Thursday 15 January 2015

اس دلیل کا علمی و تنقیدی جائزہ کہ پرانا نبی دوبارہ آجانے سے ختم نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا

اِس اِستدلال کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پہلے پیدا ہونے والا نبی آخری نبی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب ہم اِس استدلال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بھی انتہائی بودا اورلغو نظر آتا ہے۔    سوال یہ ہے کہ آج اگر کسی بیس سالہ نوجوان کے سامنے کوئی بچہ پیدا ہو اور دیکھتے دیکھتے چند دِن میں فوت ہو جائے پھر وہ نوجوان اسّی سال بعد سَو سال کی عمر میں وفات پائے تو مؤرّخ کِس کو آخری لکھے گا یعنی ہر صاحبِ فہم اور ذی ہوش و حواس مؤرّخ کِس کو آخری قرار دے گا؟
اس بچّے کو جو بعد میں پیدا ہؤا مگر چند دِن کی زندگی پاکر فوت ہو گیا یا اس پہلے پیدا ہونے والے انسان کو جو اس بچے کی وفات کے اسّی80 سال بعد سَو 100سال عمر پاکر فوت ہؤا؟
 افسوس کہ بعینہٖ یہی صورت ہمارے مخالف علمائے کرام پیش کر رہے ہیں اور انہیں اِس منطق کا بودا پَن نظر نہیں آرہا۔ وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر کم و بیش چھ صد سال کی تھی جب سَیّد کَونین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ 63 سال کی عمر میں حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی میں ہی آپ ؐ کا وصال ہؤا اور اس کے بعد اَب تک چودہ سَو سال مزید ہونے کو آئے کہ عیسیٰ نبی اﷲ زندہ سلامت موجود ہیں۔ بتائیے کہ جب وہ نازل ہو کر اپنا مشن پورا کرنے کے بعد بالآخر فوت ہوں گے تو ایک غیر جانبدار مؤرّخ زمانی لحاظ سے کِس کو آخری قرار دے گا۔
 جب علماءِ ظاہر کے نزدیک آیت خاتم النّبییّن زمانی اعتبار سے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی اَور کو آخری ہونے کا حق نہیں دیتی تو پھر زمانی اعتبار سے ہی علماءِ ظاہر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری نبی قرار دینے کا کیا حق ہے؟ صرف مُنہ سے اِس حقیقت کا انکار کوئی معنے نہیں رکھتا جب کہ وہ عملاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اِس دُنیا میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینکڑوں سال بعد آنے والا سب سے آخری نبی تسلیم کرتے ہیں۔

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

’’ سوال یہ ہے کہ آج اگر کسی بیس سالہ نوجوان کے سامنے کوئی بچہ پیدا ہو اور دیکھتے دیکھتے چند دِن میں فوت ہو جائے پھر وہ نوجوان اسّی سال بعد سَو سال کی عمر میں وفات پائے تو مؤرّخ کِس کو آخری لکھے گا یعنی ہر صاحبِ فہم اور ذی ہوش و حواس مؤرّخ کِس کو آخری قرار دے گا؟
یہ بہت جاندفار دلیل ہے