بہائی صاحبان کے اعتراضات کے جواب
ایک کشمیری رسالہ پر نظر
دیباچہ کاخلاصہ
جناب ابو ظفر صاحب کشمیر ی نے ایک رسالہ احمدی صاحبان کے لئے لمحہ فکریہ لکھا ہے ۔اس کے دیباچہ میں آپ نے تحریر کیا ہے ۔ کہ جس طرح مخالفین احمدیت کی تحریریں جماعت احمدیہ پر حجت نہیں ہیں ۔ اسی طرح اہل بہاء کے خلاف ان کے مخالفین کے لٹریچر سے سند پکڑنا درست نہیں پھر لکھتے ہیں ۔
’’بہا ئیوں کو صر ف حضرت باب وبہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریریں مسلم ہیں ۔
اس پر سوال پیدا ہو تا ہے ۔ کہ جناب باب کی ساری وحی کو بہائی لوگ منسوخ مانتے ہیں پھر باب کی تحریرون کے مسلم ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ باقی رہے جناب بہاء اللہ سو ان کی تیار کردہ کتاب الاقدس کو جو اہل بہاء کی شریعت ہے ۔ آپ لوگوں نے آج تک شائع نہیں کیا۔ پھر کس طرح کہا جاسکتا ہے ۔ کہ ان تحریروں میں کسی قسم کی کمی اور بیشی آپ لوگ نہیں کر رہے ۔
کیا یہ عجب بات نہیں کہ آپ لوگوں نے عمداًاصل کتابیں شائع نہیں کیں ۔ کیونکہ جناب بہاء اللہ نے آپ کو حکم دے رکھا ہے ۔
استم ذھبک وذھابک و مذھبک ،‘‘
’’کہ اپنے مال ۔ آمدروفت اور مذہب کہ مخفی رکھو‘‘ ( بھجۃ الصدور صفحہ ۸۳)
اور پھر بنا ء گفتگو یہ ٹھہرا رہے ہیں کہ ہم صرف باب بہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریروں کو تسلیم کرتے ہیں ۔
جناب ابوظفر صاحب صرف تحریروں کو حجت قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ بہائی عقیدہ کے مطابق ان لوگوں کا قول بھی وحی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ تنگی دامن کا رویہ کسی مصلحت کے ماتحت تو اختیار نہیں کیا جا رہا ہمیں ہی یہ شکایت نہیں کہ بہائی لوگ اپنے اصلی لٹریچر کو شائع نہیں کرتے بلکہ خو د بہائی بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔ چنانچہ جناب حشمت اللہ قریشی بہائی لکھتے ہیں ۔
’’عام طور پر حضرت باب حضرت بہاء اللہ اور حضرت عبدالبھا ء کی کتابوں کے کامیاب ہونے کی وجہ سے بعض تاریخی اور تعلیمی غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں ۔(رسالہ بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۲)
ابو ظفر صاحب کہتے ہیں کہ :
’’بہائیوں کی تاریخ باب الحیاۃ یا مقالہ ساح یا عصر جدید یا اس قسم کی دوسری کتابیں ہیں جو بہائیوں کو مسلم ہیں ان کے ذریعہ بہائیوں پر اتمام حجت ہو سکتی ہے ۔
اول تو یہ سوال ہے کہ آیا یہ کتابیں باب یا بہاء اللہ یا عبدالبھا ء کی تحریریں ہیں ۔ مقالہ سیاح کو محقیقین تو عبدالبھاء کی تصنیف قرار دیتے ہیں ۔ مگر بہائی اس کا کھلا اعتراف نہیں کرتے ۔ عصر جدید تو اس امریکن بہائی کی کتاب کا ترجمہ ہے ۔ اگر بہائیوں کو صر ف باب یا بہاء اللہ اور عصر البھاء کی تحریریں ‘‘ہی مسلم ہیں ۔ تو ان تاریخی کتابوں سے ان پر اتمام حجت کیونکر ہو گا ؟
یہ امر بھی موجب حیرت ہے کہ ابوظفر صاحب جناب علمی بہائی کے رسالہ کو کب ہند کے حوالہ جات ماننے سے بھی گزیر کر رہے ہیں ۔ حالانکہ جناب علمی کو ان بہائیوں میں صاحب البیعت ‘‘ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔
ابو ظفر جناب پروفیسر برائون پر ناراض ہیں کہ انہوں نے نکتہ انکاف میرزا کاشانی کی شائع کردی جس سے یابی اور بہائی تحریک کے بہت سے تاریک پہلو نمایاں ہو گئے حالانکہ پروفیسر برائون اہل بہاء کے نزدیک خاص مقرب شخص تھے جنہوں نے بابی اور بہائی تاریخ کا قریب سے مطالعہ کیا تھا۔ اس بارے میں عصر جدید کے مصنف نے لکھا ہے ۔
سوائے پر وفیسر برائون کی ملاقات کے جنہوں نے ۱۸۹۰ء میں چار مرتبہ آپ (بہاء اللہ) سے ملاقات فرمائی اورہر متبہ ۲۰ یا۳۰منٹ تک آپ کے حضور میں رہے ۔ آپ نے کسی متنور مغربی اہل خیال سے ملاقات نہ فرمائی تھی ۔
(عصر جدید اردو صفحہ ۵۶)
ان حالات میں ابوظفر کی ناراضگی حقائق کو بدل نہیں سکتی ۔ اور تاریخی واقعات کو اس قسم کی حرکات سے مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم ابو ظفر صاحب کو یقین دلاتے ہیں ۔ کہ ہم آپنے جوابا ت میں کوئی ایساحوالہ یا ایسی عبارت ان پر اتمام حجت کے طور پر پیش نہ کرینگے جوان کے مسلمات میں نہ ہو۔ اگرچہ ہمارے نزدیک بہت سے حقائق دوسرے مقامات پرمذکور ہیں ۔اور ہم انہیں عندا لضرورت ذکر کرتے ہیں ۔
اس یقین دہانی کے ساتھ ساتھ ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ کہ ابوظفر صاحب نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بات کرتے وقت اصول کو مدنظر نہیں رکھا ۔ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ۔ گویا ان کے دینے کے باٹ اور ہیں اور لینے کے اور اس حقیقت کا بیان ہمارے جوابات کے آئندہ صفحات میں آپ کی نظر سے گزر ے گا ۔
صادق مدعی کی ایک علامت
جناب ابو ظفر صاحب نے دیباچہ کے بعد بابیت اور بہائیت کی سر سری ا و ر غیر مستند تاریخ میں چند سطور لکھنے کے بعد یہ سوال اٹھایا ہے ۔ کہ صادق مدعی کی یہ علامت ہوتی ہے ۔ کہ وہ تمام مدعیوں میں پہلا دعویٰ کرنے والا ہوتا ہے ۔ نیز چونکہ باب و بہاء نے مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام سے پہلے کیا تھا۔ اس لئے ثابت ہوا کہ باب و بہاء کا دعویٰ سچا تھا ۔ حضرت میرزا صاحب نے صرف ان کی نقل کی ہے ۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی عبارتیں ۔
ابوظفر نے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ صادق مدعی کا دعویٰ سب سے پہلے ہوتا ہے ۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی کتاب چشمہ معرفت کتاب ضرورۃ الاسام سے نیز اخباربدر سے حوالے پیش کئے ہیں ۔ ابوظفر صاحب نے حوالہ جات کے نقل کرنے میں پوری احتیاط نہیں کی رہم پہلے متعلقہ عبارتیں اصلی کتاب سے درج کرتے ہیں:۔
۱۔ منجملہ لوازم خاصہ کے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے زمانہ میں اس کا ظہور سب مدعیوں سے پہلے ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ نبیوں کا نام ونشان نہ تھا۔ اورجب ان کا نورزمین پر خوب روشن نہ تھا ۔ تب مسیلمہ کذاب اوراسود عنسی اورابن صیاد وغیرہ جھوٹے نبی ظاہر ہوئے تاجداد دکھاوے کہ کس طرح وہ سچے کی حمایت کرتا ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ ۔ سچے نبی کے ظہور کیوقت بارش کے موسم کی طرح آسمان پرانتشار روحانیت ہوتا ہے ۔ اوراکثر لوگوں کو سچی خوابیں آنی شروع ہوجاتی ہے۔ الہام بھی ہونے لگتے ہیں۔ اس دھوکہ سے بعض جھوٹے نبی اپنی حد سے بڑھ کرنبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۰۱ حاشیہ )
۲۔ ہمارے نبی ﷺ نے امام آخر الزماں کی ضرورت ہر ایک صدی کے لئے قائم کی ہے۔ اورصاف فرمادیا ہے۔ کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا۔ کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا۔ وہ اندھا آئے گا۔ اورجاہلیت کی موت پر مریگا۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے کسی علہم یا خواب بیں کا استثنیٰ نہیں کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے۔ کہ کوئی علہم یاخواب بین ہواگروہ امام الزماں کے سلسلہ میںداخل نہیں ہے۔ توا س کا خاتمہ خطر ناک ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے مخاطب تمام مومن اورمسلمان ہیں ۔ اوران میں ہرایک زمانہ میں ہزاروں خواب میں اورعلہم بھی ہوتے آئے ہیں۔ بلکہ سچ تویہ ہے۔ کہ امت محمدیہ میں کئی کروڑ ایسے بندے ہونگے ۔ جن کو الہام ہوگا ۔ پھر ماسوااس کے حدیث وقرآن سے ثابت ہے۔ کہ امام الزماں کے نور کا ہی پر تو ہوتا ہے۔ جومستعددلوں پر پڑتا ہے حقیقت یہ ہے۔ کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے۔ توہزاررہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں۔ اورآسمان میں ایک صورت انبسامی پیدا ہوجاتی ہے ۔ انتشار روحانیت اورنورانیت ہوکر نیک استعداد یں جاگ اٹھتی ہیں۔ پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتاہے۔ اس کو سلسلہ الہام شروع ہوجاتاہے ۔ اورجوشخص فکروغور کے ذریعہ سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کے تدبر اورسوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اورجس کوعبادت کی طرف رغبت ہو اس کو تعبداور پر ستش میں لذت عطا کی جاتی ہے۔ اورجو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحتات کرتا۔ اس کو استدلال اوراتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ جوامام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اورہرایک مستعد کے دل پر نازل ہوئی ہے۔ ‘‘
(ضرورۃ الامام صفحہ ۴)
۳۔ فرمایا پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں بھی بہت سے جھوٹے نبی پید اہوئے تھے ۔مگر جھوٹا ہمیشہ بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ سچا پہلے ظاہر ہوجاتاہے۔ توپھر اس کی ریس کرکے جھوٹے بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے دعویٰ سے پہلے کوئی نہیں کہ سکتا کہ کس نے اس طرح خدا تعالیٰ سے الہام پاکر مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہو ۔ مگر ہمارے دعویٰ کے بعد چراغ دین اورعبدالحکیم اورکئی ایک دوسر ے ایسے پیدا ہوگئے ہیں۔
(بدریکم اگست ۱۹۰۷ء جلد ۶)
(نمبر ۳۱صفحہ ۱۰)
جناب ابوظفر صاحب کشمیر ی ان حوالہ جات کے بعد لکھتے ہیں :۔
’’ازالہ وہام ایڈیشن ثالث صفحہ ۲۷۹ نورالحق جلد دوم صفحہ ۱۵ ‘وصفحہ ۱۶۰ وخطبہ الہامیہ صفحہ ۱۲۴ و اخبار بدرقادیان جلد ۶ نمبر ۳۱ ۱۹۰۷ء پر بڑے زوردار الفاظ میں فرماتے ہیں۔ کہ مسیح موعود کا ظہور چودھویں صدی سے پہلے یا چودھویں صدی کے سرپر ہوگا۔ اس سے تجاوز نہ کرے گا۔ یہ عاجزایسے وقت میں آیا ہے۔ جس وقت میں مسیح موعود کو آنا چاہیئے تھا۔ دوسرے ملکوں میں یہاں تک کہ بلاد عرب شام ایسے مدعی کے وجود سے خالی ہیں۔یہ دعویٰ تیرہ سوبرس سے آج تک بجز اس عاجز (مرزاصاحب )کے کسی نے نہیں کیا ہے۔ ‘‘
گویا آپ کا سوال یہ ہے کہ جب باب اوربہاء اللہ نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام سے پہلے مہدی اورمسیح ہونے کا دعویٰ کررکھا تھا۔ توحضرت مرزا صاحب یہ کس طرح کہتے ہیں۔ کہ ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا۔ نیز یہ کہ پہلے دعویدار ہونے کے باعث باب اوربہاء اللہ کو سچا ماننا چاہیئے ۔
اس سوال کے جواب کی وضاحت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حوالہ جات خاص طور پر قابل توجہ ہیں ۔ حضور تحریر فرماتے ہیں :۔
(الفؔ)مجھے عین چودھویں صدی کے سر پر جیسا کہ مسیح ابن مریم چودھویں صدی کے سرپر آیا تھا۔ مسیح الاسلام کرکے بھیجا ۔ اورمیرے لئے اپنے زبردست نشان دکھلا رہا ہے اور آسمان کے نیچے کسی مخالف مسلمان یا یہودی یا عیسائی وغیرہ کو طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کرسکے ۔ ‘‘
(کشتی نوح ؑ صفحہ ۵۰)
(بؔ)’’اس آیت کی تشریح میںیہ حدیث ہے ۔ لوکان الایمان معلقا ً بالثر یالسنالہ رجل من فارس
اورچونکہ ا س فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے۔ جو مسیح موعوداورمہدی سے مخصوص ہے۔ یعنی زمین جو ایمان اورتوحید سے خالی ہوکر ظلم سے بھر گئی ہے۔ پھر اس کو عدل سے پر کرنا ۔ لہذا یہی شخص مہدی اورمسیح موعود ہے اوروہ میں موں اورجس طرح کی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پرنہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سوبرس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ دعویٰ نہیں کیا ۔ کہ اس پیشگوئی لنالہ رجل من فارس کا مصداق میں ہوں ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸ طبع سوم )
دونوں دعووں میں فرق
ان دوعبارتوں کو ابوظفر صاحب کے ذکر کردہ حوالہ جات کے ساتھ ملانے سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مدعیوں کا ذکر فرمارہے ہیں۔جن کے دعویٰ کی نوعیت اورکیفیت ایک ہو۔ اوروہ ایک ہی زمانہ اورعلاقے میں ہوں جن کے بارے میں باسبدایت سمجھا جاسکے ۔ کہ پہلے مدعی کے بعد دوسروںنے اس کی ریس کرکے دعوے کئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے مدعیوں میں سے پہلے دعویٰ کرنے والے کو ترجیح حاصل ہوگی۔ اوراگر دیگر دلائل صداقت کے لوازم خاصہ میں سے ایک بھی شمار ہوگا۔ کہ اس نے سب سے پہلے دعویٰ کیا ہے۔
اس وضاحت کی روشنی میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ چونکہ باب اوربہاء نے حضرت میرزا صاحب سے پہلے دعویٰ کردیا تھا ۔ اس لئے کیوں نہ ان کو صادق سمجھا جائے اورحضرت میرزا صاحب کو ان کی ر یس کرنے والا قرار دیا جائے کیونکہ بہائیوں کے پیشوائوں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے ٰ میں زمین وآسمان کا فر ق ہے یا درہے کہ :۔
(۱)باب اوربہاء نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے ماتحت کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ وہ تواپنے ہر قول کو الہام دوحی قرار دیتے تھے۔ اوران کا دعویٰ اسی طرح الوہیت کا دعویٰ تھا جس طرح عیسائی حضرت مسیح کو اللہ اورابن اللہ قرار دیتے ہیں۔
(۲)باب اوربہاء نے مہدی اورمسیح کو الگ الگ قرار دیا اورایک ایک دعویٰ اپنالیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح اورمہدی کو ایک وجود قرار دیکر خود دعویٰ فرمایا
(۳)باب اوربہاء کے دعووں کا مقصد یہ تھا ۔ کہ قرآن مجید منسوخ ہوگیا۔ اب نئی شریعت البیان یاالاقدس پر عمل کرنا چاہیئے ۔ اسلام بھی منسوخ اس لئے یہ لوگ تومسیح الاسلام نہ تھے۔ بلکہ ناسخ الاسلام تھے ۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نصب العین یہ تھا۔ کہ قرآنی شریعت محکم زندہ اورقائم ہے ۔ اوراسلام زندہ مذہب ہے۔ حضور تحریر فرماتے ہیں۔
(الفؔ)’’ خدا تعالیٰ اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے ۔ اورمحمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے۔ اوراپنی شریعت چلانا چاہتاہے۔ ‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۴)
(ب)اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تینسخ یاکسی ایک حکم کا تبدیل یا تغیر کرسکتا ہو ۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے ۔تووہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اورملحداورکافر ہے۔‘(لفالہ ادہام صفحہ ۶۰ ،صفحہ ۶۱)
اس صورت حالات کی موجودگی میں کوئی انتہائی فریبی یا فریب خورہ انسان ہی کہہ سکتاہے کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام باب وبہاء کے دعویٰ کی نقل کی ہے۔
جب بہاء اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ تویہ کہنا کہ چونکہ بہاء نے پہلے دعویٰ کردیا تھا۔ اس لئے انہیں بہر طو ر سچا مانا جائے گا۔ اورحضرت مرزا صاحب کو بہرحال ان کی نقل کرنے والا ٹھہرایا جائے گا۔ انتہائی غلط بیانی ہے۔ پس ابوظفر صاحب کے تقدیم وتاخر دعویٰ والے سوال کا پہلا جواب تویہ ہے۔
سچے مسیح موعود سے پہلے جھوٹے مدعیوں کا وجود ضروری تھا
دوسرا جواب ابوظفر صاحب کے سوال کا یہ ہے کہ مشابہت اورپیشگوئیوں کے مطابق ضروری تھا۔ کہ سچے مسیح موعود سے پہلے کا ذب مدعی پیدا ہوئے تھے ۔ گملی ایل فریسی نے تبلیغ کرنے والے حواریوں کے متعلق کہاتھا کہ
’’اے اسرائیلیو! ان آدمیوں کے ساتھ جوکچھ کیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا ۔ کیونکہ ان دنوں سے پہلے تھیوداس نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں بھی کچھ ہوں اورتخمینا ً چار سوآدمی اس کے ساتھ ہوگئے تھے مگر وہ مارا گیا۔ اورجتنے اس کے ماننے والے تھے سب تتر بتر ہوگئے ۔ اورمٹ گئے۔ اس شخص کے بعد یہوداہ گلیلی اسم نویسی کے دنوں میں اٹھا ۔ اورکچھ لوگ اپنی ف کرلئے وہ بھی ہلاک ہوا ۔۔۔۔ الخ (اعمال 5\38,36)
پس مسیح موعودؑ کی مسیح ناصری ؑ سے مشابہت کے باعث تھیود اس اوریہوداہ گلیلی کے مظہر باب وبہاء کا آپ سے پہلے کا ذب مدعی ہونا ضروری تھا پیشگوئیوں میں اسے احادیث نبویہ میں تفریح موجود ہے ۔ کہ مسیح الدجال پہلے ظاہر ہوگااوردین اسلام میں نقص پیدا کرنے کی کوشش کریگا اورپھر مسیح الموعو د مبعوث ہوگا جواسلام کو زندہ کریگا اس لحاظ سے بھی باب بہاء کا دعویٰ پہلے ہونا لازمی تھا ۔ چنانچہ ایساہی ہوا ۔ زہر کے بعد نزیاق اوربیماری کے بعد علاج کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگیا۔الحمد اللہ (باقی آئندہ )
( ماہنامہ الفرقان جون جولائی 1959 )