Tuesday, 12 July 2016

کیا مرزا صاحب کی وفات بیت الخلاء میں ہوئی ؟

ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الخلاء میں فوت ہوئے اس لئے وہ سچے نبی نہیں ہو سکتے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
                یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْھِم  مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ۔
ترجمہ :۔وائے حسرت بندوں پر !ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر و ہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔
اس اعتراض کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر تمسخر اڑانے کی بیہودہ کوشش ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی صداقت ہے۔

کس کی گواہی پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے ؟

حیرت ہوتی ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے سوچتے کیوں نہیں کہ یہ اعتراض انکی حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتا ہے ۔کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارے میں جو سوانح ان لوگوں نے قلمبند کی ہیں جو ان ایام میں آپ کے ساتھ تھے ، انہی کی بات سچی سمجھی جائے گی۔ کیا یہ اعتراض کرنے والا کوئی مخالف یا معاند یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس موجود تھا ؟اگر نہیں تھا تو پھر کس کی شہادت کی بناء پر ایسا بیہودہ اعتراض کیا جاتا ہے ؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام کے بارہ میں جماعت احمدیہ میں جو لٹریچر موجود ہے اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ آپؑ نعوذباللہ بیت الخلاء میں فوت ہوئے بلکہ یہی ذکر ملتا ہے کہ آپؑ اپنے بستر پر فوت ہوئے اور آپؑ کے آخری الفاظ “اللہ میرے پیارے اللہ”تھے۔
پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت بھی آپؑ کے معاندین نے یہ اعتراض نہیں کیا بلکہ آپؑ کی وفات کے بہت  بعد میں یہ اعتراض بنایا گیا ہے ۔اگر فی الحقیقت ایسا ہوا تھا تو اس وقت کے معاندین احمدیت کے پاس یہ اچھا موقع تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اعتراض کرنے کا۔اس سے یہی پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض گھڑا گیا ہے اور اسکی کوئی حقیقت نہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی تصنیف “سلسلہ احمدیہ “میں حضورؑ کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
 کوئی گیارہ بجے رات کا وقت ہو گا آپ کو پاخانہ جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور آپ اٹھ کر رفع حاجت کےلئے تشریف لے گئے ۔ آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی ۔ اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحب کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہو گئی ہے ۔ وہ فورًا اٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں اور چونکہ آپؑ کو پاؤں دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا اس لئے چارپائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں۔ اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کےلئے گئےاور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چارپائی پر لیٹتے ہوئے اپنے جسم کو سہار نہیں سکےاور قریبًا بے سہارا ہو کر چارپائی پر گر گئے۔ اس پر حضرت والدہ صاحب نے گھبرا کر کہا”اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ؟”آپؑ نے فرمایا “یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔”یعنی اب مقدر وقت آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک نہایت ماہر طبیب تھے)کو بلوا لو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ محمود (یعنی ہمارے بڑے بھائی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب)اور میر صاحب(یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے خسر تھے) کو جگا دو۔ چنانچہ یہ سب لوگ جمع ہو گئےاور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوا لیا گیا اور علا ج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی  وہ کی گئی ۔ مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں۔ کمزوری لحظہ بلحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی ۔ دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپؑ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تینوں لفظو ں میں محدود تھا ۔”اللہ میرے پیارے اللہ۔”اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا ۔
 صبح کی نماز کا وقت ہوا تو خاکسار مؤلف بھی پاس کھڑا تھا نحیف آواز میں دریافت فرمایا “کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”ایک خادم نے عرض کیا۔ ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم  کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیتے  ہی نماز کی نیت باندھی ۔ مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت  ہو گئی ۔ جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا کیا”نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟”عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ “اللہ ۔ میرے پیارے اللہ”سنائی دیتےتھے اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جا تا تھا ۔
  آخر صبح دس بجےکے قریب نزع کی حالت پیدا ہو گئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالت بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس وقت تک حضرت والدہ صاحب نہایت صبراور برداشت کے ساتھ دعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آتا تھا کہ “خدایا!ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوتی ہے تو میری زندگی بھی انکو عطا کر دے۔”لیکن اب جبکہ نزع کی حالت پیدا ہو گئی تو انہوں نے نہایت درد بھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا “خدایا !اب یہ تو ہمیں چھوڑرہے ہیں لیکن تو ہمیں نہ چھوڑیو۔”آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقااور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ  ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔”
(سلسلہ احمدیہ ۔ جلد اول صفحہ 176تا178)
یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور آپؑ کے آخری لمحات میں آپؑ کے پاس موجود تھے ۔ آپؑ کے بیان میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ نعوذباللہ حضور ؑ بیت الخلاء میں فوت ہوئے۔نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ محترمہ بھی وہاں موجود تھیں۔ ان میں سے کسی سے ایسا کوئی بیان منسوب نہیں جو اعتراض کیا جا رہا ہے ۔
            اور اگر کوئی معاند و مخالف حضور ؑ کی دستوں کی بیماری پر تمسخر کرتا ہے تو یہ اسکی اپنی گندہ دہنی اور ذہنی پستی کا ثبوت ہے ۔ اس سے حقیقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ حضور ؑ نے اپنے بستر پر  وفات پائی ۔

مکمل تحریر >>

Saturday, 9 July 2016

عدالت میں معاہدہ کی حقیقت

اعتراض : مرزا صاحب نے مجسٹریٹ سے ڈر کر عدالت میں لکھ دیا کہ میں کوئی ایسی پیشگوئی جو کسی کی موت کے متعلق ہو۔بغیر فریق ثانی کی اجازت کے شائع نہ کروں گا۔
جواب : ڈر کر ایسا کرنے کا اعتراض درست نہیں کیونکہ یہ معاہدہ تو حضرت اقدسؑ کے پرانے دستور کے مطابق ہوا تھا کیونکہ اس معاہدہ سے تیرہ سال پہلے آپ نے اشتہار 20؍فروری 1886 ء میں بعض لوگوں کے ذکر میں لکھا تھا:۔
’’اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ1886 ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے۔اور موجبِ دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس کے وقتِ ظہور سے خبر نہ دی جائے‘‘۔
(اشتہار مذکور مندرجہ تبلیغِ رسالت جلد1 صفحہ58 مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 95)
پھر خاص عدالتی معاہدہ کے متعلق لکھتے ہیں:۔
’’یہ ایسے دستخط نہیں ہیں جن سے ہمارے کاروبار میں کچھ بھی حرج ہو۔بلکہ مدت ہوئی کہ میں کتاب انجام آتھم کے صفحہ اخیر میں بتصریح اشتہار دے چکا ہوں کہ ہم آئندہ ان لوگوں کو مخاطب نہیں کریں گے جب تک خود ان کی طرف سے تحریک نہ ہو۔بلکہ اس بارے میں ایک اشتہار بھی شائع کر چکا ہوں جو میری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے…مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ ان لوگوں نے محض شرارت سے یہ بھی مشہور کیا ہے کہ اب الہام کے شائع کرنے کی ممانعت ہو گئی اور ہنسی سے کہا کہ اب الہام کے دروازے بند ہو گئے۔مگرذرہ حیاء کو کام میں لا کر سوچیں کہ اگر الہام کے دروازے بند ہو گئے تھے تو میری بعد کی تالیفات میں کیوں الہام شائع ہوئے۔اسی کتاب تریاق القلوب کو دیکھیں کہ کیا اس میں الہام کم ہیں‘‘۔
     (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ314حاشیہ)
پھر اس معاہدہ سے چھ سال قبل حضورؑ نے تحریر فرمایا:۔
’’اس عاجز نے اشتہار20 ؍فروری1886 ء میں… اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضاء و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں۔سواس اشتہار کے بعد اندر من نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا۔لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے‘‘۔
 (اشتہار20 فروری 1893 ء تبلیغ رسالت جلد3 صفحہ4  مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 304)
پھر20 ؍فروری1899 ء کے اشتہار میں یعنی معاہدہ عدالت کے چار دن پہلے سے جو 24 ؍فروری1899 ء کو ہوا تحریر فرماتے ہیں:۔ ’’میرا ابتداء ہی سے یہ طریق ہے کہ مَیں نے کبھی کوئی انذاری پیشگوئی بغیر رضامندی مصداقِ پیشگوئی کے شائع نہیں کی‘‘۔
(تبلیغ رسالت جلد8 صفحہ28 )
پس جو احتیاط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انذاری پیشگوئیوں کے متعلق پہلے سے کر رکھی تھی۔بالکل اسی کے مطابق عدالت میں معاہدہ ہواہے تو پھر عدالت سے ڈر کر معاہدہ کرنے کا الزام باطل ہوا۔
مکمل تحریر >>

دعویٰ نبوت کے انکار و اقرار میں تطبیق

اعتراض : مرزا صاحب نے کئی جگہ نبی ہونے سے انکار کیا ہے اور دعویٰ نبوت کو کفر قرار دیا ہے۔لیکن کئی جگہ اپنے آپ کو نبی کی صورت میں پیش کیا ہے۔
جواب : چونکہ نبی کی اقسام ہیں: تشریعی اور غیر تشریعی۔اس لئے پہلی قسم کا نبی ہونے سے آپؑ نے انکار کیا۔اور دوسری قسم کا نبی ہونے کا اس شرط کے ساتھ اقرار کیا ہے کہ آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی بھی ہیں۔چنانچہ آپؑ اپنے آخری خط میں جو اخبار عام مورخہ26؍مئی 1908 ء میں شائع ہوا لکھتے ہیں:۔
’’یہ الزام جو میرے پر لگایا جاتا ہے۔کہ مَیں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتااور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں یہ الزام میرے پر صحیح نہیں۔بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اِس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے‘‘۔
اِس کے بعداپنی نبوت کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’جس بناء پر مَیںاپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں،وہ صرف اس قدر ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اسکے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی امور کی کثرت کی و جہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دُنیا سے گزر جائوں گا‘‘
  (خط مندرجہ اخبار عام26؍مئی1908ء)
اور اشتہار ’’ایک غلطی کے ازالہ‘‘میں فرماتے ہیں:۔
’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیںہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔مگر ان معنوں سے کہ مَیں نے اپنے رسولِ مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔بلکہ انہیں معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پُکارا ہے۔سو اب بھی مَیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا‘‘۔
  (ایک غلطی کاازالہ روحانی خزائن جلد18صفحہ211-210)

اور پھر نزول المسیح  حاشیہ صفحہ3پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس نکتہ کو یادرکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیّتِ کاملہ کے۔میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے‘‘۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ381حاشیہ)
پس نبوت کے اقرار اور انکار میں وجوہ مختلف ہیں۔لہٰذا اس میں کوئی تناقض نہیں۔
مکمل تحریر >>

حقیقت نصف قطعہ نوٹ بجواب مرزا غلام احمد قادیانی ٹیکس چور

ایک جاہل نے اپنی طرف سے بڑا علمی اعتراض کیا ہے کہ مرزا صاحب نے مولانا حکیم نورالدین سے پانچ سو روپے کو نصف نوٹ کروا کر دو دفعہ میں اس لیے منگوایا کہ ٹیکس بچایا جاسکے ، اب اس کی حقیقت ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ کتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے اس شیطان کی نسل نے یہ اعتراض کر کے ۔

اعتراض کے لیے جو خط کا حوالہ دیا ہے وہ درج ذیل ہے ۔
"آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سو روپیہ پہنچ گیا چونکہ موسم برسات کا ہے اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑہ رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرمائیں تو روپیہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے"
خاکسار غلام احمد از قادیان 11 جولائی 1887 .
(مکتوبات احمدیہ ج 5 ح 2 ص 35 )

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برٹش انڈیا میں یہ قانون تھا کہ نوٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ پہلی دفعہ میں پوسٹ کیا جاتا تھا اور دوسرا حصہ بعد میں بھیجا جاتا تھا ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ Reserve Bank Of India کی ویب سائٹ پر یہ بات اس طرح موجود ہے ۔
British India Notes facilitated inter-spatial transfer of funds. As a security precaution, notes were cut in half. One set was sent by post. On confirmation of receipt, the other half was despatched by post.

https://rbi.org.in/Scripts/pm_britishindia.aspx




یہ ہے اصل بات لیکن جن کے نصیب میں کافر ہونا لکھا ہے وہ ایسے اعتراض کر کے ساتھ گالیاں نکالتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن حدیث سے بات کرنے کو ان کے پاس کوئی چیز موجود نہیں ۔۔

اعتراض والے کی زبان اس لنک پر دیکھی جاسکتی ہے کہ کیسے کفر اور جہالت میں پاگل ہوا پڑا ہے۔۔
http://ahtisaab.blogspot.hk/2015/04/blog-post_27.html

مکمل تحریر >>

Wednesday, 6 July 2016

مسائل عیدالفطر





ماہ رمضان کے گزرنے پر یکم شوال کو روزوں کی برکات حاصل کرنے کی توفیق پانے کی خوشی میں عیدالفطر منائی جاتی ہے ۔ نماز عید کا اجتماع ایک رنگ میں مسلمانوں کی ثقافت اور دینی عظمت کا مظہر ہوتا ہے اس لئے مرد وعورت اوربچے سب شامل ہوتے ہیں۔

*۔۔۔حضرت امّ عطیہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ارشاد فرماتے تھے کہ ہم عیدین کے دن سب لوگ عورتیں، بچے عید پر جائیں ۔ یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی عید اور اس کی دعامیں شامل ہونے کاحکم ہوتا البتہ وہ نمازمیں شامل نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ اتنا تاکیدی ارشاد اس بارہ میں فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کسی سہیلی سے مانگ لے اورعید پر ضرور جائے۔(بخاری و مسلم ، کتاب العیدین)

آنحضرت ؐ کیسے عید مناتے تھے


عید کے اس بابرکت تہوارکے لئے بھی آنحضرت ﷺ نے آداب سکھائے اور ہدایات دیں۔ عید کے دن آنحضرت ﷺ خاص صفائی کا اہتمام فرماتے۔ غسل فرماتے، مسواک اورخوشبو کا استعمال کرتے اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے ۔ اگر میسر ہو تو نئے کپڑے پہنتے۔ مسلمانوں کے اس قومی و مذہبی تہوارمیں شمولیت کے لئے آنحضرت ﷺ خاص تحریک فرماتے تھے۔

*۔۔۔آنحضرت ﷺ عیدالفطر کے روز صبح کچھ طاق عدد میں کھجوریں تناول فرما کر عید پر جاتے تھے۔ البتہ عیدالاضحی کے دن آپ قربانی کے گوشت سے کھانا شروع کرتے تھے۔ آپ ؐ کا معمول تھا کہ ایک راستے سے عیدگاہ تشریف لاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لے جاتے تاکہ مسلمانوں کے تہوار کی عظمت لوگوں پرظاہر ہو اورباہم ملاقات اورخوشی کے زیادہ مواقع میسر آ ئیں۔ اوردونوں راستوں پر آباد لوگ آپ ؐ کی برکت حاصل کر سکیں۔

*۔۔۔عید کے دن کھیل او ر ورزشی مقابلے بھی ہوتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ عید کے موقع پر اہل حبشہ ڈھال اور برچھی سے اپنے کھیل اورمہارت کے فن دکھاتے۔ شاید میں نے آنحضرت ؐ سے کہا یا آپ ؐ نے خود فرمایا کہ کیا ان کے کھیل کرتب دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا ہاں! تب آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اس طرح کہ میرا رخسار آپ کے رخسار کے ساتھ تھا۔ آپ ؐ کھیلنے والوں کا خوب حوصلہ بڑھاتے رہے۔ پھر میں خود ہی تھک گئی تو آپ ؐ نے مجھے فرمایا بس کافی ہے؟ میں نے کہا: ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا اچھا تو جاؤ۔

*۔۔۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن انصار کی دو لڑکیاں میرے پاس بیٹھی جنگ بعاث کے نغمے سنا رہی تھیں۔ آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو آپ بسترپر آ کر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو ان لڑکیوں کو گاتے دیکھ کر مجھے ڈانٹا اور فرمایا رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی گانا؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا :اے ابوبکرؓ ہر قوم کی عید کا ایک دن ہوتاہے اوریہ ہماری عید کا دن ہے۔

*۔۔۔اچھے کھانے ، خوبصورت کپڑے اورکھیل کود تو ظاہری خوشی کے اظہارکے طریقے ہیں ۔ ایک مسلمان کی حقیقی خوشی اور سچی عید تو یہ ہے کہ اس کاخدا اس سے راضی ہو جائے۔ اس لئے تیس دن کے روزے رکھنے کے بعد عید کے روز مسلمان خدا تعالیٰ کے شکرانہ کے طورپر دو رکعت نماز عید بھی ادا کرتے ہیں۔ عید کی دو رکعت نماز کسی بھی کھلے میدان یا عیدگاہ میں زوالِ شمس سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ حسب ضرورت عید کی نماز جامع مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے ۔ عید کی نماز باجماعت ہی پڑھی جا سکتی ہے اکیلے جائز نہیں۔

*۔۔۔احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ عیدین کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے اور سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ نماز شروع فرماتے ۔ نمازسے فراغت کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اورلوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ حضور ؐ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ، ضروری احکام کا اعلان فرماتے اور پھر ا س سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتے۔

*۔۔۔عید کے خطبہ میں عورتوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور ان تک آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو امام علیحدہ طورپر بھی عورتوں کو خطاب کر سکتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک عید کا خطبہ دیا اس کے بعد آپ عورتوں کی صفوں کے پاس تشریف لائے۔ حضرت بلالؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ آپ ؐنے ان کو وعظ ونصیحت فرمائی۔ خاوندوں کی اطاعت کی اور زبان درازی سے بچنے کی تلقین فرمائی اور صدقہ دینے کی تحریک کی۔ حضور ؐ کی اس تحریک پر عورتیں ہاتھوں، کانوں اور گلے کے زیور اتار اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈالنے لگیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ؐ واپس تشریف لائے۔

*۔۔۔نماز عید میں نہ تکبیر ہوتی ہے نہ اذان۔ نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ بھرآسمان پر جانے کا ہے۔ موسم کے حالات کے لحاظ سے عید کا وقت لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھ کر مقررکرنا چاہئے۔ عام طورپر عید الفطر نسبتاً تاخیر سے اور عیدالاضحی جلدی پڑھی جائے یہی سنت ہے۔

*۔۔۔نماز عید کی دونوں رکعات میں بلند آواز سے قراء ت کی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مسجد میں پہنچتے تو اذان و اقامت کے بغیرہی نمازشروع فرما دیتے اور سنت یہی ہے کہ ان میں سے کوئی فعل نہ کیا جائے۔ آپؐاور آپؐ کے صحابہؓ جب عیدگاہ پہنچتے تو عید سے قبل کوئی نفل وغیرہ نہ پڑھتے اور نہ بعد میں پڑھتے اور خطبہ سے پہلے نماز شروع کرتے۔ پہلی رکعت میں سات مسلسل تکبیریں کہتے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک ہلکا سا وقفہ ہوتا۔ تکبیرات کے درمیان آپ ؐ سے کوئی مخصوص ذکر مروی نہیں۔ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ جب تکبیریں ختم فرماتے تو قراء ت شروع کرتے۔ یعنی سورہ فاتحہ پھر اس کے بعد سورہ ق و القرآن المجید، ایک رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں اقتربتِ الساعۃ وانشق القمر پڑھتے۔ بسااوقات آپ ؐ دو رکعتوں میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتٰک حدیث الغاشیۃ پڑھتے ۔جب قراء ت سے فارغ ہو جاتے تو تکبیر کہتے اور رکوع میں چلے جاتے۔ پھر ایک رکعت مکمل کرتے اور سجدہ سے اٹھتے ۔ پھر پانچ بار مسلسل تکبیریں مکمل کر لیتے تو قرأت شروع کر دیتے۔ اس طرح ہر رکعت کے آغاز میں تکبیریں کہتے اور بعد میں قرأت کرتے ۔

*۔۔۔آنحضرت ﷺ جب نماز مکمل کر لیتے تو فارغ ہونے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ،لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے توآپ ؐ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے۔ عیدگاہ میں کوئی منبر نہ تھا جس پر چڑھ کر وعظ فرماتے ہوں ،نہ مدینہ کامنبر یہاں لایاجا سکتاتھا بلکہ آپ ؐزمین پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے۔

*۔۔۔حضرت جابرؓ بتاتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر ہوا تو آپ ؐ نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ اس سے فارغ ہو کر حضرت بلالؓ کے کندھے کاسہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم فرمایا۔ اس کی اطاعت کی رغبت دلائی اور نصیحت کی اور پھر انعامات خداوندی وغیرہ یاد دلائے۔ پھر آپؐ خواتین کی طرف تشریف لے گئے اورانہیں نصیحت کی۔

*۔۔۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں عید اور جمعہ ایک ہی دن اکٹھے آ گئے۔ آپ ؐ نے نماز عید پڑھائی اور پھر فرمایا عید کی نماز جمعہ کا بدل ہے اس لئے اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لئے نہ آنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔ البتہ ہم انشاء اللہ وقت پرجمعہ پڑھیں گے۔(سنن ابن ماجہ الجزء الاول کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا۔ باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم)

اگر عید کی نماز پہلے دن زوال سے پہلے نہ پڑھی جا سکے تو عیدالفطر دوسرے دن اور عیدالاضحیہ تیسرے دن زوال سے پہلے پڑھی جا سکتی ہے۔

نفلی روزے۔ شوال کے چھ روزے


حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد (عید کا دن چھوڑ کر) شوال کے چھ روزے رکھے اس کا اتنا ثواب ملتاہے جیسے اس نے سال بھر کے روزے رکھے ہوں۔(مسلم کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال)

نفل وہ زائد عبادت ہے جو بندہ خوشی سے اپنے مولا کو راضی کرنے کے لئے بجا لاتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بندہ کی نفلی عبادت سے بہت خوش ہوتا ہے۔ رسو ل اللہﷺ نے ایک حدیث قدسی بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ برابر میرا قرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔(بخاری)

نفلی روزوں کا بھی بہت ثواب ہے جو مختلف مواقع پر آنحضرت ﷺ نے نفلی روزوں کی تحریک کرتے ہوئے بیان فرمایا۔ چنانچہ حدیث مذکور ہ بالا میں رمضان کے تیس روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کا ارشاد فرمایا اوراس کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر بتایا۔ حساب کی زبان میں اس میں یہ سرّ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ دس گنا عطا فرماتا ہے اور ۳۶ روزوں کا ثواب ۳۶۰ دنوں کے برابر بنتا ہے جو قریباً ایک سال کا عرصہ ہے ۔

لیکن اصل حکمت رمضا ن کے فرض روزوں کے ساتھ شوال کے نفلی روزوں میں نیکی کا تسلسل ہے اوراس امر کی تربیت ہے کہ رمضان کا مجاہدہ اوراس کی عبادات صرف ایک مہینہ تک محدود نہ رہیں بلکہ سار ے سال پر پھیل جائیں اور رمضان کے علاوہ باقی ایام میں بھی ان نیکیوں کی عادت رہے۔ اورظاہر ہے جسے رمضان کے بابرکت مہینہ کا یہ نتیجہ حاصل ہو جائے اس کا سارا سال کیا سارازمانہ اور ساری عمر رمضان ہے جس میں وہ رمضان کی برکتیں حاصل کرتا چلا جائے گا۔

ماہ رمضان کے اس تسلسل کو دوران سال جاری رکھنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہے وہ صوم الدھر یعنی سال بھر کے روزے رکھنے والے کے برابر ہے۔

*۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ کو آنحضرت ﷺ نے جو تین وصیتیں فرمائی تھیں ا ن میں سے ایک یہ تھی کہ ہر مہینہ میں تین نفلی روزے رکھنا۔ (ترمذی)

*۔۔۔حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا اے ابوذر! جب تم مہینہ میں سے تین دن کے روزے رکھنا چاہو تو ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخوں کے روزے رکھنا (ترمذی) لیکن ان تاریخوں کے علاوہ بھی آنحضرت ﷺ سے ہر مہینہ کے نفلی روزے رکھنے حضرت عائشہؓ کی روایت سے ثابت ہیں۔ (ترمذی)

*۔۔۔نفلی روزہ کے لئے رات کو نیت کرنا ضروری نہیں۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لا کر پوچھتے کہ ناشتہ کے لئے کوئی چیز ہے ؟ میں کہتی کہ نہیں ہے تو آپ ؐفرماتے اچھا میں روزہ رکھ لیتاہوں ۔(ترمذی)

*۔۔۔نفلی روزہ کھولنے کے لئے وہ کفارہ نہیں جو فرض روزے کا ہے ۔ آنحضرت ﷺ ام ھانیؓ کے پاس تشریف لائے اور پانی منگوایا۔ حضور ؐ نے پانی پی کر برتن ان کوواپس کیا تو انہوں نے حضور ؐ کا بچاہواپانی پی لیا۔ پھر عرض کی کہ حضور ؐ مجھے تو روزہ تھا ۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا یہ قضا کا روز ہ تو نہیں تھا۔ امّ ھانیؓ نے کہا نہیں۔ فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔ نیز فرمایا ’’ نفلی روزے والا اپنے نفس کا خود امین ہوتاہے چاہے تو روزہ پورا کر ے چاہے افطار کرے ‘‘۔ (ترمذی)

لیکن اگر روزہ افطارکرے تو اس کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہوگا۔

*۔۔۔*۔۔۔*
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۵؍فروری ۱۹۹۸ء)
مکمل تحریر >>

Sunday, 3 July 2016

مناظرہ مابین جماعت احمدیہ و شیعہ اثناعشریہ



مناظرہ مہت پور : یہ مناظرہ مابین اہل تشیع و جماعت احمدیہ ایک نہایت دلچسپ مناظرہ ہے ، مناظرہ ۱۹۳۶ میں چار دن تک جاری رہا ، جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابو العطاء جالندھری اور شیعہ احباب کی طرف سے مرزا یوسف حسین مناظر تھے ، مناظرہ چار موضوعات پر طے پایا جو درج ذیل ہیں ۔
۱ ۔ صداقت مسیح موعود  مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
۲ ۔ مسئلہ متعہ النساء
۳ ۔ اثبات نبوت بعد از حضرت محمد ﷺ
۴ ۔ تعزیہ داری

اول و سوم میں مدعی جماعت احمدیہ تھی اور دوم و چہارم میں مدعی شیعہ تھے ۔ اس مناظرہ میں جماعت احمدیہ کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
Download Munazara Mehat Pur

مکمل تحریر >>

Saturday, 2 July 2016

مسلمان کی تعریف اور جماعتِ احمدیہ کا مؤقف کتاب



مسلمان کی تعریف اور جماعتِ احمدیہ کا مؤقف

کتاب: محضر نامہ




دُنیا بھر میں یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی نَوع معیّن کرنے سے قبل اس نَوع کی جامع و مانع تعریف کر دی جاتی ہے جو ایک کسوٹی کا کام دیتی ہے اور جب تک وہ تعریف قائم رہے اِس بات کا فیصلہ آسان ہو جاتا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اس نَوع میں داخل شمار کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اِس لحاظ سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اِس مسئلے پر مزید غور سے قبل مسلمان کی ایک جامع و مانع متفق علیہ تعریف کی جائے جس پر نہ صرف مسلمانوں کے تمام فرقے متفق ہوں بلکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اس تعریف پر اتفاق ہو۔ اِس ضمن میں مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرنا ضروری ہو گا۔
ا : کیا کتاب اﷲ یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں بِلا استثناء کیا گیا ہو؟ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟
ب  : کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اﷲ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہو اور خود آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو۔ کسی زمانہ میں بھی کوئی اَور تعریف کرنا کسی کے لئے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
ج  : مذکورہ بالاتعریف کے علاوہ مختلف زمانوں میں مختلف علماء یا فرقوں کی طرف سے اگر مسلمان کی کچھ دوسری تعریفات کی گئی ہیں تو وہ کون کون سی ہیں؟ اور اوّل الذکر شِق میںبیان کردہ تعریف کے مقابل پر ان کی کیا شرعی حیثیت ہو گی؟
د  : حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں فتنۂ اِرتداد کے وقت کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یا آپؐ کے صحابہ ؓ نے یہ ضرورت محسوس فرمائی کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج شدہ تعریف میںکوئی ترمیم کریں؟
ر  : کیا زمانۂ نبوی ؐ یا زمانۂ خلافتِ راشدہ میں کوئی ایسی مثال نظر آتی ہے کہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کے اِقرار کے اور دیگر چار ارکانِ اسلام یعنی نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو؟
س  : اگر اِس بات کی اجازت ہے کہ پانچ ارکانِ اسلام پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تشریح کرنے کی وجہ سے جو بعض دیگر فرقوں کے علماء کو قابلِ قبول نہ ہو دائرۂِ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے یا ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے جو بعض دیگر فرقوں کے نزدیک اِسلام کے منافی ہے تو ایسی تشریحات اور عقائد کی تعیین بھی ضروری ہو گی تاکہ مسلمان کی مثبت تعریف میں یہ شِق داخل کر دی جائے کہ پانچ ارکانِ اسلام کے باوجود اگر کسی فرقہ کے عقائد میں یہ یہ اُمور داخل ہوں تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔
ص  : پنج ارکانِ اسلام پر ایمان کے باوجود اگر مسلمان فرقوں کی تکفیر کا کوئی ایسا دروازہ کھول دیا جائے جس کا ذکر شِق ’’ر‘‘ میں ہے توایسے تمام اُمور پر نظر کرنا عقلاً اور اِنصافاً ضروری ہے جن پر بِناء کرتے ہوئے مختلف علماء نے اپنے فرقہ کے علاوہ دیگر فرقوں کو قطعاً کافر، مُرتد یا دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ___مثال کے طور پر چند اُمور درج ذیل کئے جاتے ہیں:
ا  : قرآن کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کا عقیدہ۔(اشاعرہ۔ حنابلہ)
ب  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بَشر نہیں بلکہ نُور یقین کرنا۔(بریلوی)
ج  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نُور نہیں بلکہ بَشر یقین کرنا۔(اہلحدیث)
د  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق یہ ایمان رکھنا کہ حاضر ناظر بھی ہیں اور عالم الغیب بھی۔ (بریلوی)
ھ  : یہ ایمان رکھنا کہ فوت شدہ بزرگان سے امداد طلب کرنا جائزہے اور بہت سے وفات یافتہ اَولیاء یہ طاقت رکھتے ہیں کہ عندالطلب کسی کی مُراد پوری کر سکتے ہیں۔(بریلوی)
و  : یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے سوا شریعت میں کوئی اَور چیز مُعتبر نہیں لہٰذا ہم سُنّتِ رسول ؐ اور احادیث رسول ؐ کی پیروی کے پابند نہیں خواہ کیسے ہی تواتر اور قوی روایات سے ہم تک پہنچی ہوں۔ (چکڑالوی۔ پرویزی)
ز  : یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے تیس پاروں میں درج سُورتوں کے علاوہ بھی کچھ سُورتیں ایسی نازل ہوئی تھیں جن میں حضرت علی کرّم اﷲ وجہہٗ کا ذکر پایا جاتا تھا لیکن وہ سُورتیں ضائع کر دی گئیں لہٰذا جو قرآن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہؤا تھا وہ مکمل صورت میں ہم تک نہیں پہنچا۔ (غالی شیعہ)
ح: یہ عقیدہ رکھنا کہ جماعت خانوں میں پنجوقتہ نماز کی بجائے کسی بزرگ کی تصویر سامنے رکھ کر مُناجات کرنا جائز ہے اور خدا سے مخاطب ہونے کی بجائے اس بزرگ کی تصویر سے مخاطب ہو کر دُعا کرنی جائز ہے اور یہی دُعا نماز کے قائم مقام ہے۔ (اسمٰعیلی فرقہ)
ط  : یہ عقیدہ رکھنا کہ پنج تن پاک اور چھ دیگر صحابہ ؓ کے سوا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام صحابہ ؓ بشمولیت خلفائے راشدینِ ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضوان اﷲ علیہم اجمعین سب کے سب اِسلام سے برگشتہ ہو چکے تھے اور عیاذاً باﷲ منافق کا درجہ رکھتے تھے۔ نیز یہ عقیدہ کہ پہلے تین خلفاء نعوذ باﷲ غاصب تھے اِس لئے ان پر تبّرا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ (شیعہ)
ی  : کسی بزرگ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ خدا اس میں عارضی یا مُستقل طور پر حلول فرما چکا ہے۔(حلولی فرقہ)
مندرجہ بالا تنقیحات پر غور کرنا اِس لئے ضروری ہے کہ قطعی اور ٹھوس شواہد سے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے متعلق مختلف مسلمان فرقوں کے علماء اور مجتہدین قطعی فتویٰ صادر فرما چکے ہیں کہ ایسے عقائد کے حامل خواہ دیگر ضروریاتِ دین پر ایمان بھی رکھتے ہوں یقینا دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور اُن کے کُفر میں شک کرنے والا بھی بِلا شُبہ خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔
اِس ضمن میں بعض فتاویٰ ضمیمہ نمبر ۴ میں ملاحظہ فرمائیے۔
مندرجہ بالا اُمور کی روشنی میں ہم پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ اگر حقیقتاً عقل اور انصاف کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلام میں جماعتِ احمدیہ کی حیثیت پر غور فرمانا مقصود ہے یا اسلام میں آیت خاتم النّبییّن کی کسی تشریح کے قائل ہونے والے کسی فرد یا فرقہ کی حیثیت کا تعیّن کرنا مقصود ہے تو پھر ایسا پیمانہ تجویز کیا جائے جس میں ہر منافی اسلام عقیدہ رکھنے والے کے کُفر کو ماپا جاسکتا ہو اور اس پیمانہ میں جماعتِ احمدیہ کے لئے بہرحال کوئی گنجائش نہیں۔
مندرجہ بالا تمام سوالات کے بارے میں جماعتِ احمدیہ کے مؤقف کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اوّل: جماعتِ احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہو سکتی ہے جو قرآنِ عظیم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اسی پر عمل ثابت ہو۔ اِس اصل سے ہٹ کر مسلمان کی تعریف کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ رخنوں اور خرابیوں سے مبرّا نہیں ہو گی بالخصوص بعد کے زمانوں میں (جب کہ اسلام بٹتے بٹتے بہتّر فرقوں میں تقسیم ہو گیا) کی جانے والی تمام تعریفیں اس لئے بھی ردّ کرنے کے قابل ہیں کہ ان میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بیک وقت اُن سب کو قبول کرنا ممکن نہیں ___اور کسی ایک کو اختیار کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس طرح ایسا شخص دیگر تعریفوں کی رُو سے غیر مسلم قرار دیا جائے گا اور اس دَلدَل سے نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیں رہے گا۔ جسٹس محمد منیر نے ۱۹۵۳ء کی انکوائری کے دَوران جب مختلف علماء سے مسلمان کی تعریف پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا تو افسوس ہے کہ کوئی د۲و عالم بھی کسی ایک تعریف پر متفق نہ ہو سکے۔ چنانچہ اِس بارے میں جسٹس منیر صاحب افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
’’علماء کی طرف سے کی گئی مختلف تعریفوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کیا اِس امر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم کسی قسم کا تبصرہ کریں سوائے اس کے کہ کوئی بھی د۲و عالمانِ دین اِس بنیادی مسئلہ پر متفق نہیں ___اگر ہم بھی ایک عالمِ دین کی طرح اپنی طرف سے ایک تعریف کریں اور وہ باقی تمام تعریفوں سے مختلف ہو تو ہم خود بخود دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے ___اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی طرف سے کی گئی تعریف اختیار کریں تو ہم اس عالم کے نظریہ کے مطابق تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسری ہر تعریف کے مطابق کافر‘‘۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۱۷،۲۱۸)
جسٹس منیر جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ مسلمان کی تعریف کے بارہ میں رپورٹ کی تدوین تک کبھی کوئی ایسا اجماع نہیں ہؤا جسے سَلفِ صالحین کی سَند حاصل ہو لہٰذا آج اگر کوئی بظاہر متفق علیہ تعریف پیش کی جائے تو اسے اُمّت کی اجماعی تعریف ہر گز قرار نہیں دیا جائے گا اور اُسے سلفِ صالحین کی سند حاصل نہیں ہو گی۔
پس جماعتِ احمدیہ کا مؤقف یہ ہے کہ مسلمان کی وہی دستوری اور آئینی تعریف اختیار کی جائے جو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مُبارک سے ارشاد فرمائی اور جو اسلامی مملکت کے لئے ایک شاندار چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لئے ہم تین احادیثِ نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں:-
۱- حضرت جبریل علیہ السلام آدمی کے بھیس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضور ؐ سے پوچھا:
’’یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْ نِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ وَتُقِیْمَ الصَّلٰوۃَ وَتُؤْتِی الزَّکٰوۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ البَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا۔ قَالَ صَدَقْتَ۔ فَعَجِبْنَالَہٗ یَسْئَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ۔ قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ۔ قَالَ: اَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہ! وَرُسُلِہ! وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ صَدَقْتَ‘‘۔
   (مسلم کتاب الایمان باب نمبر ۱)
۲- ’’جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اَھْلِ نَجْدٍ ثَائِرَالرَّأْسِ نَسْمَعُ دَوِیَّ صَوْتِہٖ وَلَا نَفْقَہُ مَا یَقُوْلُ حَتّٰی دَنَافَاِذَا ھُوَ یَسْأَلُ عَنِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خمْسُ صَلٰوَتٍ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ فَقَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُ ھَا؟ قَالَ لَااِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصِیَامُ رَمَضَانَ قَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُہٗ؟ قَالَ لَا اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ وَذَکَرَلَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الزَّکَاۃَ قَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُھَا؟ قَالَ لَا اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ فأَدْبَرَالرَّجُلُ وَھُوَ یَقُوْلُ وَاﷲِ لَاأَزِیْدُ عَلٰی ھٰذَا وَلَا أَنْقُصُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ‘‘۔
  (صحیح بخاری کتاب الایمان باب الزکاۃ من الاسلام)
ترجمہ حدیث نمبر ۱:  کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم! مجھے اِسلام کے بارے میں مطلع فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تُو گواہی دے کہ اﷲ کے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگرراستہ کی توفیق ہو تو بیت اﷲ کا حج کرو۔ اس شخص نے کہا کہ حضور ؐ نے بجا فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب آیا کہ سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اُس شخص نے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اﷲ پر ایمان لائیں۔ اُس کے فرشتوں ، اُس کی کتابوں، اُس کے رسُولوں پر ایمان لائیں نیز یومِ آخر پر ایمان لائیں اور قضاء و قدر کے بارے میں خیر و شر پر بھی ایمان لائیں۔ اُس شخص نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا ہے۔
ترجمہ حدیث نمبر ۲:  اہلِ نجدمیں سے ایک شخص پراگندہ بالوں والا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سُنتے تھے مگر اس کی باتوں کو نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ شخص زیادہ قریب ہو گیا تو معلوم ہؤا کہ وہ حضور ؐ سے اِسلام کے بارے میں دریافت کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دن اور رات میں پانچ نمازیں مقرر ہیں۔ اس نے کہا کہ ان پانچ کے علاوہ اَور بھی نمازیں ہیں؟ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں بجز اس کے کہ تم بطور نفل ادا کرنا چاہو۔ حضور ؐ نے پھر فرمایا کہ رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا کہ رمضان کے روزوں کے علاوہ اَور بھی روزے فرض ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل رکھنا چاہو۔ پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سامنے زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی اَور ہے؟ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل زیادہ ادا کرنا چاہو۔ وہ شخص مجلس سے اُٹھ کر چل پڑا اور یہ کہہ رہا تھا کہ بخدا مَیں ان احکام پر نہ زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا ___رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اس قول میں سچّا ثابت ہؤا تو ضرور کامیاب ہو جائے گا۔
’’مَن صَلّٰی صَلٰوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ اَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ اﷲِ وَذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ فَـلَا تُخْفِرُوا اﷲَ فِیْ ذِمَّتِہٖ‘‘۔
    (بخاری کتاب الصلٰوۃ باب فضل استقبال القبلۃ)
’’جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں۔ اُس قبلہ کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اﷲ اور اُس کے رسول کا ذمّہ ہے۔ پس تم اﷲ کے دئے ہوئے ذمّے میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو‘‘۔ ۱؎
ہمارے مقدس آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس تعریف کے ذریعہ آنحضور ؐ نے نہایت جامع و مانع الفاظ میں عالمِ اسلامی کے اتحاد کی بین الاقوامی بُنیاد رکھ دی ہے اور ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ اِس بُنیادکو اپنے آئین میں نہایت واضح حیثیت سے تسلیم کرے ورنہ اُمّتِ مُسلمہ کا شیرازہ ہمیشہ بکھرا رہے گا اور فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہ ہو سکے گا___قرونِ اُولیٰ کے بعد گزشتہ چودہ صدیوں میں مختلف زمانوں میں مختلف علماء نے اپنی من گھڑت تعریفوں کی رُو سے کُفر کے جو فتاوٰی صادر فرمائے ہیں ان سے ایسی بھیانک صورتِ حال پیدا ہوئی ہے کہ کسی ایک صدی کے بزرگانِ دین، علمائے کرام، صوفیاء اور اولیاء اﷲ کا اسلام بھی ان تعریفوں کی رُو سے بچ نہیں سکا اور کوئی ایک فرقہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا جس کا کُفر بعض دیگر فرقوں کے نزدیک مسلّمہ نہ ہو۔ اِس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۵ لف ھٰذا کیا جاتا ہے۔

فتاوٰی کُفر کی حیثیت

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فتاوٰی کُفر کی کیا حیثیت ہے اور کیا کوئی عالمِ دین اِنفرادی حیثیت سے یا اپنے فرقہ کی نمائندگی میں کسی دوسرے فرد یا فرقہ پر کُفر کا فتویٰ دینے کا مجاز ہے یا نہیں اور ایسے فتاوٰی سے اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعی حیثیت پر کیا اثر پڑے گا؟
جماعتِ احمدیہ کے نزدیک ایسے فتاوٰی کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اِس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عند اﷲ کافر قرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حَشر نشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو گا۔ اِس لحاظ سے ان فتاوٰی کو اِس دُنیا میں محض ایک انتباہ کی حیثیت حاصل ہے اور جہاں تک دُنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو اُمّتِ مُسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا اہل یا مجاز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے روز جزا سزا کے دن ہی ہو سکتا ہے۔ دُنیا کے معاملات میں ان فتاوٰی کا اطلاق اُمّتِ مُسلمہ کی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کسی فرقے کے علماء کے فتویٰ کے پیش نظر کسی دوسرے فرقہ یا فرد کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ مؤقف کہ ایک فرقہ کے کُفر کے بارہ میں اگر باقی تمام فرقوں کا اتفاق ہو جائے توایسی صورت میں دائرۂ اسلام سے اس فرقہ کا اخراج جائز قرار دیا جاسکتا ہے اِس بناء پر غلط اور نامعقول ہے کہ (جیسا کہ ضمیمہ میں درج شُدہ فتاوٰی کے مطالعہ سے ظاہر ہو گا) عملاً مسلمانوں کے ہر فرقہ میں کچھ نہ کچھ اعتقادات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے متعلق اکثرفرقوں کا یہ اتفاق ہے کہ ان کا حامل دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور یہ صورتِ حال آسمانی حَکم و عَدل کا تقاضہ کرتی ہے۔
اگر آج بعض اختلافات کی بناء پر جماعتِ احمدیہ کے خلاف دیگر تمام فرقوں کا اتفاق ممکن ہے تو کل اہلِ تشیع کے خلاف ان کے بعض خصوصی عقائد کے بارے میں بھی ایسا ہوناممکن ہے اور اہلِ قرآن اَلموسُوم چکڑالوی یا پرویزی کے متعلق بھی ایسا ہو سکتا ہے اور اہلِ حدیث ، وہابی یا دیوبندیوں کے بعض عقائد کے متعلق بھی دیگر فرقوں کے علماء کا عملاً اتفاق ہے۔ پس سوادِ اعظم کا لفظ ایک مبالغہ آمیز تصور ہے۔ کسی ایک فرقہ کو خاص طور پر مدِّنظر رکھا جائے تو اس کے مقابل پر دیگر تمام فرقے سوادِ اعظم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اِس طرح باری باری ہر ایک فرقہ کے خلاف بقیہ سوادِ اعظم کا فتویٰ کُفر ثابت ہوتا چلا جائے گا۔
ہمارے نزدیک یہ فتاوٰی ظاہر پر مبنی ہیں اور فی ذاتہا ان کو جنت کا پروانہ یا جہنم کا وارنٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہاں تک حقیقتِ اسلام کا تعلق ہے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں ہم حقیقی مسلمان کی تعریف درج کرتے ہیں:-
’’اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیتِ کریمہ میں اُس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اﷲ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے۔
’’اِعتقادی‘‘ طور پر اِس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خداتعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور ’’عملی‘‘ طور پر اِس طرح سے کہ خالصاً  ِﷲ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبودِ حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے …
اَب آیاتِ ممدوحہ بالا پر ایک نظرِ غور ڈالنے سے ہرا یک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اِسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی مُعطیٔ حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اِعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اِسلام اور اس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعیٔ اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دِل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حِلم اور اس کا عِلم اور اس کی تمام رُوحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سَر کے بالوں سے پَیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیّات اور اس کے دِل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اُس شخص کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدقِ قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قویٰ الٰہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں۔
اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقتِ اسلام ہے د۲و قسم پر ہے۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اُس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیّت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بہ دل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلّل سے ان سب حُکموں اور حدّوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادتِ تام سَر پر اُٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اُس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اُس کی ملکُوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اُس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قوی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں۔
دوسری قسم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اُس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور باربرداری اور سچی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کردی جاوے۔ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دُکھ اُٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رَنج گوارا کر لیں۔
اِس تقریر سے معلوم ہؤا کہ اِسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اِس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقّب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخُدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیّت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے۔
پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا کہ جب اُس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اُس کے نفس امّارہ کا نقشِ ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مِٹ جائے اور پھر اِس موت کے بعد مُحسن ﷲ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اُس میں بجُز طاعتِ خالق اور ہمدردیٔ مخلوق کے اَور کچھ بھی نہ ہو۔
خالق کی طاعت اِس طرح سے کہ اُس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزّتی اور ذ  ّلت قبول کرنے کے لئے مُستعد ہو اور اُس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشیٔ خاطر کاٹ سکے اور اُس کے اَحکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضاجوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلاوے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھَسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہئے۔ غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے۔
اور خلق اﷲ کی خدمت اِس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طُرق کی راہ سے قسّامِ اَزل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے اِن تمام امور میں محض  ِﷲ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچّی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خدا داد قوت سے مدد دے اور اُن کی دُنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے ___
سو یہ عظیم الشان لِلّٰہی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حقیّتِ تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اسلام اور اِسلام کی حقیقت اور اِسلام کا لُبِّ لُباب ہے جو نفس اور خلق اور ہَوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے‘‘۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۸ تا ۶۲)

٭٭٭

مکمل تحریر >>

Thursday, 9 June 2016

مسائل رمضان



مسائل رمضان


مرتبہ: ظہور احمد بشیر ۔ لندن

روزہ کیاہے اوریہ کس پر فرض ہے ؟



روزہ اسلامی عبادات کا دوسرا اہم رکن ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جس میں نفس کی تہذیب، اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مدنظر ہوتی ہے۔ صوم (روزہ) کے لغوی معنی رکنے اور کوئی کام نہ کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلا ح میں طلوع فجر (صبح صادق) سے لے کر غروب آفتاب تک عباد ت کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم یا روزہ ہے۔

روزہ کی تکمیل کے لئے یہ تین بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کھانے پینے اور جنسی خواہش سے رکنے کا حکم ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لئے بطور علامت ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃً فِی اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ‘‘۔ ( بخاری کتاب الصوم )

یعنی جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔

اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا:

’’ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ ہرقسم کی بیہودہ باتیں کرنے اور فحش بکنے سے رکنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ پس اے روزہ دار اگر کوئی شخص تجھے گالی دے یا غصہ دلائے تو تو اسے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذاشتم)

جو شخص روزہ دار ہونے کے باوجود گالی گلوچ کرتا ہے تو اس کا روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہے جس سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔پس اگر کوئی شخص ان امور اور آداب کا لحاظ نہیں رکھ سکتا جو روزہ کے لئے ضروری ہیں تو اس کے محض بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں۔ بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جو مقررہ شرائط سے ادا ہوتی ہے۔ کئی بدقسمت ان آداب صوم کا لحاظ نہ رکھ کر اس عبادت کے اعلیٰ ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کئی روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے ہیں مگر ان کوسوائے بیداری اور بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام، باب ما جاء فی الغیبۃ والرفث للصائم)

رمضان کے روزے ہر بالغ ، عاقل، تندرست، مقیم (یعنی جو حالت سفر میں نہ ہو) مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہیں۔ مسافر اور بیمار کے لئے یہ رعایت ہے کہ و ہ دوسرے ایام میں ان روزوں کو پورا کرلیں جو اس ماہ میں ان سے رہ گئے ہیں۔ مستقل بیمار جنہیں صحت یاب ہونے کی کبھی امید نہ ہو یا ایسے کمزور و ناتواں ضعیف جنہیں بعد میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ملے، اسی طرح ایسی مرضعہ (دودھ پلانے والی) اور حاملہ جو تسلسل کے ساتھ ان عوارض سے دوچار رہتی ہے ایسے معذور حسب توفیق روزوں کے بدلہ میں فدیہ ادا کریں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے کی عمر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں ۔ حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ ۱۵ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے۔ ۱۵ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اور ۱۸ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روز ہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے ۔ اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر رعب ڈالتے تھے تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہئے۔ اس کے بعد جب ان کا وہ زمانہ آ جائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو ۱۵ سال کی عمرکا زمانہ ہے تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ۔ پہلے سال جتنے رکھیں ، دوسرے سال اس سے زیاد ہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔ اس طرح بتدریج ان کو روزوں کا عادی بنایا جائے‘‘۔(الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۲۵ء)


روزہ کی اقسام



متعدد قسموں کے روزوں کا ذکر قرآن و حدیث میں پایا جاتا ہے مثلاً فرض روزے،نفلی روزے ۔ فرض روزوں کی مثال جیسے رمضان کے روزے،رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء، کفارۂ ظہار کے روزے، کفارۂ قتل کے روزے ،عمداً رمضان کاروزہ توڑدینے کی سزا کے ساٹھ روزے،کفارہ ٔ قسم کے روزے،نذر کے روزے ،حج تمتع یا حج قران کے روزے،بحالت احرام شکار کرنے کی وجہ سے روزہ ،بحالت ا حرام سرمنڈوانے کی وجہ سے روزہ ۔

دوسری قسم نفلی روزوں کی ہے جیسے شوال کے چھ روزے،عاشورہ کا روزہ، صوم داؤد ؑ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار، یوم عرفہ کا روزہ ، ہر اسلامی مہینے کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ کا روزہ ۔

بعض دنوں میں روزہ رکھنا منع اورمکروہ ہے مثلاً صرف ہفتہ یا جمعہ کے دن کوخاص کرکے روزہ رکھنا، پارسیوں کی طرح نیروز و مہرگان کے دن روزہ رکھنا، صوم دہر یعنی بلا ناغہ مسلسل روزے رکھتے چلے جانا، عید کے دن اور ایام تشریق یعنی ۱۱،۱۲،۱۳ ذوالحجہ کو ر وزہ رکھنا سخت منع ہے۔


روزہ کب رکھنا چاہئے؟



رمضان کے روزوں کے لئے حکم ہے کہ لاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُا الْہِلَالَ۔ جب تک ماہ رمضان کا چاند نظر نہ آجائے روزہ نہ رکھو۔ یہ رویت نظری بھی ہو سکتی ہے اور علمی بھی ۔ رویت علمی کی دو صورتیں ہیں ۔ایک یہ کہ شعبان کے پورے تیس دن گزر چکے ہوں یا باتفاق علماءِ امت سائنسی شواہد کی بناء پر ایسا کیلنڈر بنا لیاجائے جس میں چاند نکلنے کا پورا پورا حساب ہو اور غلطی کا امکان نہ رہے۔اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍جنوری ۱۹۹۶ء میں تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ خطبہ جمعہ الفضل کے گذشتہ شمارہ(یکم؍نومبر۲۰۰۲ء) میں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ چاند نکلنے کی خبر شرعاً معتبر ہے۔اس کے مطابق حسب فیصلہ ارباب علم و اقتدار عمل کیا جائے گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جگہ جہاں چاند دیکھا گیاہے اور جہاں خبر پہنچی ہے دونوں کا افق اور مطلع ایک ہو۔ ورنہ یہ خبر قابل عمل نہ ہوگی۔

اگر فضا صاف نہ ہو ، ابر گہری دھند ہو تو رمضان کے چاند کی رؤیت کے ثبوت کے لئے ایک معتبر عادل آدمی کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے لیکن افطار اور عیدالفطر منانے کے فیصلہ کے لئے کم ازکم دو عادل آدمیوں کی گواہی ضروری ہے۔(ترمذی کتاب الصوم باب الصوم بالشہادۃ)


روزہ کے لئے نیت ضروری ہے



جس شخص کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اسے روزہ رکھنے کی نیت ضرور کرنی چاہئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:۔

جو صبح سے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے اس کا کوئی روزہ نہیں۔(ترمذی کتاب الصوم)

نیّت کے لئے کوئی معین الفاظ زبان سے ادا کرنے ضروری نہیں ۔ نیت دراصل دل کے اس ارادے کا نام ہے کہ وہ کس لئے کھانا پینا چھوڑرہا ہے۔ نفلی روزہ میں دن کے وقت دوپہر سے پہلے پہلے (بشرطیکہ نیت کرنے کے وقت تک کچھ کھایاپیا نہ ہو)روزہ کی نیت کر سکتے ہیں۔اسی طرح اگرکوئی عذر ہو مثلاً رمضان کا چاندنکلنے کی خبر طلوع فجر کے بعد ملی ہو اور ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو تو اس وقت روزہ کی نیت کرسکتے ہیں اورایسے شخص کا اس دن کا روزہ ہو جائے گا۔


بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھیں



اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :

( فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّن ایّام اُخَر۔ وَعَلَی الّذِینَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن)(البقرہ : ۱۸۵)

تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اسے اور دنوں میں یہ تعداد پوری کرنی ہوگی۔ اور ان لوگوں پر جو اس یعنی روزہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دینا بشرط استطاعت واجب ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے ۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہئے ۔ مَیں نے پڑھاہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگرکوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتاہے تو یہ معصیت ہے۔ کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے ،نہ اپنی مرضی۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے ۔ جوحکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پرحاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیاہے (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ)۔ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو، میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں ۔(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴)

اسی طرح فرمایا:۔

’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پرعمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کازور دکھاکر کوئی نجات حاصل کر سکتاہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہویا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمباہو۔ بلکہ حکم عام ہے اوراس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کافتویٰ لازم آئے گا ‘‘۔(بدر جلد ۶ نمبر۴۲ ۔ مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷)


سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں



حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے اپنے ساتھیوں کا ہجوم دیکھا جس میں ایک شخص پر سایہ کیا جا رہا تھا۔ حضور ؐ نے سبب پوچھا توعرض کی گئی کہ روزہ دار کو سایہ کیا جا رہاہے۔رسول اللہ ؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ’’لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ اَلصَّوْمُ فِی السَّفَر‘‘ کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔( بخاری کتاب الصوم)

آنحضرت ﷺ خود مسافر کا روزہ کھلوادیا کرتے تھے ۔ عمر وؓ بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ؐ کی خدمت میں ایک سفر سے حاضر ہوا۔ حضور نے فرمایا ’’ابو امیہؓ کھانے کا انتظار کرو‘‘۔ میں نے کہا حضور ؐ میں تو روزے سے ہوں۔ آپؐ نے ازراہ محبت فرمایا’’ادھر میرے قریب آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ مسافر کو اللہ تعالیٰ نے روزہ سے رخصت دی ہے اور آدھی نماز بھی اسے معاف کی ہے‘‘۔( سنن نسائی کتاب الصوم)

چنانچہ صحابہ کرام اور تابعین کرام کا بھی یہی طریق تھاکہ سفرمیں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ روزہ رکھنا معیوب خیال کرتے تھے۔

حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ رمضان میں سفر میں روزہ رکھنے والا (خدا کے حکم کی نافرمانی کے لحاظ سے) اس شخص کی طرح ہے جو گھر میں رہ کر ( بلا عذر) روزہ نہیں رکھتا ۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:

’’ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’ سفر میں تو روزہ ٹھیک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رخصت پرعمل کرناچاہئے ۔ چنانچہ ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوا دئے‘‘۔(سیرت المہدی حصہ دوم ، روایت ۳۷۸)


نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہے



سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’ نیکی صرف رضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جسم میں سختی کے ساتھ نہیں۔ اور روزوں میں بھی جسمانی سختی خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے ہی نہیں۔ اور بہت سی باتیں ہیں جو پیش نظر ہیں مگر تکلیف دینا خدا کے پیش نظر نہیں ہے۔ پس جب خدا فرماتا ہے کہ چھوڑ دو تو چھوڑ دو ۔ جب خدا کہتا ہے رکھو تو رکھو۔ پس فرمایا ( مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا) جو بیمار ہو (اَوْ عَلٰی سَفَرٍ)یا سفر پر ہو( فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیاَّمٍ اُخَر) تو پھر رمضان میں روزے نہ رکھنا بعد میں رکھ لینا۔ (یُرِیْدُاللّٰہ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر) اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ سختی کرو گے تو خدا بہت خوش ہوگا ۔ اپنی جان کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے تو اللہ بڑا راضی ہو گیا تم مصیبت میں پڑ گئے۔ اللہ تو تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا ۔۔۔۔۔۔ پس خدا کی وسیع نظر کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔جو اللہ چاہے، جس حد تک سختی ڈالے،اسی کو قبول کریں۔ اس سے آگے بڑھ کر زبردستی آپ خدا کو راضی نہیں کر سکتے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ جنوری ۱۹۹۶ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ تو اس پر آپ ؑ نے فرمایا کہ:

’’قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ( فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر)یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ اس میں امر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کو اختیار ہو نہ رکھے ۔ میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہ رکھنا چاہئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر (فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر)کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے۔ سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا ۔ یہ غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں امر اور نہی میں سچا ایمان ہے‘‘۔ (الحکم ۲۶؍ جنوری ۱۸۹۹ء)


سفر کی حد کیا ہے؟



اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

’’ میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے ۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پرعمل کرے۔ ’’اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَات‘‘ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے ۔ اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتاہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے ۔ فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے‘‘۔ (الحکم جلد ۵، ۱۷؍ فروری ۱۹۰۱ء ص۱۳)


روزہ رکھ کر سفر شروع کرنا



حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:

’’ سفر کے متعلق میرا عقیدہ اور خیال یہی ہے ممکن ہے بعض فقہاء کو اس سے اختلاف ہو کہ جو سفر سحری کے بعد شروع ہو کرشام کو ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں۔ سفر میں روزہ رکھنے سے شریعت روکتی ہے۔ مگر روزوں میں سفر کرنے سے نہیں روکتی۔پس جو سفر روزہ رکھنے کے بعد شروع ہو کر افطاری سے پہلے ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں، روزہ میں سفرہے، سفر میں روزہ نہیں‘‘۔(الفضل ۲۵؍ ستمبر ۱۹۴۲ء)

سفر میں روزے کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں :

(۱)۔۔۔ اگر سفر جاری ہو یعنی پیدل یا سواری پر اور چلتا جا رہاہو تو روزہ نہ رکھا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں روزہ چھوڑنا ضروری ہے۔

(۲)۔۔۔ اگر سفر کے دوران کسی جگہ رات کو ٹھہرنا ہے اور سہولت میسر ہے تو روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے جبکہ دن بھر وہاں قیام ہے۔

(۳)۔۔۔ سحری کھانے کے بعد گھرسے سفر شروع ہو اور افطاری سے پہلے پہلے سفر ختم ہو جائے یعنی گھر واپس آ جانے کا ظن غالب ہو توروزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے۔

(۴)۔۔۔ اگر دوران سفر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنا ہے تو وہاں سحری کا انتظام کیا جائے اور روزہ رکھا جائے۔


دائمی مریض اور مسافر



دائمی مریض اور مسافر کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’جن بیماروں اور مسافروں کو امید نہیں کہ کبھی پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے ۔ مثلاً ایک بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اورسال پھر اسی طرح گزر جائے گا ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے ۔ اور فدیہ دیں۔ فدیہ صرف شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے، باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے۔ عوام کے واسطے جو صحت پاکر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کاخیال کرنا اباحت کا دروازہ کھولنا ہے ۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جائے گی‘‘۔(فتاویٰ احمدیہ صفحہ ۱۸۳)


طالب علم اور روزہ



طالب علم جو امتحان کی تیاری میں مصروف ہے اس کے لئے روزہ رکھنے کے بارہ میں یہ ہدایت ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے روزمرہ کی مصروفیات کو ترک کرنے کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا ۔ اس لئے روز مرہ کے کام کی وجہ سے اگر ایک انسان کے لئے روزہ ناقابل برداشت ہے تو وہ مریض کے حکم میں ہے لیکن اس بارہ میں کلیۃً وہ اپنے اقدام کا خود ذمہ دار ہوگا اور اس سے اس کی نیت اور حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ سلوک کرے گا گویا اپنے حالات کے بارہ میں فیصلہ دینے میں انسان آپ مفتی ہے۔۔۔۔۔(الفضل ۲۲؍ مئی ۱۹۲۲ء)


مزدور اور روزہ



سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض مزدور روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں کیا وہ اس عذر کی بناء پر روزہ ترک کر سکتے ہیں؟۔

روزہ رکھنے سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے اس عذر کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی احادیث میں اس کی تصریح آئی ہے حالانکہ مزدور اس وقت بھی تھے۔ ہاں اگر کمزوری ہے اور روزہ ناقابل برداشت ہے تو یہ بیماری کے حکم میں ہے اور بیمار پر روزہ فرض نہیں ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب یہ سوال پیش کیا گیا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جب کہ کام کی کثرت ہوتی ہے مثلاً تخمریزی کرنا یا فصل کاٹنا ہے۔ اسی طرح مزدور جن کا گزراہ مزدوری پر ہے ان سب سے روزہ نہیں رکھا جاتا ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟۔

اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا : ’’اِنّماالاَعمالُ بالنّیات‘‘ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں ۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدور رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب یُسر ہو رکھ لے‘‘۔(البدر ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء)


حائضہ، مرضعہ اور حاملہ



حائضہ عورت روزہ نہیں رکھ سکتی۔ حائضہ کے بارہ میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہم حیض کے باعث روزے چھوڑ تی تھیں توہمیں بعد میں وہ روزے پورے کرنے کا ارشاد ہوتا تھا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام )

نفاس والی عورت کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتی۔ لیکن جب بعد میں یہ عذر دور ہو جائیں یعنی حائضہ حیض سے پاک ہو جائے اور نفاس کے دن ختم ہوجائیں تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء واجب ہوگی۔ اور یہ روزے انہیں رکھنے ہونگے۔

مرضعہ اور حاملہ کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے رخصت دی ہے‘‘۔ (ترمذی ابواب الصوم)

ؒ یعنی یہ دونوں اپنے عذر کے ختم ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے پورے کر لیں۔ اگر طاقت ہو تو فدیہ بھی دینا چاہئے جو اس بات کا کفارہ ہوگا کہ رمضان کی برکتوں والے مہینے میں وہ روزہ کی عبادت بجا لانے سے محروم رہی ہیں۔ اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں تو روزے کافی ہیں۔

اگر کسی عورت کو ایسی حالت پیش آتی رہتی ہے کہ ایک وقت میں مرضعہ ہے اور دوسرے وقت میں حاملہ تو اس سے روزہ معاف ہے اور صرف فدیہ کافی ہے۔ اسی طرح شیخ فانی اور دائم المریض کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ جس کے لئے آئندہ روزہ رکھنے کا امکان صحت کے لحاظ سے کوئی نہیں تو صرف فدیہ ہی ادا کر دے۔


سحری کے آداب



حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :’’تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃٌ‘‘اے مسلمانو ! سحری کھایاکرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔

آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں ایک فرق سحری کھانا بھی ہے۔ مسلمان سحر ی کھا کر روزہ رکھتے ہیں اوراہل کتاب سحری نہیں کھاتے۔(سنن الدارمی،کتاب الصوم بابفضل السحور)

سحری کاوقت آدھی رات کے بعد سے فجر کے طلوع ہونے تک ہے لیکن آدھی رات کو اٹھ کر سحری کھا لینا مسنون نہیں۔ اصل برکت اتباع سنت میں ہے اورسنت یہ ہے کہ طلوع فجر سے تھوڑاپہلے انسان کھا پی لے ۔ آنحضرت ﷺ اورآپ ؐ کے صحابہ کرامؓ 5 کا یہی طریق تھا ۔ صحابہ کرامؓ بیان کرتے ہیں کہ: سحری کھانے کے بعد ہم نماز کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔(ترمذی کتاب الصوم باب تأ خیر السحور)یعنی سحری کے اختتام اور نماز فجر کے دوران بہت کم وقفہ ہوتا تھا۔

حضرت انسؓ ، حضرت زیدؓ بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز فجر کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ سحری اور نماز فجر کے درمیان کتنا وقفہ ہوا کرتا تھا تو زید بن ثابتؓ نے جواب دیا کہ قریباً پچاس آیات پڑھنے کے برابر وقفہ ہوتاتھا۔(بخاری۔کتاب الصوم)

یعنی اندازاً دس سے پندرہ منٹ ۔ پچاس آیات کی تلاوت پر قریباً اتنا وقت خرچ ہوتا ہے۔

سحری کی تاکید کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اس کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ :

’’ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سحری کے کھانے کے ذریعہ دن کے روزہ ( کی مشقت) اور رات کی عبادت (میں جاگنے) کے مقابل پر قیلولہ کے ساتھ مدد چاہو‘‘۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی السحور)

ایک اورموقع پر آپ ؐنے فرمایا:’’ صبح کا یہ مبارک کھانا رات کے آخری حصہ میں کھایا کرو‘‘۔(الجامع الصغیرالجزء الاول حدیث ۳۲۹۲)

اسی طرح فرمایا :’’ سحری کیا کروخواہ ایک گھونٹ پانی ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(الجامع الصغیر الجزء الاول حدیث نمبر ۳۲۹۳)


کیا سحری کھانا ضروری ہے؟



سحری کھائے بغیر روزہ رکھنے میں برکت نہیں لیکن اگر انسان کی اس وقت آنکھ کھلے جب فجر طلوع ہو چکی ہو اور سحری کھانے کا وقت نہ رہا ہو تو بغیر سحری کھانے کے روزہ رکھ لینا جائز ہے۔ لیکن بطور عادت کے ایسا کرنا پسندیدہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ہر ایک نیکی کا کام اسی وقت نیکی کا کام ہو سکتاہے جب کہ وہ اللہ کے بیان کردہ احکامات اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ہو۔ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا آنحضرت ﷺ نے پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ’’ سحری کھایاکرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘۔


آنحضرت ﷺ کی سحری



رسول اللہ ﷺ کے خادم حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سحری کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اے انس !میں نے روزہ رکھنا ہے مجھے کھانے کی کوئی چیز لا دو‘‘ ۔ حضرت انس کہتے ہیں میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی لے آیا۔ اور اس وقت حضرت بلالؓ کی پہلی اذان ہو چکی تھی۔ حضور نے فرمایا ’’ انس! دیکھو (مسجد میں) کوئی اورآدمی ہے جو میرے ساتھ سحری میں شامل ہو‘‘ ۔حضرت انسؓ نے زیدؓ بن ثابت کو بلایا تو انہوں نے کہا’’ میں تو ستّو پی کر روزہ رکھ چکا ہوں‘‘۔ حضور نے فرمایا ’’ہم نے بھی روزہ ہی رکھنا ہے‘‘۔ چنانچہ زیدؓ بن ثابت نے حضور ؐ کے ساتھ سحری کھائی۔ (سنن نسائی کتاب الصیام )

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور سحری میں کسی قسم کے تکلفات نہیں فرماتے تھے ۔ جو میسر ہوتاتھا اس سے روزہ رکھ لیتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر آنحضورؐ نے فرمایا کھجور مومن کے لئے کتنی اچھی سحری ہے۔

آنحضرت ﷺ نے رمضان میں مسلمانوں کی سہولت کے لئے یہ انتظام فرمایا تھا کہ صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان حضرت بلالؓ فجرکے طلوع ہونے سے پہلے دیتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اب سحری کا آخری وقت ہے جو شخص نماز تہجد ادا کر رہا ہے یا جو سویا ہوا ہے وہ بھی اٹھ کر سحری کھالے اوردوسری اذان حضرت ابن ام مکتومؓ اس وقت دیا کرتے تھے جب فجر طلوع ہو جاتی تھی اوراس کا مقصد سحری کے وقت کے ختم ہو جانے کا اعلان ہوتاتھا ۔ اس لئے حضور ؐ نے فرمایا کہ جب بلال اذان دے تو کھاتے رہا کرو اورجب ابن ام مکتوم اذان دے تو سحری ختم کر لیاکرو۔ (بخاری کتاب الصوم باب قول النبی لا یمنعکم من سحور کم اذان بلال)

لیکن اس میں گنجائش بھی رکھ دی کہ جب تک پوری طرح فجر نہ ہو جائے تو کھا پی سکتے ہیں خواہ اذان ہو رہی ہو۔ (سنن نسائی کتاب الصیام باب کیف الفجر)


افطاری کے آداب



روزہ کی افطاری کا وقت نہایت بابرکت گھڑی ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے افطاری کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب روزہ کی وجہ سے خدا سے اس کا لقاء ہوگا۔(ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی فضل الصیام)

پس افطاری کے وقت کے نہایت بابرکت لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ قبولیت دعا کے اس وقت میں دعائیں کرنی چاہئیں۔ آنحضرت ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا کیاکرتے تھے :اللّٰھُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔(ابوداؤدکتاب الصیام باب القول عند الافطار)

حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:جب دن چلا جائے اور رات آ جائے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ افطار کر لو۔ ( بخاری کتاب الصوم، باب متی یحل فطر الصائم)

حضرت سہیل بن سعدؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :کہ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے اس وقت تک خیر و برکت بھلائی اور بہتری حاصل کرتے رہیں گے۔( بخاری کتاب الصوم۔ باب تعجیل الافطار)

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:’’ دین اسلام اس وقت تک مضبوط رہے گا جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے ۔ کیونکہ یہودی اور عیسائی روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرتے تھے ‘‘۔(ابوداؤد کتاب الصوم۔باب مایستحب من تعجیل الفطر)

حضرت ابی اوفی ؓا ٓنحضرت ﷺ کے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھا ۔ غروب آفتاب کے بعد حضور ؐ نے ایک شخص کو افطاری لانے کا ارشاد فرمایا۔ اس شخص نے عرض کی کہ حضور ذرا تاریکی ہو لینے دیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ افطاری لاؤ۔ اس شخص نے پھر عرض کی کہ حضور ابھی توروشنی ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا افطاری لاؤ ۔ وہ شخص افطاری لایا۔ آپ ؐ نے روز ہ افطار کرنے کے بعد اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے اندھیرا اٹھتے دیکھو تو افطار کر لیاکرو۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الصوم باب بیان وقت انقضاء الصوم)


آنحضرت ﷺ کی افطاری



آنحضرت ﷺ روزہ افطار کرنے میں بھی کوئی تکلف نہیں فرماتے تھے ۔ حضرت انسؓ بن مالک جو آپ کے خادم خاص تھے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نماز مغرب سے قبل تازہ کھجور کے چند دانوں سے روزہ افطار فرماتے تھے ۔ اگر تازہ کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کھا کر ہی روزہ کھول لیتے اوراگر خشک کھجور بھی نہ ملتی تو پانی کے چند چلو بھر کر افطاری کر لیتے ۔(ابوداؤد ،کتاب ا لصوم، باب ما یفطر علیہ )

آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو بھی ایسی سادہ افطاری کی تلقین فرمائی ہے۔ آ پؐ نے فرمایا:

’’ جب تم میں سے کوئی افطاری کرے تو کھجور سے کرے کیونکہ یہ بہت خیر وبرکت رکھتی ہے اوراگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ کھولے جو طہارت مجسم ہے‘‘۔(ترمذی کتاب الزکوٰۃ باب فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ)


روزہ افطار کروانے کا ثواب



آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو روزہ افطار کرائے اسے روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملے گا لیکن اس سے روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

ایک دفعہ حضرت سعدؓ بن معاذ کے ہاں رسول اللہ ﷺ افطاری کے لئے تشریف لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے روزہ کھولا اور فرمایا ’’تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور فرشتوں نے دعائیں کیں‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی ثواب من فطر صائما)


وہ امور جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے



عمداً یعنی جان بوجھ کر کھانے پینے اور جماع یعنی جنسی تعلق قائم کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹیکہ لگوانے اور جان بوجھ کر قے کرنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

حدیث میں آتاہے کہ :اگر کسی روزہ دار کو بے اختیار قے آ جائے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں لیکن جو روزہ دار جان بوجھ کر قے کرتاہے تو وہ روزہ قضاء کرے۔ (ترمذی ۔ ابواب الصوم، باب ما جاء من استقاء عمداً)


جان بوجھ کر روزہ تو ڑنا



اللہ تعالیٰ کے محارم اور شعائراللہ کی تعظیم اور حفاظت ضروری ہے ۔ روزہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بیمار، معذور اور مسافر کو رخصت دی ہے اس کے بعد بھی وہ شخص جو بغیر کسی ایسے عذر کے جس میں شریعت نے روزہ توڑ نے کی اجازت دی ہو جان بوجھ کر روزہ توڑے تو سخت گنہگار ہے اور سزا کا مستحق ہے۔ ایسے شخص پر اس روزہ کی قضاء کے علاوہ بغرض توبہ کفارہ واجب ہوگا۔ یعنی اسے متواتر ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے یا ساٹھ مسکینوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھلانا پڑے گا۔(ترمذی، ابواب الصوم، باب ما جاء فی کفارۃ الفطر فی رمضان)


وہ امور جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا



روزہ کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے فقہاء نے ایک عمومی اصول لکھا ہے کہ وضو جسم سے کوئی چیز خارج ہونے سے ٹوٹتاہے اور روزہ جسم میں کوئی چیز داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے۔ یعنی انسان کوئی چیز جان بوجھ کر کھا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ

علیٰ حالہٖ باقی رہے گا۔ اور کسی قسم کا نقص اس کے روزہ میں واقع نہیں ہوگا۔ اس بارہ میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:اگرکوئی شخص بھول کر روزہ میں کھا پی لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ کھلا پلا رہا ہے۔( بخاری کتاب الصوم۔ باب الصائم اذا اکل او شرب نا سیا)

البتہ اگر کوئی شخص غلطی سے روزہ توڑ بیٹھے مثلاً روزہ یاد تھا لیکن یہ سمجھ کر روزہ کھول لیا کہ سورج ڈوب گیا ہے یا یہ کہ افطار کاوقت ہو چکا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ابھی تو سورج غروب نہیں ہوا اور نہ ہی افطار کا وقت ہوا ہے تو ایسی صورت میں اس کا روزہ مکمل نہیں ہوگا اور اس کی قضاء ضروری ہوگی لیکن اس غلطی کی وجہ سے نہ وہ گنہگارہے اور نہ اس پر کوئی کفارہ ہے۔

حضرت ابن عباسؓ روزہ دار کو یہ رعایت بھی دیتے ہیں کہ اگر ہنڈیا کا ذائقہ نمک مرچ وغیرہ چکھ کر تھوک دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اگر کلی کرتے وقت بلا اختیار پانی کے چند قطرے حلق سے نیچے اتر جائیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح کان میں دو ا ڈالنے، بے اختیار قے آنے، آنکھ میں دوا ڈالنے ، نکسیر پھوٹنے ، دانت سے خون جاری ہونے ، مسواک یا برش کرنے، ،خوشبو سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح دن کے وقت سوتے میں احتلام ہو جانے کی وجہ سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الصوم، باب فی الصائم یحتلم نہاراً فی شہر رمضان)

سرمہ لگانے سے متعلق ہدایت یہ ہے کہ عورت دن کے وقت سرمہ لگا سکتی ہے ۔ مرد کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:کہ بحالت روزہ دن کو سرمہ نہ لگا البتہ رات کو لگا سکتے ہو۔ (سنن الدارمی، کتاب الصوم، باب الکحل للصائم)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دن کو سرمہ لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے رات کو لگائے‘‘۔(البدر ۷؍ جون ۱۹۰۷ء)

جنابت کی حالت میں اگر نہانا مشکل ہو تو نہائے بغیر کھانا کھا کر روزہ کی نیت کر سکتا ہے او ر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال غیر پسندیدہ ہے البتہ سادہ برش کرنا اور کلی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح بیرونی اعضاء پر ٹنکچر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی روز ہ دار کسی حادثہ میں مریض کو خون دے تو اس کے خون دینے سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن چونکہ ایسا کرنے سے کمزوری ہو جاتی ہے اس لئے روزہ کھول دینا چاہئے۔ خون دینا چونکہ انسانی جان کی حفاظت کے لئے بعض اوقات ضروری ہے اور روزہ تو بعد میں بھی رکھنے کی اجازت ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ رعایت دی ہے اس لئے روزہ ایسی مجبوری کی صورت میں خون دینے کے لئے روک نہیں بننا چاہئے۔


فدیہ



عام ہدایت یہ ہے کہ انسان روزے بھی رکھے اور اگر استطاعت ہو تو فدیہ بھی دے۔ روزوں کا رکھنا فرض ہوگا اور فدیہ کا ادا کرنا سنت اور اس بات کا شکرانہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عبادت کی توفیق بخشی ہے کیونکہ روزہ رکھ کر جو فدیہ دیتا ہے وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے کی توفیق پانے پر خدا تعالیٰ کا شکرانہ ادا کرتا ہے۔

رمضان کے روزوں کا فدیہ اس شخص کیلئے ضروری نہیں جووقتی بیمار ہونے کی وجہ سے چند روزے چھوڑ دینے پر مجبور ہو گیا ہو۔ سوائے اس کے کہ وہ اس نیت سے فدیہ دے کہ اللہ تعالیٰ اسے بوجہ بیماری یا سفر چھوٹنے والے ان روزو ں کی قضاء کی توفیق بخشے اور رمضان کے ان روزوں کے اجر سے محروم نہ فرمائے جو بوجہ مجبوری اسے چھوڑنے پڑے۔

رمضان کے روزوں کا لازمی فدیہ صرف ایسے ذی استطاعت لوگوں کے لئے ہے جن کے متعلق یہ توقع نہیں کہ مستقبل قریب میں ان روزوں کی قضاء کر سکیں گے جیسے بوڑھا ضعیف جس کے قویٰ میں انحطاط شرع ہو چکا ہے یا کو ئی دائم المریض یا حاملہ اور مرضعہ (یعنی دودھ پلانے والی عورت) ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر آسودگی حاصل ہو تو ہر روز ہ کے عوض ایک آدمی کا دو وقت کا کھانا یا اس کے برابر رقم کسی کو دے دینی چاہئے۔

اگر روک عارضی ہو اوربعد میں دور ہو جائے تو خواہ فدیہ دیا ہو یا نہ دیا ہو روزہ بہرحال رکھنا ہوگا کیونکہ فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ تو محض اس بات کا بدلہ ہے کہ وہ ان دنوں میں باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس عبادت کو ادا نہیں کر سکا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے سوال کیا کہ میں نے آج سے پہلے کبھی روزہ نہیں رکھا ، اس کاکیا فدیہ دوں؟۔ اس پرآپ نے فرمایا :

’’ خدا کسی شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا ۔ وسعت کے موافق گزشتہ کا فدیہ دے دو۔ آئندہ عہد کرو کہ سب روزے رکھوں گا‘‘۔ (البدر جلد ۱،نمبر ۱۲, ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱)


فدیہ کی مقدار



فدیہ کی مقدار کے متعلق اصولی ہدایت یہ ہے کہ( مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُم) (المائدہ :۹۰) جو تم بالعموم اوسطاً اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو۔ یعنی اپنے اوسط معیار کے موافق کھانا کھلانا چاہئے۔

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے اس کا اندازہ گندم کے لحاظ سے نصف صاع یعنی قریباً پونے دو سیر بیان کیاہے۔ یہ ایک فوت شد ہ روزے کا فدیہ ہوگا جو دو وقت کے کھانے کے لئے کفایت کرے گا۔


فدیہ کس کو ادا کیا جائے؟



یہ ضروری نہیں کہ فدیہ کسی ایسے غریب کو ہی دیا جائے جو روزہ رکھتا ہے۔ اصل مقصد مستحق و نادار کوکھانا کھلانا ہے خواہ وہ روزے رکھ سکتا ہو یا کسی عذرکی بنا پر نہ رکھ سکتا ہو۔اسی طرح فدیہ اسی پر واجب ہے جو ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ورنہ ایک غیر مستطیع کے لئے ندامت، توبہ،استغفار ، دعا اور ذکر الٰہی کا ورد کفایت کرے گا۔ فدیہ کی رقم جماعتی انتظام کے تحت جمع کرانی چاہئے۔


اعتکاف اور اس کے مسائل



اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ میں بند ہو جانے یا ٹھہرے رہنے کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں ’’اَللَّبْثُ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الصَّوْمِ وَنِیَّۃِ الْاِعْتِکَافِ‘‘ یعنی عبادت کی نیت سے روزہ رکھ کر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔

روز ہ کی طرح اعتکاف کا بھی وجود دیگر مذاہب میں ملتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

( وَعَھِدْنَاإلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرْبَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَعِ السُّجُوْد)( البقرہ : ۱۲۶)

ہم نے ابراہیم ؑ اور ا سمٰعیلؑ کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ میرے گھر (خانہ کعبہ) کو طواف کرنے اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک اور صاف رکھو۔

آنحضرت ﷺ کا بعثت سے قبل کے ایام میں دنیوی اشغال سے فارغ ہو کر غار حرا میں یاد خداوند ی میں مشغول رہنا بھی ایک رنگ میں اعتکاف ہی تھا۔ اعتکاف انسان جب چاہے اورجس دن چاہے بیٹھ سکتا ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔

آنحضرت ﷺ کے اعتکاف کے بار ے میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:

’’ آنحضرت ﷺ کا اپنی وفات تک یہ معمول رہا کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپ ؐ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف باب اعتکاف العشر الاواخر)

آنحضرت ﷺ لیلۃ القدر کی تلاش کرنے والوں کو رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کی ہدایت فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ آپ ؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ ’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے ۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف بیٹھنا چاہے وہ اس عشرہ میں بیٹھے ۔ چنانچہ صحابہؓ آپ ؐ کے ساتھ آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے ۔


اعتکاف کتنے دن بیٹھنا چاہئے



اعتکاف کے لئے کوئی میعاد مقرر نہیں۔ یہ بیٹھنے والے کی مرضی پر منحصر ہے، جتنے دن بیٹھنا چاہے بیٹھے ۔ تاہم مسنون اعتکاف جو آنحضرت ﷺ کے طرز عمل سے ثابت ہے یہ ہے کہ کم از کم دس دن کا ہو۔ حدیث میں ہے:

’’ حضورﷺہمیشہ ماہ رمضان میں دس دن اعتکاف بیٹھا کرتے تھے ۔ البتہ جس سال آپ ؐ کی وفات ہوئی اس سال آپ ؐ بیس دن کا اعتکاف بیٹھے‘‘۔


اعتکاف کب شروع ہوگا؟



اعتکاف بیس رمضان کی نماز فجر سے شروع کرنا چاہئے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں واضح طور پر موجود ہے کہ آپ دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور دس دن اسی صورت میں مکمل ہوتے ہیں جبکہ بیس رمضان کی صبح کو اعتکاف میں بیٹھا جائے۔ اور عید کا چاند نظر آنے پر معتکف کا اعتکاف مکمل ہو جاتا ہے۔

آنحضرتﷺ نماز فجر کے بعد اپنے مُعتکَف میں قیام پذیر ہو جاتے ۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے: ’’ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو

نماز فجر ادا کرنے کے بعد اپنے مُعتکَف میں جو اس غرض کے لئے تیار کیا جاتا چلے جایا کرتے تھے‘‘۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:’’ اعتکاف بیسویں کی صبح کو بیٹھتے ہیں ۔ کبھی دس دن ہو جاتے ہیں اور کبھی گیارہ‘‘۔(الفضل ۳؍نومبر ۱۹۱۴ء)


اعتکاف کس جگہ پر کیا جا سکتا ہے



اعتکاف کے لئے موزوں اور مناسب جگہ جامع مسجد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے: (وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ)

کیونکہ مساجد ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں اور احادیث میں مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھنے کی تاکید ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوسکتا ہے ۔ (ابوداؤد کتاب الاعتکاف باب المعتکف یعود المریض)

چنانچہ سارے آئمہ اس رائے پر متفق ہیں کہ اعتکاف ایسی مسجد میں ہو سکتا ہے جس میں باجماعت نماز ہوتی ہو۔ گو مجبوری کی بناء پر مسجد کے باہر بھی اعتکاف ہو سکتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’ مسجد سے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔ جب باقاعدہ عام مسجد میسر نہ آئے مثلاً کہیں اکیلا احمدی رہتاہے یا مقامی جماعت کے افراد کسی دوست کے گھر میں نماز ادا کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اپنے گھر میں ایسی جگہ جو نماز کے لئے عام طور پر مخصوص کر لی گئی ہو اعتکاف بیٹھ سکتے ہیں۔ مجبوری کی حالت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور وہ بندے کی نیت کے مطابق اعمال کا ثواب دیتا ہے‘‘۔

عورت بھی مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے لیکن اگر کسی جگہ مسجد نہیں یا مسجد میں عورت کی رہائش کا معقول اور مناسب انتظام نہیں تو گھرمیں نماز کے لئے ایک الگ جگہ مخصوص کر کے وہاں اعتکاف بیٹھنا اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اعتکاف کے دوران اگر عورت کے مخصوص ایام شروع ہو جائیں تو وہ اعتکاف ترک کر دے۔ اس حالت میں اس کا مسجد میں رہنا درست نہیں ہوگا۔


کیا اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے؟



عام حالات میں اعتکاف کے لئے روزہ ضروری شرط ہے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ روزہ کے بغیر اعتکاف درست نہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:

’’ لَا اِعْتِکَافَ اِلَّابِالصَوْم‘‘ کہ روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں ہے۔آیت کریمہ(ثُمَّ اَتِمُّواالصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فَی الْمَسَاجِدِ) کا انداز بیان بھی اسی مسلک کی تائید کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تصریح کہیں نہیں ملتی کہ آنحضرت ﷺ یاآپؐ کے صحابہ کبھی روزہ کے بغیر اعتکاف بیٹھے ہوں۔ صحابہؓ میں سے حضرت ابن عباسؓ ، حضرت ابن عمرؓ اور آئمہ میں سے امام مالک ؒ ، امام ابو حنیفہؒ امام اوزاعیؒ کا یہی مسلک ہے کہ اعتکاف کے لئے روزہ ضروری ہے۔


مُعتکِف کن ضروریات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے



معتکف کے لئے حوائج ضروریہ کے علاوہ کسی اوروجہ سے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔

حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اعتکاف کی حالت میں سوائے انسانی حاجت کے گھرمیں نہیں آتے تھے۔(یہ امر یاد رہے کہ آنحضرت ﷺ کا گھر مسجد کے ساتھ ملحق تھا)۔

کلی انقطاع اعتکاف کا اعلیٰ درجہ ہے۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ سنت یعنی آنحضرت ﷺ کے طریق کی متابعت یہ ہے کہ معتکف مسجد سے باہر نہ نکلے۔ نہ بیمار کی عیادت کے لئے اور نہ ہی جنازہ میں شامل ہونے کے لئے ۔ ہاں حوائج ضروریہ کے لئے باہر جا سکتا ہے۔ (ابوداؤد،کتاب الصیام،باب المعتکف یعود المریض)

انسانی حاجت سے مراد کیا ہے؟ اس کا ایک مفہوم بیت الخلاء جانا ہے۔ اس مفہوم پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ایسی ضرورت ہے جس کے لئے مسجد سے باہر آنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر محلہ کی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہے تو جمعہ پڑھنے کے لئے جامع مسجد جانے کی بھی اجازت ہے اور اسے بھی حاجت انسانی سمجھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی ضروریات مثلاً درس القرآن یا اجتماعی دعا میں شامل ہونے، کھانا کھانے، نماز جنازہ پڑھنے ، کسی عزیز کی بیمار پرسی کرنے یا کسی کی مشایعت کے لئے باہر آنے کی اجازت میں اختلاف ہے۔ اکثر ان اغراض کے لئے مسجد سے باہر آنے کو جائز نہیں سمجھتے اور اعتکاف کی روح بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ ان ثانوی اغراض کے لئے معتکف مسجد سے باہرنہ آئے بلکہ کلی انقطاع کی کیفیت اپنے اوپر وارد کرنے کی کوشش کرے اوراس قسم کی ترغیبات اور خواہشات کی قربانی دینے کا اپنے آپ کو عادی بنائے۔

تا ہم بعض فقہاء نے کہا ہے کہ حوائج ضروریہ میں کچھ وسعت ہے۔ بعض اور ضرورتوں کے لئے معتکف مسجد سے باہر جا سکتاہے۔ بعض روایات سے بھی اشارۃً اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کسی اور ضرورت کے پیش نظر بھی مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک بار حضرت صفیہؓ رات کو آپ سے ملنے گئیں اور دیر تک باتیں کرتی رہیں اور جب واپس ہوئیں تو آپ ؐ انہیں گھر تک پہنچانے آئے حالانکہ یہ گھر مسجد سے کافی دور تھا۔(ابوداؤد ، باب المعتکف یدخل البیت لحاجۃ)

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ:’’ اعتکاف کے دوران جب بھی قضائے حاجت کے لئے گھرآتی اور گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو چلتے چلتے اس کی طبیعت پوچھ لیتی‘‘۔(ابن ماجہ،کتاب الصوم باب فی المعتکف یعودالمریض)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیادت مریض کے جواز کے بارہ میں جو لکھا ہے اسکا بھی غالباً یہی مطلب ہے کہ ایسے رنگ میں عیادت جائز ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ معتکف اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں۔ تو آپ ؑ نے فرمایا : ’’سخت ضرورت کے وقت کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتا ہے‘‘ (بدر ۲۱؍ فروری ۱۹۰۷ء)

بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انسان کو ان کے کرنے یانہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن اگران کو کیا جائے تو پھر ضروری شرائط کے ساتھ ان کی

بجا آوری مشروط ہے۔ اعتکاف کا بھی یہی حال ہے۔ آپ چاہیں تو اعتکاف بیٹھیں اور چاہیں تو اپنے حالات کے پیش نظر ترک کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مسنون اعتکاف کی نیت سے اعتکاف بھی بیٹھیں اور پھر اپنی مرضی کو بھی اس میں دخل انداز ہونے دیں۔

پس مسنون اعتکاف وہی ہے جو آنحضرت ﷺ کے طریق کے مطابق ہو اور جو حدیثوں سے ثابت ہو اور وہ یہ ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ آپ ؐ مسجد میں روزہ سے گزارتے اورحوائج ضروریہ کے علاوہ باقی کسی ضرورت سے مسجد سے باہر نہ آتے ۔


فطرانہ کب ادا کیاجائے؟



صدقۃ الفطر رمضان کے داخل ہونے سے ہی واجب ہوجاتا ہے تاہم اس کی ادائیگی عید کی نمازسے قبل یکم شوال تک ضروری ہے۔ بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ غرباء کو عید کی تیاری کے لئے پہلے فطرانہ دے دیا جائے تا کہ وہ عید کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔حضرت ابن عمرؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ عید سے ایک یا دو دن قبل فطرانہ ادا فرماتے تھے۔


فطرانہ کی شرح کیا ہے؟



فطرانہ کے طور پر ہر فرد پر ایک صاع کھجور یاان کے برابر قیمت ادا کرنی مقرر ہے۔ صاع عربوں میں ماپ کا ایک پیمانہ ہے جس میں د و (۲) رِطل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک صاع میں کل آٹھ پاؤنڈ ہوئے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا جَو ہر آزا د و غلام ، ہرمرد و عورت اور ہرچھوٹے بڑے مسلمان پر فرض فرمایا تھا اورحکم دیا تھا کہ لوگوں کے عید کی نماز کے لئے جانے سے پہلے یہ ادا کیا جائے۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ جؤ ، کھجور، منقہ وغیرہ کا ایک صاع صدقۃ ا لفطر میں ہر کس کی طرف سے دیا جاتا تھا۔

ہماری جماعت میں حالات کے مطابق گندم کی جوقیمت ہواس لحاظ سے ایک صاع یعنی قریباً دو سیر گندم کی قیمت کا انداز ہ کر کے رقم معین کر دی جاتی ہے۔ اور اس کی ادائیگی کا اعلان کر دیا جاتاہے۔ جیسے یہاں برطانیہ میں فطرانہ کی شرح فی کس ڈیڑھ پاؤنڈ سٹرلنگ مقرر کی گئی ہے۔


(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل۸؍نومبر، ۱۵؍نومبر۲۰۰۲ء)
مکمل تحریر >>