تعالیٰ سورة الفاتحہ میں فرماتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔(فاتحہ:2)قرآن اس خدا کو پیش کرتا ہے جو تمام جہانوں کی پرورش کرنے والا ہے۔تمام قوموں کی پرورش کرنے والا ہے۔خواہ جسمانی پرورش ہو خواہ روحانی پرورش ۔
چنانچہ قرآن پاک نے فرمایا۔
وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّاخَلَافِیْھَانَذِیْر۔ (فاطر:25)ہر قوم میں خدا کی طرف سے ڈرانے والاآیا۔
وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ۔(الحج:35)ہر قوم میں خدا کا ہادی آیا تھا۔
فرمایا وَلَقَدْ بَعَثْنَافِی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُوْلاً۔ہم نے ہر قوم میں اپنا رسول مبعوث فرمایا اور ہر رسول اپنی قوم کو یہ پیغام دینے آیا تھا کہ اَنِ اعْبُدُوَا اللّٰہَ ۔ اللہ کی عبادت کرو۔ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتِ ۔(النحل:37) اور شیطانی باتوں سے بچتے رہو۔ اس کے بعد کیا ہوا ۔بعد میں آنے والوں نے اپنے راہنماوٴں کی تعلیمات میں بگاڑ پیدا کر دیا۔کئی باتیں نکال دیں،کئی باتیں ان کی کتابوں میں داخل کر دیں۔ ان کی طرف نہایت نامناسب باتیں منسوب کردیں۔حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
قرآن کریم کاکمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص نہیں کرتا ۔ہر قوم کی راہنمائی کا اقرار کرتا ہے ۔ہر قوم کے آنے والے انبیاء اور ہادیوں کا احترام قائم کرتا ہے ۔بلکہ قرآن پاک فرماتا ہے کہ اس وقت تک کوئی مومن بن نہیں سکتا جب تک وہ ہر قوم میں آنے والے رسول کی سچائی پر ایمان نہ لائے۔
یہ ہے مضمون ،یہ ہے وہ پس منظر جس میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ۔جس پر معترض اعتراض کرتا ہے۔چنانچہ آپ نے حدیث بیان کی کہ کَانَ فِی الْہِنْدِ نَبِیًّا ۔ہندوستان میں ایک نبی تھا۔ اَسْوَدَ اللَّوْنِ۔جس کا رنگ کالا تھا ۔اِسْمُہ کَاھِناً ۔(تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف)اس کا نام کاہن تھا۔یہ کتاب ،یہ حدیث تاریخ ہمدان دیلمی کے باب الکاف میں موجود ہے ۔یہ اعتراض گذشتہ ایک صدی سے ہمارے مخالفین پیش کرتے چلے آرہے ہیں اور ہم اپنی ہر کتاب میں اس کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں۔لیکن چونکہ عوام کو اس حقیقت کی خبر نہیں ہوتی ۔وہ عوام کو گمراہ کرنے کے لئے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے یہ اعتراض بار بار تحریر اور تقریر میں بیان کرتے رہتے ہیں۔
تفاسیر کی کتب دیکھئے۔تفسیر کشاف میں،تفسیر مدارک التنزیل میں حضرت علیؓ کی حدیث ہے کہ حضرت علی فرماتے ہیں۔اِنَّ اللّٰہَ بَعَثَ نَبِیاًّ اَسْوَدَ۔(الکشاف جز ثالث زیر آیت غافر مطبوعہ دارالفکر)اللہ تعالیٰ نے کالے رنگ کا نبی مبعوث فرمایاتھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی کو کس طرح پتاچلا ،کیا قرآن پاک میں لکھا ہے؟قرآن پاک میں تو نہیں لکھا۔پھر دوسرا ذریعہ علم کیا ہے ؟ کہ انہوں نے حضرت محمد مصطفی ﷺ سے اس بات کو سناہو اور آگے امت کو پہنچایا ۔ چنانچہ علم اسماء الرجال کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ اور آئمہ اہل بیت اکثر اوقات جب کوئی حدیث نبوی بیان کرتے ہیں تو حدیث نبوی بیان کرتے ہوئے وہ حضرت رسول پاک ﷺ کانام بیان نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خاندان نبوت کے فرد ہیں۔ ہم اپنی طرف سے کوئی بات بیان نہیں کر رہے۔ہم جو بات بیان کر رہے ہیں وہ حضرت محمد مصطفے ﷺ کی زبان سے ہم نے سنی ہے۔
پس حوالہ موجود ہونے کے باوجود اعتراض کرنا معترض کی اپنی کم علمی کا ثبوت ہے ۔
خود آنحضرت ﷺبھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ درحقیقت ابن صیاد ہی دجال معہود ہے
اعتراض:۔
اس عنوان کے نیچے ازالہ اوہام صفحہ 242طبع اوّل کا ایک اقتباس درج کیا ہے ۔مگر اقتباس درج کر تے ہوئے ان سے بعض الفاظ آگے پیچھے ہوگئے ہیں جس سے مفہوم واضح نہیں ہوتا ۔ہم ان پر جھوٹ اور بددیانتی کا الزام نہیں لگاتے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ سہوًا اقتباس درج کرتے ہوئے الفاظ آگے پیچھے ہوگئے۔اس لئے اصل کتاب سے مکمل اقتباس درج کیا جاتا ہے ۔پھر ان کا اعتراض قارئین کے سامنے رکھا جائے گا۔
اقتباس یہ ہے حضورؑ فرماتے ہیں :۔
”احادیث صحیحہ مسلم وبخاری باتفاق ظاہر کر رہی ہیں کہ دراصل ابن صیاد ہی دجال معہود تھا اور حضرت عمرفاروق جیسے بزرگ صحابی روبرو آنحضرت ﷺ کے خدا تعالیٰ کی قسم کھا رہے ہیں کہ درحقیقت دجال معہود ابن صیاد ہی ہے اور خود آنحضرت ﷺبھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ درحقیقت ابن صیاد ہی دجال معہود ہے۔“
(ازالہ اوہام۔رخ جلد3صفحہ222)
اس اقتباس کو درج کر کے معترض یہ لکھتا ہے ”واہ رے مرزا جی کی راستبازی کہ نبی ﷺپر جھوٹ باندھا کہ آپ ﷺنے تصدیق کی کہ ابن صیاد دجال ہے۔کیا آپ حدیث میں سے آپ ﷺکی تصدیق دکھا سکتے ہیں؟“
جواب:۔
قارئین!پہلے اس مضمون کی حقیقت کو سمجھیں ۔یہ مضمون بیان کیا ہورہا ہے ۔پھر ان کے اعتراض کا جواب درج کیا جائے گا۔
حضرت رسول پاکﷺ نے دجال کے ظہور کی علامات بتائیں کہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا ۔اس کے ماتھے پر کافر لکھا ہوگا ۔اسے ہر مومن پڑھ لے گا خواہ وہ مومن پڑھا ہواہو خواہ ان پڑھ۔ وہ ایک گدھے پر سوار ہوگا جوبہت تیز رفتار سے چلے گا ۔مشرق ومغرب میں پھیل جائے گا جس طرح تیز ہوا کے نتیجے میں بادل اڑتا ہے اسی طرح وہ تیز رفتاری سے فضا میں اڑے گا ۔وہ جہاں سے گذرے گا زمین کے خزانے اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے ۔وہ جہاں چاہے گا بارش برسا دے گا۔وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا ۔وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا ۔جو اس کی خدائی کا دعویٰ قبول نہیں کرے گا اس کو ہلاک کر دے گا ۔وہ زندہ انسان کو قتل کر دے گا ،قتل کرنے کے بعد اس کو زندہ کر دے گا ۔یہ ساری باتیں بیان کی گئیں۔
(صحیح بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال، مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال، کنز العمال کتاب القیامہ باب الدجال ،مشکوٰة المصابیح کتاب الادب باب العلامات وذکر الدجال)
حضرت رسول پاک ﷺنے جو اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر دجال کی علامات بیان فرمائیں اس کے باوجود آپ نے مدینہ کے یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے بچے ابن صیاد کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ دجال معہود ہے۔اس کے پاس آپ گئے چند صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے ۔اس کی علامات کا مشاہدہ کیا ۔ان باتوں میں سے کوئی علامت بھی اس کے اندر موجود نہیں تھی ۔اس کے باوجود آپ نے بھی اس پہ دجال معہود ہونے کا شبہ کیا۔صحابہ نے بھی اس پہ دجال معہود ہونے کا شبہ کیا ۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺنے اپنے اس شبے سے ہمیں یہ سمجھایا کہ ضروری نہیں کہ دجال کی بیان کردہ علامات جو خدا نے مجھ پر آشکار فرمائیں یہ ظاہری طور پر پوری ہوں گی بلکہ تاویلی طور پر پوری ہو سکتی ہیں۔اسی لئے اس پر شک کا اظہار کیا گیا ورنہ اس پر تو دجال کی علامات ظاہراًپوری ہوتی ہی نہیں تھیں۔
اب دیکھئے معترض کہتا ہے کہ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہؑ نے حضرت رسول پاک ﷺپر جھوٹ باندھا کہ آپ نے تصدیق کی کہ یہ دجال معہود ہے ۔ایک حدیث قارئین کے سامنے رکھی جاتی ہے :
بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب من رأی ترک النکیر من النبیﷺ اور مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ذکر ابن صیاد میں یہ حدیث ہے۔محمد بن المنکدر بیان کرتے ہیں۔
رَأَیْتُ جَابِرَبْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَحْلِفُ بِاللّٰہِ اَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ ۔کہ میں نے صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ کو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے ۔میں بہت حیران ہوا کہ قسم تو بڑی یقینی بات میں کھائی جاتی ہے اور اتنے یقین کے ساتھ یہ صحابی رسول قسم کھا رہا ہے کہ ابن صیاد دجال ہے۔
فَقُلْتُ میں نے حضرت جابر سے عرض کی اَتَحْلِفُ بِاللّٰہِ ۔کیا آپ ابن صیاد کے دجال ہونے پر اتنے پر یقین ہیں کہ آپ اللہ کے نام کی قسم کھا رہے ہیں۔قَالَ حضرت جابر بن عبد اللہ نے بیان کیا اِنِّیْ سَمِعْتُ عُمَرَ ۔میں اکیلا ہی قسم نہیں کھا رہا میں نے حضرت عمر کو قسم کھاتے سنا تھا۔یَحْلِفُ عَلٰی ذَالِکَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہ آپ رسول خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سامنے اس بات پر اللہ کے نام کی قسم کھا رہے تھے کہ یارسول اللہ یہ ابن صیاد دجال ہے ۔محض شک کا اظہار نہیں کر رہے ۔ انسان معمولی بات پر قسم نہیں کھایا کرتا ۔پھر ایسا صحابی جس کو خدا نے آپ کی وفات کے بعد دوسرا خلیفہ مقرر فرمایا ۔جس کے بارے میں فرمایا کہ حق عمر کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔اس کی زبان سے اللہ کے نام کی قسم سن کر کہ ابن صیاد دجال ہے آپ نے حضرت عمر کو منع نہیں فرمایا ۔چنانچہ صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں ۔فَلَمْ یُنْکِرْہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔حضرت نبی پاک ﷺنے حضرت عمر کی زبان سے اللہ کے نام کی قسم کھا کر یہ بیان کہ اللہ کی قسم ابن صیاد دجال ہے ۔آپ کی قسم کا اور آپ کے خیال کا انکار نہیں کیا۔
قارئین! تصدیق کس کو کہتے ہیں علم حدیث کی اصطلاح میں ایک حدیث تقریری بیان کی جاتی ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے سامنے کوئی بات کی جائے ،کوئی کام کیا جائے اور آپ اس بات سے ،اس کام سے منع نہ فرمائیں تو گویا آپ نے اس بات کے صحیح ہونے کی اس کام کے صحیح ہونے کی تصدیق فرما دی ۔اس کانام علم حدیث کی اصطلاح میں حدیث تقریری ہوتا ہے تو حضرت رسول پاک ﷺ کے سامنے حضرت عمر کا اللہ کے نام کی قسم کھا کر بیان کرنا کہ ابن صیاد دجال ہے اورآپ کا انکار نہ کرناحدیث تقریری ہے۔ آپ کے عمل سے اس بات کی تصدیق ہے۔
صرف اتنی ہی بات نہیں ۔سنن ابوداوٴد کتاب ظہور امام مہدی باب ذکر ابن صیاداور بیہقی میں لکھا ہے کہ حضرت نافع جو ابن عمر کے غلام تھے وہ کہتے ہیں ۔کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُوْلُ ۔ حضرت عمر کے بیٹے عبد اللہ بن عمر کہا کرتے تھے وَاللّٰہِ اللہ کی قسم مَاأَشُکَُّّ مجھے اس امر میں ذرہ برابر شک نہیں اَنَّ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صَیَّادٍ کہ مسیح دجال ابن صیاد ہے۔
قارئین! حضرت عبد اللہ بن عمریہ ایک معاملے پر اللہ کی قسم کھا کے اس بات کااظہار کریں تو کس دلیل کی بنیاد پر۔ اگر وہ سمجھتے کہ حضرت رسول پاک ﷺنے اس امر کی تصدیق نہیں فرمائی تو کیا وہ بے بنیاد خیال کی بناء پراللہ کی قسم کھا رہے ہیں۔
مشکوٰة شریف کتاب الفتن باب قصۃابن صیادمیں شرح السنۃکے حوالے سے صحابی کا قول لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
لَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مُشْفِقًا۔ حضرت رسول پاک ﷺہمیشہ اس بات سے ڈرتے رہے اِنَّہ ھُوَالدَّجَّالُ ۔ کہ ابن صیاد دجال ہے۔اگر رسول پاک ﷺنے اپنے قول سے اپنے فعل سے ابن صیاد کے دجال ہونے کا اظہار نہیں فرمایا تو صحابی کس بنیاد پر کہہ رہا ہے ۔ یقینا انہوں نے آپ کی زبان سے سنا آپ کے عمل سے اس امر کا مشاہدہ کیا ۔صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعہ باب ذکر الدجال میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور ابن صیاد مدینہ سے مکہ کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ابن صیاد نے دوران سفر میرے پاس اس بات کا گلہ کیا ۔ وہ کہنے لگا لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ میں دجال ہوں ۔لوگوں کی یہ باتیں سن کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
قارئین!یہ صحابہ کے دور میں کون لوگ کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے ۔جن کی باتیں سن کر ابن صیاد کو تکلیف ہوتی تھی۔وہ دور تو صحابہ کا تھا اور صحابہ کس بنیاد پر کہتے تھے اگر انہوں نے اپنے محبوب رسول مقبول ﷺکی زبان سے اس بات کو سنا نہیں تھا ۔ چنانچہ ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں ۔ابن صیاد کہنے لگا کہ دیکھو کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول پاک فرماتے تھے دجال بے اولاد ہوگا اور میں صاحب اولاد ہوں۔اے ابو سعید! تم نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ دجال کافر ہوگا اور میں تو مسلمان ہو چکا ہوں ۔کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول پاک ﷺنے فرمایا تھا کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا باقی ساری دنیا پر اس کا غلبہ ہوگا ۔ ساری دنیا پہ چھا جائے گا اور میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کوجارہا ہوں۔حضرت ابو سعید خدری دوران سفر اس کی کسی بات کا انکار نہیں کرتے گویا اس کے بیان کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ اس کو دجال کہا کرتے ہیں ۔یہ واقعہ بیان کر کے ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں فَلَبَّسَنِیْ اس نے یہ گلہ شکوہ کر کے اور یہ باتیں بیان کر کے مجھے شبے میں ڈال دیا ۔بھئی اگر ابو سعید خدری ابن صیاد کو دجال سمجھتے ہی نہیں تھے تو شبہ کیسے پڑ گیا۔
میں نے کوئی ایسے اجنبی معنے نہیں کئے جو مخالف ان معنوں کے ہوں جن پر صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کا اجماع ہو۔ اکثر صحابہ مسیح کا فوت ہوجانا مانتے رہے۔
اعتراض:۔
جھوٹ نمبر6کے عنوان کے تحت معترض نے ازالہ اوہام کا ایک اقتباس درج کیا ہے۔
ازالہ اوہام کا صفحہ نمبر301طبع اوّل کا ہے وہ اقتباس یہ ہے کہ۔
میں نے کوئی ایسے اجنبی معنے نہیں کئے جو مخالف ان معنوں کے ہوں جن پر صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کا اجماع ہو۔ اکثر صحابہ مسیح کا فوت ہوجانا مانتے رہے۔
(ازالہ اوہام۔ جلد 3صفحہ254)
یہ اقتباس درج کر کے انہوں نے اعتراض کیا ۔کہتے ہیں مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ وفات مسیح پر اجماع امت ہے غلط ہے ۔
جواب:۔
قارئین!اس اقتباس میں تو یہ فقرہ کہا ہی نہیں گیا کہ پوری امت کا وفات مسیح پر اجماع ہے تو اعتراض کیسا ۔ معترض یہ فقرہ کہہ کر اپنے قارئین کو دھوکہ دے رہا ہے ۔حضرت صاحب توصرف یہ فرماتے ہیں کہ میں نے جو کہا کہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اور فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کی آیات میں مسیح کی توفی کا معنی موت ہے ۔تو توفی کا معنی موت کرنا ۔نہ میں نے اجماع صحابہ کے خلاف بات کی نہ تابعین کے اجماع کے خلاف بات کی نہ تبع تابعین کے خلاف بات کی ۔تو اعتراض کس بات پر ہے۔
چنانچہ دیکھیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری لکھی ۔اس کے مختلف حصوں کانام انہوں نے کتاب لکھا ۔ کتاب الصوم،کتاب الزکوٰة،کتاب الحج ،کتاب الفتن،کتاب التفسیر،کتاب المناقب۔جس حدیث کو وہ کتاب الزکوٰة میں درج کرتے ہیں ۔اس حدیث کا کتاب الزکوٰة میں درج کرنا اس بات کا پیغام ہوتا ہے کہ اس حدیث میں زکوٰة کا مسئلہ بیان ہوا ہے ۔جس حدیث کو وہ کتاب الحج میں درج کرتے ہیں اس حدیث کا کتاب الحج میں درج کرنا اس بات کا پیغام ہوتا ہے کہ اس حدیث میں کوئی حج کا مسئلہ بیان ہوا ہے ۔جس حدیث کو وہ کتاب التفسیر میں درج کرتے ہیں وہ اس بات کا پیغام ہوتا ہے کہ اس حدیث میں کسی آیت کی تفسیر بیان ہوئی ہے۔اس تمہیدی بات کو ذہن نشین رکھیں ۔
قارئین کرام ! ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں جوامام بخاری نے کتاب التفسیر باب تفسیر سورہ مائدہ میں لکھی ۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کا دن ہوگا ۔میں حوض کوثر پہ کھڑا ہوں گا ۔میں دیکھوں گا کہ میرے صحابہ میں سے چند افراد کو چند فرشتے گھسیٹ کر دوزخ کی طرف لے جا رہے ہیں ۔میں انہیں کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابہ تھے۔ یہ تو جنت کے حقدار ہیں تم انہیں دوزخ کی طرف لے جا رہے ہو۔تو میری یہ بات سن کر فرشتے مجھے جواب دیں گے ۔اِنکَّ لَاتَدْرِیْ اے نبی تو نہیں جانتا مَااَحْدَثُوْابَعْدَکَ انہوں نے تیرے بعد کیا کیا غلط کام کئے تھے اِنَّھُمْ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی اَعْقَابِھِمْ مُنْذُ فَارَقْتَھُمْ جب تو ان سے فوت ہوکر جدا ہوا تھا یہ مرتد ہو گئے تھے ۔یہ تیری تعلیمات سے انحراف کر چکے تھے تو ان کو صحابی ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ تیری وفات کے بعد تیرے دین سے انحراف کرنے کی بناء پر ہم دوزخ کی طرف لے جارہے ہیں۔حضرت رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں جب فرشتے مجھے یہ بتائیں گے فَاَقُوْلُ کَمَاقَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ تو جس طرح خدا کے نیک بندے عیسیٰ ابن مریم نے کہا تھا اسی طرح میں بھی عرض کروں گا کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَھِیْداً مَّادُمْتُ فَیْھِمْ اے اللہ جب تک میں ان کے اندر موجود رہا میں ان کے راہ راست پر گامزن ہونے کا گواہ ہوں فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ جب تو نے مجھے وفات دے دی کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ تو میری وفات کے بعدصرف تونے ان کے حالات دیکھے میں نے ان کے حالات نہیں دیکھے ۔ یہ حدیث درج ہوئی کتاب التفسیر میں سورة مائدہ کی تفسیر میں ۔گویا اس حدیث پاک میں اس آیت کریمہ کی تفسیر رسول بیان ہوئی ہے۔
اس جواب پر غور فرمائیں کہ حضرت رسول پاک ﷺکیا مضمون بیان فرما رہے ہیں آیت کریمہ کا ۔آپ فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ پتہ چلے گا کہ میرے صحابہ میں سے چند افراد میری وفات کے بعد گمراہ ہوئے تو میں اس پر حضرت عیسیٰ کا جواب سناوٴں گا گویا میرے صحابہ میں سے بعض افراد کی گمراہی اور عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بعض افراد کی گمراہی باہم مشابہہ ہے۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت عیسیٰؑ کی قوم کے افراد حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی میں گمراہ ہوئے تھے تو پھر اس آیت کا صحابہ کی گمراہی آپ کی وفات کے بعد پیش کرنا آپس میں باہم مطابقت نہیں رکھتاتو آپ نے اس جواب کو اپنے صحابہ میں سے بعض افراد کی گمراہی پہ چسپاں کر کے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ جس طرح میرے صحابہ میں سے بعض افراد میری وفات کے بعد انحراف کر گئے تھے اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑکی قوم کے بعض افراد ان کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے۔
اب ایک اور بات پر غور فرمائیے گا گویا یہ تفسیر رسول ہے کہ جس طرح میری قوم کے بعض افراد میری وفات کے بعد مرتد ہوئے اسی طرح عیسیٰ کی قوم کے افراد ان کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے ۔یہ حدیث درج کر کے آگے حضرت امام بخاری صحابی رسول حضرت ابن عباس کا قول درج کرتے ہیں کہ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ (بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر سورة مائدہ آیت118 وتفسیر طبری زیر آیت آل عمران 56)کہ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ یہ جو خدا نے حضرت عیسیٰؑ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عیسیٰؑ میں تیری تَوَفِّیْ کروں گا اس کا مطلب یہ ہے کہ مُمِیْتُکَ میں تجھ پہ موت وارد کروں گا ۔شارحین کہتے ہیں کہ باب سورة مائدہ کی تفسیر کا ہے ۔حدیث رسول تو وہ درج فرمائی جو سورة مائدہ کی آیت کے بارے میں تھی اور صحابی رسول کا قول سورة مائدہ کی آیت کی بجائے سورة آل عمران کی آیت 566کی بابت ذکر کیا ۔کیا وجہ ہے؟تو شارحین کہتے ہیں یہ بتانے کے لئے کہ جس طرح اس حدیث رسول میں حضرت رسول پاک کے بیان سے مسیح کے لئے تَوَفَّیْتَنِیْ کا معنی موت ثابت ہوتا ہے یہی ترجمہ صحابی رسول نےمُتَوَفِّیْکَ کی آیت میں کیا ہے تو اگر مسیح کے لئے مُتَوَفِّیْک کی آیت میں بقول صحابی کے اس کا معنی موت ہے تو سورة مائدہ کی فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کی آیت میں بھی مسیح کے لئے تَوَفِّیْ کا معنی موت ہوگا ۔
صحیح بخاری پڑھ جائیں ۔دنیا کی تمام حدیثوں کی کتابیں پڑھ جائیں ۔دنیا کی تمام تفاسیر کی کتابیں پڑھ جائیں ۔ کسی حدیث کی کتاب میں کسی تفسیر کی کتاب میں مسیح کے لئے توفی کے لفظ کی ابن عباس کے اس قول کے سوا کسی صحابی کا اور کوئی قول درج نہیں ۔اگر کسی صحابی نے مسیح کی تَوَفِّی کا معنی موت کے سوا کوئی اور کیا ہو تا تو کوئی محدث ،کوئی مفسر تو اسے اپنی کتاب میں درج کرتا۔گویا تمام صحابہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مسیح کی تَوَفِّی کا جومعنی ابن عباس نے کیا ہے ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔گویا حدیث رسول نے بھی بتایا کہ مسیح کی توفی کامعنی موت ہے۔اجماع صحابہ نے بتایا کہ مسیح کی تَوَفِّی کا معنیٰ موت ہے ۔یہ مضمون حضور بیان فرمارہے ہیں۔
آگے انہوں نے اعتراض یہ کیا کہ مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ وفات مسیح پر اجماع امت ہے۔ غلط ہے۔حالانکہ یہ حضور نے یہاں پر بیان ہی نہیں فرمایا۔حضور نے تو یہ بیان فرمایا کہ صحابہ،تابعین اور تبع تابعین نے مسیح کی تَوَفِّی کے معنے موت کے سوا نہیں کئے۔ آگے لکھتے ہیں ۔حالانکہ آپ کا فرمان ہے اِنَّ عِیْسیٰ لَمْ یَمُتْ وَاِنَّہ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۔درّ منثور
درّ منثور کے حوالے سے معترض یہ فقرہ درج کرتا ہے کہ حضرت رسول پاک نے فرمایا کہ عیسی فوت نہیں ہوا ۔آپ نے یہود کو مخاطب کر کے فرمایا کہ عیسیٰ فوت نہیں ہوا اور یوم قیامت سے پہلے اے یہودیو !عیسیٰ تمہارے پاس واپس پلٹے گا۔ کہتے ہیں جناب اس کی بناء پر پوری امت حیات مسیح کی قائل ہے آئیے دیکھیں تفسیر درّ منثور میں کیا لکھا ہے ۔اس میں اِذْ قَالَ اللّٰہُ یَاعِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی آیت کے نیچے لکھا ہے اَخْرَجَ ابْنُ جَرِیْرٍ وَابْنُ اَبِیْ حَاتَمٍ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ ۔عَنِ الْحَسَنِ فِیْ قَوْلِہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ یَعْنِیْ وَفَاةَ الْمَنَامِ رَفَعَہُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِہ قَالَ الْحَسَنُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِلْیَہُوْدِ اِنَّ عِیْسیٰ لَمْ یَمُتْ وَاِنَّہ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةَ۔(تفسیر در منثور زیر آیت آل عمران 56)
کہ حسن بصری کا یہ قول کہ رسول پاک ﷺنے فرمایا یہود کو مخاطب کر کے کہ عیسیٰ فوت نہیں ہوا اور قیامت سے پہلے تمہارے پاس واپس آئے گا ۔کہتے ہیں کہ ابن جریر نے درج کیا ۔درمنثور میں اس کی سند موجود نہیں۔ آئیے دیکھیں تفسیر ابن جریر والا کیا کہتا ہے۔ یہ تفسیر ابن جریر میں ۔یَاعِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی آیت کے نیچے یہی قول درج ہے اور آگے سند لکھی ہے۔کہتے ہیں حَدَّثَنِیْ الْمُثَنّٰی قَالَ حَدَّثَنَااِسْحٰقُ قَالَ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ اَبِیْ جَعْفَرَ عَنْ اَبِیْہِ عَنِ الرَّبِیْعِ فِیْ قَوْلِہ اس میں دوسرا راوی ہے حَدَّثَنَااِسْحٰق ۔(تفسیر ابن جریر زیر آیت یَاعِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْک وَرَفِعُکَ آل عمران:56)اس کو اسماء الرجال کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔اگلا راوی ہے حَدَّثَنَاعَبْدُ اللّٰہ ِابْنُ اَبِیْ جَعْفَرَ اس کے متعلق بھی اسماء الرجال کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ ضعیف ہے عَنْ اَبِیْہِ اس نے اپنے باپ سے روایت کی جو ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان ہے ۔اس کے بارے میں بھی لکھا ہے اسماء الرجال کی کتابوں میں کہ یہ بھی ضعیف ہے ۔عَنِ الرَّبِیْعِ ربیع بن انس آخری راوی ہے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ راوی ضعیف ہے سند کے اعتبار سے ۔اس سند میں چار راوی ضعیف ہیں تو کیا چار ضعیف راویوں کی بناء پہ قرآن کریم کی آیت اس کی تفسیر نبوی جو بخاری شریف میں درج ہوئی اور تفسیر صحابہ کے خلاف اس قول کو حدیث رسول تسلیم کر لیا جائے ۔یہ تو تھی سند کی حالت ۔آگے دیکھیں دوسری بات کیا ہے قَالَ الْحَسَنُحسن بصری کہتے ہیں قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِلْیَہُوْدِ کسی صحابی کا نام نہیں کہ میں نے کسی صحابی سے سنا ۔بھئی حسن بصری تو صحابی نہیں حسن بصری تو تابعی ہیں۔کس صحابی سے سنا ۔علم حدیث کی اصطلاح میں جب کوئی تابعی صحابی کانام نہ لے اور براہ راست کہے کہ رسول پاک ﷺنے یوں فرمایا ۔اسے کہتے ہیں کہ یہ مرسل روایت ہے ۔ اسماء الرجال کی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھا ہے مَااَرْسَلَ فَلَیْسَ بِحُجَّةٍ ۔حسن بصری جب کسی صحابی کا نام لئے بغیر رسول پاک ﷺکی طرف حدیث منسوب کر کے بیان کرے تو وہ حجت ہی نہیں ہوتی ۔امام احمد بن حنبل کا قول لکھا ہے کہ جو حسن بصری کی مرسل روایات ہیں ان سے زیادہ ضعیف ترین روایت ہوتی کوئی نہیں ۔یہ تو اس روایت کی حقیقت ہے ۔اب آئیے دیکھیں اس پر اور کیا اعتراضات ہیں ۔وہ اس قول کو جو ضعیف ترین ہے درج کر کے ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ مسیح زندہ ہے ۔ارے بھئی امت کا اجماع کیسے ہوگیا۔ زندہ ہے۔دیکھیں رسول پاک ﷺوفات پاگئے بعض صحابہ کے دل میں خیال آیا کہ رسول پاک ﷺفوت نہیں ہوئے آپ زندہ ہیں۔آپ کی روح عارضی طور پر آسمانوں پر گئی آپ واپس آئیں گے ۔ منافقین کا قلع قمع کریں گے پھر آپ کی وفات ہوگی۔ان میں حضرت عمرؓ بڑے جوش کے ساتھ اس خیال کی ترجمانی کررہے تھے اور تلوار لے کر مسجد نبوی میں گھوم رہے تھے کہ جس نے یہ کہا کہ رسول پاک ﷺفوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑادوں گا ۔آپ کبھی فوت نہیں ہوں گے جب تک آپ منافقین کا قلع قمع نہیں کریں گے ۔آپ کی روح عارضی طور پر آسمانوں پر گئی ہے ۔بعض روایات میں لکھا ہے وہ حضرت موسیٰ کی مثال پیش کرتے تھے ۔جس طرح حضرت موسیٰ کوہ طور پر گئے اور واپس آئے تھے اسی طرح رسول پاک ﷺ عارضی طور پر گئے اور واپس آئیں گے ۔علامہ شہرستانی کی کتاب الملل والنحل جلد اوّل باب المقدمة الرابعةص22میں لکھا ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ کی مثال پیش کرتے تھے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ چلے گئے اور واپس آئیں گے اسی طرح رسول پاک ﷺگئے ہیں اور واپس آئیں گے پھر آپ کی وفات ہوگی۔جب آپ منافقین کا قلع قمع کریں گے ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں پر موجود نہیں تھے وہ باہر سے واپس آرہے تھے ۔بڑا خطرناک فتنہ پیدا ہونے کا امکان تھا۔ایک صحابی تیز تیز بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کو رستے میں ملے۔ انہوں نے عرض کی کہ رسول پاک ﷺفوت ہوگئے ہیں اور فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہے اور حضرت عمر بڑے جوش کے ساتھ تلوار سونتے ہوئے گھوم رہے ہیں۔حضرت ابوبکر ؓسیدھے حضرت عائشہ کے کمرے میں گئے جہاں رسول پاک ﷺ کی نعش مبارک پڑی تھی ۔آپ نے چہرے سے پردہ اٹھایا اور دیکھا آپ واقعی وفات پا چکے ہیں۔ آپ کا ماتھا چوما اور عرض کی اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا ۔جس طرح بعض صحابہ جن کے خیال کی ترجمانی حضرت عمر کر رہے ہیں کہ آپ گئے ہیں یہ عارضی ہے واپس آئیں گے ۔منافقین کا قلع قمع کریں گے پھر آپ کی وفات ہوگی مستقل طور پر۔ آپ ؓنے آپ کے چہرے پر چادر دوبارہ اڑا دی ۔مسجد میں گئے اور فرمایا عمر بیٹھ جاوٴ ۔وہ بڑے جوش میں تھے نہیں بیٹھے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمر کے اس خیال کی تردید میں کہ رسول پاک ﷺ کی روح عارضی طور پرگئی ہے آپ واپس دوبارہ دنیا میں آئیں گے منافقین کا قلع قمع کریں گے ۔پھر آپ کی مستقل وفات ہوگی ۔اس خیال کی تردید میں آپؓ نے آیت پڑھی ۔آیت سے پہلے چند تمہیدی جملے کہے ۔آپؓ نے کہا اے لوگو! تم میں سے جو شخص محمد مصطفی ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ وہ تو فوت ہوگئے اور جو خدا کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے وہ کبھی فوت نہیں ہوگا ۔اب یہ بات حضرت عمرؓ کے خیال کے خلاف تھی ۔نیز ان صحابہ کے خیال کے خلاف تھی جن کے خیالات کی ترجمانی حضرت عمرؓ کر رہے تھے ۔حضرت عمرؓ کے اس خیال کی تردید میں آپ ؓنے قرآن پاک کی آیت پڑھیوَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ کہ محمد مصطفی ﷺ تو صرف اللہ کے رسول ہیں قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلْ آپ سے پہلے سارے کے سارے انبیاء فوت ہوگئے ان میں سے ایک بھی رسول واپس نہیں آئے گا اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ اگر رسول پاک ﷺفوت ہوجائیں یا شھید ہوجائیں تو کیا تم دین سے انحراف کرلو گے ۔اگر حضرت عمرؓ یا کوئی اور صحابی یہ آیت سن کر بھی یہ سمجھتاکہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں وہ دوبارہ آئیں گے تو کہتا کہ جناب کیا بات کر رہے ہیں اگر حضرت عیسیٰ زندہ ہونے کے باوجود دوبارہ دنیا میں آسکتے ہیں تو ہمارا حبیب جس کی شریعت قیامت تک رہے گی ۔جس کی امت قیامت تک رہے گی ۔جس کی ہمیں سب سے بڑھ کر ضرورت ہے وہ کیوں نہیں آسکتا ۔تو تمام صحابہ کا خاموش رہنا یہ بتاتا ہے کہ اگر کسی صحابی کے دل میں پہلے یہ خیال تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں ۔وہ آئیں گے تو حضرت ابوبکر کی زبان سے یہ آیت قرآنی سن کر اس خیال کو انہوں نے چھوڑ دیا ۔(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی)
یہ ہے سب سے پہلاصحابہ کا اجماع ۔ امام مالک کا قول تفسیر ابن عطیةجلداوّل اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی آیت کے نیچے لکھا ہے کہ امام مالک کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ابن حزم اپنی کتاب المحلّٰی جز اوّل ص23 ادارة الطباعة المنیریہ مطبع البھضتہ مصرمیں کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ۔ ابن قیّم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے۔(مدارج السالکین جز ثانی ص356 داراحیاء بیروت)ابن عربی کہتے ہیں کہ وَجَبَ نُزُوْلِہ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِہ ِ َببَدَنٍ آخِرٍ (تفسیر القرآن الکریم ص3 لابن عربی جلد اوّل دارالاندلس بیروت)آخری زمانے میں عیسیٰ کا نزول ہوگا مگر اس جسم کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور جسم کے ساتھ یعنی مثالی رنگ میں آئے گا۔
ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا ۔
” جھوٹ نمبر7“اس عنوان کے نیچے معترض نے ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر21صفحہ 359سے چند فقرات درج کئے ہیں۔ وہ فقرات یہ ہیں کہ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں۔
”ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا ۔سو یہ تمام علامات بھی اس زمانے میں پوری ہوگئیں۔“
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔جلد نمبر21صفحہ359)
یہ اقتباس درج کر کے مضمون نگار لکھتے ہیں۔”قادیانیو! ایک حدیث پیش کر دیں جس میں آنحضرت نے چودھویں صدی کا ذکر فرمایا ہو۔یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں “
جواب:۔
انہوں نے اپنے اس اعتراض میں مسیح موعود کے صدی کے سر پر ہونے اور اس کے مجدد ہونے کے جملے پر اعتراض نہیں کیا صرف چودھویں صدی کے الفاظ پر معترض کو اعتراض ہے ۔ناظرین! اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن پاک اور احادیث میں چودھویں صدی کا لفظ موجود نہیں مگر یہ کہنا کہ قرآن پاک اور احادیث میں چودھویں صدی میں اس کے ظاہر ہونے کا تذکرہ نہیں یہ بات صریحاً باطل ہے۔
چنانچہ یہی اقتباس جو معترض نے صفحہ 359سے پیش کیا ہے اس کا سیاق وسباق یہ ہے کہ359,358اور اس کے بعد حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ یہی مضمون بیان فرما رہے ہیں اور اس کا خلاصہ اس فقرے میں ہے جو فقرہ معترض نے اعتراض کی خاطر اپنے مضمون میں درج کیا ۔
بات یہ ہے حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ اس فقرے کے سیاق وسباق میں یہ تحریر فرما رہے ہیں کہ قرآن پاک اور احادیث میں جو پیشگوئیاں بیان کی گئیں مسیح موعود کے ظہور کے زمانے کی ۔وہ پیشگوئیاں اور علامات پوری ہو چکی ہیں۔ ان پیشگوئیوں نے اور ظہور مسیح کے زمانے کی علامات نے پورا ہوکر ہمارے سامنے یہ نتیجہ پیش فرمایا کہ چودھویں صدی کا زمانہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ چند مثالیں بانیٴ جماعت احمدیہ نے اس فقرہ کے سیاق وسباق میں درج کی ہیں ان کا ذکر کرنے سے پہلے مشکوٰة کے حوالے سے ایک حدیث نبوی درج کرنامناسب ہے ۔یہ مرقاة شرح مشکوٰة کی آٹھویں جلد میں کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ کی فصل ثالث کی پہلی حدیث یہ ہے جس کا نمبر 5460ہے۔
عَنْ اَبِیْ قَتَادَةَ حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ رسول پاک ﷺنے فرمایا ۔اَلْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ۔قیامت کی بڑی بڑی علامات دوسوسال کے بعد ظہور پذیر ہوں گی ۔وہ قیامت کی علامات کبریٰ کون سی ہیں ۔اس کی تشریح میں نیچے حضرت ملا علی قاری ؒ مرقاة المفاتیح کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ الفصل الثالث حاشیہ میں بیان کرتے ہیں۔ اَیْ یعنی آیَاتُ السَّاعَةِ وَعَلَامَاتُ الْقِیَامَةِ کہ قیامت کی نشانیاں تَظْھَرُ بِاِعْتِبَارِ اِبْتِدَائِھَا ظُھُوْراً کَامِلًا کہ قیامت کی نشانیاں یوں تو ابتداء سے ظہور پذیر ہورہی ہیں ۔مگر ظہور کے اعتبار سے جب کامل ظہور ہوگا وہ کب ہوگا ۔بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ دوسو سال کے بعد۔ کیونکہ چھوٹی چھوٹی علامات تو ابتداء سے ہی ظاہر ہورہی تھیں اس لئے وہ بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث پاک میں قیامت کی نشانیوں سے مراد قیامت کی علامات کبریٰ ہیں کہ وہ دو سو سال کے بعد آئیں گی ۔آگے لکھتے ہیں علماء نے دوسو سال کی کیا تشریح کی۔ کہتے ہیں اَیْ مِنَ الْھِجْرَةِ کہ ہجرت سے دوسو سال بعداَوْمِنْ دَوْلَۃِ الْاِسْلَامِ یا اسلامی حکومت قائم ہونے سے دوسو سال بعد اَوْمِنْ وَفَاتِہ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ یا رسول پاک ﷺ کی وفات کے دو سو سال بعد ۔
صاحبو!یہ تینوں تشریحات درست نہیں کیونکہ یہ ابتداء کا زمانہ ۔وہ تو خیر القرون کا زمانہ رسول پاک ﷺنے بیان فرمایا وہ قیامت کی علامات کبریٰ کا زمانہ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ قیامت کی علامات کبریٰ وہ تو دنیا کے آخری زمانے میں آئیں گی جو قرب قیامت کا زمانہ ہوگا ۔اس لئے آگے ملا علی قاری رحمۃاللہ علیہ بیان فرماتے ہیں وَیَحْتَمِلُ ممکن ہے کہ اَنْ یَّکُوْنَ الَّامَ فِی الْمِائَتَیْنِ لِلْعَھْدِ کہ اَلْمِائَتَیْنِ میں جو لام ہے یہ عھدکا ہے اَیْ بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ بَعْدَ الْاَلْفِ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ہزار سال کا زمانہ گزرنے کے بعد جو دو صدیاں گزریں گی ان کے بعدقیامت کی علامات کبریٰ کا ظہور ہوگا یعنی بارھویں صدی کے بعد تیرھویں صدی میں ۔اگلا جملہ غور کے قابل ہے۔ فرماتے ہیں وَھُوَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْمَھْدَیِّ بارھویں صدی ہجری کے گزرنے کے بعد جو زمانہ ہوگا یعنی تیرھویں صدی ہجری کا زمانہ ھُوَوَقْتُ ظُھُوْرِالْمَھْدِیِّ وہ ظہورمہدی کا وقت ہے کیونکہ ظہور مہدی قیامت کی علامات کبریٰ میں بیان کیا گیا ۔وَخُرُوْجُ الدَّجَّالِ اور دجال کا خروج وہ تیرھویں صدی میں ہوگاوَنُزُوْلِ عِیْسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامِ اور نزول عیسیٰ تیرھویں صدی میں ہوگا وَتَتَابُعُ الْاٰیَاتِ اور قیامت کی بڑی بڑی نشانیوں کا یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہونا وہ تیرھویں صدی میں ہوگا۔ کہتے ہیں جیسے مِنْ طُلُوْعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا ۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وَخُرُوْجِ دَابَةِالْاَرْضِ اور دَابَۃ الْاَرْضِ کا ظاہر ہونا وَظُہُوْرِ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ وَاَمْثَالِھَا اور یاجوج ماجوج اور اس جیسی دیگر اشیاء کا ظہور ہونا ۔تو صاحبو!آج سے سینکڑوں سال پہلے علماء اس بات کو تسلیم کر چکے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کی اس پیشگوئی کے مطابق قیامت کی علامات کبریٰ جن میں ظہور یاجوج ماجوج،خروج دجال،ظہور مہدی،نزول عیسیٰ ۔یہ تیرھویں صدی میں ہوگا ۔
یہی بات حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ بیان فرما رہے ہیں ۔چنانچہ صاحبو! اس بات پر غور فرمائیں حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ 14/شوال 1250ہجری کو پیدا ہوئے جو تیرھویں صدی کا عین وسط ہے۔ 1290ہجری میں آپ ؑنے اس بات کا دعویٰ فرمایا کہ مجھ سے خدا ہمکلام ہوتا ہے۔مجھے خدا تعالیٰ نے دین اسلام کی تجدید کے لئے مامور فرمایا ہے اور1326ہجری میں یعنی چودھویں صدی کے چھبیسویں سال آپؑ کا وصال ہوا۔ یہی مضمون مشکوٰة کی اردو زبان میں شرح ” مظاہر حق“ کی جلد پنجم میں ہے ۔وہ لکھتے ہیں حضور ﷺ کے فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ جن چیزوں اور جن باتوں کو قیامت کی علامتیں اور نشانیاں قرار دیا گیا ہے ان کا ظاہر ہونا اور پیش آنا پورے دو سو برس کے بعدسے شروع ہوجائے گا ۔ رہی یہ بات کہ یہ دو سو برس کس وقت سے مراد تھے۔ہجرت نبوی کے وقت سے یا اسلام کی روشنی کے ظہور کے وقت سے یا وفات نبوی ﷺکے وقت سے دوسو برس کی مدت مراد تھی اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ لفظ اَلْمِائَتَیْنِ پر حرف لام عہد کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کی علامتیں دو سوبرس کی اس مدت کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوں گی جس کی ابتداء ہزار سال کے بعد سے ہوگی ۔مزید وضاحت کے لئے یوں کہا جا سکتا ہے کہ دو سو برس سے گویا بارہ سو برس مراد ہیں اور یہ وہ زمانہ ہوگا جب قیامت کی چھوٹی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہوں گی۔اور بڑی نشانیاں ۔جیسے حضرت مہدی کے ظہور ،حضرت عیسیٰ کے نزول ،دجال کے نکلنے اور دوسری پے درپے علامتوں کے ظاہر ہونے یعنی سورج کے مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہونے،دابۃ الارض کے نکلنے اور یاجوج ماجوج کے ظاہر ہونے وغیرہ وغیرہ کا وقت قریب تر آجائے گا اور اہل علم محسوس کرنے لگیں گے کہ دنیا اپنی عمر کی آخری حدوں کو پہنچ گئی ہے۔
صاحبو! قرآن پاک نے اس بات کا تذکرہ خلاصۃً فرمایا ۔سورہ السجدہ آیت نمبر6میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُدَبِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ۔اللہ تعالیٰ اپنے حکم کو آسمان سے زمین پرقائم کرتا چلاجائے گاثُمَّ پھر۔یہ پھر کا لفظ کیا بتاتا ہے ۔پہلا کام ختم دوسرا شروع ہوگا ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ پھر وہی حکم جو زمین پر قائم ہوتا چلا جارہا تھا یہ خدا کی طرف چڑھ جائے گافرمایا کتنا عرصہ چڑھا رہے گا ۔کتنا زمانہ۔اس کی مقدار انسانی گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ایک ہزار سال سے زیادہ حکم شریعت آسمان پر نہیں چڑھے گا اس آیت نے تاریخ اسلام کے تین دور بیان کئے ۔
فرمایا اسلام کی ترقی کا زمانہ اس کے بعد ایک ہزار سال کمزوری کا زمانہ اور ایک ہزار سال کمزوری کا زمانہ گزرنے کے بعد کمزوری نہیں۔تو جب کمزوری نہیں تو کیا ہوگاترقی کا زمانہ ۔تمام امت مسلمہ اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ کمزوری کے بعد اسلام کی دوبارہ شوکت اور ترقی مسیح موعود کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے۔اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ پہلی ترقی کا دور کتنا ہے تو بالکل حسابی طرز پر ظہور مسیح موعود کا زمانہ متعین ہوجاتا ہے ۔سنی، شیعہ احادیث اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺنے فرمایا ۔ میری امت کا بہترین زمانہ پہلی تین صدیاں ہیں ۔اب آیت قرآنی کی طرف رجوع فرمائیے گا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اللہ تعالیٰ حکم شریعت کو آسمان سے زمین پر قائم کرتا چلا جائے گا۔ رسول پاک ﷺنے اس کا زمانہ تین صدیاں بتایا ۔پھر آیت نے بتایا کہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ ہوگا ۔تین سو میں ہزار جمع کریں تیرہ سو بنے گا اور فرمایا ہزار سال گزرنے کے بعد کمزوری نہیں ترقی ہوگی اور ترقی مسیح موعود کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے۔ صاحبو! اس بات پر غور فرمائیں تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد جو زمانہ ہوگا وہ اسلام کی ترقی کا زمانہ یعنی ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہوگا۔تو تیرھویں صدی گزرنے کے بعد کون سی صدی آئے گی چودھویں۔
جس سیاق وسباق میں سے یہ فقرہ معترض نے پیش کیا حضرت بانیٴ جماعت نے وہاں بعض علامتیں بیان فرمائی ہیں صفحہ358پرحضور فرماتے ہیں۔اوریہ فقرہ معترض نے صفحہ359سے اچکا ہے۔ صفحہ358پر حضور فرماتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق دو مرتبہ ملک میں کسوف وخسوف ہوگیا جو مسیح موعود کے ظہور کی نشانی تھی۔اس کی تفصیل کیا ہے۔ میں قارئین کو اس کی تفصیل اشارةً بتا دیتا ہوں ۔جیساکہ ابھی ہم نے معلوم کیا کہ مسیح موعود ومہدی معہود کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے۔قرآن پاک نے ایک سورة کانام ہی سورة القیامۃ رکھا۔اللہ تعالیٰ پہ قربان کیسے ہمیں سمجھانے کے لئے ہمیں سورة مہیا فرما دی ۔اس سورة القیامۃآیت 7 تا 11 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔یَسْئَلُ انسان سوال کرتا ہے اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ قیامت کا دن کب آئے گا ۔یہ نہیں فرمایا کہ کیسے آئے گا ۔فرمایا کب آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے ۔فَاِذَابَرِقَ الْبَصَرُ جب انسانی آنکھ حیران ہوجائے گی۔ایسے عجیب وغریب حالات رونما ہوں گے ۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ چاند کو گرہن لگے گاوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ اور سورج اور چاند اکٹھے ہوجائیں گے۔کیا مطلب۔سورج اور چاندکو گرہن لگے گا یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرْ یہ حالات دیکھ کر انسان کہے گا اب کہاں بھاگ کر جانا ہے ۔ اس میں قرب قیامت کی کیا نشانی بتائی گئی ۔چاند کو گرہن لگے گا ،سورج کو گرہن لگے گا۔صاحبو! ایک سال کے اندر چار مرتبہ چاند کو گرہن لگا کرتا ہے ۔کس مہینے میں لگے گا ،کس تاریخ کو لگے گا۔قرآن پاک کی آیات نے اس بات کو بیان نہیں فرمایا تو یقیناحضرت رسول پاک ﷺ جن کو خدا تعالیٰ نے قرآن پاک کے مضامین کی تفسیر کرنے کے لئے مبعوث فرمایا ان سے ہم پوچھتے ہیں۔ امام دارقطنی نے اپنی سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰہ الخسوف والکسوف وھئیتھامیں حضرت امام باقرؒ کی زبان سے پیشگوئی درج فرمائی۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے یہ کتاب تصنیف ہوئی ۔وہ بیان کرتے ہیں اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا آیَتَیْنِ ہمارے مہدی کی سچائی کے اظہار کے لئے دو نشان ظاہر ہوں گے ۔ یہ فقرہ کہ ’ہمارے مہدی‘ بتاتا ہے کہ بہت سے لوگ مہدی ہونے کے دعویدار ہوں گے لیکن جو مہدی ہمارا نہیں ہوگا اس کے زمانے میں اس کے دعوے کی سچائی کے اظہار کے لئے یہ دو نشان ظاہر نہیں ہوں گے۔صرف سچے مہدی کے دعوے کے زمانے میں اس کے دعوے کی سچائی کے اظہار کے لئے یہ دو نشان ظاہر ہوں گے ۔فرمایا لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جب سے زمین وآسمان کی پیدائش ہوئی یہ دو نشان کسی مہدی کے دعوے کی سچائی کے اظہار کے لئے رونما ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ یہ نہیں فرمایا کہ چاند اور سورج کو گرہن پہلے نہیں لگا ۔فرمایا نشان ظاہر نہیں ہوا ۔ہر گرہن نشان نہیں ہوتا ۔اس کی تفصیل بیان کی فرمایایَنْخَسِفُ الْقَمَرُلِاَوَّّلِ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ۔ رمضان کا مہینہ ہوگا ۔چاند کو پہلی رات کو گرہن لگے گا۔دوستو !زمین گول ہے۔چاند کو گرہن کیسے لگتا ہے۔جب چاند گردش کرتے کرتے ایسے نقطے پر آجاتا ہے کہ چاند اور سورج کے درمیان زمین حائل ہوجاتی ہے ۔زمین سورج کی شعاعوں کو روک دیتی ہے اور چاند پر نہیں پڑتیں تو چاند کا ایک حصہ تاریک ہوجاتا ہے ۔اس کو کہتے ہیں کہ چاند کو گرہن لگ گیا ۔چاند سورج اور زمین کی گردش کی رفتار خدا نے ایسی مقرر کی ہے کہ ہمیشہ یا چاند کی تیرھویں رات کو یا چاند کی چودھویں رات کو یا چاند کی پندرھویں رات کو یہ تینوں سیارے ایسی ترتیب سے آگے پیچھے ہوتے ہیں کہ چاند کو گرہن لگا کرتا ہے ۔اگر چاند کی بارہ یا گیارہ تاریخ ہو تویہ سیارے ایک قطار میں نہیں ہوں گے۔چاند کو گرہن نہیں لگے گا۔اگر چاند کی سولہ ،سترہ ، اٹھارہ تاریخ ہو۔یہ تینوں سیارے ایک لائن میں نہیں ہوں گے ۔چاند کو گرہن نہیں لگے گا ۔تو فرمایا لِاَوَّلِ لَیْلَةٍجو گرہن کی راتیں ہیں ان میں سے پہلی رات کو چاند کو گرہن لگے گا یعنی تیرہ رمضان کو۔آگے چلئے! مہینہ چل رہا ہے۔ فرمایا وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی الْنِّصْفِ مِنْہُ اور رمضان کے مہینے میں درمیانی تاریخ کو سورج کو گرہن لگے گا ۔سورج کو گرہن کیسے لگتا ہے ۔جب زمین اور سورج کے درمیان گردش کرتے کرتے چاند حائل ہوجائے تو سورج کی شعاعوں کوزمین پرپڑنے سے چاند روک دیتا ہے ۔سورج کی شعاعیں زمین پر نہیں پہنچتیں توکہتے ہیں سورج کو گرہن لگ گیا۔ اور جو گردش خدا تعالیٰ نے تینوں سیاروں کی مقرر فرمائی ۔ان کی رفتار کے مطابق ہمیشہ چاند کی ستائیس،اٹھائیس ، انتیس تاریخ میں سے کسی تاریخ کو یہ لائن سیارے ایک میں ہوتے ہیں ۔تو درمیانی تاریخ کون سی بنی ۔اٹھائیس رمضان۔ عجیب بات ہے چاند کو اگر آدھی رات کو گرہن لگے توکون دیکھے گا ۔ سورج کو گرہن لگے طلوع آفتاب کے آدھے گھنٹے کے بعدجبکہ اکثریت سو رہی ہوتی ہے توکون دیکھے گا ۔خدا کی قدرت پہ قربان جائیں ۔چاند کو خدا نے گرہن لگایا عشاء کے وقت جب کہ اکثریت جاگ رہی ہوتی ہے سورج کو گرہن لگایا خدا تعالیٰ نے صبح9بجے سے11بجے تک جبکہ اکثریت جاگ رہی ہوتی ہے ۔زمین گول ہے ۔1894ء میں خدا تعالیٰ نے زمین کی اِس طرف گرہن لگایا زمین کی گولائی حائل ہوگئی اوراُس طرف کے لوگ اس کو دیکھ نہ سکے ۔اگلے سال خدا تعالیٰ نے زمین کی دوسری جانب امریکہ کے علاقے میں گرہن لگایا ۔
سو دوستو! 1894ء اور1895ء میں خدا تعالیٰ نے اس آسمانی نشان کو پورا کر کے بتا دیا کہ یہ زمانہ ظہور مہدی کا زمانہ ہے۔ اگر یہ مہدی کا دعویدار برحق نہیں تو پھرآئندہ کوئی سچا مہدی نہیں آئے گا ۔کیونکہ اس حدیث میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے فرمایا لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَاَلْاَرْضِ۔جب سے زمین وآسمان کی پیدائش ہوئی کسی جھوٹے مہدی کی سچائی کے اظہار کے لئے یہ نشان ظاہر نہیں ہوا ہوگا۔ اسی سیاق وسباق میں اگلی نشانی بانیٴ جماعت احمدیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔سورة التکویر میں قرب قیامت کی علامات بیان ہورہی ہیں ۔ایک ان میں سے یہ بیان کی گئی وَاِذَ الْعِشَارُعُطِّلَتْ (التکویر:4) وہ زمانہ ایسا ہوگا دس ماہ کی حاملہ اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا۔ارے بھئی دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں تو ڈبل قیمت کی حقدار بن جاتی ہیں۔ اس کو کوئی کب چھوڑے گا ۔جب اس سے بہتر چیز مل جائے گی۔ حدیث پاک میں حضرت رسول پاک ﷺنے اس کی وضاحت فرمائی۔ مسلم کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ میں فرمایاوَلَیُتْرَکُنَّ الْقِلَاصُ مسیح موعود کا زمانہ ایسا ہوگا نوجوان تیز رفتار اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گافَلَا یُسْعیٰ عَلَیْھَا ان پر بیٹھ کر بھاگنے دوڑنے کا تیز رفتاری کاکام نہیں لیا جائے گا ۔یہ صورت حال کب پیدا ہوگی ۔ جب ایسی سواریاں ایجاد ہوجائیں جو تیز رفتاری کے اعتبار سے،سہولتوں کے اعتبار سے اونٹنیوں سے زیادہ مفید اور نفع رساں ہوں ۔ سو صاحبو!ایسی تیز رفتار سواریاں خدا تعالیٰ نے تیرھویں صدی میں ایجاد کر کے اس بات کی گواہی دے دی کہ یہی زمانہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہے ۔اسی سیاق وسباق میں حضور نے اور بھی باتیں بیان فرمائیں۔ان کی بجائے ایک دو اور باتیں عرض ہیں جو اپنی باقی کتابوں میں آ پ نے بیان فرمائیں۔
بخاری شریف کتاب بدء الحق باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام میں حدیث ہے حضرت رسول پاک ﷺفرماتے ہیں مسیح موعود آئے گایَکْسِرُ الصَّلِیْبَ صلیب توڑے گا ۔یہ لفظ توڑنے پر غور فرمائیں ۔دنیا میں بے شمار مذاہب ہیں کسی اور کا نام نہیں لیا کہ یہودیت کو توڑے گا ،ہندو دھرم کو توڑے گا ،مجوسیت کو توڑے گا۔یہ فرمانا کہ صلیب کو توڑے گا کیا بتاتا ہے۔ کہ صلیب کا زور ہوگا اس لئے اس کو توڑے گا۔اس پیشگوئی نے مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ دو باتوں کے درمیان باندھ کر رکھ دیا اس وقت تک سچا مسیح موعود آنہیں سکتا جب تک دنیا میں صلیب کا زور پیدا نہ ہو ۔اس وقت تک صلیب کا زور ٹوٹ نہیں سکتا جب تک مسیح موعود کا ظہور نہ ہو۔حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ نے دعویٰ فرمایا ۔پوری دنیا پر صلیب کی شوکت تھی صلیب کی چمکار تھی ۔آپ نے چومکھی لڑائی لڑی صلیبی مذہب کا زور توڑنے کے لئے ۔نتیجہ کیا نکلا۔1908ء میں آپ کی وفات ہوئی ۔1917ء میں آپ کی وفات کے صرف نویں سال صلیب کی تبلیغ کرنے والے دنیا کی سب سے بڑی طاقت روس کے شہنشاہ نے اعلان کر دیا کہ آج کے بعد ہم عیسائی نہیں ہیں ۔اس وقت باقی دنیا ،وہ مغربی ممالک جو عیسائیت کے علمبردار تھے وہ انگلستان جس کا سربراہ اپنے آپ کو defender of faith عیسائیت کا محافظ سمجھتا تھا ۔ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ کے دلائل ،آپ کی کوششوں کا نتیجہ کیا نکلا ۔وہ گرجے جو صلیب کی پوجا کے لئے تعمیر ہوتے تھے ۔وہ سینکڑوں کی تعداد میں بک گئے۔مغربی ممالک میں رہنے والے افراد، امریکہ ،کینیڈا میں رہنے والے افراد میرے اس بیان کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔سینکڑوں گرجے بک گئے اورسینکڑوں پر بورڈ لگ ہیں for sale کے۔ دوستو ! قوموں پر عروج وزوال کے زمانے آتے رہتے ہیں ۔آپ کبھی نہیں سنو گے کہ فلاں علاقے کے ہندوٴوں نے اپنا مندر بیچ دیا ۔فلاں علاقے کے زرتشتیوں نے اپنی عبادت گاہ بیچ دی ۔مسلمانوں نے اپنی مسجد بیچ دی ۔فلاں علاقہ کے یہود نے اپنی عبادت گاہ بیچ دی ۔جب بھی آپ کے کان میں آواز آئے گی تو یہی آئے گی کہ فلاں علاقوں کے عیسائیوں نے اپنا گرجا بیچ دیا ۔وہ بات جو کسی قوم کی تاریخ میں نہیں ہوئی تھی آج حضرت رسول پاک ﷺکی پیشگوئی کے مطابق دنیا میں جگہ جگہ رونما ہوکر اس بات کا پیغام دے رہی ہے کہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ گزر گیا۔
حضرت رسول پاک ﷺکی پیشگوئی صحیح مسلم کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ باب ذکر الدجال میں پائی جاتی ہے۔آپ فرماتے ہیں ۔جو مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہوگا یَبْعَثُ اللّٰہُ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو کھڑا کرے گا ۔وَھُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍٍ یَنْسِلُوْنَ (الانبیاء:97)اور وہ ہر اونچائی سے ہر پانی کی لہر سے تیزی کے ساتھ بھاگتے چلے آئیں گے۔بھئی یاجوج ماجوج جو مسیح موعود کے ظہور کے زمانے میں پوری دنیا پر تیزی کے ساتھ پھلانگتے چلے آئیں گے یہ ہیں کون؟قرآن پاک میں اس کا تذکرہ نہیں کہ وہ کہاں آباد ہیں حدیث میں بھی ذکر نہیں کہ وہ کہاں آباد ہیں ۔قرآن پاک نے یہ فرمایا اِذَا فُتِحَتْ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ (الانبیاء:97)جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا ۔یہ نہیں فرمایا کہ پیدا کیا جائے گا ۔گویاقوم پیداشدہ موجود ہے ۔جب ہم اس امر کی تحقیق کے لئے دیکھتے ہیں تو انبیائے بنی اسرائیل کی کتابوں میں حضرت حزقیلؑ کے صحیفے میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ حزقیل کو خدا نے وحی کی ۔ اس وحی میں یہ بتایا کہ یاجوج کون ہے۔ایک جملہ ہے اس وحی ربانی کا ”اے جوج،روش اورمسک اور توبل کے فرماں رواں۔
صاحبو! اس فقرے پر غور فرمائیں ۔یاجوج کون ہے ۔روس رشیا اور ماسکو کے علاقے کی رہنے والی قوم ۔اگلے باب میں فرمایا اس نبی کو وحی ہوئی۔ اے ماجوج اے جزائر کی حکمرانی کرنے والو ۔یعنی جو سامنے جزائر ہیں یورپ کے ممالک ۔وہ ماجوج ہے ۔ لیجئے صاحب ! مسئلہ حل ہوگیا۔قرآن پاک نے ایک اور حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورة الکھف میں۔ کہ وہ زمانہ کیسا ہوگا جب ہم یاجوج اور ماجوج کو کھول دیں گے اور وہ ہر طرف سے تیزی کے ساتھ بھاگتے چلے آئیں گے۔کیا مطلب ان کی رفتار جوترقی کی ہے وہ بھاگنے کی طرح ہو ۔جس طرح بلندی سے نیچے کی طرف کو ئی تیزی کے ساتھ بھاگتا ہے فرمایا وَتَرَکْنَا بَعْضَھُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِی بَعْضٍ۔(الکھف:100)اس وقت ہم یاجوج اور ماجوج دونوں قوموں کو اس حالت میں کر دیں گے۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائیں گے جس طرح دریا میں سمندر میں پانی کی لہریں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ہیں ۔دو باتیں بیان کی گئیں ۔ایک یہ بتایا کہ مسیح موعود کے ظہور کے زمانے میں یاجوج اور ماجوج یعنی رشیا اور یورپ کی اقوام جن کا پوری دنیا پر غلبہ ہوگا ان کی ترقی کی رفتار اس طرح ہوگی جس طرح بلندی سے نیچے کی طرف کوئی تیزی سے بھاگتا ہے اور دوسری اہم بات یہ بیان فرمائی کہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ایسا ہوگا۔رشیا اور اقوام یورپ کا آپس میں مقابلہ ہوگا ،ٹکراو ٴ ہوگا ۔وہ زمانہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہوگا ۔صاحبو! ذرا اس حقیقت پہ نگاہ ڈالیں۔ رشیاکا اور اقوام مغرب کا مقابلہ جاری رہا ۔اب رشیا میدان سے ہٹ گیا ۔مقابلہ ختم ہوگیا ۔ اس مقابلے نے ختم ہوکر رشیا کے زوال نے اس بات کی گواہی دی کہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ مدتوں ہوئی گزر چکا۔
تاریخ کودیکھوکہ آنحضرت ﷺ وہی ایک یتیم لڑکاتھاجس کاباپ پیدائش سے چنددن بعدفوت ہوگیا
اعتراض:۔
مضمون نگار حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی کتاب ’پیغام صلح‘ صفحہ 27 کاایک فقرہ درج کرتاہے ۔ وہ فقرہ یہ ہے۔ حضورؑفرماتے ہیں ”تاریخ کودیکھوکہ آنحضرت ﷺ وہی ایک یتیم لڑکاتھاجس کاباپ پیدائش سے چنددن بعدفوت ہوگیا۔“
(پیغام صلح۔رخ جلدنمبر23صفحہ نمبر465)
اس فقرے کودرج کرکے مضمون نگارکہتاہے ”مرزاجی کایہ جھوٹ اتناواضح ہے کہ مزیدحوالہ دینے کی ضرورت نہیں۔ہرشخص کومعلوم ہے کہ آپ ﷺ کے والدآپ ﷺ کی پیدائش مبارک سے قبل ہی فوت ہوگئے تھے“۔
جواب:۔
یہ اعتراض مضمون نگارکے اپنے الفاظ میں ہے جومیں نے قارئین کی خدمت میں پیش کیاہے۔
قارئین! ’ پیغام صلح‘ کے اس جملے کے سیاق وسباق میں مضمون یہ بیان ہورہاہے کہ مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تلوارکے زورسے پھیلاہے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام اس اعتراض کے جواب میں جومضمون لکھ رہے ہیں اس مضمون میں سے یہ فقرہ لیاگیاہے۔
حضورؑنے جوجواب لکھا۔اس جواب کاخلاصہ یہ ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں کہ جب رسول پاک ﷺ نے دعویٰ فرمایاتوآپ کے پاس کوئی فوج نہیں تھی۔آپ کوئی صاحب اقتدارشخصیت نہیں تھے۔لوگوں کاجتھہ آپ کے ہمرکاب نہیں تھاتوکس تلوارسے آپ نے لوگوں کو زبردستی اسلام میں داخل کیا؟ اورکس بادشاہ سے آپ نے مددمانگی کہ اپنی فوج بھیجوجن کی مددکے سہارے میں لوگوں کوزبردستی دین اسلام میں داخل کروں؟
یہ خلاصہ ہے اس مضمون کا۔ تواس مضمون کی ابتداء میں حضرت بانی جماعت احمدیہ یہ تحریرفرمارہے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے پاس کوئی فوج نہیں تھی ۔ آپ جب پیداہوئے توتھوڑے ہی عرصہ کے بعدآپ کے والدفوت ہوگئے پھرکچھ عرصے کے بعدآپ کی والدہ فوت ہوگئیں۔ پھرآپ کے دادافوت ہوگئے۔توانہی لوگوں کی امدادکے سہارے آپ اپنی قوم میں اثرورسوخ پیدا کرسکتے تھے مگرآپ کی ابتداء تویوں ہوئی ۔ توکس فوج نے آپ کی مددکی؟ کون سالشکرآپ کے ساتھ شامل ہوا؟ یہ وہ مضمون ہے۔ اس پروہ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔
جھوٹ کس کوکہتے ہیں؟ جھوٹ کہتے ہیں کہ کسی انسان کواس بات کاعلم ہوکہ فلاں بات یوں ہے اورپھریہ جانتے بوجھتے ہوئے اس علم کی موجودگی کے باوجود حقیقت کے خلاف کسی غلط بات کااظہارکرے، اس کانام جھوٹ ہے۔آپ یہ تو کہہ سکتے تھے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کو غلطی لگی۔ آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ آپؑ نے جو تاریخ کی کتابوں میں مضمون پڑھا تھایہ مضمون لکھتے وقت آپؑ بھول گئے مگر اس کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ جھوٹ تو انسان یا کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لئے یاکسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے بولا کرتا ہے اس میں کیا فائدہ تھا اگر آپؑ نعوذ باللہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔یا کس کو نقصان پہنچانا مقصود تھا اگر آپؑ جھوٹ بول رہے ہیں؟
قرآن پاک ،احادیث اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ نبی واقعہ بھول جاتے ہیں،نبیوں کو اندازے میں غلطی لگ جاتی ہے تواس کو جھوٹ نہیں کہا جاتا۔
تاریخ کی کتابیں اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺکے والد کی وفات ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ بعض موٴرخین کہتے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہو گئے ۔ دوسرے موٴرخین کہتے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم آپ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے ۔ کوئی پہلے قول کو درست قرار دیتا ہے کوئی دوسرے قول کو درست قرار دیتا ہے۔ یہ مضمون تفسیر کی کتابوں میں بھی بیان ہے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں بھی بیان ہے۔ نمونے کے طور پر وقت کی مناسبت کے اعتبار سے میں چند کتابوں کے اقتباس قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔
(1) ’ تفسیر ابن کثیر‘ ہے جلد 5۔جس کے مصنف امام ابن کثیر774 ھ میں فوت ہوئے ۔قرآن پاک کی آیت اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی (سو رة الضحیٰ) کی تفسیر کے نیچے انہوں نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ اصل کتاب تفسیر ابن کثیر کی عربی زبان میں ہے اس کے اردو ترجمہ کا حوالہ دے رہا ہوں جو مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور نے شائع کیا۔ امام ابن کثیر اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی کی تفسیر میں درج کرتے ہیں ”آپ ﷺ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا ،بعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا“۔
اگر یہ بات کہنا کہ حضرت رسول پاک ﷺکے والد آپ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے ، جھوٹ ہے تو امام ابن کثیر فرماتے ہیں موٴرخین کی دو قسمیں ہیں بعض کہتے ہیں کہ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا۔ تو جوموٴرخین یہ کہتے ہیں کہ آپ کے والد کا انتقال آپ کی پیدائش کے بعد ہوا ۔وہ مضمون نگارکی نگاہوں میں شاید کذب بیانی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
(2) محقق الاثر مولانا محمد عاشق الٰہی مہاجر مدنی کی کتاب اردو زبان میں ہے ’انوا رالبیان فی کشف الاسرار القرآن ‘اس کی جلد پنجم مکتبۃالعلم اردو بازار لاہور پاکستان نے شائع کی ہے ۔اس میں بھی انہوں نے اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی کی آیت کے نیچے دونوں اقوال درج کئے ہیں اس کے صفحہ657 میں وہ لکھتے ہیں ” رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابھی بطن مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد کی وفات ہو گئی (اور ایک قول یہ ہے کہ آپکی پیدائش کے بعد انکی وفات ہوئی“)۔
(3) تیسرا حوالہ استادمحی الدین الدرویش کی کتاب ’ اعراب القرآن الکریم و بیانُہ ‘کی دسویں جلد سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب مصر سے شائع ہوئی ہے دار الارشاد للشوٴون الجامعیہ کی طرف سے۔ اس کتاب کے صفحہ 510پر مصنف لکھتے ہیں أَنَّ اَبَاہُ مَاتَ وَھُوَجَنِیْنٌ رسول پاک ﷺ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے کہ آپ کے والد کی وفات ہو گئی وَقَبْلَ وَلَادَتِہ بِشَھْرَیْنِ اور آپ کی ولادت سے دو ماہ پہلے آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَکہتے ہیں ایک قول یہ ہے بَلْ بَعدَ وَلَادَتِہ بِشَھْرَیْنِ کہ آپ کی پیدائش کے دو ماہ بعد آپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَ(تیسرا قول وہ یہ لکھتے ہیں) بِسَبْعَةِ اَشْھُرٍکہ آپ کی پیدائش کے سات ماہ بعدآپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَ بِتِسْعَةٍ ایک قول یہ لکھتے ہیں کہ آپ کی پیدائش کے نو ماہ بعدآپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی وَقِیْلَ بِثَمَانِیَةٍ وَعِشْرِیْنَ شَھْراً کہتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے اٹھائیس مہینے بعدآپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی ۔
اور مصنف اپنا تبصرہ یہ کرتے ہیں وَالْمَشْھُوْرُ اَلْاَوّلُ ان چار پانچ اقوال میں سے جو سب سے زیادہ مشہور ہے وہ پہلا قول ہے کہ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔
(4) پھر ’ تفسیر جلالین‘ کی شرح’ تفسیرکمالین‘ ہے جو مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور نے شائع کی۔ اس کے اردو ترجمہ کی جلد نمبر7 میں صفحہ 299 پروہ لکھتے ہیں ”آنحضرت کے والد ماجد کی وفات بقول ابن سعدآپ کی ولادت سے پہلے ہو گئی تھی۔ ابن اسحاق، ذہبی، ابن کثیرؒ کی رائے بھی یہی ہے اور بعض کی رائے ہے کہ ولادت کے دو تین یا نو ماہ بعد یا دو تین سال کے بعد ہوئی ہے“۔
تفسیر کی کتابوں میں سے چندحوالے نمونے کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں ۔ اگر حضرت بانی جماعت احمدیہ کا یہ لکھنا کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم کی وفات آپ کی پیدائش کے بعد ہوئی، جھوٹ ہے تو پھر یہ تمام مفسرین جو یہ لکھ رہے ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے بعد آپ کے والد کی وفات ہوئی ، سب پر جھوٹ کا الزام لگانا پڑے گا ۔
(5) اہل تشیع قارئین کے لئے بھی ان کی کتابوں میں سے اقتباس پیش ہے ۔اہل تشیع کی کتب اربعہ میں سے’ اصول کافی‘ کا اردوترجمہ جس کا نام ’الشافی ترجمہ اصول کافی‘ ہے ۔ مولاناظفرحسن صاحب امروہی نے اس کا ترجمہ کیاہے اور ظفرشمیم پبلیکیشنز ٹرسٹ ناظم آباد کراچی سے شائع ہوا۔ اس کی جلد نمبر سوئم باب نمبرایک سودس۔ جس کا عنوان ہے اَبْوَابُ التَّارِیْخِ باب مَوْلِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَوَفَاتِہ۔اس میں انہوں نے صرف ایک ہی قول لکھا ہے یہ کہتے ہیں وَتوُفِّیَ اَبُوْہُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِالْمَدِیْنَةِ رسول پاک ﷺکے والد محترم عبد اللہ بن عبد المطلب مدینہ میں فوت ہوئے عِنْدَ اَخْوَالِہ اپنے ماموٴوں کے پاس فوت ہوئے۔ کب فوت ہوئے، لکھتے ہیں وَھُوَابْنُ شَھْرَیْنِ جب رسول پاک ﷺ کی عمر دو مہینے تھی۔
جس طرح اہل سنت میں حدیث کی کتابوں میں سے سر فہرست نمبرایک ’ بخاری‘ سمجھی جاتی ے اسی طرح اہل تشیع کے ہاں حدیث کی کتابوں میں سے نمبر ۱یک ’ اصول کافی‘ سمجھی جاتی ہے تو اس میں انہوں نے صرف ایک ہی قول لکھا کہ رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے دو مہینے بعد آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔ اگلے صفحے پر اس عربی عبارت کا ترجمہ ہے آخری پیراگراف میں۔ ترجمہ یہ کیاگیا ہے اس فقرے کا ”اور آپ کے والد حضرت عبد اللہ نے مدینہ میں اپنے ماموٴوں کے پاس انتقال کیا جبکہ آپ صرف دو ماہ کے تھے“۔
دوستو ! حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کا یہ لکھنا کہ حضرت رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے بعد آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی تھی اگر یہ جھوٹ ہے تو یہ تمام موٴرخین جو اس بات کا اظہار کر رہے ہیں سب کو نعوذ باللہ جھوٹ کے الزام کے نیچے لانا پڑے گا۔
(6)پھر’ مختصر سیرة الرسول ﷺ ‘ اردو ( اصل کتاب عربی زبان میں تصنیف ہوئی) جو طارق اکیڈمی ڈی گراوٴنڈ پیپلز کالونی فیصل آباد نے شائع کی ہے۔اس کتاب کے مصنف شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب ہیں۔ بارھویں صدی ہجری میں سعودی عرب میں ہوئے۔
عجیب اتفاق ہے یہ مضمون جس کے بارے میں ،میں گزارشات پیش کر رہا ہوں یہ مضمون نگار اہل حدیث فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ رسالہ بھی اہل حدیث فرقے کا ہے اور اہل حدیث فرقے کے ہاں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ؒ بڑی ہی قابل احترام شخصیت سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی کتاب ’ مختصر سیرة الرسول ﷺ ‘ کا جو اردو ترجمہ ہے اس کے صفحہ 94 پر عنوان ہے ” والد گرامی کی وفات“ ۔ کہتے ہیں ” آپ کے والد گرامی منزلت کی وفات کے متعلق اختلاف ہے“۔ یہ نہیں کہتے کہ اتفاق ہے ۔ مضمون نگار اپنے اس رسالے میں اپنے مضمون میں اپنے قارئین کو یہ تأثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والد محترم کی وفات کا مسئلہ متفقہ ہے۔ سارے کے سارے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے والد محترم رسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے فوت ہو چکے تھے مگر بارھویں صدی ہجری کے بزرگ حضرت امام محمدبن عبد الوہابؒ اہل حدیث فرقہ کی قابل احترام شخصیت ۔ وہ اپنی کتاب میں اس عنوان کے نیچے پہلا جملہ ہی یہ لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ متفقہ نہیں ہے ۔ فرماتے ہیں ” آپ کے والد گرامی منزلت کی وفات کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سے قبل ہوئی یا بعد؟ “۔
اگر آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد گرامی کی وفات قرار دینا جھوٹ ہے تو پھر حضرت امام عبد الوہاب ؒ جن موٴرخین کا تذکرہ کر رہے ہیں کہ وہ بعد میں آپ کی وفات کے قائل ہیں سبھی کو جھوٹا قرار دینا پڑے گا نعوذ باللہ ۔ فرماتے ہیں ” اختلاف ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سے قبل ہوئی یا بعد؟ اکثر علماء کا کہنا ہے کہ آپ ابھی شکم مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔“ یہ فقرہ قابل غور ہے قارئین ! یہ نہیں لکھتے کہ تمام علماء کا کہنا ہے کہ آپ ابھی شکم مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔ کہتے ہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔
(7) علامہ المحقق السید جعفرمرتضیٰ العاملی کی کتاب ’الصّحیح من سیرة النّبی الاعظم ﷺ ‘ کی دوسری جز کی فصل اول کا عنوان ہے عَھْدُ الطُّفُوْلَةِآپ کا بچپن کا زمانہ۔ اس میں صفحہ 173 پرزیر عنوان فَقْدُالنَّبِیِّ ﷺ لِاَبَوَیْہِ کہ نبی پاک ﷺ کے والدین کی وفات۔ اس میں انہوں نے دو قول لکھے ہیں۔ کہتے ہیں لَقَدْ شَاءَ تِ الْاِرَادَةُ الْاِلٰہِیَّةُ الٰہی منشاء نے اس بات کا ارادہ کیا اَنْ یَّفْقِدَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّمَ اَبَاہُ کہ نبی پاک ﷺ اپنے والد سے محروم ہو جائیں ۔ آگے انہوں نے اس جملے کی تشریح دوفقروں میں کی۔کہتے ہیں وَھُوَلَایَزَالُ جَنِیْنًا اَوْطِفْلًاصَغِیراً کہ نبی پاک ﷺ یا تو پیدائش سے پہلے ہی باپ سے محروم ہو گئے یا جب آپ چھوٹے بچے تھے اس وقت آپ اپنے باپ کے سایہ سے محروم ہو گئے ۔
(8) امام محمد طاہر الہندی الگجراتی جو 986ھ میں فوت ہوئے اپنی کتاب’ مجمع بحار الانوار ‘جو قرآن کریم کی ڈکشنری ہے کی پانچویں جز میں زیر عنوان بَیَانُ نَسَبِہ آپ ؐکے نسب کا بیان۔ صفحہ نمبر 265 پرتحریر کرتے ہیں قَدْبَعَثَہ عبْدُالْمُطَّلِبِ اِلیٰ یَثْرِ بَ حضرت عبد المطلب نے رسول پاک ﷺ کے والد محترم کو یثرب یعنی مدینہ منورہ میں بھیجا یَمْتَارُ لَہ تَمْراً کہ وہاں سے کھجوریں لے کر آئے فَتُوُفِّیَ بِھَا حضرت عبداللہ یعنی رسول پاک ﷺ کے والد محترم مدینہ منورہ میں فوت ہو گئے فِیْ مُدَّةِ الْحَمْلِ رسول پاک ﷺ کی پیدائش سے پہلے دوران حمل ہی میں وَقِیلَ کہتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ آپ (رسول پاک کی)پیدائش سے پہلے فوت نہیں ہوئے بَلْ تُوُفِّیَ بلکہ آپ کے والدمحترم کی وفات ہوئی بَعْدَمَا اَتٰی عَلَی النَّبِیِّ ﷺ ثَمَانِیَةٌ وَّعِشْرُوْنَ شَھْراً جب نبی پاک ﷺ کی پیدائش پر اٹھائیس مہینے گزر گئے یعنی جب آپ کی عمر اٹھائیس مہینے ہوئی تو آپکے والدمحترم کی وفات ہوئی۔
(9) امام ابن سید الناس جو 671 ھ میں پیدا ہوئے اور734ھ میں فوت ہوئے۔سیرت النبی پراپنی کتاب ’ عیونُ الاثر فی فنون المغازی والشّمائل والسّیر۔ جلد اوّل جو بیروت لبنان سے ادارہ دارالقلم نے شائع کی۔ اس کے صفحہ نمبر 32 پر زیر عنوان”ذِکْرُ وَ فَاةِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ“حضرت عبداللہ بن عبد المطلب کی وفات کا تذکر ہ۔ پہلا پیراہی یہ ہے ،لکھتے ہیں قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ ابن اسحاق جو سیرت ابن اسحاق کے مصنف ہیں۔
’سیرت ابن اسحاق‘ اور’ سیرت ابن ہشام‘ یہ دو موٴلفین کی رائے یہ ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کے والدمحترم آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے۔تو جن لوگوں نے صرف ان میں سے کسی کی کتا ب پڑھی ہوتی ہے وہ اپنی تقریر اور تحریر میں اسی بات کا تذکرہ کر تے ہیں کہ رسول پاک ﷺ کے والد محترم آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوئے۔ لیکن دیگرموٴرخین دوسرے اقوال کا بھی تذکر ہ کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہتے ہیں قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ سیرت ابن اسحاق کے موٴلف ابن اسحاق کہتے ہیں ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اَنْ ھَلَکَ کہ حضر ت عبداللہ بن عبد المطلب فوت ہو گئے وَاُمُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ حَامِلٌ بِہ اور رسول پاک ﷺ کی والدہ محترمہ کو حضرت رسول پاک ﷺ کا حمل موجود تھا یعنی آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد محترم انتقال کر گئے۔ کہتے ہیں ھٰذَا قَوْلُ اِبْنِ اِسْحَاقَ یہ سیرت ابن اسحاق کے موٴلف ابن اسحاق کا قول ہے۔ اگلا جملہ قابل توجہ ہے لکھتے ہیں وَغَیْرُہ یَقُوْلُ سیرت ابن اسحاق کے موٴلف ابن اسحاق کے علاوہ دوسرے موٴرخین کہتے ہیں اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ رسول پاک ﷺ بچپن کی عمر میں تھے پنگوڑے میں تھے حِیْنَ تُوُفِّیَ اَبُوْہُ جب آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا ۔کہتے ہیں رَوَیْنَاہُ عَنِ الدُّوْلَابِیْ یہ روایت موٴرخ دولابی نے بیان کی ہے۔ آگے کہتے ہیں وَذَکَرَ ابْنُ اِبِیْ خَیْثَمَةَ ابن ابی خیثمہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے اَنَّہ کَانَ اِبْنَ شَھْرَیْنِ کہ رسول پاک ﷺ کی عمر دو مہینے تھی کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْلَ کہتے ہیں ایک قول یہ ہے اِبْنَ ثَمَانِیَةٍ وَّعِشْرِیْنَ شَھْراً کہ رسول پاک کی عمر اٹھائیس مہینے تھی جبکہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْلَ اور ایک قول یہ ہے بَلْ خَرَجَ بِہ اِلٰی اَخْوَالِہ زَائِراً کہ آپ کے والد محترم رسول پاک ﷺ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے ماموٴوں کے پاس گئے مدینہ میں وَھُوَ ابْنُ سَبْعَةِ اَشْھُرٍ اور رسول پاک ﷺ کی عمر سات مہینے تھی کہ وہاں آپ کے والد محترم کا اپنے مامووں کے پاس مدینہ میں انتقال ہو گیا ۔
(10) ’سیرت سید الانبیاء ﷺ‘ پر مشتمل ابن جوزی کی کتاب ’الوفا باحوال المصطفےٰ ﷺ ‘ کا اردو ترجمہ جو فرید بک سٹال اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے ۔اس میں اٹھارھویں باب کے آخری پیرے میں یہ مضمون بیان ہوا ۔ اس کے صفحہ 117 پر ابن جوزی لکھتے ہیں ” نبی اکرم ﷺ ابھی حضرت آمنہ کے بطن اقدس میں تھے کہ یتیم ہو گئے“۔ یہ وہی ابن اسحاق اور ابن ہشام کا قول درج کیا ۔آخری فقرہ یہ ہے ” ایک روایت یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ کا وصال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بعد ہوا“ ابن جوزی لکھتے ہیں ’ ’ مگر یہ صحیح نہیں ۔“ یعنی دوسرے موٴرخین کا یہ جوخیال ہے کہ آپ کے والد محترم رسول پاک ﷺ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے۔ ابن جوزی کی رائے میں وہ درست نہیں ۔ کیونکہ کوئی ابن اسحاق اورابن ہشام کی رائے کو درست قرار دیتا ہے کوئی دوسرے موٴرخین کی رائے کو درست قرار دیتا ہے ۔
(11) حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کی کتاب ’مدارج النبوت‘جو فارسی زبان میں ہے کی دوسری جلد کے صفحہ نمبر19پر تحریر ہے ۔ ”محمدبن اسحاق گوید“ کہ ابن اسحاق کہتاہے ”آنحضرت درشکم مادربود کہ وفات یافت عبداللہ“ کہ رسول پاک ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والدمحترم فوت ہوگئے” وبعضی گویند“ اور بعض دوسرے موٴرخین کہتے ہیں” درمہدبود“ کہ رسول پاک ﷺ کی پیدائش ہوچکی تھی آپ بچپن میں تھے پنگھوڑے میں تھے کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا ۔ کہتے ہیں” بیست ہشت ماہہ“کہتے ہیں بعض موٴرخین کے نزدیک آپ ﷺکی عمر اٹھائیس مہینے تھی ”یا ہفت ماہہ“کہتے ہیں بعض موٴرخین کے نزدیک آپ کی عمر سات مہینے تھی یا”دوماہہ“ یا بعض موٴرخین کے نزدیک آپ کی عمر دومہینے تھی کہ آپ کے والد محترم کامدینہ میں انتقال ہوا۔کہتے ہیں ” وایں قول اصحح اقوال است“ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک آپ کی پیدائش کے دو مہینے بعد آپ کے والد محترم کا انتقال ۔ اس کے بارے میں وہ اپنی رائے درج کرتے ہیں کہ” ایں قول اصحح اقوال است“ کہ تمام اقوال میں سے سب سے صحیح ترین قول یہ ہے۔
(12) سیرت ابن ہشام کی ایک شرح ’الروض الانف‘ کے نام سے امام سہیلی نے لکھی ہے۔ یہ 581 ھ میں فوت ہوئے ۔ یہ بیروت لبنان سے شائع ہوئی۔وہ اس کے صفحہ نمبر 283 پر لکھتے ہیں عنوان ہے تَحْقِیْقُ وَفَاةِ اَبِیْہِ آپ کے والد کی وفات کی تحقیق ۔ کہتے ہیں وَذَکَرَ امام ابن ہشام نے ذکر کیا ہے اَنَّہ مَاتَ اَبُوْہُ وَھُوَ حَمْل ٌ رسول پاک ﷺ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والدمحترم فوت ہوگئے ۔ ابن ہشام کی سیرت کے شارح امام سہیلی لکھتے ہیں اگلے فقرہ میں وَاَکْثَرُالْعُلَمَآءِ عَلٰی اَنَّہ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ کہ اکثر علماء کا خیال ہے کہ رسول پاک ﷺ پنگھوڑے کی عمر میں تھے کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا ذَکَرَہ الدُّوْلَابِیْ وَ غَیْرُہ کہتے ہیں پیدائش کے بعد والدمحترم کی وفات کاتذکرہ دولابی اور دوسرے موٴرخین نے کیا ہے قِیْلَ اِبْنَ شَھْرَیْنِ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی عمر دو مہینے تھی کہ والد محترم کا انتقال ہو ا۔ اورکہتے ہیں یہ قول امام احمدبن ابی خیثمہ کاہے وَقِیْلَ اَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ بعض کہتے ہیں کہ آپ کی عمردومہینے سے زیادہ تھی کہ آپ کے والدمحترم کاانتقال ہوا وَقَدْقِیْلَ مَاتَ اَبُوْہُ ایک قول یہ ہے کہ جب آپ کے والد محترم فوت ہوئےوَھُوَابْنُ ثَمَانٍ وَّعِشْرِیْنَ شَھْراً اُس وقت آپ کی عمر اٹھائیس مہینے تھی ۔
(13) ’ طبقات ابن سعد‘ کی پہلی جز جو لبنان سے شائع ہو ئی ۔اس کے صفحہ نمبر 46 پر عنوان ہے ”ذِکْرُوَفَاةِ عَبْدِ اللّہِ ابْنِ عَبْدِالْمُطَلِبِ انہوں نے بھی دونوں اقوال ذکرکئے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے نزدیک رسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے جووفات کاخیال ہے وہ درست ہے لیکن دوسرے اقوال کابھی انہوں نے تذکرہ کیا۔
(14) سیرت کی کتاب جوبیروت سے شائع ہوئی ’لباب الخیارفی سیرة المختار‘جوالشیخ مصطفٰی الغلایینی کی ہے۔ جو دمشق میں تفسیراور عربی علوم کے استاد رہے۔ انہوں نے صفحہ نمبر23پرعنوان باندھا ہے اَلدَّوْرُالْاَوَّلُ مِنْ حَیَاتِہ کہ حیا ت نبوی کادورِاوّل۔ کہتے ہیں ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ اَبُوْہُ اَنْ تُوُفِّیَ وَھِیَ حَامِلٌبِہرسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد کی وفات ہوگئی اَوْبَعْدَ وَضْعِہ بِشَھْرَیْنِ یا آپ کی پیدائش کے دو مہینے بعدآپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔ دونوں اقوال کاتذکرہ کرتے ہیں۔
(15) امام عبدالقادر بن محمدالمقریزی کی ’امتاع الاسماع‘۔ سیرت کی کتاب ہے، یہ صاحب 845ھ میں فوت ہوئے ۔ بیروت لبنان سے یہ شائع ہوئی۔ اس کے جز اوّل صفحہ نمبر 9پرعنوان ہے مَوْتُ اَبِیْہِ آپ کے والد محترم کاانتقال۔ کہتے ہیں وَمَاتَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ۔ وَرَسُوْلُ اللّٰہِﷺ حَمْلٌفِیْ بَطْنِ اُمِّہ بِالْمَدِیْنَةِ رسول پاک ﷺکی پیدائش سے پہلے مدینہ میں آ پ کے والد محترم کاانتقال ہوا۔ کہتے ہیں بعض کہتے ہیں مدینہ میں نہیں ، مکّہ اورمدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر آپ کے والدمحترم کاانتقال ہوا۔کہتے ہیں وَالْاَوَّلُ ھُوَالْمَشْھُوْرُ دونوں میں سے جو مشہور قول ہے وہ مدینہ میں آپ کی وفات کا ہے وَقِیلَ اور ایک قول یہ ہے مَاتَ بَعْدَوَلَادَتِہ بِثَمَانِیَةٍ وَّعِشْرِیْنَ یَوْماً آپ کی پیدائش کے اٹھائیس مہینے بعد آپ کے والد محترم فوت ہوئے وَقِیْلَ بِسَبْعَةِ اَشْھُرٍ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے سات مہینے بعد آپ کے والد محترم فوت ہوئے وَقِیْلَ بِسَنَةٍ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے ایک سال بعد آپ کی وفات ہوئی وَقِیْلَ بِسَنَتَیْنِ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے دوسال بعد آپکے والد کی وفات ہوئیوَقِیْلَ بِشَھْرَیْنِ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کی دو مہینے بعد آپ کے والد محترم کی وفات ہوئی۔
(16) ’سبل الھدٰی والرشاد فی سیرة خیر العباد‘از امام محمد بن یوسف الصّالحی الشّامی متوفی 942ھ مطبوعہ بیروت لبنان کے جزاوّل کے صفحہ نمبر331پر اس کا تیسرا باب ہے فِیْ وَفَاةِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ پہلا جملہ یہ ہے کہ ابن اسحاق ؓ کہتے ہیں ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ اَنْ تُوُفِّیَ وَاُمُّ رَسُوْ لِ اللّّہِ ﷺحَامِلٌ بِہ کہ رسول ِپاک ﷺکی پیدائش سے پہلے آپ کے والد محترم فوت ہوگئے۔یہ ابن اسحاق کاقول ہے آگے لکھتے ہیں قَالَ غَیْرُاِبْنِ اِسْحَاقَ ۔کہتے ہیں ابن اسحاق کے علاوہ دوسرے موٴرخین یہ کہتے ہیں وَذٰلِکَ حِیْنَ تَمَّ لَھَاشَھْرَانِِ کہ آپ کے حمل پر دو مہینے گزرے تھے کہ آپ کے والد فوت ہوئے وَقِیْلَ کہتے ہیں ایک قول یہ ہے اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺکَانَ فِیْ الَمَھْدِ حِیْنَ تُوُفِّیَ اَبُوْہُ کہ رسول پاک ﷺابھی پنگھوڑے میں کھیلتے تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوا فَقِیْلَ وَلَہ شَھْرَانِ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی عمر دو مہینے تھی کہ آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْل ثَمَانِیَةٌ وَّعِشْرُوْنَ شَھْراً ایک قول یہ ہے آپ کی پیدائش کے ا ٹھائیس مہینے بعد آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا وَقِیْلَ تِسْعَةُاَشْھُرٍ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے نو مہینے بعد آپ کے والدمحترم کا انتقال ہوا وَنَقَلَ السُّھَیْلِیُّ عَنِ الدُّوَْلَابِیِّ کہتے ہیں سہیلی نے دولابی سے یہ راویت کی ہے اَنَّہ قَوْلُ الْاَکْثَرِیْنَ کہ آپ کی پیدائش کے بعدوالد کی وفات یہ اکثر موٴرخین کاقول ہے قُلْتُ اس کتاب کے مصنف کہتے ہیں وَالْحَقُّ اَنَّہ قَوْلُ کَثِیْرِیِّیْنَ لَااَکْثَرِیْنَ کہتے ہیں یہ بات تو درست ہے کہ بہت سے موٴرخین کا یہ خیال ہے کہ آپ کے والد محترم آپ کی پیدائش کے بعد فوت ہوئے لیکن یہ بات درست نہیں کہ اکثر علماء کا یہی خیال ہے ۔
(17) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے کتاب لکھی ’ ماثبت من السنۃ ‘۔اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا ’ایّام اسلام‘ کے نام سے۔ یہ حمایت اسلام پریس لاہور نے شائع کیا۔ اس کے صفحہ نمبر78-79 پراس مضمون کو بیان کیا گیا ۔ لکھتے ہیں ”جب ان کے حمل کودومہینے گزرگئے توآپ کے والدماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی ۔ اورایک قول یہ ہے کہ انکی وفات جب ہوئی جب کہ آپ مہد(جھولے) میں تھے۔“ کتاب کے مصنف کہتے ہیں ”غالب اورمشہورپہلی ہی روایت ہے“۔
(18) امام زرقانی کی کتاب ’ شرح المواھب اللدنیہ ‘۔ عربی زبان میں ہے اس کے اردوترجمہ جزاول صفحہ ۷۵ پرعنوان ہے ”حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کاوصال“۔ لکھتے ہیں” جب حمل مبارک کودوماہ گزرگئے توحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کاانتقال ہو گیا۔“ ایک قول یہ ہے۔ دوسراکیاہے ،کہتے ہیں ” یہ بھی کہا گیاہے کہ وہ اس وقت فوت ہوئے جب آپ پنگھوڑے میں تھے“۔ کہتے ہیں” (حا فظ ابو بشرمحمد بن احمد بن حماد بن سعید انصاری )دولابی نے یہ بات کہی ہے جب کہ حضرت احمد بن ابی خثعمہ فرماتے ہیں:اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوماہ کے تھے ،کسی نے سات مہینے کاذکرکیااورکسی نے کہاکہ آپ اٹھائیس ماہ کے تھے “ امام زرقانی کہتے ہیں ” لیکن پہلے قول کوترجیح ہے “۔
(19)سیرة النبی ﷺ پر کتاب’سیرت حلبیہ‘ جوامام علی بن برھان الدین حلبی کی تصنیف ہے اس کااردوترجمہ جودارالاشاعت ایم اے جناح روڈکراچی پاکستان سے شائع ہوا ہے۔ اس میں چوتھے باب جس کاعنوان ہے ”آنحضرت ﷺ کے والدکی وفات“ صفحہ نمبر170پرلکھتے ہیں ”ابن اسحاق سے روایت ہے کہ تھوڑاہی عرصہ گزراتھاکہ حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کاانتقال ہوگیااس حال میں کہ حضرت آمنہ ابھی حاملہ ہی تھیں“کہتے ہیں ”اسی پراکثرعلماء کااتفاق ہے“ ۔آگے لکھتے ہیں ”(یعنی حضرت عبداللہ کاانتقال آنحضرت ﷺ کی ولادت سے پہلے ہوگیاتھااگرچہ کچھ روایات ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عبداللہ آنحضرت ﷺکی ولادت کے بعد فوت ہوئے جیساکہ ان کاذکرآگے آرہاہے)حافظ دمیاتی نے بھی اسی قول کودرست قراردیاہے “ کہ آپ کے والدآپ کی ولادت کے بعدفوت ہوئے۔
اگلاعنوان ہے ” کیاوالدکاانتقال آپ ﷺ کی پیدائش کے بعدہوا؟ “ اس عنوان کے نیچے لکھتے ہیں ”ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والدکاانتقال اس وقت ہواجب کہ آپ ﷺ صرف دومہینے کے حمل کی صورت میں تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش سے دو مہینے پہلے ہوا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کی عمر اس وقت دو ماہ کی ہو چکی تھی اور آپ ﷺ پالنے میں جھولتے تھے “ (یعنی جھولے میں) ”جب آپ کے والد کا انتقال ہوا۔ علامہ سہیلی نے(روض الانف ) میں لکھاہے کہ اسی قول پراکثرعلماء کااتفاق ہے “۔
(20) امام ابن قیم کی سیر ت نبوی پر کتاب ’ زادالمعاد‘ہے ۔ اس کااردوترجمہ نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا۔ اس میں بھی انہوں نے صفحہ نمبر99پر لکھاہے ۔زیر عنوان ”والدین کاانتقال اورواقعات مابعد“۔ دونوں اقوال درج کئے ، لکھتے ہیں”آپ کے والدماجدکی تاریخ وفات میں اختلاف ہے “ یہ نہیں کہتے کہ تاریخ وفات میں اتفاق ہے۔کہتے ہیں ”آپ کے والدماجدکی تاریخ وفات میں اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی شکم مادرمیں تھے کہ ان کی وفات ہوگئی اوربعض آپ کے تولدمسعودکے بعدبتاتے ہیں“ ۔ یعنی دونوں اقوال موٴرخین کے اندرموجودہیں۔اپنی رائے یہ کہتے ہیں”لیکن پہلاقول( یعنی پیدائش سے پہلے وفات کاقول) زیادہ درست معلوم ہوتاہے“۔کہتے ہیں ”دوسرے قول کے مطابق آپ کے والدماجدآپ کی پیدائش کے سات ماہ بعدفوت ہوگئے تھے “ ۔
(21) سیرت کی ایک کتاب۔ جس کانام ’ کتاب المحبّر‘ ہے۔یہ امام ابوجعفرمحمدبن حبیب بن امیہ بن عمرو الہاشمی البغدادی نے تصنیف کی اور شیش محل لاہورپاکستان سے دارنشرالکتب الاسلامیہ نے اس کوشائع کیا۔ عربی زبان میں یہ کتاب ہے۔ اس کے صفحہ نمبر۹ پرلکھاہے وَ تُوُفِّیَ عَبْدُاللّٰہِ اَبُوْہُ آپ کے والدحضرت عبداللہ فوت ہوگئے بَعْدَ مَااَتٰی لَہ ثَمَانِیَةٌ وَّ عِشْرُوْنَ شَھْراً جبکہ آپ کی عمراٹھائیس مہینے تھی ۔ صرف ایک ہی قول انہوں نے درج کیا۔
(22) آخری حوالہ امام بیہقی ؒ کی کتاب ’دلائل النبوة‘ سے قارئین کے خدمت میں پیش ہے۔یہ المکتبۃالاثریہ الفضل مارکیٹ اردوبازار لاہور نے شائع کی ہے۔اس کی پہلی جلد کے صفحہ 187 پرباب ہے ذِکْرُ وَفَاةِ عَبْدِ اللّٰہِ اَبِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ۔ کہتے ہیں وَقَدْھَلَکَ اَبُوُْہ ُعَبْدُاللّٰہِ آپ کے والدعبداللہ کی وفات ہوگئی وَھِیَ حُبْلٰی جبکہ آپ کی والدہ حاملہ تھیں یعنی آپ کی پیدائش سے پہلے آپکے والدفوت ہوگئے وَیُقَالُ اورایک قول یہ ہے اِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ ھَلَکَآپ کے والدعبداللہ اس وقت فوت ہوئے وَالنَّبِیُّ ﷺ اِبْنُ ثَمَانِیَةٍ وَّ عِشْرِیْنَ شَھْراً جبکہ نبی کریم ﷺ کی عمراٹھائیس مہینے تھی ۔ دونوں اقوال درج کرکے کہتے ہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ اَیُّ ذَالِکَ کَانَ کہ موٴرخین کے ہاں یہ دونوں خیالات پائے جاتے ہیں۔اب اللہ ہی سب سے زیادہ جانتاہے کہ دونوں میں سے کس طبقہ خیال کی بات درست ہے۔ کہتے ہیں وَقَالَ بَعْضُھُمْ بعض موٴرخین یہ کہتے ہیں مَاتَ اَبُوْہُ وَھُوَ ابْنُ سَبْعَةِ اَشْھُرٍ کہ آپ کی پیدائش کے سات مہینے بعدآپ کے والدمحترم کاانتقال ہوگیا۔
وَآخِرُ دَعْوَانَااَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔
“تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ(آنحضرتﷺ) کے گھر گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے۔”
اعتراض:۔
“تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ(آنحضرتﷺ) کے گھر گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے۔”
(چشمۂ معرفت۔خزائن جلد23 ص299)
لعنة اللہ علی الکٰذبین۔حوالہ پیش کرو،ورنہ اعلان کرو کہ مرزا قادیانی دنیا کا جھوٹا ترین انسان ہے۔
جواب:۔
اب سنیئےاسکا حوالہ یہ ہے‘‘السیرة الحلبیة’’ازعلامہ علی بن برہان الدین الحلبی (المتوفی:1044ھ)کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہﷺ کے گیارہ بیٹوں کی تفصیل یہ ہے:
1۔قاسم 2۔عبد اللہ(قبل از بعثت) 3۔طیب 4۔طاہر 5،6۔طاہرومطھر(جڑواں)
7،8۔طیب ومطیب(جڑواں) 9۔عبد مناف 10۔عبد اللہ(بعد از بعثت) 11۔ابراہیم بن ماریہ
(السیرة الحلبیہ اردو جلد سوم نصف آخر ص404-407مرتب و مترجم اردواز مولوی محمد اسلم قاسمی)
اب بتاؤ یہ لعنت کس پر پڑی اور جھوٹا ترین کون ہے؟اگر ذرا بھر بھی انصاف کی رمق ہے تو خود فیصلہ کریں کہ دجالون کاذبون کی فہرست میں جھوٹا اعتراض کرنے والا شامل ہے یا جس معصوم پر یہ الزام تراشی کی جارہی ہے۔
مگر تفصیلی جواب سے پہلے چشمۂ معرفت پر اس اعتراض کا نہایت دلچسپ پس منظربھی ملاحظہ فرمائیے:
‘‘یہ1907ءکاواقعہ ہے ، آریہ سماج کا مذہبی جلسہ لاہور میں ہوا جس میں آریوں نے اسلام،قرآن اور سیّد المعصومین حضرت محمد مصطفیٰ پر ناروا حملے کیے۔اس وقت اور کوئی مسلمان لیڈر تو پورے برصغیر میں آریوں کے مقابل پر جواب دینے کے لیے کھڑا نہ ہوا۔ایک حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ اپنے رسول کی غیرت و محبت میں آگے آئے اوریہ کتاب چشمۂ معرفت لکھی جس میں آریوں کے اعتراضوں کے جواب دئیے۔ایک اعتراض انہوں نے یہ کیا تھا کہ آنحضرتﷺ کی زندگی معاذ اللہ ناپاک تھی اور آپﷺ کو نفسانی خواہشات کی طرف مائل ٹھہرایا۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے کس شان سے اس اعتراض کا جواب دیا اور فرمایا:
‘‘دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر ،سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مردِ خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمدﷺ’’
آپؑ نے ہمارے آقا و مولیٰ خاتم الانبیاءفداہ نفسی و ابی پرنفسانی خواہشات کی خاطر متعدد شادیاں کرنے کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہ پہلو بھی بیان فرمایا:
‘‘ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویاں نہ کرتے توہمیں کیونکر سمجھ آسکتا کہ خدا کی راہ میں جاں فشانی کے موقع پر آپ ایسے بے تعلق تھے کہ گویا آپ کی کوئی بھی بیوی نہیں تھی مگر آپ نے بہت سی بیویاں اپنے نکاح میں لاکر صدہا امتحانوں کے موقعہ پر یہ ثابت کردیا کہ آپ کو جسمانی لذات سے کچھ بھی غرض نہیں اور آپ کی ایسی مجردانہ زندگی ہے کہ ؔ کوئی چیز آپ کو خدا سے روک نہیں سکتی۔ تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ11لڑکےپیداہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اورخدا کی طرف جاؤں گا۔ ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جو لخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلتا تھا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھے مقدّم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دُنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے۔’’
(چشمۂ معرفت ص286 روحانی خزائن جلد23 ص299)
اس تناظر میں حضرت مرزا صاحب نے محمد مصطفیٰﷺ کی جو شان بیان کی وہ ‘‘ضیائے حدیث’’کے معترض کو نہ جانے کیوں ناگوار لگی اور اس کی غیرت کہاں سو گئی کہ اپنے آقا کی بجائے آریوں کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہ اعتراض کر دیاکہ 11 لڑکے تو تاریخی لحاظ سے ثابت ہی نہیں ہیں تو مرزا صاحب کی یہ دلیل کہ آنحضورﷺ شہوات نفسانی سے بے تعلق تھے کس طرح درست ہو سکتی ہے؟اب آپ ہی بتائیے کہ محمد مصطفیٰﷺ کا کلمہ پڑھتے ہوئے پھر آریوں کی ہاں میں ہاں ملانا کہاں تک غیرت دینی روا رکھتی ہے۔اب ہم معترض کو آریوں کا ساتھی نہ سمجھیں تو اور کیا سمجھیں۔
مشہورشارح حدیث،سیرت نگار علامہ قسطلانی کی کتاب‘‘ مواہب اللدنیہ’’ کی شرح میں علامہ زرقانی (المتوفى: 1122ھ) رسول اللہﷺ کا اولاد کے بارہ میں مختلف اقوال کا خلاصہ کلام یہ ہے:
‘‘رسول اللہ ﷺ کی اولاد میں کل نو9 بیٹے اور چار4 بیٹیاں ملا کر 13 بنتے ہیں۔جن میں سے سات7 بچوں یعنی قاسم،عبد اللہ اور ابراہیم اور زینب،رقیہ،ام کلثوم اور فاطمہ پر سب اہل سنت کا اتفاق ہے اور یہ ان کے نزدیک صحیح ترین رائے ہے۔۔۔۔جبکہ دیگرجن 66 بیٹوں میں اختلاف ہے وہ طاہر،طیب کے علاوہ طیب اور مطیب جڑواں اور دوسرے حمل سے طیب و طاہر جڑواں تھے۔’’
پھر کل اولاد 13 کے بارہ میں زرقانی لکھتے ہیں:
‘‘وکلھم من خدیجة الّا ابراھیم’’ کہ ساری اولاد 13 کے 13 سوائے ابراہیم کے حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھے۔
اس پر علامہ قسطلانی کے 13لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ‘‘کلھم’’کی مذکر ضمیر استعمال کرنے سے کہیں سارے لڑکے مراد نہ لیے جائیں۔علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ دوسری رایت میں‘‘کلّھن’’کی ضمیر مؤنث ساری اولاد کے لیے آتی ہے جو خواتین مبارکہ کی فضیلت کے لیے یا اولاد کی جمع کثرت کی وجہ سے بیٹوں کی طرف بھی راجع ہونے میں کوئی مانع نہیں۔
یہی بات تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس از امام شیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیا بکری (المتوفیٰ: 966ھ)اور مدارج النبوة از علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی(المتوفٰی:1052ھ) میں لکھی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں کو بھی اپنے بیٹے قرار دیا ہے۔ مثلا حضرت حسن کے متعلق فرمایا: اِبْنِیْ ھَذَا سَیِّدٌ یعنی یہ میرا بیٹا سردار ہے۔ اسی طرح فرمایا: ھَذَان اِبْنَایَ وأبنا بنتی۔ یعنی یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ نواسوں کو بھی آپ نے اپنے بیٹے قرار دیا ہے۔ نواسوں میں سے تین آپ کی زندگی میں فوت ہوئے۔ حضرت زینبؓ کے ایک صاحبزادے علی1 بچپن میں فوت ہوئے۔(سیر الصحابہ اردو جلد دہم صفحہ97)حضرت رقیہؓ کے ایک صاحبزادے عبد اللہ2 چھ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔(سیر الصحابہ اردو جلد دہم صفحہ999) اورحضرت فاطمہ کے ایک صاحبزادے محسن3 بچپن میں فوت ہوئے۔
(سیر الصحابہ اردو جلد دہم صفحہ106)
اس طرح آپﷺ کے آٹھ حقیقی بیٹے اور تین نواسے جن کو آپ نے اپنے بیٹے قرار دیا ، آپ کی زندگی میں فوت ہوئے۔ اس طرح کل گیارہ لڑکے آپ کے سامنے فوت ہوئےاور آپؐ نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا۔
مدیر ‘‘ المنبر’’ مکرم عبد الرحیم صاحب اشرف لائل پور لکھتے ہیں:
‘‘ہم بلا خوف لومة لائم یہ اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ حضورخاتم النبیین ﷺ کے والد کی وفات(اور حضورﷺ کے گیارہ لڑکوں)کے سلسلے میں ہم نے جو اعتراض مرزا غلام احمد پر کیا تھا اس کی وہ اہمیت اب ہمارے سامنے نہیں ہے جو ان کی عبارات پیش کرتے وقت تھی۔ہمیں اس اعتراف میں کوئی جھجھک نہیں کہ بعض کتب سیرة و تواریخ میں یہ موجود ہے کہ حضور ﷺ چند ماہ کے تھے کہ حضورؐ کے والد فوت ہوگئے۔ہر چند کہ یہ روایت موجود ہے تاہم جب ہم نے اس نقطہ نظر سے ان کتابوں کو کھنگالا تو روایت ہمیں اور جب یہ روایت موجود ہے تو خواہ صحیح نہ ہو تب بھی اعتراض اتنا اہم نہیں رہتا۔’’
(المنبر لائل پور جلد 11 شمارہ43 مورخہ 17 فروری 1967ء بحوالہ تحدیث نعمت باری تعالیٰ)
ملاحظہ فرمائیں! یہ ہے ایک منصف محقّق کے دل سے اٹھنے والی آواز۔۔۔اور وہ بھی ‘‘ضیائے حدیث’’ والوں کے بابائے قوم!
کاش معترض میں بھی خدا خوفی ہوتی تو وہ اس تحدّی اور جرأت ظالمانہ سے اس حوالہ کا مطالبہ کرتے ہوئے ‘‘لعنة اللہ علی الکاذبین’’ کہنے کی جسارت نہ کرتا۔
اس نے حضرت مرزا صاحب کو‘‘دنیا کا جھوٹا ترین انسان’’ کہنے کی جسارت کی تھی۔۔۔۔اب نہ صرف یہ سب الزام معترض پر لوٹ گئے بلکہ اس کے باقی سارے جھوٹوں کی حقیقت بھی روشن ہوگئی۔جاء الحق و زھق الباطل کا نظارہ ظاہر ہوگیا۔
آخر مرزا سچّا نکلا آخر ملاں نکلا جھوٹا
جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
حضرت مرزا صاحب کی صداقت بھی روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی اور انّی مھین من اراد اھانتک کی پیشگوئی مرزا صاحب کی صداقت کا اعلان کرنے لگی کہ جو تیری رسوائی کا ارادہ بھی کرے گا میں اسے ذلیل و رسوا کرکے رکھ دوں گا۔
ایک اور حدیث بھی مسیح ابن مریم کے فوت ہوجانے پر دلالت کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپﷺ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آئے گی
اعتراض:۔
‘‘ایک اور حدیث بھی مسیح ابن مریم کے فوت ہوجانے پر دلالت کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپﷺ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آئے گی۔’’
(ازالہ اوہام ص252،خزائن، جلد3 227)
مرزا جی کا آپﷺ پر کھلم کھلا جھوٹ ہے کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی۔(ورنہ حوالہ پیش کریں)
جواب :۔
اصل عبارت
‘‘ایک اور حدیث بھی مسیح ابن مریم کے فوت ہوجانے پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ سو برس کے عرصہ سے کوئی شخص زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔اسی بناء پر اکثر علماء و فقرا اسی طرف گئے ہیں کہ خضر بھی فوت ہوگیا ہے۔کیونکہ مخبر صادق کے کلام میں کذب جائز نہیں مگر افسوس کہ ہمارے علماء نے اس قیامت سے بھی مسیح کوباہررکھ لیا۔’’
(ازالہ اوہام ص252 روحانی خزائن جلد3 ص227)
جواب
اس سوال کے نتیجہ میں معترض نے حضرت عیسیٰ کی وفات تسلیم کرنے کی بجائے حضرت مرزا صاحب پر ہی الزام تراشی نہیں کی ،خود رسول کریم ﷺ کی حدیث پاک کو جھٹلانے کی گستاخی کی ہے:
‘‘وقوله “لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد” يعني موجودًا اليوم، وقد ثبت هذا التقدير في رواية شُعيب عن الزُّهري عند المصنف في الصلاة، ولفظه هناك “لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض أحد”، قال ابن عمر: يريد أنها تَخْرمُ ذلك القرن‘‘
(كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ))
حضرت مرزا صاحب خدا تعالیٰ کے مامور ہیں اور ان کے فصیح و بلیغ کلام میں ہر پیدا ہونے والے اعتراض کا جواب موجود ہوتا ہے۔مگر یہاں پہلی بد دیانتی معترض نے یہ کی کہ اگلا فقرہ جس میں اس کے سوال کا جواب تھا،نقل نہیں کیاکہ اس قیامت سے مراد ایک قوم یا قرن کی قیامت ہے نہ کہ روز محشرکی آخری قیامت۔چنانچہ فرمایا:‘‘یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ سو برس کے عرصہ سے کوئی شخص زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔’’
دوسری بد دیانتی معترض کی یہ ہے کہ اگلا فقرہ جو مزید مفہوم واضح کرتا ہے وہ بھی نقل نہیں کیا گویا‘‘لا تقربوا الصلوة’’ کا معاملہ کیا‘‘وانتم سکاریٰ’’ نہیں پڑھا۔فرمایا:
‘‘اکثر علماء و فقرا اسی طرف گئے ہیں کہ خضر بھی فوت ہوگیا ہے۔کیونکہ مخبر صادق کے کلام میں کذب جائز نہیں مگر افسوس کہ ہمارے علماء نے اس قیامت سے بھی مسیح کوباہررکھ لیا۔’’
گویا اس حدیث پر نہ صرف علماء کا اتفاق ہے بلکہ وہ اس سے حضرت خضر کی وفات مانتے ہیں مگر افسوس کہ نہ جانے کیوں حضرت مسیح کی وفات کیوں نہیں مانتے۔علامہ ثناء اللہ پانی پتی صاحب اپنی ‘‘تفسیرمظہری’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘(اکثر)علماءکا خیال ہے کہ خضر وفات پاچکے،اللہ نے فرمایا ہے وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد آپ سے پہلے ہم نے کسی انسان کو بقاء دوامی نہیں دی۔ایک رات عشاء کی نماز کے بعد رسول اللہؐ نے فرمایا مجھے تمہاری یہ رات دکھا دی گئی(یعنی خواب میں شب قدر دکھا دی گئی یا یہ رات جو سامنے ہے اس میں مجھے یہ بات دکھا دی گئی)اب سے (آئندہ) سو برس کی انتہاء تک ہر وہ شخص جو اس وقت روئے زمین پر زندہ ہے(مر جائے گا) زندہ نہیں رہے گا۔’’
(تفسیر مظہری جلد ہفتم ص260)
1۔جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِشَهْرٍ « تَسْأَلُونِى عَنِ السَّاعَةِ وَإِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ مَا عَلَى الأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ تَأْتِى عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ ».
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة باب قَوْلِهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ تَأْتِى مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ الْيَوْمَ ».)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو آپ کی وفات سے ایک ماہ پہلے فرماتے ہوئے سنا : تم مجھ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہوتو اس کا (حقیقی) علم اللہ کے پاس ہے۔میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ سوسال نہیں گزرے گا کہ آج کے زندوں میں سے کوئی زندہ جان باقی نہ ہوگی۔
چنانچہ عبد الحق صاحب محدث دہلوی نے شرح مشکوة مظاہر حق میں لکھا ہے کہ ‘‘یہ وسطی قیامت ہے۔جس طرح ہر شخص کی ایک فردی قیامت ہوتی ہے۔یہ قوم یا قرن کی قیامت ہے کہ سو سال بعد اس وقت موجود لوگوں میں سے کوئی روئے زمین پر نہ رہے گا گویا اس کی قیامت آجائے گی۔’’ (مظاہر الحق شرح مشکوة المصابیح جلد 4 ص381 ادارہ نشریات اسلام لاہور بحوالہ مسیح و مہدی رسول اللہ کی نظر میں)
2۔أن عبد الله بن عمر قال صلى النبي صلى الله عليه و سلم صلاة العشاء في آخر حياته فلما سلم قام النبي صلى الله عليه و سلم فقال ( أرأيتكم ليلتكم هذه فإن رأس مائة لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض أحد ) . فوهل الناس في مقالة رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى ما يتحدثون من هذه الأحاديث عن مائة سنة وإنما قال النبي صلى الله عليه و سلم ( لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض ) . يريد بذلك أنها تخرم ذلك القرن
(بخاری کتاب مواقیت الصلوة باب السمر في الفقه والخير بعد العشاء )
علامہ ابن حجر بخاری کی شرح ‘‘فتح الباری’’میں لکھتے ہیں:
في رواية الكشميهني من هذه قوله عن مائة سنة لأن بعضهم كان يقول إن الساعة تقوم عند تقضى مائة سنة كما روى ذلك الطبراني وغيره من حديث أبي مسعود البدري ورد ذلك عليه على بن أبي طالب وقد بين بن عمر في هذا الحديث مراد النبي صلى الله عليه و سلم وأن مراده أن عند انقضاء مائة سنة من مقالته تلك ينخرم ذلك القرن فلا يبقى أحد ممن كان موجودا حال تلك المقالة وكذلك وقع بالاستقراء فكان آخر من ضبط أمره ممن كان موجودا حينئذ أبو الطفيل عامر بن واثلة وقد أجمع أهل الحديث على أنه كان آخر الصحابة موتا وغاية ما قيل فيه إنه بقي إلى سنة عشر ومائة وهي رأس مائة سنة من مقالة النبي صلى الله عليه و سلم والله أعلم قال النووي وغيره احتج البخاري
(فتح الباری لابن حجر جزء 2 ص75)
3۔عن سالم وأبي بكر سليمان بن أبي حثمة أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ صَلَّى بِنَا النبی -صلى الله عليه وسلم- الْعِشَاءِ فِى آخِرِ حَيَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ :أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ فَإِنَّ رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ
(بخاری کتاب العلم باب السمر فی العلم+صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة باب قَوْلِهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ تَأْتِى مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ الْيَوْمَ)
علامہ نووی مسلم کی اس حدیث کی شرح میں ابن عمر کا قول درج کرتے ہیں کہ
(أريتكم لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ فَإِنَّ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظهر الارض أحد قال بن عُمَرَ وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَبْقَىمِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ)
(شرح النووی علی مسلم جزء16 ص89)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: میں تمہاری اس رات کو دیکھتا ہوں۔سو سال گزرنے پر زمین پر موجود لوگوں میں سے کوئی باقی زندہ نہ ہو۔
4۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ ذَلِكَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِشَهْرٍ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ « مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ الْيَوْمَ تَأْتِى عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ وَهْىَ حَيَّةٌ يَوْمَئِذٍ(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة باب قَوْلِهِ -صلى الله عليه وسلم- لاَ تَأْتِى مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ الْيَوْمَ)
یہی احادیث سنن ترمذی کتاب الفتن، سنن ابو داؤد کتاب الملاحم باب قیام الساعة اور مسند احمد میں بھی آئی ہیں۔ اسی طرح علامہ طبرانی نے بھی اپنی کتاب المعجم الصغیر میں اس حدیث کا ذکر فرمایا ہے۔
اس کے علاوہ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
‘‘آنحضرتﷺ فداہ امی و ابی نے فوت ہوتے وقت فرمایا تھا کہ جو جاندار زمین پر ہیں،آج سے سو سال تک کوئی بھی زندہ نہ رہے گا۔’’
(تفسیر ثنائی جلد دوم ص105)
صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لیے آواز آئے گی کہ ‘‘ھذا خلیفۃاللہ’’
اعتراض:۔
‘‘اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث سے کئی درجے بڑھی ہوئی ہوں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لیے آواز آئے گی کہ ‘‘ھذا خلیفۃاللہ’’اب سوچو یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو ‘‘اصح الکتب بعد کتاب اللہ’’ہے!’’ (شھادة القرآن ص41 خزائن جلد6 337)
یہ حدیث بخاری شریف میں نہیں ہے۔غیرت مند قادیانیوں میں جرأت ہے تو اپنے نبی کا فرمان سچا کرنے کے لیے بخاری شریف سے یہ حدیث نکال کر دیں۔بخاری شریف تو کیا یہ حدیث پوری صحاح ستہ میں نہیں۔یہ مرزا نے جھوٹ بولا ہے اور وہ بھی حدیث نبوی کا نام لے کر۔
جواب:۔
یہ دونوں اعتراض 12 اور 13 سہو نسیان سے متعلق ہیں۔اس لیے ان کا اکٹھا جواب پیش کیا جا رہا ہے۔
ناظرین!اس جگہ بھی معترض نےتحریف لفظی سے کام لیتے ہوئے اپنے حوالہ میں حدیث کے اصل الفاظ‘‘خلیفة اللہ المھدی’’ کی بجائے صرف‘‘خلیفة اللہ’’لکھا ہے۔جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے 1891ء میں اپنی کتاب ‘‘ازالہ اوہام’’ میں صاف لکھ دیا ہے کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اسی وجہ سے امامین حدیث (یعنی امام بخاری و مسلم )نے ان کو نہیں لیا۔
پس شہادة القرآن مطبوعہ 1893ء میں صحاح ستہ کی مشہور کتاب ‘‘سنن ابن ماجہ’’ کی اس حدیث ‘‘خلیفة اللہ المھدی’’(جو امام حاکم کے نزدیک بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق ہے) سہواً اگر بخاری کا حوالہ درج بھی ہوگیا تو معترض کی طرف سے اسے جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس غلط بیانی کا ارتکاب کرنا کہ یہ صحاح ستہ میں بھی موجود نہیں،اہل علم و فضل کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
عن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( يقتيل عند كنزكم ثلاثة كلهم ابن خليفة . ثم لا يصير إلى واحد منهم . ثم نطلع الرايات السود من قبل المشرق . فيقتلونكم قتلا لم يقتله قوم ) ثم ذكر شيئا لا أحفظه . فقال ( فإذا رأيتموه فبايعوه ولو حبوا على الثلج . فإنه خليفة الله المهدي )
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المھدی)
اس حدیث کو امام حاکم نے بھی مستدرک درج کیا ہے۔مستدرک میں امام حاکم نے ایسی روایات کو لیا ہے جو ان کے نزدیک شیخین کی شرائط کے مطابق تھیں مگر انہوں نے ان کو نہیں لیا۔ ابن ماجہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ
في الزوائد هذا إسناده صحيح . رجاله ثقات . ورواه الحاكم في المستدرك وقال . صحيح على شرط الشيخين۔
سہو و نسیان ہر انسان سے ہوجاتا ہےحتیٰ کہ انبیاء سے بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدمؑ کے بارہ میں فرماتا ہے:
فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
(طہ:115)
کہ وہ بھول گئےمگر ان کا ایسا کرنے کا ارادہ نہ تھا۔
اس طرح کے سہو کو جھوٹ قرار دینے سے امت کے علامہ سعید الدین تفتازاتی اور امام الربیع جیسے بزرگ علماء پر جھوٹ کا فتویٰ معترض کی طرف سے صادر ہوگا۔جنہوں نے کئی احادیث کا حوالہ بخاری کا دیا ۔حالانکہ وہ حوالہ بخاری میں موجود نہیں۔
پس نادانستہ بُھول انبیاء کی بھی اللہ کے نزدیک قابل معافی ہے مگر معترض کے نزدیک نہیں۔اس نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ سہو کو جھوٹ قرار دینے سے یہ اعتراض ہمارے نبیؐ پر آئے گا جنہوں نےفرمایا:
ِانَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِى
(صحیح بخاری ابواب القبلة باب التوجه نحو القبلة حيث كان،صحیح مسلم)
حضرت مرزا صاحب تو آپ کے امتی ہیں جس کے بارہ میں ہے:
تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ
(مستدرک حاکم جزء2 ص216)
یہاں سہو کے حوالہ سے اعتراض نمبر 13 کا ذکر بھی بر محل ہو گا۔حقیقة الوحی ص154 پر سہو کاتب سے سورة البقرة کی آیت 211‘‘هَلْ يَنْظُرُونَ إِلا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ’’ کی بجائے ‘‘یوم یأتی ربک فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ’’لکھی گئی۔جسے اگلے ایڈیشن میں درست کر دیا گیا۔
اب دیانت کا تقاضا تو یہ تھا کہ معترض یہ کہنے کی بجائے کہ مرزا جی نے اللہ تعالیٰ پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے،واضح کرتا کہ یہ ایک سہو ہو گیا تھا جس کی درستی اگلے ایڈیشن میں کر دی گئی۔مگر یہ شرافت اور اعلیٰ اخلاق کی ایسی بات شاید معترض کو زیب نہیں دیتی۔
حضرت مرزا صاحب نے 1891ء میں ازالہ اوہام میں اس بات کی وضاحت فرماچکے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم نے مہدی کی حدیثوں کو نہیں لیا۔آپ فرماتے ہیں:
دوسری حدیث جس کا حوالہ حضررت مرزا صاحب نے دیا ہے،امام ابو عبد اللہ نعیم بن حماد (متوفیٰ 228ھ) نے اپنی کتاب ‘‘الفتن’’ میں یوں درج کی ہے:
‘‘قَالَ: يُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَلَا إِنَّ الْحَقَّ فِي آلِ مُحَمَّدٍ، وَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ الْأَرْضِ: أَلَا إِنَّ الْحَقَّ فِي آلِ عِيسَى’’
(کتاب الفتن از نعیم بن حماد جزء1 ص337)
یعنی آسمان سے آواز دینے والا آواز دے گا کہ سنو! حق آل محمدؐ میں ہے اور زمین سے آواز دینے والا آواز دے گا کہ حق آل عیسیٰؑ میں ہے۔
اب مولوی صاحب اس حدیث کے بخاری سے حوالوں کے مطالبے کرتے پھرتے ہیں۔اگر ان میں ذرا بھی خدا خوفی اور تحقیق کا مادہ ہوتاتو یہ جائزہ لیتے کہ کیا رسول اللہؐ کی یہ پیشگوئی پوری پوری ہوئی یا نہیں؟ اور اگر پوری ہوگئی تو آسمان سے اس کی صحت ثابت ہوگئی۔
ناظرین! جس شان کے ساتھرسول اللہﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔واقعہ ہوا کہ پادری عبد اللہ آتھم جس نے اپنی کتاب ‘‘اندرونہ بائبل’’ میں ہمارے آقا و مولاحضرت محمد مصطفیٰﷺ کے لیے دجال کے الفاظ استعمال کئے۔
حضرت مرزا صاحب نے اس سے اسلام کی حقانیت اور ابطال عیسائیت پر مناظرہ میں شکست فاش دی جو جنگ مقدس کے نام سے مشہور ہے۔اس موقع پر آپ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ اگر آتھم حق کی طرف رجوع نہ کرے گا تو پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرایا جائیگا۔آتھم نے رجوع کر لیا۔اور پندرہ ماہ گزر گئے تو عیسائیوں نے شور مچایا کہ حق عیسائیوں کے ساتھ ہے مگر حضرت مرزا صاحب نے آتھم کو دعوت دی کہ اگر اس نے رجوع الی الحق نہیں کیا تو قسم کھا لے تو ایک سال میں ہلاک ہوگا۔اگر قسم نہ بھی کھاوے تو اخفائے حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے بے سزا نہیں چھوڑے گا۔
چنانچہ 27 جولائی 1897ء کو پیشگوئی کے چوتھے سال آتھم مارا گیا اور یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ مہدی کے وقت عیسائیوں سے مناظرہ ہوگا اور بعد میں فتنۂ عظیمہ ہوگا۔آسمان سے آواز آئے گی کہ حق آل مہدی میں ہے۔اور شیطان سے آواز آئے گی کہ حق آل عیسیٰ میں ہے۔لیکن آسمانی آواز درست ہوگی کہ حق آل مہدی میں ہے۔یعنی عیسائیت کے مقابل اسلام کی فتح ہوگی۔
آخر میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ شہادة القرآن کے جس حوالہ کے بارہ میں معترض نے ایک سہو پریہ ہرزہ سرائی کی ہے کہ مرزا صاحب نے جھوٹ بولا اور وہ بھی حدیث نبویؐ پر۔کاش! اس نے شھادة القرآن کتاب کو تحقیق حق کی نظر سے پڑھا ہوتا تو اسے پتہ چلتا کہ یہ کتاب ہی ایک شخص عطا محمد کے جواب میں لکھی گئی جو حدیثوں کو ناقابل اعتبار قرار دے کر امت میں کسی مسیح موعود کے آنے کا انکاری تھا۔آپ نے اس کتاب میں جہاں حدیث کی اہمیت و ضرورت اور عزت و عظمت قائم کر کے دکھلائی اور حدیث میں موجود پوری ہونیوالی پیشگوئیوں کو بطور ثبوت پیش کر کے مسیح موعود کی آمد کو قرآن و حدیث دونوں سے ثابت کر دکھلایا۔اور سورةنور کی آیت استخلاف کو پیش کر کے بتلایا کہ امت محمدیہ کے دوسرے آخری دور میں بھی خلیفوں کا آنا اسی طرح ضروری تھا جیسا کہ پہلے دور میں۔کیونکہ ثلة من الاولین کے ساتھ ثلة من الآخرین بھی آیا ہے۔ اور اس کے ثبوت میں آپ نے یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ ‘‘میں نے اس جگہ اصل الفاظ حدیث کو نقل نہیں کیا اور نہ تمام احادیث کے خلاصہ کو لکھا ہے۔’’(صفحہ309)بخاری کی ان احادیث کی طرف اشارہ فرمایا جن میں آخری زمانہ میں خلیفوں کے آنے کا ذکر ہے۔جیسے
1۔ َإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کی حدیث
2۔ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ (بخاری کتاب الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)
جن سے ظاہر ہے کہ امت کا اوّل زمانہ اور آخر زمانہ باہم بہت مشابہ ہیں اور دونوں زمانے اس بارش کی طرح ہیں جو ایسی خیرو برکت سے بھری ہوئی ہو کہ کچھ معلوم نہیں کہ برکت اس کے پہلے حصہ میں زیادہ ہے یا پچھلے میں جس میں رسول اللہﷺ کے روحانی فرزند غلام مسیح و مہدی نے آنا ۔یہ لطیف اور مبارک مضمون ہے جو دراصل معترض کو ناگوار معلوم ہوا۔کیونکہ وہ اس مبارک مسیح کا منکر ہوچکا۔
‘‘اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی۔ اور اس شخص کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لیے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔’’
اعتراض:۔
‘‘اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی۔ اور اس شخص (مرزا قادیانی) کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لیے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔ اس لیے اب ایمانوں کو خوب مضبوط کر لو۔ اور اپنی راہیں درست کرو۔’’
(اربعین نمبر 2 ص16 خزائن جلد 17 ص442)
جن پیغمبروں نے مرزا جی کی زیارت کا شوق ظاہر کیا،ان کا ذکر کہاں آیا ہے؟ ان کے نام ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ہے کوئی جو بتاسکے؟
جواب:۔
لیجئے ان ناموں میں سب سے بڑا نام نامی ہمارے آقا و مولاخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔جو سب نبیوں کے مصدق ہیں اور برکات نبوت کا ایسا سمندر ہیں جس میں سب نبوتوں کے دریا آکر گرتے ہیں۔
اگر ایک حوالہ ہی مل جائے تو کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی مگر بطور نمونہ حضرت موسیٰؑ اورحضرت دانیال نبی کے حوالے بھی پیش ہوں گے مگر ہر نبی نے ہی میثاق النبیین کی تعمیل میں اپنی امت کو جہاں بعد میں آنیوالے مصدق نبی کی تائید و نصرت کی تلقین کی وہاں مسیح موعود کے عہد کے دجالی فتنہ سے ہوشیار کیا کہ اپنی نسلوں کو اس سے ہوشیار کرنا!
لیکن جواب کی تفصیل میں جانے سے پہلے معترض کی تحریف لفظی اور بد دیانتی کا ذکر ضروری ہے:
حضرت مرزا صاحب کے اقتباس میں ‘‘اس شخص یعنی مسیح موعود’’کے الفاظ میں معترض نے تحریف کرتے ہوئے ‘‘مسیح موعود’’ کے الفاظ کی بجائےبریکٹ میں‘‘مرزا قادیانی’’ لکھ کرفریب اور دھوکہ کا ارتکاب کیا ہے۔اس تحریف کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ مسیح موعود کی بشارت نبیوں نے دی مگر چونکہ وہ مرزا صاحب کو مسیح موعود نہیں مانتے اس لیے ان کے حق میں اس علامت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔گویا اعتراض کی وجہ تعصب ہے،تحقیق نہیں۔
اب ملاحظہ فرمائیےنبیوں کی بشارت کا حوالہ:
عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: «إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ
(صحیح بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
دوسری روایت میں ہے کہ نوح نے بھی اپنی امت کو اس (دجال )کے فتنہ سے ہوشیار کیا اور بعد کے نبیوں نے بھی۔ جس طرح ہر نبی نے دجال سے اپنی قوم کو ہوشیا ر کیا۔حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی امت کو ہوشیار کرتے ہوئے فرمایا کہ
« إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ، فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ
(مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة – بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ)
اگر تو دجال کے ظہور کے وقت میں تمہارے اندر موجود ہوا تو میں خود تمہاری طرف سے اس سے بحث کرکے حجت قائم کروں گا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر شخص کو اپنی حجت اور دلیل دینی ہوگی اور حضرت عمرؓ نے جب ابن صیاد کو دجال خیال کر کے قتل کرنا چاہا تو رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اگر تو یہ دجال معہود ہے تو تم اس پر غالب نہیں آسکتے۔اور اگر یہ وہ دجال معہود نہیں تو اس کے قتل کرنے میں تمہارا کوئی فائدہ نہیں۔(بخاری کتاب الجنائز بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ )کیوں کہ مسیح موعود نے اسے قتل کرنا ہےاور وہ اسے باب لدّ میں قتل کرے گا۔(ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی قتل عیسیٰ ابن مریم الدجالَ)
چنانچہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے 23 مارچ 1889ء میں لدھیانہ میں جہاں دجال(عیسائی پادریوں)نے پہلا سکاٹش مشن قائم کیا تھا،احمدیت کی بنیاد رکھ کر عیسائیت کی شکست کے سامان کر دئیےاور یوں باب لدّ کی تعبیر ایک تو اس رنگ میں ظاہر ہوئی۔دوسرے لدّ کے معنے بحث کرنے کے ہیں۔چنانچہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے عیسائیوں کو بحث و مناظرہ کے میدان میں بھی شکست دی۔
پھران کے ساتھ جنگ مقدس کے مناظرہ میں علمی شکست۔۔۔۔۔
عیسائی پادری عبد اللہ آتھم اور ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت سے قتل دجّال کا منظر نامہ واضح ہو کر سامنے آیا۔
اب مسیح موعود کی زیارت کی خواہش کرنے والے انبیاء کا ذکر:۔
حضرت محمد مصطفیٰﷺ:
رسول اللہﷺ نے امت کے دو افراد کو محبت و اشتیاق سے سلام بھیجا۔ایک حضرت اویس قرنیؒ اور دوسرےمسیح موعود۔اور فرمایا:‘‘جب وہ مسیح آئے تو اس کی بیعت کرنا خواہ برف کے تودوں سے گھٹنوں کے بل جانا پڑے اور فرمایا ہر مومن پر اس کی نصرت واجب ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:۔۔۔قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا ‘‘ قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَسْنَا بِإِخْوَانِكَ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَإِخْوَانِي الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ، وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ
(مسند احمدجزء13 ص373)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرةؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ فرمایا:
‘‘میری دلی تمنا ہے کہ کیا ہی خوب ہوتا جو ہم اپنے بھائیوں کو ان آنکھوں سے دیکھ لیتے۔صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں۔آپ نے فرمایا تم تو میرے صحابہؓ ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے اور میں حوض کوثر پر ان کا پیش رو ہوں گا۔’’
حضرت موسیٰؑ:
مجدد دسویں صدی امام علامہ حافظ جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ)نے اپنی کتاب ‘‘الخصائص الکبریٰ’’میں یہ حدیث درج کی ہے۔جس کا ترجمہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب ‘‘نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب’’ سے پیش ہے جس میں آنحضرتﷺ کی امت کےاس دور اور وقت کو دیکھنے کیحضرت موسیٰ نے بھی خواہش کی جب ضلالت کی صدیوں کو چاک کیا جائے گا اور دجال( جس کے فتنہ سے حدیث رسولﷺ کے مطابق ہر نبی نے ڈرایا تھا) قتل ہوگا۔تو ارشاد ہوا یہ فخرحضرت محمد مصطفےٰ کی امت کو ہی حاصل ہے۔انہوں نے اس امت کا نبی بننے کی خواہش کی تو ارشاد ہوا ‘‘نبیّھا منھا’’اس کا نبی اسی میں سے ہوگا۔
(الخصائص الکبریٰ جزء اول صفحہ 12)
مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ‘‘نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب’’میں اس حدیث کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے رب مجھ کو اس امت کا نبی بنا دیجیے۔ارشاد ہوا اس امت کا نبی اسی میں سے ہوگا۔عرض کیا کہ تو مجھ کو ان(محمدؐ) کی امت میں سے بنا دیجیے ارشاد ہوا کہ تم پہلے ہو گئے وہ پیچھے ہونگے۔البتہ تم کو اور ان کو دارالجلال (جنت) میں جمع کر دوں گا۔’’
(نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صفحہ262)
حضرت دانیال نبی (جن کا زمانہ 622 قبل مسیح ہے)نےتو واضح طور پر اس آنے والے کا سن ظہور تک بتلا دیا جب کہا:
‘‘اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے دن ہونگے۔مبارک ہے وہ جو ایک ہزار تین سو پینتیس روز تک انتظار کرتا ہے۔’’
(دانی ایل باب 12 آیات11-12)
حضرت دانیال کی پیشگوئی میں دن سے مراد سال ہے اور وہ ہجری سال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 1290ھ کا سال اسلامی فتح اور غلبہ کا سال ہوگا۔اور یہ عجیب بات ہے کہ اسی سال حضرت مرزا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا۔جب یہود سوختنی قربانی ظاہری و باطنی لحاظ سے ترک کر چکے تھے پھر دانیال نبی نے کس اشتیاق سے ان لوگوں کو مبارک قرار دیا جو 1335 تک انتظار کریں۔اس سے مراد مسیح موعود کی وفات اور اس کے بعد آپ کے موعود بیٹے کی خلافت تھی۔چنانچہ 1326ھ میں آپ فوت ہوئے اور 1335ھ میں آپ کا موعود بیٹا حضرت مصلح موعودؓ خلافت پر متمکن ہوچکا تھا۔
جیسا کہ وہ فرماتا ہے((یوم یأتی ربک فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ))یعنی اُس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا،یعنی انسانی مظہرکےذریعہ سےاپناجلال ظاہرکرےگااوراپناچہرہ دکھلائےگا
اعتراض:۔
‘‘اور میرے وقت میں فرشتوں اور شیاطین کا آخری جنگ ہے اور خدا اس وقت وہ نشان دکھائے گا جو اُس نے کبھی نہیں دکھائے۔گویا خدازمین پر خود اُتر آئے گا جیسا کہ وہ فرماتا ہے((یوم یأتی ربک فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ))یعنی اُس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا،یعنی انسانی مظہرکےذریعہ سےاپناجلال ظاہرکرےگااوراپناچہرہ دکھلائےگا۔’’
(حقیقۃ الوحی ۔خزائن ،جلد22 ص158)
مرزا جی نے اللہ تعالیٰ پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے۔یہ آیت کون سے پارے کی ہے؟ ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔حوالہ پیش کریں۔
جواب :۔
اصل عبارت
‘‘جیسا کہ دانیال نبی نے بھی لکھا ہے میرا آنا خدا کے کامل جلال کے ظہور کا وقت ہے اور میرے وقت میں فرشتوں اور شیاطین کا آخری جنگ ہے۔ اور خدا اس وقت وہ نشان دکھائے گا جو اُس نے کبھی دکھائے نہیں گویا خدا زمین پر خود اُتر آئے گا جیسا کہ وہ فرماتا ہےهَلْ يَنْظُرُونَ إِلا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ (البقرة:211)یعنی اُس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا یعنی انسانی مظہر کے ذریعہ سےاپناجلال ظاہرکرےگااوراپناچہرہ دکھلائےگا۔’’
(حقیقة الوحی ص154،روحانی خزائن جلد22 ص158)
جواب
اس جگہ بھی معترض نے تحقیق میں دیانت سے کام نہیں لیا، کیونکہ پہلے ایڈیشن میں اگر ایک آیت میں سہواً لفظی غلطی ہوگئی تو دوسرے ایڈیشن میں اسے درست کر دیا گیا۔چاہیے تو یہ تھا کہ معترض دوسرےایڈیشن کا بھی حوالہ دیتے کہ درستی ہوگئی۔یہ تو تراویح میں حافظ کی غلطی کی طرح ہے۔
الانسان مرکب السھو والنسیان۔
انسان سہو اور بھول چوک کا مرکب ہے۔انبیاء بھی بشر ہوتے ہیں۔جیسا کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِى
(صحیح بخاری ابواب القبلة باب التوجه نحو القبلة حيث كان،صحیح مسلم)
یقیناً میں بھی تمہاری طرح کا بشر ہوں، میں بھی بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو۔پس جب میں کچھ بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو۔
پس سہو کو لے کر اعتراض کرنا نہایت نادانی ہے۔اگر نبی کریمﷺ سے سہو و نسیان ہو سکتا ہے تو کسی اور پر یہ اعتراض کرنا درست نہیں۔
‘‘تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ ابو ہریرة(رضی اللہ عنہ) فہم قرآن میں ناقص تھا۔’’
اعتراض:۔
‘‘تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ ابو ہریرة(رضی اللہ عنہ) فہم قرآن میں ناقص تھا۔’’
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ،خزائن جلد 21 ص410)
مرزا جی نے جھوٹ بولا ہے۔تفسیر ثنائی میں یہ بالکل نہیں لکھا۔حوالہ پیش کریں۔
جواب:۔
یہ اعتراض بھی معترض کی لاعلمی کا شاہکار ہے۔ان کے محدود علم میں صرف اپنے بزرگ اہلحدیث عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی ہی ہے۔ بے چاروں کویا یہ علم ہی نہیں یا تجاہل عارفانہ ہےکہ مولوی ثناء اللہ پانی پتی صاحب نے بھی ایک تفسیر قرآن لکھی ہے،جسے تفسیر مظہری بھی کہتے ہیں۔حضرت مرزا صاحب نے اس جگہ اس کاتفسیر ثنائی کے نام سے حوالہ دیا۔یہ ایسےہی ہےجیسے امام بخاری کی جامع الصحیح المسندکو ان کے نام پر بخاری اور امام رازی کی تفسیر کبیر کو تفسیر رازی کہہ دیا جائے تو کوئی صاحب علم و عقل اسے جھوٹ قرار نہیں دے گا۔
اب اس جگہ تفسیر مظہری میں موجود اس حوالہ کو اس لیے جھوٹا قرار دینا کہ اس کا نام مصنف کے نام پر تفسیر ثنائی کیوں لیا ایک ظالمانہ تہمت ہے۔اور ان کے باقی جھوٹوں کا پول بھی کھل گیا ہے۔
معترض حوالہ کا انکار کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتا کہ تفسیر مظہری کا نام تفسیر ثنائی معروف نہیں اس لیے سہو ہوگیا۔جو قابل اعتراض نہیں۔مگر جھوٹ کا الزام لگا کر خود شرمسار ہوئے۔
اب آئیے اصل حوالہ کی طرف جس کا تعلق سورة نساء کی آیت 160 وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ سے ہے۔ کو مولوی ثناء اللہ پانی پتی صاحب نے حضرت ابوہریرةؓ کی بیان کردہ تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت سے حضرت عیسیٰ کی زندگی مراد لینا ابو ہریرةؓ کا ذاتی خیال ہے۔کسی حدیث مرفوع میں اس کا ذکر نہیں اس لحاظ سے یہ تفسیر درست نہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
‘‘اور (اس آیت میں)دوسری ضمیر(یعنی قبل موتہ) کو حضرت عیسیٰ کی طرف راجع کر کے آیت کی وہ تفسیر کی جا سکتی ہے جس سے مضمون مذکور کا استفادہ ہوسکے۔یہ بات قابل تسلیم نہیں۔صرف حضرت ابو ہریرةؓ کا خیال اور رائےہے۔کسی صحیح مرفوع حدیث میں مذکور نہیں۔اور نہ یہ تشریح درست ہے۔کیونکہ اس تفسیر پر توصرف ان اہل کتاب کے مومن ہو جانے کی پیشنگوئی ہوگی جو نزول کے بعد حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں ہونگے۔۔۔’’
(تفسیر مظہری جلد سوم ص 326ترجمہ اردو از مولوی سید عبد الدائم الجلالی رفیق ندوة المصنفین۔ناشر دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
اس آیت کی نہایت اعلیٰ درجہ کی لطیف تفسیر کرتے ہوئے حضرت مرزا صاحب نے وفات عیسیٰ کا لاجواب مضمون جس خوبصورت رنگ میں بیان فرمایا ہے،معترض نے پورا حوالہ درج نہ کر کے اس نہایت عالی شان مضمون کا خون کردیا ہے یہ مضمون جو پڑھنے اور سننے کے لائق ہے۔حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:
‘‘بعض لوگ محض نادانی سے یا نہایت درجہ کے تعصّب اور دھوکا دینے کی غرض سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی پر اس آیت کو بطور دلیل لاتے ہیں کہ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِااور اس سے یہ معنے نکالنا چاہتے ہیں کہ اس وقت تک حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوں گے جب تک کل اہل کتاب اُن پر ایمان نہ لے آویں ۔ لیکن ایسے معنے وہی کرے گا جس کو فہم قرآن سے پورا حصہ نہیں ہے ۔ یاجودیانت کے طریق سے دور ہے ۔ کیونکہ ایسے معنے کرنے سے قرآن شریف کی ایک پیشگوئی باطل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہےفَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(المائدة:15)دوسری جگہ فرماتا ہے ۔ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(المائدة:65)اورپھر ۔ان آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قیامت تک یہود اور نصاریٰ میں دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے پس اگرؔ آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ قیامت سے پہلے تمام یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لے آئیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کسی وقت یہودونصاریٰ کا بغض باہمی دور بھی ہوجائے گا اور یہودی مذہب کا تخم زمین پر نہیں رہے گاحالانکہ قرآن شریف کی اِن آیات سے اور کئی اور آیات سے ثابت ہوتاہے کہ یہودی مذہب قیامت تک رہے گا ۔ ہاں ذلت اور مَسکنت ان کے شامل حال ہوگی اور وہ دوسری طاقتوں کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے ۔ پس آیت ممدوحہ بالا کاصحیح ترجمہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اہل کتاب میں سے ہے وہ اپنی موت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آویں گے۔ غرض موتہٖ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ حضرت عیسیٰ کی طرف اسی وجہ سے اس آیت کی دوسری قراء ت میںمَوتھم واقع ہے۔اگر حضرت عیسیٰ کی طرف یہ ضمیر پھرتی تو دوسری قراء ت میں موتھم کیوں ہوتا ؟ دیکھو تفسیر ثنائی کہ اس میں بڑے زور سے ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی معنے ہیں مگر صاحب تفسیر لکھتا ہے کہ ’’ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔۔۔۔الخ’’
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ،روحانی خزائن جلد 21 ص410رقم فرمودہ 1905ءمطبوعہ1908ء)
اگر معترض کو بلا تحقیق اعتراض کی عادت نہ ہوتی تو وہ حضرت مرزا صاحب کی کتاب ‘‘حمامۃ البشریٰ’’روحانی خزائن جلد 7 ص240 کو ہی دیکھ لیتے جہاں حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم کی اشاعت سےقریباً12سال قبل یہی حوالہ تفسیر مظہری کے نام سے دیا ہے۔اگر بعد کی کسی کتاب میں یہ حوالہ مصنف کے نام کی مناسبت سےتفسیر ثنائی کے طور پر آگیا تو اس سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ اگرکوئی قیامت ٹوٹی ہے تو وہ معترض کے جھوٹ اور تہمت باندھنے کی قیامت ضرور ہے جس سے الامان والحفیظ اور خدا کی پناہ!!!
معترضین کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے قرآن و حدیث کی طرف منسوب کر کے جو پیشگوئیاں بتائی ہیں وہ جھوٹ ہیں اور قرآن و حدیث میں ایسی پیشگوئیاں نہیں ہیں۔
اعتراض:۔
معترضین کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے قرآن و حدیث کی طرف منسوب کر کے جو پیشگوئیاں بتائی ہیں وہ جھوٹ ہیں اور قرآن و حدیث میں ایسی پیشگوئیاں نہیں ہیں۔
‘‘لیکن ضروری تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی پیش گوئیاں پوری ہوتیں جس میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو:
1۔اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔
2۔وہ اس کو کافر قرار دیں گے۔
3۔اور اس کے قتل کے فتوے دئیے جائیں گے۔
4۔اور اس کی سخت توہین ہوگی۔
5۔اور اس کو دین اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔سو ان دنوں میں وہ پیشگوئی انہی مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی۔’’
(اربعین نمبر3ص17 ،خزائن جلد 17 ص404)
مسیح موعود کے متعلق یہ پیش گوئیاں نہ تو قرآن عزیز میں مذکور ہیں اور نہ ہی احادیث میں ان کا کہیں ذکر ہے۔مرزا جی نے یہاں جی بھر کر جھوٹ بولا ہے اور اپنے کاذب ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
جواب:۔
اصل عبارت
‘‘لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اس کو کافر قرار دیں گے اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیئے جائیں گے اور اس کی سخت توہین کی جائے گی اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔ سو ان دنوں میں وہ پیشگوئی انہی مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی۔’’
(اربعین نمبر3ص17 ،روحانی خزائن جلد 17 ص404)
جواب
معترض نےجس طرح اعتراضوں کے نمبر بڑھانے کے لیے جس طرح سہو کتابت وغیرہ کے اعتراض الگ الگ اٹھائے ہیں۔اب سوالوں کےنمبر بڑھانے کے لیے 5 نمبر دئیے ہیں۔اور اس ایک تین سطری عبارت میں چھ6جگہ تحریف لفظی کا ارتکاب کیا ہے۔کیا اسی کا نام دیانت ہے؟ اور اگر یہ سہو کاتب ہے تو کس منہ سے مرزا صاحب کی کتابوں سےسہو نکال نکال کر اعتراض کرتے ہیں۔
مخالفت سنت الہٰی :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب:62)۔قرآن کو سوچ سمجھ کر پڑھنے والے اولی الالباب کے لیے اس کے بیان کردہ واقعات میں پیشگوئیاں اور عبرت کے سامان موجود ہیں۔چنانچہ فرمایا :
لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
(یوسف:111)
قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ہر نبی سے دشمنی کی گئی۔
1۔انبیاء کا اکابر قوم سے دکھ اٹھانا:
(i) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (الانعام:123)
(ii) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ(الانعام :113)
(iii)كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ(المومن:6)
2۔ حضرت موسیٰ کے لیے فتویٔ تکفیر:
وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ(الشعراء: 20)
3۔ قتل:
كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ (المائدة:70) وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ(البقرة:62)
4۔ استہزاء:
يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ(یٰس:31)جیسے ذلیل هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ (ہود 28)اور اقلیت کے اعتراض إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ (الشعراء 56-55)
5۔ دین کا تباہ کرنے والا سمجھنا: قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (الاعراف:71)
پس حضرت مرزا صاحب کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو پہلے انبیاء کے ساتھ ہوتا رہا:
مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ(حم السجدة :44)
ازروئے قرآن:
حضرت مرزا صاحب نے اس اعتراض کا جواب اپنی کتب میں قرآن کی رو سے خود دیا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘اگر دنیا مجھے نہیں پہچانتی تو کچھ تعجب نہیں کیونکہ ہر ایک چیز جو بہت دور اور بہت بلند ہے اس کا پہچاننا مشکل ہے۔ میں کبھی امید نہیں کرتا کہ دنیا مجھ سے محبت کرے کیونکہ دنیا نے کبھی کسی راستباز سے محبت نہیں کی۔ مجھے اس سے خوشی ہے کہ مجھے گالیاں دی گئیں دجّال کہا گیا کافر ٹھہرایا گیا کیونکہ سورۃ فاتحہ میں ایک مخفی پیشگوئی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح یہودی لوگ حضرت عیسیٰ کو کافرؔ اور دجّال کہہ کر مغضوب علیہم بن گئے بعض مسلمان بھی ایسے ہی بنیں گے۔ اِسی لئے نیک لوگوں کو یہ دُعا سکھلائی گئی کہ وہ منعم علیہم میں سے حصہ لیں اور مغضوب علیہم نہ بنیں۔’’
(نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 ص414)
اسی طرح سورة فاتحہ سے استنباط کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘قرآن نے بہت سی امثال بیان کرکے ہمارے ذہن نشین کردیا ہے کہ وضع عالم دوری ہے اور نیکوں اور بدوں کی جماعتیں ہمیشہ بروزی طور پر دُنیا میں آتی رہتی ہیں وہ یہودی جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے۔ خدا نے دُعاغیر المغضوب علیھم سکھلاکراشارہ فرمادیاکہ وہ بروزی طورپراس اُمّت میں بھی آنےوالے ہیں تابروزی طورپروہ بھی اس مسیح موعود کو ایذا دیں جو اِس اُمّت میں بروزی طورپرآنےوالا ہے۔’’
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 ص484)
آیت استخلاف میں مسلمانوں میں ایسے خلفاء پیدا ہونے کا وعدہ اور پیشگوئی ہے جیسے پہلی قوموں میں پیدا ہوئے تھے۔ایسے موعود خلیفہ کی آمد پر اس کی بھی اسی طرح تکفیر ہونی تھی جیسے پہلے نبیوں،رسولوں اور خلیفوں کی ہوئی۔حضرت مرزا صاحب اسی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘و من کفر بعد ذالک فاولٰئک ھم الفاسقون۔(النور:57)۔۔۔ پس اس آیت سے سمجھا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی کیونکہ وہ خلافت کے اس آخری نقطہ پر ہے جو خلافت کے پہلے نقطہ سے ملا ہوا ہے۔’’
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 ص190-191)
از روئے احادیث:
عن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابی
(سنن ترمذی کتاب الایمان باب افتراق الامة)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت بھی یہود و نصاریٰ کے مشابہ ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔یہود 72 فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔
جس طرح یہود کی طرف اصلاح کے لیے مسیح کو بھیجا گیا ویسے ہی امت محمدیہ جو گمراہ ہو گر مثل یہود ہو جائے گی اس کی اصلاح کے لیے مثل یہود کو بھیجا جائے گا۔یہود نے مسیحؑ کا انکار کیا،اس کو دکھ دئیے،قتل کے منصوبے بنائے اور کفر و ارتداد کے فتوے لگائے۔اسی طرح اس دور کے مثل یہودمسلمان جن کے بارہ میں علامہ اقبال نے کہا:
وضع میں تم نصاریٰ ہو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
نبی کریمﷺ نے آنیوالے مسیح کو مہدی کا لقب عطا کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلًا۔۔۔’’
(مسند احمد جزء15 ص187)
‘‘لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ’’ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان)
تکفیرمہدی اور بزرگان امت:
1۔ حضرت امام محی الدین ابن عربی ؒفرماتےہیں:
‘‘و اذا خرج ھذاالامام المھدی فلیس لہ عدو مبین الاالفقہاء خاصۃ فانہ لا یبقی لھم ریاسۃ ولا تمیز عن العامۃ’’
(فتوحات مکیہ جلد 3صفحہ374)
یعنی جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اسکے سب سے زیادہ شدید دشمن اس زمانہ کے علماء اور فقہاء ہوں گے ۔کیونکہ اگر وہ مہدی کو مان لیں تو انہیں عوام کی سرداری اور امتیاز باقی نہ رہے گا۔
2۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒفرماتےہیں:
‘‘یعنی علماء ظواہر امام مہدی علیہ السلام کے اجتہادات کا انکار کریں گے اور ان کو قرآن مجید اور سنت نبوی کے خلاف قراردیں گےکیونکہ وہ بباعث کمال دقیق ہونےاور انکے ماخذ کے مخفی ہونے کے علماء کی سمجھ سے بالا ہوں گے۔’’
(مکتوبات امام ربانی جلد 2صفحہ: 107۔مکتوب نمبر:55)
3۔نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:
‘‘چوں مہدی علیہ السلام مقاتلہ بر احیائے سنت و اماتت بدعت فرمائد علماء وقت کہ خوگر تقلید فقہاء و اقتدائے مشائخ و آباء خود باشند گویند ایں مرد خانہ بر انداز دین و ملت ما است و بمخالفت بر خیزند و حسب عادت خود حکم بتکفیر و تضلیل دہ کنند’’
(حجج الکرامہ :363)
جب امام مہدی علیہ السلام سنت کو زندہ کرنے کے لئے اور بدعت کو مٹانے کے لئے جدوجہدکریں گے تو علماء وقت جو فقہاء اور مشائخ اور آباء کی تقلید کے عادی ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین و مذہب کو برباد کرنے والا ہے۔اور مخالف میں اٹھ کھڑے ہوں گے۔اور اپنی عادت کے مطابق اسے گمراہ اور کافر ٹھہرائیں گے۔
4۔ابوالخیر نواب نور الحسن خان صاحب تحریر کرتے ہیں:
‘‘انکے دشمن علماء اہل اجتہاد ہوں گے ۔اسلئے کہ انکو دیکھیں گے کہ خلاف مذہب آئمہ حکم کرتے ہیں ….ان کا دشمن کھلم کھلا کوئی نہ ہو گامگر یہی فقہ والے بالخصوص’’
(اقتراب الساعۃ:224)
نیز لکھتے ہیں:
‘‘یہی حال امام مہدی کا ہو گا کہ اگر وہ آگئے سارے مقلد بھائی انکے دشمن جانی بن جاوینگے اورانکے قتل کی فکر میں ہوں گے کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے’’
(اقتراب الساعۃ :95۔224)
‘‘انکے دشمن علماء اہل اجتہاد ہوں گے ۔اسلئے کہ انکو دیکھیں گے کہ خلاف مذہب آئمہ حکم کرتے ہیں ….ان کا دشمن کھلم کھلا کوئی نہ ہو گامگر یہی فقہ والے بالخصوص’’
(نجم الثاقب مصنفہ از۔۔۔۔۔ ص95)
5۔علامہ سید محمد عباس زیدی الواسطی لکھتے ہیں:
‘‘پہلے تو فقہاء عالم ہی بربنائے عدم معرفت اس جناب کے قتل کا فتوی دیں گے ’’
(آثار قیامت و ظہور حجت حصہ 2صفحہ 59)
6۔ایک مرتبہ ایک شخص حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام(حضرت علیؓ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔یا امیر المؤمنینؑ! مجھے آپؑ اپنے مہدیؑ کے متعلق کچھ بتائیے؟
‘‘فقال: اذا درج الدَّارِجُون، وَ قَلَّ المُومِنُون، وَذَھَبَ المُجلبُون فَھُنَاکَ: یا امیر المؤمنین علیک السّلام مِمَّنِ الرَّجُل؟فَقَالَ:۔۔۔ مَجْفُوِّاَھْلِہَا اذا اتت ۔۔۔لا یجبن اذ ا المنایا ھلعت۔۔۔جب وہ (امام مہدیؑ)ظاہر ہو ں گے تو خود انکی قوم ان پر آمادہ جفا ہو گی۔۔۔۔موت آنے کے لئے بے چین ہو گی مگر وہ اسکی پرواہ نہ کریں گے۔’’
(بحار الانوار مترجم ترتیب و تدوین اے-ایچ-رضوی جلد:11صفحہ213-212)
7۔حضر ت امام باقر کا قول ہے کہ جب امام مہدی قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو پیش کریں گے ‘‘تو اکثر لوگ اسکے ماننے سے انکار کریں گے’’
(کافی بحوالہ بحار الانوار مترجم جلد 11صفحہ 122)
ناظرین! اب قرآن و حدیث اور بزرگان امت کے یہ سب حوالہ جات ملاحظہ فرمانے کے بعد آپ ہی انصاف فرمائیے کہ معترض کا جھوٹ کا اعتراض کیسے ھباءاً منثوراً ہوگیا۔ اور کھل گیا کہ کس نے جی بھر کے جھوٹ بولا ہے اور اپنے کاذب ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔بلکہ معترض کے باقی جھوٹوں کی حقیقت بھی آشکار ہوئی۔ اور حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت ہوئی۔
معترضین کہتے ہیں کہ حضورؑ نے اقتباس الانوار کا حوالہ مکمل درج نہیں کیا اور اس سے اپنی مرضی کا مقصد نکالا ہے۔
اعتراض:۔
‘‘ایک گروہ اکابر صوفیہ نے نزول جسمانی سےانکارکیا ہے اور کہا ہے کہ نزول مسیح موعود بطور بروز کے ہو گا۔ چنانچہ‘‘اقتباس الانوار’’ میں جو تصنیف شیخ محمد اکرم صابری ہے جس کو صوفیوں میں بڑی عزّت سے دیکھا جاتا ہے جو حال میں مطبع اسلامی لاہور میں ہمارے مخالفوں کے اہتمام سے چھپی ہے ،یہ عبارت لکھی ہے:
‘‘روحانیت کُمّل گا ہے برار باب ریاضت چناں تصرف می فرما ید کہ فاعل افعال شاں می گردد۔ و ایں مرتبہ را صوفیہ بروز می گویند۔۔۔۔۔۔۔و بعضے برا نند کہ رُوحِ عیسیٰ در مہدی بروز کند۔ و نزول عبارت از ہمیں بروز است مطابق ایں حدیث کہ لا مہدی الّاعیسی’’
(ایام الصلح ص138،خزائن جلد 14 ص383)
حالانکہ اس عبارت میں ہے کہ ایں مقدمہ بہ غایت ضعیف است۔مرزا جی نے ایں مقدمہ بہ غایت ضعیف است کو چھوڑ کر بہت بڑی بددیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘اقتباس الانوار’’میں سے مطلب کی عبارت لے لی اور جو مطلب کی نہ تھی چھوڑ دی۔خیانت! خیانت!! خیانت!!!
کیا راست باز اور سچے کا یہی کام ہے کہ اپنے مطلب کو ثابت کرنے کے لیے دھوکہ دے؟ صرف اس خیال سے کہ کون اصل کتاب کو دیکھے گا۔یہ ہے تمہارے نبی کا حال۔آدھی عبارت لکھ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرے اوراس بات کو گناہ نہ سمجھے۔بھلا کوئی ایماندار ایسا دھوکہ دیتا ہے اور پھر نبی دھوکہ دے،ایسا ہو سکتا ہے؟ جو شخص ایک بات کو ضعیف کہہ رہا ہے، کہ اسی کو اس کی عبارت کا حصہ چھوڑ کر کہا جائے کہ اس کا بھی یہ مذہب تھا۔کتنا بڑا ظلم ہے۔کیا یہ نبی کی شان ہے کہ لوگوں کو دھوکہ دے؟
جواب:۔
معترض نے اپنے سولہویں اعتراض میں حضرت مرزا صاحب پر خیانت کا جو الزام لگایا ہے اس پر وہی مثل صادق آتی ہے کہ ‘‘چہ دلاور است دزدےکہ بکف چراغ دارد’’۔ معترض نے خود اس خیانت کا ارتکاب کیاکہ اصل فارسی عبارت کا مضمون نقطے دے کر حذف کر دیا تا کہ بات نہ کھل جائے۔
حالانکہ مصنف علامہ اکرم صابری نے اس عبارت میں بروز کا مضمون تسلیم کرتے ہوئے شارح فصوص الحکم کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق بروز کی مثال آدم ہیں جوحضرت محمد ﷺ کے بروز کے طور پر آغاز میں تشریف لائے اور یوں محمد مصطفیٰﷺ کی روحانیت آدم میں تجلّی فرما ہوئی اور آخر میں بھی اسی طرح ہوگا کہ آپ خاتم الولایت مہدی کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور محمد مصطفےٰﷺ کی روحانیت ظہور و بروز کر کے تصرف دکھائے گی۔ان کو کاملوں کےبروز کہتے ہیں۔اور یہ تناسخ نہیں ہے۔
بروز کے متعلق یہاں تک کی عبارت جس سے مصنف کو اتفاق ہے اسے معترض نے ازراہِ تحریف حذف کرکے خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔اور صرف آخری دوفقرات یامنطق کی اصطلاح میں قضیے یا مقدمات درج کیے ہیں۔اول یہ کہ روح عیسیٰ مہدی میں بروز کرے گی۔دوسرے نزول عیسیٰ سے مراد یہی بروز (مہدی) ہے۔جیسا کہ حدیث لاالمہدی الا عیسٰی میں ہے۔
مصنف نےاس دوسرے مقدمہ کو بھی ڈرتے ڈرتے ضعیف قرار دیتے ہوئے جس احتیاط اور خدا ترسی سے کام لیا،اس میں خیانت کرتے ہوئے معترض نے اسے بھی حذف کر دیا کیونکہ اس کے بعد واللہ اعلم کہہ کر انہوں نے اپنی رائے کی کمزوری کا خود اعتراف بھی کر لیا کیونکہ یہ ضعف حدیث کی طرف منسوب ہوتا تھا جو حدیث رسول ؐہے۔
کیونکہ بعض اہل حدیث نے ابن ماجہ کی اس حدیث کے ایک راوی محمد بن خالدکی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا ہے لیکن دوسری احادیث جوبخاری(إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ) اورمسند احمد(حضرت ابو ہریرةؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے وہ دیکھے کہ عیسیٰ بن مریم امام مہدی بن کر تشریف لائیں گے۔(مسند احمد جلد2ص411۔بیروت))وغیرہ کی تائید سے یہ حدیث قوی اور مضبوط ہو جاتی ہے۔اور ضعیف نہیں رہتی۔مقدمہ کے الفاظ علم منطق کے اعتبار سے قضیۂ کبریٰ یا صغریٰ کے لیے بولے جاتے ہیں اور اسی معنی میں آخری فقرہ کے لیے مصنف نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں جسے معترض کم فہمی سے ساری عبارت کے بارہ میں خیال کر کے خیانت کا الزام لگاتا ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے کہ بلاتوقف اس شہر کو چھوڑ دیں۔ ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے
اعتراض:۔
‘‘آنحضرتﷺ نے فرمایا جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے کہ بلاتوقف اس شہر کو چھوڑ دیں۔ ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔’’
(اشتہار تمام مریدوں کے لیے عام ہدایت مندرجہ الحکم 24 اگست 1907ء،مجموعہ اشتہارات جلد 2 ص813)
یہ بات آپﷺ پر بہت بڑا افتراء ،جھوٹ اور بہتان ہے جسے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
جواب:۔
معترض نے لا تقربوا الصلوة کی طرح صرف دو سطروں کا حوالہ پیش کیا ہے،پوری عبارت پیش نہیں کی جس میں مکمل وضاحت مع حوالہ موجود ہے۔
اب اصل عبارت ملاحظہ فرمائیے:
اصل عبارت
‘‘جب کسی گاؤں یا شہر کے کسی محلہ میں طاعون پیدا ہو تو یہ بہترین علاج ہے کہ اس گاؤں یا اس شہر کے اس محلہ کے لوگ جن کا محلہ طاعون سے آلودہ ہے فی الفور بلا توقف اپنے اپنے مقام کو چھوڑ دیں اور باہر جنگل میں کسی ایسی زمین میں جو اس تاثیر سے پاک ہے رہائش اختیار کریں سو میں دلی یقین سے جانتا ہوں کہ یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور مجھے معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔ عذاب کی جگہ سے بھاگنا انسان کی عقلمندی میں داخل ہے۔ کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ جب خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتوحات ملک شام کے بعد اس ملک کو دیکھنے کے لیے گئے تو کسی قدر مسافرت طے کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس ملک میں سخت طاعون کا زور ہے تب حضرت عمرؓ نے یہ بات سنتے ہی واپس جانے کا قصد کیا اور آگے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا تب بعض لوگوں نے عرض کی کہ یا خلیفۃ اللہ کیوں آپ ارادہ کو ملتوی کرتے ہیں۔ کیا آپ خدا کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں ایک تقدیر سے بھاگ کر دوسری تقدیر کی طرف جاتا ہوں۔ سو انسان کو نہیں چاہیے کہ دانستہ ہلاکت کی راہ اختیار کرے’’
(الحکم 24اگست 1907ء زیر عنوان تمام مریدوں کے لیے عام ہدایت ومجموعہ اشتہارات جلد 2 ص813)
معترض نے جان بوجھ کر یہاں پر ادھوری عبارت لکھی ہے۔ اور تحریر کا وہ حصہ جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے، جان بوجھ کر چھوڑ دیا ہے۔ دھوکہ، فریب یا جھوٹ بولنا معترض کے ہر اعتراض میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”فی الفور بلا توقف اپنے اپنے مقام کو چھوڑ دیں اور باہر جنگل میں کسی ایسی زمین میں جو اس تاثیر سے پاک ہے رہائش اختیار کریں” حضور نے یہاں کہیں پر بھی شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا گاؤں میں جانے کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ شہر یا گاؤں کی ملحقہ اراضیات میں جانے کا فرمایا ہے جس کی تاثیر پاک ہو اور یہ بات واضح طور پر احادیث میں پائی جاتی ہے۔
تائیدی حوالہ جات
1۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، قَالَ: لَمَّا وَقَعَ الطَّاعُونُ بِالشَّامِ، خَطَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ النَّاسَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الطَّاعُونَ رِجْسٌ، فَتَفَرَّقُوا عَنْهُ فِي هَذِهِ الشِّعَابِ وَفِي هَذِهِ الْأَوْدِيَةِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ شُرَحْبِيلَ بْنَ حَسَنَةَ قَالَ: فَغَضِبَ فَجَاءَ وَهُوَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ مُعَلِّقٌ نَعْلَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ: ‘‘صَحِبْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمْرٌو أَضَلُّ مِنْ حِمَارِ أَهْلِهِ، وَلَكِنَّهُ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ، وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ، وَوَفَاةُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ ’’
(مسند احمد جزء29 ص288)
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ: وَقَعَ الطَّاعُونُ بِالشَّامِ فَخَطَبَنَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الطَّاعُونَ رِجْسٌ فَفِرُّوا مِنْهُ فِي الْأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ شُرَحْبِيلَ ابْنَ حَسَنَةَ فَقَالَ: «كَذَبَ عَمْرٌو، صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمْرٌو أَضَلُّ مِنْ جَمَلِ أَهْلِهِ، وَلَكِنَّهُ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَفَاةُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ»
(مستدرک حاکم جزء3 ص311)
جب شام میں طاعون ہوئی تو حضرت عمر بن العاص نے اہل شام سے کہا کہ کہ یہ طاعون خبیث ہے۔پس تم گھاٹیوں اور میدانوں میں پھیل جاؤ۔
2۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الأَجْنَادِ، أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّأْمِ. ۔۔۔ فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلاَ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ. قَالَ أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ هَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ، إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ، وَالأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟
(بخاری کتاب الطب بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الطَّاعُونِ)
3۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِى وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى الطَّاعُونِ فَقَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الطَّاعُونُ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أُرْسِلَ عَلَى بَنِى إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ». وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ « لاَ يُخْرِجُكُمْ إِلاَّ فِرَارٌ مِنْهُ ».
(صحیح مسلم کتاب السلام باب الطَّاعُونِ وَالطِّيَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا)
4۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ عَامَ تَبُوكَ نَزَلَ بِهِمُ الْحِجْرَ عِنْدَ بُيُوتِ ثَمُودَ، فَاسْتَسْقَى النَّاسُ مِنَ الْآبَارِ الَّتِي كَانَ يَشْرَبُ مِنْهَا ثَمُودُ، فَعَجَنُوا مِنْهَا، وَنَصَبُوا الْقُدُورَ بِاللَّحْمِ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهَرَاقُواالْقُدُورَ، وَعَلَفُوا الْعَجِينَ الْإِبِلَ، ثُمَّ ارْتَحَلَ بِهِمْ حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ عَلَى الْبِئْرِ الَّتِي كَانَتْ تَشْرَبُ مِنْهَا النَّاقَةُ، وَنَهَاهُمْ أَنْ يَدْخُلُوا عَلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ عُذِّبُوا قَالَ :إِنِّي أَخْشَى أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ، فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ
(مسند احمد جزء10ص191)
5۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہے:
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة:196)
6۔ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (النساء:30)
ابو زكريا محي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676ھ) اپنی کتاب‘‘المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج’’ میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
‘‘فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ مَنْعُ الْقُدُومِ عَلَى بَلَدِ الطَّاعُونِ وَمَنْعُ الْخُرُوجِ مِنْهُ فِرَارًا مِنْ ذَلِكَ أما الخروج لعارض فلابأس بِهِ وَهَذَا الَّذِي ذَكَرْنَاهُ هُوَ مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ الْجُمْهُورِ قَالَ الْقَاضِي هُوَ قَوْلُ الْأَكْثَرِينَ قَالَ حتى قالت عائشةالفرار مِنْهُ كَالْفِرَارِ مِنَ الزَّحْفِ قَالَ وَمِنْهُمْ مَنْ جَوَّزَ الْقُدُومَ عَلَيْهِ وَالْخُرُوجَ مِنْهُ فِرَارًا قَالَ وروى هَذَا عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنَّهُ نَدِمَ عَلَى رُجُوعِهِ مِنْ سَرْغٍ وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَمَسْرُوقٍ وَالْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ أَنَّهُمْ فَرُّوا مِنَ الطَّاعُونِ وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فِرُّوا عَنْ هَذَا الرِّجْزِ فِي الشِّعَابِ وَالْأَوْدِيَةِ وَرُءُوسِ الْجِبَالِ فَقَالَ مَعَاذٌ بَلْ هُوَ شَهَادَةٌ وَرَحْمَةٌ وَيَتَأَوَّلُ هَؤُلَاءِ النَّهْيَ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَنْهَ عَنِ الدُّخُولِ عَلَيْهِ وَالْخُرُوجِ مِنْهُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَهُ غَيْرُ الْمُقَدَّرِ لَكِنْ مَخَافَةَ الْفِتْنَةِ عَلَى النَّاسِ لِئَلَّا يَظُنُّوا أَنَّ هَلَاكَ الْقَادِمِ إِنَّمَا حَصَلَ بِقُدُومِهِ وَسَلَامَةِ الْفَارِّ انما كانت بِفِرَارِهِ قَالُوا وَهُوَ مِنْ نَحْوِ النَّهْيِ عَنِ الطِّيَرَةِ وَالْقُرْبِ مِنَ الْمَجْذُومِ وَقَدْ جَاءَ عَنِ بن مَسْعُودٍ قَالَ الطَّاعُونُ فِتْنَةٌ عَلَى الْمُقِيمِ وَالْفَارِّ أَمَّا الْفَارُّ فَيَقُولُ فَرَرْتُ فَنَجَوْتُ وَأَمَّا الْمُقِيمُ فيقول أقمت فمت وانما فر من لميأت أَجَلُهُ وَأَقَامَ مَنْ حَضَرَ أَجَلُهُ وَالصَّحِيحُ مَا قَدَّمْنَاهُ مِنَ النَّهْيِ عَنِ الْقُدُومِ عَلَيْهِ وَالْفِرَارِ مِنْهُ لِظَاهِرِ الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ قَالَ الْعُلَمَاءُ وَهُوَ قَرِيبُ الْمَعْنَى مِنْ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم لاتتمنوا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ الِاحْتِرَازُ مِنَ الْمَكَارِهِ وَأَسْبَابِهَا وَفِيهِ التَّسْلِيمُ لِقَضَاءِ اللَّهِ عِنْدَ حُلُولِ الْآفَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَاتَّفَقُوا عَلَى جَوَازِ الْخُرُوجِ بِشُغْلٍ وَغَرَضٍ غَيْرِ الْفِرَارِ وَدَلِيلُهُ صَرِيحُ الْأَحَادِيثِ قَوْلُهُ فِي رِوَايَةِ أَبِي النَّضْرِ (لَا يُخْرِجُكُمْ إِلَّا فِرَارٌ مِنْهُ) وَقَعَ فِي بَعْضِ النُّسَخِ فِرَارٌ بِالرَّفْعِ وَفِي بَعْضِهَا فِرَارًا بِالنَّصْبِ وَكِلَاهُمَا مُشْكِلٌ مِنْ حَيْثُ الْعَرَبِيَّةِ وَالْمَعْنَى قَالَ الْقَاضِي وَهَذِهِ الرِّوَايَةُ ضَعِيفَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعَرَبِيَّةِ مُفْسِدَةٌ للمعنى
(شرح نووی جزء14 ص204تا207)
1۔قال أبو يزيد البسطاميّ رضي الله عنه في هذا المقام وصحته يخاطب علماء الرسوم أخذتم علمكم ميتاً عن ميت وأخذنا علمنا عن الحيّ الذي لا يموت يقول أمثالنا حدثني قلبي عن ربي وأنتم تقولون حدثني فلان وأين هو قالوا مات عن فلان وأين هو قالوا مات وكان الشيخ أبو مدين رحمه الله إذا قيل له قال فلان عن فلان عن فلان ۔۔۔قلت أنت ما خصك الله به من عطاياه من علمه اللدني أي حدثوا عن ربكم واتركوا فلاناً وفلاناً فإن أولئك أكلوه لحماً طرياً والواهب لم يمت وهو أقرب إليكم من حبل الوريد والفيض الإلهيّ والمبشرات ما سد بابها وهي من أجزاء النبوّة والطريق واضحة والباب مفتوح والعمل مشروع والله يهرول لتلقي من أتى إليه يسعى وما يكون من نجوى ثلاثة إلا هو رابعهم وهو معهم أينما كانوا فمن كان معك بهذه المثابة من القرب مع دعواك العلم بذلك والإيمان به لم تترك الأخذ عنه والحديث معه وتأخذ عن غيره ولا تأخذ عنه فتكون حديث عهد بربك يكون المطر فوق رتبتك حيث برز إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بنفسه حين نزل وحسر عن رأسه حتى أصابه الماء فقيل له في ذلك فقال إنه حديث عهد بربه تعلمياً لنا وتنبيهاً ثم لتعلم إن أصحابنا ما اصطلحوا على ما جاؤا به في شرح كتاب الله بالإشارة دون غيرها من الألفاظ إلا بتعليم إلهيّ
(فتوحات مکیہ از ابن عربی جلد1ص318)
2۔‘‘عن الشيخ ابى المواهب الشاذلى قدس الله سرهما انه كان يقول في انكار بعضهم على من قال حدثنى قلبى عن ربى لا انكار عليه لان المراد أخبرني قلبى عن ربى بطريق الإلهام الّذي هو وحي الأولياء- وهو دون وحي الأنبياء عليهم السلام’’
(تفسیر مظہری جزء6ص138)
مندرجہ ذیل 2 حوالہ جات انٹرنیٹ سے لیے گئے ہیں۔ان کی اصل کتب فی الحال نہیں مل سکیں۔
1۔ابن الہمامؒ نے اپنی التحریر میں لکھا ہے:
الْمُجْتَھِدُ إِذَا اسْتَدَلَّ بِحَدِیثٍ کَانَ تَصْحِیحًا لَہُ کمَا فِی التَّحْرِیرِ لِابْنِ الْھَمَّامِ وَغَیرِہِ (إنھاء السکن من یطالع إعلاء السنن:16)جب کسی حدیث سے مجتہد استدلال لے تو وہ اس حدیث کا صحیح ہونا ہوتا ہے۔
2۔أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِأَیِّھِمْ اقْتَدَیْتُم اھْتَدَیْتُمْ۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے ہدایت پالوگے۔
شیخ شعرانی (المیزان الکبری جزء۱ صفحہ۳۰) میں لکھتے ہیں: وھَذَا الْحَدیثُ وَإِنْ کَانَ فِیہِ مَقَالٌ عِندَ الْمُحَدِّثیِنَ فَھُوَ صَحیحٌ عِندَ أَھْلِ الْکَشْفِ۔
قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ توفیٰ کا لفظ آیا ہے ان تمام مقام میں توفی کے معنی موت ہی لیے گئے ہیں
اعتراض:۔
‘‘قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ توفیٰ کا لفظ آیا ہے ان تمام مقام میں توفی کے معنی موت ہی لیے گئے ہیں۔’’
(ازالہ اوہام حصہ اول ص224،خزائن جلد 3 ص224 حاشیہ)
مرزا جی نے قرآن مجید پر جھوٹ بولا ہے کہ ہر جگہ توفی ‘‘موت’’ کے معنوں میں آیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔
جواب:۔
معترض نے خیانت سے کام لیتے ہوئےآیت فلما توفیتنی پر موجود حاشیہ کاصرف آخری فقرہ لکھ کریہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم میں ہر جگہ توفّی کے لفظ سے موت ہی کے معنے مراد لیے ہیں۔جبکہ مکمل عبارت یہ ہے:
‘‘قرآن شریف پر نظر غور ڈالو اور ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ کیونکر وہ صاف اور بین طور پر عیسیٰ بن مریم کے مرجانے کی خبر دے رہا ہے۔جس کی ہم کوئی بھی تاویل نہیں کر سکتے۔مثلاً یہ جو خدا تعالیٰ قرآن کریم مین حضرت عیسیٰ کی طرف سے فرماتا ہے فلمّا توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم۔ کیا ہم اس جگہ توفی سے نیند مراد لے سکتے ہیں؟ کیا یہ معنے اس جگہ موزوں ہوں گے کہ جب تو نے مجھے سلا دیا اور میرے پر نیند غالب کردی تو میرے سونے کے بعد تو ان کا نگہبان تھا؟ ہرگز نہیں بلکہ توفی کے سیدھے اور صاف معنے جو موت ہے،وہی اس جگہ چسپاں ہیں۔’’
اس کے حاشیہ میں حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:
‘‘قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ توفیٰ کا لفظ آیا ہے ان تمام مقامات میں توفی کے معنی موت ہی لیے گئے ہیں۔’’
(ازالہ اوہام حصہ اول ص224،روحانی خزائن جلد 3 ص224 حاشیہ)
پس اس سے مراد یہ ہے کہ لفط توفی جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے آیا ہے اس صورت میں قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی کسی ذی روح کے لیے استعمال ہوا ہے جس میں اللہ فاعل،ذی روح مفعول،باب تفعّل اور لیل یا نوم کا قرینہ ہو تو بلا استثناء ہر جگہ توفی کے معنے موت کے ہی ہیں۔
حضرت مرزا صاحب نے اس بات کا چیلنج بھی سو سال سے زیادہ عرصہ کا دیا ہے کہ ان تمام شرائط کے ہوتے ہوئے کوئی بھی توفی کے معنے قبض روح یاموت کے سوا کر دے تو اسےمبلغ دس ہزار روپیہ نقد دیا جائے گا۔
(ازالہ اوہام ۔ر-ح جلد 3 ص603)
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب حمامۃ البشری روحانی خزائن جلد7ص269پر لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں توفی 25 مرتبہ آیا ہے۔اور 23 جگہ قبض روح کے معنی ہیں:
- رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (الاعراف:127)
- أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (یوسف:102)
- وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس:47)
- وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ (یونس:105)
- فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ (النساء:16)
- إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ (الاعراف:38)
- إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ (آل عمران:56)
- فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (المائدۃ:118)
- إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ (النساء:98)
- إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا (الانعام:62)
- فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ (محمد:28)
- الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ (النحل:29)
- الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ (النحل:33)
- وَإِنْ مَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (الرعد:41)
- فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ (غافر:78)
- وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ (الانفال:51)
- وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ (النحل:71)
- قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (السجدہ:12)
- وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران:194)
- وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ (الحج:6)
- وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى (غافر:68)
- وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (البقرۃ:235)
- وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ (البقرۃ:241)
‘‘ہمارے امام المحدثین حضرت اسماعیل صاحب اپنی صحیح بخاری میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کتابوں میں کوئی لفظی تحریف نہیں۔’’
اعتراض:۔
‘‘ہمارے امام المحدثین حضرت اسماعیل صاحب اپنی صحیح بخاری میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کتابوں میں کوئی لفظی تحریف نہیں۔’’ (ازالہ اوہام حصہ اول ص239،خزائن جلد 3 ص239 )امام بخاری کا نام اسمٰعیل نہیں بلکہ محمد ہے۔مرزا جی نے امام بخاری پر بھی جھوٹ بولا ہے۔دوسرا جھوٹ کہ بخاری شریف میں لکھا ہے کہ ان کتابوں میں لفظی تحریف نہیں۔جواب:۔
یہ اعتراض بھی سہو کتابت سے تعلق رکھتا ہے جسے نمبر بڑھانے کے لیے الگ اعتراض کے طور پر پیش کیا گیا ہےکیونکہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی کتب میں قریباً 85 دفعہ امام بخاری کا نام تحریر فرمایا ہے۔اور کئی جگہ امام بخاری کا نام ‘‘محمد’’درج ہے۔جس کامطلب ہے کہ آپ امام بخاری کے نام بخوبی آگاہ تھے۔اگر اس جگہ سہو کاتب سےیا غلطی سے‘‘محمد بن’’کے الفاظ رہ گئے تو یہ محل اعتراض نہیں۔کجا یہ کہ ایسے سہو کو جھوٹ سے تعبیر کیا جائے۔حضرت مرزا صاحب نے جو حوالہ صحیح بخاری کادیا معترض اسے بھی جھوٹ قرار دیتا ہے کہ یہ حوالہ بخاری شریف میں لکھا ہے کہ ان کتابوں میں کوئی لفظی تحریف نہیں۔حالانکہ امام بخاری کا یہ مؤقف صحیح بخاری کتاب التوحید میں موجود ہے۔حضرت مرزا صاحب پر جھوٹ کے اس اعتراض سے معترض کی اپنی علمیت کا پول ضرور کھل گیاکہ اہل حدیث ہو کر بخاری کا حوالہ حضرت مرزا صاحب سے پوچھتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو۔حضرت مرزا صاحب امام زمانہ ہیں۔جنہوں نے اہلحدیث کو قرآن بھی سکھانا تھا اور از سرِنو حدیث بھی پڑھانی تھی۔{يُحَرِّفُونَ} [النساء: 46]: «يُزِيلُونَ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُزِيلُ لَفْظَ كِتَابٍ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَكِنَّهُمْ يُحَرِّفُونَهُ، يَتَأَوَّلُونَهُ عَلَى غَيْرِ تَأْوِيلِهِ(بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ)یعنی (النساء : اور المائدہ : میں وارد لفظ) یحرفون کے لیے یزیلون کی تعبیر اختیار کی گئی ہے، حالانکہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں سے کسی کتاب کے الفاظ مٹا نہیں سکتا، بلکہ وہ بایں معنی اس میں تحریف کرتے ہیں کہ اس کے الفاظ و کلمات کے اصل مدعا اور مفہوم سے پھیر دیتے ہیں ۔امام بخاری کا یہ حوالہ جس سیاق و سباق میں حضرت مرزا صاحب نے پیش کیا وہ بڑا دلچسپ اور پڑھنے کے لائق ہے کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیاء نبی کے آسمان سے آنے کی خبر۔۔۔ جو رتھ پر آسمان سے۔۔۔ مسیح کی تشریح کہ وہ یوحنا۔۔۔اصل عبارت‘‘ہم نے ایلیا کے صعود و نزول کا ِقصہ اس غرض سے اس جگہ لکھا ہے کہ تا ہمارے بھائی مسلمان ذرہ غور کر کے سوچیں کہ جس مسیح ابن مریم کے لئے وہ لڑتے مرتے ہیں اُسی نے یہ فیصلہ دیا ہے اور اسی فیصلہ کی قرآن شریف نے بھی تصدیق کی ہے۔ اگر آسمان سے اُتر نا اِسی طور سے جائز نہیں جیسے طور سے ایلیا کا اُتر نا حضرت مسیح نے بیان فرمایا ہے تو پھر مسیح منجانب اللہ نبی نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ قرآن شریف پر بھی اعتراض آتا ہے جو مسیح کی نبوت کا مصدق ہے اب اگر مسیح کو سچا نبی ماننا ہے تو اس کے فیصلہ کو بھی مان لینا چاہئے زبردستی سے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ یہ ساری کتابیں محرّف و مبدّل ہیں بلا شبہ ان مقامات سے تحریف کا کچھ علاقہ نہیں اور دونوں فریق یہود و نصاریٰ ان عبارتوں کی صحت کے قائل ہیں اور پھرہمارے امام المحدثین حضرت اسماعیل صاحب اپنی صحیح بخاری میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کتابوں میں کوئی لفظی تحریف نہیں۔یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے اور پہلے بھی ہم کئی مرتبہ ذکرکرؔ آئے ہیں کہ جس قدر پیشگوئیاں خدائے تعالیٰ کی کتابوں میں موجود ہیں اُن سب میں ایک قسم کی آزمائش ارادہ کی گئی ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر کوئی پیشگوئی صاف اور صریح طور پر کسی نبی کے بارے میں بیان کی جاتی تو سب سے پہلے مستحق ایسی پیشگوئی کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے کیونکہ اگر مسیح کے اُترنے سے انکار کیا جائے تو یہ امر کچھ مستوجب کفر نہیں لیکن اگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار کیا جاوے تو بلاشبہ وہ انکار جاودانی جہنّم تک پہنچائے گا۔ مگر ناظرین کو معلوم ہوگا کہ تمام توریت و انجیل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور ایسا ہی حضرت مسیح کی نسبت بھی کوئی ایسی کھلی کھلی اور صاف پیشگوئی نہیں پائی جاتی جس کے ذریعہ سے ہم یہودیوں کو جا کر گردن سے پکڑلیں۔حضرت مسیح بھی باربار یہودیوں کو کہتے رہے کہ میری بابت موسیٰ نے توریت میں لکھا ہے مگر یہودیوں نے ہمیشہ انہیں یہی جواب دیا کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ ہماری کتابوں میں ایک مسیح کے آنے کی بھی خبر دی گئی ہے مگر تم خود دیکھ لوکہ مسیح کے آنے کا ہمیں یہ نشان دیا گیا ہے کہ ضرور ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے اُترے جس کا آسمان پر جانا سلاطین کی کتاب میںؔ بیان کیا گیا ہے اس کے جواب میں ہر چند حضرت مسیح یہی کہتے رہے کہ وہ ایلیا یو حنا یعنی یحیٰ زکریا کا بیٹا ہے مگر اس دور دراز تاویل کو کون سُنتا تھا اور ظاہر تقریر کی رُو سے یہودی لوگ اس عذ ر میں سچے معلوم ہوتے تھے سو اگرچہ خدائے تعالیٰ قادر تھا کہ ایلیا نبی کو آسمان سے اُتارتا اور یہودیوں کے تمام وساوس بکلّی رفع کر دیتا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا تا صادق اور کاذب دونوں آزمائے جائیں کیونکہ شریر آ دمی صرف ظاہری حُجّت کی رُو سے بے شبہ ایسے مقام میں سخت انکار کر سکتا ہے لیکن ایک را ستباز آدمی کے سمجھنے کے لئے یہ راہ کھلی تھی کہ آسمان سے اُترنا کسی اور طور سے تعبیر کیا جائے اور ایک نبی جو دوسری علامات صدق اپنے ساتھ رکھتا ہے
اُن علامات کے لحاظ سے اُس پر ایمان لایا جاوے ہاں یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ اگر سلاطین اور ملاکی کے بیانات کو مسلمان لوگ بھی یہودیوں کی طرح محمول پر ظاہر کریں تو وہ بھی کسی طرح یحیٰی بن زکریا کو مصداق اُس کی پیشگوئی کا نہیں ٹھہراسکتے اور اس پیچ میں آکر مسیح ابن مریم کی نبوت بھی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتی۔ قرآن شریف نے مسیح کی تا ویل کو جو ایلیا نبی کے آسمان سے اُتر نے کے بارہ میں انہوں نے کی تھی قبولؔ کر لیا اورمسیح کو اور یحییٰ کو سچا نبی ْٹھہرایا ورنہ اگر قرآن شریف ایلیا کا آسمان سے اُترنا اسی طرح معتبر سمجھتا یعنی ظاہری طور پر جیسا کہ ہمارے بھائی مسلمان مسیح کے اُترنے کے بارہ میں سمجھتے ہیں تو ہرگز مسیح کو نبی قرار نہ دیتا کیونکہ سلاطین اور ملاکی آسمانی کتابیں ہیں اگر ان مقامات میں اُن کے ظاہری معنے معتبر ہیں تو ان معانی کے چھوڑنے سے وہ سب کتابیں نکمّی اور بے کار ٹھہر جائیں گی۔ میرے دوست مولوی محمد حسین صاحب اس مقام میں بھی غور کریں ؟ اور اگر یہ کہا جا ئے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ سلاطین اور ملاکی کے وہ مقامات محر ّ ف و مبدّل ہوں تو جیسا کہ ابھی میں لکھ چکا ہوں تو یہ سراسر وہم و گمان باطل ہے کیونکہ اگر وہ مقام محر ف و مبدل ہوتے تو مسیح بن مریم کا یہودیوں کے مقابل پر یہ عمدہ جواب تھاکہ جو کچھ تمہاری کتابوں میں ایلیا کا آسمان پر جانا اورپھر اُترنے کا وعدہ لکھاہے یہ بات ہی غلط ہے اور یہ مقامات تحریف شدہ ہیں۔بلکہ مسیح نے تو ایسا عذر پیش نہ کرنے سے اُن مقامات کی صحت کی تصدیق کردی۔ ماسوا اس کے وہ کتابیں جیسے یہودیوں کے پاس تھیں ویسے ہی حضرت مسیح اور اُن کے حواری اُن کتابوں کو پڑھتے تھے اوراُن کے نگہبان ہوگئے تھے اور یہودیوں کے لئے ؔہم کوئی ایسا موجب عند العقل قرار نہیں دے سکتے جو ان مقامات کے محرف کرنے کے لئے انہیں بے قرار کرتا۔ اب حاصل کلام یہ کہ مسیح کی پیشگوئی کے بارے میں ایلیا کے قصّہ نے یہودیوں کی راہ میں ایسے پتھر ڈال دئے کہ اب تک وہ اپنے اس راہ کو صاف نہیں کر سکے اوربے شمار روحیں اُن کی کفر کی حالت میں اِس دنیا سے کوچ کر گئیں۔’’(ازالہ اوہام حصہ اول ص 239،روحانی خزائن جلد 3 ص238 تا240 )
‘‘اشتہار 28مئی 1900ء ”سبحان الذی اسریٰ ” میں مسجد اقصیٰ سے مسجد اقصیٰ قادیان مراد ہے۔’’
اعتراض:۔
‘‘اشتہار 28مئی 1900ء ”سبحان الذی اسریٰ ” میں مسجد اقصیٰ سے مسجد اقصیٰ قادیان مراد ہے۔’’(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ289حاشیہ)مرزائیو!پڑھو۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ہم اس جھوٹ کے متعلق کچھ لکھنا نہیں چاہتے۔اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔جواب:۔
حضرت مرزا صاحب کی لطیف کشفی و الہامی تفسیر جو آنحضرتﷺ کے کمالات عالیہ کا اظہار ہے معترض کو پسند نہیں تو اس پر جھوٹ کا الزام لگا دینا کہاں کی شرافت ہے۔اصول تفسیر: 1۔تفسیر بالقرآن 2۔تفسیر بالمأثور رسول 3۔تفسیر بالمأثورصحابہ 4۔ تفسیر بالالہامصرف تفسیر بالرائے منع ہے۔حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ‘‘الفوز الکبیر فی اصول التفسیر’’ میں فرماتے ہیں:‘‘فنون تفسیر کے دو تین اور فن بھی فیض الہٰی کے نامتناہی دریا سے القاء ہوتے ہیں۔اگر سچ پوچھتا ہے تو میں قرآن مجید کا بلا واسطہ ایسا ہی شاگرد ہوں جیسا کہ روح پر فتوح حضرت رسالت مآب ﷺ کا اویسی ہوں۔’’(الفوز الکبیراردو ترجمہ ص71مطبع علی گڑھ 1914ء)پھر اپنی کتاب ‘‘تفہیمات الہیہ’’ میں لکھتے ہیں:‘‘علمنی ربی جل جلالہ علم التفسیر فی کلمات یسیرة۔ھی ان الایمان الحقیقی ودیعة فی کل نسمة بحسب الفطرة ولکن الناس استولی علیھم سرور عالم التخلیط فانزل اللہ القرآن لتنقھر بہ طباعھم’’(تفھیمات الٰھیة جزء 2 ص147)انہوں نے 500 آیات منسوخہ کو حل کر دیا،صرف 20 رہ گئیں۔اصل عبارتحضور فرماتے ہیں:”میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ کلام جو میری زبان پر جاری کیا گیا لکھا تھا کہ انا انزلناہ قریبا من القادیان وبالحق انزلناہ وبالحق نزل صدق اللہ ورسولہ وکان امر اللہ مفعولا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 498 ۔ یعنی ہم نے اس مسیح موعودکوقادیان میں اتارا ہے اور وہ ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا گیا اور ضرورت حقہ کےساتھ اترا ۔ خدا نے قرآن میں اوررسول نے حدیث میں جوکچھ فرمایاتھاوہ اس کےآنےسےپوراہوا۔اس الہام کےوقت جیسا کہ میں کئی دفعہ لکھ چکا ہوں مجھے کشفی طور پر یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ یہ الہام قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اور اس وقت عالم کشف میں میرے دل میں اس بات کا یقین تھا کہ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے یعنی مکہ اور مدینہ اور قادیاں کا۔ اس بات کو قریبا بیس برس ہو گئے جبکہ میں نے براہین احمدیہ میں لکھا تھا۔ اب اس رسالہ کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیان کے بارے میں کشفی طور پر میں نے لکھا یعنی یہ کہ اس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے درحقیقت یہ صحیح بات ہے کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیت کہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے۔ پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہونچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہونچا دیا۔ پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے۔”(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ288،289حاشیہ درحاشیہ)حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:”ماحصل اس معراج کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیر الاولین والآخرین ہیں۔ معراج جو مسجد الحرام سے شروع ہوا۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ صفی اللہ آدم کے تمام کمالات اور ابراہیم خلیل اللہ کے تمام کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے اور پھر اس جگہ سے قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکانی سیر کے طور پر بیت المقدس کی طرف گیا۔ اور اس میں یہ اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام اسرائیلی نبیوں کے کمالات بھی موجود ہیں اور پھر اس جگہ سے قدم آنجناب علیہ السلام زمانی سیر کے طور پر اس مسجد اقصیٰ تک گیا جو مسیح موعود کی مسجد ہے۔ یعنی کشفی نظر اس آخری زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ کہلاتا ہے پہونچ گئی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو کچھ مسیح موعود کو دیا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود ہے اور پھر قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمانی سیر کے طور پر اوپر کی طرف گیا اور مرتبہ قاب قوسین کا پایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مظہر صفات الہٰیہ اتم اور اکمل طور پر تھے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قسم کا معراج یعنی مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جو زمانی مکانی دونوں رنگ کی سیر تھی اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف ایک سیر تھا مکان اور زمان دونوں سے پاک تھا۔ اس جدید طرز کی معراج سے غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خیر الاولین والآخرین ہیں اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف سیر ان کا اس نقطہ ارتفاع پر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی انسان کو گنجائش نہیں۔”(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ288،289حاشیہ درحاشیہ)پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں سے جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ سو وہ مجھ سے پہلے مر گیا۔
اعتراض:۔
‘‘پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں سے جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ سو وہ مجھ سے پہلے مر گیا۔’’(کشتی نوح ۔رخ جلد19ص6)حالانکہ آتھم کی پیشگوئی میں تھا کہ جو شخص غلط عقیدہ پر ہے وہ پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا۔اس جگہ جھوٹ بولا ہے اور پندرہ ماہ کی قیداڑا کر پیشگوئی کو وسیع کر رہے ہیں۔جواب:۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہود پر لعنت کا ایک سبب اور ان کی یہ خیانت بیان فرمائی ہے یحرّفون الکلم عن مواضعہ کہ وہ کلام کو اپنی جگہ سے بدل کر دوسرے مفہوم میں پیش کرتے تھے۔اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت یہود کی ہو بہو تصویر بن کر ان کی پیروی کرے گی۔اب دیکھ لیں، اب معترض کہہ رہا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے 15 ماہ کی قید کو پیشگوئی سے اڑا دیا حالانکہ خود اس نے لا تقربوا الصلوةکی طرح ادھورا حوالہ پیش کیا۔کشتیٔ نوح کے اسی صفحہ 6پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ میں بار بار کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطورنشان الٰہی کے نتیجہ یہ ہوگا کہ طاعون کے ذریعہ سے یہ جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی یہ ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی اور مخالف جو ہر ایک موقعہ پر شکست پاتے رہے ہیں جیسا کہ کتاب نزول المسیح میں میں نے لکھا ہے اگر اس پیشگوئی کے مطابق خدا نے اس جماعت اور دوسری جماعتوں میں کچھ فرق نہ دکھلایا تو ان کا حق ہوگا کہ میری تکذیب کریں اب تک جو انہوں نے تکذیب کی ہے اس میں تو صرف ایک لعنت کو خریدا ہے مثلاً بار بار شور مچایا کہ آتھم پندرہ مہینہ کے اندر نہیں مرا۔ حالانکہ پیشگوئی نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوعؔ کرے گا تو پندرہ مہینہ میں نہیں مرے گا سو اس نے عین جلسہ مباحثہ پر سترمعزز آدمیوں کے روبرو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دجّال کہنے سے رجوع کیا اور نہ صرف یہی بلکہ اس نے پندرہ مہینہ تک اپنی خاموشی اور خوف سے اپنا رجوع ثابت کر دیا۔ اور پیشگوئی کی بناء یہی تھی کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دجال کہا تھا لہٰذا اس نے رجوع سے صرف اس قدر فائدہ اُٹھایا کہ پندرہ مہینے کے بعد مرا مگر مر گیا۔ یہ اس لئے ہوا کہ پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں سے جو شخص اپنے عقیدہ کے رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا سو وہ مجھ سے پہلے مر گیا۔”(کشتی نوح- روحانی خزائن جلد19صفحہ6)خلاصہ کلام یہ کہ گویا یہ مشروط پیشگوئی بالآخر جس رنگ میں خدا کی تقدیر نے ظاہر کی وہ جھوٹے کی سچے کی زندگی میں ہلاکت ہے۔یہ ہے اصل عبارت۔مگر اس سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ آتھم جو عیسائی پادری تھا جس سے کوئی مسلمان مناظرہ کے لیے تیار نہ ہوا تو جنڈیالہ امرتسر کے مسلمانوں کی درخواست پر حضرت مرزا صاحب اسلام کے فتح نصیب جرنیل اور مرد میدان کر سامنے آگئے۔اور اس سے 1893ء میں وہ تاریخی مباحثہ کیا جو جنگ مقدس کے نام سے شائع ہوا ہے۔ جس میں قاضی امیر حسین جیسے عالم اور کرنل الطاف جیسے رئیس عیسائی مسلمان ہوئے۔اس 15 روزہ مناظرہ کےاختتام پر 5 جون 1893ء کو حضرت مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ سے علم کی روشنی میں یہ نشان پا کر دنیا کو مطلع کیا کہ اس بحث میں دونوں فریق یعنی اہل اسلام و عیسائی صاحب میں سے جو عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے وہ 15 ماہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔1۔یہ پیشگوئی سنتے ہی آتھم کے چہرے پر خوفناک اثر ہوا ،اس کی پریشانی اسی وقت دکھائی دینے لگی۔ اور اخبار ‘‘نور افشاں’’ کے مطابق بقول آتھم اسے ڈرانیوالےتمثلات کا نظارہ شروع ہو گیا۔2۔اور عیسائیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسے تو ڈاکٹر نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ 6 ماہ میں مر جائیگا۔3۔آتھم کے بقول اس عرصہ میں اس پر تین جان لیوا حملے ہوئے۔پہلے حملے میں خونی سانپ سے ڈر کر بیوی بچوں کو چھوڑ کر امرتسر سے لدھیانہ داماد کے پاس گیا تو مسلح آدمی نیزوں کے ساتھ قتل کے لیے مستعد نظر آئے تب لدھیانہ سے بھاگ کر فیروز پور کے داماد کے پاس۔وہاں بھی تلواروں اور نیزوں کے ساتھ لوگ حملہ آور نظر آئے جو پولیس پہرہ کے باوجود آئے۔اور سوائے آتھم کے کسی اور کو نظر نہ آئے۔4۔حضرت مرزا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے الہام سے بتا دیا کہ آتھم پیشگوئی کی شرط کے مطابق رجوع الی الحق کر کے کامل ہاویہ کی موت سے بچ گیا ہے۔ اور عظمت اسلام کے رعب کی پیشگوئی اس کے حق میں پوری ہوئی تاکہ پیشگوئی مشتبہ نہ رہے کہ مرنا تو چھ ماہ میں تھا ہی۔5۔آتھم نے رجوع الی الحق سے انکار نہیں کیا بلکہ 1894ء میں اشتہار دیا کہ وہ تین دفعہ قسم کھا کر رجوع سے انکار کرے۔چار ہزار تک انعام اگر وہ قسم کھا لے تو ایک سال کے اند ہلاک:‘‘اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھائیں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کرکے دنیا کو دھوکا دینا چاہا۔۔۔۔۔۔ اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں۔’’ (اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ صفحہ11،27اکتوبر1894ء)مگر فرمایا کہ لوگ اس کے ٹکڑے بھی کردیں تو قسم نہ کھائے گا۔ کیونکہ اس سے زیادہ اس بات کو کوئی نہیں جانتا کہ اس نے فی الحقیقت حق کی طرف رجوع کیا۔ لیکن اب آتھم عیسائیوں کے اس قول کی تردید نہ کرے اور نہ قسم کھائے تو بھی وہ عذاب سے بچ نہیں سکے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:”اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا اور آگے کچھ نہیں۔”(انوار الاسلام صفحہ15ایڈیشن اول)چنانچہ ایساہی ہوا ‘‘وہ دن ’’جو عبداللہ آتھم کی سزا دہی کے لیے مقرر کیا گیا تھا ۔ وہ بہت ‘‘نزدیک ’’ تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےاشتہارپرابھی سات ماہ نہیں گذرےتھےکہ آتھم 27جولائی 1897ء کو پیشگوئی کے صرف چار سال کے عرصہ بمقام فیروز پور راہی ملک عدم ہو گیا۔حضرت مرزا صاحب نے یہ پیشگوئی 5 جون 1893ء کو فرمائی۔جو 5 ستمبر 1894ء کو 15 ماہ گزرنے پر عبد اللہ آتھم کے رجوع الی الحق ،اسلام کی فتح اور بانیٔ اسلام کی عظمت کا ایک نشان ہے۔جسے معترض عیسائیت کی بانیٔ اسلام کے خلاف وکالت کرکے داغدار کرنا چاہتا ہے۔خدا تعالیٰ نے آتھم کے ذریعہ سے درحقیقت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ‘‘زندگی’’اور ‘‘موت’’کے دو نشان ظاہر فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے سے آتھم نے پندرہ ماہ کے عرضہ میں ‘‘زندگی’’پائی اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان کو چھپانے کے نتیجہ میں اسے ‘‘موت’’حاصل ہوئی۔ اور اس نشان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت حقیقی زندگی بخشتی ہے اور آپ کی مخالفت ایک موت کا پیالہ ہے جس کا پینے والا روحانی موت سے بچ نہیں سکتا۔غیرت مند مسلمانوں نے تو اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر برملا حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا اعتراف کیا جیسے خواجہ غلام فرید صاحب ۔لیکن معترض نہ جانے کس وجہ سے آتھم کو سچا ثابت کرنے پر مصر ہے ۔کیا الیاس نبی، ملاکی نبی کی ’’پیشگوئی کے مطابق دوبارہ دنیا میں آگیا؟ تا یہ لوگ بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کی امید رکھیں۔ اور حدیثوں میں تو دوبارہ آنے کا کوئی لفظ بھی نہیں
اعتراض:۔
‘‘ کیا الیاس نبی، ملاکی نبی کی ’’پیشگوئی کے مطابق دوبارہ دنیا میں آگیا؟ تا یہ لوگ بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کی امید رکھیں۔ اور حدیثوں میں تودوبارہ آنے کا کوئی لفظ بھی نہیں۔ ’’(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص290 خزائن جلد21)یہاں بھی مرزا جی نے جھوٹ بولا ہےحالانکہ حدیث میں موجود ہے:‘‘ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ ’’(ابن جریر جلد 3صفحہ289)بے شک عیسی فوت نہیں ہوئے اور وہ قیامت سے پہلے لوٹ کر آئیں گے۔’’لیکن ٹھہرئیے !مرزا جی کا قول بھی سن لیجئے:”جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔”(الحکم 2فروری 1908ء نمبر9جلد نمبر120 کالم نمبر2 ص3صفحہ3)کیوں جناب مرزا جی کا کیسا جھوٹ پکڑا گیا؟جواب:۔
حضرت مرزا صاحب پرنارواجھوٹ کا الزام لگانے کے شوق میں بے چارےمعترض کو دو غلط بیانیاں کرنی پڑیں۔اول یہ غلط دعویٰ کربیٹھےحضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کا ذکر حدیث میں موجود ہے۔ دوسرے یہ خلاف حقیقت امرکہ حضرت مرزا صاحب نےخودحضرت مسیح کا دوبارہ آنا تسلیم کیا ہے۔جہاں تک حدیث میں مسیح کے دوبارہ آنے کے ذکر کا تعلق ہے،حضرت مرزا صاحب کاتمام احادیث کی تحقیق وتفتیش اور مطالعہ کے بعد ایک صدی سے زائد عرصہ سےمسیح کی دوبارہ آمد کے قائل علماءکے لیےایک بہت بڑا چیلنج دیا۔جو119 سال سے لاجواب پڑا ہےاورآپؑ کی سچائی اور فتح کا نقارہ بجا رہا ہے۔آپ نےفرمایا:‘‘اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے۔ اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور توبہ کرنا اور اپنی تمام کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا۔’’(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ225)آج تک کوئی عالم حدیث اس کا جواب پیش نہیں کر سکا۔حالانکہ اگر صرف اسی چیلنج کو دیکھا جائے تو جماعت احمدیہ اور دیگرفرقوں کے مابین سچائی کے لیے یہ فیصلہ کن ہے۔ماہنامہ ‘‘ضیائے حدیث’’نےحضرت مرزا صاحب کے خلاف40 جھوٹ گھڑنے کا تکلف بےسبب کیا،اسکی بجائے اگر وہ یہی چیلنج توڑ دیتے تو بیس ہزار روپے انعام پانے کے علاوہ ان کی مذہبی فتح مسلّم ہوجاتی کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے عقیدہ سے توبہ کرنے کےساتھ تمام کتابوں کے جلانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔۔۔جب علمائے اہلحدیث کے نزدیک حضرت مرزا صاحب سے اختلاف کی بڑی وجہ مسئلہ حیات و وفات مسیح ہی تھا تو اس کے تصفیہ کے لیے اس سے بہتر کوئی تجویز نہیں ہو سکتی تھی۔کیونکہ بقول مولوی ثناء اللہ امرتسری مرکزی مسئلہ اور اصل الاصول وفات مسیح علیہ السلام ہی تھا۔(رسالہ تاریخ مرزا ص 24-25)مگر حیرت ہے حیات مسیحؑ کا دعویٰ کرنے والوں نےآج تک کوئی صحیح حدیث مرفوع متّصل حضرت عیسیٰ کے آسمان پر جانے اور زمین پرواپس آنے کی پیش نہیں کی۔اس کے مقابل پرقرآن کریم کی 30 آیات اور 12 احادیث رسولﷺ سے حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ کی وفات کو اپنی کتاب ‘‘ازالہ اوہام’’ وغیرہ میں ثابت کر دکھایا۔اب اس جگہ جو حوالہ‘‘ضیائے حدیث’’کے معترض نے حدیث بناکرپیش کیا ہے۔فی الواقعہ وہ حدیث نہیں قول حسن بصری ہےاورمعترض نےحسن بصری کے قول کو حدیث یعنی قول رسول قرار دے دیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔کیونکہ رسول اللہﷺ سے یہ مرفوع روایت کہیں سے ثابت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ حدیث کی کسی صحیح کتاب میں یہ حوالہ موجود نہیں۔نہ بخاری میں ہے،نہ مسلم میں،نہ ترمذی میں،نہ ابو داؤد،نسائی اور ابن ماجہ میں ہے۔نہ مؤطا امام مالک و محمد میں، نہ مسند احمد اور دارمی میں۔آخر اتنی اہم حدیث جس پرمسلمانوں کے ایک بنیادی عقیدہ حیات مسیح کی بنیادتھی نہ وہ کسی صحابی راوی نے بیان کی نہ صحاح ستہ میں ہے،صرف ایک کتاب تفسیر ابن جریر میں ہے یا ایک یا دو تفسیروں نے اس سےنقل کی ہے و بس۔اب اس‘‘عیسی نہیں مرے’’کی روایت بیان کرنے والی کتاب اور اسکے راویوں کا حال بھی سن لیں۔اہل حدیث کے قابل احترام مشہورعالم مولاناشاہ عبدالعزیزصاحب محدث دہلوی اپنی تصنیف عجالہ نافعہ میں اس تفسیر ابن جریر کوطبقہ رابعہ کی کمزور روایات میں شمار کیا ہے۔جو قابل اعتبار نہیں کہ ان سے کسی عقیدہ کے اثبات کی سند لی جائے۔(رسالہ عجالہ نافعہ صفحہ7-8)یعنی نہ پہلا درجہ،نہ دوسرا،نہ تیسرا بلکہ چوتھا درجہ وہ بھی ناقابل اعتبار۔پھر یہ روایت حسن بصری کی ہے جن کی مرسل روایت حجت نہیں ہوتی۔حضرت امام احمدبن حنبلؒ نے تو یہاں تک فرمایا:‘‘لیس فی المرسلات أضعف من المرسلات الحسن’’(تہذیب التہذیب جلد7صفحہ202و384زیرلفظ عطاء بن ابی رباح)کہ حسن کی مرسل روایات اتنی زیادہ کمزور ہیں کہا س سے بڑھ کر کوئی کمزور روایت نہیں ہوگی۔اس روایت کے چار راوی ضعیف ہیں۔ 1۔ اسحاق بن ابراہیم بن سعید المدنی: ابو زرعہ کے نزدیک اس کی حدیث بوجہ ضعف قابل انکار ہے ۔(تہذیب التہذیب جلد اول صفحہ214،میزان الاعتدال جلداول صفحہ70)2۔عبداللہ بن ابی جعفرعیسیٰ بن ماہانہے:عبدالعزیز بن سلام کے نزدیک یہ راوی فاسق تھا اور جو روایت یہ اپنے باپ سے کرے وہ لائق اعتبار نہیں ہوتی۔ (تہذیب التہذیب جلد پنجم صفحہ177،میزان الاعتدال جلددوم صفحہ26)اورلَم ْیَمُت ْوالی روایت اس راوی نے اپنے باپ سے ہی روایت کی ہے۔جوبہرحال مردود ہے۔3۔تیسرا راوی دوسرے راوی عبد اللہ کا باپ ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان ہے جو نسائی اور عجلی کے نزدیک بھی قوی نہیں۔اورخطا کار اور سیئ الحفظ بھی ہے۔(تہذیب التہذیب جلد12صفحہ57،میزان الاعتدال جلددوم صفحہ285)4۔چوتھاراوی ربیع بن انس البکری المصریہے۔غالی شیعہ تھااورجوروایت اس سے ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان کرے اس روایت سے لوگ بچتے ہیں۔(تہذیب التہذیب جلد سوم صفحہ٢٣٩)یہ لَمْ یَمُتْ والی روایت وہ ہےجواس راوی سےابوجعفرعیسیٰ بن ماہان نےکی ہے۔لہٰذاقابل قبول نہیں۔جس روایت کے پانچ میں سے چار راوی ضعیف اور غیر ثقہ ہوں بلکہ بعض شیعہ بھی ہوں اس روایت کےجھوٹا اور جعلی ہونے میں کیا شبہ رہ گیا۔ناظرین! امر واقعہ یہ ہے کہ جب حیات مسیح کے دعویٰ کے اثبات کے لیے قرآن و احادیث صحیحہ سے تو کچھ نہ ملاتوبناوٹی روایات کا سہارا لینےکی یہ ایک کوشش تھی سو وہ بھی ناکام ٹھہری۔اب ان کے جھوٹ کے ساتھ حضرت مسیح پر انّا للہ پڑھ ہی دینا چاہیے۔دوسری غلط بیانی معترض نےیہ کی ہےکہ خودحضرت مرزا صاحب مسیح کی دوبارہ آمد مسیح کے قائل ہیں۔حالانکہ حضرت مرزاصاحب کی اصل عبارت جو معترض نے ادھوری لکھی ہے،مکمل پیش نہیں کی وہ خوداس کے خلاف گواہ ہے۔فرمایا:‘‘سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں۔ بروز عیسیٰ و بروز محمد۔۔۔ عیسیٰ مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خون ریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طور سے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو ایسا ہی ہوتا جاتا ہے۔ آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے۔’’(الحکم 2فروری 1908صفحہ3)اور اب توروحانی جہاد سے تیار ہونیوالی یہ عالمگیر جماعت 206 ممالک میں لاکھوں سے کروڑوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔اس حوالہ سے ظاہر ہےکہ حضرت مرزا صاحب نے واضح طور پر احادیث نزول مسیح سے مراد مثیل مسیح کی آمد لیتے ہوئےفرمایاکہ یہ پیشگوئی آپ کے ذریعہ پوری ہو چکی ہےاورآپ ہی وہ مسیح ہیں جن کے ذریعہ بغیر کسی دینی جنگ کے ایک جماعت قائم ہو رہی ہے۔جب معترض یہ عبارت تسلیم کرکےاپنی تائید میں پیش کر رہا ہے تو اسےاس بروزی مسیح کو قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ورنہ اس کے ایسے معنے کرنا جو قائل کی مرضی کے خلاف ہوں ہرگز جائز نہیں۔بلکہ صریحاً بد دیانتی ہے جو ایک اہلحدیث عالم دین کو زیب نہیں دیتی۔پس یہ اعتراض اگر توتجاہل عارفانہ کے طور پر اعتراض برائے اعتراض ہے؟تو واضح بد دیانتی ہے اور اگر لا علمی میں ہے تو پھر جہالت کاعظیم شاہکار ہے۔حضرت مرزا صاحب پرکوئی اعتراض ان کی کتابوں میں مندرج مسلک اور عقیدہ تو ہوسکتا ہےپہلے از خود کسی عبارت کا ایک مفہوم متعین کرنا اور پھر اس پر خود ہی اعتراض کرنایہ کہاں کا انصاف ہے۔اب معترض کا پیش کردہ حوالہ الحکم 1908ء کا ہےجبکہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ تو 1891ء سے ازالہ اوہام میں وفات مسیح کے اعلان اور 30 آیتوں سے اس کے ثبوت کے بعد اظہار و اعلان فرمارہے ہیں کہ اس الہام الہٰی کے مطابق آپ ہی وہ مثیل مسیح ہیں کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے مطابق تو آیا ہے۔اور1891ء سے1908ء تک مسلسل 18 سالوں میں شائع ہونیوالی جملہ کتابوں میں یہ مضمون اس طرح کھول کربیان فرمایا ہے کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔چنانچہ 1891ء میں اپنی کتاب ازالہ اوہام میں وفات مسیح ثابت کرنے کے بعدحضرت مرزا صاحب نے تحریر فرمایا کہ‘‘ہریک مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا کہ فوت شدہ نبی ہرگز دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتا۔ کیونکہ قرآن اورحدیث دونوں بالاتفاق اِس بات پر شاہد ہیں کہ جو شخص مر گیا پھر دنیا میں ہرگز نہیں آئے گااور قرآن کریم انّھم لا یرجعون(سورة انبیاء آیت96)کہہ کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے اُن کو رخصت کرتا ہے۔’’(ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد 3ص459)یہی مضمون آپ نے سورة نور کی آیت استخلاف آیت 56 کی روشنی میں متعدد کتب میں بیان فرمایا۔چنانچہ اپنی کتاب شہادة القرآن مطبوعہ1893ءمیں ہے:‘‘اس امت میں بھی اس کے آخری زمانہ میں جو قرب قیامت کازمانہ ہے حضرت عیسیٰ کی مانند کوئی خلیفہ آنا چاہیے کہ جو تلوار سے نہیں بلکہ روحانی تعلیم اور برکات سے اتمام حجت کرے اور اس لحاظ سے کہ حضرت مسیح حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد آئے یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کا اس زمانہ میں ظہور کرنا ضروری ہو۔’’پھر تحفہ گولڑویہ مطبوعہ1900ء میں فرمایا:‘‘سو مسیح عیسیٰ بن مریم کی نسبت رجعت کا جو عقیدؔہ ہے اُس عقیدہ کے موافق عیسیٰ مسیح کی آمد ثانی کا یہی زمانہ ہے۔ سو وہ آمد ثانی بروزی طور پر ظہور میں آگئی’’ (تحفہ گولڑویہ ص129 تا133)پھر اپنی کتاب نزول المسیح مطبوعہ1902ءمیں اس دوبارہ آمد مسیح کو بروزی قرار دیتے ہوئے فرمایا:‘‘اسی بناء پر اس زمانہ کے علماء کا نام یہود رکھا گیا اور محمدی مسیح کا نام ابن مریم رکھا گیا اور پھر اُسی خاتم الخلفاء کا نام باعتبار ظہور بیّن صفات محمدیہ کے محمّد اور احمد رکھا گیا اور مستعار طور پر رسول اور نبی کہا گیا اور اُسی کو آدم سے لے کر اخیر تک تمام انبیاء کے نام دیئے گئے تا وعدۂ رجعت پورا ہو جائے۔ ’’(نزول المسیح ص5 حاشیہ)اب یہاں تو تمام انبیاء کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے۔جس سے ظاہری آمد مراد نہیں ہوسکتی۔بروزی وعدۂ رجعت مراد ہے۔ورنہ صرف عیسیٰ ہی نہیں سب انبیاء کا دوبارہ آنا ماننا پڑے گا۔پس حضرت مرزا صاحب کو 1891ء میں اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا: ‘‘اناجعلناک المسیح ابن مریم’’ ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا ہے۔اس کے بعدسے جب حضرت مرزا صاحب مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد مثیل مسیح کی آمد اپنی صفات اور خوبیوں کے ساتھ ایک نئے وجود میں ہے۔نہ کہ اصالتاً مسیح کی دوبارہ واپسی۔کیونکہ مسیح کا نزول اس کے رفع کی فرع ہے۔اور جب رفع قرآن وحدیث سے ثابت ہی نہیں اور نہ ہی جسمانی نزول ثابت ہے تو پھر ان کا نزول رسول اللہﷺ کے نزول کی طرح مرادلیا جائے گا۔قد انزل اللہ علیک ذکرا رسولا۔ یا اس کی تشریح ایلیا کے نزول کے مطابق کی جائے گی جیسا کہ حضرت مسیحؑ نے۔اس سے مراد حضرت یوحنا یحی بن زکریا کا منجانب اللہ آنامراد لیا۔پس معترض نے حضرت مرزا صاحب کا دوبارہ آمد مسیح کے بارہ میں مؤقف جانتے ہوئےیہ اعتراض کیا ہے تویہ بد دیانتی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔اور اگرلاعلمی میں ایسا کیا ہے تو جہالت کا شاہکار ہے۔حدیث میں آسمان سے نزول کا لفظ نہیں آیا
اعتراض:۔
حضرت مرزا صاحب ‘‘انجام آتھم صفحہ129 روحانی خزائن جلد 11’’میں فرماتے ہیں:‘‘ما جاء فی الحدیث لفظ النزول من السماء‘‘کہ حدیث میں آسمان سے نزول کا لفظ نہیں آیا۔(انجام آتھم صفحہ129 روحانی خزائن جلد11)مرزا جی نے جھوٹ بولا ہے۔حدیث ہے:‘‘قال رسول اللہ ؐ کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم وامامکم منکم۔’’(صحیح بخاری ج:3265 و صحیح مسلم ج:155)ایک اور حدیث میں امام بیہقی نے ‘‘من السماء’’کے الفاظ بھی ذکر کئے ہیں دیکھوبیہقی الاسماء والصفات صفحہ424)جواب:۔
ناظرین! ہم بتاچکے ہیں کہ خدا کے راستباز بندےحضرت مرزا صاحب مسیح موعود و مہدی موعود پر جھوٹ کے الزام تراشنے کے لیے معترض کو کئی جھوٹوں کا سہارالینا پڑتا ہے۔مگر جھوٹ کے تو پاؤں نہیں ہوتے۔اس لیے معترض کی خود ساختہ عمارت دھڑام سے زمین پر آگرتی ہے۔اب اسی اعتراض میں دیکھ لیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے جھوٹ بولا ہے کہ کسی حدیث میں آسمان سے حضرت عیسیٰؑ کے نزول کا ذکر نہیں۔اور اپنے دعویٰ کی صداقت میں وہ پہلا حوالہ بخاری کا پیش کرتے ہیں۔مگر جب اس حوالہ کو دیکھتے ہیں تو حضرت مرزا صاحب سچے ٹھہرتے ہیں اور معترض جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔کیونکہ اس میں آسمان کا کوئی لفظ واقعہ میں موجودہی نہیں۔دوسرا حوالہ معترض نے صحیح مسلم کا پیش کیا ہے۔جب اسے دیکھتے ہیں تو اس میں بھی آسمان کا لفظ موجود نہیں۔یہ معترض کا دوسرا بڑا جھوٹ ہوا۔تیسرا حوالہ ہم پیش کرتے ہیں۔مسندامام احمد بن حنبل۔اس میں ‘‘سماء’’ کا لفظ نہیں۔چوتھاحوالہ معترض نے امام بیہقی کی کتاب سے پیش کیا ہے۔جو حضرت مرزا صاحب کی وفات کے بعد شائع ہوئی اور مولوی حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے چیلنج کا جواب دینے کی خاطراس ظلم اور خیانت کے مرتکب ہوئے کہ اس کتاب میں از راہ تحریف خود ‘‘السماء’’کے لفط کا اضافہ کر دیا اور یوں رسول اللہﷺ کی حدیث پوری کرنے والے بن گئےکہ میری امت کے لوگ یہود کی پیروی کریں گے۔یعنی ان کی طرح تحریف بھی کریں گے۔ملاحظہ ہو حضرت مرزا صاحب کی وفات 1326ھ کے بعد شائع ہونیوالےقلمی نسخہ مطبوعہ1328ھ مطابق 1910ءمیں ‘‘السماء’’کا لفظ ہے۔۔۔جوالحاقی ہے اور بعد کا اضافہ ہے۔اس کا ثبوت یہ ہےکہ علامہ سیوطی (متوفی911ھ)کے زمانہ میں بیہقی میں ‘‘السماء’’کا لفظ نہ تھا۔چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب ‘‘در منثور’’ میں اس روایت کو امام احمد،بخاری اورمسلم سے بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ امام بیہقی نے اس کو اپنی کتاب ‘الاسماء والصفات’’ میں بیان کیاہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔(در منثور جلد دوم صفحہ242)اس میں ‘‘سماء’’ کا لفظ موجود نہیں ہے۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ ‘‘من السماء’’ کی عبارت زائداور بعد کی ایجادہے۔پس حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا چیلنج آج بھی اسی طرح قائم ہے۔آپ فرماتے ہیں:“ما جاء فی الحدیث لفظ ’’النزول من السماء۔۔۔۔۔ أعندکم سندٌ من اللّٰہ ورسولہ خیر الوریٰ، ۔۔۔۔۔ فإن کان سند فأخرِجوہ لنا إن کنتم صادقین۔ ولن تستطیعوا أن تأتوا بسندٍ، ۔۔۔۔وإیاکم والتفسیرَ بالرأی ولا تترکوا الھُدٰی، فتؤخذون من مکان قریب”(انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11صفحہ129-130)اور معترض کے جھوٹ کےالزام لگانے کے شوق میں خود کئی جھوٹ پکڑے گئے۔حضرت مرزا صاحب کی سچائی ثابت ہوئی جنہوں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اپنی رائے سے تفسیر بنا کر پیش نہ کرو ورنہ بہت جلد پکڑے جاؤگے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام تورات پڑھی تھی
اعتراض:۔
‘‘ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام تورات پڑھی تھی۔’’(ایام الصلح- خزائن جلد14صفحہ394)اس عبارت میں مرزا جی نے اللہ تعالیٰ کے دو برگزیدہ نبیوں پر جھوٹ بولا ہے۔اول تو مرزا جی کو خود اعتراف ہے کہ انبیاء علیہھم السلام کا کوئی انسان استادیا اتالیق نہیں ہوتا۔وہ تمام علوم اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل کرتے ہیں۔دیکھو براہین احمدیہ۔لکھا ہے:‘‘اورتمام نفوس قدسیہ انبیاءکو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔’’(براہین احمدیہ، خزائن جلد اول صفحہ16)مرزا جی خود ہی جھوٹ بولتے ہیں اور خود ہی اس کی تردید بھی کرتے ہیں۔سچ ہے دروغ گو را حافظہ نباشد۔جن مکتبوں میں بیٹھ کر اور جن اساتذہ سے حضرت موسیٰ و عیسٰی علیہم السلام نے پڑھا ہے۔ ذرا اس کا حوالہ تو پیش کرو۔مگر ہوتو پیش کریں۔کتنا کھلا جھوٹ ہے”جواب:۔
اس اعتراض کے دو حصے ہیں۔پہلا یہ کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ جن مکتبوں میں پڑھے ان کا حوالہ پیش کرو۔ورنہ معترض کے نزدیک حضرت موسیٰ و عیسیٰ بھی نبی کریمﷺکی طرح‘‘اُمّی’’تھے۔حالانکہ الرسول النبی الامّی کا خطاب اور مقام تو قرآن ہے کہ ‘‘لا تخطّہ بیمینک’’ کے مطابق آپﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ‘‘اُمّی’’صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاامتیاز اور شان ہے۔اورمَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ(الشوریٰ:53)کےمطابق آپ کو کتاب اور اسے پڑھنے کا علم نہ تھا۔چنانچہ جب جبریلؑ نے آپ کو ‘‘اِقرأ’’کہا تو فرمایا ‘‘ما انا بقاریٔ’’میں پڑھا ہوا نہیں۔مگر آپﷺ کی عظمت و شان اور کمال یہ ہے جن کو تمام دنیا کا معلّم کتاب و حکمت بنایا گیا۔کیا خوب فرمایا:امی و در علم وحکمت بے نظیرزیں چہ باشد حجتی روشن ترےرسول اللہﷺ کی یہ امتیازی شان حضرت مرزا صاحب نے دیگر انبیاء کے مقابل پر بیان فرمائی ہے۔اعتراض کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو خود اعتراف ہے کہ تمام نفوس قدسیہ انبیاءکو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔(براہین احمدیہ، خزائن جلد اول صفحہ١٦) خود ہی جھوٹ بولتے ہیں اورخودہی اس کی تردیدبھی کردیتےہیں کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ نے اساتذہ سے پڑھا ہے۔معترض اپنی کم فہمی کا الزام ناحق حضرت مرزا صاحب کو دیتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مرزا صاحب نےتحریر فرمایا‘‘روحانی علوم و فیوض میں نبی کا کوئی دنیاوی استاد نہیں ہوا کرتا،جس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیوی علوم بھی وہ اہل دنیا سے نہیں سیکھتے۔یہ بات تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔حضرت ادریس کے بارہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ پہلا نبی تھا جس نے قلم سے لکھنا سیکھا۔(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب ما جاء فی الطاعات وثوابھا جزء دوم صفحہ76)اسی طرح حضرت اسماعیلؑ کے بارہ میں لکھاہےکہ وہ عراق سے ہجرت کر کے حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ آئے تو ان کی زبان عبرانی تھی۔ وَشَبَّ الغُلاَمُ وَتَعَلَّمَ العَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ، (بخاری کتاب الانبیاء)انہوں نے جرہم قبیلہ سے عربی زبان لکھنا پڑھنا سیکھی۔رسول اللہﷺ میں اور دیگر انبیاء میں یہ فرق ہے کہ آپؐ پر کامل امّیت غالب تھی۔آپ نے ظاہری و باطنی اور دنیوی و روحانی کوئی علم کسی انسان سے نہیں سیکھا۔جبکہ دیگر انبیاء نے لکھنا پڑھنا اور دنیوی علوم اپنے زمانہ کے اہل علم لوگوں سے سیکھے جو کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ صرف روحانی علوم میں نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا مگر نامعلوم کیوں معترض کو اپنے نبی پاک رسول اللہﷺ کی یہ شان منظور نہیں اور آپ کی یہ شان چھین کر انبیاء بنی اسرائیل حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی دینا چاہتا ہے۔اہلحدیث اور امت محمدیہ کا فرد ہونے کا مدعی ہو کر اپنی امّت کے نبی کی فضیلت بلا ثبوت غیروں کو دینے پر انّا للہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔حالانکہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰؑ پڑھے لکھے تھے۔معترض نے نہایت بے باکی سے حضرت موسیٰ کے مکتب یا استاد کا حوالہ طلب کیا تھا۔لیجئے حوالہ پیش ہے:‘‘موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کلام اور کام میں قوت والا تھا۔’’(اعمال باب 7 آیت22)بلکہ‘‘آپؑ کو مذہبی رہنما کے طور پر تعلیم دی گئی اور آپ کو کافی حد تک مصری،کلدانی،اسیری اور یونانی لٹریچر سکھایا گیا تھا۔’’(The Old Testament History by William Smith p.138)کاش!معترض نے قرآن غور سےپڑھا ہوتا تو انہیں علم ہوتا کہ موسیٰ نے اللہ کے ایک نیک بندے کے آگے زانوئے تلمّذتہہ کیا تھا۔جسے مفسرین خضر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔گویا وہ مکتب خضر کے تعلیم یافتہ تھے۔قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے خضر کے پاس جاکر یہ درخواست کیهَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(کہف:67) مجھے اس شرط پر اپنے ہمراہ شریک سفر ہونے کی اجازت دیں کہ جو علم و رشد آپ کو سکھایا گیا ہے۔وہ علم آپ مجھے بھی سکھائیں۔اس استاد کامل نے پہلے تو تردّد کیا کہ اے موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے پھرکوئی سوال نہ کرنے کی شرط کے ساتھ حضرت موسیٰ کو اپنی شاگردی میں لیا۔پھر حضرت موسیٰ کو جو شریعت دی گئی وہ الواح میں تحریر شدہ تھی۔فرمایا: وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ(الاعراف:146) یعنی ہم نے موسیٰ کے لیے الواح میں ہر قسم کی نصیحت لکھی۔اگر وہ پڑھے نہ تھے تو الواح مرقومہ کی صورت میں شریعت کے مکلّف کیسے ہوگئے؟وہ تو الواح اپنے ساتھ رکھتے تھے۔فرمایا: أَخَذَ الْأَلْوَاحَ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ (الاعراف:155) کہ موسیٰ نے الواح اٹھائیںٍ جن میں ہدایت و موعظت تحریر تھی۔الواح کا مطالعہ اور ابلاغ حضرت موسیٰ کے پڑھنے لکھنے کے بغیر ممکن نہیں۔یہی حال حضرت عیسیٰ کا ہے۔انجیل شاہد ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔یہودی و عیسائی محققین کے نزدیک پہلی صدی قبل مسیح تک بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مدرسوں کا نظام موجود تھا جس میں بچوں کو درساً بائبل پڑھائی جاتی تھی۔‘‘پہلی صدی عیسوی تک صرف یروشلم میں 480 کے قریب ایسے ادارے قائم ہوچکے تھے۔۔۔۔۔اور پہلی صدی عیسوی میں اکثر یہودی بچوں کو انہیں مکتبوں میں رسمی تعلیم دی جاتی تھی۔’’(The Galilean Jewishness of Jesus by Bernard J. Lee page:122)یہود ان اداروں کو ‘‘بیت المدراس’’ کہا کرتے تھے۔(بخاری کتاب الجزیة باب اخراج الیہود من جزیرة العرب)ایک مشہور امریکی محقق Mark L. Straussکی عبارت کا مفہوماً ترجمہ یہ ہے:‘‘اکثر یہودی بچوں کی طرح یسوع کو بھی مقامی سناگوگ(معبد) میں جہاں صحائف اور عبرانی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے تعلیم دی گئی ہوگی۔ہمیں اس کے ناصرة میں خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پڑھ سکتا تھا۔’’(Jesus’ Literacy by Chris Keith page:12)‘‘وہ ناصرةمیں آیا جہاں اس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادت خانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔اور یسعیاہ نبی کی کتاب اس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اس نے وہ مقام نکالا جہاں یہ لکھا تھا کہ خداوند کا روح مجھ پر ہے۔۔۔پھر وہ کتاب بندکرکے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا۔(لوقاباب 4آیات16تا20)ایک اور کتاب میں ہے:“Like other boys in his village, from the age of six to ten Jesus became literate in Hebrew through study of the Torah in the Nazareth synagogue and he memorized vast quantities of scripture.”(The New Testament in Antiquity by Gray M.Burge,Page :128-129)یعنی اپنے گاؤں کے دیگر بچوں کی طرح 6 سے 10 سال کی عمر تک یسوع ناصرہ کے سینا گوگ میں تورات پڑھ کر عبرانی سیکھ گیا تھا اور اس نے صحائف کا کافی حصہ یاد کر لیا تھا۔’’1۔حدیث نبویؐمیں ہے:وھو أول من خط بالقلم(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب ما جاء فی الطاعات وثوابھا جزء دوم صفحہ76)ترجمہ:ادریس ہےاوروہ پہلاشخص ہےجس نےقلم سےلکھناشروع کیا۔2۔سیرۃابن ہشاممیں ہے:”یہی ادریس پیغمبرہیں اوران ہی کوپہلےنبوت ملی اورانہی نےقلم سےلکھناایجادکیا۔”(سیرۃابن ہشام مترجم اردو جلد اول صفحہ١مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہورومطبوعہ مطبع جامعہ عثمانیہ حیدرآباددکن1367ھ)3۔ حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:”انّہ علیہ السلامُ لم یکن من أھل القرأۃ والکتابۃ فلو نُزِّل علیہ ذالک جملۃ واحدۃ کان لا یضبطہ، ولجاز علیہ الغلط والسھو وانما نزلت التوراۃ جملۃ لأنھا مکتوبۃ یقرء ھا موسیٰ”(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ472مطبوعہ مطبع اول۔نیاایڈیشن جلد 24صفحہ78مصرزیرآیت بالاالفرقان :23)یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے ہوئے نہیں تھے۔۔۔لیکن تورات جوبیک وقت نازل ہوگئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لکھی لکھائی تھی اور حضرت موسیٰ پڑھنا جانتے تھے۔4۔ تفسیربیضاویزیرآیت الفرقان :23لکھاہے: کذلک أنزلناہ مفرقا لنقوی بتفریقہ فؤادک علی حفظہ وفہمہ لأن حالہ یخالف حال موسی وداود وعیسی حیث کان علیہ الصلاۃ و السلام أمیا وکانوا یکتبون۔(بیضاوی جزء اول صفحہ216زیر آیت الفرقان 23)یعنی ہم نے ایسے ہی قرآن مجید کو بیک وقت نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے۔۔۔۔یہ اس لیے ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ علیہ السلام سے مختلف تھا بدیں وجہ کہ آپ ”امی” تھے مگر موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ علیہم السلام لکھے پڑھے ہوئے تھے۔5۔ تفسیرحسینیمیں ہے:”حضرت موسیٰ اورحضرت داؤدعلیہماالسلام پرکتاب جوایک باراتری تووہ لکھتے پڑھتے تھے اور ہمارے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم وآلہٖ اجمعین امی تھے۔”(تفسیر حسینی مترجم اردو جلد دوم صفحہ140زیرآیت ورتلناہ ترتیلا)6۔پڑھالکھاہونامنصب نبوت کےخلاف نہیں ہے۔حضرت موسیٰ اورحضرت عیسیٰ کے حالات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ پڑھےلکھے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سرنبوت کی تفصیل و شرح اور علوم باطنی کے سب سے بڑے راز دان تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم کے سوا کسی غیر کی تعلیم کا منت کش بنانا گوارا نہ فرمایا۔ چنانچہ گذشتہ آسمانی کتب میں بھی امی کے لقب کے ساتھ آپ کی بشارتیں دی گئیں۔(تاریخ القرآن مصنفہ حافظ محمد اسلم صاحب جے۔ راج پوری مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحہ 13-14باختلاف الفاظ مطبوعہ مطبع فیض عام علیگڑھ1326ھ زیرعنوان تمہید)پس النبی الامّی صرف رسول اللہ کی شان اقدس ہے۔بقای انبیاء دنیوی علوم اہل دنیا اور اہل علم سے سیکھتے رہے۔ہاں علم لدنی و روحانی میں کسی نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا۔علم الہٰی،اخبار غیبیہ اور وہ روحانی معارف وحقائق جو انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے جاتے ہیں اور وہ ہر وقت جبریلی تجلی کے نیچے ہوتے ہیں اور تمام انبیاء بروزی طور پر ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی کے مصداق ہوتے ہیں۔جیسا کہ ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ ﷺاس کے اکمل و اتم مصداق تھے۔اور حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:’’ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی اُستادسے نہیں پڑھا تھا ۔۔۔ غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے کسی اُستاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی اُستاد ہوا اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اِقْرَءْ کہا۔ یعنی پڑھ ۔ اور کسی نے نہیں کہا اِس لئے آپ نے خاص خداکے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی۔‘‘(ایام الصلح- روحانی خزائن جلد14صفحہ394)اب یہ حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد ملاحظہ فرمائیے کہ جھوٹ کا مرتکب کون ہوا؟ اگر معترج کا موقف مانا جائے تو حضرت موسیٰ،حضرت ادریس،حضرت اسماعیل کی نبوتوں پر بھی اعتراض پڑتا ہے جن کو قرآن سچا نبی قرار دے رہا ہے۔پس مرزا صاحب پر بدظنی کر کے معترض نے دیگر کئی انبیاء پر بھی جھوٹ کی جسارت کی۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے:وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ . وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ .(فصلت:24-25-)اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہو گا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہو گا’’
اعتراض:۔
‘‘اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہو گا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہو گا’’(اربعین نمبر 2خزائن جلد 17صفحہ 371)اس عبارت میں لفظ‘‘قطعی مہر’’غور طلب ہے۔یہ انبیاء کرام ہیں جن کی بات قطعی درجےکی ہوتی ہے۔ اولیاءکی بات کہیں قطعی شکل اختیار نہیں کرتی،نہ ہی ان کاالہام شرعی حجت ہوتاہے۔ان کے کشوف ظنی ہوتے ہیں۔ یہ لفظ قطعی بتا رہا ہے کہ پیچھے اولیاء کا لفظ نہ تھا۔ اربعین کے پہلے ایڈیشن میں اس جگہ انبیاء کا لفظ تھا۔ دوسرے ایڈیشن میں لکھا کہ اصل لفظ اولیاء تھا۔پہلے ایڈیشن میں غلطی سے اولیاء کی جگہ انبیاء کا لفظ لکھا گیا ہے اور اب‘‘ روحانی خزائن’’ سے یہ نوٹ بھی اڑا دیا گیا ہے۔ یہ خیانت در خیانت ہے۔چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہونے اورپنجاب والے اولیاء کے کشوف ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔جواب:۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے جب معترض کو حضرت مرزا صاحب کے خلاف کوئی حقیقی اعتراض نہیں ملتا تو وہ سہو کاتب تلاش کرتا ہے۔اب حضرت مرزا صاحب کی85 کتابوں کے ہزاروں صفحات میں کہیں نہ کہیں کوئی سہو کاتب تو مل ہی جاتا ہے۔جس پر یہ بغلیں بجاتے اوراسے جھوٹ یا خیانت قرار دیتے ہیں حالانکہ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوسکتا ہے۔اب اگر روحانی خزائن کے کسی ایڈیشن میں غلطی سے ‘‘انبیاء’’ گزشتہ کے کشوف کے مطابق چودہویں صدی پر مسیح موعودو مہدی کے ظہور کا ذکر چھپ گیا اور بعد درستی کر کے انبیاء کی بجائے اولیاء لکھا گیا اور بقول معترض یہ وضاحت بھی کر دی گئی کہ اصل لفظ اولیاء تھا غلطی سے انبیاء لکھا گیا تو اس میں کونسی قیامت آگئی۔ہاں اس پر خیانت کا اعتراض بڑا ظلم ہے۔اور پھرمعترض کا یہ اصرار کہ اصل لفظ انبیاء ہی ہے حالانکہ اس کا فیصلہ مصنف اور اس کے اشاعت کے ذمّہ دار نے کرنا ہے۔خصوصا جبکہ سیاق و سباق اور اندرونی شہادت یہ ثابت کرے کہ اس مقام اور محل پر اولیاء کا لفظ ہی درست ہے تو اعتراض بالکل ختم ہو جاتا ہے۔جیسا کہ حوالہ میں اولیاء کے کشوف کا ذکر ہے کیونکہ ولیوں کے ساتھ رؤیا و کشوف کا معاملہ زیادہ ہوتا ہے جو نبوت کا 46واں درجہ ہے۔جبکہ انبیاء کو وحی ہوتی ہے جیسے فرمایا: فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ(الجن:27-28)معترض کا اولیاء کے کشف و الہام شرعی حجت کی بجائے ظنّی قرار دینا قرآن شریف سے لاعلمی اور جہالت کی بات ہے۔اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے: إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى ۔أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ (طہ:39-40)کہ حضرت موسیٰ کی والدہ کو ہم نے وحی کی کہ حضرت موسیٰ کو صندوق نما کشتی میں رکھ کر سمندر میں ڈال دوپھر فرمایا: وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (قصص:8) اور خوف و غم نہ کرنا ہم خود اسے تمہاری طرف لوٹا کر لے آئیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔اب اگر معترض کی طرح موسیٰ کی والدہ بھی اس وحی کو حجت شرعی نہ سمجھتیں تو حضرت موسیٰ کی ہلاکت یقینی تھی۔اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ میں نے بعض حواریوں کو وحی کی وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا(المائدة:112)کہ میرے رسولوں پر ایمان لاؤ۔اگر وہ بھی معترض کی طرح حجت نہ سمجھتے توہمیشہ کافر رہتے۔اولیاء کے کشف و الہام پر ظنّی ہونے کا اعتراض کودراصل خدا کی ذات پر اعتراض ہے جو خودالہام کرنے والا ہے اور وحی و الہام کو مشتبہ کرنے والی بات ہے۔دیکھا خدا کے پیاروں پر اعتراض اور بدظنی سے نوبت کہاں جا پہنچی ہے کہ خدا پر اعتراض،نبیوں پر اعتراض اور ان کو جھوٹا۔۔۔۔مولوی صاحب کی تسلی کے لئے بزرگان و اولیاء امت کی گواہیاں درج ذیل ہیں:1۔سورة جمعہ کی آیت وآخرین منھم لمّا یلحقوا بھم کی تفسیر نبی کریمﷺ نے یہ فرمائی کہ ‘‘ایک رجل فارس آکر ایمان کو قائم کرے گا۔اس آیت کے اعداد بحساب جمل 1274ھ بنتے ہیں۔جس میں مسیح موعود کی بعثت کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے۔’’2۔ھل ینظرون الّا الساعہ ان تأتیھم بغتةّ(الزخرف:67) کہ جس گھڑی کا وہ انتظار کرتے ہیں اچانک آئے گی۔علامہ ابن عربی نے اس سے مراد مہدی لیا ہے اور اقتراب الساعة میں ‘‘بغتة’’ کے اعداد 1407 نکال کر مہدی کا زمانہ مراد لیا گیا ہے۔3۔حضرت ملّا علی قاری نے حدیث‘‘الآیات بعد المائتین میں ‘‘المائتین’’ سے ایک ہزار سال لیکر مسیح و مہدی کو تیرہویں صدی کا نشان قرار دیا ہے۔4۔الیواقیت والجواہر میں علامہ عبد الوہاب شعرانی نے مہدی کی پیدائش کا زمانہ 1255ھ لکھا ہے۔5۔حافط عبد العزیز پرہاڑوی لکھتے ہیں:درسن غاشی ہجری دو قران خواہد بوداز پئے مہدی و دجال نشان خواہد بود6۔صاحب کشف حضرت نعمت اللہ شاہ ولی صاحب (834ھ) فرماتے ہیںغین ری سال چوں گزشت از سالبو العجب کاروبار می بینممہدی وقت و عیسی دوراںہر دو شاہسوار می بینمترجمہ: جب غین رے ( حروف ابجد کے مطابق اعداد) 1200 سال گزرجائیں گے اس وقت مجھے عجیب و غریب واقعات ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مہدی وقت اور عیسیٰ دوران ہردوکو میں شاہسوار ہوتے دیکھتا ہوں۔(اربعین فی احوال المھدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید : 2 و 4 )نویں صدی کے صاحب کشف بزرگ نے فرمایا ہے کہ مجھے یہ دکھائی دے رہاہے گویا اپنا کوئی کشف بیان کر رہے ہیں اور عین ان کے کشف کے مطابق حضرت مرزا صاحب کی پیدائش 1250ھ میں ہوئی ۔یہی حضرت نعمت اللہ ولی اللہ نے فرمایا تھا کہ بارہ سو کے بعد وہ آئیں گے۔اور صدی کے سر پر انکا بطور مجدد ظہور ہونا تھا ۔جیسے کہ اگلے حوالے سے ظاہر ہے ۔7۔اہلحدیث کے بزرگ عالم نواب صدیق حسن خانصاحب (1307ء) جو کہ اہل حدیث کے معروف عالم اور بزرگ ہیں بلکہ اہل حدیث انہیں اپنے وقت کا مجدد سمجھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:‘‘اب مدت دس ماہ کی ختم تیرھویں صدی کوباقی ہے پھر 1301ھ اور 1884ء سے چودھویں صدی شروع ہوگی اور نزول عیسیٰ و ظہور مہدی و خروج دجال اوّل صدی میں ہوگا۔’’ (ترجمان وہابیہ صفحہ 42-41۔ از نواب صدیق حسن خانصاحب)8۔ اہلحدیث کے ایک اوربزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1175ء) نے امام مہدی علیہ السلام کی تاریخ ظہور لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جو کہ حروف ابجد کے لحاظ سے 1268 ہے۔(حجج الکرامہ:394)نیز آپ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ قیامت قریب ہے اور امام مہدی خروج کرنے کے لئے تیار ہیں۔ (تفہیمات الٰہیہ جلد 2 صفحہ 160۔ تفہیم نمبر 146 )9۔ الشیخ علی اصغر ابرو جروی مشہور شیعہ عالم (پیدائش 1231ء) فرماتے ہیں کہ‘‘سال ”صرغی” میں اگر زندہ رہا تو ملک و ملک و دین میں ایک انقلاب آجائے گا۔ صرغی کے اعداد بحساب ابجد 1300 بنتے ہیں ۔’’(نورالانوار از شیخ علی اصغر صفحہ 215 )10۔حضرت حافظ برخوردار صاحب (1093ء) اپنے قلمی نسخہ ”انواع” صفحہ 14میں فرماتے ہیںپچھے ہک ہزار دے گزرے ترے سو سالحضرت مہدی ظاہر ہوسی کرسی عدل کمال11۔ ایک اور اہلحدیث بزرگ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی(1239ء) فرماتے ہیں”بعد بارہ سو ہجری کے حضرت مہدی کا انتظار چاہیے اور شروع صدی میں حضرت کی پیدائش ہے”(اربعین فی احوال المہدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید آخری صفحہ)حضرت مرزا صاحب کیا ہی سچ فرماتے ہیں کہوقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقتمیں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتاتمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لیکر آخیر دنیا کی عمر سات ہزار سال رکھی ہے
اعتراض:۔‘‘تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لیکر آخیر دنیا کی عمر سات ہزار سال رکھی ہے۔’’(لیکچر سیالکوٹ ص6، خزائن جلد 20صفحہ 207)جھوٹ ،بالکل جھوٹ۔قرآن شریف، کتب سماوی اور انبیاء علیھم السلام پر صریح جھوٹ ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہوگی،بلکہ تمام انبیاء اس بات پر متفق ہیں کہ قیامت کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور دنیا کی عمر کتنی ہے۔‘‘ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن’’کسی نبی، قرآن مجید یا آسمانی کتاب سے حوالہ پیش کریں۔’’جواب:۔
معترض نے یہاں بھی دیانتداری سے کام نہیں لیااور حضرت مرزا صاحب کی عبارت کا ادھورا حصہ پیش کر کے اعتراض کر دیا ہے۔اگلی عبارت جس میں اس سوال کا جواب موجود ہے،وہ پیش نہیں کی۔آپ فرماتے ہیں:‘‘ یہ صحیح نہیں ہے جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں۔پھر آدم سے اخیر تک سات ہزار سال کیونکر مقرر کر دیئے جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں صحیح طور پر فکر نہیں کیا۔ مَیں نے آج یہ حساب مقرر نہیں کیا یہ تو قدیم سے محققین اہل کتاب میں مسلّم چلا آیا ہے۔ یہاں تک کہ یہودی فاضل بھی اس کے قائل رہے ہیں اور قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں بھی باتفاق یہی کہتی ہیں اور آیت وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج:48)سےبھی یہی نکلتاہےاورتمام نبی واضح طورپربھی خبردیتےآئےہیں۔(لیکچر سیالکوٹ ص6،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 207)اب اول تو خود حضرت مرزا صاحب نے قرآن شریف کی ایک آیت سے اشارہ دے دیا کہ خدا کے نزدیک ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے اور معترض جو کسی نبی کا حوالہ مانگتا ہے تو سب سے پہلے سید الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰﷺکایہی حوالہ کافی ہے۔جو آپ نے فرمایا کہ دنیا آخرت کے ایّام میں سے کل سات دن ہے یعنی سات ہزار سال۔چنانچہ دیلمی نے حضرت انسؓ سےیہ روایت کرتے ہوئے اسی آیت کو پیش کیا ہے جو حضرت مرزا صاحب نے پیش کی اور کہا کہ{وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ} [الحج: 47]کا یہی مطلب ہے۔یہی روایت ‘‘کشف الخفاء’’ میں علامہ عجلونی نے ‘‘مقاصد الحسنة’’ میں علامہ سخاوی نے‘‘تاریخ جرجان’’ میں علامہ جرجانی نے ‘‘حاوی للفتاویٰ’’ میں علامہ سیوطی نے بیان کی ہے۔اسی طرح ایک اور حدیث عمر دنیا کے بارہ میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ عمر الدنیا سبعة آلاف سنة کہ عمر دنیا سات ہزار برس ہے۔اس روایت کو علامہ سیوطی (المتوفى: 911ھ)نے اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعةجزء2ص369میںاور ابن عراق الكناني (المتوفى: 963ھ)نے تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعةجزء2ص379میںاور حضرت ملا علی قاری ؒ (المتوفى: 1014ھ)نے الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى جزء1ص199میں بیان کیا ہے۔حضرت مرزا صاحب کے حوالہ میں یہ بھی ذکرتھاکہ یہودی فاضل بھی سات ہزار سال عمر دنیا کے قائل رہے ہیں۔چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے اور ہمیں ہزار برس کے مقابل صرف ایک دن یعنی کل سات دن عذاب ہوگا۔جیسا کہ ان کا یہ قول قرآن میں بیان ہوا وقالو لن تمسنا النار الاایاما معدودة۔اس سے یہی مرادہے۔اسی طرح حضرت علیؓ کا قول ہے کہ تورات میں ہے کہ‘‘الدنیا جمعہ من جمع الآخرة و ھی سبعة آلاف سنة’’کہ دنیا آخرت کےجمعوں میں سے ایک جمعہ ہے اور وہ سات ہزار سال ہے۔(فیض القدیر جز ء3صفحہ547)حضرت علیؓ اورحضرت ابن عباسؓ جیسے معتبرصحابہ کے ان حوالہ جات کے بعد امید ہے اہلحدیث معترض کی تسلّی ہوگئی ہوگی اور حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کی طرح ان صحابہ سےتو کم از کم حوالہ کا مطالبہ نہ کریں گے۔لیکن بعید نہیں کہ اب معترض ان احادیث پر جن میں دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے،اعتراض کر کےضعیف قرار دے تویاد رکھنا چاہیے اس کے مقابل پر ایک ملہم من اللہ حضرت مرزا صاحب کی اس حدیث کی تصدیق کی بہرحال معتبر سمجھی جائے گی کیونکہ محدثین کے نزدیک یہ امر مسلّم ہے کہ تصحیح حدیث کشف اور الہام کے ذریعہ زیادہ معتبرہے۔خصوصاً جب کہ دیگر کئی مفسرین و محدثین حضرت مرزا صاحب کی تائید میں یہ حوالے لے کر گویا صف بستہ کھڑے ہیں۔1۔چنانچہ تفسیرروح المعانی میں علامہ محمود آلوسی میں لکھا ہے کہ ہم مفسرین میں سے ایک کثیر تعداد کے مطابق دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور اس بارہ میں کثیر روایات ہیں۔اسی طرح تفسیر روح البیان میںعلامہ اسماعیل حقی نےبھی یہی لکھا ہے۔ احادیث کی کتب میں بھی ایسی روایات کثرت سے درج ہیں کنز العمال اور ابن عساکر میں بھی ایسی روایات موجود ہیں ۔2۔مولوی انور شاہ کشمیری نے بخاری کی شرح فیض الباری میں اس روایت کو کمزور ماننے کے باوجود عمر دنیا سے ایک ہزار سال باقی رہ جانے کا ذکر کیا ہے۔3۔ مشہور محدث علامہ عبد الرؤوف المناوي القاهري(المتوفى: 1031ھ)نے اپنی کتاب فیض القدیرمیںلکھا ہے کہ چاروں مذاہب یعنی مسلمان ، عیسائی ، صابی اور یہود کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔(فیض القدیر جز ء3صفحہ547)جہاں تک معترض کی اس بات کا تعلق ہےکہ ‘‘قیامت کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور دنیا کی عمر کتنی ہے۔’’اس کا جواب دیتے ہوئےحضرت مرزا صاحب نےایک نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے:‘‘اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ قیامت کی گھڑی معلوم نہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا نے قیامت کے بارے میں انسان کو کوئی اجمالی علم بھی نہیں دیا ورنہ قیامت کے علامات بھی بیان کرنا ایک لغو کام ہو جاتا ہے کیونکہ جس چیز کو خدا تعالیٰ اس طرح پر مخفی رکھنا چاہتا ہے اُس کے علامات بیان کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ بلکہ ایسی آیات سے مطلب یہ ہے کہ ؔقیامت کی خاص گھڑی تو کسی کو معلوم نہیں مگر خدا نے حمل کے دنوں کی طرح انسانوں کو اس قدر علم دے دیا ہے کہ ساتویں ہزار کے گذرنے تک اِس زمین کے باشندوں پر قیامت آجائے گی۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ہر ایک انسان کا بچہ جو پیٹ میں ہو نو9ماہ دس10 دن تک ضرور پیدا ہوجاتاہے لیکن تاہم اُسکےپیداہونے کی گھڑی خاص معلوم نہیں ۔ اِسی طرح قیامت بھی سات ہزاربرس تک آجائےگی۔مگراُس کےآنےکی گھڑی خاص معلوم نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سات ہزار پورا ہونے کے بعد دو2تین3صدیاں بطورکسورکےزیادہ ہوجائیں جوشمارمیں نہیں آسکتیں۔’’(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21صفحہ259تا291)اب آخر میں مختصراً یہ ذکرضروری ہے کہ حضرت مرزا صاحب کواپنی کتاب‘‘ایام الصلح’’میں دنیا کی عمر سات ہزار سال بیان کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی اور معترض اس بات پر سیخ پا کیوں ہے؟دراصل حضرت مرزا صاحب اس حوالہ میں آنحضرتﷺ کی نبوت کے ثبوت بیان فرما رہے ہیں۔ایک ثبوت یہ دیا کہ آپ نے تاریکی کے زمانہ میں مبعوث ہوکر ایک مشرک اور وحشی قوم کو ایسا باخدا انسان بناکردکھایا کہ تمام کی کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے۔آپ کا دوسرا ثبوت نبوت یہ ہے کہ آپ نے دنیا کے سات ہزار سالہ ادوار میں سے ہدایت کے لیے مقرر پانچویں ہزار سال پر آکر توحید کو دنیا میں قائم کیا تھا پھر چھٹا ہزار سال گمراہی کا ہوا اور پھر ساتویں ہزار سال پر جو ہدایت کا ہزار سال ہے مسیح موعود کی آمد مقدر ہوئی۔اب معترض مرزا صاحب کی مخالفت میں آنحضرت ﷺ کے ثبوت نبوت کے حق میں دی گئی دلیل کو بھی جھٹلاتاہے جس کی تائید واقعات اور قرآن و حدیث کرتے ہیں۔اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے۔سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیںعمر دنیا کو بھی اب تو آگیا ہفتم ہزار‘‘وَقَدْ سَبُّوْنِیْ بِکُلِ سَبٍّ فَمَا رَدَدْتُ عَلَیْھِمْ جَوَابَھُمْ۔’’
اعتراض:۔
‘‘وَقَدْ سَبُّوْنِیْ بِکُلِ سَبٍّ فَمَا رَدَدْتُ عَلَیْھِمْ جَوَابَھُمْ۔’’ومرا از ہرگونہ بسب و شتم یاد کردند۔ پس جواب آن دشنا مہا ندادم(مواہب الرحمن، خزائن جلد 19صفحہ236 )‘‘ان(علماء) نےمجھےہرطرح کی گالیاں دیں مگرمیں نےان کوجواب نہیں دیا۔’’مرزا جی کایہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے کہ:‘‘میں تسلیم کرتا ہوں مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی ہے لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔’’(کتاب البریہ، خزائن جلد 13صفحہ11)اس عبارت میں مرزا جی کا جھوٹ خود ہی پکڑا گیا کہ میں نے کبھی کسی مخالف کو گالی نہیں دی۔حالانکہ کسی کو بخشا نہیں ہے۔جواب:۔
معترض نےیہاں بھی ادھورا حوالہ پیش کرنے کے علاوہ ترجمہ میں بعض الفاظ چھوڑ کر اپنا اعتراض تراشا ہے۔ترجمہ یہ کیا ہے کہ مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں مگر میں نے ان کو جواب نہیں دیا۔حالانکہ عربی اور فارسی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ صرف یہ درست نہیں۔اصل ترجمہ یہ بنتاہے کہ ان علماء نے مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں۔مگر میں نے ان سب کی گالیوں کاترکی بترکی جواب نہیں دیا۔یعنی جیسا کہ بازاری اور سفلہ لوگوں کا طریق ہوتا ہے۔اور حوالہ کے جو الفاظ چھوڑ دئیے ان سے ان علماء کی گالیوں کی شدّت اور پہل ظاہر ہےکہ میرے دعوے کے جواب میں انہوں نے گالی گلوچ اور فحش گوئی اور تکفیر و تکذیب اور ایذاء رسانی کی اور ہر طرح کی ایسی گالیاں دیں جن کا من و عن جواب میں نے نہیں دیا۔چنانچہ اس کی مزید وضاحت ‘‘کتاب البریہ’’میں ہے کہ‘‘مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البریت رکھا ہے۔۔۔۔ہمارے تمام سخت الفاظ جوابی تھے اور نیز ان کے مقابل پر نہایت کم۔’’(کتاب البریہ صفحہ11-15)بطور ثبوت صرف علمائے اہلحدیث کی گل فشانیوں کا نمونہ(مطابق کتاب البریہ)1۔اہلحدیث مولوی میاں نذیر حسین دہلوی المعروف بہ شیخ الکل(رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر5 جلد13)نے آپؑ کوملحد۔ دجّال۔ بے علم۔ نافہم۔ اہل بدعت وضلالت۔ (آپ نے اسے یہ الفاظ جواباً نہیں کہے۔)2۔اہلحدیث مولوی شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ(اشاعۃ السنہ نمبر یکم لغایت ششم جلد شانز دہم 1893ء)اہلحدیث مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کو اسلامؔ کا چھپا دشمن۔ اعور دجّال۔رو سیاہ مثیل مسیلمہ و اسود۔ جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق۔ ڈاکو۔ خونریز۔جس کا مرشد شیطان علیہ اللعنۃ بازاری شہدوں چوہڑوں بہائم اور وحشیوں کی سیرت اختیار کرنے والا۔(آپؑ نےان گالیوں کا جواب ان الفاظ میں نہیں دیا۔)3۔مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی:”قادیانی تمام لوگوں سے ذلیل تر۔ آگ میں جھوکا جائے گا۔کجر و بلید فاسد ہے۔ اور رائے کھوٹی۔ گمراہ ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والا۔ چھپا مرتد۔ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ اور نہ یہؔ اسلامی قبرستان میں دفن ہو۔ (حضرت مرزا صاحب نے یہ نہ کہا)4۔مولوی عبد الحق غزنوی:اشتہار ضرب النعال علیٰ وجہ الدجال3/ شعبان 1314ھ‘‘دجال۔ ملحد۔ بدکار۔ شیطان۔ ذلیل۔ خوار۔ لعن طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا۔ مارے شرمندگی کے زہر کھا کر مرجاوے گا۔ اس کی سب باتیں بکواس ہیں۔’’ (مرزا صاحب نے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے)5۔منشی محمد جعفر تھانیسری(تائید آسمانی 23/ جولائی 1892ء)‘‘مرزا صاحب دھوکہ باز اور گمراہ کرنیوالا ہے۔’’6۔اشتہار مولوی محمد و مولوی عبداللہ و مولوی عبدالعزیز لدھیانویاں مطبوعہ 29/ رمضان 13087۔ سعد اللہ نومسلم لدھیانوی(نظم حقانی مسمّی بہ سرائر کادیانی23/ شعبان 1313 ھ)8۔محمد رضا الشیرازی الغروی شیعی (بُت شکن ۔ مطبوعہ قمر الہند)الغرض حضرت مرزا صاحب نے قرآنی ارشادوَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا(الشُّورَى: 41)کہ بدی کا بدلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے، بدلہ کا کم از کم حق بھی تب استعمال کیا جب مخالفین نے نہایت سخت دل آزاراور توہین آمیز کلمات استعمال کیے۔قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ مِنَ السُّوْءِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ کے مطابق آپ کے لیے ضروری ہو گیا کہ مزید ظلم کو روکنے کے لیے اپنی مظلومیت کا مداوا کریں۔پس حضرت اقدس ؑ نے کبھی بھی اور کہیں بھی ابتداءً کسی مخالف کے متعلق سخت الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ بلکہ سینکڑوں خطوط اور تحریرات کے جواب میں بعض عبارتوں میں کہیں کہیں شاذ کے طور پر بعض الفاظ سخت دکھائی دیتے ہیں۔اور اس میں بھی قرآن و حدیث کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے صرف وہ الفاظ استعمال کیے جس کے وہ لوگ مستحق تھے اور وہ بے محل نہیں تھے۔اس لیے وہ گالی نہیں تھی بلکہ امر واقعہ کا برمحل اظہار تھا۔حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:”1۔ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔2۔اوّل یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پاکر اپنی روش بدلالیں ۔۔۔3۔ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں کا ردّعمل سخت نہ ہو۔ ”(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ11)معترض نے بڑی بےباکی سے یہ حوالے پیش کرکے کہا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کا جھوٹ پکڑا گیا۔مگراب بتائیے! جھوٹ کس کا پکڑا گیا۔اور سچا کون ثابت ہوا۔مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ کاذب ہے، تو ہم سے پہلے مرے گا۔ اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا۔ کیونکہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے
اعتراض:۔
‘‘مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ کاذب ہے، تو ہم سے پہلے مرے گا۔ اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا۔ کیونکہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے اور اس طرح ان کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا۔ ’’(اربعین نمبر3صفحہ9خزائن جلد17صفحہ394)دونوں مولویوں پر افتراء اور جھوٹ مرزا جی نے بولا ہے۔پیروکاران مرزا جی سے سوال ہے کہ ان علماء کی کتابوں سے حوالہ نکال کر دیں ورنہ ((لعنة اللہ علی الکاذبین))جواب:۔
معترض کے اس اعتراض پر تعجب ہے کہ جب ایک صدی سے زائد عرصہ قبل حضرت مرزا صاحب نے یہ کتاب اربعین شائع کی اور تحریری مباہلہ میں اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم مولوی علامہ غلام دستگیری کی ہلاکت کا ذکر کیا تو اس وقت علماء اہل حدیث نے(جو مرزا صاحب کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھتے تھے)نے یہ سوال نہیں اٹھایا نہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے،نہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے،نہ کسی اور عالم نے،نہ ہلاک ہونیوالے مولوی کےکسی وارث نے۔آج آپ نے 116سال بعد یہ سوال کیے تو آخر کیوں؟ اس لیے کہ اب اس نشان کو مشتبہ کیا جائے کیونکہ ایک صدی زائدزمانہ گزرگیا،تقسیم ملک ہوگئی۔اب 116 سال قبل لدھیانہ بھارت میں شائع ہونے والے رسالہ فتح رحمانی کا حوالہ حضرت مرزا صاحب کے اتباع کہاں سے پیش کریں گے؟اس لیے بڑی سادگی اور پُرکاری سے کہتے ہیں۔اتباع مرزا سے سوال ہے کہ ان علماء کی کتابوں سے حوالہ نکال کر دکھائیں۔کیونکہ مولوی غلام دستگیر صاحب اہل حدیث کے بڑے عالم تھے۔اب اہل حدیث تو اپنے خلاف یہ کتاب شائع کرنے سے رہے۔مگر انہیں کیا معلوم کہ جس طرح خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کی تائید کے لیے کس طرح فرشتوں کے ذریعہ تحریک کرواتا ہے۔اللہ بھلا کرے عالمی مجلس ختم نبوت والوں کا جنہوں نے یہ رسالہ فتح رحمانی 116سال بعد دوبارہ شائع کر کے مرزا صاحب کی صداقت پر مہرتصدیق ثبت کر دی اور یوںلو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیابے شک جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر اہلحدیث دیوبندی بریلوی حضرات کے ساتھ تمام اختلاف بھلا کراکٹھے ہوجاتے ہیں مگران کا سچا نقشہ قرآن نے کھینچا ہے: تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتّیٰ۔۔۔چنانچہ ایک فریق اہلحدیث حوالہ کامطالبہ کرتا ہے دوسرا دیوبندی گروہ خودوہ کتاب شائع کرکے جواب دیتا ہے۔ملاحظہ ہوفتح رحمانی کے ایک صدی بعد عالمی مجلس ختم نبوت کی طرف سےشائع ہونے والے ایڈیشن کا حوالہ جو من و عن حقیقة الوحی کے مطابق ہے۔مولوی غلام دستگیر لکھتا ہے:‘‘اللھم یاذالجلال والاکرام یا مالک الملک جیساکہ تُونےایک عالم ربانی حضرت محمدطاہرمؤلف مجمع بحارالانوارکی دعااورسعی سےاس مہدی کاذب اورجعلی مسیح کابیڑاغارت کیاتھاویساہی دعاوالتجاءاس فقیرقصوری کان اللہ لہ سے (جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے)مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبہ نصوح کی توفیق رفیق فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا فقطع دابر القوم الذین ظلمواوالحمدللہ رب العلمین انک علی کل شئی قدیر وبالاجابۃ جدیر۔آمین’’(احتساب قادیانیت(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی)جلد 10صفحہ567مطبوعہ ستمبر2003ء ناشر عالمی مجلس ختم نبوت حضور باغ روڈ ملتان)یہ تھی وہ دعائے مباہلہ جو مولوی غلام دستگیر نے لکھی اور حضرت مرزا صاحب اس پر یہ بجا تبصرہ فرمایا کہ‘‘مولوی غلام دستگیر نے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت قطع دابر القوم الذین ظلموا پر چھوڑا تھا جس کے اس محل پر یہ معنی ہیں کہ جو ظالم ہو گا اس کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ اور یہ امر کسی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کا مفہوم عام ہے جس کا اس شخص پر اثر ہوتا ہے جو ظاہر ہے۔ پس ضرور تھا کہ ظالم اس کے اثر سے ہلاک کیا جاتا۔ لہٰذا چونکہ غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھا اس لیے اس زدر بھی اس کو مہلت نہ ملی جو اپنی اس کتاب کی اشاعت کو دیکھ لیتا اس سے پہلے ہی مر گیا۔ اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اس دعا سے چند روز بعد ہی فوت ہو گیا۔۔۔۔اس وقت قریبا گیارہ سال غلام دستگیر کے مرنے پر گزر گئے ہیں جو ظالم تھا خدا نے اس کو ہلاک کیا اور اس کا گھر ویران کر دیا۔ اب انصافاً کہو کہ کس کی جڑھ کاٹی گئی اور کس پر یہ دعا پڑی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَائِرَ عَلَیْھِمْ دَآئِرَۃُ السُّوْء۔ یعنی اے نبی تیرے پر یہ بد نہاد دشمن طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ انہیں پر گردشیں پڑیں گی۔ پس اس آیت کریمہ کی رو سے یہ سنت اللہ ہے کہ جو شخص صادق پر کوئی بددعا کرتا ہے وہی بد دعا اس پر پڑتی ہے۔ یہ سنت اللہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ظاہر ہے۔ پس اب بتلاؤ کہ غلام دستگیر اس بددعا کے بعد مر گیا یا نہیں۔ لہٰذا بتلاؤ کہ اس میں کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی بددعا سے تو ایک جھوٹا مسیح مر گیا اور میرے پر بددعا کرنے والا خود مر گیا۔ خدا نے میری عمر تو بڑھا دی کہ گیارہ سال سے میں اب تک زندہ ہوں اور غلام دستگیر کو ایک مہینہ کی بھی مہلت نہ دی۔’’(حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد 22صفحہ343تا345)مولوی غلام دستگیر کےرسالہ فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی کی پہلی اشاعت کے بارہ میں مولوی مقتدیٰ حسن اور قاضی صفی الرحمن مبارکپوری نے لکھا ہے ”مولانا غلام دستگیرقصوری قادیانی فتنے کا مقابلہ کرنے والوں کی صف اول میں تھے۔آپ کاشمار پنجاب کے ممتاز علمائے اہل حدیث میں ہوتا تھا۔”(تذکرۃ المناظرین،حصہ اول،ص:مطبوعہ دارالنوادر،اردوبازار لاہور-قادیانیت اپنے آئینے میں:مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،لاہور)رسالہ فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی کی اشاعت کے بارہ میں مولوی مقتدیٰ حسن اور قاضی صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں:‘‘یہ رسالہ1315ھ میں مولانامشتاق احمدحنفی چشتی کےرسالہ التقریرالفصیح فی تحقیق نزول المسیح کےہمراہ لودیانہ سےشائع ہوا۔یہ رسالہ مولانا قصوری نے قادیانیت کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اشتہار جواب میں تھاجس میں لکھا ہے:‘‘اب شوال ھ میں جو فقیرایک دینی کام کے انجام کولودھیانہ میں وراد ہوا تو سنا گیا کہ حضرات علماء لودیانہ کی طرف سے کسی مصلحت کے واسطے اس کا جواب نہیں دیا گیا اس پر غیرت دینی نے جوش دلایا کہ ان جعلسازوں اور افتراپردازوں کا بقدرضرورت ضرور ہی جواب شائع کرنا ۔۔۔لازم ہے۔’’(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی: مطبوعہ مطبع احمدی،لودیانہ بحوالہ تذکرۃ المناظرین،حصہ اول،ص:مطبوعہ دارالنوادر،اردوبازار لاہور-قادیانیت اپنے آئینے میں:مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،لاہور)اس کے بعد مخالف نے وہ الفاظ مع حوالہ تحریر کیے جو بعینہ ٖوہی الفاظ ہیں جوحضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب ”حقیقۃ الوحی” میں نقل فرمائے ہیں۔مولوی اسماعیل علی گڑھی
یہی حال دوسرےمولوی اسماعیل علی گڑھی کے حضرت مرزا صاحب سے تحریری مباہلہ کے بعد موت و ہلاکت کا ہے۔جیسا کہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ‘‘مولوی اسماعیل علیگڑھی نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بد دعا کی اور ایک رسالہ میں اس کو درج کیا لیکن وہ رسالہ ابھی طبع ہی ہو رہا تھا کہ ملک الموت نے اسماعیل کو قبضہ میں کر لیا۔ اور وہ اس لعنت کا شکار ہو گیا جو اس نے خدا کے فرستادہ پر کی تھی۔ اس کے مرنے نے اس کے تمام حامیوں پر موت وارد کر دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے طباعت رسالہ کے دوران میں ہی اس بددعا کو اڑا دیا۔ بعض کے حاشیہ پر وہ طبع ہو گئی اور باقی سے مٹا دی گئی۔ اس ناگہانی موت کے بعد ان کاغذات کو تلف کر دیا گیا جن پر وہ طبع ہوئی تھی۔’’(حقیقۃالوحی حاشیہ صفحہ330)یہ ہیں اس زمانہ کے علماؤھم جو نشان کے پورا ہوجانے کے بعد ایک طرف اسے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر سو سال بعد یہ خیال کر کے کہ مرزا صاحب کے اتباع اسے بھول چکے ہوں گے اس کا حوالہ دریافت کرتے ہیں حالانکہ جب حضرت مرزا صاحب نے اسے شائع فرمایا تو کسی نے حوالہ نہیں مانگا،نہ اعتراض کیا۔حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوریؓ نےمسجدمبارک قادیان میں اسکی شہادت دی تھی کہ میں نےوہ مطبوعہ کاغذات دیکھےتھے۔انکاسائزفتح اسلام کےسائزکےبرابرتھا۔اس میں اسماعیل علی گڑھی کی بددعا درج تھی جس کے بعد وہ جلد ہی مر گیا۔حضور علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں نشانات کا ذکر کرتے ہوئے نشان نمبر144میں فرماتےہیں:‘‘مولوی اسماعیل باشندہ خاص علی گڑھ وہ شخص تھا جو سب سے پہلا عداوت پر کمر بستہ ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ فتح اسلام میں لکھا ہے۔ اس نے لوگوں میں میرے نسبت یہ شہرت دی کہ یہ شخص رمل اور نجوم سے پیشگوئیاں بتلاتا ہے اور اس کے پاس آلات نجوم کے موجود ہیں۔ میں نے اس کی نسبت لعنۃ اللہ علی الکاذبین کہا اور خدا تعالیٰ کا عذاب اس کے لیے چاہا جیسا کہ رسالہ فتح اسلام کے لکھنے کے وقت اس کی زندگی میں ہی میں نے یہ شائع کیا تھا اور یہ لکھا تھا تَعَالَوْ نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَاَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔ چنانچہ قریباً ایک برس اس مباہلہ پر گزرا ہو گا کہ وہ یک دفعہ کسی ناگہانی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا؛ اور اس نے اپنی کتاب میں جو میرے مقابل پر اور میرے رد میں شائع کی تھی یہ لکھا تھا کہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل پس خدا نے لوگوں پر ظاہر کر دیا کہ حق کون سا ہے جو قائم رہا ، اور باطل کون ساتھا جو بھاگ گیا۔ قریباً سولہ برس ہو گئے، وہ اس مباہلہ کے بعد فوت ہوا ۔’’(حقیقۃ الوحی، نشان نمبر 144- روحانی خزائن خزائن جلد 22صفحہ342،343)اب ملاحظہ فرمائیے۔ مولوی اسماعیل علی گڑھی کی زندگی میں رسالہ فتح اسلام میں مباہلہ کے ساتھ اس کانام شائع ہوا۔اس نے انکار کی بجائے کتاب شائع کر کے ہلاک ہوگیا۔حقیقۃالوحی میں یہ نشان درج ہے،آج تک کسی نے اس کی کتاب کا حوالہ نہ مانگا۔ اور اس کی موت کے بعد سہمے رہے۔آج حوالے کے مطالبہ کی بجائے خدا ترس کو نتیجہ پر غور کرنا چاہیے کہ خدا کے ماموروں کی مخالفت کا کیا انجام ہوتا ہے۔انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ایک مالدار آدمی تھے۔ کم سے کم ہزار روپیہ ان کے پاس رہتا تھا۔ جس کا خزانچی یہوداہ اسکریوطی تھا۔
اعتراض:۔
‘‘انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ایک مالدار آدمی تھے۔ کم سے کم ہزار روپیہ ان کے پاس رہتا تھا۔ جس کا خزانچی یہوداہ اسکریوطی تھا۔’’
(385ایام الصلح صفحہ۔روحانی خزائن جلد14صفحہ)جھوٹ بالکل جھوٹ۔انجیل میں یہ نہیں لکھا۔حوالہ پیش کریں۔جواب:۔
یہاں بھی معترض نے اصل عبارت پیش نہیں کی کہ آخرحضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کوحضرت عیسیٰ کو مالدار قرار دینے میں کیا دلچسپی ہے اور معترض اور ان کے ساتھی علماء اہل حدیث کیوں مرزا صاحب کو جھوٹا قرار دے کرحضرت عیسیٰ کو فقیر اور مفلس ثابت کرنا چاہتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب ‘‘ایام الصلح’’ میں وفات مسیح کا مضمون متعدد آیات قرآنی سے ثابت کیا ہےکہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے۔چھٹی دلیل یہ آیت بیان کی ہے کہ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا(مریم :32)کہ حضرت عیسیٰ نے کہا خدا نے مجھے تاکیدی حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں نماز اور زکوة ادا کروں۔یہاں حضرت مرزا صاحب نے وفات عیسیٰ کے لیے جو شاندار استدلال فرمایا ہے وہ ایسا لاجواب ہے کہ معترض اور اس کے ساتھی علماء جب اس کا کوئی ردّ پیش نہ کر سکے تو اس دلیل سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سوال کر دیا کہ حضرت عیسیٰ کو مالداریعنی زکوة دینے کے قابل ثابت کر کے دکھاؤ۔حالانکہ اگر حضرت عیسیٰ زندہ ہیں تو ان کے آسمان پر صاحب مال ہونے اور زکوة دینے کا ثبوت بھی اصولاً اسی کےذمّہ ہے جو انہیں آسمان پر زندہ مانتا ہے۔اورفریضۂ زکوة جو قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰ کی زندگی سے لازم وملزوم ہے وہ آسمان پر ادا کرنے سے قاصر ہیں توپھر سیدھی طرح حضرت عیسیٰ پر ناچار انّاللہ پڑھ دینا چاہیے۔یہ ہے خلاصہ حضرت مرزا صاحب کے خوبصورت استدلال کا۔آپ وفات مسیح کی چھٹی قرآنی دلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘اور پھر آیت وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا(مریم :32)سے موت ثابت ہوئی کیونکہ کچھ شک نہیں کہ جیسا کہ کھانے پینے سے اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بروئے نصِ قرآنی معطّل ہیں(یعنی کانا یأکلان الطعام کے مطابق جب تک وہ زندہ تھے تو کھانا کھاتے تھے،اب نہیں کھاتے تو ظاہر ہے وفات پاگئے۔)فرمایا: ایسا ہی دوسرے افعالِ جسمانی زکوٰۃ اور صلوٰۃ سے بھی معطّل ہیں۔’’(ایام الصلح صفحہ140،159روحانی خزائن جلد14)لہذا وفات پاگئے۔ کیونکہ وہ خود اقراری ہیں کہ زندگی تک زکوة کی ادائیگی کا حکم ہے۔جب خدا کومعلوم تھا کہ آخر آسمان پر اٹھالینا ہےتو حکم زکوة کو تمام زندگی سے مشروط کیوں کیا۔اور اگر کہو کہ زکوة ان پر واجب نہیں توان کا مفلس ہونا ثابت کریں۔حضرت مرزا صاحب کیا خوب فرماتے ہیں کہ جیسے کھانے پینے سے حضرت عیسیٰ ازروئے نصّ قرآنی معطل ہیں اسی طرح وہ افعال جسمانی زکوة اور صلوة سے معطّل ہیں۔اور دلیل التزامی کے مطابق اس کا نتیجہ سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔جہاں تک حضرت مسیح کےمالدار ہونے کا تعلق ہے۔آئیےدیکھیں حضرت عیسیٰ کے ہم عصر حواری کیا گواہی دیتے ہیں:نئے عہد نامے میں ہے:‘‘تم ہمارے خداوند یسوع مسیح کے فضل کو جانتے ہوکہ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اس کی غریبی کے سبب سے دولت مند ہوجاؤ۔’’(کرنتھیوں کے نام پولس رسول کا دوسرا خط باب 8 آیت9)گویا حضرت عیسیٰ زمین پر جب تک زندہ رہے۔دولت مند ہوکرزکوة دیتے رہے۔اب اگرآسمان پرزکوة نہیں دیتے تو وفات پاگئے۔یہ حضرت مرزا صاحب کا مقصد تھا جو معترض کو منظور نہیں۔معترض نے انجیل سے حضرت عیسیٰ کے مالدار ثابت ہونے کو جھوٹ کہا تھا۔اب حضرت عیسیٰ کے خزانچی یہودا ہ کے پاس ان کے خزانے کی تھیلی موجود ہونا اور اس سے محتاجوں کو زکوة دینے کا ثبوت باقی رہ گیا تو لیجئے انجیل کا حوالہ:‘‘یسوع نےاس(یہوداہ)سےکہاکہ جوکچھ تو کرتا ہے جلد کر لےمگر جو کھانا کھانے بیٹھے تھے ان میں سے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ اس نے یہ اس سے کس لیے کہاچونکہ یہوداہ کے پاس تھیلی رہتی تھی اس لیے بعض نے سمجھا کہ یسوع اس سے یہ کہتا ہے کہ جو کچھ ہمیں عید کے لیے درکار ہے خرید لے یا یہ کہ محتاجوں کو کچھ دے۔ پس وہ نوالہ لے کر فی الفور باہر چلا گیا ۔’’(یوحناباب 13آیت27تا30)اگر اس ایک حوالہ سے معترض سے تسلّی نہیں ہوتی تو دوسرا حوالہ بھی حاضر ہے:”پھرمریم نےجٹاماسی(سدابہارخوشبودار بوٹی:سنبل الطیب)کاآدھ سیرخالص اوربیش قیمت عطرلےکریسوع کےپاؤں پرڈالا اور اپنےبالوں سےاسکےپاؤں پونچھےاورگھرعطرکی خوشبوسےمہک گیا۔مگراسکےشاگروںمیں سے ایک شخص یہوداہ اسکریوطی جو اسے پکڑوانے کو تھا، کہنے لگا:یہ عطر تین سو دینار میں بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا؟ اس نے یہ اس لیے نہ کہا کہ اس کو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اس لیے کہ چور تھااو رچونکہ اس کے پاس ان کی تھیلی رہتی تھی،اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ پس یسوع نے کہا کہ اسے یہ عطر میرے دفن کے دن کے لیے رکھنے دے کیونکہ غریب غربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں لیکن میں ہمیشہ تمہارے پاس نہ رہوں گا۔”(یوحنا باب12 :3تا8)اب دیکھیے۔انجیل سے نہ صرف حضرت عیسیٰ کا مالدار ہونا ثابت ہوا بلکہ مالدار ہوکر زکوة ادا نہ کرنے سے وفات بھی ثابت ہوگئی کیونکہ انہیں زندگی کے آخری دم تک زکوة کا حکم تھا۔اوریہ نشان مہدی موعود،یعنی خسوف وکسوف ماہ رمضان میں فتاوی ٰابن حجرمیں لکھاگیاتھا۔جوحنفیوں کی ایک معتبر کتاب ہے
اعتراض:۔
‘‘اوریہ نشان مہدی موعود،یعنی خسوف وکسوف ماہ رمضان میں فتاوی ٰابن حجرمیں لکھاگیاتھا۔جوحنفیوں کی ایک معتبر کتاب ہے۔’’(ایام الصلح ۔ خزائن جلد14صفحہ315)مرزا جی نے جھوٹ بولا ہے۔فتاویٰ ابن حجر حنفیوں کی کتاب نہیں ہے۔جواب:۔
معترض نے بڑی بے باکی سے یہ لکھ دیا ہےکہ فتاویٰ ابن حجر حنفیوں کی کتاب نہیں ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ علم کی دنیا بہت وسیع ہے اور کسی محدود مطالعہ یا علم کی بناء پر ایسی حتمی بات کر دینا یہ کسی خدا ترس عالم کو زیب نہیں دیتا اور اگر معترض نے یہ کہہ بھی دیا ہے تو اسے تو الہام کا کوئی دعویٰ بھی نہیں جبکہ اس کے بالمقابل حضرت بانی جماعت احمدیہ صاحبِ الہام بزرگ تھے۔جب وہ فتاویٰ ابن حجر کے مصنف کی نسبت احناف کی طرف کرتے ہیں تو ان کی بات معترض کے مقابل پر زیادہ وزن رکھتی ہے اور ثقہ سمجھی جاتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ معترض کا تعلق کیونکہ اہل حدیث ہے۔انہوں نے ابن حجر کے نام سے مراد مشہور شارح بخاری علامہ ابن حجر قسطلانی نہ مرادلےلیے ہوں۔حالانکہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی مراد شیخ شہاب الدین ابن حجر ہیثمی ہے جو 909ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور 974ھ میں مکہ میں فوت ہوئے۔اور مکی بھی کہلاتے ہیں اور بعض نے شافعی کا لقب بھی دیا ہے۔لیکن حقائق وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حنفی تھے۔کیونکہ انہوں نے حضرت امام ابو حنیفہ کی سیرت و سوانح پر ایک کتاب ‘‘الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفہ النعمان’’تصنیف فرمائی۔جس کے دیباچہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں:‘‘مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران قسطنطنیہ سے ایک بڑے عالم تشریف لائے اور انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت امام اعظم کی سیرت و سوانح کو اختصار کے ساتھ جمع کرنے کا کام کرنا چاہیے۔وہ فرماتے ہیں کہ اس پر میں نے ارداہ کیا کہ امام اعظم کے مناقب کی تلخیص میں اپنی تمام کوشش صرف کروں۔جس کے نتیجہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کی سیرت پر یہ کتاب تصنیف تیار ہوئی۔میرا مقصد تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت و رضا میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں مقام عطا کرے کہ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام ابن حجر اگر شافعی مسلک تھے بھی تو امام ابو حنیفہ کی سیرت پر یہ کتاب تصنیف فرمانے کے بعد حنفیت کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ویسے بھی خلافت عثمانیہ کے دور میں ارض حجاز میں لاکھوں حنفی بھی آباد تھے۔جیسا کہ ذکرہوچکا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسے اختلافی مسئلہ کہا جا سکتا تھا مگر معترض نے اسے جھوٹ کے طور پر پیش کیا ہے جو خود موصوف کی طرف لوٹتا ہے۔الفتاویٰ الحدیثیہ لابن حجر الہیثمی حنفیوں کی ایک معتبر کتاب ہے۔ لکھا ہے ”ومما جاء عن أکابر أہل البیت فیہ قول محمد بن علی : لمہدینا آیتان لم یکونا منذ خلق اللہ السماوات والأرض: ینکسف القمر لأول لیلۃ من رمضان ، وتنکسف الشمس فی النصف منہ ، ولم یکونا منذ خلق اللہ السماوات والأرض۔(الفتاویٰ الحدیثیہ لابن حجر الہیثمی، جزء اول صفحہ86)مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے یہی اس کی ‘‘پیشگوئی کااظہارہے، جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے۔
اعتراض:۔
‘‘آسمان نےبھی میرے لیے گواہی دی اور زمین نے بھی، مگر دنیا کے اکثر لوگوں نے مجھے قبول نہ کیا۔ میں وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بے کار ہوگئے اور‘‘پیشگوئی آیت کریمہ ‘‘وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ’’ پوری ہوئی۔ اور پیشگوئی ‘‘وَلَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا’’نے پوری پوری چمک دکھلا دی۔ یہاں تک کہ عرب وعجم کے ایڈیٹران اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پرچوں میں بول اٹھے کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے یہی اس کی ‘‘پیشگوئی کااظہارہے، جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے۔’’(اعجاز احمدی ۔خزائن جلد 19 صفحہ 108)مرزائیو! تمہارے مرزا جی کرشن نے مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل تیار ہونے کو اپنے مسیح موعود ہونے کا نشان بتایاتھا۔اور اس ریل کے تیار ہونے کی مدت تین سال بتائی تھی۔لیکن ایک سو سال ہونے کو ہیں کہ مرزا جی فوت ہو گئے۔لیکن ابھی تک مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل تیار نہیں ہو سکی۔مرزا جی نے جھوٹ بولا تھا کہ یہ میرا نشان مسیح موعود ہے۔کیا مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل تیار ہوگئی ہے؟ کیا مرزا جی کا یہ نشان پورا ہوگیا ہے؟نہیں اور یقیناً نہیں۔اس لیے کہ کرشن مرزا جی جھوٹے اور کذّاب ہیں۔جواب:۔
معترض نے یہاں حضرت مرزا صاحب کی ایک پیشگوئی کو غلط ثابت کرنے کی خاطر قرآن شریف اور حدیث کی عظیم الشان پیشگوئی کا انکار کیا ہے۔ایک ایسی پیشگوئی جو تاریخ انسانی اور اس کے ارتقاء پر زبردست روشنی اور گہرے اثرات مرتب کرنے والی ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کی ضرورت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اونٹ،گھوڑے اور گدھے سواری اور زینت کی خاطر پیدا کیے جس کا ذکرسورة نحل آیت9 میں ہے:وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (نحل:9) اور اس میں1400سال قبل پیشگوئی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ابھی ایسی سواریاں پیدا فرمائیگاجن کا اس وقت تمہیں علم نہیں۔قرآن کریم میں تصریف آیات کے ساتھ اس کے بعض حصے بعض کی تفسیرکرتے ہیں۔‘‘وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ’’میں بھی اسی پیشگوئی کی تفصیل ہے کہ نئی تیز رفتار سواریوں اور ایجادات کے بعد اونتنیاں بےکار ہوکر رہ جائیں گی۔اونٹ جو صحرائےعرب کا جہاز سمجھا جاتا ہے اس کامتروک ہونا ایک بڑی خبر تھی جو پوری ہوئی اور زمانہ میں Animal Transport سےMechanical Transportکی طرف ایک انقلاب عظیم رونما ہوا۔موٹر کار،ٹرین،جہازوغیرہ کی ایجادسےیہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔مگراس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس پیشگوئی کو مسیح موعود کے ظہور کے ساتھ باندھ دیا تھا۔چنانچہ صحیح مسلم کے مطابق جہاں آپﷺ نے مسیح موعود کی جزوی علامات اور اس کے کام بتائے۔ وہاں اس کے زمانہ کی یہ علامت بیان فرمائی:وَلَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَاجو دراصل سورة تکویرکی آیت وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ کی تفسیر رسول ہےکہ جب اونٹ کی پسندیدہ سواری بھی متروک ہوجائے گی جو مسیح موعود کے زمانہ میں پوری ہوئی۔اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگارمگر اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی شان اور عظمت ملاحظہ کرنے کے لیے سورہ تکویر میں 1400سال قبل بیان فرمودہ باقی نشانیوں کے چودہویں صدی میں پورا ہوجانے کا حیرت ناک منظر دیکھ کر انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ روشن نشانات کا ایک سورج طلوع ہوگیا ہے۔سورة تکویر میں إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ میں مسیح موعود کے زمانہ میں سورج و چاند گرہن کی طرف اشارہ تھا اور یہ پیشگوئی 1311ھ میں پوری ہوگئی۔پھر سورة تکویر میں دوسری نشانی وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ میں بیان کی گئی تھی کہ جانوروں کو اکٹھا کر کے ان کے چڑیا گھر بنائے جائیں گے جو پوری ہوئی۔تیسری نشانی وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ یعنی کثرت سے نہروں کے جاری ہونےسےظاہر ہوتا ہے پس اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں دریا خشک ہونےلگے۔( نہر پانامہ نےبحر اوقیانوس اوربحر الکاہل کوملایاتو نہر سویز نےبحیرہ روم کوبحیرہ قلزم سے ملایا۔)چوتھی علامت وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ قوموں اور ملکوں کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اوررسل و رسائل سے ملاقاتوں کاآسان ہو جانا ہےجیسا کہ آیت سے ظاہر ہے۔(ذرائع مواصلات اور رسل و رسائل اور تیزرفتار سواریوں کی ایجاد سےتمام دنیا کے آپس میں میل ملاپ کی پیشگوئی اس زمانہ میں پوری ہوئی۔)پانچویں علامت وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ عورتوں کے حقوق کے لیے آوازیں اور تحریکیں اٹھنے کی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔چھٹی علامت وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا جیسا کہ پریس اور چھاپہ خانوں کے نتیجہ میں کتب و رسائل کی اشاعت کے ذریعہ بھی نشانی پوری ہوئی۔ساتویں علامت وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ علم ہیئت کی غیر معمولی ترقی کے نتیجہ میں یہ نشانی بھی پوری ہوئی۔آٹھویں علامت وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ مسیح موعود کے ضلالت و گمراہی کے زمانے کی یہ وہ جھلک ہے جو دراصل مسیح موعود کی ضرورتکی دلیل ہے۔نویں علامت وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ جب جنت قریب کردی جائے گی کیونکہ مسیح موعود نے آکر مسلم کی حدیث کے مطابق یحدثھم بدرجاتھم فی الجنة کے مطابق ایک جنتی نظام،نظام وصیت کی طرف دعوت دینی تھی،سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔حضرت مرزا صاحب مدعی مسیح و مہدی کے زمانہ میں یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔جس کا ذکر آپ نے اپنی کتب میں فرمایا ہے۔اعجاز احمدی کی اشاعت1906ءکے وقت بھی یہ سواریاں خصوصاً ٹرین اور موٹرکار وغیرہ ایجاد ہوچکی تھیں۔اور اونٹ متروک ہوچکے تھے جسے آپؑ نے نشان کے طورپر پیش فرمایا اور ضمناً یہ بھی ذکر کیا کہ اب تو اسلام کے مراکز مکہ و مدینہ میں بھی ریل آنیوالی ہے۔یہ بات کسی پیشگوئی یا الہام کی بناء پر نہ تھی بلکہ اخبارات میں شائع ہونیوالی خبروں کی روشنی میں تھی ۔اور جزوی طور پر مدینہ کی حد تک تو پوری ہوہی چکی ہے۔تاریخ مدینہ میں لکھا ہے: ترکوں نے (عبد الحمید ثانی کے دور میں )دمشق سے مدینہ منورہ تک ریلوے لائن بچھائی جس کا باہر کی دنیا خصوصاً استنبول سے رابطہ تھا۔ریلوے لائن تعمیر 1908ء میں مکمل ہوئی۔ منصوبہ کے مطابق ریلوے لائن کو مکہ،مدینہ اور پھر یمن سے ملایا جانا تھا۔نو سال تک اس ریلوے لائن پر دمشق سے حجاج کرام آتے رہے۔جن میں شام، اردن، فلسطین، عراق اور ترکی کے حجاج کرام شامل تھے۔ترکی کے راستے یورپ سے رابطہ تھا۔مدینہ شریف میں اس وقت تجارت عروج پر تھی۔1917ء کا تحریک بیداریٔ عرب کا انقلاب آیا جوکہ پہلی جنگ عظیم کے حصہ کے طور پر نمودار ہوا۔جس میں شریف مکہ حسین بن علی نے لارنس آف عربیہ کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی اوراس میں عنبریہ ریلوے سٹیشن مدینہ منورہ بھی تباہ کردیا گیا۔یہ ریلوے لائن دمشق سے مدینہ شریف تک تیرہ سو تیرہ کلومیٹر لمبی تھی۔باقی اگر اس وقت مکہ تک ٹرین کی لائن میں جنگ عظیم کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوگئی تو کیا ہوا۔ اس سے اونٹوں کے متروک ہونے کی قرآنی پیشگوئی پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا۔اس کی شان اسی طرح قائم رہی۔اگر پیشگوئی یہ ہوتی کہ مسیح موعود کے وقت مکہ و مدینہ میں ٹرین آئیگی تو معترض کاسوال بجا تھا۔مگر پیشگوئی تو اونٹوں کے بےکار ہونے کی تھی جو عمومی رنگ میں پوری ہوگئی۔مکہ کی خصوصیت ایک زائد بات تھی۔تاہم اگر معترض کے آباء و اجداد نے اس وجہ سے مرزا صاحب کا انکار کیا تھا تو آج اسےتو ماننا ہی پڑے گا کیونکہ اب واقعی ٹرین مکہ و مدینہ میں بھی آرہی ہے۔سو سال ہوگئےمسیح و مہدی کے بعد اسکی خلافت کا نظام موجودہے۔دوسری طرفپیشگوئی کے مطابق سو سال سے ساری دنیا میں کیاآسٹریلیا، کیاامریکہ،کیا ایشیاو افریقہ اورکیاعرب، اونٹ متروک ہوگئے اور نئی سواریاں ایجادہوگئیں۔تو مکہ میں ٹرین نہ آنے کے اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں رہتی لیکن اگرواقعی معترض کو مکہ اور مدینہ میں ٹرین کے آنے کاہی انتظار تھا تب اس نے مسیح موعود کو ماننا تھا تو اب وہ وقت آچکا ہے اور مکہ و مدینہ کے درمیان ہائی سپیڈٹرین کی پٹڑی بچھ چکی ہے،کرائے نامے شائع ہوچکے ہیں۔(قدرت اخبار 19 اکتوبر2015ء) ریلوے آرگنائزیشن کے صدر محمد السوائکت کے مطابقریل منصوبوں کو آگے بڑھانے اور مسافروں کو زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کے لیےسعودی عرب کی حکومت نے مکہ معظمہ اور ساحلی و اہم تجارتی شہر جدہ کے درمیان سات تیز رفتار ریل گاڑیاں چلانے کا منصوبہ بنایا ہے اور یہ ریل گاڑیاں ایک گھنٹے میں مکہ سے جدہ تک کا سفر طے کریں گی۔سعودی عرب کی میڈیا کے مطابق مکہ کو مدینہ منورہ اور دوسرے شہروں کے ساتھ بھی ریلوے کے تیز رفتار نظام سے منسلک کر دیا جائے گا۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان دو ریل گاڑیاں چلانے کا منصوبہ ہے جب کہ مکہ اور ربیغ کے درمیان چار ریل گاڑیاں چلائی جائیں گی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سچ ہی تو فرمایا تھا:‘‘اور اونٹوں کے چھوڑے جانےاور نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاداسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پر مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل طیار ہونے سے پوری ہو جائے گی کیونکہ وہ ریل جو دمشق سے شروع ہو کر مدینہ میں آئے گی وہی مکّہ معظمہ میں آئے گی اور اُمید ہے کہ بہت جلد اور صرف چند سال تک یہ کام تمام ہو جائے گا۔ تب وہ اونٹ جو تیرہ سو برس سے حاجیوں کو لے کر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے یکدفعہ بے کار ہو جائیں گے اور ایک انقلاب عظیم عرب اور بلا د شام کے سفروں میں آجائے گا۔ ’’(تحفہ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 194-197)‘‘یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ دار قطنی میں آج سے گیارہ سو برس پہلے مندرج ہو کر تمام دنیا میں شائع ہو گئی تھی ۔’’
اعتراض:۔
‘‘یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ دار قطنی میں آج سے گیارہ سو برس پہلے مندرج ہو کر تمام دنیا میں شائع ہو گئی تھی ۔’’(ایام الصلح۔ جلد 14صفحہ280)بالکل غلط جھوٹ ہے،ورنہ بات ثابت کریں۔جواب:۔
ناظرین! ہمارے آقا ومولیٰ حضرت خاتم الانبیاء مخبر صادقﷺ کی بیان فرمودہ عظیم بشارت کو معترض نے جھوٹ قرار دینے کی جسارت کی ہے۔کاش وہ اپنے اہلحدیث ہونے کا ہی کچھ بھرم رکھ لیتے اور فرمودۂ رسولﷺ پر اعتراض نہ کرتے جسے نبیرۂ رسول اللہﷺ حضرت امام محمد باقرنے روایت کیا ہے اور علمائے حدیث کا یہ متفقہ اصول ہے کہ ایسی حدیث جس میں آئندہ زمانے کی کوئی خبر بیان ہوئی ہو اور اسے کوئی صحابی یا تابعی بیان کرےوہ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے کیونکہ کوئی تابعی یا صحابی اپنی طرف سے مستقبل کی کوئی جھوٹی خبر نہیں بنا سکتا۔خاص طور پرمہدی کے وقت میں رمضان کی خاص تاریخوں میں چاند سورج گرہن کی وہ پیشگوئی جو 13 سو سال بعد ایک منفرددعویدار مہدویت کی موجودگی میں 1311ھ کو پوری بھی ہوگئی اور خدا کی فعلی شہادت نے اسے سچا ثابت کردیا ہے۔یہ پیشگوئی جسے معترض جھوٹ کہہ رہا ہے۔قرآن کریم کی سورة قیامۃمیں اس کا ذکر تھا کہ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ۔وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۔يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ(القیامة:8تا11)پھر اس آیت بیان فرمودہ نشان چاند سورج کی رمضان کی معین تاریخوں کو بیان کرنے والے حضرت امام محمد باقر ہیں۔جو رسول اللہﷺ کے پڑنواسے اور اہل بیت رسولﷺ ہیں اور اہل تشیع کے مسلّمہ امام ہیں۔حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ان پر بھی جھوٹ کی تہمت ایک ظالمانہ فعل ہے۔ایک اہل حدیث عالم ہونے کے ناطے سے معترض کو کم ازکم اتنامعلوم ہونا چاہیےکہ اہل بیت رسول صداقت و دیانت،عدالت و ثقاہت اور تقویٰ کی وجہ سے ایسے بلند مقام پر فائز تھے کہان پر جھوٹ کے الزام کا تو کیا سوال خیر القرون کی پہلی صدی کے زمانہ میں کوئی شخص نہ تو ان سے سند طلب کرتا تھا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی جاتی تھی۔چنانچہ علامہ عقیلی نے کتاب الضعفاء للکبیر میں لکھا ہے کہ چاندسورج گرہن کی پیشگوئی والی اس حدیث کے ایک راوی جابر جعفی کے بیان کے مطابق اس نے امام محمدباقرسے ستّر ہزار احادیث اخذ کیں جو نبی کریمﷺ تک مرفوع تھیں۔اور خودحضرت امام محمد باقر سے جب ان کی بلا سند حدیث کے بارہ میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی روایات کے متعلق یہ پختہ اصول بیان فرما دیا کہ میں جب کوئی حدیث بیان کرتا ہوں اور ساتھ اس کی سند بیان نہیں کرتا تو اس کی سند اس طرح ہوتی ہے کہ بیان کیامجھ سے میرے پدر بزرگوار(علی زین العابدین) نے اور ان سے میرے جدّ نامدار امام حسین علیہ السلام نے اور ان سے ان کے جدّ امجد جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا اور آپﷺ سے حضرت جبرائیلؑ نے بیان کیا اور ان سے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا۔(کتاب الارشاد بحوالہ بحار الانوار از علامہ محمد باقر مجلسی مترجم جلد4 ص71)علامہ ذہبی نےامام محمد باقر کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ اپنے باپ اور دونوں دادا حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت علیؓ سے مرسل روایات کرتے ہیں۔یعنی درمیانی واسطہ بیان کیے بغیر روایت کے عادی ہیں۔بایں ہمہ علامہ ذہبی نے حضرت امام باقرکو ثقہ،کثیر الحدیث تابعی کہا ہے۔’’(تہذیب التہذیب جزء9 ص311)علاوہ ازیں اس حدیث کو مشہور محدث حضرت امام دارقطنی نے بیان کیا جو ایسے اعلیٰ پایہ کے صاحب فن حدیث تھے جواہل بغداد کو اعلانیہ کہتے تھے: یا اھل بغداد لا تظنوا ان احدا یقدر ان یکذب علیٰ رسول اللہ وانا حی۔یاد رکھو جب تک دارقطنی تم میں زندہ موجود ہے اس وقت تک رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔(نخبۃ الفکر شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی ص56 حاشیہ)حضرت امام محمد باقر کازمانہ کی وفات114ھ ہے۔گویاانہوں نے پہلی سے دوسری صدی تک کو بیان کیاپھر تیسری صدی کے آغاز میں امام دارقطنی ہوئے۔اس لیےحضرت مسیح موعودؑ نےعمومی طور پراپنے زمانہ چودہویں صدی میں یہ ذکر فرمایا کہ دیکھو یہ حدیث دیگر احادیث کے ساتھ دوسری صدی کےزمانہ تک سینہ بسینہ محفوظ چلی آئی اور تیسری صدی میں امام دارقطنی کے ذریعہ تحریری طور پر مدوّن بھی ہوگئی۔ان میں سے یہ حدیث دارقطنی ہے جس پر موٹے حساب کے لحاظ سے دوسری صدی سے چودہویں صدی تک 11 سو سال کا زمانہ کہاجاسکتاہے۔زبانی اور صدری طور پر تیرہ سو سال اور اب تک ملنے والی تحریری شہادت دارقطنی کے مطابق ایک ہزار سے گیارہ سو سال قبل تک کنواری اور محفوظ چلی آئی اس وقت تک کہ مسیح موعودؑ کے وقت میں پوری ہو کر نشان بن گئی۔جسے ہر صدی میں محدثین مفسرین بیان کر کے مسیح موعود کا انتظار کرتے رہے۔محدثین ومفسرین
1۔رئیس المحدثین یعقوب کلینی(متوفی:329ھ) الفروع من الجامع الکافی2۔محدث اکبر ابو جعفر بابویہ القمّی(متوفیٰ:381ھ) اکمال الدین و اتمام النعمة فی اثبات الرجعہ3۔مشہور محدث شیخ الاسلام حضرت امام علی بن عمر دارقطنی(متوفی:385ھ) سنن دارقطنی4۔ مشہور مفسرعلامہ قرطبی(متوفیٰ:671ھ) التذکرہ فی احوال الموتیٰ و امور الآخرة5۔ الامام العلامہ والبحرالفہامہ علی بن محمد بن احمد ابن صبّاغ(855ھ) الفصول المہمہ فی معرفة احوال الائمہ6۔علامہ جلال الدین سیوطی(متوفیٰ:911ھ) الحاویٰ للفتاویٰ فی الفقہ و علم التفسیر والحدیث7۔خاتمة الفقہاء والمحدثین علامہ ابن حجر(،توفی:974ھ) القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر8۔ مشہور شیعہ مفسر علامہ محمد بن المرتضیٰ فیض کاشانی(متوفیٰ:1100ھ) کتاب الصافی فی تفسیر القرآن9۔علامہ المحقق الشریف محمد بن رسول الحسینی (متوفی:1103ھ) الاشاعہ لاشراط الساعہ10۔شیعہ مجتہد علامہ باقرمجلسی (متوفی:1111ھ) بحار الانوار(فارسی) جلد 1311۔ علامہ شیخ اسماعیل حقی(متوفیٰ:1137ھ) تفسیر روح البیان12۔ علامہ شیخ محمد بن احمد انصار بنی الاثری الحنبلی(متوفیٰ:1188ھ) کتاب لوامع الانوار البہیّہ13۔ علامہ شیخ محمد الصبان الشافعی(متوفیٰ:1206ھ) اسعاف الراغبین14۔ مفتیٔ بغدادعلامہ سید محمود آلوسی(متوفیٰ:1270ھ) تفسیر روح المعانی15۔الشیخ حسن العدوی الحمزاوی المصری(متوفیٰ:1303ھ) مشارق الانوار فی فوز اھل الاعتبار16۔علامہ محمد صدیق حسن خان صاحب(متوفیٰ:1307ھ) الاذاعہ لماکان ومایکون بین یدی الساعہ17۔علامہ شہاب الدین حمد بن احمد اسماعیل حلوانی(متوفیٰ:1308ھ) القطر الشہدی فی اوصاف المہدی18۔حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوکھے والے(متوفیٰ:1311ھ) احوال الآخرت مطبوعہ 1277ھ19۔علامہ خیر الدین نعمان بن محمودبن عبد اللہ ابو البرکات الالوسی الحنفی(متوفیٰ:1317ھ)غالیہ المواعظ ص77مطبوعہ مطبع امیریہ بولاق 1301ھ20۔ابوالخیر نور الحسن خان اقتراب الساعة مطبوعہ1301ھ21۔شاہ رفیع الدین محدث دہلوی قیامت نامہ22۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی(متوفیٰ:1624ء) مکتوبات جلد2ص13223۔علامہ عبد الحق حقانی دہلوی عقائد اسلام مطبوعہ 1292ھ24۔شاہ نعمت اللہ ولی کا قصیدہ اربعین فی احوال المھدیین از شاہ اسماعیل شہیدیہ کل 24 محدثین و مفسرین کی کتب ہیں جو دستیاب ہیں جو ہمیں نہیں ملی اور ہزار سال میں ناپید ہوگئیں وہ اس کےعلاوہ ہیں۔چند اور کتب یہ ہیں:1۔ آخری گت مصنفہ مولوی محمد رمضان حنفی ، مجتبائی مطبوعہ 1278ھ2۔حجج الکرامہ صفحہ 344 ، مولفہ نواب صدیق حسن خان صاحب۔3۔عقائد الاسلام مصنفہ مولانا عبد الحق صاحب محدث دہلوی صفحہ 182 و 183 مطبوعہ 1292ھ۔حافظ عبد العزیز پرہاڑوی لکھتے ہیں:درسن غاشی ہجری دو قران خواہد بوداز پئے مہدی و دجال نشان خواہد بودایک بزرگ مفتی غلام رسول (متوفی 1307ھ) کا یہ شعر پنجاب میں زبان زدوعام رہا ہے۔بہت قریب ظہور مہدی وی سمجھو نال یقینےچن سورج دونو گرہ جاسن وچہ رمضان مہینےچنانچہ پیشگوئیوں کے مطابق چاند گرہن کا یہ نشان 1894ء میں 21 مارچ کو بمطابق 13 رمضان المبارک اور 6 اپریل بمطابق 28 رمضان المبارک ہندوستان و عرب ممالک میں ظاہر ہوا۔اور اگلے سال 1895ء میں انہی تاریخوں میں امریکہ میں ظاہر ہوکر حجت بنا۔پس بلاشبہ یہ حیرت انگیز نشان تیرہ صدیوں میں کبھی کسی مدعیٔ مہدویت کے حق میں ظاہر نہیں ہوا اور نہ کسی دعویدار نے اسے پیش کیا۔مگر حضرت مرزا صاحب کس شان اور تحدّی سے فرماتے ہیں:‘‘ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کے لیے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا۔۔۔مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لیے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے۔’’ (تحفہ گولڑویہ ص33 روحانی خزائن جلد17 ص142-143)آسماں میرے لیے تو نے بنایا اک گواہچاند سورج ہوئے میرے لیے تاریک و تارخود ہمارا اہلحدیث خاندان اس پیشگوئی کا مرہون منت ہے کہ ہمارے آباء و اجداد علمائے اہلحدیث کو یہ سعادت ملی کہ اس نشان کو دیکھ کر مسیح وقت و مہدی دوراں کو قبول کرنے والوں میں ہوئے۔معترض کی طرح سوءظن کے نتیجہ میں منکر ہونے سے بچ گئے۔جہنم پر ایسا وقت آئے گا کہ اس میں کوئی نہیں ہوگا اور باد نسیم اس کے دروازوں کو حرکت دے گی۔
اعتراض:۔
حدیث آتی ہے (یاتی علیٰ جھنم زمان لیس فیھا احد ،ونسیم الصبا تحرک ابوابھا)‘‘جہنم پر ایسا وقت آئے گا کہ اس میں کوئی نہیں ہوگا اور باد نسیم اس کے دروازوں کو حرکت دے گی۔’’(حقیقتہ الوحی ۔خزائن جلد22صفحہ196)مرزا کا بالکل واضح جھوٹ،حوالہ دو کس حدیث کی کتاب میں ہے۔گویا معترض کے نزدیک جہنم عارضی نہیں،دائمی ہے۔یہی ماحصل معترض کےایک دوسرے اعتراض کا ہے۔جس میں لکھتے ہیں: ‘‘مرزا نے کس قدر قرآن مجید پر جھوٹ بولاہے۔حالانکہ پارہ نمبر12 سورۂ ہود آیت108-109 میں بہشتیوں اور دوزخیوں دونوں کے حق میں الّا ماشاء ربک موجود ہے۔لیکن مرزا جی کہتے ہیں (الا ما شاء ربک)صرف دوزخیوں کے لیے ہے،بہشتیوں کے لیے نہیں۔’’جواب:۔
اہل حدیث معترض نے اپنے اعتراضوں کے نمبر بڑھانے اور 40 کا عدد پورا کرنے کے لیے پہلے جہنم کے عارضی ہونے کے متعلق ایک حدیث کے حوالہ پر اعتراض کرتے ہوئے اسے بھی جھوٹ قرار دیا ہے اور پھر حضرت مرزا صاحب کی پیش کردہ سورة ہود کی آیت الّا ما شاء ربک ان ربک فعال لما یرید جو جہنم کو عارضی قرار دیتی ہے پر اعتراض کیا ہے۔معترض سوالوں کی ترتیب سے بھی ظاہر ہے۔غیر مقلّد حدیث کو قرآن پر قاضی قرار دیتے ہوئے اسے قرآن پر مقدّم کرتے ہیں۔اس لیے پہلے حدیث پر اعتراض کیا ہے پھر قرآن پر۔لیکن ہمارےنزدیک چونکہ قرآن حدیث پر قاضی ہے۔اس لیے ہم پہلے قرآن کی آیت پر کیے گئے اعتراض نمبر34 کا جواب دیں گے اور پھراس کی روشنی میں حدیث پر کیے گئے اعتراض نمبر33 کا ۔جیسا کہ ذکرہوچکا ان دونوں اعتراضات میں دراصل بنیادی طور پر معترض نے جہنم کےعارضی ہونے پر اعتراض کیا ہے۔اعتراض نمبر34یہ ہے کہ ‘‘پارہ نمبر12 سورۂ ہود آیت108-109 میں بہشتیوں اور دوزخیوں دونوں کے حق میں الّا ماشاء ربک موجود ہے۔لیکن مرزا جی کہتے ہیں (الا ما شاء ربک) صرف دوزخیوں کے لیے ہے،بہشتیوں کے لیے نہیں۔’’گویا معترض کے نزدیک جنت و جہنم دونوں دائمی ہیں۔معترض نے دیانت سے کام نہ لیتے ہوئے وہ فرق واضح نہیں کیا جوقرآن شریف میں الا ماشاء ربک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کر کے واضح کیا گیا ہے۔جہنم کے ذکر میں الّا ما شاء ربک کے ساتھ انّ ربک فعال لما یرید کی صفت آئی ہے یعنی دوزخیوں سے خدا جو سلوک چاہے گا کرے گا۔اور دوسری جگہ خود اللہ تعالیٰ نےوضاحت فرما دی کہ کیا کرے گا۔فرمایا: وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(الاعراف:157)یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و قدرت تو ہر چیز پر حاوی ہے جیسے انّ اللہ علیٰ کلّ شئی قدیر سےظاہر ہے۔اللہ کی مشیت بھی بعض دوسری صفات الہیہ کے ساتھ مل کر ایک نہایت خوبصورت امتزاج اور Combinationnپیدا کرتی ہے۔چنانچہ جہاں جنت و جہنم دونوں کے ساتھ مشیت کی اصولی شرط کےساتھ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(الاعراف:157) بھی فرمادیا۔کہ میری رحمت ہر شیٔ پروسیع ہے۔سورة ہود کی آیت108کے چند آیات بعدإِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (ہود:120)فرماکر اپنی مشیئت کا ذکر کردیا۔اس کی مشیت اور رحمت ہی سلوک کرے گی کیونکہ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ اسی رحم کے جلوے دکھانے کے لیے تو پیدا کیا۔نیز فرمایا: كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ(الانعام:55) کہ تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت فرض کرلی ہے۔یہی وجہ ہے کہ علامہ بغوی جہنم کے عارضی ہونے کو اس آیت‘‘الّا ما شاء ربّک’’(سورة ہود108)کے تحت لے کر آئے ہیں۔گویا انہوں نے بھی جہنم کے عارضی ہونے کی حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی تفسیر کو دراصل آنحضورﷺ کی تفسیر قرار دیا اور اس کی تائید میں یہ درج تھا۔پھرإِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ میں رب کا لفظ رکھ دیا جوربوبیت اور تربیت کی طرف اشارہ ہے کہ جہنم میٍں ڈالا جانا بطور علاج کے ہوگا اور جس اور جیسے جتنے عرصہ میں علاج ہوگا تو اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا اپنی رحمت کا سلوک کرے گا۔چنانچہ ہمارے اہل حدیث معترض کووہ حدیث تو معلوم ہی ہوگی۔جس میں آخری جہنمی کے جہنم سے نکالے جانے اور جنت میں جانے کا ذکر ہے:‘‘وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‘‘يَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الجَنَّةَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، لاَ وَعِزَّتِكَ لاَ أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا(صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ العَزِيزُ الحَكِيمُ} [إبراهيم: 4]، {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ} [الصافات: 180]، {وَلِلَّهِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ} [المنافقون: 8]، وَمَنْ حَلَفَ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ)اور دوسری جگہ جہاں جنت کے ساتھ الّا ماشاء ربّک بھی اللہ کی مشیت کا ذکر آیا ہے۔وہاں اللہ تعالیٰ کی صفت ‘‘عطاء’’کاذکرہے جسے غیر مجذوذ سے مشروط کر دیا یعنی کہ وہ غیر منقطع،نہ ختم ہونیوالی ابدی اور دائمی ہے۔پس اس پہلو سےسوال دونوں آیات میں محض الّا ما شاء ربک کے استثناء ہونے کا نہیں ہے۔بلکہ ان کے ساتھ آیت کے اگلے ٹکڑے میں صفات الٰہیہ سے وضاحت کا ہے۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ بجا طورپرفرماتے ہیں:‘‘دنیا کی تمام قومیں اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ آنے والی بلائیں خواہ وہ پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی جائیں اور خواہ صرف خدا تعالیٰ کے ارادہ میں مخفی ہوں وہ صدقہ خیرات اور توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہیں تبھی تو لوگ مصیبت کے وقت میں صدقہ خیرات دیا کرتے ہیں ورنہ بے فائدہ کام کون کرتا ہے۔ اور تمام نبیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ، خیرات اور توبہ و استغفار سے ردّ بلا ہوتا ہے اور میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی نسبت ایک آنے والی بلا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا الہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا۔ پس اگر اس طرح پر وعید کی پیشگوئی ضروری الوقوع ہے تو میں بیسیوں دفعہ جھوٹا بن سکتا ہوں اور اگر ہمارے مخالفوں اور بداندیشوں کو اس قسم کی تکذیب کا شوق ہے اگر چاہیں تو میں اس قسم کی کئی پیشگوئیاں اور پھر ان کی منسوخی کی ان کو اطلاع دیدیا کروں۔ ہماری اسلامی تفسیروں میں اور نیز بائیبل میں بھی لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی نسبت وقتؔ کے نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ اُس کی عمر پندرہ دن رہ گئی ہے مگر وہ بادشاہ تمام رات روتا رہا تب اُس نبی کو دوبارہ الہام ہوا کہ ہم نے پندرہ دن کو پندرہ سال کے ساتھ بدل دیا ہے۔ یہ قصہ جیسا کہ میں نے لکھا ہے ہماری کتابوں اور یہود اور نصاریٰ کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب کیا تم یہ کہو گے کہ وہ نبی جس نے بادشاہ کی عمر کے بارے میں صرف پندرہ دن بتلائے تھے اور پندرہ دن کے بعد موت بتلائی تھی وہ اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلا۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں منسوخی کا سلسلہ اس کی طرف سے جاری ہے یہاں تک کہ جو جہنم میں ہمیشہ رہنے کا وعید قرآن شریف میں کافروں کے لئے ہے وہاں بھی یہ آیت موجود ہےإِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ (ھود:108) یعنی کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے لیکن اگر تیرا رب چاہے کیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اُس کے کرنے پر وہ قادر ہے لیکن بہشتیوں کے لئے ایسا نہیں فرمایا کیونکہ وہ وعدہ ہے وعید نہیں ہے۔’’(حقیقۃالوحی ۔روحانی خزائن جلد22صفحہ196)پس حضرت مرزا صاحب کا یہ فرمانا کہ جہنم کو دائمی کہنے کے باوجود ‘‘إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ’’کہہ کے عارضی قرار دے دیا ،اس میں سورةہود کی اس پوری آیت کی طرف اشارہ ہے۔جس میں ‘‘إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ’’ کا ٹکڑا بھی موجود ہے۔جس کے معنے و مفہوم کومعترض نے چھوڑ کردیانت سے کام نہیں لیا۔اب ہم اعتراض نمبر33 کی طرف آتے ہیں جو دراصل اعتراض نمبر 34 کا ہی حصہ ہے جس میں جہنم کو عارضی قرار دینے والی حدیث پر اعتراض کرتےہوئے معترض نے اسے واضح جھوٹ کہہ کر حوالے کا مطالبہ کیا ہے۔اوّل تو جب قرآن حدیث پر قاضی ہے،اس نے فیصلہ کر دیا کہ جہنم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق عارضی اور جنت اللہ کی مشیت کے مطابق دائمی ہے تو اس کی تائید میں ایک نہیں متعدد احادیث موجود ہیں۔آخری جہنی کا جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہونے کا حوالہ پہلے دیکھ چکے ہیں جو حدیث حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے۔اہل حدیث ہوتے ہوئے اس کا حوالہ تلاش کرنا آپ پر اسی طرح لازم ہے کیونکہ حدیث قرآن کی تفسیر اور اس کے تابع ہے۔لیکن اگر آپ اہل حدیث ہونے اور عالم حدیث ہونے سے دستبردار ہوں تو پھر آئیے اس حدیث کا حوالہ لیجئے: حضرت ابو ہریرةؓ روایت کرتے ہیں:وَيَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الجَنَّةَ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ قِبَلَ النَّارِیہ لمبی حدیث ہے جس کے آخر میں ہے:فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لاَ تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ، فَيَضْحَكُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ، ثُمَّ يَأْذَنُ لَهُ فِي دُخُولِ الجَنَّةِ(صحیح بخاری کتاب الاذان با ب فضل السجود)گویا جہنم خالی ہوجائے گی۔اب صحیح بخاری کی تائید میں دیگر احادیث جن کے حوالےکا مطالبہ معترض نے کیا،پیش ہیں۔1۔ وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: لیأتین علی جہنم زمان لیس فیہا أحد۔(معالم التنزیل لبغوی، سورۃ ہود زیر آیت 108، جزء چہارم صفحہ 202)2۔ لَیَاْتِیَنَّ عَلَی جَہَنَّمَ یَوْمٌ کَأَنَّھَا زَرْعٌ ہَاجٌ وَاحْمَرَّ تَخْفُقُ أَبْوَابُھَا۔(طبرانی عن ابی امامہ، کنزل العمال جلد14 صفحہ526، ذکر النار وصفتھا حدیث نمبر39505)3۔ یَاْتِیْ عَلٰی جَہَنَّمَ یَوْمٌ مَا فِیْھَا مِنْ بَنِیْ آدَمَ اَحَدٌ تَخْفُقُ اَبْوَابُھَا۔(الخطیب عن ابی امامہ، کنز العمال جلد14 صفحہ526، ذکر النار وصفتھا حدیث نمبر39506)تین ائمہ حدیث نے بیان کیا اورحضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی اور ابو امامہ سے یہ احادیث مروی ہیں جو جہنم کے عارضی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ اس عنوان کے نیچے یہ حدیثیں لے کر آئے ہیں کہ جہنم کا ذکر اور اس کی خصوصیت کیا ہے۔بعض کتب میں زبان فارسی میں یہ حدیث لکھی ہے ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم
اعتراض:۔
‘‘بعض کتب میں زبان فارسی میں یہ حدیث لکھی ہے ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم۔’’( حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ196)”کیا فارسی زبان میں بھی کوئی حدیثیں ہیں۔”جواب:۔
یہ سوال دراصل ملائیت زدہ تنگ نظری کی پیداوارہے۔معترض کے اس تعجب پر حیرت ہے کہ اہل حدیث ہوکر اسے اتنا بھی علم نہیں کہ فارسی زبان میں بھی کوئی حدیث ہے یا نہیں۔حدیث کاعلم نہ سہی ،اگر قرآن کا بھی مطالعہ ہوتا تو وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ(إبراهيم: 5) سےظاہرہے کہ ہر نبی کی حدیثیں اس کی قومی زبان میں تھیں۔اور اگر حضرت آدمؑ وادریسؑ کی احادیث سریانی میں،حضرت موسیٰؑ اور ہارونؑ کی عبرانی میں اورحضرت عیسیٰ ؑکی آرامی میں ہوسکتی ہیں توملک فارس کے نبی حضرت زرتشتؑ کی حدیثیں فارسی میں کیوں نہیں ہوسکتیں۔بلکہ خود ہمارے آقا ومولا جوكَافَّةً لِلنَّاسِ کے لیے رسول تھے۔ان کو اگر مذکورہ بالا حدیث قدسی فارسی میں الہام ہوئی تو اس میں کیاجائے اعتراض ہے۔وہ علیم و خبیر خدا جواس نبی امی کو قرآن کی علم و حکمت سکھانے پر قادر ہے۔کیاوہ آپ کو فارسی میں الہام نہیں کر سکتاتھا؟جس نے اقرأ کہہ کے قرآن سکھایاوہ توفارسی زبان سکھا نے پر بھی قادر تھا۔اور رسول اللہﷺ جنہوں نے آخری زمانے میں اہل فارس کے ذریعہ اسلام کے احیائے نو خبر دی خودآپ سے فارسی میں کلام ثابت ہے جسےامام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الجھاد میں‘‘ مَنْ تَكَلَّمَ بِالفَارِسِيَّةِ’’کاباب باندھا جس میں حضرت ابو ہریرةؓ کی یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت حسنؓ نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈال لی تو رسول اللہﷺ نے فارسی میں فرمایا:«كخ كخ»یعنی تھوکر دو،تھوک دو۔فارسی لغات میں کخِ کے معنےکسی چیز کو پھینک دینے کے لکھے ہیں۔دوسری حدیث حضرت ابوہریرةؓ نےیہ بیان کی ہے۔جو صحاح ستہ کی ایک اورکتاب ابن ماجہ میں ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺظہر کی نماز کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایااشِكَمَتْ دَرْدْ؟راوی کہتے ہیں یعنی فارسی میں فرمایا کہ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے۔عرض کیا:جی حضورﷺ۔فرمایا نماز پڑھو اس میں شفا ہے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الصَّلَاةُ شِفَاءٌ حدیث 3458)ابو عبد اللہ امام ابن ماجہ کہتے ہیں کہ فارسی کی حدیث جب ایک شخص نے اپنے گھر والوں کو جاکر سنائی تو وہ اسےمارنے کو چڑھ دوڑے کہ کیا فارسی میں بھی کوئی حدیث ہوتی ہے۔یہی حال ہمارےمعترض کا ہے جواپنی تنگ نظری میں فارسی کی یہ حدیث قدسی سن کر تعجب کا اظہار کرکے ایک طرف خدا تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے پرمعترض ہےاور دوسری طرف رسول اللہﷺ کے صاحب علم و فضل ہونے پر اعتراض کرکے اپنی علمی حیثیت کو خودظاہر کرتا ہے۔اب آئیے رسول اللہﷺ کی بیان فرمودہ اس حدیث قدسی کی طرف جس کا حوالہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے دیا ہے کہایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنمیعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ‘‘اگر میں خاک کے اس پتلے(انسان) کو نہ بخشوں تواور کیا کروں۔’’اب اس حدیث قدسی کا مضمون تو اللہ تعالٰی کی صفت رحمت و مغفرت کی وہ زبردست شان بیان کرتاہے۔جس پر سب سے پہلے خود قرآن شریف گواہ ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں منافقوں کا ذکرفرماکے کہ ان کا درجہ آگ میں کافروں سے بھی بدتر ہے ان کی بھی توبہ کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے انہیں مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ (النساء:148)اللہ تعالیٰ آخر تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔یہی مضمون اس حدیث قدسی کا ہے اور پھر جیسا کہ اولیائے امت اور متصوفین نے صاحب الہام کی تصحیح حدیث کو قبول فرمارہے ہیں حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود و مہدی سے بڑھ کر اس کی صحت کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔اور جہاں تک اس حدیث قدسی کے فارسی کےحوالوں کا تعلق ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:1۔حافظ عبد العزیز پرھاڑوی نے اپنی کتاب ‘‘ کوثر النبی فی علم اصول الحدیث’’کے صفحہ 555میں لکھا ہے:‘‘چکنم بہ ایں گناہ گاران کہ نیامرزم’’اور اس کے حاشیہ میں ایک بزرگ عالم لکھتے ہیں کہ‘‘میں نے کہیں یہ بھی پڑھاہے:ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم’’2۔ جمال الدین حسین انجوی نے فرہنگ جہانگیری جو 1017ھ میں مکمل ہوئی، میں لکھا ہے کہ‘‘در تفسیر دیلمی مسطور است کہ سأل رسول اللہ عن میکائیل ھل یقول اللہ شیئا بفارسی قال نعم یقول اللہ تعالیٰ جل جلالہ چون کنم با این مشت ستمگار جزاینکہ بیا مرزم۔’’(فرہنگ جہانگیری جلد دوم صفحہ10)3۔ سید محمد علی داعی الاسلام اپنی ‘‘فرہنگ نظام’’(سن اشاعت 1346ھ تا1358ھ) کے صفحہ148 پریہی عبارت لکھتے ہیں:‘‘در تفسیر دیلمی مسطور است کہ سئل رسول اللہ عن میکائیل ھل یقول اللہ شیئا بالفارسیة قال نعم یقول اللہ تعالیٰ جل جلالہ چون کنم با این مشت ستمگار جزاینکہ بیا مرزم۔’’(فرہنگ نظام جلد پنجم ص148)احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار سال میں پیدا ہو گا
اعتراض:۔
”اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار سال میں پیدا ہو گا۔”(حقیقۃ الوحی صفحہ201جلد 22صفحہ209)کون سی احادیث صحیحہ؟’نبی پاکﷺ پر مرزا کا جھوٹ ہے۔جواب:۔
یہاں بھی معترض نے ناشائستہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے جھوٹ کا الزام لگاکر سوال کیا ہےاورمحض سوالوں کا نمبر بڑھانے کے لیے یہ سوال کیاہے۔اعتراض نمبر 26 دنیا کی عمر سات ہزار سال کے تحت اس کا تفصیلی جواب آچکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں آکر پہلی دفعہ جھوٹ کا الزام لگانے کے ساتھ تجاہل عارفانہ کے طور پر یہ بھی کہا کہ کونسی احادیث صحیحہ؟اس کا سادہ سا جواب تویہی ہے کہ اعتراض نمبر26 میں بیان کی گئی وہ تمام احادیث جن کی صحت ایک صاحب الہام حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود کے کلام سے ظاہر ہے،اور جن کا ماحصل یہ ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال کا ذکر ہے:1۔ ‘‘من قضى حاجة المسلم في الله كتب الله له عمر الدنيا سبعة آلاف سنة صيام نهاره وقيام ليله’’ابن عساكر عن أنس(کنزالعمال جزء6 ص444)دنیا کی عمر سات ہزار سال والی روایت کوعلامہسیوطی (المتوفى: 911ھ)نے اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعةجزء2ص369میں اور ابن عراق الكناني (المتوفى: 963ھ)نے تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعةجزء2ص379میں اور حضرت ملا علی قاری ؒ (المتوفى: 1014ھ)نے الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى جزء1ص199 میں اورعلامہ محمود آلوسی نےتفسیرروح المعانی میں اورعلامہ اسماعیل حقی نے تفسیر روح البیان اورمشہور محدث علامہ عبد الرؤوف المناوي القاهري(المتوفى: 1031ھ)نے اپنی کتاب فیض القدیر میں بیان کیا ہے۔2۔عن أنس مرفوعا: الدنيا كلها سبعة أيام من أيام الآخرة وذلك قول اللَّه عز وجل ‘‘وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ(الحج:47)’’اس روایت کو‘‘کشف الخفاء’’ میں علامہ عجلونی نے ‘‘مقاصد الحسنة’’ میں علامہ سخاوی نے‘‘تاریخ جرجان’’ میں علامہ جرجانی نے ‘‘حاوی للفتاویٰ’’ میں علامہ سیوطی نے بیان کی ہے۔3۔ایک اور اہم حدیث حضرت ابن عمرؓ کی صحیح بخاری میں ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘ إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِي أَجَلِ مَنْ خَلاَ مِنَ الأُمَمِ، كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ العَصْرِ، وَمَغْرِبِ الشَّمْسِ’’(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ فَضْلِ القُرْآنِ عَلَى سَائِرِ الكَلاَمِ)اور دیگر انبیاء آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ کے کل زمانہ قریباً پانچ ہزار سال کے مقابل پر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا عرصہ زمانہ دو ہزار سال بنتا ہے۔پانچویں ہزار سال کے آخر میں آپ کی بعثت ہوئی۔جس کے تین سو سال خیر القرون کا زمانہ اور ایک ہزار فیج اعوج کا دور ملاکر مسیح موعود کا زمانہ چھٹے ہزار سال کا آخر بنتا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:‘‘اِن سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلّط کا زمانہ ہے اور پھر تیسرا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلّط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا(یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سیّد و مولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیاہے) اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلّط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پرختم ہو جاتا ہے۔ اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر وبرکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے۔ اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اِس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے۔ کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفصّل طور پر۔’’ (لیکچر لاہور روحانی خذائن جلد 20 صفحہ 38-40)حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:”کتب سابقہ اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمر دنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس تک ہے اِسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ إِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ(الحج:48) یعنی خدا کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک حضرت آدمؑ سے اسی قدر مدت بحساب قمری گذری تھی جو اِس سورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہے۔ اور اس کے رو سے حضرت آدمؑ سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے اور یہ حساب جو سورۃوالعصر کے حروف کے اعداد کے نکالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے حساب سے قریباً تمام و کمال ملتا ہے صرف قمری اور شمسی حساب کو ملحوظ رکھ لینا چاہےے۔ اور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں آنا ضروری ہے اور کئی برس ہو گئے کہ چھٹا ہزار گزر گیا۔”(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 146، 147)آپؑ مزیدفرماتے ہیں:‘‘خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے یعنی تیئیس23 برس کا تمام وکامل زمانہ یہ کل مدت گذشتہ زما ؔنہ کے ساتھ ملاکر4739 برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سےؔ ہیں۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الف خامس میں جو مریخ کی طرف منسوب ہے مبعوث ہوئے ہیں اور شمسی حساب سے یہ مدت 4598 ہوتی ہے اور عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائبل کا رکھا گیا ہے 4636 برس ہیں۔ یعنی حضرت آدم سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اخیر زمانہ تک4636 برس ہوتے ہیں اس سے ظاہرہوا کہ قرآنی حساب جو سورۃ العصر کے اعداد سے معلوم ہوتا ہے اور عیسائیوں کی بائبل کے حساب میں جس کے رُو سے بائبل کےحاشیہ پر جا بجا تاریخیں لکھتے ہیں صرف اٹھتیس٣٨٨ برس کافرق ہے ۔اور یہ قرآن شریف کے علمی معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس پر تمام افرادِ امت محمدیہ میں سے خاص مجھ کو جو میں مہدیئ آخر الزمان ہوں اطلاع دی گئی ہے تا قرآن کا یہ علمی معجزہ اور نیز اس سے اپنے دعوے کا ثبوت لوگوں پر ظاہر کروں۔ اور اِن دونوں حسابوں کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہؔ وسلم کا زمانہ جس کی خدا تعالیٰ نے سورۃ والعصر میں قسم کھائی الف خامس ہے یعنی ہزار پنجم جومریخ کے اثر کے ماتحت ہے۔ اور یہی سرّ ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اُن مفسدین کے قتل اور خونریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا اور قتل کرنا چاہا اور اُن کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اوّل کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلّی تھا یعنی یہ بعث اوّل جلالی نشان ظاہر کرنے کے لئے تھا ۔’’ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ91-92)حضرت مرزا صاحب نےفرمایا کہ:سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے بارہ سو نوے برس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی بارہ سو نوے کا۔ پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال تیرہ سو پینتیس برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جس مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے۔ اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی زلزلے آئیں گے لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئیں ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائیبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سے چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادہئِ الٰہی میں مقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔ اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے۔ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اسکے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہے۔”(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ207تا 209)نیز فرمایا:”خدا نے آدم کو چھٹے دن بروز جمعہ بوقت عصر پیدا کیا۔ توریت اور قرآن اور احادیث سے یہی ثابت ہے اور خدانے انسانوں کے لئے سات دن مقرر کئے ہیں۔ اور اِن دنوں کے مقابل پر خدا کا ہر ایک دن ہزار سال کا ہے اور اس کی رو سے استنباط کیا گیا ہے کہ آدم سے عمردنیا کی سات ہزار سال ہے اور چھٹا ہزار جو چھٹے دن کے مقابل پر ہے وہ آدمِ ثانی کے ظہور کا دن ہے۔ یعنی مقدریوں ہے کہ چھٹے ہزار کے اندر دینداری کی روح دنیا سے مفقود ہو جائے گی اور لوگ سخت غافل اور بے دین ہو جائیں گے۔ تب انسان کے روحانی سلسلہ کو قائم کرنے کے لئے مسیح موعود آئے گا۔ اور وہ پہلے آدم کی طرح ہزار ششم کے اخیر میں جو خدا کا چھٹا دن ہے ظاہر ہو گا۔ چنانچہ وہ ظاہر ہو چکا ۔(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ259)سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیںعمر دنیا کو بھی اب تو آگیا ہفتم ہزاراس علیم و حکیم کا قرآن شریف میں فرمانا کہ 1857میں میرا کلام آسمان پر اٹھا لیا جائے گا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے۔
اعتراض:۔
” اس علیم و حکیم کا قرآن شریف میں فرمانا کہ 1857میں میرا کلام آسمان پر اٹھا لیا جائے گا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے۔”(ازالہ اوہام ۔جلد3صفحہ490حاشیہ)قادیانیو! ہے ہمت تواس مضمون کی آیت قرآن مجید سے نکال کر مرزاکوسچا ثابت کردو،ورنہ توبہ کرو ایسے شخص کو نبی ماننے سے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء اور جھوٹ باندھتا ہے۔جواب:۔
قرآن شریف میں ایک نہیں متعدد آیات اس مضمون کی موجود ہیں۔اگر واقعی معترض کو اپنے اس سوال کا جواب چاہیے تو خود حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے وہ آیت پیش فرمادی جو سورة مومنون کی آیت 19 ہےکہ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ(المومنون:19)کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے روحانی پانی ایک خاص اندازہ سے نازل فرمایا اور اس زمین میں رکھا اور ہم اس کے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔خود حضرت مرزا صاحب نے اس کی یہ وضاحت فرمائی ہے:”آیتؔ إِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (المومنون:19)میں 1857ءکی طرف اشارہ ہے جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہوگئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل 1274 ہیں اور 1274کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو 1857ءہوتاہے۔ سو درحقیقت ضعف اسلام کازمانہ ابتدائی یہی 1857ء ہے جس کی نسبت خدائے تعالےٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتاہے کہ جب وہ زمانہ آئیگا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائیگا۔ سو ایساہی 1857ءمیں مسلمانوں کی حالت ہوگئی تھی کہ بجُز بدچلنی اور فسق وفجور کے اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یادنہ تھا جس کا اثر عوا م پر بہت پڑ گیا تھا انہیں ایام میں انہوں نے ایک ناجاؔئز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجود نمک خوار اور رعیت ہونے کے مقابلہ کیا۔ حالانکہ ایسامقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعًا جائز نہ تھاکیونکہ وہ اس گورنمنٹ کی رعیت اور ان کے زیر سایہ تھے اور رعیت کا اس گورنمنٹ کے مقابل پر سر اٹھاناجس کی وہ رعیت ہے اور جس کے زیر سایہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتی ہے سخت حرام اورمعصیت کبیرہ اور ایک نہایت مکروہ بدکاری ہے۔جب ہم 1857ءکی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتووں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے عام طور پر مہریں لگا دی تھیں جو انگریزوں کو قتل کردینا چاہیئے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے اُن کے فتوے تھے۔ جن میں نہ رحم تھا نہ عقل تھی نہ اخلاق نہ اؔنصاف۔ ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا۔ننھے ننھے بچوں اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا اورنہایت بے رحمی سے انہیں پانی تک نہ دیا۔ کیا یہ حقیقی اسلام تھا یایہودیوں کی خصلت تھی۔ کیا کوئی بتلاسکتا ہے کہ خدائے تعالےٰ نے اپنی کتاب میں ایسے جہاد کاکسی جگہ حکم دیا ہے۔ پس اس حکیم وعلیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ 1857ء میں میرا کلام آسمان پر اُٹھایاجائیگا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے جیساکہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔خدائے تعالیٰ پر یہ الزام لگانا کہ ایسے جہاد اور ایسی لڑائیاں اس کے حکم سے کی تھیں یہ دوسرا گناہ ہے۔ کیا خدائے تعالیٰ ہمیں یہی شریعت سکھلاتا ہے کہ ہم نیکی کیؔ جگہ بدی کریں۔ اور اپنی محسن گورنمنٹ کے احسانات کا اس کو یہ صلہ دیں کہ اُن کی قوم کے صغر سن بچوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کریں اور ان کی محبوبہ بیویوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔ بلاشبہ ہم یہ داغ مسلمانوں خاص کر اپنے اکثر مولویوں کی پیشانی سے دھو نہیں سکتے کہ وہ 57ء میں مذہب کے پردہ میں ایسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے جس کی ہم کسی قوم کی تواریخ میں نظیرنہیں دیکھتے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ انہوں نے اور بھی ایسے بُرے کام کئے جو صرف وحشی حیوانات کی عادات ہیں نہ انسانوں کی خصلتیں۔ انہوں نے نہ سمجھا کہ اگر اُن کے ساتھ یہ سلوک کیاجائے کہ ایک ممنون منت اُن کااُن کے بچوں کومار دے اوران کی عورتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرے تو اُس وقت اُن کے دل میں کیا کیا خیال پیدا ہوگا۔ باوجوؔد اس کے یہ مولوی لوگ ا س بات کی شیخی مارتے ہیں کہ ہم بڑے متقی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نفاق سے زندگی بسر کرنا انہوں نے کہاں سے سیکھ لیا ہے۔ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے اور انکے دلی اور دماغی قویٰ پر بہت بُرا اثر ان سے پڑا ہے۔ اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الٰہی کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیرکی جائے کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کرسکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثر ڈالتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشی کی مزاحم ہورہی ہیں۔ کیوں مزاحم ہورہی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے اکثر زوائد کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پر ٹھایاگیاہے۔ وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایاتھا اس سے لوگ بے خبر ہیں وہ عرفان جو قرآن نے بخشاتھا اس سے لوگ غافل ہوگئے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اُترتا۔(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ488، 493)اس بات کی تائید وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ(الجمعة:4)سے بھی ہوتی ہے جس کے اعداد1275 ہیں اور 1275 کا زمانہ 1858ء ہے۔1857ءوہ زمانہ ہے جس کی تائید مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس حالی کے اشعار سے ہوتی ہے جنہوں نے اپنے عنفوان شباب میں اس زمانہ کو دیکھ کر اور متاثر ہوکر اسلام کی حالت زار پر مرثیہ لکھا جس میں لکھا ہے کہسدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہےفتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآن کا نعم البدل ہےکتاب اور سنت کا ہے نام باقیخدا اور نبیؐ سے نہیں کام باقیرہا دین باقی نہ اسلام باقیاک اسلام کا رہ گیا نام باقی(مسدس حالی‘‘مدوجزر اسلام’’ از مولانا الطاف حسین حالی1879ء)پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا۔ اور نابالغ بچے نبوت کریں گے
اعتراض:۔
”پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا۔ اور نابالغ بچے نبوت کریں گے۔ اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے۔”(ضرورۃ الامام ۔روحانی خزائن جلد13صفحہ475)“صریح بہتان ہے،جھوٹ،افتراء ہے۔حوالہ پیش کرو۔”جواب:۔اگر واقعی یہ جھوٹ اور افتراء ہے تو حوالہ پیش کرنے کا مطالبہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور اگر حوالہ پیش ہوجائے تو پھر جھوٹ اور افتراء کس کا ثابت ہوگا یہ بھی طے ہوجانا چاہیے۔اب ملاحظہ ہو پہلے نبیوں کی کتابوں میں یوایل نبی کی کتاب کا حوالہ لکھا ہے:”اس کے بعد مَیں ہر فرد بشر پر اپنی روح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوت کریں گے۔ تمہارے بوڑھے خواب اور جوان رؤیا دیکھیں گے بلکہ میں ان ایام میں غلاموں اور لَونڈیوں پر اپنی روح نازل کروں گا اور میں زمین و آسمان میں عجائب ظاہر کروں گا۔”(یوایل باب2 آیات 28 تا31)پھر اعمال میں لکھا ہے:”خدا فرماتا ہے کہ آخری دنوں میں ایسا ہو گا کہ میں اپنے روح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوت کریں گی اور تمہارے جوان رؤیا اور تمہارے بڈھے خواب دیکھیں گے بلکہ میں اپنے بندوں اور اپنی بندیوں پر بھی ان دنوں میں اپنے روح میں سے ڈالوں گا اور وہ نبوت کریں گی۔”(اعمال باب 2 آیات 17-18)جہاں تک احادیث کا تعلق ہے۔نبی کریمﷺ نے جہاں اپنی امت کو عمومی رنگ میں مبشرات اور رؤیائے صالحہ کی خبر دی۔وہاں یہ بھی فرمایا کہعَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَکَدْ رُؤْیَا الْمُسْلِمِ تَکْذِبُ وَأَصْدَقُکُمْ رُؤْیَا أَصْدَقُکُمْ حَدِیثًا وَرُؤْیَا الْمُسْلِمِ جُزْء ٌ مِنْ خَمْسٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْء ًا مِنَ النُّبُوَّۃِ۔(مسلم، کتاب الرؤیا، روایت نمبر6043)ایک خاص زمانہ کے قرب کے وقت مومن کی رویا جھوٹی نہیں ہو گی۔ اور جو تم میں سے زیادہ سچ بولنے والا ہے اس کی خوابیں زیادہ سچی ہوں گی۔ اور مسلمان کی رؤیا نبوت کا پینتالیسواں حصہ ہے۔اور فرمایا: من لم یؤمن بالرؤیا الصادقۃ فإنہ لم یؤمن باللہ ورسولہ۔ (الدیلمی-عن عبد الرحمن بن عائذ،کنز العمال، حرف المیم، فرع فی الرویا، جزء 15 صفحہ371)اسی طرح حضرت علیؓ کی روایت کے مطابق نبی کریمﷺ نے آخری زمانہ میں جب اسلام اور قرآن کے اٹھ جانے کا ذکر کیا تو علماء کے ایک گروہ کے بارہ میں فرمایا عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ(شعب الایمان للبیھقی جزء3ص317)لیکن مسیح موعودؑ کے ظہور کے وقت اپنی امت کے علماء کی نسبت سے فرمایا: عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ(المقاصد الحسنۃ۔از علامہ سخاوی جزء 1ص757)نیز فرمایا:«فُقَهَاءُ عُلَمَاءُ كَادُوا مِنَ الْفِقْهِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ»(حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء از ابو نعیم الاصبھانی (متوفی:430ھ) جزء10 ص192)”بعض پیشگوئیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اقرار کیا ہے کہ میں نے ان کی اصلیت سمجھنے میں غلطی کھائی۔”
اعتراض:۔
”بعض پیشگوئیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اقرار کیا ہے کہ میں نے ان کی اصلیت سمجھنے میں غلطی کھائی۔”(ازالہ اوہام صفحہ400جلد3صفحہ307)قادیانیو! پڑھو ‘‘انّا للہ وانّا الیہ راجعون’’ جس نبی کی یہ شان اللہ نے بیان فرمائی ‘‘وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم3-4)’’ وہ پیشگوئیوں کو نہ سمجھ سکیں؟ عجیب ہی بات ہے۔یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔اس مضمون کی کوئی حدیث دکھا دو۔جواب:۔
معترض نے اس جگہ نزول مسیح ابن مریم کے پُر معارف مضمون سے توجہ ہٹانے کے لیے اس کےایک ٹکڑے کولے کراعتراض کر ڈالا۔1۔عَنْ أَبِی مُوسَی عَنِ النَّبِیِّ -صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ أَنِّی أُھَاجِرُ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی أَرْضٍ بِھَا نَخْلٌ فَذَھَبَ وَھْلِی إِلَی أَنَّھَا الْیَمَامَۃُ أَوْ ھَجَرُ فَإِذَا ھِیَ الْمَدِینَۃُ یَثْرِبُ۔ (مسلم، کتاب الرؤیا، باب رؤیا النبیؐ)ترجمہ:حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف جا رہا ہوں جہاں کھجوریں ہیں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ جگہ یمامہ یا ہجر ہے مگر وہ شہر یثرب تھا۔2۔ صلح حدیبیہ کا واقعہ6ھ میں رسول اللہﷺ ایک رؤیا کی بنا پر 1400 صحابہ کو لے کر مدینہ عمرہ کے لیے نکلے۔جس کے بارہ میں قرآن میں ہے:لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا (الفتح:28)مقام حدیبیہ پر روک لیے گئے اور اگلے سال عمرہ کا معاہدہ ہوا۔ کتنا بڑا دھچکہ حضرت عمرؓ جیسے صحابی کو لگا۔انہوں نےپوچھا:أَلَسْتَ نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا؟ کیا ہم حق پر نہیں؟ قَالَ: «بَلَى»پھر پوچھا: أَلَسْنَا عَلَى الحَقِّ، وَعَدُوُّنَا عَلَى البَاطِلِ؟ قَالَ: «بَلَى» ،پھر پوچھا: فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا؟ قَالَ: «إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَسْتُ أَعْصِيهِ، وَهُوَ نَاصِرِي» پھر پوچھا: أَوَلَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي البَيْتَ فَنَطُوفُ بِهِ؟قَالَ: «بَلَى، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيهِ العَامَ»، آپؓ نے فرمایا: لاَ، قَالَ: «فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ»کیا آپ سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ نہ تھا کہ ہم طواف کریں گے؟ فرمایا: یہ کب کہا تھا کہ اس سال۔(صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ)حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:اگر فرض کے طور پر یہ بھی مانؔ لیں کہ کوئی صحابہ میں سے یہی سمجھ بیٹھا تھا کہ ابن مریم سے ابن مریم ہی مراد ہے تو تب بھی کوئی نقص پیدانہیں ہوتا۔ کیونکہ پیشگوئیوں کے سمجھنے میں قبل اس کے جوپیشگوئی ظہور میں آوے بعض اوقات نبیوں نے بھی غلطی کھائی ہے پھر اگر کسی صحابی نے غلطی کھائی تو کون سے بڑے تعجب کی بات ہے۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اورفہم تمام اُمت کی مجموعی فراست اور فہم سے زیادہ ہے بلکہ اگر ہمارے بھائی جلدی سے جوش میں نہ آجائیں تو میرا تو یہی مذہب ہے جس کو دلیل کے ساتھ پیش کرسکتا ہوں کہ تمام نبیوں کی فراست اور فہم آپ کی فہم اور فراست کے برابر نہیں۔مگر پھر بھی بعض پیشگوئیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اقرار کیا ہے کہ میں نے اُن کی اصل حقیقت سمجھنے میں غلطی کھائی میں پہلے اس سے چند دفعہ لکھ چکا ہوں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طورپر فرما دیاتھا کہ میری وفات کے بعد میری بیبیوں میں سے پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو ہی بیبیوں نے باہم ہاتھ ناپنے شروع کردئے چونکہ آنحضرت صلیؔ اللہ علیہ وسلم کو بھی اس پیشگوئی کی اصل حقیقت سے خبر نہ تھی اس لئے منع نہ کیا کہ یہ خیال تمہارا غلط ہے۔ آخر اس غلطی کو پیشگوئی کے ظہور کے وقت نے نکالا۔ اگر زمانہ اُن بیبیوں امّہات المؤمنین کو مہلت دیتا اور وہ سب کی سب ہمارے اِس زمانہ تک زندہ رہتیں تو صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کے عہد سے لے کر آج تک تمام اُمت کا اِسی بات پر اتفاق ہوجاتا کہ پہلے لمبے ہاتھ والی بی بی فوت ہوگی اورپھرظہور کے وقت جب کوئی اَور ہی بیوی پہلے فوت ہوجاتی جس کے اَوروں کی نسبت لمبے ہاتھ نہ ہوتے تو اس تمام اجماع کو کیسی خجالتیں اُٹھانی پڑتیں اورکس طرح ناحق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کراتے اوراپنے ایمان کو شبہات میں ڈالتے۔’’(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ306-307)توریت کی تائید کے لیے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آئے جن کے آنے پر اب بائیبل شہادت دے رہی ہے
اعتراض:۔
‘‘چنانچہ توریت کی تائید کے لیے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آئے جن کے آنے پر اب بائیبل شہادت دے رہی ہے۔’’ (شہادۃ القرآن ۔خزائن جلد 6 صفحہ341)جھوٹ،جھوٹ،مرزا کے بڑ ہانکنے کے کیا کہنے! بائبل میں ایک جگہ 400 جھوٹے نبیوں کا ذکر ہے جن کے مقابلے میں سچے نبی مکایا علیہ السلام کو فتح نصیب ہوئی تھی۔یہ 400 جھوٹے نبی بعل بک کے پجاری تھے۔مشرک لوگ ان پجاریوں کو خداوند کے نبیوں کے مقابلہ میں نبی کہا کرتے تھے،مرزا جی اپنے‘‘نور نبوت’’سے ان مشرکوں کو نبی سمجھ بیٹھے۔جواب:۔
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس جگہ قرآنی آیت کی تفسیر میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ توریت کی تائید و تصدیق کے لیے حضرت موسیٰ کے بعد نبی آئے۔پہلی دلیل آیت وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (البقرة:88) یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے اور دوسری ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى(المومنون:45)یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے۔اب اگر معترض اس حقیقت کا انکار کرتا ہے تو یہ قرآنی صداقتوں کا انکارہے۔جہاں تک چار سو نبیوں کا تعلق ہےتو لیجئے حوالہ!1-سلاطین میں لکھا ہے:‘‘جب اخی اب نے ایلیاہ کو دیکھا تو اس نے اس سے کہا اے اسرائیل کے ستانے والے کیا تو ہی ہے؟ اس نے جواب دیا میں نے اسرائیل کو نہیں ستایا بلکہ تو اور تیرے باپ کے گھرانے نے کیونکہ تم نے خداوند کے حکموں کو ترک کیا اور تو بعلیم کا پیرو ہوگیا۔اس لیے اب تو قاصد بھیج اور سارے اسرائیل کو اور بعل کے ساڑھے چار سو نبیوں کو اور یسیرت کے چارسو نبیوں کو جو اِیزبِل کے دستر خوان پر کھاتے ہیں کوہ کرمِل پرمیرے پاس اکٹھا کردے۔’’ (سلاطین اول باب 18 17 تا199)معترض نے دجل و فریب س کام لیتے ہوئے اعتراض حضرت مرزا صاحب پر کیا۔مگر جھوٹ کا ارتکاب خود کیا اور ثابت ہوگیا کہ جھوٹی بڑ کس نے ہانکی۔
یہ سارا مضمون اس لنک سے لیا گیا ہے : رسالہ ضیائے حدیث کے ایک مضمون “چالیس جھوٹ”میں اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات