Wednesday 19 July 2017

رشتہ ناطہ کے سلسلہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ کی مختلف ہدایات



سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ کے دل میں بنی نوع انسان کی ہمدردی، غمخواری اور خدمت کا جذبہ ایسے کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا جیسے ماں کے دل میں اپنے بچوں کا پیار موجزن ہوتاہے۔غرباء ، مساکین،بیوگان اور یتامیٰ کی خدمت اور ہمدردی میں آپ ہر وقت مشغول رہتے تھے۔ اسی مصروفیت میں شامل آپ کی خدمت کی ایک شاخ رشتہ ناطہ کاکام بھی تھا۔ یہ خدمت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن یہ کام بہت نازک ہونے کی وجہ سے خصوصی حکمت اورغیر معمولی فراست چاہتاہے۔ حضور مسند خلافت پرمتمکن ہونے سے قبل بھی یہ فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے ۔حضور رشتہ ناطہ کے کام میں بعض معاونین سے کام لیتے تھے۔ اس وقت اس عاجز کو بھی کچھ عرصہ حضور کی خدمت میں حاضر رہ کر یہ خدمت بجا لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔حضور کی ہدایت کے مطابق دو علیحدہ علیحدہ رجسٹر بنائے گئے تھے۔ ایک رجسٹر میں بچیوں کے کوائف اور دوسرے میں بچوں کے کوائف درج کئے جاتے ۔ والدین کو بھیجنے کے لئے چٹھیاں فوٹو سٹیٹ کروائی گئی تھیں ان پر کوائف رشتہ لکھ کر بھجوائے جاتے تھے۔ 
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ نے مسند خلافت پرمتمکن ہونے کے بعد دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رشتہ ناطہ کا ڈیسک قائم فرمایا۔ حضور نے یہ خدمت خاکسار کے سپردفرمائی۔ چنانچہ نومبر 1982ء سے اکتوبر 1983ء تک خاکسار کورشتہ ناطہ کے ڈیسک پر خدمت بجا لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ان دنوں حضور رحمہ اﷲ تعالیٰ نے انٹرنیشنل رشتہ ناطہ کمیٹی بھی قائم فرمائی جس کے صدر محترم مرزا عبدالحق صاحب کو مقرر فرمایا ۔بعد میں اس کمیٹی کے صدر محترم چوہدری حمیداﷲ صاحب مقرر ہوئے ۔ خاکسار بھی اس کمیٹی کاممبر تھا۔
اکتوبر 1983ء میں حضور نے خاکسار کو جرمنی بھجوایا ۔ اکتوبر 1986ء میں جرمنی سے واپسی پر حضور نے اس عاجز کو انچارج شعبہ رشتہ ناطہ صدرانجمن احمدیہ مقرر فرمایا جہاں قریباً ساڑھے پانچ سال تک خدمت کی توفیق ملی۔
رشتہ ناطہ کے سلسلہ میں حضور مسلسل ہماری رہنمائی فرماتے رہتے تھے۔ اور حضورکی طرف سے ہدایات ملتی رہتی تھیں۔ ان ہدایات سے عیاں ہوتا تھاکہ حضور کے دل میں جماعت کا کس قدر درد ہے۔ ان میں سے بعض اہم ہدایات خلاصۃً پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتاہوں۔
…… حضور فرماتے تھے کہ رشتہ ناطہ کی خدمت بجا لانے والے عہدیدار کی یہ خصوصیت ہونی چاہئے کہ ا س کے دل میں جماعت کے احباب کا حقیقی درد ہو۔ جس خاندان کی بچی یا بچے کے رشتہ کا معاملہ سامنے ہووہ عہدیدار اس طرح خدمت بجا لائے جس طرح وہ اس خاندان کا ایک فرد ہے۔ بلکہ ان کا سرپرست ہے ۔ صرف اسی صورت میں وہ عہدیدار اس خاندان کے کام آ سکتاہے۔ وگرنہ صرف دفتری لحاظ سے خط لکھنا اور سطحی طور پر پیغام بھجوانا حقیقی خدمت نہیں ہے۔
…… حضور یہ بھی فرمایاکرتے تھے کہ رشتہ ناطہ کاکام بہت نازک ہوتاہے۔ اس میں 
غیر معمولی حکمت سے کام لینے والے اور فراست سے فرائض سرانجام دینے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ فریقین کے حالات کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہئے ۔ دعائیں کرتے ہوئے جوڑ کے رشتے تجویز کرنے چاہئیں۔ پھر ان تجاویز کوعملی جامہ پہنانے کے لئے بہت حکمت کے ساتھ معاملہ پیش کرناچاہئے اور بات کو آگے بڑھانا چاہئے۔
…… حضور تاکید فرماتے تھے کہ رشتہ تجویز کرنے والے کایہ کام ہوتاہے کہ وہ فریقین کے حالات کے مطابق مناسبِ حال، ہم کفو اور ہم آہنگی رکھنے والے رشتے تجویز کرے۔لیکن یہ خیال رکھے کہ ذمہ داری قبول نہ کرے۔ فریقین پرواضح کردے کہ آپ خود اپنی تسلی کرلیں ۔امیر جماعت ، صدر حلقہ یا صدر لجنہ وغیرہ سے رپورٹیں لے لیں۔ حالات کا جائزہ لیں۔ بچی یا بچے کے اخلاق اور دینی حالت کے بارہ میں اطمینان حاصل کریں اورپھردعا اوراستخارہ کے ذریعہ بات آگے بڑھائیں۔
…… حضور فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ بچیوں کی شکل و شباہت اور بالخصوص ان کے قد کابہت دھیان رکھتے ہیں۔ حالانکہ بعض بچیاں اتنی نیک اور سگھڑ ہوتی ہیں کہ وہ شادی کے بعد گھروں کوجنت نظیر بنادیتی ہیں۔ اگروہ زیادہ خوش شکل نہ بھی ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔حقیقی حسن تو روحانی ہوتاہے۔ نیکی اور عمدہ اخلاق کو اہمیت دینی چاہئے۔ قد کے متعلق تو حضورخاص طورپر فرمایا کرتے تھے کہ مَیں بہت کثرت سے ایسی بچیوں کوذاتی طورپر جانتاہوں کہ جن کے قد زیادہ لمبے تو نہیں ہیں لیکن انہوں نے شادی کے بعد خداتعالیٰ کے فضل سے گھروں کو خوشیوں اور برکتوں سے بھر دیاہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ مدنظر رکھاجائے کہ رشتہ ناطہ کے معاملہ میں نیکی اور تقویٰ کوبنیادی اہمیت دی جائے۔اس کوترجیح دینے سے برکتیں ملتی ہیں۔
…… حضور انور نے کئی بار فرمایا کہ ہمیں ہر کام کا آغاز دعا سے کرنا چاہئے ۔ اور رشتہ ناطہ کے معاملہ میں تو خاص طورپر دعا اور استخارہ سے کام لینا چاہئے ۔ لیکن بعض افراد استخارہ کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے شکو ک اور توہمات میں پڑ جاتے ہیں ۔خوابوں کی تعبیر کا حقیقی علم نہیں رکھتے ۔ لہذا اس معاملہ میں تدبّر سے کام لینا چاہئے ۔نیک دلی سے پرسو ز دعائیں کریں اور اگر دل کو تسلی اور اطمینان ہوجائے تورشتہ طے کرلیں اور خدا تعالیٰ پر توکّل کریں۔
…… حضور انور نے خاکسار کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ اگر کوئی خاندان رشتہ کے لئے آپ کے پاس آتاہے ۔ان کی بچی یا بچے کے لئے اگر آپ کے پاس مناسب اورہم کفو ایک سے زائد تجاویزہیں تو یہ سب تجاویز ان کے سامنے پیش کردیں۔ ایک ایک تجویز پیش کرکے انتظار کرنے میں وقت ضائع ہوتاہے۔نیز فرماتے تھے کہ مثلاًیہی تجاویز جو ایک خاندان کو دی ہیں اگر کسی اور خاندان کو یہی تجاویز دینی پڑیں تو دے دیں۔ جہاں جہاں خداتعالیٰ چاہے گا رشتے ہوجائیں گے ۔ فرماتے تھے کہ ا یک ایک وقت میں دس دس تک یاکم وبیش تجاویز بھی دی جاسکتی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ بعض اوقات اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
…… حضور فرماتے تھے کہ رشتہ ناطہ کے کوائف کے ساتھ بچوں اور بچیوں کی تصاویر بھی لینی چاہئیں ۔ تصاویر کے بغیر رشتے تجویز کرنا اور فریقین کے لئے رشتوں کا ا نتخاب کرنا مشکل ہوتاہے ۔ ہاں یہ بھی ہدایت ہوتی تھی کہ خاص طورپر بچیوں کی تصاویر کو امانت سمجھتے ہوئے بہت حفاظت سے رکھناچاہئے۔ اور رشتہ طے پانے کے بعد خاندان والے یہ امانت واپس وصول کر سکتے ہیں۔
…… حضور نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ پاکستان کے بعض بچوں اور بچیوں کے رشتے بیرونی ممالک میں کروانے کے لئے بھی کوائف اور اعدادو شمار اکٹھے کئے جائیں ۔جہاں عمر اور تعلیم وغیرہ کے لحاظ سے مناسب ہووہاں ایسے رشتے نہ صرف متعلقہ خاندانوں کے لئے بلکہ جماعتی لحاظ سے بھی مفید ثابت ہوں گے۔
…… حضور نے فرمایا تھاکہ قادیان میں خداتعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص اور ا چھی بچیاں ہیں ۔ان کے رشتے دنیا کے مختلف ممالک میں کروائے جا سکتے ہیں۔ حالات کا تفصیلی جائزہ لے کر یہ کام سرانجام دیا جائے۔
…… ایک دفعہ ایک ایسے نوجوان کے رشتے کامعاملہ سامنے آیا جو جماعتی تربیت اور رابطہ
 و تعاون کے لحاظ سے کمزور تھا ۔پہلے تو حضور نے اس کاخط ایک طرف رکھ دیا ۔ اور یہ ظاہر فرمایا کہ ہمیں اس کے لئے رشتہ تجویز کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد حضور نے شفقت فرماتے ہوئے مجھ سے فرمایاکہ اس نوجوان کے لئے بھی رشتہ تجویز کیا جائے۔ چنانچہ مَیں نے اس کے لئے ایک مناسب رشتہ تجویز کیا تو حضور نے اس کی منظوری مرحمت فرمائی۔ 
…… حضور انور مجھے تاکید فرمایا کرتے تھے کہ دفتر میں بیٹھ کر رشتہ ناطہ کے خطوط لکھنا ہی کافی نہیں بلکہ مختلف شہروں کے دورے بھی کیا کرو۔ اور رشتہ کے خواہشمند خاندانوں کے گھرمیں بھی جایا کرو۔ اس طرح خاندان کا Status معلوم ہوجاتاہے ۔ اور ہم کفو رشتے تجویز کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔چنانچہ جب حضور آسٹریلیا اورفجی کے دورہ پر تشریف لے گئے تو اس دوران میرا دورۂ رشتہ ناطہ پشاور سے کراچی تک (پاکستان کے مختلف اضلاع کا دورہ ) مقرر فرمایا ۔چنانچہ خاکسار نے دورہ کا پروگرام سب اضلاع کو بھجوایااورتقریباً ڈیڑھ ماہ کا دورہ کیا۔ جن خاندانوں نے حضور کی خدمت میں رشتہ ناطہ کے لئے خطوط لکھے تھے ان کے گھروں میں گیا اور ضلعی سطح پر اور شہروں کی رشتہ ناطہ کی میٹنگز میں رشتہ ناطہ کے بارہ میں ہدایات دیں۔ اور تقاریرا ور خطبات جمعہ میں بھی رشتہ ناطہ کے مسائل کے حل بیان کئے۔
…… حضور انور رحمہ اﷲ فرماتے تھے کہ رشتہ ناطہ کے بارے میں عہدیداران کو ہدایت دینے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔اس غرض کے لئے میٹنگز رکھی جائیں اور ریفریشر کورسز منعقد کئے جایا کریں۔ چنانچہ بعض اضلاع میں ریفریشر کورسز کروائے گئے اور مرکز میں بھی رشتہ ناطہ کاایک ریفریشر کورس منعقد ہواجس میں بعض اضلاع کے سیکرٹریان رشتہ ناطہ بھی مدعوکئے گئے تھے۔
…… حضور انور کی ہدایت کے تحت ایک رشتہ کے سلسلہ میں خطوط لکھ دئے گئے ۔یہ بات حضور کے علم میں بعد میں آئی کہ بچی کی عمر تولڑکے سے زیادہ ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ آپ فوراً لڑکے والوں کوخط لکھیں کہ آپ کوغلطی سے یہ تجویز بھجوائی گئی تھی ۔ اس کے بدلہ میں آپ کوایک اور تجویز بھجوائی جا رہی ہے۔پھر تھوڑی دیر بعد حضور نے فرمایا کہ ابھی خط نہ لکھیں ، پہلے خط کے جواب کا انتظار کریں ۔ کچھ دنوں بعد حضور نے فرمایا کہ اس خاندان کی طرف سے جوا ب شاید اس لئے نہیں آیا کہ انہیں یہ رشتہ پسند نہیں۔ کیونکہ بچی کی عمر بچے سے زیادہ ہے۔ بہر حال ایک دو دن میں لڑکے والوں کی طرف سے خط کا جواب آگیا جس میں لکھا تھاکہ اگرچہ بچی کی عمر زیادہ ہے لیکن یہ رشتہ چونکہ حضور نے تجویز فرمایا ہے لہذا ہمیں یہ رشتہ منظور ہے۔
…… لاہو ر کی ایک احمدی بچی نے حضور کی خدمت میں خط لکھاکہ میری اور میری بہن کی عمریں بڑھ رہی ہیں لیکن ہمارے والدین ہمارے رشتوں کے معاملہ میں تساہل سے کام لے رہے ہیں۔ حضور ہمارے رشتے کروائیں۔ لیکن حضورسے استدعاہے کہ اس بات کا علم ہمارے والدین کو نہ ہوکہ ہم نے حضورکی خدمت میں یہ لکھاہے۔ حضور انور نے یہ خط مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ آ پ فوری طورپر لاہورجائیں اور ان دونوں بچیوں کے مناسب حال رشتے کروائیں۔اور مجھے تاکید فرمائی کہ ان بچیوں کے والدین کوبچی کے خط کاعلم نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ خاکسار اُسی وقت لاہورگیا اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے دونوں بچیوں کے رشتے چند روز میں طے پا گئے۔جب یہ بات حضورکے علم میں آئی تو حضور بے حد خوش ہوئے ۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ دونوں بچیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں اور ان کے کئی کئی بچے ہیں۔ لیکن ان کے والدین کے علم میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ پیارے امام کی بے انتہا شفقت کے نتیجہ میں ان بچیوں کے گھر آباد ہوئے۔ 
…… بیرون پاکستان کی ایک بچی کے رشتہ کی بات حضور انور کی ہدایت کے مطابق پاکستان کے ایک لڑکے سے کامیابی سے طے پا رہی تھی ۔ اس دوران اس لڑکے سے ایک اخلاقی جُرم سرزد ہوا۔جب اس کی اطلاع حضورانور کی خدمت میں ہوئی تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ بچی کے والدین کواس واقعہ سے مطلع کیا جائے۔ اس صورت میں اگروہ رشتہ نہیں کرنا چاہتے تو انہیں کوئی اور تجویز بھجوائی جائے۔ چنانچہ جب بچی کے والد صاحب کوا س بارے میں خط لکھا گیاتو ان کا جواب یہ موصول ہواکہ حضور ہرانسان سے غلطی ہو سکتی ہے ۔ہم اس صورت میں بھی یہ رشتہ قائم رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا ۔ندامت کے اظہارپراس لڑکے کو معاف کر دیا گیااور خدا کے فضل سے یہ شادی بہت کامیاب رہی۔
…… ایک مرتبہ مَیں نے کسی خاندان کی بچی کے لئے اُسی خاندان کے ایک لڑکے کارشتہ تجویز کیا ۔اس پر حضور نے فرمایا کہ ہمیں یہ تجویز بھجوانے کی کیاضرورت ہے۔ اپنے خاندان کووہ خود جانتے ہیں اگر رشتہ کرنا ہوتاتوخود نہ کرلیتے ۔
…… حضورؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی خاندان کو کوئی تجویز بھجوائی جائے اور کافی دیر تک اس کا جواب نہ آئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ انہیں یہ تجویز پسند نہیں ہے۔ لہذا خود ہی کوئی دوسری مناسب تجویز بھجوا دینی چاہئے۔ فرماتے تھے کہ بعض احباب حجاب محسوس کرتے ہیں کہ خلیفہ ٔ وقت کو یہ لکھیں کہ یہ تجویز پسند نہیں آئی۔
…… اکثر اوقات خطوط کے ذریعہ تجاویز بھجوائی جاتی تھیں لیکن بعض اوقات حضورمجھے ہدایت فرماتے تھے کہ یہ تجویز لے کر خود سفر پرجاؤ اور متعلقہ خاندان کے گھرجا کر بالمشافہ یہ تجویز حکمت کے ساتھ پیش کرو۔ حضور کی طرف سے بھجوائی جانے والی اکثر ایسی تجاویز متعلقہ خاندان پسند کرتے تھے اور رشتے طے پا جاتے تھے ۔ جب خاکسار حضور کی خدمت میں مکمل رپورٹ پیش کرتا تو حضور بہت خوشی کاا ظہار فرماتے ۔
  …… حضور فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص نے ضرورت کے تحت دوسری شادی کرنی ہو تو اگر وہ اپنے اندر انصاف کا مادہ رکھتاہے تو دوسری شادی کرے وگرنہ اسے شادی کرنے کی خداتعالیٰ نے اجازت ہی نہیں دی۔ اوراگر دوسری شادی کرنی ہے تو اسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ صرف خداتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے ۔نہ پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت ہے نہ خلیفہ ٔوقت سے اورنہ نظام جماعت سے ۔ اسے چاہئے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان انصاف سے کام لے اورسب سے حسن سلوک کرے۔
…… بعض مشکل رشتوں کے سلسلہ میں حضور مجھ سے ہنس کر فرمایاکرتے تھے کہ یہ رشتہ آپ کے لئے ایک چیلنج ہے۔اگر آپ یہ رشتہ کروا دیں تو آپ کی مہارت مانی جائے گی۔(رشتہ ناطہ کے کام کی اہمیت اور نزاکت کااحساس دلانے اور اس کے لئے درکار غیرمعمولی محنت اور کوشش کے لئے مستعد کرنے کا حضور ؒ کا یہ ایک حسین انداز تھا)
…… ایک رشتہ کے سلسلہ میں حضورؒ نے ہدایت فرمائی کہ ڈاک کے ذریعہ یہ تجویز متعلقہ دوست کو بھجوا دی جائے ۔خاکسار نے فوراً خط لکھ دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد رشتہ ناطہ کی ڈاک پیش کرنے کے لئے جب مَیں حضور کی خدمت میں حاضر ہو ا تو حضور کے استفسار پرمَیں نے عرض کیا کہ فلاں دوست کومَیں نے حضور کی ہدایت کے مطابق رشتہ کی تجویز بھجوا دی ہے۔اس پرحضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ یہ امر کئی دفعہ نوٹ کیا کہ رشتہ ناطہ کے معاملہ میں رابطے اور خط وکتابت میں تاخیر کو حضور پسند نہ فرماتے ۔کیونکہ حضور کو بچیوں اوربچوں کے رشتوں کی بے حد فکررہتی تھی اورحضورکے دل میں اس کا بہت درد تھا۔
…… ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ فلاں مخلص دوست کی بچی میں جسمانی لحاظ سے کوئی نقص ہے۔ اس کے مناسب رشتہ کے لئے کوشش کریں۔ نیزفرمایا کہ بچی کاباپ چونکہ خوشحال ہے اوریہ مخلص گھرانہ ہے لہذا کوئی اچھا لڑکامل جائے گاجو اس بچی سے رشتہ کے لئے تیار ہوجائے۔
…… ابتدا میں رشتہ ناطہ کے کوائف رجسٹرمیں درج کئے جاتے تھے ۔بعد میں حضور نے دفتر میں کارڈ سسٹم کو پسند فرمایا ۔ چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رشتہ ناطہ کے ڈیسک پر اور صدر انجمن احمدیہ کے شعبہ رشتہ ناطہ میں یہ سسٹم جاری کیاگیا ۔ جس کی وجہ سے رشتے تجویز کرنے اور ریکارڈ رکھنے میں بہت سہولت ہوگئی۔
…… حضور فرماتے تھے کہ جو شخص رشتہ ناطہ کے کام میں اخلاص کے ساتھ خاندانوں سے ہمدردی کرتے ہوئے نیز محنت کے ساتھ خدمت بجا لاتاہے وہ بچیوں اور بچوں کے والدین کی بہت دعائیں لیتاہے۔

( الفضل انٹرنیشنل  08؍جولائی تا14؍جولائی 2005ء )

مکمل تحریر >>