Tuesday 16 August 2016

زھق الباطل : کذب و افتراء کی دلآزار مہم اور اس کا پس منظر




کذب و افتراء کی دلآزار مہم اور اس کا پس منظر
(خطبہ جمعہ فرمودہ  ۲۵؍جنوری ۱۹۸۵ء بمقامبیت الفضل لندن)


  تشّہدوتعوذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضورنے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ {30}
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ {31}
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ {32}
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ {33} (التوبہ : ۳۰ - ۳۳)

اور پھر فرمایا :
 پاکستان کی موجودہ حکومت نے احمدیت کی تکذیب کی جو مہم چلا رکھی ہے اس کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک تومُلک کے معصوم عوام پر یہ دبائو ڈالا جارہا ہے اور ان کے مفادات کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے کہ جب تک وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب نہیں کریں گے اُن کے کام نہیں چل سکیںگے۔ چنانچہ اس طرح پاکستان کی موجودہ حکومت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کو ایک عوامی شکل دے دی ہے ۔ تاہم یہ کوئی ایسی عوامی تحریک نہیں کہ جس میں لوگوں کے دل سے از خود یہ خواہش اُٹھے بلکہ یہ ملک کا موجودہ قانون ہے جو ہر پاکستانی شہری کو مجبور کر رہا ہے کہ یا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کرے یا بعض مفادات سے محروم رہ جائے۔ یہاں تک کہ اب ووٹ دینے کا حق بھی کسی پاکستانی کو نہیں مل سکتا جب تک کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب نہ کرے اور بکثرت ایسی مثالیں پاکستان کے اندر بھی اور پاکستانی شہریوں میں سے اُن کی جو باہر بستے ہیں ہمارے سامنے آتی ہیں کہ وہ اس پر احتجاج کرتے ہیں اور کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ مرزا صاحب کیا تھے اور کیا واقعۃً خدا تعالیٰ نے انہیں بھیجا بھی تھا کہ نہیں۔ اس لئے یہ گناہ ہمارے سر پر نہ رکھو ۔ لیکن چونکہ اس کے بغیر اُن کے کام نہیں چل سکتے اور اُن کو مجبور کیا جاتا ہے اس لئے اُن میں سے بھاری تعداد تکذیب پر دستخط کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔
تکذیب کا ایک دوسرا طریق یہ اختیار کیا جارہا ہے کہ احمدیوں کو اُن کے مفادات سے محروم رکھا جارہا ہے، اُن پرمظالم توڑے جار ہے ہیں ، اُن پر ظلم کرنے والوں کی تائید کی جارہی ہے۔ احمدیوں کے مال لوٹنے والوں کو تحفظ دیا جارہا ہے اوراُن کی جان پر حملے کرنے والوں کو حکومت کی چھتری کے تلے امن مل رہا ہے جبکہ احمدیت کے حق میں گواہوں کو یا احمدیوں کے حق میں آنے والے گواہوں کوجُھٹلایا جاتا ہے اور مخالف فریق کے فرضی گواہوں کو بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ غرضیکہ اس نوع کے بکثرت دبائو ہیں مثلاً ملازمتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے ، طلباء کوتعلیم کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ اور اسی قسم کے بعض دوسرے دبائو روز مرہ کی زندگی میں اس کثرت سے ڈالے جارہے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریق پر احمدی بھی بالآخر تنگ آکر احمدیت کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ تمام دنیا جانتی ہے اور پاکستان میں بھی اب یہ احساس بڑی شدّت سے پیدا ہو رہاہے کہ یہ سارے ذرائع احمدیوں کواحمدیت سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اس کے بالکل برعکس نتیجہ نکلا ہے ۔ خدا کے فضل سے اتنی شدّت اور قوّت کے ساتھ ایمان اُبھرے ہیں اور اخلاص میں ترقی ہوئی ہے اورقربانیوں کی نئی امنگیں پیدا ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے اس قسم کی کیفیت اور شدّت نظر نہیں آتی تھی۔ اب خدا کے فضل سے جماعت میں ایسا حوصلہ ایسا عزم اور پھر قربانیوں کے ایسے بلند ارادے پیدا ہوگئے ہیں جو پہلے نظر نہیں آتے تھے ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس پہلو سے بھی حکومت مخالفانہ کوشش میں ناکام ہوگئی ہے۔
جہاں تک پہلی کوشش کی ناکامی کا تعلق ہے امرواقعہ یہ ہے کہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے جتنی بھی اطلاعات ملتی ہیں ان سے پتہ لگتاہے کہ ہر وہ پاکستانی جو احمدی نہیں ہے جب وہ تکذیب پر دستخط کر تا ہے تو اس کے اندر خوف کا ایک احساس جاگتا ہے ۔وہ اپنے دل میں یہ سوال اٹھتاہوا محسوس کرتا ہے کہ جس شخص کی میں تکذیب کر رہا ہوں اس کے دعویٰ کی جانچ پڑتال میں نے کر بھی لی تھی کہ نہیں۔ میں نے اس کے دعویٰ کے بارہ میں تحقیق کرکے پورے اطمینان سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص جھوٹا ہے یا محض اپنے دنیوی مفاد کی خاطر مجبور ہو کر اور ذلت کے ساتھ تکذیب پر دستخط کرنے پر پابند کیا گیا ہوں۔ یہ ایک عام احساس ہے جو لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے ۔ چنانچہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کا جو سامان ہم نہیں کر سکتے تھے وہ اللہ کی تقدیر نے اس طرح کروادیا ہے ۔ورنہ اس سے پہلے احمدیت کے بارہ میں عدم دلچسپی عام تھی، لاعلمی عام تھی اور امر واقعہ یہ ہے کہ گو مختلف فرقوں میں مسلمان بٹے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ اُن کے عقائد کیا ہیں، ان کی اسلامی نظریاتی بنیا د کیا ہے، اسلام کے وہ کون سے عملی تقاضے ہیں جن کو انہوں نے پورا کرنا ہے ۔ غرض ایک قسم کی غفلت کی حالت ہوتی ہے جس میں بظاہر مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے لوگ زندگی گزار رہے ہوتے ہیںاور چونکہ ان کو جماعت احمدیہ کے متعلق بھی علم نہیں تھا اس لئے ان میں جماعت کے بارہ میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہو رہی تھی ۔ اُن میں بہت کم لوگ تھے جو اِس وجہ سے مخالفت کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ جماعت احمدیہ ( نعوذ باللہ ) جھوٹی ہے۔ جبکہ بڑی بھاری تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مولویوں کے ڈر سے اورعوام الناس کے دبائو کے پیش نظر خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ لیکن اب پاکستان کے کونے کونے میں احمدیت کا چر چا ہے۔ ایسے علاقوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچ گیا ہے جہاں کسی احمدی نے کبھی جھانک کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔وہاں نہ صرف احمدیت سے لوگ متعارف ہو رہے ہیں بلکہ انسانی ضمیر کو کچوکے دئیے گئے ہیں کیونکہ کلیۃًلا علم آدمیوں کو بھی ایک ایسے فیصلہ پر مجبور کیا گیا ہے جس کے وہ مجاز نہیں تھے۔ پس اس کے نتیجہ میں احمدیت کو سمجھنے اور پہچاننے کے بارہ میں جو دلچسپی پیدا ہو سکتی تھی وہ خدا کے فضل سے پیدا ہو رہی ہے اور اس کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں ۔
احمدیت کے خلاف ان دنوں تیسری کوشش اشاعت لٹریچر کے ذریعہ کی گئی ہے جو بڑے وسیع پیمانے پر شائع کرکے تقسیم کروایا گیا ہے۔ تمام دنیا میں مختلف زبانوں میں بعض پمفلٹ تقسیم کروائے گئے پاکستان کے سفارت خانوں کے ذریعہ بھی اور براہ راست بھی جن میں سراسر کذب اور افتراء سے کام لیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کردار کشی کی کوششیں کی گئی ہیں جو عالمگیر جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی تکلیف کا موجب ہیں ۔خصوصاً پاکستان کے احمدیوں کے لئے جہاں دن رات اخباروں میں بھی یہی چرچا ہورہا ہے اور حکومت وقت کروڑوں روپیہ خرچ کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوا رہی ہے اور خود بھی دے رہی ہے اور اس تکذیب میں کسی بھی دنیاوی ، عقلی ، انسانی اور اخلاقی قانون اور ضابطے کا قطعاً کوئی پاس نہیں ۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف مختلف زبانوں میں ایسے ایسے فرضی قصے بنا کر شائع کئے جا رہے ہیں اورتمام دنیا میںانکی تشہیر کی جارہی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے  انسان حیران ہو جاتا ہے کہ اس مہذب دور میں بھی ایسی اخلاقی گراوٹ کے نمونے دیکھے جاسکتے تھے! ایک عام انسان میں بھی اگر وہ چیزیں پائی جائیں تو ایک انتہائی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتی ہیں چہ جائیکہ حکومتی سطح پر اخلاق سے گری ہوئی باتیں رونما ہوں۔ حکومتیں تو خواہ دہریہ ہی کیوں نہ ہوں وہ  ذمہ داری کا ثبوت دیا کرتی ہیں، ان کی زبان میں کچھ وقار اور اسلوب حکمرانی میں کچھ شائستگی ہوتی ہے جس کی وہ بالعموم پیروی کرتی ہیں اور خواہ کسی فریق کووہ کتنا ہی برا اور دشمن سمجھتی ہوں پھر بھی وہ دنیا کے رسمی تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھتی ہیں ۔لیکن دنیا میں ایک پاکستان ہے جہاں نمونے کی ایک ایسی حکومت قائم ہوگئی ہے جس نے تمام اخلاقی تقاضوں کوبالائے طاق رکھ دیاہے اور تمام اخلاقی قیود کو توڑ کر پھینک دیا ہے اور احرار کی ایک ایسی عامیانہ زبان اختیار کرلی ہے جو کبھی موچی دروازہ لاہور یا امر تسر کے بازاروں میں سنی جاتی تھی یا پھر ان دنوں سنائی دیتی تھی جب ان کے فرضی فاتح قادیان پر حملے کیا کرتے تھے۔ اب وہ زبان حکومت پاکستان کی زبان بن گئی ہے اور اس حکومت کے مزاج پر، اس کے کردار پر اور ان کے طرز حکومت پر احراریت کا پوری طرح رنگ آ چکا ہے۔ چنانچہ یہی وہ تصویر ہے جو ساری دنیا میں اِس حکومت کی ابھر رہی ہے ۔
ان دنوں احمدیت پر اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر من گھڑت الزام لگا کر حملے کرنا حکومت کا معمول بن چکا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جس کا نام ہے’’قادیانیت ۔اسلام کے لئے سنگین خطرہ‘‘ اسے وائٹ پیپر یعنی قرطاس ابیض کے سے اہتمام کے ساتھ شائع کرکے ساری دنیا میں بڑی کثرت سے تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں مَیں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ میرا خود ارادہ ہے انشاء اللہ اس کے متعلق ایک ایک اعتراض کو سامنے رکھ کر کچھ بیان کروں گا۔ لیکن اس عرصہ میں جماعت کے مختلف علماء اور لکھنے والوں نے اپنے طور پر بھی کوششیں کیں۔ بعض دوستوں کو میں نے پیغام بھجوائے تھے انہوں نے بہت اچھے اور عمدہ مضامین تیار کرکے بھجوائے ہیں۔ ان میںسے کچھ مضامین اشاعت کے لئے تیار بھی ہو چکے ہیں ۔ تاہم ان مضامین کا ایک تو ہر احمدی تک پہنچنا مشکل ہے ۔دوسرے جماعت کا ایک حصہ غیرتعلیم یافتہ بھی ہے اورایک حصہ ایسا بھی ہے جہاںپڑھنے کا رواج ہی نہیں ہے اور بعض لوگوں کے مزاج میں پڑھنے کی عادت بھی نہیں ہوتی اس لئے خطبات کے ذریعہ جتنا کثیر اور گہرا رابطہ جماعت سے ممکن ہے اتنا کسی اَور ذریعہ سے ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ خطبہ کی کیسٹ( Cassette) کے ذریعہ رابطہ اور پھر کیسٹ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے مربیان مختلف جماعتوں سے جو رابطہ قائم کرتے ہیں اس کے میں نے بہت فوائد دیکھے ہیں۔ رابطہ کا یہ ذریعہ بہت ہی مؤثر ثابت ہوا ہے۔ گواس سلسلہ میں جو علمی کوششیں کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ بڑی عمدہ اور نہایت مفید ہیں ، ان سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا میں خود بھی انشاء اللہ اس موضوع پر کچھ نہ کچھ کہوں گا۔ تاہم آج کے خطبہ میں پہلے تو مَیں اِس مخالفت کا پس منظر بیان کرنا چاہتا ہوں اور پھر مختصراً ان اعتراضات کو لوں گا جو اس مبیّنہ قرطاس ابیض میں دہرائے گئے ہیںاو ر بعد میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے یا توخطبات میں سلسلہ وار جواب دوںگا یا پھر کسی جلسہ کے موقع پر جب زیادہ وقت مہیا ہو بعض مضامین کو انشاء اللہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
جہاں تک اس مخالفت کے پس منظر کا تعلق ہے احباب جماعت کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک باقاعدہ گہری سازش کا نتیجہ ہے اور اس سلسلہ میں جو لمبی کوششیں ہو رہی ہیں اُن کو یہ پس منظر ظاہر کرتا ہے۔ دوستوں کو عموماً ربط کے ساتھ معلوم نہیں کہ کیا ہوتا رہا ہے اور اب کیا ہورہا ہے اور موجودہ واقعات کی کون سی کڑیاں ہیں جو 74 19ء کے واقعات سے ملتی ہیں ۔چنانچہ موجودہ مخالفت کا کچھ پس منظر تو اس رنگ میں سامنے آتا ہے کہ اِس وقت جماعت کے خلاف جوجدوجہد ہو رہی ہے وہ مربوط شکل میں کس طرح آگے بڑھی ہے اور اب کس شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔ پھر اس پس منظر کا ایک پہلو اَور بھی ہے جس کا غیر ملکی طاقتوں سے تعلق ہے یا غیر مذاہب سے تعلق ہے۔ بڑی بڑی استعماری طاقتیں ہیں جو ان کو ششوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں اوران کے بہت برے ارادے ہیں جو باقاعدہ ایک منصوبے کے طور پر آج سے سالہا سال پہلے بلیو پرنٹ(Blue Print)کی شکل اختیار کر چکے تھے، باقاعدہ تحریر میں باتیں آچکی تھیں۔ آپس میں باقاعدہ معاملات طے ہو چکے تھے۔ چنانچہ اربوں روپیہ ایک منصوبے کے تحت جماعت احمد یہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے کم از کم 20 سال سے تو میں بھی جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری مخالف جماعتوں کو باقاعدہ تربیت دی گئی اور پاکستان کے جوملکی حالات ہیں ان میں دخل اندازی کا بھی اس کو ذریعہ بنایاگیا ۔ اس کی بہت سی تفاصیل ہیں اگر موقع پیدا ہوا یا ضرورت محسوس ہوئی تو انشاء اللہ بعد میں ان کا ذکر کروں گا ۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے خلاف اٹھنے والی اس موجودہ مہم کا 1974ء کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور 1974ء کے واقعات کی بنیاد دراصل پاکستان کے 1973ء کے آئین میں رکھ دی گئی تھی۔ چنانچہ آئین میں بعض فقرات یادفعات شامل کر دی گئی تھیں تاکہ اس کے نتیجہ میں ذہن اس طرف متوجہ رہیں اور جماعت احمدیہ کو باقی پاکستانی شہریوں سے ایک الگ اور نسبتاً ادنیٰ حیثیت دی جائے۔ میں نے 1973ء کے آئین کے نفاذ کے وقت اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیحالثالث ؒ کی خدمت میں عرض کیا اور آپ کو اس طرف توجہ دلائی۔ بعدا زاں جس طرح بھی ہو سکا جماعت مختلف سطح پر اس مخالفانہ رویہ کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن ان کوششوں کے دوران یہ احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا کے یہ صرف یہاں کی حکومت نہیں کروا رہی بلکہ یہ ایک لمبے منصوبے کی کڑی ہے اور اس معاملہ نے آگے بڑھنا ہے۔ بہرحال 1974ء میں ہمارے خدشات پوری طرح کھل کر سامنے آگئے ۔
1974ء میں پاکستان کو جو حکومت نصیب تھی، اس میں اور موجودہ حکومت میں ایک نمایاں فرق ہے۔ وہ حکومت حیادار تھی ۔ اسے اپنے ملک کے باشندوں کی بھی حیا تھی اور بیرونی دنیا کی حکومتوں کی حیا بھی تھی ۔ تاہم احمدیت کی دشمنی میں کمی نہیں تھی۔ یعنی جہاں تک منصوبے کا تعلق ہے اور جماعت کی بنیادوں پر سنگین حملہ کرنے کا تعلق ہے دونوں میں یہ دشمنی قدر مشترک ہے اور بھٹو صاحب کے زمانہ کی حکومت اورموجودہ حکومت میں اس پہلو سے کوئی فرق نہیں لیکن جہاں تک حیا کا تعلق ہے اس میں نمایاں فرق ہے۔ بھٹو صاحب ایک عوامی لیڈر تھے اور عوام کی محبت کے دعویدار بھی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اپنے ملک کے عوام میں ہر دلعزیز لیڈر بنے رہیں اورعوام کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دھاندلیاں کر کے اور آمرانہ طریق اپنا کر حکومت کرنے کے خواہاں ہیں سوائے اس کے کہ اشد مجبوری ہو۔ چنانچہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف اقدامات کرنے سے پہلے ایک عوامی عدالت کا رنگ دیا اور قومی اسمبلی میں معاملہ رکھا گیا اور اس میں جماعت کو بھی اپنے دفاع کا ایک موقع دیا گیا تا کہ بیرونی دنیا کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ دراصل اس طرح وہ بیرونی دنیا میں اپنا اثر بڑھانا چاہتے تھے۔ بیرونی دنیا میں بھی ان کی تمنائیں بہت وسیع تھیں۔ وہ صرف پاکستان کی رہنمائی پر راضی نہیں تھے بلکہ اپنا اثر و رسوخ ارد گرد کے علاقے میں پھیلانا چاہتے تھے جیسے پنڈت نہرو ابھرے تھے اس طرح وہ مشرق کے لیڈر کے طور پر ابھرنے کی تمنا رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ صرف پاکستانی رہنما کے طورپر ہی نہیں بلکہ مشرق کے ایک عظیم رہنما کے طور پر ابھریں اور دنیا سے اپنی سیاست کا لوہا منوائیں۔ پس اس وجہ سے بھی چونکہ ان کی آنکھوں میں بیرونی دنیا کی شرم تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اندرون اور بیرون ملک جماعت کا معاملہ اس رنگ میں پیش کیا جائے کہ گویا وہ بالکل مجبور ہوگئے تھے، ان کے اختیار میں نہیں رہا تھا ، بایں ہمہ انہوں نے عوامی دبائو کو براہ راست قبول نہیں کیا بلکہ جماعت احمدیہ کے سربراہ اوران کے ساتھ چند آدمیوں کو بلا کر ایک موقع دیا کہ وہ اپنے مسلک کو پیش کریں۔چنانچہ ایک لمبا عرصہ قومی اسمبلی نے اس سلسلہ میں وقت خرچ کیا اور بھٹو صاحب کو قومی اسمبلی کا عذر ہاتھ آگیا اور انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اب میں کیا کر سکتا ہوں ۔لیکن اس حیا کا موجودہ حکومت میں فقدان ہے اس لئے کہ یہ نہ عوامی حکومت ہے نہ اسے بیرونی دنیا میں کسی رائے عامہ کی پرواہ ہے۔ ایک آمر بہرحال ایک آمر ہی ہوتا ہے اس لئے بظاہر وہ جتنی مرضی کوششیں کرے لیکن آمریت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ جوکچھ بھی ہو ، جو کچھ بھی دنیا کہے اس کی پرواہ نہیں کرنی۔ آمریت کے مزاج میں یہ بات داخل ہے کہ کوشش کر دیکھو مفت میں دنیا کی ہر دلعزیزی ہا تھ آجائے تو ٹھیک ہے لیکن نہ بھی آئے تو آمریت توپیچھے نہیں ہٹا کرتی۔ اس لئے آمریت میں جوبے پرواہی پائی جاتی ہے وہ ہمارے خلاف موجودہ مہم میں بھی بالکل ظاہر و باہر ہے۔
1974ء میں حکومت نے اپنے فیصلے کے دوران جماعت کو موقع تو دیا اور چودہ دن قومی اسمبلی میں سوال و جواب ہوتے رہے۔ جماعت نے اپنا موقف تحریری طور پر بھی پیش کیا لیکن ساتھ ہی چونکہ وہ بڑی ہوشیار اور چالاک حکومت تھی اُس نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر یہ باتیں عام ہوگئیں اور سوال و جواب پر مشتمل اسمبلی کی کاروائی اور اس کی جملہ روئیداد دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی تو حکومت کا مقصد حل نہیں ہو سکے گا بلکہ برعکس نتیجہ نکل سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ بجائے اسے سراہنے کے کہ جماعت کو ہر قسم کا حق دینے کے بعد ایک جائزفیصلہ ہوا ہے دنیا بالکل برعکس نتیجہ نکالے اور کہے کہ جماعت تو اس کارروائی کے نتیجہ میں بہت ہی زیادہ مظلوم ثابت ہوتی ہے۔کیونکہ جماعت نے اپنے موقف کی تائید میں اتنے مضبوط اور قوی دلائل پیش کئے جو عقلی بھی ہیں اور نقلی بھی اور اُن کے پیش نظر کوئی یہ نتیجہ نکال ہی نہیں سکتا کہ جماعت احمدیہ مسلمان نہیں ہے ۔ چنانچہ اس وقت کی حکومت نے اس خطرہ کی پیش بندی اس طرح کی کہ جماعت کو قانوناً اور حکماً پابند کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کا کوئی نوٹ یا کوئی ریکارڈنگ اپنے پاس نہیں رکھیں گے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس کارروائی کو دنیامیں ظاہر نہیں ہو نے دے گی۔
اس کارروائی کا نتیجہ کیا تھا وہ اس واقعہ سے ظاہرہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ قومی اسمبلی کے ایک ممبر سے ایک موقع پر یہ سوال ہوا کہ آپ اس کارروائی کو شائع کیوں نہیں کرواتے، ساری قومی اسمبلی نے آپ کے بیان کے مطابق متفقہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جماعت احمدیہ غلط ہے اور اپنے عقائد کے لحاظ سے اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر اسمبلی کی کارروائی شائع کرکے ان کا جھوٹ دنیاپر ظاہر کریں۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ تم کہتے ہو شائع کریں شکر کرو کہ ہم شائع نہیں کرتے اگر ہم اسے شائع کردیں تو آدھا پاکستان احمدی ہو جائے۔میں سمجھتا ہوں یہ کہنا ان کی کسر نفسی تھی اگر پاکستان کے شریف عوام تک جماعت احمدیہ کا موقف حقیقۃًپہنچ جائے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ سارا پاکستان احمدی نہ ہو جائے سوائے ان چند بدنصیب لوگوں کے جو ہمیشہ محروم رہ جاتے ہیں۔ ہدایت ان کے مقدر میں نہیں ہوتی کیونکہ  جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دینا چاہتا دنیا کی کوئی طاقت ان کو ہدایت نہیں دے سکتی۔ پس ایسے استثنا ء تو موجود ہیں ، لیکن مجھے پاکستان کی بھاری اکثریت سے حسن ظن ہے کہ اگر ان تک جماعت احمدیہ کا موقف صحیح صورت میں پہنچ جائے خصوصاً موجودہ دور کی نسلوں تک جو نسبتاً زیادہ معقول رنگ رکھتی ہیں اور تقلید کی اتنی قائل نہیں ہیں جتنی پچھلی نسلیں قائل تھیں تو یقینا ان کی بھاری اکثریت بفضلہ تعالیٰ احمدی ہو جائے گی۔ 
چنانچہ موجودہ حکومت نے اس کی پیش بندی یوں کی کہ جماعت احمدیہ پر یک طرفہ حملے تو کئے لیکن جواب کی اجازت ہی نہیں دی۔ دفاع کا موقع ہی پیدا نہیں ہونے دیا ۔ چنانچہ جماعت کے خلاف حملوں سے پہلے ہی حکومت نے ایسا رویہ اختیار کر لیا کہ جماعت کا وہ لٹریچر ضبط کر لیا جائے جس میں ان کے آئندہ کئے جانے والے حملوں کا جواب موجود ہے ۔ حکومت کی پالیسی میں یہ جو تضاد پایا جاتا ہے اس سے بظاہر ایک بے عقلی کی بات بھی نظرآتی ہے لیکن بے عقلی سے زیادہ اس میں شرارت اور چالاکی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف یہ کہاجاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچراس لئے ضبط کیا جارہا ہے کہ اس سے پاکستان کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور دوسری طرف اس میں سے صرف وہی جملے نکال کر شائع کئے جارہے ہیں جن سے بقول ان کے دل آزاری ہوتی ہے ۔ کیسی احمقانہ بات ہے تم کہہ یہ رہے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہم اس لئے ضبط کر رہے ہیں کہ ان سے مسلمان عوام خصوصاً پاکستانی عوام کی دل آزاری ہوتی ہے اور اس دل آزاری کا علاج یہ کیا ہے کہ وہ حصے جن سے دل آزاری نہیں ہوتی اُن کا شائع کرناتو قانوناً بند کردیا اور جن سے تمہارے زعم میں دل آزاری ہوتی ہے ان کو گورنمنٹ کے خرچ پر بصرف کثیر ساری دنیا میں پھیلا رہے ہو ۔ پس بظاہر تو یہ ایک تضاد ہے لیکن یہ تضاد ایک چالاکی کے نتیجہ میں ہے۔ انہوں نے ایک ظالمانہ اور ناپاک حملہ کرنا ہی تھاکیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اعتراضات کے جوابات موجود ہیں اور  ہر شریف النفس انسان جو ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور سیاق و سباق کو دیکھتا ہے تو اعتراض خود بخود دور ہو جاتا ہے ۔
چنانچہ قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران بھی یہی ہوتا رہا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مجھے بھی ساتھ جانے کاموقع دیا تھا۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران میں نے اور میرے دوسرے ساتھیوں نے یہ بات بڑی حیرت کے ساتھ مشاہدہ کی کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پر کوئی حملہ کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اس حوالہ کا کچھ حصہ پہلے سے پڑھ کر اور کچھ حصہ بعد کا پڑھ کر سنا دیتے تھے اور اس کے بعد کسی جواب کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی، سننے والوں کے چہروں پر اطمینان آجاتا تھاکہ یہ حملہ فرضی ہے ،کتر بیونت کا نتیجہ ہے، سچائی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے اور بعض جگہ وضاحت کی ضرورت پڑتی تھی تو وضاحت بھی فرمادیتے تھے ۔ لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات اپنی ذات میں ہی اپنے اندر کا فی جواب رکھتی ہیں۔ اگر سیاق وسباق سے الگ کرکے صرف ایک ٹکڑے کو نکال کر غلط رنگ میں تحریف کے طور پر پیش کیا جائے تو اس سے دل آزاری ہو سکتی ہے حالانکہ تحریر کاوہ مقصد نہیں ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہ بات کہنا ہی نہیں چاہتے تھے جو آپ کی طرف منسوب کی جارہی ہے لیکن اسے دل آزاری بنا کر یا اپنی طرف سے گھڑ کر شائع کیا جارہا ہے اور اس کا جواب عوام سے چھپالیا گیا ۔
 پس یہ تھی اِس حکومت کی حکمت عملی۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں اس واقعہ سے پہلے ہی کتابیں ضبط ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ اسی پر بس نہیں کی پریس بھی ضبط ہو گئے ، رسالے اور اخبار بھی بند ہوگئے۔ یہ بزدلی ہے جو ہمیشہ کمزوری کی نشانی ہوا کرتی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت جو دلائل میں قوی ہو وہ ہتھیار نہیں اٹھایا کرتی اوردوسرے کی بات کے بیان کرنے کی راہ میں قانونی روکیں نہیں ڈالا کرتی۔ یہ عقل کے خلاف ہے اور ان کے اپنے مفاد کے خلاف ہے ۔ اس لئے تمام قانونی کوششیں جو اس بات میں صرف کی جارہی ہیں کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کے خلاف تو حملے ہوجائیں لیکن جماعت احمدیہ کو جواب کا موقع نہ ملے ، یہ شدید بزدلی کی علامت ہے اور شکست کا آخری اعتراف کہ اُن کے پاس دلائل کا فقدان ہے۔ چنانچہ ایک طرف جماعت احمدیہ کو اتنا کم تعداد بتایا جارہا ہے کہ ستر اسّی ہزار نفوس سے زیادہ ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں  اور دوسری طرف یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ احمدیت عالم اسلام کے لئے خطرہ ہے اورخطرہ بھی ایسا کہ اس سے پہلے عالم اسلام کے لئے ایسا خطرہ کبھی پیدا نہیں ہوا تھا اور اسی پروپیگنڈہ پر بس نہیں کی بلکہ احمدیت کا لٹریچر بھی ضبط کیا گیا ۔ ان تمام اقدامات پر بڑے فخر سے یہ کہا جارہا ہے کہ دیکھا اس خطرہ کا ہم نے حل کر دیا ہے ۔
چنانچہ گذشتہ حکومت کے اقدامات سے موازنہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے جو مبینّہ رسالہ شائع کیا ہے اس میں لکھتے ہیں کہ گذشتہ قومی اسمبلی کا واقعی یہ بڑا کا رنامہ ہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ قومی اسمبلی ان کو Dissolve کرنی پڑی اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس کے سارے ممبران      (اِلَّا مَاشَاء اللّٰہ ) گندے اور بد کار لوگ ہیں ۔ مگر پھر بھی انہوں نے قومی اسمبلی کے کارنامہ کو تسلیم کیا۔ کیونکہ ان کی سوچ ان کے ساتھ ملتی تھی۔ ایک ہی رنگ کی ادائیں تھیں اس لئے وہ کارنامہ تو تسلیم کرنا پڑتا تھا اور تسلیم کیا کہ اس اسمبلی کا یہ ایک بہت بڑا اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس کی رو سے بظاہر سو سالہ مسئلہ حل کر دیا گیا لیکن اُن سے یہ سو سالہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہو سکا کیونکہ اس سلسلہ میں جو قوانین بنانے رہتے تھے وہ ہمارے مقدر میں لکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ ہم نے وہ قوانین اختیار کر کے اب اس جماعت کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع کر دیا ہے اور اب عالم اسلام کو کوئی خطرہ نہیں رہا۔
 سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ مسئلہ کس طرح حل ہُوا،مسلمان خطرہ سے کس طرح بچائے گئے اس کے متعلق مبینّہ سرکاری کتابچہکے آخر پر لکھا ہیکہ ہم نے یہ مسئلہ یوں حل کیا کہ ایک حکم نافذ کر دیا  جس کی رو سے جماعت کی طرف سے اذان دینی بند ہوگئی ، مسلمان کہلانا بند ہوگیا، اب کلمہ پڑھ اور لکھ نہیں سکتے اور مسجدوں کو مسجد یں نہیں کہہ سکتے اور مسلمانوں والی ادائیں اختیار نہیں کر سکتے اورقرآن کریم کے احکامات پر عمل نہیں کر سکتے، دیکھو اب ہم کتنے راضی ہیں ۔ ہم نے کتنا عظیم الشان مسئلہ حل کر دیا۔ گویا یہ وہ نتیجہ ہے جو انہوں نے آخر میں نکالا ہے ۔ لیکن حماقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ یعنی چالاکی کے اندر بھی بعض دفعہ حماقتیں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس سچائی نہ ہونے کے نتیجہ میں چالاکی کے اندر ایک بیوقوفی شامل ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ضرور ظاہر کرتی ہے۔ اس لئے یہ اندرونی تضاد اور یہ بیوقوفیاں سبھی ایک جھوٹی چالاکی کا نتیجہ ہیںورنہ سچی عقل کے نتیجہ میں یہ تضاد پیدا نہیں ہوسکتا ۔
پس موجودہ حکومت نے یہ طریق اختیار کیا اور اپنے آپ کو بھٹو حکومت سے زیادہ چالاک سمجھا اور کہا کہ اُن کی تو بیوقوفی تھی کہ قومی اسمبلی میں سوال و جواب کا موقع دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ وائٹ پیپر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دراصل نبوت کا جو دعویٰ کرے اُس سے تو گفت و شنید کرنی نہیں چاہئے دلائل سے اس کو شکست دینے کی کوشش کرنا ہی بیوقوفی ہے۔ اس لئے جو علاج ہم نے تجویز کیا ہے اس کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ساری دنیا میںالزام تراشیوں کا ظالمانہ سلسلہ جاری کردیا۔ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ظالموں کی کوششیں اُن کو کبھی فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں ۔ فرماتا ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ {30}
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ {31}
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ {32}
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ {33} (التوبہ : ۳۰ - ۳۳)
  
ایسے لوگ جو منافقانہ رنگ رکھتے ہیں ، دعوے کچھ اَور کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے اعمال کچھ اَور ہوتے ہیں۔ حکمت کی باتیں کرتے ہیں مگر حکمت کے ساتھ ساتھ نہایت ہی احمقانہ حرکتیں بھی جاری رہتی ہیں ۔ ان کی کوششیں کبھی اُن کو فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں ۔ وہ آگ تو ضرور بھڑکا دیا کرتے ہیں لیکن آگ سے جو تماشادیکھنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو اُس تماشے سے محروم کر دیا کرتا ہے ، ان کا نور بصیرت چھین لیتا ہے۔ آگ تو وہ جلانے کے لئے بھڑکاتے ہیں لیکن وہی آگ ان کو نور بصیرت سے بھی محروم کردیتی ہے اور پھر ان کو ایسے ظلمات میں چھوڑ دیتا ہے کہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔ چنانچہ موجودہ حکومت کی مخالفانہ کوشش بھی عملاً جماعت احمدیہ کے فائدہ کا موجب بنی ہے اور انشاء اللہ فائدہ کا موجب بنتی چلی جائے گی۔
اس وقت جماعت احمدیہ عملاً ایسے دور سے گزر رہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :   وَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ (البقرہ:۲۱۷) کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے اور تم سے بھی ایسا ہوگا کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرتے ہو، تمہارے دل دکھتے ہیں، تمہیں تکلیف پہنچتی ہے، مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ جبکہ وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہوتی ہے ۔ تم بچوں کو کڑوی دوائیاں پلاتے ہو، ان کو ٹیکے کرواتے ہو، وہ چیختے چلاتے ہیں، تم ان کے ہاتھ پکڑ لیتے ہو ، ان کی کوئی پیش نہیں جانے دیتے۔ بچوں سے یہ سلوک اس لئے کیا جا تا ہے کہ اس میں اُن کا فائدہ مضمر ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم بھی تمہارے لئے بعض دفعہ ایسی تدبیریں کریں گے کہ جن سے تمہیں انتہائی تکلیف پہنچے گی۔ لیکن وہ تمہارے لئے فائدہ کا موجب ہوں گی۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے متعلق پاکستان کی حکومت نے ساری دنیا میں جو لٹریچر شائع کروایا ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا میں جماعت کی طرف توجہ پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے۔ بعض لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ دنیا میں جماعت احمدیہ بھی کوئی جماعت ہے۔ اب ان تک یہ اطلاعات پہنچیں ، ساری دنیا کے اخباروں نے ان معاملات کا نوٹس لیا ۔ 
چنانچہ احمدیت اپنی شہرت کے لحاظ سے اور معروف ہونے کے اعتبار سے آج اس آرڈیننس کے جاری ہونے سے قبل کے وقت سے کم سے کم بیس گنا زیادہ معروف ہو چکی ہے۔ امریکہ بلکہ انگلستان میں بھی لوگوں کی بھاری اکثریت جماعت سے بالکل ناواقف تھی۔ ظاہر ہے ایک دو مشنزکے ذریعہ کروڑوں کی آبادی کوہلایاتونہیں جاسکتا ، لوگ دلچسپی نہیں لیتے۔ لیکن موجودہ مخالفت میں جماعت جن حالات سے گذری اورمصائب سے دوچار ہوئی اس کے نتیجہ میں ایک انسانی ہمدردی پیدا ہوئی اور اس ہمدردی کی وجہ سے جماعت کے معاملہ میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ لوگوں نے جماعت کے لٹریچر کو پڑھنا شروع کیا اور پوچھنے لگے کہ تم ہو کیا؟ پھر اس کے علاوہ جو کسر رہ گئی تھی وہ حکومت پاکستان کے غیر منصفانہ لٹریچر نے پوری کردی کیونکہ ان کے لٹریچر کی طرز ہی ایسی ہے جس سے ایک معقول آدمی کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ضرور دال میں کا لا ہے ۔ کوئی ایسی بات ہے کہ ایک طرف جماعت احمدیہ کے متعلق یہ لوگ کہتے ہیں کہ بس تھوڑے سے ہیں سو سال میں زور لگانے کے باوجود ستّر ہزار سے زیادہ نہیں بڑھ سکے اورادھر ان سے کتنی بڑی کروڑوںکی حکومت خائف ہوجائے نہ صرف یہ بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے خطرہ قرار دیا جائے، یہ اتنی نا معقول  بات ہے جسے ہر آدمی تو ہضم نہیں کرسکتا اس لئے اس مضمون کو پڑھنے کے نتیجہ میں ایک ایسا آدمی بھی جس کو جماعت کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہو اپنے اندر ایک ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ کم سے کم جماعت سے متعلق معلوم کرنے کی جُستجو اس میں ضرور پیدا ہو جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے ایک اَور بہت اچھا موقع ہاتھ آگیا جسے ہم پہلے کھوچکے تھے ۔ قصہ یہ ہے کہ گذشتہ حکومت نے اسمبلی کی کارروائی کے بارے میںہمارے ہاتھ باندھے ہوئے تھے، انہوں نے وہ ہاتھ ایک طرح سے کھول دئیے اور ہمیں جوابات کا موقع دیا ۔ گذشتہ حکومت نے ہمیں پابند کر دیا تھا کہ تم نے یہ سوالات اور یہ جوابات دنیا کو نہیں بتانے۔لیکن اس حکومت نے سوالات کی چوری وہیں سے کی ہے کیونکہ میں توان حالات سے گذرا ہوں مجھے پتہ ہے ، تمام سوالات من وعن وہی ہیں جو قومی اسمبلی میں اُٹھائے گئے تھے۔ البتہ طریق یہ اختیار کیا گیا ہے کہ اُن میں سے کچھ تو وائٹ پیپر میںشامل کر لئے گئے اور بیشتر ایک رسالہ کے سپر د کر دئیے گئے جو ہے تو ایک چیتھڑا لیکن بہرحال رسالہ کے نام سے مشہور ہے قومی ڈائجسٹ کہلاتا ہے۔ اس کو پتہ نہیں کتنے لاکھ روپیہ دیا گیا۔ یہ رسالہ سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سرا سر جھوٹے الزامات کا ایک پلندہ ہے جسے شائع کیا گیا ۔اس میں تہذیب سے گری ہوئی باتیں آپ ؑ کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور ایسے عامیانہ انداز سے پیش کی گئی ہیں کہ شریف آدمی ان باتوں کو پڑھ ہی نہیں سکتا اور اگر پڑھے بھی تو بے اختیار ہو کر اس بازاری انداز صحافت کے شاہکار کو نفرت سے پھینک دے ۔لیکن بصرف کثیر اُسے ایک نہایت شاندار اور عظیم الشان رسالے کی شکل بنا کر شائع کیا گیا اور سرکاری کتابچہ سے جو اعتراض باقی رہ گئے تھے وہ سارے اس کے اندرشامل کر دیئے۔ اور یہ باقاعدہ ایک منصوبہ تھا اور اب احرار کے بعض نہایت ہی ذلیل قسم کے چیتھڑے ہیں جو اشتہارات کی شکل میں آئے روز شائع ہوتے رہتے ہیں جن کی طرف پاکستان کے شریف عوام کبھی توجہ ہی نہیں کرتے ۔ اُن کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے کہ وزارت اطلاعات ان کو خرید خرید کر ساری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں میں بھجوارہی ہے۔       گویا وزارت اطلاعات یہ سمجھتی ہے کہ پاکستانی سفارت خانے صرف اسی کام کے لئے وقف ہیں ۔ وہ کسی دن دیکھیں تو سہی کہ سفارت خانوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر کا بنتا کیا ہے ۔آج کل تو سردی کا موسم ہے کوئی بعید نہیں کہ سفارت خانوں میں اُسے جلا کر ہاتھ سینکے جار ہے ہوں اور اس طرح اس کا بہتر مصرف کیا جارہا ہو۔ پس سفارت خانوں کے عملہ کو تو اپنی ہوش نہیں ہوتی، وہ دوسری دلچسپیوں میں محو ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے عیش و عشرت سے آنکھیں بند کر کے اور اپنے مفادات سے منہ موڑ کر جماعت احمدیہ کے متعلق یک طرفہ اور جھوٹی باتیں پڑھنے میں وہ کیوں وقت ضائع کریں ۔ جو لوگ ڈپلومیٹک( Diplomatic) سروس میں رہ چکے ہیں ان کو پتہ ہے کہ باہر سفارت خانوں میں ہوتا کیا ہے اور اس قسم کے لٹریچر کی حیثیت کیا ہوتی ہے ۔ صرف ٹائٹل پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں اور بس۔ لیکن اس کے ساتھ ایک قسم کی یاددہانی ہو جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ بھی ضرور کوئی قابل توجہ جماعت ہے پس ہمارے خلاف چھپنے والے لٹریچر کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں یا پھر وہ جلتا ہے تو کوئی چائے گرم کر لیتا ہوگا یا ہاتھ سینک لیتا ہوگا ۔ 
پس حکومتِ وقت کی طرف سے نہایت ہی گندہ اور مکروہ شکل کا لٹریچر باقاعدہ خرید کر باہر کے سفارت خانوں کو بھجوایا جا رہا ہے اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم الشان کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں ۔انشاء اللہ تعالیٰ اس قسم کے لٹریچر کا بھی جواب دیا جائے گا۔ ویسے بیشتر جو ابات تیار ہو چکے ہیں ۔ لیکن جہاں تک خطبات کا تعلق ہے ان میں بہت سی ضروریا ت پیدا ہو تی رہتی ہیں اس لئے تسلسل لازماً توڑنا پڑے گا۔ لیکن جہاں تک خدا توفیق دے کچھ حصہ خطبات کی شکل میں اور کچھ حصہ نسبتاً لمبی تقریروں کی صورت میں مَیں بیان کروں گا۔ اوروہ جو موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا کہ ساری دنیا تک اپنی بات ایک مناظرہ کی شکل میں پہنچائی جائے اور یہ بتا کر پہنچائی جائے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ مطلب تھا، یہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر وہ ہمیں کا فر سمجھتے ہیں یا غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ چونکہ پہلے تووہ وجوہات ہم بتا ہی نہیں سکتے تھے ۔ قانون نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور ہم اپنے وعدہ کے پکے ہیں اس لئے ہم مجبور تھے ہم اپنے جواب شائع نہیں کر سکتے تھے ۔ اب اُس پر موجودہ حکومت کی مہر لگ گئی ہے ۔ انہوں نے اپنا موقف بتا دیا ہے ۔ اب ہمارا جوموقف ہے وہ ہم ہی بتائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور جس رنگ میں چاہیں گے بتائیں گے اور ساری دنیا کو بتائیں گے اور ہر زبان میں بتائیں گے۔یہ تو مقابلہ کرہی نہیں سکتے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ دلائل کے سامنے اگر ٹھہرنا ہوتا تو اپنے ملک میں ہمیں دفاع کا موقع نہ دے دیتے؟ دلائل کے سامنے ٹھہرنے کا حوصلہ ہوتا تو ہماری کتابیں ضبط کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بُزدل گروہ ہے ۔ ان کے تو پائوں ہی کوئی نہیں ۔ان میں ادنیٰ سی بھی جرأت ہوتی تو جماعت کو موقع دیتے کہ وہ بھی جواب دے ۔ لیکن موقع تو ہم سے چھین نہیں سکتے۔ ہم تو ان کے گندے لٹریچر کے جواب کو ہرجگہ پہنچائیں گے اور پاکستان میں بھی پہنچائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ دنیا کی کوئی طاقت جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی کیونکہ یہ خدا کی قائم کردہ جماعت ہے ۔
رہا یہ سوا ل کہ جماعت احمدیہ کے خلاف یہ حالات کب تک رہیں گے تو جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اس کے متعلق تواللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میں صرف اتنا کہہ کر آج کا یہ خطبہ ختم کروں گا کہ بعض لوگوں کے خطوط سے کچھ مایوسی کا سا رنگ جھلک رہا ہے جو مجھے بہت تکلیف دیتا ہے۔ مایوسی تو نہیں کہناچاہئے مایوسی کے سوا کوئی اَور نام ہونا چاہئے کیونکہ ایسے احباب خد ا کی رحمت سے مایوس تونہیں ہیں لیکن جو نتیجہ وہ نکال رہے ہیں اس میں بہت جلدی کی جاری رہی ہے ، بڑی عجلت سے کام لیا جا رہا ہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ تقدیر گذشتہ مخالفتوں سے اس رنگ میں بھی مختلف ہے کہ اب غالباً اس مُلک سے ہمارے مرکز کو ہجرت کرنی پڑے گی اور مشکلات کا ایک لمبا عرصہ سامنے ہے ۔بایں ہمہ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں عظیم الشان فتوحات نصیب ہوں گی جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ نتیجہ بہت جلدی نکال لیا گیا ہے۔ میں تو بالکل یہ نتیجہ نکالنے پر رضا مند نہیں ہوں ۔ ویسے یہ کہنا صحیح ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا یا کرتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ لفظاً لفظاً دہرائی جاتی ہے کہ گویا وہی شکلیں ،وہی صورتیں ،وہی نام سو فیصد ظاہر ہو جائیں ۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن اصولوں کے طور پر دُہراتی ہے اور وہ اصول قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ فرما دئیے ہیں ۔ پس وہ اصول تو ضرور دہرائے جائیں گے کیونکہ وہ سنت اللہ کہلاتے ہیں اور سنّت انبیاء بن جا یا کرتے ہیں ۔ لیکن ان اصولوں کے نقوش مختلف بھی ہو سکتے ہیں ۔ یعنی عملاً وہ جس طرح جاری ہو ں اُسی طرح ان کی شکلیں بدل سکتی ہیں اور پھر یہ فیصلہ کر لینا کہ اب یہ واقعہ یوں ظاہر ہو گیا ہے ، یہ تو صحیح نہیں ۔ کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ خود واضح طور پر خبر نہ دے دے یا تقدیر اس طرح کُھل کرسامنے نہ آجائے کہ اُسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہ ہو، اس میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ خدا کی کسی تقدیر سے مفر نہیں۔ خدا کی کسی تقدیر سے ہم ناراض نہیں ہو سکتے لیکن اس کے باوجود میںآپ کو تاکید کرتا ہوں کہ اس فیصلہ میں جلدی نہ کریں کیونکہ جب آپ یہ فیصلہ کریں گے تو آپ کی دعائوں میں کم ہمتی آجائے گی، آپ کی دعائوں کی بے قراری کچھ کم ہو جائے گی ۔آپ سمجھیں گے کہ لمبا معاملہ ہے کوئی فرق نہیں پڑتا ، اسی طرح ہوتا آیا ہے ۔ ایسی صورت میں پھر جو بے تابی اور بے قراری کی دعائیں ہوتی ہیں اُن میں وہ شدت نہیں رہتی۔ یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے جس سے الٰہی جماعت کے لئے بچنا ضروری ہے۔ اس لئے تقدیر تو وہی چلے گی جو خدا کی تقدیر ہے ، اس کو تو کوئی بدل نہیں سکتا۔ لیکن اپنی دعائوں اور التجائوں کا حوصلہ کیوں نیچا کرتے ہیں ۔ سپاہی تو وہ ہوتا ہے جو میدان میں لڑتا رہتا ہے ، سینے پر گولی کھاتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا ۔
پس خدا کی تقدیر سے کوئی لڑ نہیں سکتا ۔ خدا کی تقدیر نے خود ہی اپنی تقدیر کے مقابلہ کا ہمیں ایک گُر بھی سکھا یا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم عاجزانہ رنگ میںدعائیں کرتے رہیں کیونکہ عاجزانہ دعائوں کی تقدیر بھی ایک الگ تقدیر ہے جو اپناکام کر رہی ہوتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقدیر بعض دفعہ ایسی قوی ہو جاتی ہے کہ اس کے لئے میں اپنی دوسری تقدیر بدل لیا کرتا ہوں اور دعائوں کی تقدیر کو غالب کردیا کرتا ہوں ۔
 وہ عظیم الشان معجزہ جوعرب میں رونما ہوا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا قوم نے آنحضرت  ﷺ سے جو سلوک کیا اُس کا نتیجہ تو صرف یہ نکلنا چاہئے تھا کہ ساری قوم ہلاک ہو جاتی اور تہ و بالا کردی جاتی ۔ نوح  ؑ کی قوم سے زیادہ وہ اس بات کی سزا وار تھی کہ اُن مخالفین میں سے ایک فرد بشر باقی نہ چھوڑا جاتا ۔ وہ جو طائف کے سفر میں انتہائی دکھ دہ واقعہ گذرا تھا اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ آنحضرت  ﷺ کو پیغام بھیجا تھا اس میں یہی تو حکمت ہے جو ظاہر کی گئی ہے کہ ہر گندے سلوک پر خدا کی تقدیر یہ چاہتی ہے کہ معاندین کو ہلاک کردے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد! ﷺتیرے دل کی آرزو بھی ایک تقدیر بنا رہی ہے ۔ خدا کے نزدیک تیری عاجزانہ دعائیں اور پرزور التجائیں بھی ایک تقدیر بنا رہی ہیں اور وہ بھی خدا ہی کی تقدیر کا حصہ ہیں ۔ پس اے رسول !ﷺ تیرے جذبات، تیری دعائیں ہر دوسری تقدیر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اس لئے تیرے منشاء کے بغیر ،تجھ سے پوچھے بغیر کہ اس قوم کے ساتھ مَیں کیا سلوک کروں، میں اپنی دوسری تقدیر ظاہر نہیں کروں گا۔ لیکن دوسری تقدیر کیا تھی ؟وہ یہی تو تھی کہ اگر تیرا دل چاہتا ہے۔ اگر تو اتنا بے قرار اور دکھی ہو چکا ہے کہ ان کو مٹانے پر آمادہ ہو گیا ہے تو میں اپنے فرشتوں کو حکم دوں گا کہ وہ دوپہاڑوں کو اس طرح اکٹھا کردیں کہ طائف کی بستی کا نشان ہمیشہ کے لئے دنیا سے مٹ جائے ۔ یہ تو ایک چھوٹاسا واقعہ تھاجو مخفی تقدیرالٰہی کے اظہار کے طورپر ہمارے سامنے آیا مگر آنحضرت ﷺ صر ف اُسی وقت تو خدا کے پیارے نہیں تھے، صرف وہی ایک دور تو نہیں تھا جس میں آپؐ نے اللہ کی راہ میں دُکھ اُٹھایا ۔ ہرآن آپؐکے دل پر ایک قیامت ٹوٹا کرتی تھی ۔ اور ہر روز آنحضور ﷺخدا کی خاطر اپنی جان قربان کرتے چلے جاتے تھے ۔ چنانچہ اس آیہ کریمہ:
 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
(الانعام :۱۶۳)
 کی رُو سے آپ ؐ خدا کی خاطر ہرروز مرتے تھے اور خدا ہی کی طرف سے ہرروز زندہ کئے جاتے تھے ۔ اس لئے یہی وہ تقدیر تھی جو مسلسل جاری رہی اور اس کے مقابل پر آپؐ  کی دعائیں بھی مسلسل جاری رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ محمد مصطفی ﷺ کی دعائوں کی تقدیر غالب آگئی اور آسمان پرسنی گئی اور وہ قوم جس کی ہلاکت مقدر ہوچکی تھی اس کو ہمیشہ کی زندگی عطا کی گئی۔ اس آقا کی غلامی کے آپ دعویدار ہیں اسی کے نقشِ قدم پر چلیں اور قوم کی ہلاکت چاہنے میں جلدی نہ کریں بلکہ اس کے احیاء کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں ۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور قوم جلد تر سمجھ جائے۔
 جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ۱۹۸۴ء کا سال احرار کا سال تھا اور انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۸۵ء کا سال جماعت احمدیہ کا سال ثابت ہوگا ۔

مکمل تحریر >>