Monday 12 June 2017

ختم نبوت کے بارے میں جماعت احمدیہ کی تشریح





8 فروری 1987ء کو منعقدہ مجلس سوال جواب میں شامل ایک غیر احمدی دوست نے سوال کیا کہ:
’’مولوی صاحبان سے یہ سُنا ہے کہ مرزاصاحب کوحضرت محمدرسول اﷲ ﷺکے بعدآخری نبی کہاجاتا ہے ۔ اِس بات کی وضاحت فرمائیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ :۔
’’…… یہ بات توہے ہی غلط کہ نعوذ باﷲ من ذالک ہم حضرت مرزاصاحب کوآخری نبی کہتے ہیں۔بالکل جھوٹ ہے۔
ہمارامسلک یہ ہے کہ زمانے کے لحاظ سے آخری ہونا کوئی فضیلت کامقام نہیں ہے۔یہ بنیادی مسلک ہے ۔ اِس پرغورہوجائے پھرباقی بات ساری سمجھ آجائے گی۔
ہم کہتے ہیں اِنسان کااِتفاقاً زمانے کے لحاظ سے بعدمیں ہونا اَورآخری ہوناکوئی فضیلت کی وجہ نہیں ۔ اَگریہ فضیلت کی وجہ ہوتوسب سے آخری اِنسان جودُنیامیں مَرے اُس کوسب سے زیادہ معزز ہونا چاہئے۔لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ قیامت اشرارالنّاس پہ آئے گی۔(السنن الواردۃ فی الفتنۃ للدّانی: باب ماجاء أن السّاعۃ تقوم علٰی اشرارالنّاس۔ دلیل الفالحین للطرق ریاض الصالحین: مقدمۃ الشارح باب : باب الخوف)۔ 
سب سے زیادہ شریر لوگ ، بدمعاش اَورگندے لوگوں پرقیامت آئے گی وہ آخری ہوں گے ۔توآخری اِتّفاقاً گندا بھی ہو سکتا ہے اَوراِتّفاقاً اچھا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن آخری ہونا فی ذاتہٖ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے۔کلاس سے ایک آخری لڑکا نکلتا ہے اُس میں کیاخوبی ہے ؟
ہاں مضمون کے لحاظ سے آخری ہوجس کے بعد اَور کوئی نہ آتا ہو۔ مرتبہ کے لحاظ سے آخری ہو، مقام کے لحاظ سے تویہ ایک ایسی شاندار فضیلت ہے جس کادُنیامیں کوئی معقول آدمی اِنکارنہیں کرسکتا۔ توہماری بحث یہ چلتی ہے دوسرے علماء سے ۔
 ہم کہتے ہیں کہ اَگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم فضیلت کے مقام میں آخری ہیں توہم سوفیصدی متفق ہیں۔ آنحضورؐکے بعد کِسی کامقام ہی کوئی نہیں سوائے خداکے۔ اَﷲ اَورمحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اَوراِنسانی مرتبے کے لحاظ سے اَگراُونچائی کاتصوّر کریں توسب سے آخرپرحضورِاَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے ۔ اَور اَگر اَولیّت کومرتبے کے لحاظ سے پہلے سمجھیں توسب سے اَوّل بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے۔ 
چنانچہ اَوّل اَورآخررسولِ اَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے لئے جب قرآن میں یاحدیث میں اِستعمال ہوتا ہے تو مرتبے میں اِستعمال ہوتا ہے نہ کہ زمانے میں،کیونکہ زمانے میں آپؐ اَوّل نہیں تھے۔ اُس کے باوجود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اَبھی آدم اپنی تخلیق کی مٹی میں کروٹیں بدل رہا تھا مَیں اُس وقت بھی خاتم النّبیّین تھا۔
( مسند احمدبن حنبل ؒ: حدیث عرباض بن ساریہ :حدیث نمبر16700:جلد4 صفحہ127۔ الطبعۃ الاولٰی : بیروت لبنان)
قرآنِ کریم آپ کواَوّل قرار دیتا ہے۔حضرت اِبراہیم علیہ السّلام کے لئے بھی لفظ اَوّل قرآنِ کریم اِستعمال فرماتا ہے۔ توزمانے کااَوّل توبالکل اِتّفاقی حادثات کی بات ہوتی ہے۔ مرتبے کااَوّل ہونا اَصل مقام ہے ۔ پس اَگرہمارا زور ہی اِس بات پرہے تومسیحِ موعود ؑ کوآخری کہہ کے ہم حاصل کیا کرسکتے ہیں ؟ ہم توکہتے ہی یہی ہیں کہ اِتّفاقاً آخری ہونا حقیقت میں باعثِ فضیلت ہی نہیں ہے۔
دوسرے ہم یہ کہتے ہیں کہ آخری جہاں جہاں فضیلت کے معنے رکھتا ہے وہاں وہاں ہم سو فیصدی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری مانتے ہیں ۔ مثلاًکتاب کاآخری ہونااِن معنوں میں کہ اِس کے بعد کوئی شریعت نازل نہیں ہونی ۔ حرفِ آخرہونا آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کاکہ آپ کاحکم قیامت تک نہیں ٹوٹے گا۔ حرفِ آخر اِس کواُردو میں کہتے ہیں ۔last wordانگریزی میں کہتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی شخص ، کوئی authorityایسی نہ آسکے جواُس کے حکم کوتبدیل کردے ۔ اُس کی شریعت آخر،اُس کاحکم آخر، اُس کی سُنّت آخر، اُس کادین آخر! اِن سارے معنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری نبی اَور خاتم النّبیّین مانتے ہیں اَوراُس کے لئے عقلی دلائل رکھتے ہیں۔
 تویہ جھوٹااِلزام ہے ہم پر،نعوذباﷲ من ذالک، بالکل جھوٹا اِلزام ہے کہ ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوفضیلت کے مقام پرآخری نہیں مانتے ۔
ہرعزّت اَور فضیلت کے مقام پرہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ سلم کوآخری مانتے ہیں اَوراِن معنوں میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام نے بارباراپنے دعوے کی وضاحت فرمائی ہے ۔فرماتے ہیں ہم نے توجو کچھ پایا ہے اُس سے پایاہے۔ ؂
سب ہم نے اُس سے پایاشاہد ہے تُوخدایا
وہ جس نے حق دِکھایا وہ مَہ لِقا یہی ہے 
کہ ہم نے توسب محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کے وسیلے سے پایا ہے اَوراَے خدا! تُوگواہ ہے اِس بات کاکہ اپنی طرف سے نہ ہم کچھ لائے ، نہ ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہوئی اَورجس نے حق یعنی خدا دِکھایا ہے وہ محبوبِ اَزلی یہی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم ہیں۔اَوراِسی مضمون کاشعر ہے۔ ؂
اُس نورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں ،بس فیصلہ یہی ہے
……’اُس نُورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں‘۔ مَیں تومحمدمصطفی ﷺکے حُسنِ اَزل پر، اُس کے نُورپرفِدا ہوچکا ہوں اَوراُسی کاہوگیا ہوں ۔ ’وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ‘۔ وہی ہیں ، مَیں ہے ہی کچھ نہیں ، میرا وجود ہی اُس کے اَندرمٹ چکا ہے کامل طورپر۔ یہ دعویٰ ہے جس کونعوذباﷲ من ذالک، گستاخی کادعویٰ اَوربرابر کی نبوّت کادعویٰ اَورمقابلے کادعویٰ بنا کرمسلمانوں کو مولوی اِشتعال دِلاتے ہیں اَوراِن بیچاروں کونہ اَپنے دین کاپتہ نہ کِسی اَورکے دین کا پتہ، اصل بات یہی ہے۔……۔
خَاتَم کے معنی
خَاتَم کامعنیٰ جواَصل لفظ ہے قرآنِ کریم میں اُس کامعنیٰ جماعت احمدیہ مختلف طریقے پر پرکھتی ہے، بتاتی ہے اُن کواَوریہ دعویٰ کرتی ہے کہ خَاتَم کے ہرمعنے پرجوثابت شدہ ہیں ہم یقین رکھتے ہیں اَورآپ نہیں رکھتے۔یہ مقابلہ کررہے ہیں ہم تومولویوں سے ۔وہ ہماری بات آپ تک پہنچنے نہیں دیتے۔ پاکستان گورنمنٹ نے ساری کتابیں ضبط کرلی ہیں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی بھی اَوراِس مضمون پرجوبھی کچھ لکھا جاتا ہے اُسے ضبط کرلیتے ہیں۔اَگرہماری بات بودی تھی، جھوٹی تھی، کھوکھلی تھی توحکومت کواپنے خرچ پرہماری باتیں لوگوں تک پہنچانی چاہئیں تھیں۔وہ روکیں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ڈرتے ہیں۔ پتہ ہے یہ بات پہنچی تولوگ مان جائیں گے ……۔
ایک غیراحمدی مولوی صاحب سے دلچسپ گفتگو
ایک دفعہ ایک مولوی صاحب ربوہ تشریف لائے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوا مگرایک دفعہ ایسا ہوا۔…… پُرانی بات ہے۔ مَیں خلیفہ اُس وقت نہیں تھا۔…… مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ مجھ سے ختمِ نبوّت پہ بحث کرنے کے لئے آئے ہیں پہلے اُصول طے کرلیں۔ کہتے ہیں، کرو۔ مَیں نے کہا مَیں اِس بات پرمناظرہ کروں گاکہ ختمِ نبوّت پرمَیں کامل یقین رکھتا ہوں اَورآپ نہیں رکھتے۔ وہ تو ہڑبڑا اُٹھے۔ یہ اُلٹی بات، مَیں اِن کومجرم کرنے کے لئے آیا ہوں اَوریہ مجھے کہہ رہا ہے ، ملزم کررہا ہے کہ تم یقین نہیں رکھتے۔کہنے لگے ، کرومناظرہ !
مَیں نے کہا پہلے آپ مجھے بتائیں کہ وہ کون سا معنیٰ ہے آپ کے نزدیک جس پرآپ سمجھتے ہیں کہ مَیں یقین نہیں رکھتا اَورآپ رکھتے ہیں۔کہتے ’سب نبیوں کوختم کرنے والا‘۔ مَیں نے کہا پکّے ہوجائیں اچھی طرح اِس پہ ۔ ’پکّے پَیریں‘ کہتے ہیں ناں پنجابی میں۔ کہنے لگے پکّے پَیریں، پکّا ہوگیا اِس بات پہ۔ مَیں نے کہااَب بتائیں کِس طرح نبیوں کوختم کیا؟سب کوکیا؟ کہتے ہاں جی سب کوکیا۔ مَیں نے کہاحضرت عیسیٰ ؑ اُن میں شامل تھے؟تھوڑا ساڈرے، کہنے لگے ہاں تھے شامل۔مَیں نے کہا ختم کِس طرح کرتا ہے ایک آدمی دوسرے کو؟یاجسمانی طورپرقتل کرتا ہے یااُس کافیض ختم کرتاہے۔ تیسراتوکوئی معنیٰ نہیں ختم کا۔آپ کہتے ہیں کہ حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم سے پہلے جتنے نبی گزرے تھے وہ اَپنی موت آپ مَر گئے تھے اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے خود توقتل نہیں کیااُن کو۔test case صرف ایک باقی تھایعنی حضرت مسیحؑ، وہ اِتّفاقاً زندہ رہ گئے تھے۔اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم اُن کوختم کرنے سے پہلے جسمانی معنوں میں آپ ختم ہوگئے۔اِتناشیطانی عقیدہ ہے ، اِتنا ظالمانہ عقیدہ ہے کہ آپ کے ترجمے کی رُو سے مسیحؑ خاتَم ہیں، نہ کہ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم۔
 مَیں نے کہاآپ اَب یہ سوچئے۔ آپ پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔( مسیحؑ بھی پہلے پیدا ہوئے ۔) آپ کاایک بیٹا آپ کے سامنے پیدا ہوتا ہے ، آپ کے سامنے فوت ہوجاتا ہے اَورآپ اُس سے چالیس سال بعدفوت ہوتے ہیں توآپ بعد میں فوت ہوئے ہیں یا وہ بعد میں فوت ہوا ہے۔پہلے بھی آپ اَوربعد میں بھی آپ۔ یہ ہے خاتمیّت!؟آپ کابیٹا آپ کے سامنے پیدا ہواچند دِن رہ کے مَرگیا وہ کہاں سے خاتَم بن گیا؟توحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے متعلق آپ کایہ گستاخانہ عقیدہ ہے کہ نام اُن کاخاتَم تھالیکن تھے مسیحؑ خاتَم۔ کیونکہ ایک وقت میں یہ دونبی زندہ تھے۔ایک ختم ہوگیا،(جسمانی معنیٰ جولے رہے ہیں،) اَوردوسراختم نہیں ہوا۔ وہ جاری رہا۔وہ بہت بعد میں جاکے ختم ہوگا۔ توخاتم وہ ہوگا جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کووفات پاتے دیکھ لیا،نہ کہ وہ جوپہلے مَرگیا۔
دوسرامعنٰی ہے فیض کا، فیض بند کردیا۔ مَیں نے کہاآپ بتایئے کہ جب اُمّتِ محمدیہ صلی اﷲ علیہ و سلم موت کے کنارے پہ پہنچ جائے گی، جان کنی کی حالت میں ہوگی، جب اُس کے بچنے نہ بچنے کی باتیں ہورہی ہوں گی اُس وقت کون آکے بچائے گااُس کو؟مسیحؑ آسمان سے آئے گااَوربچائے گاکہ نہیں؟کہتے ہاں۔مَیں نے کہافیض کہاں ختم ہوا اُس کا؟اُس نے توفیض جاری کردیااَپنااُمّتِ محمدیہ میں۔ محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اُمّت اُس کے زیرِاِحسان آگئی۔اَگرنہ وہ بچاتاتواُمّت ختم تھی۔ تومحسنِ اعظم کون ہوا؟فیض رَساں کون ہوا؟اَورکِس نے فیض قبول کیا؟ جس کی اُمّت کوبچانے والا باہرسے آیا وہ توہمیشہ کے لئے اُس کے زیرِاِحسان آگیا۔ اِتناظلم۔ بجائے اِس کے کہ فیض ختم کرتے، اُس کے فیض کے نیچے آپؐ آگئے؟ نعوذباﷲ من ذالک۔اَب بتایئے آپ خاتَم مانتے ہیں یامَیں خاتَم مانتا ہوں؟
کہتے نہیں ،نہیں اِس کا ایک اَورمطلب بھی ہے ۔ مطلب ذراسُنیں کیسا عجیب ہے ۔کہتے ہیں بعض دفعہ ایک ذلیل سے آدمی سے بھی فائدے اُٹھالیتے ہیں لوگ، اُس پراِحسان کرتے ہیں ۔ بادشاہ کسی سے خدمت قبول کرلیتے ہیں اَوراُن کااِحسان ہوتا ہے ۔ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم توبادشا ہ ہیں ۔ مسیحؑ سے اُس پہ اِحسان کرکے خدمت قبول کرلی۔
 مَیں نے کہا مولوی صاحب فرضی باتوں سے بات نہیں بنے گی۔ذراغورسے اِس مضمون کوپھر سوچیں۔ ایک بادشاہ خواہ کتنا عظیم الشان بادشا ہ ہو اَگروہ بھوکا مَررہا ہوکِسی شکارمیں ، کِسی جگہ گھوم کرتوکوئی اَدنیٰ سے اَدنیٰ آدمی روٹی کاایک ٹکڑا دے کر اُس کی جان بچاتا ہے تووہ محسن بن جاتا ہے اَورہمیشہ کے لئے وہ بادشاہ اُس کے ممنونِ اِحسان ہوتا ہے ۔ کہتا ہے کہ جومانگومَیں دیتا ہوں ۔ بعض کہتے ہیں کہانیوں میں، آدھی سلطنت میں شریک کرلیتا ہوں۔ وقت پڑے پرجوخدمت کرتا ہے وہاں خدمت لینے والا زیر ِاِحسان ہوتا ہے نہ کہ خدمت کرنے والا۔وہ خدمت اَورہے کہ بادشاہ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اَورآپ ایک سبزپتہ بھی لے کے چلے جائیں توبادشاہ قبول کرتا ہے ۔ یہ تونہیں کہ اُس کواِس کافائدہ پہنچا ہے ۔وہ اِحسان کے طورپر خدمت قبول کرتا ہے ۔آپ یہ مضمون نہیں بیان کررہے ۔ آپ یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اَگرمسیحؑ نازل نہ ہوتواُمّتِ محمدیہ ختم ہوجائے گی ، ہلاک ہوجائے گی۔اَوراُس کوبچانے والااُمّت میں سے ایک بھی شخص نہیں۔ مہدیؔ آچکا ہے پھربھی نہیں بچی۔ پھربھی مسیح کی ضرور ت ہے اَورجب تک وہ غیرقوم کانبی نہ آئے اُس وقت تک یہ اُمّت بچتی نہیں۔ آپ کہتے ہیں یہ اِحسان ہوگیا۔اُس پراِحسان ہوگیا۔……یہ جوعقیدہ ہے ،اُمّتِ محمدیہ کوہمیشہ کے لئے ذلیل ورسوا کرنے والا عقیدہ ہے ۔اَورخاتم مسیحؑ کومانتا ہے جس کاآخری فیض دُنیانے دیکھا۔ 
اَب زمانے کے لحاظ سے بھی دیکھیں! اَگرمسیحؑ آگیا، وہ پرانا مسیحؑ آگیا تو مؤرّخ کیا لکھے گا کہ آخری رسول جس نے بنی نوع اِنسان کوعظیم الشّان فیض پہنچایاتھاوہ کون تھا؟مسیح اِبنِ مریمؑ۔ وہ آیااَوراُمّت کے دِن پھرے اَوراُمّتِ محمدیہ کوغالب کرگیاساری دُنیاپر، فیضِ عظیم عطاکرگیا۔اِس لئے خاتَم توپھروہی بنتے ہیں ۔مَیں نے کہاکہ اِن دومعنوں میں ختم کردیا۔ اَب آپ بتایئے کہ کون ہے ؟
ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ لازماً مرچکے تھے اَورہرنبی مَرچکاتھارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت۔ اِس لئے آپؐ خاتمِ کُلتھے۔
نمبردو:ہم مانتے ہیں کہ ہرنبی کافیض بھی ختم ہوچکاتھاصرف ایک نبی کافیض جاری تھاجومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کافیض تھااَور قرآنِ کریم کی دوسری آیت خاتمیت کے اِس مضمون کوخود بیان کررہی ہے اَورشک سے بالا بیان کررہی ہے ۔اِس کے بعد آپ کے پاس ہم پراِلزام رکھنے کی کیا بات رہ جاتی ہے؟ وہ ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(النساء:70)۔ ختمِ نبوّت کا جواِعلان کرنے والے مولوی ہیں یہ آیت بتاتے ہی نہیں آپ کو،یہ چھپاکررکھ لیتے ہیں۔اُن کوپتہ ہے کہ یہ سامنے آئی توختمِ نبوّت کامضمون کھل جائے گا۔ ہمارا سارا دھوکہ فریب ختم ہوجائے گا۔
اِس آیت میں وہ اِعلان ہے جومَیں نے اَبھی بیان کیا ہے۔ اِس آیت کا مضمون سمجھنے سے پہلے ایک اَوربات بھی سمجھ لیں وہ بھی مَیں نے مولوی صاحب سے کی اَورآپ کے سامنے بھی رکھتاہوں کہ خاتم کواَگراِسم فاعل کے طورپرلیں، دوسروں کوختم کرنے والا ،توخودکشی کرنے والاتونہیں ناں بنے گا۔ تمام نبیوں کوختم کرنے والااَگراَپنے آپ کوبھی ختم کرلے پھرتوقصّہ ہی ختم ہوگیا۔پھرتوتعریف کی بات ہی نہ رہی۔ قاتل دوسرے کومقتول بناتا ہے ۔ ضاربِ دوسرے کومضروب بناتا ہے ۔مارنے والادوسرے کومارتا ہے ۔ جواَپنے آپ کومارنے لگ جائے وہ توپھرپاگل پن کامضمون شروع ہوجاتا ہے۔وہ توتعریف کامضمون ہی نہیں رہتا۔وہ آیت جو مَیں نے اَب پڑھی ہے اُس میں وہ جواب ہے ۔ وہ آیت بیان فرماتی ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوکوئی بھی اَﷲ کی اَوراِس رسول کی یعنی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اِطاعت کرے ۔ باقی سب نبیوں پراِیمان لانافرض، لیکن اِس آیت نے سب نبیوں کی اطاعت کااعلان کردیا۔ یہ نہیں فرمایامَنْ یُطِعِ الرُّسُلَ ۔ فرمایا جوکوئی بھی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت ،اَﷲ کے بعداِس رسول کی اطاعت کرے گا۔ کیا ہوگااُس سے ؟ اَب آپ سوچیے، کیاہوناچاہئے؟کوئی جرم کیا ہے اُس نے ؟ سزاملنی چاہئے؟ کیاجواب ہے ؟ نہیں ، اِنعام ملنا چاہئے۔ جوشخص بھی اَﷲ کی اطاعت کرے ، محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت کرے ۔ آگے اِنعاموں کااَوراَنوارکادروازہ کھل جانا چاہئے۔ 
اِس سے پہلے ایک اَورسوال بھی اُٹھادیتا ہوں اُس پربھی سادہ دِل سے ، صاف دِل سے غورکرلیں۔ پہلے بھی تولوگ اَﷲ کی اَورنبیوں کی اطاعت کیا کرتے تھے۔اُن کوبھی اِنعام ملا کرتے تھے۔سب کوملتے تھے۔اَب جب اَﷲ کہہ رہا ہے کہ جواَﷲ اَوراِس نبی کی اطاعت کرے گااُس کے بعد کیا یہ اعلان ہوگا کہ اُس کوپہلوں سے کم اِنعام ملیں گے یاکم اَز کم اُتنے ملیں گے ۔اَگرکہیں گے کہ کم اِنعام ملیں گے توپتہ چلے گاکہ سب نبیوں سے کمتَرنبی آیا ہے، نعوذباﷲ من ذالک۔پہلے تمام نبیوں کی پیروی خدا کی پیروی کے بعدہرقسم کے اِنعامات کاوارث کردیتی تھی ۔ مگرقرآن یہ اِعلان کررہا ہے کہ اِس نبی کی پیروی سارے اِنعام نہیں دے گی، کچھ رکھ لے گی اَورکچھ دے گی توکیاثابت ہوگا؟اعلیٰ نبی آیا ہے یانعوذباﷲ من ذالک کمترنبی آیا ہے؟
اَب دیکھئے یہ آیت کیااعلان کرتی ہے ۔ پھرمضمون کھل جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔ اَب صرف یہی لوگ ہوں گے جواِنعام پانے والوں میں شمار کئے جائیں گے۔ دوسروں کافیض بنداِس کاجاری۔ اَوراِنعام پانے والے گروہ میں اَب صرف یہی لوگ شمار ہوں گے جومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی پیروی کریں گے۔
 اَب تشریح رہ جاتی ہے۔ باقی کون سے اِنعام؟ سارے اِنعام یاچنداِنعام؟پیروی سے ملنے والے اِنعام کیا ہیں؟ فرمایا مِنَ النَّبِیّٖنَنبیوں میں سے، وَالصِّدِّیْقِیْنَاَورصدیقوں میں سے، وَالشُّھَدَآءِ اَورشہیدوں میں سے،وَالصَّالِحِیْنَاَورصالحین میں سے، وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًایہ رفاقت ہے جوسب سے حَسین رفاقت ہے ۔اُمّتِ محمدیہ ایسے لوگوں میں شمار کی جائے جہاں نبوّت کے اِنعام بھی مل رہے ہوں، صدیقیت کے بھی مل رہے ہوں،شہادت کے بھی مل رہے ہوں، صالحیت کے بھی مل رہے ہوں۔ یہ ہے شان۔ یہ اعلان کیا ہے اِس آیت نے۔ اَورعلماء کہتے ہیں، نہیں۔ اُن سے پوچھیں توکہیں گے یہ اعلان ہے کہمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوشخص بھی اَﷲ اَوراِس رسول کی اِطاعت کرے گااُسے وہ سارے اِنعام نہیں ملیں گے جوپہلے نبیوں کی اطاعت سے ملا کرتے تھے۔پہلے نبیوں کی اطاعت سے نبوّت مل جایا کرتی تھی ۔ اِس نبی کی اطاعت کی فہرست سے ہم نے نبوّت کاٹ دی ہے۔ صرف صدّیق، شہیداَورصالح بنانے والانبی آیا اَوراِس کی اُمّت میں اَب کبھی نبوّت قائم نہیں ہوگی۔ یہ اعلان کررہی ہے۔اَگریہ اعلان سچا ہے توپھرمرتبہ اُونچا ہوگایاکم ہوگا؟پہلے نبی گَر،نبی آتے رہے اَب صرف کمتَردرجہ دینے والا نبی آیا ہے۔ نعوذباﷲ من ذالک۔ اِتنا گستاخانہ تصوّر ہے اَورقرآن کی آیت اِس تصوّر کوجھٹلارہی ہے۔
اَگراُمّتی نبی بھی بند ہے ، یہ ہے مسئلہ صرف توجہاں اُمّتیوں کاذکرکیا ہے وہاں سب سے پہلے فہرست میں نبیوں کاذکرکیوں کردیا؟مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۔اِنعام پانے والے لوگوں میں یہ لوگ ہیں۔ اَوراِنعام پانے والے کون ہیں؟فہرست کیاشمارکی؟مِنَ النَّبِیّٖنَپہلے نبیوں کانام رکھا۔اِس لئے جماعت احمدیہ کاعقیدہ ہی سچی اطاعت کاعقیدہ ہے۔ سچے عشقِ محمد مصطفی ؑکاعقیدہ ہے اَورخالصۃً قرآنِ کریم پرمبنی ہے۔ایک اَدنیٰ بھی فساد اِس عقیدہ میں نہیں ہے۔ اَورجویہ بیان کرتے ہیں اُن میں ذراچھان بین کرکے آگے بڑھیں آپ کوفساد نظرآجائے گا۔گستاخی نظرآجائے گی۔ ……‘‘
٭……٭……٭





مکمل تحریر >>