Thursday 1 June 2017

رمضان المبارک کے روزوں کے متعلق چند بنیادی مسائل




سیدنا حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۵ تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’فرماتاہے چند گنتی کے دن ہیں جن میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا گیاہے ۔ ہاں جو تم میں سے بیمار یامسافر ہو اس کے لئے اَور دنوں میں اس تعداد کا پورا کرناضروری ہوگا۔
 ﴿اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ اور فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ کے الفاظ صاف طورپر بتاتے ہیں کہ یہ روزے جن کا حکم دیا جا رہا ہے نفلی نہیں بلکہ واجب ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اگرکوئی بیمار یامسافر ہو تو اسے بہرحال بعد میں اس تعداد کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب رمضان کے دنوں میں مَیں بیمار تھا یاسفر پرگیاہوا تھا تو اب رمضان کے بعدمَیں کیوں روزے رکھوں ۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں رمضان المبارک کے روزوں کا ذکرنہیں بلکہ صرف عام طورپرروزے رکھنے کا ذکر ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر ان کی یہ بات صحیح ہے تو فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کاکوئی مطلب نہیں رہتا۔ اول تو یہاں اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتسے ہی معلوم ہوتاہے کہ یہاں صرف ایسے ہی روزوں کا ذکر کیا جا رہاہے جن کے لئے شریعت کی طرف سے بعض ایاّم مقرر ہیں۔ دوسرے اَیَّامًا مَّعْدُوْدَات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایاّم کسی خاص مہینہ سے متعلق ہیں ۔ پسکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ سے عام نفلی روزے مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا۔
کن لوگوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں
پھر اس بارہ میں اﷲ تعالیٰ یہ ہدایت دیتاہے کہ جو شخص بیماریا مسافر ہو اسے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ بلکہ اوردنوں میں اس کمی کوپورا کرناچاہئے ۔ مَیں نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بات دیکھی ہے کہ رمضان کے بارہ میں مسلمانوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتاہے ۔ کئی دفعہ تعلیم یافتہ لوگوں کو مَیں نے دیکھاہے کہ وہ رمضان کی برکات کے قائل ہی نہیں اور بغیر کسی بیماری یا عذر شرعی کے روزہ کے تارک ہیں ۔ اور دوسرے و ہ لوگ ہیں جو سارا اسلام روزہ ہی میں محدود سمجھتے ہیں ۔ اور ہر بیمار ، کمزور، بوڑھے ، بچے ، حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور روزہ رکھے خواہ بیماری بڑھ جائے یا صحت کونقصان پہنچ جائے ۔ یہ دونوں افراط وتفریط میں مبتلاہیں۔
اسلام کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ وہ انسان کو اس راستہ سے ہٹادے جو اس کی کامیابی کا ہے۔ اگر تو شریعت چٹی ہوتی یاجرمانہ ہوتا تو پھر بیشک ہر شخص پر خواہ وہ کوئی بوجھ اٹھا سکتا یانہ اٹھاسکتا اس کا اٹھانا ضروری ہوتا ۔جیسے حکومت کی طرف سے جرمانہ کردیا جائے تواس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس پر جرمانہ کیا گیاہے اس میں ادا کرنے کی استطاعت بھی ہے یا نہیں بلکہ جس پر جرمانہ ہواسے خواہ گھر بیچنا پڑے ، بھوکا رہنا پڑے ،جرمانہ کی رقم ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے احکام چٹّی نہیں بلکہ وہ انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہیں اور ان پرعمل کرنے سے خود انسان کو ہی آرام میسر آتا ہے۔ اور اس کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جن مذاہب ے شریعت کو چٹیّ قرار دیاہے ان کے ماننے والوں کے لئے تو ضروری ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنے مذہبی ا حکام کو ضرور پورا کریں ۔ لیکن جس مذہب کے احکام کی غرض محض انسانی فائدہ ہو اس میں نفع ونقصان کا موازنہ ہوتاہے اور جو صورت زیادہ مفید ہو اسے اختیار کر لیا جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے بعض احکام کے سلسلہ میں بعض شرائط مقر ر کر دی ہیں تا کہ اگروہ شرائط کسی میں پائی جائیں تووہ اس حکم پرعمل کرے اور اگرنہ پائی جائیں تو نہ کرے۔ یہ شرائط صرف جسمانی عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ مالی عبادت کے لئے بھی ہیں۔ جیسے زکوٰۃ ہے اور وطنی قربانی اور اتّصال و اتّحاد کی کوشش کے لئے بھی ہیں جیسے حج ہے ۔ اسی طرح اورجتنے مسائل اسلام سے تعلق رکھتے ہیں اورجتنے احکام فرض ہیں ان سب کے لئے یہ شرط ہے کہ جب انسان کو طاقت ہو انہیں ضرو ر ادا کرے لیکن جب اس کی طاقت سے بات بڑھ جائے تو وہ معذور ہے ۔ اگر حج انسان کے مالدار ہونے اور امن و صحت کی شرط سے مشروط ہے ۔اگر زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک خاص مقدار میں کسی کے پاس ایسا مال ہو جو اس کی ضروریات سے ایک سال بڑھا رہے ۔ اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جوکھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ اگر انسان مریض ہو ، خواہ اسے مرض لاحق ہو چکاہو یا ایسی حالت میں ہوجس میں روزہ رکھنا اسے یقینی طورپر مریض بنا سکتاہو جیسے حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت ہے یاایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قویٰ میں انحطاط شروع ہو چکا ہے یا اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قویٰ نشوونما پا رہے ہیں تواسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔
مسافر اور بیمار کا روزہ رکھنا ایساہی لغو ہے جیسے حائضہ کا روزہ رکھنا ۔ کون نہیں جانتا کہ حائضہ کاروزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے ۔ یہی حال بیمار اور مسافر کاہے ۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ۔ اسی طر ح وہ بوڑھا جس کے قویٰ مضمحل ہو چکے ہوں اور روزہ اسے زندگی کے باقی اشغال سے محروم کردیتاہو اس لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔پھر وہ بچہ جس کے قویٰ نشوونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے وہ طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر جمع کر رہا ہے اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا ۔ مگر جس میں طاقت ہـے اورجو رمضان کا صحیح معنوں میں مخاطب ہے وہ اگرروزہ نہیں رکھتا توگناہ کا مرتکب ہوتاہے ۔
بچوں سے روزہ رکھوانا 
یہ امریاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمرنشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت ان کوروزہ کی مشق ضرور کروانی چاہئے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے ۔ اور ہرسال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمرہے ۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی اجازت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے دی تھی ۔ اس عمر میں توصرف شوق ہوتاہے ۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگریہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمرایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کوبھی اس پراعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا توآئندہ نہیں رکھ سکے گا۔
اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں ۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں توبتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں ۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ایسے بچے روزوں کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتاہے۔ لیکن اگروہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پرظلم کرے گا اور نہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پرآپ ظلم کرے گا ۔ اسی طرح اگرکوئی چھوٹی عمرکابچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ ا س پرطعن کریں تو وہ اپنی جان پرظلم کریں گے ۔
روزہ کے بارہ میں افراط و تفریط
بہرحال ان باتوں میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے وہاں رک جاناچاہئے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہئے۔مگر مسلمان اس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں ۔ ان میں یا تو وہ لوگ ہیں جو روزہ ہی نہیں رکھتے اور یا وہ لوگ ہیں جوروزہ کے ایسے پابند ہیں کہ بیماری اور سفر میں بھی اسے ضرور ی سمجھتے ہیں اور بعض تو اس میں ایسی شدت اختیارکر لیتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں اوراگروہ توڑنا چاہیں توتوڑنے نہیں دیتے ۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ سات سات آٹھ آٹھ سال کے بچوں نے روزے رکھے توماں باپ نے ان کی نگرانی کی کہ وہ روزہ توڑ نہ دیں یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔ بے شک روزہ کاادب و احترام ان کے دلوں میں پیدا کرنا ضروری ہے اور انہیں بتاناچاہئے کہ اگروہ سارا دن روزہ نہیں رکھ سکتے توروزہ رکھیں ہی نہیں لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھرتوڑیں نہیں خواہ مرنے لگیں، نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلا م کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔
غرض ایک طرف تو مسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قدر سختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرورت ہی کے قائل نہیں بالخصوص تعلیمیافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں مَیں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ ایک شخص ٹرکی یا مصر سے یہاں آیا ۔ وہ تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے ۔ اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہئے کیونکہ وہ زمانہ اَور تھا اور یہ اَور ہے۔ اور اس کی صورت وہ یہ پیش کرتا تھا کہ روزہ کی حالت میں روٹی نہ کھائی جائی بلکہ صرف کچھ کیک اور بسکٹ وغیرہ کھا لئے جائیں ۔ غرض ایک طبقہ افراط کی طرف چلا گیاہے تو دوسرا تفریط کی طرف۔ حالانکہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے اور وہ جہاں بیمار اور مسافر کو اجازت دیتاہے کہ وہ بیماری اور سفرکی حالت میں روزہ نہ رکھیں وہاں ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتاہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایام کواﷲ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعاؤں اور ذکرالٰہی میں بسر کرے تا کہ اسے اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
بہرحال روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہئے کہ جان تک چلی جائے اورنہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہئے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کوبہانوں سے ٹال دیا جائے ۔ مَیں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیں رکھتے اوربعض توکہہ دیتے ہیں کہ اگرروزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہوجایاکرتی ہے ۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے ۔ جب پیچش ہو جائے تو پھربے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتاہے۔ مگریہ بھی کوئی دلیل نہیں ۔صرف اس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے ۔ ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں توکیاوہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں ۔ مَیں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اسی وقت سے میری صحت خراب ہے ۔ اگر ایسے ضعف کوبہانہ بناناجائز ہو تو میرے لئے تو شاید ساری عمرمیں ایک روزہ بھی رکھنے کاموقع نہیں تھا۔ ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کابہانہ بنا یاجاتاہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھا جاتاہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآ ن کریم میں آتاہے کہ نماز بدی اوربے حیائی سے روکتی ہے ۔ اس پرکوئی شخص کہے کہ مَیں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رک جاتاہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کوبرداشت کرنے کی عادت پیدا ہو ورنہ یوں توکوئی بھی یہ کہہ سکتاہے کہ مَیں اس لئے روزہ نہیں رکھتاکہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہو تی ہے ۔ حالانکہ اس قسم کی تکالیف کو برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیاگیاہے۔جو شخص روزہ رکھے کیاوہ چاہتاہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں ۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑے گی اور کچھ ضعف بھی ضرور ہوگا۔ اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنے کی عادت پیدا کرنے کے لئے روزہ رکھایا جاتاہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے ۔ مگر بہرحال روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ انسان کو تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا جاتاہے کہ اسے ضعف برداشت کرنے کی عادت پیداہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگزجائزنہیں ۔ سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہوچکاہے یا ڈاکٹر اس کے ضعف کوبھی بیماری قرار دے چکاہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھناچاہئے۔مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیں لیکن دراصل وہ بیمار ہوتے ہیں اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کابرداشت کرنا سخت خطرناک ہوتاہے ۔ پس کمزوری یاضعف کا فیصلہ بظاہردیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہوگاکہ ڈاکٹرکیاکہتاہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے ۔ ذرا کوئی شخص دوچار بار جھک کر سلام کردے توجوچاہے ڈاکٹر سے لکھوا لے۔ ظاہرہے کہ ایسے سرٹیفکیٹ کاکیا اعتبار ہو سکتاہے لیکن اگرحقیقی طورپر ڈاکٹر کسی کومشورہ دے کہ اس کے لئے روزہ رکھنا مضرہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظرآئے اس کے لئے روز ہ رکھنا جائز نہیں ہوگا۔
بیمار اور مسافر کے روزہ کے متعلق
 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ بیمار اور مسافر کے لئے روزہ جائز نہیں ۔چنانچہ آ پ نے ایک دفعہ فرمایا :
’’جوشخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا کے اس حکم پرعمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کرسکتاہے ۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹاہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اورمسافر اگرروزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا ‘‘۔(فتاویٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صفحہ ۱۳۲،۱۳۳)
روزہ نہ رکھنے والوں کی طرف سے فدیہ دینے کے احکام 
پھرفرماتا ہے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو بڑی دقّت پیش آئی ہے اور انہوں نے اس کے کئی معنی کئے ہیں۔ یہ دقت زیادہ تر اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں جوہٗکی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس کے مرجع کی تعیین میں اختلاف پایا جاتاہے ۔ بعض نے اس کامرجع صوم کوقرار دیاہے اور بعض نے فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کو۔ 
شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس کو ’’الفوز الکبیر ‘‘ میں اس طرح حل کیاہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ’’ہٗ‘‘ کی ضمیر﴿ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ کی طرف گئی ہے۔ اس پر یہ اعتراض پڑتاتھا کہ یہ اضمار قبل الذکر ہے یعنی ضمیر پہلے آ گئی ہے اورمرجع بعد میں ہے حالانکہ مرجع پہلے ہونا چاہئے تھا ۔ اس کا جواب انہو ں نے یہ دیا ہے کہ فِدْیَۃ کامقام چونکہ نَحْوًا مقدم ہے یعنی وہ مبدا ہے اس لئے اس کی ضمیر اس کے ذکرسے پہلے آ سکتی ہے۔
دوسر ا اعتراض یہ پڑتاہے کہ فِدْیَۃٌ مؤنث ہے اور ضمیر مذکر۔ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ فِدْیَۃ، طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کا قائم مقام ہے اور وہ مذکر ہے ۔ اس لئے فِدْیَۃکی طرف بھی مذکر کی ضمیر پھر سکتی ہے۔
اس بنا پرانہوں نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان لوگوں پرجوفدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جواسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قراردیا گیاہے تا کہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہوسکیں۔
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ مومنوں میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ روزوں کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ بھی دے دیا کریں ۔ لیکن رسول کریم ﷺکے عمل اوراحادیث سے چونکہ یہ بات ثابت نہیں کہ روزہ دارفدیہ بھی دے اس لئے یہ معنے تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ عقلی طورپر یہ معنے اس لئے بھی ناقابل قبول ہیں کہ فدیہ تو اس پر ہونا چاہئے جو روزہ نہ رکھ سکے ۔ جو شخص باقاعدہ روزے رکھ رہاہے اس پر فدیہ کیسا؟ ہاں اگر کو ئی شخص اس شکریہ میں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے بجا لانے کی توفیق بخشی ہے روزہ رکھ کر ایک مسکین کوکھانا بھی دے دیاکرے تووہ زیادہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے روزہ بھی رکھااورایک مسکین کو کھانا بھی کھلایا۔ مگر بہرحال وہ ایک زائد نیکی ہوگی ۔ قرآن کریم کسی کو اس بات کا پابند قرار نہیں دیتا کہ وہ روزہ بھی رکھے اور ایک مسکین کوکھانا بطورفدیہ بھی کھلائے ۔
(۳) مفسرین نے اس آیت کے ایک معنے یہ بھی کئے ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہٗ سے پہلے لا محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے وَعَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُطِیْقُوْنَہٗ اور ہٗ کی ضمیر کا مرجع وہ صَوْم کوقرار دیتے ہیں ۔ یعنی وہ لوگ جوروزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کاکھانا بطور فدیہ دے دیا کریں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جگہ لَا اسی طرح محذوف ہے جس طر ح آیت یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا (نساء آیت ۱۷۷) میں تَضِلُّوْاسے پہلے بھی لَا محذوف ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ یہ باتیں اس لئے بیان کرتاہے تا کہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ گو یہ بھی کہا جا سکتاہے کہ یہاں لَا مقدر نہیں بلکہ ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ مَخَافَۃَ اَنْ تَضِلُّوْایعنی اﷲ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہوجانے کے خدشہ کی بنا پر بیان کرتاہے۔
(۴) بعض نے اس آ یت کا یوں حل کیاہے کہ عربی زبان میں اَطَاقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی شخص نے کام تو کیا مگر بہت مشکل اور مصیبت سے ۔ گویا جب کوئی شخص اپنے نفس کو انتہائی مشقت میں ڈالے بغیرکوئی کام سرانجام دینے کی اپنے اندر طاقت نہ رکھتا ہو تواس کے لئے اَطَاق کا لفظ استعمال کیا جاتاہے ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اَلَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور جن کی بدنی طاقت بالکل زائل ہوجاتی ہے بلکہ بعض دفعہ غشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے بوڑھے یادل کے مریض یا اعصابی کمزوری کے شکار یا حاملہ اور مرضعہ ۔ ایسے لوگ جو بظاہر توبیمار نظر نہیں آتے لیکن روزہ رکھنے سے بیمار ہوجاتے ہیں اُن کویہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ اپنی طرف سے دے دیا کریں ۔ ان معنوں کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قرطبی نے یُطِیْقُوْنَہٗ کی ایک 
قرا ء ت یُطَوِّقُوْنَہ ٗبھی بیان کی ہے۔ یعنی جو لوگ صرف مشقت سے روزہ نبھا سکتے ہیں۔ اورجن کی صحت روزہ رکھنے سے غیر معمولی طورپر خراب ہوجاتی ہے وہ بے شک روزے نہ رکھیں ہاں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں ۔
میرے نزدیک چونکہ اَطَاقَ باب اِفْعَال میں سے ہے اور باب اِفْعَال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سلب کے معنے دیتاہے اس لئے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہوگئی ہے یعنی قریباً ضائع ہوگئی ہے وہ بیشک روزہ نہ رکھیں مگر چونکہ ان کا روزہ نہ رکھنامحض اجتہادی امر ہوگا، مرض ظاہرکے نتیجہ میں نہیں ہوگا بلکہ صرف متوقع کمزوری کے نتیجہ میں ہوگااوراجتہادمیں غلطی بھی ہو سکتی ہے اس لئے انہیں چاہئے کہ اپنی اجتہادی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اگر ان کو فدیہ دینے کی طاقت ہوتو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ان دنوں میں دے دیا کریں تاکہ ان کی غلطی کے ا مکان کا کفارہ ادا ہوتا رہے۔ 
(۵) ایک اور معنے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ہٗ کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے ۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن کا سفر پُرمشقت ہے وہ تو بہرحال فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں توایک مسکین کا کھانا بطورفدیہ بھی دے دیا کریں۔ اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو۔ وہ آپ کوبیمار سمجھتے ہوں لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہوکہ وہ روزہ ترک کرسکیں۔ یا و ہ اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوں لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر، سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ 
پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہروقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کوچاہئے کہ ان میں سے جولوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں و ہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں۔ تا کہ ان کی اس غلطی کا کفارہ ہوجائے ۔
اوراگر یُطِیْقُوْنَہٗ میں ہٗ کی ضمیر کامرجع فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کوہی قرار دیا جائے جیساکہ شاہ 
ولی اﷲ صاحبؒ نے لکھا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس حکم کو صدقۃالفطر پرمحمول کیا جائے اس آیت کا فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ سے تعلق ہوگا۔ اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ اگرچہ مریض اور مسافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں لیکن ان میں سے وہ لوگ جن کو آسودگی حاصل ہو اور وہ ایک شخص کو کھانا کھلا سکتے ہوں انہیں چاہئے کہ ایک مسکین کاکھانا بطور فدیہ رمضان دے دیاکریں۔ اگر طاقت نہ ہو تو پھر تو فدیۂ رمضان دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر طاقت ہوتو خواہ وہ بیمار ہوں یامسافر انہیں ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ ٔ رمضان دینا چاہئے ۔اگر روک عارضی ہواور وہ بعد میں دورہو جائے توروزہ تو بہرحال رکھناہوگا۔ فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے ۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک عارضی اور ایک مستقل۔فدیہ بشرط استطاعت دونوں حالتوں میں دینا چاہئے ۔ پھرجب عذر دو ر ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یاتین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت دے اسے پھر روزے رکھنے ہونگے ۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتارہا کہ آج رکھتاہوں ، کل رکھتاہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے ۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتاہو اگروہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے ۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے ۔
اس آیت میں جو اَلَّذِیْنَ کا لفظ استعمال ہواہے یہ دو کا بدل یا قائم مقام ہوسکتاہے۔ اوّل ان مومنوں کا جن کا ذکر یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں کیا گیاہے۔ دوم ان لوگوں کا جن کا ذکر فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ میں ہے۔
اگر اسے یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بدل سمجھا جائے تواس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جو ضعف کی وجہ سے روزے سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنے نفس پر بڑی مشقت برداشت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں۔
اگر دوسر ا بدل لیں تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ وہ مریض اور مسافر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں اور پھر دوسرے دنوں میں روزے بھی رکھیں کیونکہ بعض امراض ایسی ہوتی ہیں یا بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ اشتباہ ہوتاہے کہ آیا اس میں روزہ ترک کیا جا سکتاہے یا نہیں؟ حدیث میں آیاہے کہ مشکوک اشیاء بھی محارم ہی کے نیچے ہوتی ہیں کیونکہ جومشکوک تک پہنچتاہے وہ آہستہ آہستہ محارم تک بھی پہنچ جاتاہے ۔پس اگر یہ دونوں باتیں مشکوک ہوں توایسے مسافراور مریض کوچاہئے کہ فدیہ دے دے اور رخصت سے فائدہ اٹھائے اوربعد میں روزے بھی رکھ لے ۔ اس میں ایسی بیماری والا جس کی بیماری مشتبہ ہو یاایسا سفر والا جس کا سفر مشتبہ ہو،مراد ہیں۔ ان میں سے جو طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ دینا لازم ہے کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اپنے اجتہا د میں غلطی کی ہو۔ اورجیساکہ مَیں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کابھی یہی مذہب تھا کہ ایسے لو گ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں اور رمضان کے دنوں میں فدیہ دیں۔
پھر فرمایا ہے فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ جو شخص پوری بشاشت اور شوق کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتاہے تو خواہ وہ ابتدا میں تکلف کے ساتھ ہی ایساکرے اور اسے اپنے نفس پر ایک رنگ میں بوجھ ہی محسوس ہو تب بھی اس کا نتیجہ اس کے لئے اچھا ہی نکلے گا ۔ یعنی وہ نیکی اس کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہوگی ۔ 
عربی زبان میں تَطَوَّعَ کالفظ اس وقت استعمال ہوتاہے جب اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر کسی حکم کی اطاعت کی جائے۔ اور تکلف سے بشاشت کا اظہار کیا جائے۔ پس فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ میں ا ﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو شخص پورے شرح صدر کے ساتھ کسی نیکی میں حصہ نہ لے سکے اسے چاہئے کہ کم از کم اپنے نفس پر بوجھ ڈالتے ہوئے ہی اس میں حصہ لے اور اپنے چہرہ پر تکلف سے بشاشت پیدا کرے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ اسکے لئے خیر اور برکت کے راستے کھول دے گا یعنی نیکیوں میں ترقی کرتے کرتے اسے ایسا مقام میسر آجائے گا کہ نیکی اس کی غذا بن جائے گی اور نیک تحریکا ت پر عمل اس کے لئے ایسا ہی آسان ہو جائے گا جیسے اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے آسان ہوتا ہے۔
لیکن اس کے علاوہ تَطَوَّعَ کے معنے محاورہ میں غیر واجب کام کے نفلی طورپر کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور امام راغب نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں اس کی تصریح کی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جو شخص نفلی طورپر کوئی نیک کام کرے گا تویہ اس کے لئے بہت بہتر ہوگا۔ یعنی رمضان میں روزے رکھنے یا ایک مسکین کوکھانا کھلانے کاحکم تو ہم نے دے دیاہے لیکن اگرکوئی شخص ثواب کی نیت سے اس میں کوئی زیادتی کرنا چاہے تواسے اس کا اختیار ہے۔ مثلاً وہ اختیاررکھتاہے کہ ایک کی بجائے دومساکین کو کھانا بطورفدیہ دے دے۔ یاوہ اختیار رکھتاہے کہ روزہ بھی رکھے اور حصول ثواب کے لئے ایک مسکین کوکھانا بھی کھلاتارہے۔ یا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی طورپر دوسرے ایام میں بھی روزے رکھے۔ یہ سب حصول ثواب کے ذرائع ہیں جن میں ہرمومن اپنی اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے کراﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکتاہے ۔
پھرفرمایا وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَکُمْ ۔ اس کے بعض لوگ یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر تم روزہ رکھو تویہ تمہارے لئے بہترہے۔ مگر یہ صحیح نہیں ۔ اگر یہ معنے ہوتے تو اِنْ تَصُوْمُوْاکہناچاہئے تھا نہ کہ اَنْ تَصُوْمُوْا۔ اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اگر تم علم رکھتے ہو تو سمجھ سکتے ہوکہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے یعنی ہم نے جس حکم کے لئے یہ تمہید اٹھائی تھی وہ کوئی معمولی حکم نہیں بلکہ ایک غیر معمولی خیر اور برکت رکھنے والا حکم ہے۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پوری توجہ سے سنو اور اس پرعمل کرو‘‘۔
(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود ؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۵)

مکمل تحریر >>