Friday 29 April 2016

حضرت بابا نانک کا اسلام اور سکھ صاحبان کے اعتراضات کے جواب




حضرت بابا نانک کا اسلام اور سکھ صاحبان کے اعتراضات کے جواب 

از جناب عباداللہ صاحب گیلانی

پہلا اعتراض :۔

اگر بابانانک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ اپنا آبائی دھرم چھوڑ کر مسلمان بن گئے تھے تو چاہیے تھا کہ آپ کا نام تبدیل کردیا جاتا ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے والدین نے آپ کا نام ’’نانک‘‘ رکھا اور آخر تک آپ اسی نام سے پکارے گئے۔ یعنی اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس صورت میں یہ کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آپ مسلمان بن گئے تھے ؟
جواب :۔
اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ اول یہ کہ یہ کوئی اسلامی مسئلہ نہیں کہ ہر ایک نومسلم کا نام تبدیل کردیا جائے ۔ اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ رسول مقبول ﷺ کے زمانہ میں سینکڑوں اور ہزاروں کافر بت پرست اور مشرک لوگ اسلام میں داخل ہوئے لیکن ان میں سے کسی کے نام میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اور انہیں آخر تک اسی نام سے پکارا گیا جس سے کہ اسلام سے قبل انہیں پکارا جاتا تھا ۔ البتہ ان لوگوں کے نام ضرور تبدیل کئے گئے جن کے ناموں سے شرک کی بو آتی تھی۔ یعنی وہ مشرکانہ نام تھے باقی کسی بھی شخص کا نام محض نام کے تبدیل کرنے کی خاطر نہیں بدلا گیا۔ 
۲۔ سکھ لٹریچر سے اس امر کاپتہ چلتا ہے کہ خود سکھوں کے نزدیک بھی نانک نام ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں میں یکساں طور پر رکھا جاتا ہے۔ آج کل بھی پنجاب کے دیہات میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں ’’نانک‘‘ نام رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے۔ اور نانک نام کے متعدد ہندو اور مسلمان ملتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک غیر مسلم کنگھم کی یہ شہادت ہے:۔
"Nanak is thus a name of uaual occurance both among Hindus and Musalmans"
(History of the Sikhs P.39)
یعنی:۔
’’نانک نام عام طور پر ہندوئوں اور مسلمانوں میں ، غریبوں اور امیروں میں یکساں طور پر رکھا جاتا ہے‘‘۔
(ترجمہ از سکھ اتہاس ص ۸۴)
جنم ساکھی بھائی بالا کے ابتداء میں مرقوم ہے کہ جب پنڈت نے غور و فکر کے بعد بابا جی کا نام’’نانک‘‘ تجویز کیا تو آپ کے والدین نے یہ کہا کہ یہ نام ہندوئوں اور مسلمانوں میں مشترک ہے اس لئے اس کی بجائے کوئی اور نام تجویز کرو (ملاحظہ ہو جنم ساکھی بھائی بالا ص ۶) باباجی کے والدین کا یہ قول دوسری سکھ کتب میں بھی درج ہے (ملاحظہ ہونا نک پرکاش پورباردھ ادھیائے ۴ ص ۱۵۹ و گورونانک سورجودے جنم ساکھی ص ۸ وغیرہ)
۳۔ باباجی نے خود اپنا جو نام ظاہر کا ہے وہ بھی آپ کا اسلام سے تعلق ظاہر کرتا ہے ۔ اور بتاتا ہے کہ آپ نے ہندوئوں سے اپنا رشتہ توڑنے کی غرض سے اپنے نام میں بھی کچھ مناسب ترمیم کرلی تھی۔ چنانچہ جنم ساکھی کے ایک مقام پر مرقوم ہے کہ باباجی نے خود اپنا نام ’’نانک شاہ ملنگ‘‘ بیان کیا تھا۔ جیسا کہ لکھا ہے:۔
بانی سچ خدائیدی 
کہے نانک شا ملنگ 
(جنم ساکھی بھائی بالا ص ۲۰۸) 
پس ’’نانک شاہ ملنگ‘‘ کسی ہندو یا سکھ کا نام نہیں ہوسکتا ۔ یہ وہ نام ہے جو خود باباجی نے اپنا بیان کیا ہے ۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے نام میں مناسب ترمیم کرلی تھی۔ تا کہ اگر کسی کو آپ کے اسلام کے بارہ میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
مشہور سکھ و دوان بھائی گورداس نے ’’ملنگ‘‘ مسلمانوں میں شامل کئے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان ہے :۔
شہدے لکھ شہید ہوئے
لکھ ابدال ’’ملنگ‘‘ مولا نے 
(وار ۸ پوڑی ۸)
پنجابی شبد بھنڈار میں ’’ملنگ‘‘ کے بارہ میں یہ بیان کیاگیا ہے :۔
’’ملنگ۔ لمبے کھلے بالوں والا مسلمان فقیر ۔ بے پرواہ۔‘‘
(ترجمہ از پنجابی شبد بھنڈار ص ۹۰۹)
سرداربہادر کاہن سنگھ جی مابھہ نے ’’ملنگ‘‘ لفظ کی تشریح میں لکھا ہے:۔
’’ ملنگ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے جو زند ہ شاہ مدار سے شروع ہوا ہے۔ ملنگ سر کے کیس کے منڈواتے ‘‘ 
(ترجمہ از مہان کوش ص ۲۸۶۶)
پس باباجی کا اپنے نام کے ساتھ مالنگ لفظ شامل کرکے اپنا نام ’’نانک شاہ ملنگ‘‘بیان کرنا خود کو مسلمان ظاہر کرنا مقصد تھا اور یہ بھی بتادینا مقصود تھا کہ ان کا تعلق زندہ شاہ مدار سے ہے ۔ کیونکہ جنم ساکھیوں میں مرقوم ہے کہ آپ نے اپنے پیر کا نام ’’زندہ پیر‘‘ بتایا ہے ۔ (ملاحظہ ہو جنم ساکھی بھائی بالا ص ۲۵۲) اور یہ زندہ پیر زندہ شامدار ہی ہوسکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ نے اپنے نام کے ساتھ ’’شاہ‘‘ اور ’’ملنگ‘‘ کے الفاظ شامل کئے تھے ۔


دوسرا اعتراض :۔

اگر بابا نانک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا اور آپ مسلمان بن گئے تھے تو آپ نے اپنا نیا مذہب کیوں جاری کیا ؟ کیا کسی نئے مذہب کا بانی بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کاپابند مسلمان قراردیا جاسکتا ہے؟اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس صورت میں بابا جی کو مسلمان کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ سکھ دھرم کے بانی تھے ؟ 
جواب :۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی نئے مذہب کا بانی اسلام کا پابند مسلمان قرا ر نہیں دیاجاسکتا کیونکہ ایک مسلمان کے لئے یہی لازم ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرے اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کا پابند ہو۔ جو شخص خود کوئی نئی شریعت ، نیادین یا نیا قبلہ اور نیا مذہب پیش کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے:۔
’’خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریک شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلا ف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے ‘‘ ۔
(چشمہ معرفت ص ۲۲۵) 
پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ بابا نانک جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور انہوں نے اسلام سے الگ اپناکوئی نیادھرم دنیا میں پیش کیا تھا تو اس صورت میں آپ کو مسلمان قرارنہیں دیا جاکستا ۔ اور اگر آپ کا اسلام ثابت ہوجائے جیسا کہ ثابت ہے تو اس صورت میں آپ کوسکھ دھرم یا کسی اوردھرم کابانی قرار دینا بالکل غلط اوربے بنیاد ہوگا۔ 
۲۔ دنیا میں جس قدر بھی مذاہب پائے جاتے ہیں ان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اقرار پر ہے ۔اورتمام مذاہب اس امر میں متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ہمارا خالق اور مالک ہے اور ہم اپنے اعمال کے لئے اس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہر مذہب نے خداتعالیٰ کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ چنانچہ عیسائیت نے خداتعالیٰ کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایک تین اور تین ایک ہے ۔ یعنی عیسائیت کی رو سے باپ ، بیٹا اور روح القدس تینوں مل کر ایک خدا بنتے ہیں ۔ ویدک دھرم کی دوبڑی شاخیں آریہ سماج اور سناتن دھرم ہیں ۔ سناتن دھرم نے خداتعالیٰ کا یہ تصور پیش کیا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت انسانوں ،حیوانوں اور درندوں کی شکل میں اس دنیا میں پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ نیز اس کے نزدیک برہما ، بشن اور امیش تینوں مل کراس دنیاکا کاروبار چلارہے ہیں ۔ آریہ سماج کے نزدیک خداتعالیٰ کا یہ تصور ہے کہ اس نے نہ تو روح کو پیدا کیا ہے اور نہ مادہ کو ۔ گویا خداتعالیٰ روح اور مادہ تینوں ازلی اور ابدی ہین ، ان کی کسی نے بھی تخلیق نہیں کی ۔ خداتعالیٰ کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق بار بار اس دنیا میں مختلف جونوں میں بھیجتا رہتا ہے۔ آریہ سماج کے نزدیک اللہ تعالیٰ کویہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ کسی کو دائمی نجات دے سکے۔ بلکہ ناجی روحوں کو بھی وہ دنیا میں بھیجنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس صورت میں ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک بھی روح باقی نہ رہے جسے وہ دنیا میں جنم دے سکے ۔ اسلام نے خداتعالیٰ کے بارے میں جو تصور پیش کیا ہے وہ ان تمام مذاہب سے مختلف ہے ۔ اسلام کا پیش کردہ خداتعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ روح کا بھی خالق ہے اور مادہ کا بھی پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی بھی چیز ازلی اور ابدی نہیں ۔وہ غیر مجسم اور لا محدود ہے۔ اسے اس دنیا کا کاروبار چلانے کے لئے اسے کسی سہارا یا مددگار کی ضرورت نہیں۔ وہ جنم مرن سے پاک ہے۔ اس کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ بیوی ۔ 
ان مختلف مذاہب کا خداتعالیٰ کے بارے میں الگ الگ تصورہی اصل میں انہیں ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے ۔ اور ان تصورات میں جس تصور کو بھی کوئی شخص اپناتا ہے وہی اس کا مذہب ہوگا یعنی تثلیت کے ماننے والے عیسائی کہا جائے گا ۔ اوراوتار واد کا ماننے والا سناتن دھرمی کہلائے گا۔ نیز روح و مادہ کو ازلی ابدی ماننے والے کو آریہ سماجی اور قادر مطلق حی و قیوم خداکے قائل کو مسلمان کہاجائے گا ۔ پس اگر فی الحقیقت بابانانک جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور انہوں نے اپنا کوئی نیا دھرم الگ پیش کیا تھا تو چاہیے کہ خداتعالیٰ کے بارے میں وہ تصوربتایا جائے جو باباجی نے پیش کیا ہے۔ اور وہ ان تمام مذاہب کے پیش کردہ تصورسے مختلف ہو ۔ کیونکہ جب تک یہ چیز ثابت نہ کی جائے بابا جی کو کسی نئے مذہب کابانی قرارنہیں دیا جاسکتا۔ 
اس کے برعکس جب ہم بابا جی کی بانی کامطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ اسلام کی پیش کردہ توحید کے قائل تھے۔ چنانچہ مشہور فارسی مصنف محسن فانی نے بابا جی کے بارہ میں گورو ہرگوبند ج کے زمانہ میں یہ شہادت دی تھی کہ :۔
’’نانک قائل توحید باری بود بامویکہ منطوق شرع محمدیست‘‘ 
(بستان مذاہب ص ۲۲۳)
یعنی بابا نانک جی کا توحید باری تعالیٰ کے بارے میں وہی تصور تھا جو اسلام نے پیش کیا ہے 
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باباجی کو مسلمان ثابت کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :۔
’’درحقیقت بابا صاحب جس خداتعالیٰ کی طرف اپنے اشعار میں لوگوں کو کھینچنا چاہتے ہیں اس پاک خدا کا نہ ویدو میں کچھ پتہ چلتا ہے اور نہ عیسائیوں کی انجیل مخرف مخرب میں ۔بلکہ وہ کامل اور پاک خدا نہ قرآن شریف کی مقدس آیات میں جلوہ نما ہے ‘‘ ۔ (ست بچن ص ۵۸)
پروفیسر کرتار سنگھ جی ایم ۔اے نے لکھا ہے ۔ کہ باباجی نے بغداد میں یہ فرمایا تھا :۔
’’صرف اس لئے کہ میں اس ایک ہی خدا کا پرستار ہوں جس جیسا اور جس کے برابر اور کوئی نہیں۔ اس ایک نے ساتھ کسی دوسرے کو شامل کرنے سے انکار کی وجہ سے میں مسلمان کہلانے والوں سے اسلام کی خالص توحید (ایک کی پرستش) کے اصول میں زیادہ نزدیک ہوں ‘‘۔
(ترجمہ از جیو کتھا گورونانک ص ۳۲۲) 
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ بابا نانک جی اسلام کی پیش کردہ توحید کے قائل تھے۔ اس صورت میں انہیں کسی نئی مذہب کا بانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ نئے مذہب کے بانی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے بارے میں کوئی ایسا تصور پیش کرے جو دوسرے مذاہب سے مختلف ہو۔
۳۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکھ لوگ بغیر کسی ٹھوس دلیل اور یقینی ثبوت کے بابانانک جی کو سکھ دھرم کا بانی پیش کرتے ہیں ۔ لیکن بابانانک جی سے کوئی بھی ایسا شبد وہ پیش نہیں کرسکتے جسے سے  بابا صاحب کا کسی نئی مذہب کا بانی ہونا ثابت ہوسکے۔ 
اس کے علاوہ آج سکھ دھرم کے جو عقائد اور اصول پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ باباجی کی وفات کے صدیوں بعد عالم وجود میں آئے ہیں۔ اور باباجی کے زمانہ میں ان کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آج سکھ لوگ پانچ ککوں کے دھارنی ہیں۔ یعنی کرپان ، کڑا ، کچہرا، اور کیس یہ پانچ چیزیں ان کے مذہب کی بنیاد ہیں۔ ان کو اختیار کئے بغیر کوئی سکھ سچا سکھ نہیں کہلا سکتا ۔ چنانچہ ایک سکھ ودوان کابیان ہے:۔
’’ککھارھاران نہ کرنے والا تنخواہیا قصوروار ہے‘‘
(سکھ قانون ص ۲۳۰)
نیز کڑوں کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ :۔
’’ اگر سکھ کرپان دھارن نہ کرے تو وہ سکھ نہیں رہتا۔ پلت ہوجاتا ہے‘‘ ۔
(ترجمہ از خالصہ کا چار یکم مئی ۱۹۴۷ء؁)
ایک اور صاحب کا بیان ہے :۔
’’کرپان کے بغیر سکھی ادھوری اور نامکمل ہے‘‘ 
(ترجمہ از اکالی ۲؍ مئی ۱۹۴۷ء؁)
لیکن کوئی سکھ دودان اس بات کو ثابت نہیں کرسکتا کہ بابا جی نے اپنی تمام عمر میں کسی شخص کو ان پانک ککاروں کو دھارن کرنے کی تلقین کی ہو یا خود اختیار کئے ہوں۔ یا انہیں سکھ دھرم یا اپنے پیش کردہ دھرم کا کوئی حصہ قرار دیا ہو۔ اس کے برعکس سکھ ودوانوں کو یہ امر مسلم ہے کہ باباجی نے اپنی تمام زندگی میں کرپان کو دھارن نہیں کیا۔ حالانکہ موجودہ زمانہ کے سکھ کرپان کے بغیر کسھی کو ادھوری اور سکھ کو پتت خیال کرتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ باباجی نے اپنے تمام کلام میں کرپان دھارن کرنے کا اپدیش دنیا تو الگ رہا کرپان کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا۔ اس صورت میں آپ کوسکھ دھرم کا بانی کیونکرقراردیا جاسکتا ہے ؟
۴۔ سکھ لٹریچر سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ بابا جی کو کوئی ایسا دعویٰ نہ تھا کہ وہ کسی نئے مذہب کو جاری کرنے پر مامور کئے گئے ہیں ۔ اور نہ انہوں نے اپنا کوئی الگ مذہب بنایا ہے ۔ مذاہب عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے ۔ کہ دنیا میں جس قدر بھی بانیان مذاہب گزرے ہیں ان سب نے دنیا کے سامنے اپنا یہ دعویٰ پیش کیاہے کہ وہ نیا مذہب چلانے کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں۔ چنانچہ گورو گو بند سنگھ جی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ :۔
جو جو ہوت بھیو جگ سیانا 
تن من اپنو پنتھ چلانا 
(دسم گرنتھ ص۵۱)
لیکن اس کے برعکس باباجی کا ہمیں ایسا کوئی دعویٰ ان کے کلام سے نہیں ملتا ۔ پس اگر باباجی فی الحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے کسی نئے مذہب کو چلانے کے لئے مامور تھے تو چاہیے تھا کہ آپ خود اس بات کو پیش کرتے۔ کیونکہ باباجی کے منصب کو خود ان سے زیادہ اور کوئی نہیںسمجھ سکتا تھا۔ 
جب ہم سکھ لٹریچر کا مطالعہ اس نقطہ نگاہ سے کرتے ہیں توہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خود سکھ ودوان بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ باباجی نے نہ صر ف یہ کہ ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس سے صاف الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ وہ کسی نئے مذہب کو جاری کرنے کی غرض سے دنیا میں نہیں آئے۔ چنانچہ مشہور سکھ ودوان گیانی شیر سنگھ جی کابیان ہے کہ :۔
’’ انہوں نے (یعنی بابا نانک جی نے ) اپنے منہ سے خود کو گورو نہیں کہا‘‘ ۔
(ترجمہ از گورگرنتھ پنتھ ص ۱۷)
مشہور سکھ مورخ گیانی گیان سنگھ جی کابیان ہے:۔
’’ انہوں نے (یعنی بابا نانک جی نے) خود کو بزرگ، پیغمبر یا اوتار ظاہر نہیں کیا اور نہ حکم دیا ہے کہ انہیں اوتار یا پیغمبر مانا جائے ‘‘
(ترجمہ از تواریخ گورو خالصہ ص ۶۱۲)
ایک اور سکھ ودوان کا بیان ہے:۔
’’ گورونانک خود کو اوتار نہیں کہتے تھے اگر بندے اور اوتار میں زمین و آسمان کافرق ہے تو عجز اور انکساری کے سبب سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘ ۔
(ترجمہ از پریت لڑی نومبر ۱۹۳۶ء؁)
یہ یاد رہے کہ خود سکھ ودوانوں نے کسی شخصیت کے گرو ہونے سے انکار کرنے کو اس کے گورو نہ ہونے کی دلیل قرار دیا (ملاحظہ ہو گرو پدنر نے ص ۱۸۰)
پس جس صورت میں خود سکھ ودوان اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ بابا جی نے گورو ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا اورانہوں نے اپنا کوئی نیا مذہب جاری نہیں کیا تھا اس صورت میں باباجی کے بارے میں یہ اعتراض کرنا کہ چونکہ وہ سکھ دھرم کے بانی تھے اس لئے مسلمان نہیں تھے خود بخود باطل ہوجاتا ہے۔ 
۵۔ دنیا میں جتنے بھی بانیان مذاہب ہوئے ہیں ۔ انہوںنے واضح الفاظ میں لوگوں کو اپنی طرف بلایا ہے اور یہ تلقین کی ہے کہ وہ اپنے خیالات ترک کرکے ان کے بتائے ہوئے راستہ پر گامزن ہوں ایک بھی ایسا بانی مذہب نہیں ہوا جس نے قوموں کو دوسروں کے مرید بننے کی تلقین کی ہو۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بابا جی دوسرے لوگوں کو یہ اپدیش دیا کرتے تھے کہ وہ شیخ فرید کے پیر کے مرید بنیں۔ چنانچہ جنم ساکھی بھائی بالا میں آپ کی ایک ساکھی درج ہے جس پر مرقوم ہے کہ یہ ساکھی پیرجلال الدین سے ہوئی تھی ۔ اس کے آخر میں یہ درج ہے کہ :۔
’’ پیرکو حکم ہوا تو پورا پیر کر۔ تب پیر جلال الدین نے کہا کہ گورو جی میں کس کو مرشد بنائوں ۔ تو گورو جی نے کہا کہ جو پیر فرید نے کیا ہے ۔ تب پیر جلال الدین گورو نانک سے رخصت ہوا ‘‘ ۔
(تراجم از جنم ساکھی بھائی بالا ص ۴۵۷)
اسی طرح پور اتن جنم ساکھی کے آخر میں ایک ساکھی مخدوم بہاء الدین اسے ہوئی درج ہے۔ اس کا نمبر ۴۵ ہے۔ اس ساکھی کے آخر میں مرقوم ہے کہ :۔
’’تب مخدوم بہاء الدین کو حکم ہوا ک جائو اور مرشد دھارن کرو۔ تب مخدوم بہائوالدین نے کہا کہ میں کس کو مرشدبنائوں ۔ تب بابا جی نے فرمایا کہ جسے شیخ فرید نے بنایا ہے۔ تب مخدوم بہائوالدین نے سلام کیا ۔ مصافحہ کیا۔ باباجی نے رخصت کیا ‘‘ ۔
(ترجمہ از پور اتن جنم ساکھی ص ۱۰۵)
پس اگربابا جی کسی نئے مذہب کے بانی تھے اور وہ نیا مذہب جاری کرنے کا انہیں خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ملا تھا تو اس صورت میں آ پ نے دوسروں کو شیخ فرید کے مرشد کی بیعت کرنے کی تلقین کیوں کی۔ اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کوکسی بھی نئے مذہب کے جاری کرنے کا کوئی دعویٰ نہ تھا ۔ نیز وہ خود بھی چشتی طریقہ کے قائل تھے ۔ کیونکہ بابا جی ایسا انسان دوسروں کو اسی بات کی تلقین کرسکتا تھا جسے وہ خود صحیح اور درست خیال کرتے ہوں ۔ چنانچہ ایک سکھ ودوان نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ بابا جی کے صوفی مسلمانوں خصوصاً چشتی طریقہ کے مسلمانوں سے بہت گہرے تعلقات تھے ۔ جیسا کہ ان کابیان ہے:۔
’’گورونانک صاحب کا ……مسلمان صوفی فقیروں سے بہت گہرے تعلقات رہے ہیں……ان صوفی فقیروں میںسے جن کے ساتھ گورو صاحب کا ذاتی پیار تھا۔ ایک بہت بڑے مشہور بزرگ بابا فرید کا کلام گورو گرنتھ صاحب میں درج ہے۔ پنجاب میں ان دنوں جو صوفی مذہب پردھان تھا وہ چشتی فرقہ تھا ‘‘ 
(ترجمہ از گورمت درشن ص ۱۴۷)
مہاتمائی ایل واسوانی نے بیان کیا ہے کہ بابا نانک جی اور شیخ فرید ثانی جی بارہ سال مل کر لوگوں میں تبلیغ کافریضہ ادا کرتے رہے۔ اور متعدد و مقامات پر ہندوئوں نے باباجی کی اس حرکت کو ناپسند کیا جیسا کہ ان کا بیان ہے:۔
’’ میں سمجھتا ہوں کہ گورونانک صاحب کا مذہب ملاپ اور ایکتا کا مذہب تھا اس لئے انہوں نے اسلام کی تعلیم میں وہ کچھ دیکھا جو دوسرے ہندوئوں کو بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ گوروصاحب کو مسلمانوں کے ساتھ ملاپ کرنے میں لذت محسوس ہوتی تھی۔ شیخ فرید (ثانی) دس سال گورو صاحب سے مل کر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا راستہ بتاتا رہا ۔ متعدد مقامات کے ہندوئوں نے گورو صاحب کے مسلمانوں سے گہرے میل  ملاپ کو ناپسند بھی کیا ۔ مگر ایکتا کے اوتار نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی ‘‘ 
(ترجمہ از اخبار موجی ۱۸؍جنوری ۱۹۳۷ء؁)
بابانانک صاحب کا شیخ فرید (ثانی) جی سے مل کر پرچار کرنا اوردس سال تک لگاتار لوگوں کو اللہ کا راستہ بتانا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کااور شیخ صاحب کا ایک ہی مذہب تھا۔ اور وہ اسلام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد مقامات کے ہندوئوں نے باباجی کی اس تبلیغ کو ناپسند کیا ۔ اگربابا جی نے اسلام کے مقابلہ پر کوئی الگ مذہب پیش کیا ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ شیخ فرید (ثانی ) ایسابزرگ مسلمان آپ کے ساتھ مل کر تبلیغ کرتا۔ اور پھر متعدد مقامات کے ہندئوں کو بھی باباجی کی اس تبلیغ کو ناپسند کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی ۔ بلکہ پھر تو وہ خوش ہوتے کہ ان کی جاتی میں سے پیدا ہو کر ایک شخص اعلانیہ طور پر اسلام کا رد کررہا ہے اور اپنا نیا مذہب لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی باباجی کا تعلق چشتی خاندان کے لوگوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں کہ :۔
ملا تب خد اسے اسے ایک پیر 
کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیر 
وہ بیعت سے اس کی ہوا فیضیاب
سنا شیخ سے ذکر راہ صواب 
(ست بچن ص ۴۰)
پس بابا صاحب کا لوگوں کو شیخ فرید کے مرشد کی بیعت کرنے کی تلقین کرنا اور شیخ فرید ثانی سے مل کردس سال تک لوگوں کو اللہ کاراستہ بتانا اور ہندوئوں کاباباجی کی اس تبلیغ کا ناپسند کرنا ثابت کرتا ہے کہ بابا جی خود کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے بلکہ آپ کے چشتی طریقہ کے لوگوں سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ اور آپ خود بھی اس طریقہ کے پابند تھے ۔ کیونکہ بابا جی کا اپناہی ارشاد ہے کہ :۔
’’ آپ نہ بوجھاں لوک بوجھائی ایسا آگودہواں 
نانک اندھا ہوئیکے دسے سہاتے مبس مہائے ساتھے
آگے گیا موہے ہنہ پاہے سو ایسا آگو جاپے 
(وارماجھ محلہ ۱ ص ۱۴۰)
الغرض باباجی کے بارے میں یہ بیان کرنا کہ انہیں کسی نئے مذہب کا دعویٰ تھا یا وہ نیا مذہب جاری کرنے کے لئے دنیا میں آئے بے بنیاد ہے۔ بابا جی چشتی طریقہ میں شامل تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں کو اس طریقہ میں شامل ہونے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔
۶۔ سکھ کتب سے یہ ثابت ہے کہ نئے مذہب کے جاری کرنے کی ذمہ داری گوروگوبند سنگھ جی نے خود ہی اپنے اوپر لی ہے ۔یعنی موجودہ زمانہ کے سکھ جس خالصہ دھرم کو مان رہے ہیں اور اس کے جو سدھانت اور اصول تسلیم کررہے ہیں وہ بابا نانک جی کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد گورو گوبند جی نے ایجاد کئے تھے ۔ جن میں بعد میں اضافے بھی کئے جاتے رہے ۔ چنانچہ سکھ ودوان بیان کرتے ہیں کہ گورو گوبند سنگھ جی نے شروع میں پانچوں ککوں کی بجائے تین مندرادھارن کرنے کا اپدیش ہرایک سکھ کو دیا تھا جو یہ ہیں۔ 
’’کیس ۔کچھ ۔ کرپان ‘‘
(ملاحظہ ہو گورپرتاب سورج رت ۳۔ انسو ۔۲۰ مہان کرش ص ۵۰۹ و پنتھ پرکاش ۷۶۵)
مگر بعد میں ان تین مندرا کو پانچ ککوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ سردار بہادر کاہن سنگھ جی کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ گورو گوبند سنگے جی نے پانچ ککوں کا کوئی حکم نہیں دیاتھا۔ یہ گورو صاحب کے کافی عرصہ بعد مشہورہوا (ملاحظہ ہوا گور مت سدھا کر ص ۴۶۷)
ایک اور سکھ ودوان نے اس سلسلہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی بھی پراچین کتاب میں پانچ ککاروں کی وضاحت نہیں کی گئی ( پریم سمارگ ص ۳۶)
بعض لوگ گوروگوبند سنگھ جی کا ایک فارسی شباس سلسلہ میں پیش کیا کرتے ہیں کہ 
؎ نشان سکھی ایں پنج حرف کا ف 
ہرگز نہ باشد ایں پنج معاف 
کڑا کاروو کچھ کنگھا بداں 
بلا کیس ہیچست جملہ نشاں
ایک سکھ ودوان نے اس شبد کو گوبند سکھ جی کا بیان کردہ تسلیم نہیں کیا بلکہ بعد کی بناوٹ ظاہر کیا ہے(پریم سمارگ ص۳۷) 
بھائی رندھیر سنگھ کا بیان ہے کہ پانچ ککوں میں کیس شامل نہیں ہے۔ کیس تو پہلے ہی سکھ رکھا کرتے تھے ۔ گورو صاحب نے کھیسوں کی بجائے کیسکی دھارن کرنے کا حکم دیا تھا مگربعد میں لوگوں نے کسیکی (چھوٹی پگڑی) کو کیسوں میں بدل دیا۔ 
(ملاحظہ ہو نر بھے خاصلہ دستار انگ اگست ۱۹۵۰ء؁ ، ص ۲۲۔۳۹۔۴۰ وغیرہ ) 
گورو گوبند سکھ جی نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ :۔
’’ پنتھ پرچور کرب کو ساجا ‘‘ 
(وسم گرنتھ ص ۵۱)
یعنی خداتعالیٰ نے گورو گوبند سنگھ کو نیا پنتھ جاری کرنے پر مامور کیا ‘‘ ۔
ایک اور مقام پرآپ نے فرمایا ہے :۔
راج ساج جب ہم پر آئیو
جتھا شکت تب دھرم چلائیو 
(دسم گرنتھ ص ۵۴)
’’یعنی جب میں نے سیاست میں دخل حاصل کرلیا تو اپنی طاقت کے مطابق نیا پنتھ جاری کیا ‘‘۔
دسم گرنتھ کے بعض قلمی نسخوں میںگورو گوبند سنگھ جی کا یہ قول بھی درج ہے :۔
دوہوں پنتھ میں کپٹ و دیا چلانی 
بہر تیسرو پنتھ کیجے پردھانی
(نامدھاری نت بنیم ص ۶۳۲ گور مت سدھاکر ص ۱۵۴ ورتمان سیکھ راجنیتی ص ۲۔ من مت پرہار ۲۔ص ۲۳ ، کتھاراپدیش ساگر ص ۲۴۰۔ہم ہندو ہیں۔ ص ۵۵ ، رسالہ سنت سپاہی جولائی ۱۹۴۹ء نومبر ۱۹۵۰ء؁)
گوروگوبند سنگھ جی کا یہ قول بھی سکھ کتب میں موجود ہے۔ 
’’گورو نانک صاحب سے لیکر نوگورو صاحبان تک کسی نے کوئی مذہب مریادہ اور جاری نہیں کی۔ صرف ہمیں ہندو مذہب سے گلانی(نفرت) پیداہوئی تو تیسرا پنتھ سنگھوں کا جاری کیا ہے‘‘ 
(ترجمہ از بجے مکت گرنتھ ص ۲۰۳)
بھائی گورد اس کی اکتالیسویں وار میں گورو گوبند سنگھ جی کے بارے میں یہ مرقوم ہے:۔
گور گو بند سنگھ پرگیٹو دسواں اوتارا جن الکھ اپار نرنجنان جپیو کو تارا نج پنتھ چلائیو خالصہ دھرتیج قرارا یعنی گوروگو سنگھ جی دسویں اوتار ظاہر ہوئے اور انہوں نے تیسرا پنتھ خالصہ جاری کیا ‘‘۔
ماسٹرتارا سنگھ جی نے گورو گو بند سنگھ جی کے قول بہ تیسرو پنتھ کیجئے پردھانی کی بناء پر لکھا ہے:۔
’’گورو صاحب کا یہاں صاف منشاء ہے کہ دو پنتھ ہندو مسلمان تھے اور تیسرا خالصہ پنتھ جاری کیا گیا ‘‘
(ترجمان از ورتمان سکھ راجنیتی ص ۲)
ان حوالہ جات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ گورو گو بند سنگھ جی تیسرے مذہب کے بانی تھے ۔ اس صورت میں بابانانک جی کو کسی نئے مذہب کا بانی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ سکھوں میں ایسے لوگ موجود ہیں بابانانک جی کے بارے میں یہ کہتے ہیں :۔
’’انہوں نے کسی نئے مت کی ستھا پنا نہیں کی ‘‘
(شروت منی چترا مرت حصہ دوم ص ۱۶۹)
البتہ یہ درست ہے کہ بعد میں لوگوں نے انہیں سکھ دھرم کا بانی قراردینا شروع کردیا جیسا کہ سردار گو رنجش سنگھ جی بی ایس سی بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’وقت گزرنے کے بعد عقید تمندوں نے انہیں (یعنی بابا صاحب کو) اپنا خاص گورو بنالیا۔ اور اس گوروسنستھا پر ایک شاندار پنتھ کی عمارت بٹالی‘‘ 
(ترجمہ از پریت لڑی نومبر ۱۹۴۸ء؁)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ بعد میں لوگوں نے گورونانک جی کو سکھ دھرم کا بانی قراردیدیا ۔ باباجی کو خود ایساکوئی دعویٰ نہ تھا کہ وہ کسی نئے مذہب کے بانی ہیں۔


مکمل تحریر >>