Wednesday 9 November 2016

علامہ اقبال اور ضرور ت مصلح


تحریر فرمودہ: مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (مرحوم )

علامہ اقبال پروفیسر نکلسن کو اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں :
’’ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے  اور بین الملّی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کردے‘‘۔
( دیکھئے مکاتیب اقبال صفحہ ۴۶۰ تا۴۶۴)  
اور پھر اسی خط میں پروفیسر مکینزی کی کتاب انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی  کے دو پیراگراف لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دو پیراگراف کس قدر صحیح ہیں۔ انہیں لفظ بلفظ نقل کردیتاہوں:
(۱)’’غالباً ہمیں پیغمبر  سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے  یا ایک ایسے شخص کی جوشاعری اور پیغمبری  کی دوگونہ صفات  سے متصف ہو‘‘۔
  (۲) ’’ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے  جو درحقیقت روح القدس کاسپاہی ہو‘‘ ۔
یہ پیراگراف درج کرنے کے بعد علامہ اقبال تحریر فرماتے ہیں  :
’’میرے افکار  کامطالعہ کریں ۔ ہمارے عہدنامے اور پنچائتیں جنگ و پیکار   کو صفحہ ہستی سے  محو نہیں کر سکتیں کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس شعر میں مَیں نے اسی کو مخاطب کیاہے   ؎
باز در عالم بیار ایاّمِ صلح
جنگجوئیاں را بدہ پیغامِ صلح
(مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۶۰ تا ۴۶۴)   
کہ پھر دنیا میں صلح کے ایا م لا اورجنگجو قوموں کو صلح کا پیغام دے ۔
        پھر مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۱ میں لکھتے ہیں :
’’کاش کہ مولانا  نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ صلعم پھرتشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں‘‘۔
یہ ضرورت نبوت کے قائل ہونے کا علامہ اقبال جیسے  آدمی کی طرف سے واضح اعتراف ہے  ۔ ان کے نزدیک  دنیامیں روحانی انقلاب  پیدا کرنا علماء کے بس کی بات نہیں کیونکہ اپنے زمانہ کے علماء   کی حالت کا نقشہ وہ یوں کھینچتے ہیں  ؎
مولوی بیگانہ از اعجازِ عشق
 ناشناس نغمہ ہائے سازِ عشق
(اسرار ورموز صفحہ ۶۸)   
مولوی عشق کے معجزے سے بیگانہ ہے اور عشق کے ساز کے نغموں سے ناشناس ہے ۔ واعظوں،  شیوخ اور صوفیاء کا حال دگرگوں یوں بیان کرتے ہیں     ؎
شیخ در عشقِ بتاں اسلام باخت
رشتۂ تسبیح را  زنّار ساخت
(اسرار ورموز صفحہ ۷۹)    
شیخ نے بتانِ مجازی کے عشق میں اسلام  کو ہار دیاہے اور تسبیح کے رشتہ کو زناّر بنا دیاہے ۔
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبارِ ملّتِ بیضا شکست
 واعظ اور صوفی منصب پرست ہو گئے ہیں اور انہوں نے ملتِ بیضا کااعتبار توڑ دیاہے۔
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی ٔ دینِ مبیں فتویٰ فروخت
ہمارے واعظ نے نگاہ بتخانہ پرجمادی ہے تو مفتیٔ دین  نے فتویٰ فروخت کرنا شروع کر دیاہے۔
چیست یاراں بعد ازیں تدبیرِ ما
رخ سُوئے میخانہ دارد پیر ما 
اے دوستو ! اس کے بعد اب ہماری کیا تدبیر  ہو سکتی ہے  ۔ ہمارے پیر صاحب تومیخانہ کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ۔(اسرار و رموز صفحہ ۷۹)
اس کا علاج یہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ روحانی سے آپؐکاکوئی ظل اور بروز ظاہر ہوکر روحانی انقلاب کی نئے سرے سے  بنیاد رکھتا ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے عین وقت پر مسیح موعود کو بھیج کر  امت محمدیہ کی دستگیری  فرمائی ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ فرماتے ہیں  ؎
وقت تھا وقت ِ مسیحا  نہ کسی اور کاوقت
میں نہ آتاتوکوئی اور ہی آیا ہوتا
(ماخوذ از کتاب ’’شان خاتم النبیین‘‘ صفحہ ۸۱۔۸۳)





مکمل تحریر >>

Tuesday 8 November 2016

احمدیت اور اس کے اصول



(تحریر : مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب مبشر (مرحوم) مصنّف کتاب ’ بشارات رحمانیّہ‘)


احمدیت خدا کا ایک قائم کردہ سلسلہ ہے جو اسی اصل اسلام کا دوسرا نام ہے۔ جسے آج سے تیرہ سو سال قبل ہادی برحق حضرت محمد عربی  ﷺ (فداہ روحی) نے خدا کے حکم سے قائم کیاتھا۔ اگر یہ سلسلہ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے نعوذباللہ اسلام کی ضد یاا س کا مخالف ہوتا تو اس کے ایسے اصول ہوتے جو اسلام کے سراسر خلاف ہوتے۔ جیسا کہ بہائیت اور عیسائیت وغیرہ کے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔
 اسلام کے پانچ بڑے اصول جیسا کہ آپ کو معلوم ہے یہ ہیں۔ (اول) کلمہ شہادت یعنی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد ﷺاس کے رسول ہیں۔ (دوم) نماز کا قائم کرنا۔ (سوم) زکوٰۃ دینا (چہارم) رمضان شریف کے روزے رکھنا(پنجم) اگر توفیق ہو تو حج کرنا۔ 
اسی طرح اسلام نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ یہ ہیں (1)اللہ تعالیٰ پر(2)اس کے فرشتوں پر(3)اس کے رسولوں پر (4) اس کی کتابوں پر (5) بعث بعد الموت پر (6) اور تقدیر پریقین رکھنا۔ یہی اصل الاصول ہیں۔جو اعتقادات اور اعمال کا مرکزی دائرہ ہیں۔ باقی تمام فروعات ہیں جو اِن کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ 
جماعت احمدیہ کے بعینہٖ بغیر کسی قسم کے فرق کے مذکورہ بالا عقائد ہیں اور ایسے شخص کے لئے جوان عقائد پر سختی سے پابند نہ ہو جماعت احمدیہ کے دروازے بکلی بند ہیں۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘ کے صفحہ 87پر فرماتے ہیں۔
 ’’اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور سیدنا حضرت محمدمصطفی ﷺ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں۔ کہ جو کچھ اللہ جلّ شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لاالہ الا اللّہ محمّد رسول اللّہ اور اس پر مریں اور تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام کتابوں پر جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ایمان لاویں اور صوم وصلوٰۃ او زکوٰۃ وحج اور اسی طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا۔ اور وہ امور جواہل سنت کی اجماع سے اسلام کہلاتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں۔ کہ یہی ہمارا مذہب ہے۔‘‘ 
چنانچہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام کے تمام اصولوں پر عملی رنگ میں سختی سے کاربند ہے اور انہیں اصولوں کو دنیا میں رائج کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ مخالفین اسلام کی دشمنی کا باعث بھی یہی ہے کہ یہ جماعت انہیں اپنے راستے میں روڑا نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باقی تمام اسلامی جماعتوں کو چھوڑ کر صرف اور صرف اس جماعت کے درپے آزار نظر آتے ہیں۔ اور جہاں کہیں اس جماعت سے کسی قسم کا مقابلہ ہو تو تمام غیر مسلم جماعتیں اس کے خلاف محاذ میں جمع ہوتی ہیں۔ پس یہ بات بھی اس جماعت کے صحیح اسلامی جماعت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا حوالہ سے آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ جماعت احمدیہ صحیح معنوں میں اسلامی جماعت ہے اور مخالفین احمدیت کا اسے اسلام کے خلاف قرار دینا سراسر بہتان اور ظلمِ عظیم ہے۔ 
جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتے ہیں یہ ہیں۔
 (اول) اس جماعت کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کے متعلق قرآن کریم میں رسولا الیٰ بنی اسرائیلآیا ہے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے اور اس عقیدہ کی بنیاد قرآن و حدیث اور تاریخی ثبوتوں پر ہے۔ 
(دوم) حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانے میں مامور ہو کر آئے ہیں اور آپ ہی وہ مسیح موعود ہیں۔ جن کی پیشگوئی احادیث میں آئی ہے۔ بلکہ ادیان کل کے موعود ہیں۔ 
(سوم) آپ اس صدی کے مجدد ہیں اور آنحضرت ﷺ کا فرمان کہ ان اللّٰہ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأسکل مائۃ سنۃمن یجدد لہا دینھا (ابن ماجہ) یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں ایک شخص کھڑا کرے گا ۔ جو اس دین کی تجدید کرے گا۔ یہ پیشگوئی آنجنابؐ کی جس طرح گذشتہ صدیوں میں پوری ہوئی۔ اسی طرح اب بھی ہو گئی ہے ۔ اورہمیشہ ہوتی رہے گی۔
 (چہارم) آنحضرت خاتم النبیین ہیں۔ یعنی آپ ہی کے ذریعہ سے اب انسان تمام کمالات روحانیہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح آپ ؐپر نبوت ختم ہے اسی طرح ولایت، کرامت، شرافت، بلکہ انسانیت بھی آپ ؐ پر ختم ہے اور یہ تمام کمالات جو بنی نوع کی ذاتی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح و درستگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ ہی کے ذریعہ اور پیروی سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ 
چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جہاں کہیں نبوت یا رسالت کے الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے ہیں وہاں اس بات کو ہر جگہ واضح کیا ہے کہ یہ تمام کمالات مجھے اسی منبع فیض وبرکات سے حاصل ہوئے ہیں جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہے حضور اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ کے صفحہ 116پر فرماتے ہیں۔
 ’’ وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیت شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیاگیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوںگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے پائی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ ‘‘ 
پس آپ کی نبوت آنحضرت ؐ کی نبوت کی غیر نہیں اور خاتم النبیین کے اعلیٰ اعزاز کی حقیقت واضح کرنے والی ہے۔ 
(پنجم) قرآن کریم میں کوئی حکم یا آیت منسوخ نہیں اس کا ایک ایک حرف اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح وہ قابل تلاوت ہے۔
 (ششم) خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے جیسا کہ پہلے کیا کرتا تھا۔ اور اب بھی وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کو دنیا کی طرف مصلح بنا کر بھیجتا ہے جیسا کہ پہلے بنا کر بھیجا کرتا تھا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مَنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ چنتا ہے فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول۔
 (ہفتم) اسلام کی تعلیم اپنی صداقت اور دلائل کے رو سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرے گی اس کیلئے ظاہری زور یعنی تلوار چلانے کی ضرورت نہیں۔ اور لا اکراہ فی الدین( دین میں کوئی جبر نہیں) والا حکم اب منسوخ نہیں ہوگیا بلکہ واجب العمل ہے پس ایسا جہاد … جس میں تلوار کے ذریعہ سے کسی کو اپنے عقیدہ کا قائل کروانا مقصود ہو ہر گز ہرگز جائز نہیں کیونکہ تلوار کی حکومت جسم پر ہوگی روح پر ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اور اسلام انسانی روح پر اپنی حکومت کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ اسلام نے تو ظاہری اقرار اور باطنی انکار کا نام منافقت رکھا ہے اور اس کی سزا دوزخ کا سب سے نچلا حصہ قرار دیا ہے۔ پس تلوار کے ذریعہ مذہب پھیلانا اسلام کے منشاء کے سراسر خلاف ہے اور ایسا مہدی جو اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے غلبہ دے کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں حسب ضرورت بعض شرائط کے ساتھ جہاد بالسیف بھی جائز ہے اور اس کا حکم منسوخ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔
 (ہشتم) تمام مسلمانان عالم بلکہ تمام دنیا کی اصلاح خواہ وہ معاشرتی، تمدنی، عملی یا اعتقادی ہو۔ اب احمدیت سے وابستہ ہے اور وہ سنہری اصول جو احمدیت نے اس بارے میں دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں جو اصل اسلام ہی کے اصول ہیں ان پر چلنے سے دنیا کی نجات ہے۔ 
(نہم) احمدیہ جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی عیب چینی کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔ کیونکہ کسی کی کمزوری بیان کرنے سے اپنی بڑائی ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ ہماری تعلیم کی برتری ہی ہمارے مذہب کی برتری ثابت کرسکتی ہے۔ ہاں جوابی طور پر مجبواراً اگر دوسرے کی اعتقادی کمزوریاں اور مذہبی خامیاں بیان کرنی پڑیں تو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ مگر وہ بھی ایسی قوموں کے مقابلہ میں جن کا کام ہی ہمیشہ بد گوئی اور بد زبانی کرنا ہو۔ ورنہ نہیں اور یہی دنیا میں قیام امن کا ذریعہ ہے۔ جس پر یہ جماعت کاربند ہے۔ 
(دہم) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر زمانہ اور ہر قوم میں جتنے بھی مامور اور مصلح آئے ہیں۔ وہ سب واجب الاحترام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت تمام مصلحین کو خاص عزت کی نگاہ سے دیکھتی اور ہر جگہ علی الاعلان اس کا ذکر کرتی ہے۔ 
(یازدہم) اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے دین کے مخالف اگر وہ انہیں اپنی رحمت کاملہ سے بخش نہ دے۔ ایک ایسے مقام پر رکھے جائیںگے جسے ہم جہنم کہتے ہیں۔ اور جس میں آگ اور شدیدسردی کا عذاب ہو گا۔ جن کی غرض محض تکلیف دینا نہیں ہو گی۔ بلکہ اس میں ان لوگوں کی آئندہ اصلاح مد نظر ہو گی۔ حتیٰ کہ وہ دن آجائے جب اللہ تعالیٰ کا رحم جو ہر چیز پر غالب ہے۔ ان کو ڈھانپ لے اور یأتی علیٰ جہنم زمان لیس فیہا احد و نسیم الصبا یحرک ابوابہا (تفسیر معالم التنزیل زیر آیہ فاماالذین شقوا الخ) جہنم پر ایک وقت ایسا آئے گا جب کہ اس میں ایک متنفس بھی نہیں رہے گا اور باد صبا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی۔کا وعدہ پورا ہو جائے۔ 
یہ عقائد جو اختصاراً میں نے یہاں درج کئے ہیں۔ صحیح اور قابل قبول ہیں اور ان کی رو سے تمام مذاہب باطلہ پر اسلام کی صداقت اور برتری ثابت کر کے ان کے متبعین کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔ 
محترم بھائیو! حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ اٹھو اور دنیا کی اصلاح کرو تو سوائے تعمیل حکم کے آپ کیلئے اور کونسی راہ ہوسکتی ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں     ؎
اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تا رد کروں حکم شہہ ذوالاقتدار
اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام
گرچہ میں ہوں بس ضعیف وناتوان و دلفگار
خدا را آپ اتنا تو سوچیں کہ کیا مفتری انسان کبھی بارور اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور کبھی عالم الغیب خدا اس کی تائید اور تصدیق میں وہ نشانات ظاہر کرسکتا ہے۔ جو کسی سچے موعود کے بارے میں گزشتہ صحیفوں میں مرقوم ہوں۔ مثلاً دار قطنی کی حدیث ان لمہدینا اٰیتین (الحدیث) کے مطابق 1311ہجری میں سورج اور چاند کو رمضان شریف کے مہینہ میں گرہن لگنا،دمدار ستارے کا ظاہر ہونا، پھر مسلم کی حدیث ولیترکن القلاص فلا یسعی علیہا کہ مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ بیکار ہو جائیں گے، کے مطابق ریل اور دوسری تیز رفتار سواریوں کا ایجاد ہونا پھر صلیبی مذہب کا اطراف عالم میں پھیلنا، یاجوج ماجوج آگ کے ہتھیار استعمال کرنے والی آگ بگولا ہونے والی اور آگ سے ہی تمام کاروبار کرنے والی قوم کا اونچی اور نیچی جگہوں پر پھیلنا۔ پھر دریاؤں کا پھاڑے جانا اور نہروں کا نکالا جانا ، اسی طرح صحائف کا پھیلنا، اخبارات کا کثرت سے شائع ہونا، طاعون کا پڑنا، زلازل کا آنا، جنگوں کی کثرت ، کیازمین وآسمان کا اس قدر آپ کے زمانے میںنشانات ظاہر کرنا اہل تقویٰ کی چشم بصیرت کھولنے کیلئے کافی نہیں؟ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مفتری کے ناکام ونامراد مرنے اور اس کے ذلت سے بے یارومددگار مارے جانے کے متعلق جو قوانین بیان کئے ہیں۔ ان کا برعکس ہونا یعنی بجائے ناکام ونامراد مارے جانے کے آپ کا بامراد وکامیاب زندگی گزارنا اور اسلام کے فدائیوں کی ایک عظیم الشان جماعت پیدا کرنا۔ جن کے متعلق مخالف وموافق سب کا یک زبان ہو کر گواہی دینا کہ یہ جماعت اسلام کی بڑی خدمت کرنے والی فعال جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ساتھ سچے مامورین جیسا سلوک ہونا ہر موقع پر خداتعالیٰ کا آپ کی سپر بننا۔ کیا یہ سب باتیں کسی مفتری کو میسر آسکتی ہیں۔ چشم فلک نے کبھی ایسا نظارہ نہیں دیکھا کہ   ؎
 ذلت ہیں چاہتے یہاں اکرام ہوتا ہے
 کیا  مفتری کا یہی  انجام  ہوتا ہے 
ایک اور نظارہ ملاحظہ فرماویں کہ جسے مفتری کہا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور نہایت جسارت سے یہ التجا کرتا ہے کہ    ؎
اے قدیر و خالق ارض و سما
اے رحیم و مہرباں و راہنما
اے کہ میداری تو بر دِلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تومے بینی مرا بر فسق و شر
گر تو دید ہستی کہ ہستم بد گوہر
پارہ پارہ کن منے بد کار را
شاد کن ایں زمرہ اغیار را
آتش افشاں بر در و دیوار من
شمنم باش وتباہ کن کارمن
در مرا از بندگانت یافتی
قبلہ من آستانت یافتی
در دل من آں محبت دیدہ
کز جہاں آں راز را پوشیدہ
بامن از روئے محبت کارکن
اندکے افشاء آں اسرار کن
(حقیقۃ المہدی صفحہ 1)
مگرہوتا کیا ہے بجائے اس کے خدا تعالیٰ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا اور اس کے دشمنوں کو خوش کرتا۔ ہر ایک قوم ہر ایک فریق کے خدا ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ اور ان میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ الگ کر کے حضرت مرزا صاحب کو طاقتور اور مضبوط بنا دیتا ہے حتیٰ کہ دشمن بھی آپ کی ترقی کو دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے۔ پھر بجائے اس کے کہ آپ کے دشمن اپنی آنکھوں سے آپ کے در ودیوار پر آگ برستے دیکھتے۔ الٹا پھولوں کی بارش ہوتی دیکھتے ہیں۔ اور مال و دولت سے آپ کو مالامال کردیا جاتا ہے۔ نیک اور پاک اولاد سے آپ کو خوشحال کیا جاتا ہے۔ پھر آپ کو یہاں تک ترقی ملتی ہے کہ بے اختیار کہنا پڑتا ہے۔
گڑھے میں تُو نے سب دشمن اتارے 
ہمارے  کردیئے  اونچے  منارے
ان تمام باتوںکو دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقلمند آپ کو مفتری قرار دے سکتا ہے؟ ہر گز، ہر گز نہیں۔ اور اس پر طرفہ یہ کہ آپ مفتری قرار دینے والوں کو للکار کر کہتے ہیں کہ جاؤ اگر تمہیں میری صداقت پر اب بھی شبہ ہے تو اپنے مولیٰ سے اپنے پیدا کرنے والے سے پوچھو۔ سینکڑوں سعیدالفطرت احکم الحاکمین کے دربار میں سر بسجود ہو کر اور رو رو کر حقیقت حال دریافت کرتے ہیں وہاں سے سب کو یہی جواب ملتا ہے جاؤ جلدی کرو اور اسے جا کر قبول کرو۔ وہ ہمارا محبوب ہے۔ ہمارافرستادہ ہے۔ سچا ہے۔ آپ ان تمام رؤیاء وکشوف کو خود میری اس کتاب بشارات رحمانیہ میں ملاحظہ فرمائیںگے اور اگر خدانخواستہ اس سے بھی آپ کی تسلی نہ ہوتو پھرآپ خود ان لوگوں کی طرح اپنے مولا کے حضور التجائیں کریں وہ حقیقت حال واضح کر دے گا۔  …مبارک وہ جو اب بھی سمجھے اور خداتعالیٰ کے پاک اور سچے مامور کے دامن سے وابستہ ہو کر فلاح دارین حاصل کرے۔‘‘

(ماخوذ از کتاب بشارات رحمانیہ)


مکمل تحریر >>