ایک اور حدیث میں امام بیہقی نے ‘‘من السماء’’کے الفاظ بھی ذکر کئے ہیں دیکھوبیہقی الاسماء والصفات صفحہ424)
دوسرا حوالہ معترض نے صحیح مسلم کا پیش کیا ہے۔جب اسے دیکھتے ہیں تو اس میں بھی آسمان کا لفظ موجود نہیں۔یہ معترض کا دوسرا بڑا جھوٹ ہوا۔
چوتھاحوالہ معترض نے امام بیہقی کی کتاب سے پیش کیا ہے۔جو حضرت مرزا صاحب کی وفات کے بعد شائع ہوئی اور مولوی حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے چیلنج کا جواب دینے کی خاطراس ظلم اور خیانت کے مرتکب ہوئے کہ اس کتاب میں از راہ تحریف خود ‘‘السماء’’کے لفط کا اضافہ کر دیا اور یوں رسول اللہﷺ کی حدیث پوری کرنے والے بن گئےکہ میری امت کے لوگ یہود کی پیروی کریں گے۔یعنی ان کی طرح تحریف بھی کریں گے۔
ملاحظہ ہو حضرت مرزا صاحب کی وفات 1326ھ کے بعد شائع ہونیوالےقلمی نسخہ مطبوعہ1328ھ مطابق 1910ءمیں ‘‘السماء’’کا لفظ ہے۔۔۔جوالحاقی ہے اور بعد کا اضافہ ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہےکہ علامہ سیوطی (متوفی911ھ)کے زمانہ میں بیہقی میں ‘‘السماء’’کا لفظ نہ تھا۔چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب ‘‘در منثور’’ میں اس روایت کو امام احمد،بخاری اورمسلم سے بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ امام بیہقی نے اس کو اپنی کتاب ‘الاسماء والصفات’’ میں بیان کیاہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔
اس میں ‘‘سماء’’ کا لفظ موجود نہیں ہے۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ ‘‘من السماء’’ کی عبارت زائداور بعد کی ایجادہے۔
اور معترض کے جھوٹ کےالزام لگانے کے شوق میں خود کئی جھوٹ پکڑے گئے۔حضرت مرزا صاحب کی سچائی ثابت ہوئی جنہوں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اپنی رائے سے تفسیر بنا کر پیش نہ کرو ورنہ بہت جلد پکڑے جاؤگے۔
اعتراض:۔
‘‘ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام تورات پڑھی تھی۔’’
(ایام الصلح- خزائن جلد14صفحہ394)
اس عبارت میں مرزا جی نے اللہ تعالیٰ کے دو برگزیدہ نبیوں پر جھوٹ بولا ہے۔اول تو مرزا جی کو خود اعتراف ہے کہ انبیاء علیہھم السلام کا کوئی انسان استادیا اتالیق نہیں ہوتا۔وہ تمام علوم اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل کرتے ہیں۔دیکھو براہین احمدیہ۔لکھا ہے:
‘‘اورتمام نفوس قدسیہ انبیاءکو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔’’
(براہین احمدیہ، خزائن جلد اول صفحہ16)
مرزا جی خود ہی جھوٹ بولتے ہیں اور خود ہی اس کی تردید بھی کرتے ہیں۔سچ ہے دروغ گو را حافظہ نباشد۔جن مکتبوں میں بیٹھ کر اور جن اساتذہ سے حضرت موسیٰ و عیسٰی علیہم السلام نے پڑھا ہے۔ ذرا اس کا حوالہ تو پیش کرو۔مگر ہوتو پیش کریں۔کتنا کھلا جھوٹ ہے”
جواب:۔
اس اعتراض کے دو حصے ہیں۔پہلا یہ کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ جن مکتبوں میں پڑھے ان کا حوالہ پیش کرو۔ورنہ معترض کے نزدیک حضرت موسیٰ و عیسیٰ بھی نبی کریمﷺکی طرح‘‘اُمّی’’تھے۔
حالانکہ الرسول النبی الامّی کا خطاب اور مقام تو قرآن ہے کہ ‘‘لا تخطّہ بیمینک’’ کے مطابق آپﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ‘‘اُمّی’’صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاامتیاز اور شان ہے۔اورمَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ(الشوریٰ:53)کےمطابق آپ کو کتاب اور اسے پڑھنے کا علم نہ تھا۔چنانچہ جب جبریلؑ نے آپ کو ‘‘اِقرأ’’کہا تو فرمایا ‘‘ما انا بقاریٔ’’میں پڑھا ہوا نہیں۔مگر آپﷺ کی عظمت و شان اور کمال یہ ہے جن کو تمام دنیا کا معلّم کتاب و حکمت بنایا گیا۔کیا خوب فرمایا:
امی و در علم وحکمت بے نظیر
زیں چہ باشد حجتی روشن ترے
رسول اللہﷺ کی یہ امتیازی شان حضرت مرزا صاحب نے دیگر انبیاء کے مقابل پر بیان فرمائی ہے۔
اعتراض کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو خود اعتراف ہے کہ تمام نفوس قدسیہ انبیاءکو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔(براہین احمدیہ، خزائن جلد اول صفحہ١٦) خود ہی جھوٹ بولتے ہیں اورخودہی اس کی تردیدبھی کردیتےہیں کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ نے اساتذہ سے پڑھا ہے۔
معترض اپنی کم فہمی کا الزام ناحق حضرت مرزا صاحب کو دیتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مرزا صاحب نےتحریر فرمایا‘‘روحانی علوم و فیوض میں نبی کا کوئی دنیاوی استاد نہیں ہوا کرتا،جس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیوی علوم بھی وہ اہل دنیا سے نہیں سیکھتے۔یہ بات تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔
حضرت ادریس کے بارہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ پہلا نبی تھا جس نے قلم سے لکھنا سیکھا۔(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب ما جاء فی الطاعات وثوابھا جزء دوم صفحہ76)اسی طرح حضرت اسماعیلؑ کے بارہ میں لکھاہےکہ وہ عراق سے ہجرت کر کے حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ آئے تو ان کی زبان عبرانی تھی۔ وَشَبَّ الغُلاَمُ وَتَعَلَّمَ العَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ، (بخاری کتاب الانبیاء)انہوں نے جرہم قبیلہ سے عربی زبان لکھنا پڑھنا سیکھی۔رسول اللہﷺ میں اور دیگر انبیاء میں یہ فرق ہے کہ آپؐ پر کامل امّیت غالب تھی۔آپ نے ظاہری و باطنی اور دنیوی و روحانی کوئی علم کسی انسان سے نہیں سیکھا۔جبکہ دیگر انبیاء نے لکھنا پڑھنا اور دنیوی علوم اپنے زمانہ کے اہل علم لوگوں سے سیکھے جو کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ صرف روحانی علوم میں نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا مگر نامعلوم کیوں معترض کو اپنے نبی پاک رسول اللہﷺ کی یہ شان منظور نہیں اور آپ کی یہ شان چھین کر انبیاء بنی اسرائیل حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی دینا چاہتا ہے۔اہلحدیث اور امت محمدیہ کا فرد ہونے کا مدعی ہو کر اپنی امّت کے نبی کی فضیلت بلا ثبوت غیروں کو دینے پر انّا للہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔حالانکہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰؑ پڑھے لکھے تھے۔
معترض نے نہایت بے باکی سے حضرت موسیٰ کے مکتب یا استاد کا حوالہ طلب کیا تھا۔لیجئے حوالہ پیش ہے:
‘‘موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کلام اور کام میں قوت والا تھا۔’’
(اعمال باب 7 آیت22)
بلکہ‘‘آپؑ کو مذہبی رہنما کے طور پر تعلیم دی گئی اور آپ کو کافی حد تک مصری،کلدانی،اسیری اور یونانی لٹریچر سکھایا گیا تھا۔’’
(The Old Testament History by William Smith p.138)
کاش!معترض نے قرآن غور سےپڑھا ہوتا تو انہیں علم ہوتا کہ موسیٰ نے اللہ کے ایک نیک بندے کے آگے زانوئے تلمّذتہہ کیا تھا۔جسے مفسرین خضر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔گویا وہ مکتب خضر کے تعلیم یافتہ تھے۔قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے خضر کے پاس جاکر یہ درخواست کیهَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(کہف:67) مجھے اس شرط پر اپنے ہمراہ شریک سفر ہونے کی اجازت دیں کہ جو علم و رشد آپ کو سکھایا گیا ہے۔وہ علم آپ مجھے بھی سکھائیں۔اس استاد کامل نے پہلے تو تردّد کیا کہ اے موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے پھرکوئی سوال نہ کرنے کی شرط کے ساتھ حضرت موسیٰ کو اپنی شاگردی میں لیا۔
پھر حضرت موسیٰ کو جو شریعت دی گئی وہ الواح میں تحریر شدہ تھی۔فرمایا: وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ(الاعراف:146) یعنی ہم نے موسیٰ کے لیے الواح میں ہر قسم کی نصیحت لکھی۔اگر وہ پڑھے نہ تھے تو الواح مرقومہ کی صورت میں شریعت کے مکلّف کیسے ہوگئے؟وہ تو الواح اپنے ساتھ رکھتے تھے۔فرمایا: أَخَذَ الْأَلْوَاحَ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ (الاعراف:155) کہ موسیٰ نے الواح اٹھائیںٍ جن میں ہدایت و موعظت تحریر تھی۔
الواح کا مطالعہ اور ابلاغ حضرت موسیٰ کے پڑھنے لکھنے کے بغیر ممکن نہیں۔
یہی حال حضرت عیسیٰ کا ہے۔انجیل شاہد ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔
یہودی و عیسائی محققین کے نزدیک پہلی صدی قبل مسیح تک بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مدرسوں کا نظام موجود تھا جس میں بچوں کو درساً بائبل پڑھائی جاتی تھی۔‘‘پہلی صدی عیسوی تک صرف یروشلم میں 480 کے قریب ایسے ادارے قائم ہوچکے تھے۔۔۔۔۔اور پہلی صدی عیسوی میں اکثر یہودی بچوں کو انہیں مکتبوں میں رسمی تعلیم دی جاتی تھی۔’’
(The Galilean Jewishness of Jesus by Bernard J. Lee page:122)
یہود ان اداروں کو ‘‘بیت المدراس’’ کہا کرتے تھے۔(بخاری کتاب الجزیة باب اخراج الیہود من جزیرة العرب)
ایک مشہور امریکی محقق Mark L. Straussکی عبارت کا مفہوماً ترجمہ یہ ہے:‘‘اکثر یہودی بچوں کی طرح یسوع کو بھی مقامی سناگوگ(معبد) میں جہاں صحائف اور عبرانی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے تعلیم دی گئی ہوگی۔ہمیں اس کے ناصرة میں خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پڑھ سکتا تھا۔’’
(Jesus’ Literacy by Chris Keith page:12)
‘‘وہ ناصرةمیں آیا جہاں اس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادت خانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔اور یسعیاہ نبی کی کتاب اس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اس نے وہ مقام نکالا جہاں یہ لکھا تھا کہ خداوند کا روح مجھ پر ہے۔۔۔پھر وہ کتاب بندکرکے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا۔
(لوقاباب 4آیات16تا20)
ایک اور کتاب میں ہے:
“Like other boys in his village, from the age of six to ten Jesus became literate in Hebrew through study of the Torah in the Nazareth synagogue and he memorized vast quantities of scripture.”
(The New Testament in Antiquity by Gray M.Burge,Page :128-129)
یعنی اپنے گاؤں کے دیگر بچوں کی طرح 6 سے 10 سال کی عمر تک یسوع ناصرہ کے سینا گوگ میں تورات پڑھ کر عبرانی سیکھ گیا تھا اور اس نے صحائف کا کافی حصہ یاد کر لیا تھا۔’’
1۔حدیث نبویؐمیں ہے:وھو أول من خط بالقلم
(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب ما جاء فی الطاعات وثوابھا جزء دوم صفحہ76)
ترجمہ:ادریس ہےاوروہ پہلاشخص ہےجس نےقلم سےلکھناشروع کیا۔
2۔سیرۃابن ہشاممیں ہے:”یہی ادریس پیغمبرہیں اوران ہی کوپہلےنبوت ملی اورانہی نےقلم سےلکھناایجادکیا۔”
(سیرۃابن ہشام مترجم اردو جلد اول صفحہ١مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہورومطبوعہ مطبع جامعہ عثمانیہ حیدرآباددکن1367ھ)
3۔ حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
”انّہ علیہ السلامُ لم یکن من أھل القرأۃ والکتابۃ فلو نُزِّل علیہ ذالک جملۃ واحدۃ کان لا یضبطہ، ولجاز علیہ الغلط والسھو وانما نزلت التوراۃ جملۃ لأنھا مکتوبۃ یقرء ھا موسیٰ”
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ472مطبوعہ مطبع اول۔نیاایڈیشن جلد 24صفحہ78مصرزیرآیت بالاالفرقان :23)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے ہوئے نہیں تھے۔۔۔لیکن تورات جوبیک وقت نازل ہوگئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لکھی لکھائی تھی اور حضرت موسیٰ پڑھنا جانتے تھے۔
4۔ تفسیربیضاویزیرآیت الفرقان :23لکھاہے: کذلک أنزلناہ مفرقا لنقوی بتفریقہ فؤادک علی حفظہ وفہمہ لأن حالہ یخالف حال موسی وداود وعیسی حیث کان علیہ الصلاۃ و السلام أمیا وکانوا یکتبون۔
(بیضاوی جزء اول صفحہ216زیر آیت الفرقان 23)
یعنی ہم نے ایسے ہی قرآن مجید کو بیک وقت نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے۔۔۔۔یہ اس لیے ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ علیہ السلام سے مختلف تھا بدیں وجہ کہ آپ ”امی” تھے مگر موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ علیہم السلام لکھے پڑھے ہوئے تھے۔
5۔ تفسیرحسینیمیں ہے:
”حضرت موسیٰ اورحضرت داؤدعلیہماالسلام پرکتاب جوایک باراتری تووہ لکھتے پڑھتے تھے اور ہمارے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم وآلہٖ اجمعین امی تھے۔”
(تفسیر حسینی مترجم اردو جلد دوم صفحہ140زیرآیت ورتلناہ ترتیلا)
6۔پڑھالکھاہونامنصب نبوت کےخلاف نہیں ہے۔حضرت موسیٰ اورحضرت عیسیٰ کے حالات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ پڑھےلکھے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سرنبوت کی تفصیل و شرح اور علوم باطنی کے سب سے بڑے راز دان تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم کے سوا کسی غیر کی تعلیم کا منت کش بنانا گوارا نہ فرمایا۔ چنانچہ گذشتہ آسمانی کتب میں بھی امی کے لقب کے ساتھ آپ کی بشارتیں دی گئیں۔
(تاریخ القرآن مصنفہ حافظ محمد اسلم صاحب جے۔ راج پوری مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحہ 13-14باختلاف الفاظ مطبوعہ مطبع فیض عام علیگڑھ1326ھ زیرعنوان تمہید)
پس النبی الامّی صرف رسول اللہ کی شان اقدس ہے۔بقای انبیاء دنیوی علوم اہل دنیا اور اہل علم سے سیکھتے رہے۔ہاں علم لدنی و روحانی میں کسی نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا۔علم الہٰی،اخبار غیبیہ اور وہ روحانی معارف وحقائق جو انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے جاتے ہیں اور وہ ہر وقت جبریلی تجلی کے نیچے ہوتے ہیں اور تمام انبیاء بروزی طور پر ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی کے مصداق ہوتے ہیں۔جیسا کہ ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ ﷺاس کے اکمل و اتم مصداق تھے۔اور حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:
’’ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی اُستادسے نہیں پڑھا تھا ۔۔۔ غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے کسی اُستاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی اُستاد ہوا اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اِقْرَءْ کہا۔ یعنی پڑھ ۔ اور کسی نے نہیں کہا اِس لئے آپ نے خاص خداکے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی۔‘‘
(ایام الصلح- روحانی خزائن جلد14صفحہ394)
اب یہ حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد ملاحظہ فرمائیے کہ جھوٹ کا مرتکب کون ہوا؟ اگر معترج کا موقف مانا جائے تو حضرت موسیٰ،حضرت ادریس،حضرت اسماعیل کی نبوتوں پر بھی اعتراض پڑتا ہے جن کو قرآن سچا نبی قرار دے رہا ہے۔پس مرزا صاحب پر بدظنی کر کے معترض نے دیگر کئی انبیاء پر بھی جھوٹ کی جسارت کی۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ . وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ .
(فصلت:24-25-)
اعتراض:۔
‘‘اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہو گا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہو گا’’
(اربعین نمبر 2خزائن جلد 17صفحہ 371)
اس عبارت میں لفظ‘‘قطعی مہر’’غور طلب ہے۔یہ انبیاء کرام ہیں جن کی بات قطعی درجےکی ہوتی ہے۔ اولیاءکی بات کہیں قطعی شکل اختیار نہیں کرتی،نہ ہی ان کاالہام شرعی حجت ہوتاہے۔ان کے کشوف ظنی ہوتے ہیں۔ یہ لفظ قطعی بتا رہا ہے کہ پیچھے اولیاء کا لفظ نہ تھا۔ اربعین کے پہلے ایڈیشن میں اس جگہ انبیاء کا لفظ تھا۔ دوسرے ایڈیشن میں لکھا کہ اصل لفظ اولیاء تھا۔پہلے ایڈیشن میں غلطی سے اولیاء کی جگہ انبیاء کا لفظ لکھا گیا ہے اور اب‘‘ روحانی خزائن’’ سے یہ نوٹ بھی اڑا دیا گیا ہے۔ یہ خیانت در خیانت ہے۔چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہونے اورپنجاب والے اولیاء کے کشوف ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
جواب:۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے جب معترض کو حضرت مرزا صاحب کے خلاف کوئی حقیقی اعتراض نہیں ملتا تو وہ سہو کاتب تلاش کرتا ہے۔اب حضرت مرزا صاحب کی85 کتابوں کے ہزاروں صفحات میں کہیں نہ کہیں کوئی سہو کاتب تو مل ہی جاتا ہے۔جس پر یہ بغلیں بجاتے اوراسے جھوٹ یا خیانت قرار دیتے ہیں حالانکہ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوسکتا ہے۔
اب اگر روحانی خزائن کے کسی ایڈیشن میں غلطی سے ‘‘انبیاء’’ گزشتہ کے کشوف کے مطابق چودہویں صدی پر مسیح موعودو مہدی کے ظہور کا ذکر چھپ گیا اور بعد درستی کر کے انبیاء کی بجائے اولیاء لکھا گیا اور بقول معترض یہ وضاحت بھی کر دی گئی کہ اصل لفظ اولیاء تھا غلطی سے انبیاء لکھا گیا تو اس میں کونسی قیامت آگئی۔ہاں اس پر خیانت کا اعتراض بڑا ظلم ہے۔
اور پھرمعترض کا یہ اصرار کہ اصل لفظ انبیاء ہی ہے حالانکہ اس کا فیصلہ مصنف اور اس کے اشاعت کے ذمّہ دار نے کرنا ہے۔خصوصا جبکہ سیاق و سباق اور اندرونی شہادت یہ ثابت کرے کہ اس مقام اور محل پر اولیاء کا لفظ ہی درست ہے تو اعتراض بالکل ختم ہو جاتا ہے۔جیسا کہ حوالہ میں اولیاء کے کشوف کا ذکر ہے کیونکہ ولیوں کے ساتھ رؤیا و کشوف کا معاملہ زیادہ ہوتا ہے جو نبوت کا 46واں درجہ ہے۔جبکہ انبیاء کو وحی ہوتی ہے جیسے فرمایا: فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ
(الجن:27-28)
معترض کا اولیاء کے کشف و الہام شرعی حجت کی بجائے ظنّی قرار دینا قرآن شریف سے لاعلمی اور جہالت کی بات ہے۔اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے: إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى ۔أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ (طہ:39-40)کہ حضرت موسیٰ کی والدہ کو ہم نے وحی کی کہ حضرت موسیٰ کو صندوق نما کشتی میں رکھ کر سمندر میں ڈال دوپھر فرمایا: وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (قصص:8) اور خوف و غم نہ کرنا ہم خود اسے تمہاری طرف لوٹا کر لے آئیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔
اب اگر معترض کی طرح موسیٰ کی والدہ بھی اس وحی کو حجت شرعی نہ سمجھتیں تو حضرت موسیٰ کی ہلاکت یقینی تھی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ میں نے بعض حواریوں کو وحی کی وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا(المائدة:112)کہ میرے رسولوں پر ایمان لاؤ۔اگر وہ بھی معترض کی طرح حجت نہ سمجھتے توہمیشہ کافر رہتے۔
اولیاء کے کشف و الہام پر ظنّی ہونے کا اعتراض کودراصل خدا کی ذات پر اعتراض ہے جو خودالہام کرنے والا ہے اور وحی و الہام کو مشتبہ کرنے والی بات ہے۔دیکھا خدا کے پیاروں پر اعتراض اور بدظنی سے نوبت کہاں جا پہنچی ہے کہ خدا پر اعتراض،نبیوں پر اعتراض اور ان کو جھوٹا۔۔۔۔
مولوی صاحب کی تسلی کے لئے بزرگان و اولیاء امت کی گواہیاں درج ذیل ہیں:
1۔سورة جمعہ کی آیت وآخرین منھم لمّا یلحقوا بھم کی تفسیر نبی کریمﷺ نے یہ فرمائی کہ ‘‘ایک رجل فارس آکر ایمان کو قائم کرے گا۔اس آیت کے اعداد بحساب جمل 1274ھ بنتے ہیں۔جس میں مسیح موعود کی بعثت کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے۔’’
2۔ھل ینظرون الّا الساعہ ان تأتیھم بغتةّ(الزخرف:67) کہ جس گھڑی کا وہ انتظار کرتے ہیں اچانک آئے گی۔علامہ ابن عربی نے اس سے مراد مہدی لیا ہے اور اقتراب الساعة میں ‘‘بغتة’’ کے اعداد 1407 نکال کر مہدی کا زمانہ مراد لیا گیا ہے۔
3۔حضرت ملّا علی قاری نے حدیث‘‘الآیات بعد المائتین میں ‘‘المائتین’’ سے ایک ہزار سال لیکر مسیح و مہدی کو تیرہویں صدی کا نشان قرار دیا ہے۔
4۔الیواقیت والجواہر میں علامہ عبد الوہاب شعرانی نے مہدی کی پیدائش کا زمانہ 1255ھ لکھا ہے۔
5۔حافط عبد العزیز پرہاڑوی لکھتے ہیں:
درسن غاشی ہجری دو قران خواہد بود
از پئے مہدی و دجال نشان خواہد بود
6۔صاحب کشف حضرت نعمت اللہ شاہ ولی صاحب (834ھ) فرماتے ہیں
غین ری سال چوں گزشت از سال
بو العجب کاروبار می بینم
مہدی وقت و عیسی دوراں
ہر دو شاہسوار می بینم
ترجمہ: جب غین رے ( حروف ابجد کے مطابق اعداد) 1200 سال گزرجائیں گے اس وقت مجھے عجیب و غریب واقعات ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مہدی وقت اور عیسیٰ دوران ہردوکو میں شاہسوار ہوتے دیکھتا ہوں۔
(اربعین فی احوال المھدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید : 2 و 4 )
نویں صدی کے صاحب کشف بزرگ نے فرمایا ہے کہ مجھے یہ دکھائی دے رہاہے گویا اپنا کوئی کشف بیان کر رہے ہیں اور عین ان کے کشف کے مطابق حضرت مرزا صاحب کی پیدائش 1250ھ میں ہوئی ۔یہی حضرت نعمت اللہ ولی اللہ نے فرمایا تھا کہ بارہ سو کے بعد وہ آئیں گے۔اور صدی کے سر پر انکا بطور مجدد ظہور ہونا تھا ۔جیسے کہ اگلے حوالے سے ظاہر ہے ۔
7۔اہلحدیث کے بزرگ عالم نواب صدیق حسن خانصاحب (1307ء) جو کہ اہل حدیث کے معروف عالم اور بزرگ ہیں بلکہ اہل حدیث انہیں اپنے وقت کا مجدد سمجھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
‘‘اب مدت دس ماہ کی ختم تیرھویں صدی کوباقی ہے پھر 1301ھ اور 1884ء سے چودھویں صدی شروع ہوگی اور نزول عیسیٰ و ظہور مہدی و خروج دجال اوّل صدی میں ہوگا۔’’ (ترجمان وہابیہ صفحہ 42-41۔ از نواب صدیق حسن خانصاحب)
8۔ اہلحدیث کے ایک اوربزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1175ء) نے امام مہدی علیہ السلام کی تاریخ ظہور لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جو کہ حروف ابجد کے لحاظ سے 1268 ہے۔(حجج الکرامہ:394)نیز آپ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ قیامت قریب ہے اور امام مہدی خروج کرنے کے لئے تیار ہیں۔ (تفہیمات الٰہیہ جلد 2 صفحہ 160۔ تفہیم نمبر 146 )
9۔ الشیخ علی اصغر ابرو جروی مشہور شیعہ عالم (پیدائش 1231ء) فرماتے ہیں کہ
‘‘سال ”صرغی” میں اگر زندہ رہا تو ملک و ملک و دین میں ایک انقلاب آجائے گا۔ صرغی کے اعداد بحساب ابجد 1300 بنتے ہیں ۔’’
(نورالانوار از شیخ علی اصغر صفحہ 215 )
10۔حضرت حافظ برخوردار صاحب (1093ء) اپنے قلمی نسخہ ”انواع” صفحہ 14میں فرماتے ہیں
پچھے ہک ہزار دے گزرے ترے سو سال
حضرت مہدی ظاہر ہوسی کرسی عدل کمال
11۔ ایک اور اہلحدیث بزرگ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی(1239ء) فرماتے ہیں”بعد بارہ سو ہجری کے حضرت مہدی کا انتظار چاہیے اور شروع صدی میں حضرت کی پیدائش ہے”
(اربعین فی احوال المہدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید آخری صفحہ)
حضرت مرزا صاحب کیا ہی سچ فرماتے ہیں کہ
وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا
اعتراض:۔
‘‘تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لیکر آخیر دنیا کی عمر سات ہزار سال رکھی ہے۔’’
(لیکچر سیالکوٹ ص6، خزائن جلد 20صفحہ 207)
جھوٹ ،بالکل جھوٹ۔قرآن شریف، کتب سماوی اور انبیاء علیھم السلام پر صریح جھوٹ ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہوگی،بلکہ تمام انبیاء اس بات پر متفق ہیں کہ قیامت کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور دنیا کی عمر کتنی ہے۔
‘‘ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن’’
کسی نبی، قرآن مجید یا آسمانی کتاب سے حوالہ پیش کریں۔’’
جواب:۔
معترض نے یہاں بھی دیانتداری سے کام نہیں لیااور حضرت مرزا صاحب کی عبارت کا ادھورا حصہ پیش کر کے اعتراض کر دیا ہے۔اگلی عبارت جس میں اس سوال کا جواب موجود ہے،وہ پیش نہیں کی۔آپ فرماتے ہیں:
‘‘ یہ صحیح نہیں ہے جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں۔پھر آدم سے اخیر تک سات ہزار سال کیونکر مقرر کر دیئے جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں صحیح طور پر فکر نہیں کیا۔ مَیں نے آج یہ حساب مقرر نہیں کیا یہ تو قدیم سے محققین اہل کتاب میں مسلّم چلا آیا ہے۔ یہاں تک کہ یہودی فاضل بھی اس کے قائل رہے ہیں اور قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں بھی باتفاق یہی کہتی ہیں اور آیت وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج:48)سےبھی یہی نکلتاہےاورتمام نبی واضح طورپربھی خبردیتےآئےہیں۔
(لیکچر سیالکوٹ ص6،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 207)
اب اول تو خود حضرت مرزا صاحب نے قرآن شریف کی ایک آیت سے اشارہ دے دیا کہ خدا کے نزدیک ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے اور معترض جو کسی نبی کا حوالہ مانگتا ہے تو سب سے پہلے سید الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰﷺکایہی حوالہ کافی ہے۔جو آپ نے فرمایا کہ دنیا آخرت کے ایّام میں سے کل سات دن ہے یعنی سات ہزار سال۔
چنانچہ دیلمی نے حضرت انسؓ سےیہ روایت کرتے ہوئے اسی آیت کو پیش کیا ہے جو حضرت مرزا صاحب نے پیش کی اور کہا کہ{وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ} [الحج: 47]کا یہی مطلب ہے۔
یہی روایت ‘‘کشف الخفاء’’ میں علامہ عجلونی نے ‘‘مقاصد الحسنة’’ میں علامہ سخاوی نے
‘‘تاریخ جرجان’’ میں علامہ جرجانی نے ‘‘حاوی للفتاویٰ’’ میں علامہ سیوطی نے بیان کی ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث عمر دنیا کے بارہ میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ عمر الدنیا سبعة آلاف سنة کہ عمر دنیا سات ہزار برس ہے۔اس روایت کو علامہ سیوطی (المتوفى: 911ھ)نے اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعةجزء2ص369میں
اور ابن عراق الكناني (المتوفى: 963ھ)نے تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعةجزء2ص379میں
اور حضرت ملا علی قاری ؒ (المتوفى: 1014ھ)نے الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى جزء1ص199
میں بیان کیا ہے۔
حضرت مرزا صاحب کے حوالہ میں یہ بھی ذکرتھاکہ یہودی فاضل بھی سات ہزار سال عمر دنیا کے قائل رہے ہیں۔چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے اور ہمیں ہزار برس کے مقابل صرف ایک دن یعنی کل سات دن عذاب ہوگا۔جیسا کہ ان کا یہ قول قرآن میں بیان ہوا وقالو لن تمسنا النار الاایاما معدودة۔اس سے یہی مرادہے۔
اسی طرح حضرت علیؓ کا قول ہے کہ تورات میں ہے کہ
‘‘الدنیا جمعہ من جمع الآخرة و ھی سبعة آلاف سنة’’
کہ دنیا آخرت کےجمعوں میں سے ایک جمعہ ہے اور وہ سات ہزار سال ہے۔
(فیض القدیر جز ء3صفحہ547)
حضرت علیؓ اورحضرت ابن عباسؓ جیسے معتبرصحابہ کے ان حوالہ جات کے بعد امید ہے اہلحدیث معترض کی تسلّی ہوگئی ہوگی اور حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کی طرح ان صحابہ سےتو کم از کم حوالہ کا مطالبہ نہ کریں گے۔
لیکن بعید نہیں کہ اب معترض ان احادیث پر جن میں دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے،اعتراض کر کےضعیف قرار دے تویاد رکھنا چاہیے اس کے مقابل پر ایک ملہم من اللہ حضرت مرزا صاحب کی اس حدیث کی تصدیق کی بہرحال معتبر سمجھی جائے گی کیونکہ محدثین کے نزدیک یہ امر مسلّم ہے کہ تصحیح حدیث کشف اور الہام کے ذریعہ زیادہ معتبرہے۔
خصوصاً جب کہ دیگر کئی مفسرین و محدثین حضرت مرزا صاحب کی تائید میں یہ حوالے لے کر گویا صف بستہ کھڑے ہیں۔
1۔چنانچہ تفسیرروح المعانی میں علامہ محمود آلوسی میں لکھا ہے کہ ہم مفسرین میں سے ایک کثیر تعداد کے مطابق دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور اس بارہ میں کثیر روایات ہیں۔
اسی طرح تفسیر روح البیان میںعلامہ اسماعیل حقی نےبھی یہی لکھا ہے۔ احادیث کی کتب میں بھی ایسی روایات کثرت سے درج ہیں کنز العمال اور ابن عساکر میں بھی ایسی روایات موجود ہیں ۔
2۔مولوی انور شاہ کشمیری نے بخاری کی شرح فیض الباری میں اس روایت کو کمزور ماننے کے باوجود عمر دنیا سے ایک ہزار سال باقی رہ جانے کا ذکر کیا ہے۔
3۔ مشہور محدث علامہ عبد الرؤوف المناوي القاهري(المتوفى: 1031ھ)نے اپنی کتاب فیض القدیرمیںلکھا ہے کہ چاروں مذاہب یعنی مسلمان ، عیسائی ، صابی اور یہود کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔
(فیض القدیر جز ء3صفحہ547)
جہاں تک معترض کی اس بات کا تعلق ہےکہ ‘‘قیامت کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور دنیا کی عمر کتنی ہے۔’’
اس کا جواب دیتے ہوئےحضرت مرزا صاحب نےایک نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے:
‘‘اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ قیامت کی گھڑی معلوم نہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا نے قیامت کے بارے میں انسان کو کوئی اجمالی علم بھی نہیں دیا ورنہ قیامت کے علامات بھی بیان کرنا ایک لغو کام ہو جاتا ہے کیونکہ جس چیز کو خدا تعالیٰ اس طرح پر مخفی رکھنا چاہتا ہے اُس کے علامات بیان کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ بلکہ ایسی آیات سے مطلب یہ ہے کہ ؔقیامت کی خاص گھڑی تو کسی کو معلوم نہیں مگر خدا نے حمل کے دنوں کی طرح انسانوں کو اس قدر علم دے دیا ہے کہ ساتویں ہزار کے گذرنے تک اِس زمین کے باشندوں پر قیامت آجائے گی۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ہر ایک انسان کا بچہ جو پیٹ میں ہو نو9ماہ دس10 دن تک ضرور پیدا ہوجاتاہے لیکن تاہم اُسکےپیداہونے کی گھڑی خاص معلوم نہیں ۔ اِسی طرح قیامت بھی سات ہزاربرس تک آجائےگی۔مگراُس کےآنےکی گھڑی خاص معلوم نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سات ہزار پورا ہونے کے بعد دو2تین3صدیاں بطورکسورکےزیادہ ہوجائیں جوشمارمیں نہیں آسکتیں۔’’
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21صفحہ259تا291)
اب آخر میں مختصراً یہ ذکرضروری ہے کہ حضرت مرزا صاحب کواپنی کتاب‘‘ایام الصلح’’میں دنیا کی عمر سات ہزار سال بیان کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی اور معترض اس بات پر سیخ پا کیوں ہے؟
دراصل حضرت مرزا صاحب اس حوالہ میں آنحضرتﷺ کی نبوت کے ثبوت بیان فرما رہے ہیں۔ایک ثبوت یہ دیا کہ آپ نے تاریکی کے زمانہ میں مبعوث ہوکر ایک مشرک اور وحشی قوم کو ایسا باخدا انسان بناکردکھایا کہ تمام کی کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے۔آپ کا دوسرا ثبوت نبوت یہ ہے کہ آپ نے دنیا کے سات ہزار سالہ ادوار میں سے ہدایت کے لیے مقرر پانچویں ہزار سال پر آکر توحید کو دنیا میں قائم کیا تھا پھر چھٹا ہزار سال گمراہی کا ہوا اور پھر ساتویں ہزار سال پر جو ہدایت کا ہزار سال ہے مسیح موعود کی آمد مقدر ہوئی۔
اب معترض مرزا صاحب کی مخالفت میں آنحضرت ﷺ کے ثبوت نبوت کے حق میں دی گئی دلیل کو بھی جھٹلاتاہے جس کی تائید واقعات اور قرآن و حدیث کرتے ہیں۔اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے۔
سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں
عمر دنیا کو بھی اب تو آگیا ہفتم ہزار
اعتراض:۔
‘‘وَقَدْ سَبُّوْنِیْ بِکُلِ سَبٍّ فَمَا رَدَدْتُ عَلَیْھِمْ جَوَابَھُمْ۔’’
ومرا از ہرگونہ بسب و شتم یاد کردند۔ پس جواب آن دشنا مہا ندادم
(مواہب الرحمن، خزائن جلد 19صفحہ236 )
‘‘ان(علماء) نےمجھےہرطرح کی گالیاں دیں مگرمیں نےان کوجواب نہیں دیا۔’’مرزا جی کایہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔
مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے کہ:
‘‘میں تسلیم کرتا ہوں مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی ہے لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔’’
(کتاب البریہ، خزائن جلد 13صفحہ11)
اس عبارت میں مرزا جی کا جھوٹ خود ہی پکڑا گیا کہ میں نے کبھی کسی مخالف کو گالی نہیں دی۔حالانکہ کسی کو بخشا نہیں ہے۔
جواب:۔
معترض نےیہاں بھی ادھورا حوالہ پیش کرنے کے علاوہ ترجمہ میں بعض الفاظ چھوڑ کر اپنا اعتراض تراشا ہے۔ترجمہ یہ کیا ہے کہ مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں مگر میں نے ان کو جواب نہیں دیا۔حالانکہ عربی اور فارسی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ صرف یہ درست نہیں۔اصل ترجمہ یہ بنتاہے کہ ان علماء نے مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں۔مگر میں نے ان سب کی گالیوں کاترکی بترکی جواب نہیں دیا۔یعنی جیسا کہ بازاری اور سفلہ لوگوں کا طریق ہوتا ہے۔اور حوالہ کے جو الفاظ چھوڑ دئیے ان سے ان علماء کی گالیوں کی شدّت اور پہل ظاہر ہےکہ میرے دعوے کے جواب میں انہوں نے گالی گلوچ اور فحش گوئی اور تکفیر و تکذیب اور ایذاء رسانی کی اور ہر طرح کی ایسی گالیاں دیں جن کا من و عن جواب میں نے نہیں دیا۔
چنانچہ اس کی مزید وضاحت ‘‘کتاب البریہ’’میں ہے کہ
‘‘مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البریت رکھا ہے۔۔۔۔ہمارے تمام سخت الفاظ جوابی تھے اور نیز ان کے مقابل پر نہایت کم۔’’
(کتاب البریہ صفحہ11-15)
بطور ثبوت صرف علمائے اہلحدیث کی گل فشانیوں کا نمونہ(مطابق کتاب البریہ)
1۔اہلحدیث مولوی میاں نذیر حسین دہلوی المعروف بہ شیخ الکل
(رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر5 جلد13)
نے آپؑ کوملحد۔ دجّال۔ بے علم۔ نافہم۔ اہل بدعت وضلالت۔ (آپ نے اسے یہ الفاظ جواباً نہیں کہے۔)
2۔اہلحدیث مولوی شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ
(اشاعۃ السنہ نمبر یکم لغایت ششم جلد شانز دہم 1893ء)
اہلحدیث مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کو اسلامؔ کا چھپا دشمن۔ اعور دجّال۔رو سیاہ مثیل مسیلمہ و اسود۔ جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق۔ ڈاکو۔ خونریز۔جس کا مرشد شیطان علیہ اللعنۃ بازاری شہدوں چوہڑوں بہائم اور وحشیوں کی سیرت اختیار کرنے والا۔
(آپؑ نےان گالیوں کا جواب ان الفاظ میں نہیں دیا۔)
3۔مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی:
”قادیانی تمام لوگوں سے ذلیل تر۔ آگ میں جھوکا جائے گا۔کجر و بلید فاسد ہے۔ اور رائے کھوٹی۔ گمراہ ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والا۔ چھپا مرتد۔ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ اور نہ یہؔ اسلامی قبرستان میں دفن ہو۔ (حضرت مرزا صاحب نے یہ نہ کہا)
4۔مولوی عبد الحق غزنوی:اشتہار ضرب النعال علیٰ وجہ الدجال3/ شعبان 1314ھ
‘‘دجال۔ ملحد۔ بدکار۔ شیطان۔ ذلیل۔ خوار۔ لعن طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا۔ مارے شرمندگی کے زہر کھا کر مرجاوے گا۔ اس کی سب باتیں بکواس ہیں۔’’ (مرزا صاحب نے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے)
5۔منشی محمد جعفر تھانیسری
(تائید آسمانی 23/ جولائی 1892ء)
‘‘مرزا صاحب دھوکہ باز اور گمراہ کرنیوالا ہے۔’’
6۔اشتہار مولوی محمد و مولوی عبداللہ و مولوی عبدالعزیز لدھیانویاں مطبوعہ 29/ رمضان 1308
7۔ سعد اللہ نومسلم لدھیانوی
(نظم حقانی مسمّی بہ سرائر کادیانی23/ شعبان 1313 ھ)
8۔محمد رضا الشیرازی الغروی شیعی (بُت شکن ۔ مطبوعہ قمر الہند)
الغرض حضرت مرزا صاحب نے قرآنی ارشاد
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا
(الشُّورَى: 41)
کہ بدی کا بدلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے، بدلہ کا کم از کم حق بھی تب استعمال کیا جب مخالفین نے نہایت سخت دل آزاراور توہین آمیز کلمات استعمال کیے۔قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ مِنَ السُّوْءِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ کے مطابق آپ کے لیے ضروری ہو گیا کہ مزید ظلم کو روکنے کے لیے اپنی مظلومیت کا مداوا کریں۔پس حضرت اقدس ؑ نے کبھی بھی اور کہیں بھی ابتداءً کسی مخالف کے متعلق سخت الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ بلکہ سینکڑوں خطوط اور تحریرات کے جواب میں بعض عبارتوں میں کہیں کہیں شاذ کے طور پر بعض الفاظ سخت دکھائی دیتے ہیں۔اور اس میں بھی قرآن و حدیث کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے صرف وہ الفاظ استعمال کیے جس کے وہ لوگ مستحق تھے اور وہ بے محل نہیں تھے۔اس لیے وہ گالی نہیں تھی بلکہ امر واقعہ کا برمحل اظہار تھا۔
حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:
”1۔ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔
2۔اوّل یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پاکر اپنی روش بدلالیں ۔۔۔
3۔ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں کا ردّعمل سخت نہ ہو۔ ”
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ11)
معترض نے بڑی بےباکی سے یہ حوالے پیش کرکے کہا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کا جھوٹ پکڑا گیا۔مگراب بتائیے! جھوٹ کس کا پکڑا گیا۔اور سچا کون ثابت ہوا۔
اعتراض:۔
‘‘مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ کاذب ہے، تو ہم سے پہلے مرے گا۔ اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا۔ کیونکہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے اور اس طرح ان کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا۔ ’’
(اربعین نمبر3صفحہ9خزائن جلد17صفحہ394)
دونوں مولویوں پر افتراء اور جھوٹ مرزا جی نے بولا ہے۔پیروکاران مرزا جی سے سوال ہے کہ ان علماء کی کتابوں سے حوالہ نکال کر دیں ورنہ ((لعنة اللہ علی الکاذبین))
جواب:۔
معترض کے اس اعتراض پر تعجب ہے کہ جب ایک صدی سے زائد عرصہ قبل حضرت مرزا صاحب نے یہ کتاب اربعین شائع کی اور تحریری مباہلہ میں اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم مولوی علامہ غلام دستگیری کی ہلاکت کا ذکر کیا تو اس وقت علماء اہل حدیث نے(جو مرزا صاحب کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھتے تھے)نے یہ سوال نہیں اٹھایا نہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے،نہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے،نہ کسی اور عالم نے،نہ ہلاک ہونیوالے مولوی کےکسی وارث نے۔
آج آپ نے 116سال بعد یہ سوال کیے تو آخر کیوں؟ اس لیے کہ اب اس نشان کو مشتبہ کیا جائے کیونکہ ایک صدی زائدزمانہ گزرگیا،تقسیم ملک ہوگئی۔اب 116 سال قبل لدھیانہ بھارت میں شائع ہونے والے رسالہ فتح رحمانی کا حوالہ حضرت مرزا صاحب کے اتباع کہاں سے پیش کریں گے؟اس لیے بڑی سادگی اور پُرکاری سے کہتے ہیں۔اتباع مرزا سے سوال ہے کہ ان علماء کی کتابوں سے حوالہ نکال کر دکھائیں۔کیونکہ مولوی غلام دستگیر صاحب اہل حدیث کے بڑے عالم تھے۔اب اہل حدیث تو اپنے خلاف یہ کتاب شائع کرنے سے رہے۔
مگر انہیں کیا معلوم کہ جس طرح خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کی تائید کے لیے کس طرح فرشتوں کے ذریعہ تحریک کرواتا ہے۔اللہ بھلا کرے عالمی مجلس ختم نبوت والوں کا جنہوں نے یہ رسالہ فتح رحمانی 116سال بعد دوبارہ شائع کر کے مرزا صاحب کی صداقت پر مہرتصدیق ثبت کر دی اور یوں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
بے شک جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر اہلحدیث دیوبندی بریلوی حضرات کے ساتھ تمام اختلاف بھلا کراکٹھے ہوجاتے ہیں مگران کا سچا نقشہ قرآن نے کھینچا ہے: تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتّیٰ۔۔۔چنانچہ ایک فریق اہلحدیث حوالہ کامطالبہ کرتا ہے دوسرا دیوبندی گروہ خودوہ کتاب شائع کرکے جواب دیتا ہے۔ملاحظہ ہوفتح رحمانی کے ایک صدی بعد عالمی مجلس ختم نبوت کی طرف سےشائع ہونے والے ایڈیشن کا حوالہ جو من و عن حقیقة الوحی کے مطابق ہے۔مولوی غلام دستگیر لکھتا ہے:
‘‘اللھم یاذالجلال والاکرام یا مالک الملک جیساکہ تُونےایک عالم ربانی حضرت محمدطاہرمؤلف مجمع بحارالانوارکی دعااورسعی سےاس مہدی کاذب اورجعلی مسیح کابیڑاغارت کیاتھاویساہی دعاوالتجاءاس فقیرقصوری کان اللہ لہ سے (جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے)مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبہ نصوح کی توفیق رفیق فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا فقطع دابر القوم الذین ظلمواوالحمدللہ رب العلمین انک علی کل شئی قدیر وبالاجابۃ جدیر۔آمین’’
(احتساب قادیانیت(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی)جلد 10صفحہ567مطبوعہ ستمبر2003ء ناشر عالمی مجلس ختم نبوت حضور باغ روڈ ملتان)
یہ تھی وہ دعائے مباہلہ جو مولوی غلام دستگیر نے لکھی اور حضرت مرزا صاحب اس پر یہ بجا تبصرہ فرمایا کہ
‘‘مولوی غلام دستگیر نے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت قطع دابر القوم الذین ظلموا پر چھوڑا تھا جس کے اس محل پر یہ معنی ہیں کہ جو ظالم ہو گا اس کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ اور یہ امر کسی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کا مفہوم عام ہے جس کا اس شخص پر اثر ہوتا ہے جو ظاہر ہے۔ پس ضرور تھا کہ ظالم اس کے اثر سے ہلاک کیا جاتا۔ لہٰذا چونکہ غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھا اس لیے اس زدر بھی اس کو مہلت نہ ملی جو اپنی اس کتاب کی اشاعت کو دیکھ لیتا اس سے پہلے ہی مر گیا۔ اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اس دعا سے چند روز بعد ہی فوت ہو گیا۔۔۔۔
اس وقت قریبا گیارہ سال غلام دستگیر کے مرنے پر گزر گئے ہیں جو ظالم تھا خدا نے اس کو ہلاک کیا اور اس کا گھر ویران کر دیا۔ اب انصافاً کہو کہ کس کی جڑھ کاٹی گئی اور کس پر یہ دعا پڑی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَائِرَ عَلَیْھِمْ دَآئِرَۃُ السُّوْء۔ یعنی اے نبی تیرے پر یہ بد نہاد دشمن طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ انہیں پر گردشیں پڑیں گی۔ پس اس آیت کریمہ کی رو سے یہ سنت اللہ ہے کہ جو شخص صادق پر کوئی بددعا کرتا ہے وہی بد دعا اس پر پڑتی ہے۔ یہ سنت اللہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ظاہر ہے۔ پس اب بتلاؤ کہ غلام دستگیر اس بددعا کے بعد مر گیا یا نہیں۔ لہٰذا بتلاؤ کہ اس میں کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی بددعا سے تو ایک جھوٹا مسیح مر گیا اور میرے پر بددعا کرنے والا خود مر گیا۔ خدا نے میری عمر تو بڑھا دی کہ گیارہ سال سے میں اب تک زندہ ہوں اور غلام دستگیر کو ایک مہینہ کی بھی مہلت نہ دی۔’’
(حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد 22صفحہ343تا345)
مولوی غلام دستگیر کےرسالہ فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی کی پہلی اشاعت کے بارہ میں مولوی مقتدیٰ حسن اور قاضی صفی الرحمن مبارکپوری نے لکھا ہے ”مولانا غلام دستگیرقصوری قادیانی فتنے کا مقابلہ کرنے والوں کی صف اول میں تھے۔آپ کاشمار پنجاب کے ممتاز علمائے اہل حدیث میں ہوتا تھا۔”
(تذکرۃ المناظرین،حصہ اول،ص:مطبوعہ دارالنوادر،اردوبازار لاہور-قادیانیت اپنے آئینے میں:مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،لاہور)
رسالہ فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی کی اشاعت کے بارہ میں مولوی مقتدیٰ حسن اور قاضی صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں:
‘‘یہ رسالہ1315ھ میں مولانامشتاق احمدحنفی چشتی کےرسالہ التقریرالفصیح فی تحقیق نزول المسیح کےہمراہ لودیانہ سےشائع ہوا۔یہ رسالہ مولانا قصوری نے قادیانیت کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اشتہار جواب میں تھاجس میں لکھا ہے:
‘‘اب شوال ھ میں جو فقیرایک دینی کام کے انجام کولودھیانہ میں وراد ہوا تو سنا گیا کہ حضرات علماء لودیانہ کی طرف سے کسی مصلحت کے واسطے اس کا جواب نہیں دیا گیا اس پر غیرت دینی نے جوش دلایا کہ ان جعلسازوں اور افتراپردازوں کا بقدرضرورت ضرور ہی جواب شائع کرنا ۔۔۔لازم ہے۔’’
(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی: مطبوعہ مطبع احمدی،لودیانہ بحوالہ تذکرۃ المناظرین،حصہ اول،ص:مطبوعہ دارالنوادر،اردوبازار لاہور-قادیانیت اپنے آئینے میں:مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،لاہور)
اس کے بعد مخالف نے وہ الفاظ مع حوالہ تحریر کیے جو بعینہ ٖوہی الفاظ ہیں جوحضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب ”حقیقۃ الوحی” میں نقل فرمائے ہیں۔
مولوی اسماعیل علی گڑھی
یہی حال دوسرےمولوی اسماعیل علی گڑھی کے حضرت مرزا صاحب سے تحریری مباہلہ کے بعد موت و ہلاکت کا ہے۔جیسا کہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
‘‘مولوی اسماعیل علیگڑھی نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بد دعا کی اور ایک رسالہ میں اس کو درج کیا لیکن وہ رسالہ ابھی طبع ہی ہو رہا تھا کہ ملک الموت نے اسماعیل کو قبضہ میں کر لیا۔ اور وہ اس لعنت کا شکار ہو گیا جو اس نے خدا کے فرستادہ پر کی تھی۔ اس کے مرنے نے اس کے تمام حامیوں پر موت وارد کر دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے طباعت رسالہ کے دوران میں ہی اس بددعا کو اڑا دیا۔ بعض کے حاشیہ پر وہ طبع ہو گئی اور باقی سے مٹا دی گئی۔ اس ناگہانی موت کے بعد ان کاغذات کو تلف کر دیا گیا جن پر وہ طبع ہوئی تھی۔’’
(حقیقۃالوحی حاشیہ صفحہ330)
یہ ہیں اس زمانہ کے علماؤھم جو نشان کے پورا ہوجانے کے بعد ایک طرف اسے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر سو سال بعد یہ خیال کر کے کہ مرزا صاحب کے اتباع اسے بھول چکے ہوں گے اس کا حوالہ دریافت کرتے ہیں حالانکہ جب حضرت مرزا صاحب نے اسے شائع فرمایا تو کسی نے حوالہ نہیں مانگا،نہ اعتراض کیا۔
حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوریؓ نےمسجدمبارک قادیان میں اسکی شہادت دی تھی کہ میں نےوہ مطبوعہ کاغذات دیکھےتھے۔انکاسائزفتح اسلام کےسائزکےبرابرتھا۔اس میں اسماعیل علی گڑھی کی بددعا درج تھی جس کے بعد وہ جلد ہی مر گیا۔
حضور علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں نشانات کا ذکر کرتے ہوئے نشان نمبر144میں فرماتےہیں:
‘‘مولوی اسماعیل باشندہ خاص علی گڑھ وہ شخص تھا جو سب سے پہلا عداوت پر کمر بستہ ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ فتح اسلام میں لکھا ہے۔ اس نے لوگوں میں میرے نسبت یہ شہرت دی کہ یہ شخص رمل اور نجوم سے پیشگوئیاں بتلاتا ہے اور اس کے پاس آلات نجوم کے موجود ہیں۔ میں نے اس کی نسبت لعنۃ اللہ علی الکاذبین کہا اور خدا تعالیٰ کا عذاب اس کے لیے چاہا جیسا کہ رسالہ فتح اسلام کے لکھنے کے وقت اس کی زندگی میں ہی میں نے یہ شائع کیا تھا اور یہ لکھا تھا تَعَالَوْ نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَاَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔ چنانچہ قریباً ایک برس اس مباہلہ پر گزرا ہو گا کہ وہ یک دفعہ کسی ناگہانی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا؛ اور اس نے اپنی کتاب میں جو میرے مقابل پر اور میرے رد میں شائع کی تھی یہ لکھا تھا کہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل پس خدا نے لوگوں پر ظاہر کر دیا کہ حق کون سا ہے جو قائم رہا ، اور باطل کون ساتھا جو بھاگ گیا۔ قریباً سولہ برس ہو گئے، وہ اس مباہلہ کے بعد فوت ہوا ۔’’
(حقیقۃ الوحی، نشان نمبر 144- روحانی خزائن خزائن جلد 22صفحہ342،343)
اب ملاحظہ فرمائیے۔ مولوی اسماعیل علی گڑھی کی زندگی میں رسالہ فتح اسلام میں مباہلہ کے ساتھ اس کانام شائع ہوا۔اس نے انکار کی بجائے کتاب شائع کر کے ہلاک ہوگیا۔حقیقۃالوحی میں یہ نشان درج ہے،آج تک کسی نے اس کی کتاب کا حوالہ نہ مانگا۔ اور اس کی موت کے بعد سہمے رہے۔
آج حوالے کے مطالبہ کی بجائے خدا ترس کو نتیجہ پر غور کرنا چاہیے کہ خدا کے ماموروں کی مخالفت کا کیا انجام ہوتا ہے۔
اعتراض:۔
‘‘انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ایک مالدار آدمی تھے۔ کم سے کم ہزار روپیہ ان کے پاس رہتا تھا۔ جس کا خزانچی یہوداہ اسکریوطی تھا۔’’
(385ایام الصلح صفحہ۔روحانی خزائن جلد14صفحہ)
جھوٹ بالکل جھوٹ۔انجیل میں یہ نہیں لکھا۔حوالہ پیش کریں۔
جواب:۔
یہاں بھی معترض نے اصل عبارت پیش نہیں کی کہ آخرحضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کوحضرت عیسیٰ کو مالدار قرار دینے میں کیا دلچسپی ہے اور معترض اور ان کے ساتھی علماء اہل حدیث کیوں مرزا صاحب کو جھوٹا قرار دے کرحضرت عیسیٰ کو فقیر اور مفلس ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب ‘‘ایام الصلح’’ میں وفات مسیح کا مضمون متعدد آیات قرآنی سے ثابت کیا ہےکہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے۔چھٹی دلیل یہ آیت بیان کی ہے کہ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا(مریم :32)کہ حضرت عیسیٰ نے کہا خدا نے مجھے تاکیدی حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں نماز اور زکوة ادا کروں۔یہاں حضرت مرزا صاحب نے وفات عیسیٰ کے لیے جو شاندار استدلال فرمایا ہے وہ ایسا لاجواب ہے کہ معترض اور اس کے ساتھی علماء جب اس کا کوئی ردّ پیش نہ کر سکے تو اس دلیل سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سوال کر دیا کہ حضرت عیسیٰ کو مالداریعنی زکوة دینے کے قابل ثابت کر کے دکھاؤ۔
حالانکہ اگر حضرت عیسیٰ زندہ ہیں تو ان کے آسمان پر صاحب مال ہونے اور زکوة دینے کا ثبوت بھی اصولاً اسی کےذمّہ ہے جو انہیں آسمان پر زندہ مانتا ہے۔اورفریضۂ زکوة جو قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰ کی زندگی سے لازم وملزوم ہے وہ آسمان پر ادا کرنے سے قاصر ہیں توپھر سیدھی طرح حضرت عیسیٰ پر ناچار انّاللہ پڑھ دینا چاہیے۔یہ ہے خلاصہ حضرت مرزا صاحب کے خوبصورت استدلال کا۔آپ وفات مسیح کی چھٹی قرآنی دلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘اور پھر آیت وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا(مریم :32)سے موت ثابت ہوئی کیونکہ کچھ شک نہیں کہ جیسا کہ کھانے پینے سے اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بروئے نصِ قرآنی معطّل ہیں(یعنی کانا یأکلان الطعام کے مطابق جب تک وہ زندہ تھے تو کھانا کھاتے تھے،اب نہیں کھاتے تو ظاہر ہے وفات پاگئے۔)فرمایا: ایسا ہی دوسرے افعالِ جسمانی زکوٰۃ اور صلوٰۃ سے بھی معطّل ہیں۔’’
(ایام الصلح صفحہ140،159روحانی خزائن جلد14)
لہذا وفات پاگئے۔ کیونکہ وہ خود اقراری ہیں کہ زندگی تک زکوة کی ادائیگی کا حکم ہے۔جب خدا کومعلوم تھا کہ آخر آسمان پر اٹھالینا ہےتو حکم زکوة کو تمام زندگی سے مشروط کیوں کیا۔اور اگر کہو کہ زکوة ان پر واجب نہیں توان کا مفلس ہونا ثابت کریں۔
حضرت مرزا صاحب کیا خوب فرماتے ہیں کہ جیسے کھانے پینے سے حضرت عیسیٰ ازروئے نصّ قرآنی معطل ہیں اسی طرح وہ افعال جسمانی زکوة اور صلوة سے معطّل ہیں۔اور دلیل التزامی کے مطابق اس کا نتیجہ سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔
جہاں تک حضرت مسیح کےمالدار ہونے کا تعلق ہے۔آئیےدیکھیں حضرت عیسیٰ کے ہم عصر حواری کیا گواہی دیتے ہیں:
نئے عہد نامے میں ہے:
‘‘تم ہمارے خداوند یسوع مسیح کے فضل کو جانتے ہوکہ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اس کی غریبی کے سبب سے دولت مند ہوجاؤ۔’’
(کرنتھیوں کے نام پولس رسول کا دوسرا خط باب 8 آیت9)
گویا حضرت عیسیٰ زمین پر جب تک زندہ رہے۔دولت مند ہوکرزکوة دیتے رہے۔اب اگرآسمان پرزکوة نہیں دیتے تو وفات پاگئے۔یہ حضرت مرزا صاحب کا مقصد تھا جو معترض کو منظور نہیں۔
معترض نے انجیل سے حضرت عیسیٰ کے مالدار ثابت ہونے کو جھوٹ کہا تھا۔اب حضرت عیسیٰ کے خزانچی یہودا ہ کے پاس ان کے خزانے کی تھیلی موجود ہونا اور اس سے محتاجوں کو زکوة دینے کا ثبوت باقی رہ گیا تو لیجئے انجیل کا حوالہ:
‘‘یسوع نےاس(یہوداہ)سےکہاکہ جوکچھ تو کرتا ہے جلد کر لےمگر جو کھانا کھانے بیٹھے تھے ان میں سے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ اس نے یہ اس سے کس لیے کہاچونکہ یہوداہ کے پاس تھیلی رہتی تھی اس لیے بعض نے سمجھا کہ یسوع اس سے یہ کہتا ہے کہ جو کچھ ہمیں عید کے لیے درکار ہے خرید لے یا یہ کہ محتاجوں کو کچھ دے۔ پس وہ نوالہ لے کر فی الفور باہر چلا گیا ۔’’
(یوحناباب 13آیت27تا30)
اگر اس ایک حوالہ سے معترض سے تسلّی نہیں ہوتی تو دوسرا حوالہ بھی حاضر ہے:
”پھرمریم نےجٹاماسی(سدابہارخوشبودار بوٹی:سنبل الطیب)کاآدھ سیرخالص اوربیش قیمت عطرلےکریسوع کےپاؤں پرڈالا اور اپنےبالوں سےاسکےپاؤں پونچھےاورگھرعطرکی خوشبوسےمہک گیا۔مگراسکےشاگروںمیں سے ایک شخص یہوداہ اسکریوطی جو اسے پکڑوانے کو تھا، کہنے لگا:یہ عطر تین سو دینار میں بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا؟ اس نے یہ اس لیے نہ کہا کہ اس کو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اس لیے کہ چور تھااو رچونکہ اس کے پاس ان کی تھیلی رہتی تھی،اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ پس یسوع نے کہا کہ اسے یہ عطر میرے دفن کے دن کے لیے رکھنے دے کیونکہ غریب غربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں لیکن میں ہمیشہ تمہارے پاس نہ رہوں گا۔”
(یوحنا باب12 :3تا8)
اب دیکھیے۔انجیل سے نہ صرف حضرت عیسیٰ کا مالدار ہونا ثابت ہوا بلکہ مالدار ہوکر زکوة ادا نہ کرنے سے وفات بھی ثابت ہوگئی کیونکہ انہیں زندگی کے آخری دم تک زکوة کا حکم تھا۔
اعتراض:۔
‘‘اوریہ نشان مہدی موعود،یعنی خسوف وکسوف ماہ رمضان میں فتاوی ٰابن حجرمیں لکھاگیاتھا۔جوحنفیوں کی ایک معتبر کتاب ہے۔’’
(ایام الصلح ۔ خزائن جلد14صفحہ315)
مرزا جی نے جھوٹ بولا ہے۔فتاویٰ ابن حجر حنفیوں کی کتاب نہیں ہے۔
جواب:۔
معترض نے بڑی بے باکی سے یہ لکھ دیا ہےکہ فتاویٰ ابن حجر حنفیوں کی کتاب نہیں ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ علم کی دنیا بہت وسیع ہے اور کسی محدود مطالعہ یا علم کی بناء پر ایسی حتمی بات کر دینا یہ کسی خدا ترس عالم کو زیب نہیں دیتا اور اگر معترض نے یہ کہہ بھی دیا ہے تو اسے تو الہام کا کوئی دعویٰ بھی نہیں جبکہ اس کے بالمقابل حضرت بانی جماعت احمدیہ صاحبِ الہام بزرگ تھے۔جب وہ فتاویٰ ابن حجر کے مصنف کی نسبت احناف کی طرف کرتے ہیں تو ان کی بات معترض کے مقابل پر زیادہ وزن رکھتی ہے اور ثقہ سمجھی جاتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ معترض کا تعلق کیونکہ اہل حدیث ہے۔انہوں نے ابن حجر کے نام سے مراد مشہور شارح بخاری علامہ ابن حجر قسطلانی نہ مرادلےلیے ہوں۔حالانکہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی مراد شیخ شہاب الدین ابن حجر ہیثمی ہے جو 909ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور 974ھ میں مکہ میں فوت ہوئے۔اور مکی بھی کہلاتے ہیں اور بعض نے شافعی کا لقب بھی دیا ہے۔لیکن حقائق وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حنفی تھے۔کیونکہ انہوں نے حضرت امام ابو حنیفہ کی سیرت و سوانح پر ایک کتاب ‘‘الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفہ النعمان’’تصنیف فرمائی۔جس کے دیباچہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں:‘‘مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران قسطنطنیہ سے ایک بڑے عالم تشریف لائے اور انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت امام اعظم کی سیرت و سوانح کو اختصار کے ساتھ جمع کرنے کا کام کرنا چاہیے۔وہ فرماتے ہیں کہ اس پر میں نے ارداہ کیا کہ امام اعظم کے مناقب کی تلخیص میں اپنی تمام کوشش صرف کروں۔جس کے نتیجہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کی سیرت پر یہ کتاب تصنیف تیار ہوئی۔میرا مقصد تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت و رضا میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں مقام عطا کرے کہ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام ابن حجر اگر شافعی مسلک تھے بھی تو امام ابو حنیفہ کی سیرت پر یہ کتاب تصنیف فرمانے کے بعد حنفیت کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ویسے بھی خلافت عثمانیہ کے دور میں ارض حجاز میں لاکھوں حنفی بھی آباد تھے۔
جیسا کہ ذکرہوچکا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسے اختلافی مسئلہ کہا جا سکتا تھا مگر معترض نے اسے جھوٹ کے طور پر پیش کیا ہے جو خود موصوف کی طرف لوٹتا ہے۔
الفتاویٰ الحدیثیہ لابن حجر الہیثمی حنفیوں کی ایک معتبر کتاب ہے۔ لکھا ہے ”ومما جاء عن أکابر أہل البیت فیہ قول محمد بن علی : لمہدینا آیتان لم یکونا منذ خلق اللہ السماوات والأرض: ینکسف القمر لأول لیلۃ من رمضان ، وتنکسف الشمس فی النصف منہ ، ولم یکونا منذ خلق اللہ السماوات والأرض۔
(الفتاویٰ الحدیثیہ لابن حجر الہیثمی، جزء اول صفحہ86)
اعتراض:۔
‘‘آسمان نےبھی میرے لیے گواہی دی اور زمین نے بھی، مگر دنیا کے اکثر لوگوں نے مجھے قبول نہ کیا۔ میں وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بے کار ہوگئے اور‘‘پیشگوئی آیت کریمہ ‘‘وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ’’ پوری ہوئی۔ اور پیشگوئی ‘‘وَلَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا’’نے پوری پوری چمک دکھلا دی۔ یہاں تک کہ عرب وعجم کے ایڈیٹران اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پرچوں میں بول اٹھے کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے یہی اس کی ‘‘پیشگوئی کااظہارہے، جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے۔’’
(اعجاز احمدی ۔خزائن جلد 19 صفحہ 108)
مرزائیو! تمہارے مرزا جی کرشن نے مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل تیار ہونے کو اپنے مسیح موعود ہونے کا نشان بتایاتھا۔اور اس ریل کے تیار ہونے کی مدت تین سال بتائی تھی۔لیکن ایک سو سال ہونے کو ہیں کہ مرزا جی فوت ہو گئے۔لیکن ابھی تک مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل تیار نہیں ہو سکی۔
مرزا جی نے جھوٹ بولا تھا کہ یہ میرا نشان مسیح موعود ہے۔کیا مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل تیار ہوگئی ہے؟ کیا مرزا جی کا یہ نشان پورا ہوگیا ہے؟نہیں اور یقیناً نہیں۔اس لیے کہ کرشن مرزا جی جھوٹے اور کذّاب ہیں۔
جواب:۔
معترض نے یہاں حضرت مرزا صاحب کی ایک پیشگوئی کو غلط ثابت کرنے کی خاطر قرآن شریف اور حدیث کی عظیم الشان پیشگوئی کا انکار کیا ہے۔ایک ایسی پیشگوئی جو تاریخ انسانی اور اس کے ارتقاء پر زبردست روشنی اور گہرے اثرات مرتب کرنے والی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کی ضرورت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اونٹ،گھوڑے اور گدھے سواری اور زینت کی خاطر پیدا کیے جس کا ذکرسورة نحل آیت9 میں ہے:وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (نحل:9) اور اس میں1400سال قبل پیشگوئی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ابھی ایسی سواریاں پیدا فرمائیگاجن کا اس وقت تمہیں علم نہیں۔قرآن کریم میں تصریف آیات کے ساتھ اس کے بعض حصے بعض کی تفسیرکرتے ہیں۔
‘‘وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ’’میں بھی اسی پیشگوئی کی تفصیل ہے کہ نئی تیز رفتار سواریوں اور ایجادات کے بعد اونتنیاں بےکار ہوکر رہ جائیں گی۔اونٹ جو صحرائےعرب کا جہاز سمجھا جاتا ہے اس کامتروک ہونا ایک بڑی خبر تھی جو پوری ہوئی اور زمانہ میں Animal Transport سےMechanical Transportکی طرف ایک انقلاب عظیم رونما ہوا۔موٹر کار،ٹرین،جہازوغیرہ کی ایجادسےیہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔
مگراس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس پیشگوئی کو مسیح موعود کے ظہور کے ساتھ باندھ دیا تھا۔چنانچہ صحیح مسلم کے مطابق جہاں آپﷺ نے مسیح موعود کی جزوی علامات اور اس کے کام بتائے۔ وہاں اس کے زمانہ کی یہ علامت بیان فرمائی:
وَلَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا
جو دراصل سورة تکویرکی آیت وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ کی تفسیر رسول ہےکہ جب اونٹ کی پسندیدہ سواری بھی متروک ہوجائے گی جو مسیح موعود کے زمانہ میں پوری ہوئی۔
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار
مگر اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی شان اور عظمت ملاحظہ کرنے کے لیے سورہ تکویر میں 1400سال قبل بیان فرمودہ باقی نشانیوں کے چودہویں صدی میں پورا ہوجانے کا حیرت ناک منظر دیکھ کر انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ روشن نشانات کا ایک سورج طلوع ہوگیا ہے۔سورة تکویر میں إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ میں مسیح موعود کے زمانہ میں سورج و چاند گرہن کی طرف اشارہ تھا اور یہ پیشگوئی 1311ھ میں پوری ہوگئی۔
پھر سورة تکویر میں دوسری نشانی وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ میں بیان کی گئی تھی کہ جانوروں کو اکٹھا کر کے ان کے چڑیا گھر بنائے جائیں گے جو پوری ہوئی۔
تیسری نشانی وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ یعنی کثرت سے نہروں کے جاری ہونےسےظاہر ہوتا ہے پس اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں دریا خشک ہونےلگے۔( نہر پانامہ نےبحر اوقیانوس اوربحر الکاہل کوملایاتو نہر سویز نےبحیرہ روم کوبحیرہ قلزم سے ملایا۔)
چوتھی علامت وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ قوموں اور ملکوں کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اوررسل و رسائل سے ملاقاتوں کاآسان ہو جانا ہےجیسا کہ آیت سے ظاہر ہے۔(ذرائع مواصلات اور رسل و رسائل اور تیزرفتار سواریوں کی ایجاد سےتمام دنیا کے آپس میں میل ملاپ کی پیشگوئی اس زمانہ میں پوری ہوئی۔)
پانچویں علامت وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ عورتوں کے حقوق کے لیے آوازیں اور تحریکیں اٹھنے کی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔
چھٹی علامت وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا جیسا کہ پریس اور چھاپہ خانوں کے نتیجہ میں کتب و رسائل کی اشاعت کے ذریعہ بھی نشانی پوری ہوئی۔
ساتویں علامت وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ علم ہیئت کی غیر معمولی ترقی کے نتیجہ میں یہ نشانی بھی پوری ہوئی۔
آٹھویں علامت وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ مسیح موعود کے ضلالت و گمراہی کے زمانے کی یہ وہ جھلک ہے جو دراصل مسیح موعود کی ضرورتکی دلیل ہے۔
نویں علامت وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ جب جنت قریب کردی جائے گی کیونکہ مسیح موعود نے آکر مسلم کی حدیث کے مطابق یحدثھم بدرجاتھم فی الجنة کے مطابق ایک جنتی نظام،نظام وصیت کی طرف دعوت دینی تھی،سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔
حضرت مرزا صاحب مدعی مسیح و مہدی کے زمانہ میں یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔جس کا ذکر آپ نے اپنی کتب میں فرمایا ہے۔اعجاز احمدی کی اشاعت1906ءکے وقت بھی یہ سواریاں خصوصاً ٹرین اور موٹرکار وغیرہ ایجاد ہوچکی تھیں۔اور اونٹ متروک ہوچکے تھے جسے آپؑ نے نشان کے طورپر پیش فرمایا اور ضمناً یہ بھی ذکر کیا کہ اب تو اسلام کے مراکز مکہ و مدینہ میں بھی ریل آنیوالی ہے۔یہ بات کسی پیشگوئی یا الہام کی بناء پر نہ تھی بلکہ اخبارات میں شائع ہونیوالی خبروں کی روشنی میں تھی ۔اور جزوی طور پر مدینہ کی حد تک تو پوری ہوہی چکی ہے۔تاریخ مدینہ میں لکھا ہے: ترکوں نے (عبد الحمید ثانی کے دور میں )دمشق سے مدینہ منورہ تک ریلوے لائن بچھائی جس کا باہر کی دنیا خصوصاً استنبول سے رابطہ تھا۔ریلوے لائن تعمیر 1908ء میں مکمل ہوئی۔ منصوبہ کے مطابق ریلوے لائن کو مکہ،مدینہ اور پھر یمن سے ملایا جانا تھا۔نو سال تک اس ریلوے لائن پر دمشق سے حجاج کرام آتے رہے۔جن میں شام، اردن، فلسطین، عراق اور ترکی کے حجاج کرام شامل تھے۔ترکی کے راستے یورپ سے رابطہ تھا۔مدینہ شریف میں اس وقت تجارت عروج پر تھی۔1917ء کا تحریک بیداریٔ عرب کا انقلاب آیا جوکہ پہلی جنگ عظیم کے حصہ کے طور پر نمودار ہوا۔جس میں شریف مکہ حسین بن علی نے لارنس آف عربیہ کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی اوراس میں عنبریہ ریلوے سٹیشن مدینہ منورہ بھی تباہ کردیا گیا۔یہ ریلوے لائن دمشق سے مدینہ شریف تک تیرہ سو تیرہ کلومیٹر لمبی تھی۔
باقی اگر اس وقت مکہ تک ٹرین کی لائن میں جنگ عظیم کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوگئی تو کیا ہوا۔ اس سے اونٹوں کے متروک ہونے کی قرآنی پیشگوئی پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا۔اس کی شان اسی طرح قائم رہی۔
اگر پیشگوئی یہ ہوتی کہ مسیح موعود کے وقت مکہ و مدینہ میں ٹرین آئیگی تو معترض کاسوال بجا تھا۔مگر پیشگوئی تو اونٹوں کے بےکار ہونے کی تھی جو عمومی رنگ میں پوری ہوگئی۔مکہ کی خصوصیت ایک زائد بات تھی۔تاہم اگر معترض کے آباء و اجداد نے اس وجہ سے مرزا صاحب کا انکار کیا تھا تو آج اسےتو ماننا ہی پڑے گا کیونکہ اب واقعی ٹرین مکہ و مدینہ میں بھی آرہی ہے۔
سو سال ہوگئےمسیح و مہدی کے بعد اسکی خلافت کا نظام موجودہے۔دوسری طرفپیشگوئی کے مطابق سو سال سے ساری دنیا میں کیاآسٹریلیا، کیاامریکہ،کیا ایشیاو افریقہ اورکیاعرب، اونٹ متروک ہوگئے اور نئی سواریاں ایجادہوگئیں۔تو مکہ میں ٹرین نہ آنے کے اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں رہتی لیکن اگرواقعی معترض کو مکہ اور مدینہ میں ٹرین کے آنے کاہی انتظار تھا تب اس نے مسیح موعود کو ماننا تھا تو اب وہ وقت آچکا ہے اور مکہ و مدینہ کے درمیان ہائی سپیڈٹرین کی پٹڑی بچھ چکی ہے،کرائے نامے شائع ہوچکے ہیں۔(قدرت اخبار 19 اکتوبر2015ء) ریلوے آرگنائزیشن کے صدر محمد السوائکت کے مطابقریل منصوبوں کو آگے بڑھانے اور مسافروں کو زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کے لیےسعودی عرب کی حکومت نے مکہ معظمہ اور ساحلی و اہم تجارتی شہر جدہ کے درمیان سات تیز رفتار ریل گاڑیاں چلانے کا منصوبہ بنایا ہے اور یہ ریل گاڑیاں ایک گھنٹے میں مکہ سے جدہ تک کا سفر طے کریں گی۔
سعودی عرب کی میڈیا کے مطابق مکہ کو مدینہ منورہ اور دوسرے شہروں کے ساتھ بھی ریلوے کے تیز رفتار نظام سے منسلک کر دیا جائے گا۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان دو ریل گاڑیاں چلانے کا منصوبہ ہے جب کہ مکہ اور ربیغ کے درمیان چار ریل گاڑیاں چلائی جائیں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سچ ہی تو فرمایا تھا:
‘‘اور اونٹوں کے چھوڑے جانےاور نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاداسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پر مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل طیار ہونے سے پوری ہو جائے گی کیونکہ وہ ریل جو دمشق سے شروع ہو کر مدینہ میں آئے گی وہی مکّہ معظمہ میں آئے گی اور اُمید ہے کہ بہت جلد اور صرف چند سال تک یہ کام تمام ہو جائے گا۔ تب وہ اونٹ جو تیرہ سو برس سے حاجیوں کو لے کر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے یکدفعہ بے کار ہو جائیں گے اور ایک انقلاب عظیم عرب اور بلا د شام کے سفروں میں آجائے گا۔ ’’
(تحفہ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 194-197)
اعتراض:۔
‘‘یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ دار قطنی میں آج سے گیارہ سو برس پہلے مندرج ہو کر تمام دنیا میں شائع ہو گئی تھی ۔’’
(ایام الصلح۔ جلد 14صفحہ280)
بالکل غلط جھوٹ ہے،ورنہ بات ثابت کریں۔
جواب:۔
ناظرین! ہمارے آقا ومولیٰ حضرت خاتم الانبیاء مخبر صادقﷺ کی بیان فرمودہ عظیم بشارت کو معترض نے جھوٹ قرار دینے کی جسارت کی ہے۔کاش وہ اپنے اہلحدیث ہونے کا ہی کچھ بھرم رکھ لیتے اور فرمودۂ رسولﷺ پر اعتراض نہ کرتے جسے نبیرۂ رسول اللہﷺ حضرت امام محمد باقرنے روایت کیا ہے اور علمائے حدیث کا یہ متفقہ اصول ہے کہ ایسی حدیث جس میں آئندہ زمانے کی کوئی خبر بیان ہوئی ہو اور اسے کوئی صحابی یا تابعی بیان کرےوہ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے کیونکہ کوئی تابعی یا صحابی اپنی طرف سے مستقبل کی کوئی جھوٹی خبر نہیں بنا سکتا۔خاص طور پرمہدی کے وقت میں رمضان کی خاص تاریخوں میں چاند سورج گرہن کی وہ پیشگوئی جو 13 سو سال بعد ایک منفرددعویدار مہدویت کی موجودگی میں 1311ھ کو پوری بھی ہوگئی اور خدا کی فعلی شہادت نے اسے سچا ثابت کردیا ہے۔
یہ پیشگوئی جسے معترض جھوٹ کہہ رہا ہے۔قرآن کریم کی سورة قیامۃمیں اس کا ذکر تھا کہ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ۔وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۔يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ(القیامة:8تا11)پھر اس آیت بیان فرمودہ نشان چاند سورج کی رمضان کی معین تاریخوں کو بیان کرنے والے حضرت امام محمد باقر ہیں۔جو رسول اللہﷺ کے پڑنواسے اور اہل بیت رسولﷺ ہیں اور اہل تشیع کے مسلّمہ امام ہیں۔حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ان پر بھی جھوٹ کی تہمت ایک ظالمانہ فعل ہے۔
ایک اہل حدیث عالم ہونے کے ناطے سے معترض کو کم ازکم اتنامعلوم ہونا چاہیےکہ اہل بیت رسول صداقت و دیانت،عدالت و ثقاہت اور تقویٰ کی وجہ سے ایسے بلند مقام پر فائز تھے کہان پر جھوٹ کے الزام کا تو کیا سوال خیر القرون کی پہلی صدی کے زمانہ میں کوئی شخص نہ تو ان سے سند طلب کرتا تھا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی جاتی تھی۔چنانچہ علامہ عقیلی نے کتاب الضعفاء للکبیر میں لکھا ہے کہ چاندسورج گرہن کی پیشگوئی والی اس حدیث کے ایک راوی جابر جعفی کے بیان کے مطابق اس نے امام محمدباقرسے ستّر ہزار احادیث اخذ کیں جو نبی کریمﷺ تک مرفوع تھیں۔
اور خودحضرت امام محمد باقر سے جب ان کی بلا سند حدیث کے بارہ میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی روایات کے متعلق یہ پختہ اصول بیان فرما دیا کہ میں جب کوئی حدیث بیان کرتا ہوں اور ساتھ اس کی سند بیان نہیں کرتا تو اس کی سند اس طرح ہوتی ہے کہ بیان کیامجھ سے میرے پدر بزرگوار(علی زین العابدین) نے اور ان سے میرے جدّ نامدار امام حسین علیہ السلام نے اور ان سے ان کے جدّ امجد جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا اور آپﷺ سے حضرت جبرائیلؑ نے بیان کیا اور ان سے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا۔
(کتاب الارشاد بحوالہ بحار الانوار از علامہ محمد باقر مجلسی مترجم جلد4 ص71)
علامہ ذہبی نےامام محمد باقر کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ اپنے باپ اور دونوں دادا حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت علیؓ سے مرسل روایات کرتے ہیں۔یعنی درمیانی واسطہ بیان کیے بغیر روایت کے عادی ہیں۔بایں ہمہ علامہ ذہبی نے حضرت امام باقرکو ثقہ،کثیر الحدیث تابعی کہا ہے۔’’
(تہذیب التہذیب جزء9 ص311)
علاوہ ازیں اس حدیث کو مشہور محدث حضرت امام دارقطنی نے بیان کیا جو ایسے اعلیٰ پایہ کے صاحب فن حدیث تھے جواہل بغداد کو اعلانیہ کہتے تھے: یا اھل بغداد لا تظنوا ان احدا یقدر ان یکذب علیٰ رسول اللہ وانا حی۔یاد رکھو جب تک دارقطنی تم میں زندہ موجود ہے اس وقت تک رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
(نخبۃ الفکر شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی ص56 حاشیہ)
حضرت امام محمد باقر کازمانہ کی وفات114ھ ہے۔گویاانہوں نے پہلی سے دوسری صدی تک کو بیان کیاپھر تیسری صدی کے آغاز میں امام دارقطنی ہوئے۔اس لیےحضرت مسیح موعودؑ نےعمومی طور پراپنے زمانہ چودہویں صدی میں یہ ذکر فرمایا کہ دیکھو یہ حدیث دیگر احادیث کے ساتھ دوسری صدی کےزمانہ تک سینہ بسینہ محفوظ چلی آئی اور تیسری صدی میں امام دارقطنی کے ذریعہ تحریری طور پر مدوّن بھی ہوگئی۔ان میں سے یہ حدیث دارقطنی ہے جس پر موٹے حساب کے لحاظ سے دوسری صدی سے چودہویں صدی تک 11 سو سال کا زمانہ کہاجاسکتاہے۔
زبانی اور صدری طور پر تیرہ سو سال اور اب تک ملنے والی تحریری شہادت دارقطنی کے مطابق ایک ہزار سے گیارہ سو سال قبل تک کنواری اور محفوظ چلی آئی اس وقت تک کہ مسیح موعودؑ کے وقت میں پوری ہو کر نشان بن گئی۔جسے ہر صدی میں محدثین مفسرین بیان کر کے مسیح موعود کا انتظار کرتے رہے۔
محدثین ومفسرین
1۔رئیس المحدثین یعقوب کلینی(متوفی:329ھ) الفروع من الجامع الکافی
2۔محدث اکبر ابو جعفر بابویہ القمّی(متوفیٰ:381ھ) اکمال الدین و اتمام النعمة فی اثبات الرجعہ
3۔مشہور محدث شیخ الاسلام حضرت امام علی بن عمر دارقطنی(متوفی:385ھ) سنن دارقطنی
4۔ مشہور مفسرعلامہ قرطبی(متوفیٰ:671ھ) التذکرہ فی احوال الموتیٰ و امور الآخرة
5۔ الامام العلامہ والبحرالفہامہ علی بن محمد بن احمد ابن صبّاغ(855ھ) الفصول المہمہ فی معرفة احوال الائمہ
6۔علامہ جلال الدین سیوطی(متوفیٰ:911ھ) الحاویٰ للفتاویٰ فی الفقہ و علم التفسیر والحدیث
7۔خاتمة الفقہاء والمحدثین علامہ ابن حجر(،توفی:974ھ) القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر
8۔ مشہور شیعہ مفسر علامہ محمد بن المرتضیٰ فیض کاشانی(متوفیٰ:1100ھ) کتاب الصافی فی تفسیر القرآن
9۔علامہ المحقق الشریف محمد بن رسول الحسینی (متوفی:1103ھ) الاشاعہ لاشراط الساعہ
10۔شیعہ مجتہد علامہ باقرمجلسی (متوفی:1111ھ) بحار الانوار(فارسی) جلد 13
11۔ علامہ شیخ اسماعیل حقی(متوفیٰ:1137ھ) تفسیر روح البیان
12۔ علامہ شیخ محمد بن احمد انصار بنی الاثری الحنبلی(متوفیٰ:1188ھ) کتاب لوامع الانوار البہیّہ
13۔ علامہ شیخ محمد الصبان الشافعی(متوفیٰ:1206ھ) اسعاف الراغبین
14۔ مفتیٔ بغدادعلامہ سید محمود آلوسی(متوفیٰ:1270ھ) تفسیر روح المعانی
15۔الشیخ حسن العدوی الحمزاوی المصری(متوفیٰ:1303ھ) مشارق الانوار فی فوز اھل الاعتبار
16۔علامہ محمد صدیق حسن خان صاحب(متوفیٰ:1307ھ) الاذاعہ لماکان ومایکون بین یدی الساعہ
17۔علامہ شہاب الدین حمد بن احمد اسماعیل حلوانی(متوفیٰ:1308ھ) القطر الشہدی فی اوصاف المہدی
18۔حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوکھے والے(متوفیٰ:1311ھ) احوال الآخرت مطبوعہ 1277ھ
19۔علامہ خیر الدین نعمان بن محمودبن عبد اللہ ابو البرکات الالوسی الحنفی(متوفیٰ:1317ھ)
غالیہ المواعظ ص77مطبوعہ مطبع امیریہ بولاق 1301ھ
20۔ابوالخیر نور الحسن خان اقتراب الساعة مطبوعہ1301ھ
21۔شاہ رفیع الدین محدث دہلوی قیامت نامہ
22۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی(متوفیٰ:1624ء) مکتوبات جلد2ص132
23۔علامہ عبد الحق حقانی دہلوی عقائد اسلام مطبوعہ 1292ھ
24۔شاہ نعمت اللہ ولی کا قصیدہ اربعین فی احوال المھدیین از شاہ اسماعیل شہید
یہ کل 24 محدثین و مفسرین کی کتب ہیں جو دستیاب ہیں جو ہمیں نہیں ملی اور ہزار سال میں ناپید ہوگئیں وہ اس کےعلاوہ ہیں۔
چند اور کتب یہ ہیں:
1۔ آخری گت مصنفہ مولوی محمد رمضان حنفی ، مجتبائی مطبوعہ 1278ھ
2۔حجج الکرامہ صفحہ 344 ، مولفہ نواب صدیق حسن خان صاحب۔
3۔عقائد الاسلام مصنفہ مولانا عبد الحق صاحب محدث دہلوی صفحہ 182 و 183 مطبوعہ 1292ھ۔
حافظ عبد العزیز پرہاڑوی لکھتے ہیں:
درسن غاشی ہجری دو قران خواہد بود
از پئے مہدی و دجال نشان خواہد بود
ایک بزرگ مفتی غلام رسول (متوفی 1307ھ) کا یہ شعر پنجاب میں زبان زدوعام رہا ہے۔
بہت قریب ظہور مہدی وی سمجھو نال یقینے
چن سورج دونو گرہ جاسن وچہ رمضان مہینے
چنانچہ پیشگوئیوں کے مطابق چاند گرہن کا یہ نشان 1894ء میں 21 مارچ کو بمطابق 13 رمضان المبارک اور 6 اپریل بمطابق 28 رمضان المبارک ہندوستان و عرب ممالک میں ظاہر ہوا۔اور اگلے سال 1895ء میں انہی تاریخوں میں امریکہ میں ظاہر ہوکر حجت بنا۔
پس بلاشبہ یہ حیرت انگیز نشان تیرہ صدیوں میں کبھی کسی مدعیٔ مہدویت کے حق میں ظاہر نہیں ہوا اور نہ کسی دعویدار نے اسے پیش کیا۔مگر حضرت مرزا صاحب کس شان اور تحدّی سے فرماتے ہیں:
‘‘ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کے لیے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا۔۔۔مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لیے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے۔’’ (تحفہ گولڑویہ ص33 روحانی خزائن جلد17 ص142-143)
آسماں میرے لیے تو نے بنایا اک گواہ
چاند سورج ہوئے میرے لیے تاریک و تار
خود ہمارا اہلحدیث خاندان اس پیشگوئی کا مرہون منت ہے کہ ہمارے آباء و اجداد علمائے اہلحدیث کو یہ سعادت ملی کہ اس نشان کو دیکھ کر مسیح وقت و مہدی دوراں کو قبول کرنے والوں میں ہوئے۔معترض کی طرح سوءظن کے نتیجہ میں منکر ہونے سے بچ گئے۔
اعتراض:۔
حدیث آتی ہے (یاتی علیٰ جھنم زمان لیس فیھا احد ،ونسیم الصبا تحرک ابوابھا)
‘‘جہنم پر ایسا وقت آئے گا کہ اس میں کوئی نہیں ہوگا اور باد نسیم اس کے دروازوں کو حرکت دے گی۔’’
(حقیقتہ الوحی ۔خزائن جلد22صفحہ196)
مرزا کا بالکل واضح جھوٹ،حوالہ دو کس حدیث کی کتاب میں ہے۔
گویا معترض کے نزدیک جہنم عارضی نہیں،دائمی ہے۔یہی ماحصل معترض کےایک دوسرے اعتراض کا ہے۔جس میں لکھتے ہیں: ‘‘مرزا نے کس قدر قرآن مجید پر جھوٹ بولاہے۔حالانکہ پارہ نمبر12 سورۂ ہود آیت108-109 میں بہشتیوں اور دوزخیوں دونوں کے حق میں الّا ماشاء ربک موجود ہے۔لیکن مرزا جی کہتے ہیں (الا ما شاء ربک)صرف دوزخیوں کے لیے ہے،بہشتیوں کے لیے نہیں۔’’
جواب:۔
اہل حدیث معترض نے اپنے اعتراضوں کے نمبر بڑھانے اور 40 کا عدد پورا کرنے کے لیے پہلے جہنم کے عارضی ہونے کے متعلق ایک حدیث کے حوالہ پر اعتراض کرتے ہوئے اسے بھی جھوٹ قرار دیا ہے اور پھر حضرت مرزا صاحب کی پیش کردہ سورة ہود کی آیت الّا ما شاء ربک ان ربک فعال لما یرید جو جہنم کو عارضی قرار دیتی ہے پر اعتراض کیا ہے۔معترض سوالوں کی ترتیب سے بھی ظاہر ہے۔غیر مقلّد حدیث کو قرآن پر قاضی قرار دیتے ہوئے اسے قرآن پر مقدّم کرتے ہیں۔اس لیے پہلے حدیث پر اعتراض کیا ہے پھر قرآن پر۔
لیکن ہمارےنزدیک چونکہ قرآن حدیث پر قاضی ہے۔اس لیے ہم پہلے قرآن کی آیت پر کیے گئے اعتراض نمبر34 کا جواب دیں گے اور پھراس کی روشنی میں حدیث پر کیے گئے اعتراض نمبر33 کا ۔
جیسا کہ ذکرہوچکا ان دونوں اعتراضات میں دراصل بنیادی طور پر معترض نے جہنم کےعارضی ہونے پر اعتراض کیا ہے۔
اعتراض نمبر34یہ ہے کہ ‘‘پارہ نمبر12 سورۂ ہود آیت108-109 میں بہشتیوں اور دوزخیوں دونوں کے حق میں الّا ماشاء ربک موجود ہے۔لیکن مرزا جی کہتے ہیں (الا ما شاء ربک) صرف دوزخیوں کے لیے ہے،بہشتیوں کے لیے نہیں۔’’گویا معترض کے نزدیک جنت و جہنم دونوں دائمی ہیں۔
معترض نے دیانت سے کام نہ لیتے ہوئے وہ فرق واضح نہیں کیا جوقرآن شریف میں الا ماشاء ربک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کر کے واضح کیا گیا ہے۔جہنم کے ذکر میں الّا ما شاء ربک کے ساتھ انّ ربک فعال لما یرید کی صفت آئی ہے یعنی دوزخیوں سے خدا جو سلوک چاہے گا کرے گا۔اور دوسری جگہ خود اللہ تعالیٰ نےوضاحت فرما دی کہ کیا کرے گا۔فرمایا: وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ
(الاعراف:157)
یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و قدرت تو ہر چیز پر حاوی ہے جیسے انّ اللہ علیٰ کلّ شئی قدیر سےظاہر ہے۔اللہ کی مشیت بھی بعض دوسری صفات الہیہ کے ساتھ مل کر ایک نہایت خوبصورت امتزاج اور Combinationnپیدا کرتی ہے۔چنانچہ جہاں جنت و جہنم دونوں کے ساتھ مشیت کی اصولی شرط کےساتھ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(الاعراف:157) بھی فرمادیا۔کہ میری رحمت ہر شیٔ پروسیع ہے۔
سورة ہود کی آیت108کے چند آیات بعدإِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (ہود:120)فرماکر اپنی مشیئت کا ذکر کردیا۔اس کی مشیت اور رحمت ہی سلوک کرے گی کیونکہ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ اسی رحم کے جلوے دکھانے کے لیے تو پیدا کیا۔نیز فرمایا: كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ(الانعام:55) کہ تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت فرض کرلی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علامہ بغوی جہنم کے عارضی ہونے کو اس آیت‘‘الّا ما شاء ربّک’’(سورة ہود108)کے تحت لے کر آئے ہیں۔گویا انہوں نے بھی جہنم کے عارضی ہونے کی حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی تفسیر کو دراصل آنحضورﷺ کی تفسیر قرار دیا اور اس کی تائید میں یہ درج تھا۔پھرإِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ میں رب کا لفظ رکھ دیا جوربوبیت اور تربیت کی طرف اشارہ ہے کہ جہنم میٍں ڈالا جانا بطور علاج کے ہوگا اور جس اور جیسے جتنے عرصہ میں علاج ہوگا تو اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا اپنی رحمت کا سلوک کرے گا۔چنانچہ ہمارے اہل حدیث معترض کووہ حدیث تو معلوم ہی ہوگی۔جس میں آخری جہنمی کے جہنم سے نکالے جانے اور جنت میں جانے کا ذکر ہے:
‘‘وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‘‘يَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الجَنَّةَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، لاَ وَعِزَّتِكَ لاَ أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا
(صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ العَزِيزُ الحَكِيمُ} [إبراهيم: 4]، {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ} [الصافات: 180]، {وَلِلَّهِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ} [المنافقون: 8]، وَمَنْ حَلَفَ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ)
اور دوسری جگہ جہاں جنت کے ساتھ الّا ماشاء ربّک بھی اللہ کی مشیت کا ذکر آیا ہے۔وہاں اللہ تعالیٰ کی صفت ‘‘عطاء’’کاذکرہے جسے غیر مجذوذ سے مشروط کر دیا یعنی کہ وہ غیر منقطع،نہ ختم ہونیوالی ابدی اور دائمی ہے۔پس اس پہلو سےسوال دونوں آیات میں محض الّا ما شاء ربک کے استثناء ہونے کا نہیں ہے۔بلکہ ان کے ساتھ آیت کے اگلے ٹکڑے میں صفات الٰہیہ سے وضاحت کا ہے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ بجا طورپرفرماتے ہیں:
‘‘دنیا کی تمام قومیں اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ آنے والی بلائیں خواہ وہ پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی جائیں اور خواہ صرف خدا تعالیٰ کے ارادہ میں مخفی ہوں وہ صدقہ خیرات اور توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہیں تبھی تو لوگ مصیبت کے وقت میں صدقہ خیرات دیا کرتے ہیں ورنہ بے فائدہ کام کون کرتا ہے۔ اور تمام نبیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ، خیرات اور توبہ و استغفار سے ردّ بلا ہوتا ہے اور میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی نسبت ایک آنے والی بلا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا الہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا۔ پس اگر اس طرح پر وعید کی پیشگوئی ضروری الوقوع ہے تو میں بیسیوں دفعہ جھوٹا بن سکتا ہوں اور اگر ہمارے مخالفوں اور بداندیشوں کو اس قسم کی تکذیب کا شوق ہے اگر چاہیں تو میں اس قسم کی کئی پیشگوئیاں اور پھر ان کی منسوخی کی ان کو اطلاع دیدیا کروں۔ ہماری اسلامی تفسیروں میں اور نیز بائیبل میں بھی لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی نسبت وقتؔ کے نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ اُس کی عمر پندرہ دن رہ گئی ہے مگر وہ بادشاہ تمام رات روتا رہا تب اُس نبی کو دوبارہ الہام ہوا کہ ہم نے پندرہ دن کو پندرہ سال کے ساتھ بدل دیا ہے۔ یہ قصہ جیسا کہ میں نے لکھا ہے ہماری کتابوں اور یہود اور نصاریٰ کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب کیا تم یہ کہو گے کہ وہ نبی جس نے بادشاہ کی عمر کے بارے میں صرف پندرہ دن بتلائے تھے اور پندرہ دن کے بعد موت بتلائی تھی وہ اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلا۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں منسوخی کا سلسلہ اس کی طرف سے جاری ہے یہاں تک کہ جو جہنم میں ہمیشہ رہنے کا وعید قرآن شریف میں کافروں کے لئے ہے وہاں بھی یہ آیت موجود ہےإِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ (ھود:108) یعنی کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے لیکن اگر تیرا رب چاہے کیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اُس کے کرنے پر وہ قادر ہے لیکن بہشتیوں کے لئے ایسا نہیں فرمایا کیونکہ وہ وعدہ ہے وعید نہیں ہے۔’’
(حقیقۃالوحی ۔روحانی خزائن جلد22صفحہ196)
پس حضرت مرزا صاحب کا یہ فرمانا کہ جہنم کو دائمی کہنے کے باوجود ‘‘إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ’’کہہ کے عارضی قرار دے دیا ،اس میں سورةہود کی اس پوری آیت کی طرف اشارہ ہے۔جس میں ‘‘إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ’’ کا ٹکڑا بھی موجود ہے۔جس کے معنے و مفہوم کومعترض نے چھوڑ کردیانت سے کام نہیں لیا۔
اب ہم اعتراض نمبر33 کی طرف آتے ہیں جو دراصل اعتراض نمبر 34 کا ہی حصہ ہے جس میں جہنم کو عارضی قرار دینے والی حدیث پر اعتراض کرتےہوئے معترض نے اسے واضح جھوٹ کہہ کر حوالے کا مطالبہ کیا ہے۔
اوّل تو جب قرآن حدیث پر قاضی ہے،اس نے فیصلہ کر دیا کہ جہنم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق عارضی اور جنت اللہ کی مشیت کے مطابق دائمی ہے تو اس کی تائید میں ایک نہیں متعدد احادیث موجود ہیں۔آخری جہنی کا جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہونے کا حوالہ پہلے دیکھ چکے ہیں جو حدیث حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے۔اہل حدیث ہوتے ہوئے اس کا حوالہ تلاش کرنا آپ پر اسی طرح لازم ہے کیونکہ حدیث قرآن کی تفسیر اور اس کے تابع ہے۔لیکن اگر آپ اہل حدیث ہونے اور عالم حدیث ہونے سے دستبردار ہوں تو پھر آئیے اس حدیث کا حوالہ لیجئے: حضرت ابو ہریرةؓ روایت کرتے ہیں:
وَيَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الجَنَّةَ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ قِبَلَ النَّارِ
یہ لمبی حدیث ہے جس کے آخر میں ہے:
فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لاَ تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ، فَيَضْحَكُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ، ثُمَّ يَأْذَنُ لَهُ فِي دُخُولِ الجَنَّةِ
(صحیح بخاری کتاب الاذان با ب فضل السجود)
گویا جہنم خالی ہوجائے گی۔
اب صحیح بخاری کی تائید میں دیگر احادیث جن کے حوالےکا مطالبہ معترض نے کیا،پیش ہیں۔
1۔ وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: لیأتین علی جہنم زمان لیس فیہا أحد۔
(معالم التنزیل لبغوی، سورۃ ہود زیر آیت 108، جزء چہارم صفحہ 202)
2۔ لَیَاْتِیَنَّ عَلَی جَہَنَّمَ یَوْمٌ کَأَنَّھَا زَرْعٌ ہَاجٌ وَاحْمَرَّ تَخْفُقُ أَبْوَابُھَا۔
(طبرانی عن ابی امامہ، کنزل العمال جلد14 صفحہ526، ذکر النار وصفتھا حدیث نمبر39505)
3۔ یَاْتِیْ عَلٰی جَہَنَّمَ یَوْمٌ مَا فِیْھَا مِنْ بَنِیْ آدَمَ اَحَدٌ تَخْفُقُ اَبْوَابُھَا۔
(الخطیب عن ابی امامہ، کنز العمال جلد14 صفحہ526، ذکر النار وصفتھا حدیث نمبر39506)
تین ائمہ حدیث نے بیان کیا اورحضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی اور ابو امامہ سے یہ احادیث مروی ہیں جو جہنم کے عارضی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ اس عنوان کے نیچے یہ حدیثیں لے کر آئے ہیں کہ جہنم کا ذکر اور اس کی خصوصیت کیا ہے۔
اعتراض:۔
‘‘بعض کتب میں زبان فارسی میں یہ حدیث لکھی ہے ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم۔’’
( حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ196)
”کیا فارسی زبان میں بھی کوئی حدیثیں ہیں۔”
جواب:۔
یہ سوال دراصل ملائیت زدہ تنگ نظری کی پیداوارہے۔معترض کے اس تعجب پر حیرت ہے کہ اہل حدیث ہوکر اسے اتنا بھی علم نہیں کہ فارسی زبان میں بھی کوئی حدیث ہے یا نہیں۔حدیث کاعلم نہ سہی ،اگر قرآن کا بھی مطالعہ ہوتا تو وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ(إبراهيم: 5) سےظاہرہے کہ ہر نبی کی حدیثیں اس کی قومی زبان میں تھیں۔اور اگر حضرت آدمؑ وادریسؑ کی احادیث سریانی میں،حضرت موسیٰؑ اور ہارونؑ کی عبرانی میں اورحضرت عیسیٰ ؑکی آرامی میں ہوسکتی ہیں توملک فارس کے نبی حضرت زرتشتؑ کی حدیثیں فارسی میں کیوں نہیں ہوسکتیں۔
بلکہ خود ہمارے آقا ومولا جوكَافَّةً لِلنَّاسِ کے لیے رسول تھے۔ان کو اگر مذکورہ بالا حدیث قدسی فارسی میں الہام ہوئی تو اس میں کیاجائے اعتراض ہے۔وہ علیم و خبیر خدا جواس نبی امی کو قرآن کی علم و حکمت سکھانے پر قادر ہے۔کیاوہ آپ کو فارسی میں الہام نہیں کر سکتاتھا؟جس نے اقرأ کہہ کے قرآن سکھایاوہ توفارسی زبان سکھا نے پر بھی قادر تھا۔اور رسول اللہﷺ جنہوں نے آخری زمانے میں اہل فارس کے ذریعہ اسلام کے احیائے نو خبر دی خودآپ سے فارسی میں کلام ثابت ہے جسےامام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الجھاد میں‘‘ مَنْ تَكَلَّمَ بِالفَارِسِيَّةِ’’کاباب باندھا جس میں حضرت ابو ہریرةؓ کی یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت حسنؓ نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈال لی تو رسول اللہﷺ نے فارسی میں فرمایا:«كخ كخ»یعنی تھوکر دو،تھوک دو۔
فارسی لغات میں کخِ کے معنےکسی چیز کو پھینک دینے کے لکھے ہیں۔
دوسری حدیث حضرت ابوہریرةؓ نےیہ بیان کی ہے۔جو صحاح ستہ کی ایک اورکتاب ابن ماجہ میں ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺظہر کی نماز کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایااشِكَمَتْ دَرْدْ؟راوی کہتے ہیں یعنی فارسی میں فرمایا کہ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے۔عرض کیا:جی حضورﷺ۔فرمایا نماز پڑھو اس میں شفا ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الصَّلَاةُ شِفَاءٌ حدیث 3458)
ابو عبد اللہ امام ابن ماجہ کہتے ہیں کہ فارسی کی حدیث جب ایک شخص نے اپنے گھر والوں کو جاکر سنائی تو وہ اسےمارنے کو چڑھ دوڑے کہ کیا فارسی میں بھی کوئی حدیث ہوتی ہے۔یہی حال ہمارےمعترض کا ہے جواپنی تنگ نظری میں فارسی کی یہ حدیث قدسی سن کر تعجب کا اظہار کرکے ایک طرف خدا تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے پرمعترض ہےاور دوسری طرف رسول اللہﷺ کے صاحب علم و فضل ہونے پر اعتراض کرکے اپنی علمی حیثیت کو خودظاہر کرتا ہے۔
اب آئیے رسول اللہﷺ کی بیان فرمودہ اس حدیث قدسی کی طرف جس کا حوالہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے دیا ہے کہ
ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم
یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ‘‘اگر میں خاک کے اس پتلے(انسان) کو نہ بخشوں تواور کیا کروں۔’’
اب اس حدیث قدسی کا مضمون تو اللہ تعالٰی کی صفت رحمت و مغفرت کی وہ زبردست شان بیان کرتاہے۔جس پر سب سے پہلے خود قرآن شریف گواہ ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں منافقوں کا ذکرفرماکے کہ ان کا درجہ آگ میں کافروں سے بھی بدتر ہے ان کی بھی توبہ کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے انہیں مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ (النساء:148)
اللہ تعالیٰ آخر تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔
یہی مضمون اس حدیث قدسی کا ہے اور پھر جیسا کہ اولیائے امت اور متصوفین نے صاحب الہام کی تصحیح حدیث کو قبول فرمارہے ہیں حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود و مہدی سے بڑھ کر اس کی صحت کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔اور جہاں تک اس حدیث قدسی کے فارسی کےحوالوں کا تعلق ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:
1۔حافظ عبد العزیز پرھاڑوی نے اپنی کتاب ‘‘ کوثر النبی فی علم اصول الحدیث’’کے صفحہ 555میں لکھا ہے:
‘‘چکنم بہ ایں گناہ گاران کہ نیامرزم’’
اور اس کے حاشیہ میں ایک بزرگ عالم لکھتے ہیں کہ
‘‘میں نے کہیں یہ بھی پڑھاہے:ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم’’
2۔ جمال الدین حسین انجوی نے فرہنگ جہانگیری جو 1017ھ میں مکمل ہوئی، میں لکھا ہے کہ
‘‘در تفسیر دیلمی مسطور است کہ سأل رسول اللہ عن میکائیل ھل یقول اللہ شیئا بفارسی قال نعم یقول اللہ تعالیٰ جل جلالہ چون کنم با این مشت ستمگار جزاینکہ بیا مرزم۔’’
(فرہنگ جہانگیری جلد دوم صفحہ10)
3۔ سید محمد علی داعی الاسلام اپنی ‘‘فرہنگ نظام’’(سن اشاعت 1346ھ تا1358ھ) کے صفحہ148 پریہی عبارت لکھتے ہیں:
‘‘در تفسیر دیلمی مسطور است کہ سئل رسول اللہ عن میکائیل ھل یقول اللہ شیئا بالفارسیة قال نعم یقول اللہ تعالیٰ جل جلالہ چون کنم با این مشت ستمگار جزاینکہ بیا مرزم۔’’
(فرہنگ نظام جلد پنجم ص148)
اعتراض:۔
”اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار سال میں پیدا ہو گا۔”
(حقیقۃ الوحی صفحہ201جلد 22صفحہ209)
کون سی احادیث صحیحہ؟’نبی پاکﷺ پر مرزا کا جھوٹ ہے۔
جواب:۔
یہاں بھی معترض نے ناشائستہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے جھوٹ کا الزام لگاکر سوال کیا ہےاورمحض سوالوں کا نمبر بڑھانے کے لیے یہ سوال کیاہے۔اعتراض نمبر 26 دنیا کی عمر سات ہزار سال کے تحت اس کا تفصیلی جواب آچکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں آکر پہلی دفعہ جھوٹ کا الزام لگانے کے ساتھ تجاہل عارفانہ کے طور پر یہ بھی کہا کہ کونسی احادیث صحیحہ؟
اس کا سادہ سا جواب تویہی ہے کہ اعتراض نمبر26 میں بیان کی گئی وہ تمام احادیث جن کی صحت ایک صاحب الہام حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود کے کلام سے ظاہر ہے،اور جن کا ماحصل یہ ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال کا ذکر ہے:
1۔ ‘‘من قضى حاجة المسلم في الله كتب الله له عمر الدنيا سبعة آلاف سنة صيام نهاره وقيام ليله’’ابن عساكر عن أنس
(کنزالعمال جزء6 ص444)
دنیا کی عمر سات ہزار سال والی روایت کوعلامہسیوطی (المتوفى: 911ھ)نے اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعةجزء2ص369میں اور ابن عراق الكناني (المتوفى: 963ھ)نے تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعةجزء2ص379میں اور حضرت ملا علی قاری ؒ (المتوفى: 1014ھ)نے الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى جزء1ص199 میں اورعلامہ محمود آلوسی نےتفسیرروح المعانی میں اورعلامہ اسماعیل حقی نے تفسیر روح البیان اورمشہور محدث علامہ عبد الرؤوف المناوي القاهري(المتوفى: 1031ھ)نے اپنی کتاب فیض القدیر میں بیان کیا ہے۔
2۔عن أنس مرفوعا: الدنيا كلها سبعة أيام من أيام الآخرة وذلك قول اللَّه عز وجل ‘‘وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ(الحج:47)’’
اس روایت کو‘‘کشف الخفاء’’ میں علامہ عجلونی نے ‘‘مقاصد الحسنة’’ میں علامہ سخاوی نے
‘‘تاریخ جرجان’’ میں علامہ جرجانی نے ‘‘حاوی للفتاویٰ’’ میں علامہ سیوطی نے بیان کی ہے۔
3۔ایک اور اہم حدیث حضرت ابن عمرؓ کی صحیح بخاری میں ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘ إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِي أَجَلِ مَنْ خَلاَ مِنَ الأُمَمِ، كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ العَصْرِ، وَمَغْرِبِ الشَّمْسِ’’
(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ فَضْلِ القُرْآنِ عَلَى سَائِرِ الكَلاَمِ)
اور دیگر انبیاء آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ کے کل زمانہ قریباً پانچ ہزار سال کے مقابل پر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا عرصہ زمانہ دو ہزار سال بنتا ہے۔پانچویں ہزار سال کے آخر میں آپ کی بعثت ہوئی۔جس کے تین سو سال خیر القرون کا زمانہ اور ایک ہزار فیج اعوج کا دور ملاکر مسیح موعود کا زمانہ چھٹے ہزار سال کا آخر بنتا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘اِن سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلّط کا زمانہ ہے اور پھر تیسرا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلّط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا(یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سیّد و مولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیاہے) اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلّط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پرختم ہو جاتا ہے۔ اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر وبرکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے۔ اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اِس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے۔ کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفصّل طور پر۔’’ (لیکچر لاہور روحانی خذائن جلد 20 صفحہ 38-40)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:
”کتب سابقہ اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمر دنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس تک ہے اِسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ إِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ(الحج:48) یعنی خدا کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک حضرت آدمؑ سے اسی قدر مدت بحساب قمری گذری تھی جو اِس سورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہے۔ اور اس کے رو سے حضرت آدمؑ سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے اور یہ حساب جو سورۃوالعصر کے حروف کے اعداد کے نکالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے حساب سے قریباً تمام و کمال ملتا ہے صرف قمری اور شمسی حساب کو ملحوظ رکھ لینا چاہےے۔ اور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں آنا ضروری ہے اور کئی برس ہو گئے کہ چھٹا ہزار گزر گیا۔”
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 146، 147)
آپؑ مزیدفرماتے ہیں:
‘‘خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے یعنی تیئیس23 برس کا تمام وکامل زمانہ یہ کل مدت گذشتہ زما ؔنہ کے ساتھ ملاکر4739 برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سےؔ ہیں۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الف خامس میں جو مریخ کی طرف منسوب ہے مبعوث ہوئے ہیں اور شمسی حساب سے یہ مدت 4598 ہوتی ہے اور عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائبل کا رکھا گیا ہے 4636 برس ہیں۔ یعنی حضرت آدم سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اخیر زمانہ تک4636 برس ہوتے ہیں اس سے ظاہرہوا کہ قرآنی حساب جو سورۃ العصر کے اعداد سے معلوم ہوتا ہے اور عیسائیوں کی بائبل کے حساب میں جس کے رُو سے بائبل کےحاشیہ پر جا بجا تاریخیں لکھتے ہیں صرف اٹھتیس٣٨٨ برس کافرق ہے ۔اور یہ قرآن شریف کے علمی معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس پر تمام افرادِ امت محمدیہ میں سے خاص مجھ کو جو میں مہدیئ آخر الزمان ہوں اطلاع دی گئی ہے تا قرآن کا یہ علمی معجزہ اور نیز اس سے اپنے دعوے کا ثبوت لوگوں پر ظاہر کروں۔ اور اِن دونوں حسابوں کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہؔ وسلم کا زمانہ جس کی خدا تعالیٰ نے سورۃ والعصر میں قسم کھائی الف خامس ہے یعنی ہزار پنجم جومریخ کے اثر کے ماتحت ہے۔ اور یہی سرّ ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اُن مفسدین کے قتل اور خونریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا اور قتل کرنا چاہا اور اُن کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اوّل کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلّی تھا یعنی یہ بعث اوّل جلالی نشان ظاہر کرنے کے لئے تھا ۔’’ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ91-92)
حضرت مرزا صاحب نےفرمایا کہ:
سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے بارہ سو نوے برس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی بارہ سو نوے کا۔ پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال تیرہ سو پینتیس برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جس مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے۔ اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی زلزلے آئیں گے لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئیں ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائیبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سے چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادہئِ الٰہی میں مقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔ اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے۔ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اسکے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہے۔”
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ207تا 209)
نیز فرمایا:
”خدا نے آدم کو چھٹے دن بروز جمعہ بوقت عصر پیدا کیا۔ توریت اور قرآن اور احادیث سے یہی ثابت ہے اور خدانے انسانوں کے لئے سات دن مقرر کئے ہیں۔ اور اِن دنوں کے مقابل پر خدا کا ہر ایک دن ہزار سال کا ہے اور اس کی رو سے استنباط کیا گیا ہے کہ آدم سے عمردنیا کی سات ہزار سال ہے اور چھٹا ہزار جو چھٹے دن کے مقابل پر ہے وہ آدمِ ثانی کے ظہور کا دن ہے۔ یعنی مقدریوں ہے کہ چھٹے ہزار کے اندر دینداری کی روح دنیا سے مفقود ہو جائے گی اور لوگ سخت غافل اور بے دین ہو جائیں گے۔ تب انسان کے روحانی سلسلہ کو قائم کرنے کے لئے مسیح موعود آئے گا۔ اور وہ پہلے آدم کی طرح ہزار ششم کے اخیر میں جو خدا کا چھٹا دن ہے ظاہر ہو گا۔ چنانچہ وہ ظاہر ہو چکا ۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ259)
سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں
عمر دنیا کو بھی اب تو آگیا ہفتم ہزار
اعتراض:۔
” اس علیم و حکیم کا قرآن شریف میں فرمانا کہ 1857میں میرا کلام آسمان پر اٹھا لیا جائے گا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے۔”
(ازالہ اوہام ۔جلد3صفحہ490حاشیہ)
قادیانیو! ہے ہمت تواس مضمون کی آیت قرآن مجید سے نکال کر مرزاکوسچا ثابت کردو،ورنہ توبہ کرو ایسے شخص کو نبی ماننے سے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء اور جھوٹ باندھتا ہے۔
جواب:۔
قرآن شریف میں ایک نہیں متعدد آیات اس مضمون کی موجود ہیں۔اگر واقعی معترض کو اپنے اس سوال کا جواب چاہیے تو خود حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے وہ آیت پیش فرمادی جو سورة مومنون کی آیت 19 ہےکہ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ(المومنون:19)کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے روحانی پانی ایک خاص اندازہ سے نازل فرمایا اور اس زمین میں رکھا اور ہم اس کے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔خود حضرت مرزا صاحب نے اس کی یہ وضاحت فرمائی ہے:
”آیتؔ إِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (المومنون:19)میں 1857ءکی طرف اشارہ ہے جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہوگئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل 1274 ہیں اور 1274کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو 1857ءہوتاہے۔ سو درحقیقت ضعف اسلام کازمانہ ابتدائی یہی 1857ء ہے جس کی نسبت خدائے تعالےٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتاہے کہ جب وہ زمانہ آئیگا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائیگا۔ سو ایساہی 1857ءمیں مسلمانوں کی حالت ہوگئی تھی کہ بجُز بدچلنی اور فسق وفجور کے اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یادنہ تھا جس کا اثر عوا م پر بہت پڑ گیا تھا انہیں ایام میں انہوں نے ایک ناجاؔئز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجود نمک خوار اور رعیت ہونے کے مقابلہ کیا۔ حالانکہ ایسامقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعًا جائز نہ تھاکیونکہ وہ اس گورنمنٹ کی رعیت اور ان کے زیر سایہ تھے اور رعیت کا اس گورنمنٹ کے مقابل پر سر اٹھاناجس کی وہ رعیت ہے اور جس کے زیر سایہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتی ہے سخت حرام اورمعصیت کبیرہ اور ایک نہایت مکروہ بدکاری ہے۔جب ہم 1857ءکی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتووں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے عام طور پر مہریں لگا دی تھیں جو انگریزوں کو قتل کردینا چاہیئے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے اُن کے فتوے تھے۔ جن میں نہ رحم تھا نہ عقل تھی نہ اخلاق نہ اؔنصاف۔ ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا۔ننھے ننھے بچوں اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا اورنہایت بے رحمی سے انہیں پانی تک نہ دیا۔ کیا یہ حقیقی اسلام تھا یایہودیوں کی خصلت تھی۔ کیا کوئی بتلاسکتا ہے کہ خدائے تعالےٰ نے اپنی کتاب میں ایسے جہاد کاکسی جگہ حکم دیا ہے۔ پس اس حکیم وعلیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ 1857ء میں میرا کلام آسمان پر اُٹھایاجائیگا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے جیساکہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔خدائے تعالیٰ پر یہ الزام لگانا کہ ایسے جہاد اور ایسی لڑائیاں اس کے حکم سے کی تھیں یہ دوسرا گناہ ہے۔ کیا خدائے تعالیٰ ہمیں یہی شریعت سکھلاتا ہے کہ ہم نیکی کیؔ جگہ بدی کریں۔ اور اپنی محسن گورنمنٹ کے احسانات کا اس کو یہ صلہ دیں کہ اُن کی قوم کے صغر سن بچوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کریں اور ان کی محبوبہ بیویوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔ بلاشبہ ہم یہ داغ مسلمانوں خاص کر اپنے اکثر مولویوں کی پیشانی سے دھو نہیں سکتے کہ وہ 57ء میں مذہب کے پردہ میں ایسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے جس کی ہم کسی قوم کی تواریخ میں نظیرنہیں دیکھتے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ انہوں نے اور بھی ایسے بُرے کام کئے جو صرف وحشی حیوانات کی عادات ہیں نہ انسانوں کی خصلتیں۔ انہوں نے نہ سمجھا کہ اگر اُن کے ساتھ یہ سلوک کیاجائے کہ ایک ممنون منت اُن کااُن کے بچوں کومار دے اوران کی عورتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرے تو اُس وقت اُن کے دل میں کیا کیا خیال پیدا ہوگا۔ باوجوؔد اس کے یہ مولوی لوگ ا س بات کی شیخی مارتے ہیں کہ ہم بڑے متقی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نفاق سے زندگی بسر کرنا انہوں نے کہاں سے سیکھ لیا ہے۔ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے اور انکے دلی اور دماغی قویٰ پر بہت بُرا اثر ان سے پڑا ہے۔ اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الٰہی کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیرکی جائے کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کرسکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثر ڈالتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشی کی مزاحم ہورہی ہیں۔ کیوں مزاحم ہورہی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے اکثر زوائد کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پر ٹھایاگیاہے۔ وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایاتھا اس سے لوگ بے خبر ہیں وہ عرفان جو قرآن نے بخشاتھا اس سے لوگ غافل ہوگئے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اُترتا۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ488، 493)
اس بات کی تائید وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ(الجمعة:4)سے بھی ہوتی ہے جس کے اعداد1275 ہیں اور 1275 کا زمانہ 1858ء ہے۔
1857ءوہ زمانہ ہے جس کی تائید مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس حالی کے اشعار سے ہوتی ہے جنہوں نے اپنے عنفوان شباب میں اس زمانہ کو دیکھ کر اور متاثر ہوکر اسلام کی حالت زار پر مرثیہ لکھا جس میں لکھا ہے کہ
سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآن کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبیؐ سے نہیں کام باقی
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
(مسدس حالی‘‘مدوجزر اسلام’’ از مولانا الطاف حسین حالی1879ء)
اعتراض:۔
”پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا۔ اور نابالغ بچے نبوت کریں گے۔ اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے۔”
(ضرورۃ الامام ۔روحانی خزائن جلد13صفحہ475)
“صریح بہتان ہے،جھوٹ،افتراء ہے۔حوالہ پیش کرو۔”
جواب:۔
اگر واقعی یہ جھوٹ اور افتراء ہے تو حوالہ پیش کرنے کا مطالبہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور اگر حوالہ پیش ہوجائے تو پھر جھوٹ اور افتراء کس کا ثابت ہوگا یہ بھی طے ہوجانا چاہیے۔اب ملاحظہ ہو پہلے نبیوں کی کتابوں میں یوایل نبی کی کتاب کا حوالہ لکھا ہے:
”اس کے بعد مَیں ہر فرد بشر پر اپنی روح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوت کریں گے۔ تمہارے بوڑھے خواب اور جوان رؤیا دیکھیں گے بلکہ میں ان ایام میں غلاموں اور لَونڈیوں پر اپنی روح نازل کروں گا اور میں زمین و آسمان میں عجائب ظاہر کروں گا۔”
(یوایل باب2 آیات 28 تا31)
پھر اعمال میں لکھا ہے:
”خدا فرماتا ہے کہ آخری دنوں میں ایسا ہو گا کہ میں اپنے روح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوت کریں گی اور تمہارے جوان رؤیا اور تمہارے بڈھے خواب دیکھیں گے بلکہ میں اپنے بندوں اور اپنی بندیوں پر بھی ان دنوں میں اپنے روح میں سے ڈالوں گا اور وہ نبوت کریں گی۔”
(اعمال باب 2 آیات 17-18)
جہاں تک احادیث کا تعلق ہے۔نبی کریمﷺ نے جہاں اپنی امت کو عمومی رنگ میں مبشرات اور رؤیائے صالحہ کی خبر دی۔وہاں یہ بھی فرمایا کہ
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَکَدْ رُؤْیَا الْمُسْلِمِ تَکْذِبُ وَأَصْدَقُکُمْ رُؤْیَا أَصْدَقُکُمْ حَدِیثًا وَرُؤْیَا الْمُسْلِمِ جُزْء ٌ مِنْ خَمْسٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْء ًا مِنَ النُّبُوَّۃِ۔
(مسلم، کتاب الرؤیا، روایت نمبر6043)
ایک خاص زمانہ کے قرب کے وقت مومن کی رویا جھوٹی نہیں ہو گی۔ اور جو تم میں سے زیادہ سچ بولنے والا ہے اس کی خوابیں زیادہ سچی ہوں گی۔ اور مسلمان کی رؤیا نبوت کا پینتالیسواں حصہ ہے۔اور فرمایا: من لم یؤمن بالرؤیا الصادقۃ فإنہ لم یؤمن باللہ ورسولہ۔ (الدیلمی-عن عبد الرحمن بن عائذ،کنز العمال، حرف المیم، فرع فی الرویا، جزء 15 صفحہ371)
اسی طرح حضرت علیؓ کی روایت کے مطابق نبی کریمﷺ نے آخری زمانہ میں جب اسلام اور قرآن کے اٹھ جانے کا ذکر کیا تو علماء کے ایک گروہ کے بارہ میں فرمایا عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ(شعب الایمان للبیھقی جزء3ص317)لیکن مسیح موعودؑ کے ظہور کے وقت اپنی امت کے علماء کی نسبت سے فرمایا: عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ
(المقاصد الحسنۃ۔از علامہ سخاوی جزء 1ص757)
نیز فرمایا:
«فُقَهَاءُ عُلَمَاءُ كَادُوا مِنَ الْفِقْهِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ»
(حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء از ابو نعیم الاصبھانی (متوفی:430ھ) جزء10 ص192)
اعتراض:۔
”بعض پیشگوئیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اقرار کیا ہے کہ میں نے ان کی اصلیت سمجھنے میں غلطی کھائی۔”
(ازالہ اوہام صفحہ400جلد3صفحہ307)
قادیانیو! پڑھو ‘‘انّا للہ وانّا الیہ راجعون’’ جس نبی کی یہ شان اللہ نے بیان فرمائی ‘‘وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم3-4)’’ وہ پیشگوئیوں کو نہ سمجھ سکیں؟ عجیب ہی بات ہے۔یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔اس مضمون کی کوئی حدیث دکھا دو۔
جواب:۔
معترض نے اس جگہ نزول مسیح ابن مریم کے پُر معارف مضمون سے توجہ ہٹانے کے لیے اس کےایک ٹکڑے کولے کراعتراض کر ڈالا۔
1۔عَنْ أَبِی مُوسَی عَنِ النَّبِیِّ -صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ أَنِّی أُھَاجِرُ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی أَرْضٍ بِھَا نَخْلٌ فَذَھَبَ وَھْلِی إِلَی أَنَّھَا الْیَمَامَۃُ أَوْ ھَجَرُ فَإِذَا ھِیَ الْمَدِینَۃُ یَثْرِبُ۔ (مسلم، کتاب الرؤیا، باب رؤیا النبیؐ)
ترجمہ:حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف جا رہا ہوں جہاں کھجوریں ہیں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ جگہ یمامہ یا ہجر ہے مگر وہ شہر یثرب تھا۔
2۔ صلح حدیبیہ کا واقعہ6ھ میں رسول اللہﷺ ایک رؤیا کی بنا پر 1400 صحابہ کو لے کر مدینہ عمرہ کے لیے نکلے۔جس کے بارہ میں قرآن میں ہے:
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا (الفتح:28)
مقام حدیبیہ پر روک لیے گئے اور اگلے سال عمرہ کا معاہدہ ہوا۔ کتنا بڑا دھچکہ حضرت عمرؓ جیسے صحابی کو لگا۔انہوں نےپوچھا:أَلَسْتَ نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا؟ کیا ہم حق پر نہیں؟ قَالَ: «بَلَى»پھر پوچھا: أَلَسْنَا عَلَى الحَقِّ، وَعَدُوُّنَا عَلَى البَاطِلِ؟ قَالَ: «بَلَى» ،پھر پوچھا: فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا؟ قَالَ: «إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَسْتُ أَعْصِيهِ، وَهُوَ نَاصِرِي» پھر پوچھا: أَوَلَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي البَيْتَ فَنَطُوفُ بِهِ؟قَالَ: «بَلَى، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيهِ العَامَ»، آپؓ نے فرمایا: لاَ، قَالَ: «فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ»کیا آپ سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ نہ تھا کہ ہم طواف کریں گے؟ فرمایا: یہ کب کہا تھا کہ اس سال۔
(صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:
اگر فرض کے طور پر یہ بھی مانؔ لیں کہ کوئی صحابہ میں سے یہی سمجھ بیٹھا تھا کہ ابن مریم سے ابن مریم ہی مراد ہے تو تب بھی کوئی نقص پیدانہیں ہوتا۔ کیونکہ پیشگوئیوں کے سمجھنے میں قبل اس کے جوپیشگوئی ظہور میں آوے بعض اوقات نبیوں نے بھی غلطی کھائی ہے پھر اگر کسی صحابی نے غلطی کھائی تو کون سے بڑے تعجب کی بات ہے۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اورفہم تمام اُمت کی مجموعی فراست اور فہم سے زیادہ ہے بلکہ اگر ہمارے بھائی جلدی سے جوش میں نہ آجائیں تو میرا تو یہی مذہب ہے جس کو دلیل کے ساتھ پیش کرسکتا ہوں کہ تمام نبیوں کی فراست اور فہم آپ کی فہم اور فراست کے برابر نہیں۔مگر پھر بھی بعض پیشگوئیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اقرار کیا ہے کہ میں نے اُن کی اصل حقیقت سمجھنے میں غلطی کھائی میں پہلے اس سے چند دفعہ لکھ چکا ہوں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طورپر فرما دیاتھا کہ میری وفات کے بعد میری بیبیوں میں سے پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو ہی بیبیوں نے باہم ہاتھ ناپنے شروع کردئے چونکہ آنحضرت صلیؔ اللہ علیہ وسلم کو بھی اس پیشگوئی کی اصل حقیقت سے خبر نہ تھی اس لئے منع نہ کیا کہ یہ خیال تمہارا غلط ہے۔ آخر اس غلطی کو پیشگوئی کے ظہور کے وقت نے نکالا۔ اگر زمانہ اُن بیبیوں امّہات المؤمنین کو مہلت دیتا اور وہ سب کی سب ہمارے اِس زمانہ تک زندہ رہتیں تو صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کے عہد سے لے کر آج تک تمام اُمت کا اِسی بات پر اتفاق ہوجاتا کہ پہلے لمبے ہاتھ والی بی بی فوت ہوگی اورپھرظہور کے وقت جب کوئی اَور ہی بیوی پہلے فوت ہوجاتی جس کے اَوروں کی نسبت لمبے ہاتھ نہ ہوتے تو اس تمام اجماع کو کیسی خجالتیں اُٹھانی پڑتیں اورکس طرح ناحق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کراتے اوراپنے ایمان کو شبہات میں ڈالتے۔’’
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ306-307)
اعتراض:۔
‘‘چنانچہ توریت کی تائید کے لیے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آئے جن کے آنے پر اب بائیبل شہادت دے رہی ہے۔’’ (شہادۃ القرآن ۔خزائن جلد 6 صفحہ341)
جھوٹ،جھوٹ،مرزا کے بڑ ہانکنے کے کیا کہنے! بائبل میں ایک جگہ 400 جھوٹے نبیوں کا ذکر ہے جن کے مقابلے میں سچے نبی مکایا علیہ السلام کو فتح نصیب ہوئی تھی۔یہ 400 جھوٹے نبی بعل بک کے پجاری تھے۔مشرک لوگ ان پجاریوں کو خداوند کے نبیوں کے مقابلہ میں نبی کہا کرتے تھے،مرزا جی اپنے‘‘نور نبوت’’سے ان مشرکوں کو نبی سمجھ بیٹھے۔
جواب:۔
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس جگہ قرآنی آیت کی تفسیر میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ توریت کی تائید و تصدیق کے لیے حضرت موسیٰ کے بعد نبی آئے۔
پہلی دلیل آیت وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (البقرة:88) یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے اور دوسری ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى(المومنون:45)یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے۔
اب اگر معترض اس حقیقت کا انکار کرتا ہے تو یہ قرآنی صداقتوں کا انکارہے۔جہاں تک چار سو نبیوں کا تعلق ہےتو لیجئے حوالہ!1-سلاطین میں لکھا ہے:
‘‘جب اخی اب نے ایلیاہ کو دیکھا تو اس نے اس سے کہا اے اسرائیل کے ستانے والے کیا تو ہی ہے؟ اس نے جواب دیا میں نے اسرائیل کو نہیں ستایا بلکہ تو اور تیرے باپ کے گھرانے نے کیونکہ تم نے خداوند کے حکموں کو ترک کیا اور تو بعلیم کا پیرو ہوگیا۔اس لیے اب تو قاصد بھیج اور سارے اسرائیل کو اور بعل کے ساڑھے چار سو نبیوں کو اور یسیرت کے چارسو نبیوں کو جو اِیزبِل کے دستر خوان پر کھاتے ہیں کوہ کرمِل پرمیرے پاس اکٹھا کردے۔’’ (سلاطین اول باب 18 17 تا199)