Friday 16 January 2015

مرزا صاحب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے الزام کا جواب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے چند حوالے پیش کر کے اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سخت توہین کی ہے ، یہ اعتراض تو اصل میں عیسائی قوم کا تھا لیکن مخالف علماء بھی اپنی یہودی فطرت سے مجبور ہو کر یہ اعتراض ہر جگہ کرتے نظر آتے ہیں ، جواب دینے سے پہلے ایسے چند حوالہ جات دکھانا چاہوں گا جو مخالف پیش کر کے اعتراض کرتے ہیں ۔۔ 
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات عمل الترب یعنی مسمریزم کا نتیجہ تھے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا توخدائے تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۵۷ ، ۲۵۸)
’’ عیسائیوں نے بہت سے معجزات آپ کے لکھے ہیں مگر حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ ‘‘ (انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۲۹۰حاشیہ )
’’ مسیح کا چال چلن کیا تھا ۔ ایک کھاؤ پیو یا شرابی ، نہ زاہد نہ عابد، نہ حق کا پرستار ، متکبّر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔ ‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد ۳)
’’ ہاں آپ کو (عیسیٰ علیہ السلام ) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کرنے کی اکثر عادت تھی ۔ ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں اکثر غصہ آجاتا۔ اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔ ‘‘(انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۲۸۹حاشیہ )

آئندہ سطور میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان مذکورہ بالا تحریروں میں حضرت مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی ہرگز کوئی توہین نہیں کی اور نہ ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے ۔ بلکہ یہ صرف احراری امت اور ان کے یہودی علماء کی جہالت ہے جس کا علاج سوائے دعا کے کچھ نہیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی تحریریں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ناموس کی حفاظت کی خاطر غیرت میں ڈوب کر لکھی ہیں۔ آپ ؑ نے یہ تحریریں چالیس سال کے صبر کے بعد ایسی بے بسی کی حالت میں مجبور ہو کر لکھی ہیں کہ آپ کے لئے پھر خاموش رہنا ناممکن تھا۔ اس کی تفصیل آپ ؑ نے انہیں تحریروں کے اردگرد بیان فرمائی ہے جہاں سے یہ محبت رسول ﷺ کے جھوٹے دعویدار درمیان سے عبارتیں اچک کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے تیر چلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل تحریریں اس تفصیل کے بیان کے لئے پیش ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

’’ بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔ چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام بھیجا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو زانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت گالیاں دی ہیں۔ پس اسی طرح اس مردار اور خبیث فرقہ نے جو مردہ پرست ہے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کر دیا ہے کہ ہم بھی ان کے یسوع کے کسی قدر حالات لکھیں۔ اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا۔ اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا ۔ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا۔ اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے۔ پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں نادان پادریوں کو چاہئے کہ بد زبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ دیں۔ ورنہ نامعلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی۔‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ ، ۲۹۳حاشیہ)

 مزید فرمایا :۔

’’ ہمارے پاس پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لے۔ ‘‘(تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحہ ۶۵ ، ۶۶)

الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کارروائی اپنے محبوب آقا ﷺ کی غیرت میں تلملا کر مجبوراً کی ۔ اس زمانہ میں عیسائیوں نے امام المطہّرین ، افضل المعصومین سیّد الاوّلین والآخرین ، حبیبِ خدا حضرت احمد مجتبیٰ محمّد مصطفی ﷺ کی ذاتِ مقدّس پر نہایت دریدہ دہانی سے زبان طعن دراز کرکے گندے سے گندے حملے کئے ، ناپاک سے ناپاک الزام دیا ، کوئی برائی نہیں جو آپ ؐ کی طرف منسوب نہیں کی اور کوئی گندی گالی نہیں جو آپ ؐ کو نہ دی ہو۔ ان کے اس گندے حربے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کاری ضرب لگائی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ

’’ اگر پادری اب بھی اپنی پالیسی بدل دیں اور عہد کر لیں کہ آئندہ ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہو گی۔ ورنہ جو کچھ کہیں گے اس کا جواب سنیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ حاشیہ در حاشیہ )

حضرت مرزا صاحب نے ایک اشتہار مورخہ ۲۰دسمبر ۱۸۹۵ء کو شائع کیا جس میں یہ وضاحت فرمائی :۔

 ’’ ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے ۔ بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہئے۔ عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت ﷺ کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے۔ لیکن یاد رہے کہ درحقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں۔ ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارات کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوے اور یاد رہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کر رہے ہیں۔ کہ کسی طرح سبّ وشتم سے باز ہی نہیں آتے ہم سنتے سنتے تھک گئے۔ ‘‘ (نور القرآن ۔ روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۳۷۴ ، ۳۷۵)

اور پادری فتح مسیح کو جس نے آنحضرت ﷺ کے متعلق حد درجہ ناپاک اتہام لگائے تھے مخاطب کر کے فرماتے ہیں :۔

’’ ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ مگر آئندہ کے لئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آجاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے۔ اور حضرت مسیحؑ کو بھی گالیاں مت دو ۔ یقیناًجو کچھ تم جناب مقدس نبوی ؐ کی نسبت برا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا ۔ مگر ہم اس سچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا۔ ‘‘(نور القرآن نمبر ۲۔روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۳۹۵ )

مزید فرمایا : 

’’ حضرت مسیحؑ کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے۔ ہاں چونکہ درحقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گذرا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو اور حضرت موسیٰ کو ڈاکو کہا ہو ۔ اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدِّق ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔ ‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۰۵ حاشیہ )

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’ ہمارا مسیح ابن مریم ‘‘ لکھا ہے اور’’ اپنا بھائی ‘‘کہا ہے اور خود کو ’’ان کا مثیل‘‘ قرار دیا ہے ۔ اس مسیح علیہ السلام کی آپ ؑ نے تکریم وتعظیم فرمائی ہے ۔ آپ ؑ نے اس سچے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی توہین کے الزام کو بار بار رد فرمایا ہے ۔ آپ نے فرمایا

۱۔ ’’ ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہمارے قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔ ‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۹)

۲۔ ’’ ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔ سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے۔ ‘‘(ایام الصلح ٹائیٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۲۸)

۳۔ ’’ مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے ۔ ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں ۔ ‘‘ (تحفہ قیصریہ ، روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۲۷۲)

اب دیکھں کہ باقی علماء نے بھی اسی الزامی جواب کے طریق کو کس طرح استعمال کیا ۔ بریلوی امت کےبانی مولوی احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں ۔

’’ ہاں ہاں عیسائیوں کا خدا مخلوق کے مارے سے دم گنوا کر باپ کے پاس گیا اس نے اکلوتے کی یہ عزت کی کہ اس کی مظلومی و بے گناہی کی یہ داد دی کہ اسے دوزخ میں جھونک دیا اوروں کے بدلے اسے تین دن جہنم میں بھونا ۔ ایسے کو جو روٹی اور گوشت کھاتا ہے اور سفر سے آکر اپنے پاؤں دھلوا کر درخت کے نیچے آرام کرتا ہے ۔  ‘‘ 
( العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ۔ جلد ۱۵ ، صفحہ ۵۳۸ )


اور اہلحدیث مسلک کے نامور عالم مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری صاحب  اس سے بھی آگے  نکل گئے ، اپنی ایک کتاب  اسلام اور مسیحیت میں مسیح کو صلیب پر لٹکا دیا اور انجیل سے ان کا قول نقل کیا کہ '' اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا '' ۔ ( اسلام اور مسیحیت ، صفحہ ۱۲۰)


اور برصغیر کے مشہور عالم مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی کی سوانح میں لکھا ہے کہ ایک پادری نے سوال کیا کہ کیوں پیغمبر اسلام ﷺ نے شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت اللہ سے فریاد نہ کی تو شاہ صاحب نے جواب دیا کہ پیغمبر صاحب جو فریاد کے واسطے تشریف لے گئے تو غیب سے آواز آئی کہ ہاں تمہارے نواسہ پر قوم نے ظلم کر کے شہید کیا لیکن ہم کو اس وقت اپنے بیٹے کا صلیب پر چڑھانا یاد آیا ہوا ہے ۔ (  کمالات عزیزی ، صفحہ ۱۰ )


 مذکورہ بالا علماء اہل سنّت کی تحریروں میں وہ تفریق بھی نظر نہیں آتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور اپنے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور پادریوں کے یسوع اور مسیح کے درمیان کی ہے۔ اس لحاظ سے ان علماء کی تحریروں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی براہِ رست نشانہ بنتے ہیں۔
اب اس باب کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دو ٹوک فیصلہ ملاحظہ فرمائیں آپ فرماتے ہیں۔

’’ موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں ۔ سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں ۔ اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ ‘‘  (کشتی نوح ۔خزائن جلد ۱۹صفحہ ۱۷ ، ۱۸)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر ہمیں اس منطقی نتیجہ پر بھی پہنچاتی ہے کہ آپ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہم نام ہو کر آئے ہیں ا ور آپ کا دعویٰ  ’’ مثیل مسیح ‘‘  ہونے کا ہے تو آپ ؑ ان کی توہین نہیں کر سکتے اگر آپ ؑ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برا کہیں گے تو اپنے آپ کو نعوذ باللہ ایک برے کا مثیل قرار دیں گے۔ پس مثیلِ مسیح ہونے کا دعویدار مسیح علیہ السلام کو برا کہہ ہی نہیں سکتا اور جو شخص آپ ؑ پر ایسا الزام لگاتا ہے تو وہ لازماً مفسد اور مفتری ہے۔

ان الزامات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایک طرف تو مولوی کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو انگریز نے کھڑا کیا اور ساتھ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ آپ نے (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے ان کے ان دونوں دعووں میں واضح تضاد ہے ۔

اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے کھڑا کیا تھا تو آپ انگریزوں کے پیشوا بلکہ خدا کو برا کہہ ہی نہیں سکتے تھے ورنہ لازم تھا کہ انگریز آپ کی سرپرستی چھوڑ دیتا۔ پس دونوں میں سے ایک الزام تو ان جھوٹے احراری یعنی یہودی علماء کو واپس لینا ضروری ہے اور جو اعتراض باقی بچے گا وہ ویسے جھوٹ ہے اور مخالف کے دجل اور فریب پر بھی دلیل ہے ،جس کا ثبوت ہم گزشتہ سطور میں پیش کر چکے ہیں۔
مکمل تحریر >>