Friday 23 September 2016

حضرت مفتی محمد صادق ؓ کی مولانا شبلی نعمانی سے دلچسپ ملاقات



کتاب لطائف صادق سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مفتی محمد صادق ؓ  نے  اکتوبر۱۹۱۰ میں لکھنؤکے دار العلوم ندوہ کی سیر کے دوران  علامہ شبلی سے بھی ملاقات کی ، مولانا شبلی بڑے اخلاق سے پیش آئے اور پوچھنے لگے کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ لوگ مرزا صاحب مرحوم کو نبی مانتے ہیں؟ مفتی صاحب نے جواب میں واضح کیا کہ ہم مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں لیکن بغیر کسی جدید شریعت کے اور احادیث میں بھی آنے والے کا نام نبی اللہ رکھا گیا ہے ، اس وضاحتی بیان کے بعد پوچھا کہ  ’’ آپ عربی زبان کے فاضل ہیں آپ خود ہی بتلائیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے بکثرت غیب کی خبریں پائے اسے عربی زبان میں نبی نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں‘‘۔علّامہ نے عربی لغت اور علم کلام کے اس بنیادی اور فیصلہ کن سوال کے جواب میں بلا تامّل فرمایا:۔
’’ہاں بے شک لغوی لحاظ سے ایسے شخص کو نبی ہی کہا جائے گا اور عربی لغت میں اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں لیکن عوام اس مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گھبراتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں‘‘۔
حضرت مفتی صاحب کا بیان ہے :۔’’اس کے بعد گفتگو کا رخ پلٹ گیا اور مولوی شبلی صاحب فرمانے لگے کہ میں مدت سے ایک بہت مشکل اور اہم مسئلہ کے متعلق سوچ رہا ہوں مگر کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کیا جائے ۔اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم طلبہ کو صرف عربی علوم پڑھاتے ہیں تو اُن میں وہ پرانی سستی ،کمزوری اور پست ہمتی نہیں جاتی جو آجکل کے مسلمانوں کے لاحق حال ہو رہی ہے۔لیکن اگر ان طلباء کو انگریزی علوم کا ایک معمولی چھینٹا بھی دے دیا جاتاہے تو اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ دین اور مذہب کو بالکل چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔اسی لئے حیران ہوں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔؟
البتہ میں نے آپ صاحبان کی جماعت میں یہ خوبی دیکھی ہے کہ اس کے ممبر انگریزی خواں بھی ہیں اور دین کے بھی پورے طور پر پابند ہیں ‘‘۔
(’’لطائف صادق‘‘ صفحہ 98-99  ، مرتبہ مولانا شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب )




مکمل تحریر >>

بریلوی اوردیوبندی دونوں ہی گستاخ نکلے




مولوی حق  نواز صاحب دیو بندی نے ۲۷ اگست ۱۹۷۹؁ء کو ’’ منا ظرہ جھنگ‘‘کے دورا ن بریلوی عالم مولوی نظام الدین ملتانی کی کتاب  ’’  انو ا ر شریعت  ‘‘ کے صفحہ ۳۸ کاایک اہم حوا لہ پیش کیا ۔ اس صفحہ پر یہ سوا ل درج ہے کہ مسیح علیہ السلام لوگوں کی ہدایت کے لئے دوبا رہ اتریں گے حضرت محمد مصطفی ﷺ دوبارہ نہیں آئیں گے  پس افضل کون ہوا ۔اس سوال کے جواب میں لکھا ہے ۔’’ د وبا رہ وہی بھیجا جا تا ہے جو پہلی دفعہ ناکا میاب رہا ہو‘‘ ۔ مولوی حق نواز صاحب دیوبندی کو اگر یہ معلوم ہوتاکہ ان کے ’’ خاتم الفقہا ء والمحدثین ‘‘ انور شاہ کشمیری کا بھی یہی نقطہ نگاہ تھا تو وہ بریلوی عالم کے اس اقتباس کو پیش کرنے کی ہر گز جرأت نہ کرتے مگر انہوں نے غالباً لا علمی میں دھڑلّے سے اس پر زبردست تنقید کی اور یہ کہتے ہو ئے نہ صرف بریلوی عالم بلکہ انورشاہ کشمیری کے با طل عقیدہ کو ضرب کا ری سے پاش پاش کردیا کہ:’’  میرے قابل ِ محترم سامعین سوچئے پہلا لفظ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے  لئے  استعما ل کیا جا رہا ہے ۔ دوبا رہ وہی آ ئے جو پہلی دفعہ ناکامیاب رہے ۔ کو ن ہے  دنیا میں وہ بندہ جو کسی پیغمبر کو رسالت کے کا م میں ناکا میاب کہے ۔ میں فاضل مخا طب سے پوچھوں گا کہ آج  تک اس دنیا کی کسی کتاب میں کسی معتبر عالم کسی مفکر و محدّث نے یہ لکھا کہ عیسیٰ علیہ السلام ناکا میاب واپس گئے اس لئے  اب دوبارہ اپنی رسالت کی تکمیل کے لئے آ ئیں گے۔ دوسرا لفظ استعما ل کیا ہے  کہ جو امتحان میں فیل ہو اس کو دوبا رہ امتحان میں بلایا جاتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام پہلے فیل ہو گئے اور اب دوبارہ بلایاجا رہا ہے۔ کہ وہ یہود کے ڈر کے مارے رسالت کا کام سرانجام نہ دے سکے۔ مسلمانو ! قرآ ن کہتا ہے۔ ويقتلون النبيين بغير حقّ  یہود نے انبیاء کو ناحق شہید تو کردیا لیکن انہیں سچ کہنے سے رسالت کے کا م پہنچانے سے اللہ کے احکام بیان کرنے سے اور رب ذوالجلال کی توحید کو بیان کرنے سے انہیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکی ۔ شہید تو ہو  گئے  ان کے وجود آرے سے چرادئیے گئے ، ان کو ہجرتوں پہ مجبور تو کردیا لیکن کسی پیغمبر نے اپنے رسالت کے کام میں کوتاہی نہیں کی اور یہاں بتلایاجارہا ہے  کہ پیغمبر یہود کے ڈر کے ما رے اپنا کام ادھورا چھوڑگئے معاذاللہ ۔ اوراب وہ دوبارہ اس کام کوپورا کرنے کے لئے آ ئیں گے ۔ میرا فاضل مخاطب پر سوال ہے کہ آ ج تک کسی مسلما ن نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے اپنا یہ عقیدہ پیش کیا ہے کہ ناکام واپس گئے ۔ کیا کوئی رسول اپنی رسالت میں نا کا م واپس جا سکتا ہے اور کیا اب دوبارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام الا نبیاء کے امتی بن کے آ ئیں گے یا اپنے کام رسالت کو سر انجام دینے کے لئے آ ئیں گے۔ اگر وہ امام ِ الا نبیا ء کے امتی بن کے آ ئیں گے تو پہلا کام ادھورا رہ گیا اب تو امام الا نبیاء کے دین کا کام کرنا ہے اپنی رسالت تو ادھوری کی ادھوری رہ گئی اور اگر اس کو پورا کریں گے تو ختم نبوت کا انکا ر لازم آیا۔ اس لحاظ سے بھی یہ بات خطرناک ہے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کے خلاف ہے ‘‘
(منا ظرہ جھنگ صفحہ ۱۳۱ تا ۱۳۳ نا شر مکتبہ فریدیہ ساہیوال  )








مکمل تحریر >>

Thursday 22 September 2016

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ





اخبارالفضل قادیان دارالامان  کے خاتم النبیین نمبر 1932 سے ایک نایاب مضمون ''الددر البھيّ في حقیقة الصلوۃ علی النبيّ'' یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ پیش خدمت ہے جس کے مصنف مولانا غلام رسول راجیکی ؓ ہیں ۔


















           

مکمل تحریر >>

Wednesday 21 September 2016

حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی حاضرجوابی کا دلچسپ واقعہ



یہاں صرف ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’وہاں (یعنی کشمیر میں) ایک بوڑھے آدمی تھے۔ انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی حدود یعنی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں۔ بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے۔ وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے کیونکہ پختہ الفاظ تعریفوں کے یاد تھے۔ اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے۔ ایک دن سردربار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے۔ وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ میں نے دہلی کے ایک حکیم سے جو حافظ بھی تھے اور میرے پاس بیٹھے تھے، کہا کہ حکیم صاحب! ان کو سورۃ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سُنا دو جس میں آتا ہے  ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ  ۔ پھر تو وہ بہت ہی حیرت زدہ سے ہو گئے‘‘۔
(حیاتِ نور باب سوم ، صفحہ 174)




مکمل تحریر >>